Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)

Bởi UrduWORLD

1.2K 8 1

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب کی آواز گونجی۔ اس نے نظر اٹھا کر سامنے سرخ جوڑے میں ملبوس ہاتھ مسلتی... Xem Thêm

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17

Episode 6

55 0 0
Bởi UrduWORLD


"ہاں مجھے پتہ ہے تمہارے جیسے دوسرا پیس وہیں سے ملے گا۔۔۔"
حریم دانت نکالتی ہوئی بولی۔

"دیکھو مجھے لگتا ہے اب مینٹل ہاسپٹل چلے جانا ۔۔۔"

"تمہیں نہ؟ میں بھی دو دن سے یہی سوچ رہی ہوں بیچارے پاگل تمہیں مس کر رہے ہوں گے ہاےُ ہمارا احمد کہاں گیا؟"
حریم اس کی بات کاٹتی دہائی دینے لگی۔
احمد کا چہرہ مارے ضبط کے سرخ ہو گیا۔

"حریم تم انتہائی درجے کی۔۔۔"
"خوبصورت اور سمجھدار لڑکی ہو۔۔‍۔"
حریم اس کی بات مکمل ہونے سے قبل مسکراتی ہوئی بولی۔

احمد بس گھور کر رہ گیا۔
وہ لمحہ بہ لمحہ اس کا ضبط آزما رہی تھی اور احمد اتنا لاچار تھا کہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔

"احمق۔۔۔"
احمد نے بڑبڑاتے ہوۓ چہرہ دائیں جانب گھما گیا۔

"کون احمد؟"
حریم آگے کو ہوتی ہوئی بولی۔

احمد نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
حریم لب دباےُ مسکرا رہی تھی۔
اور احمد زچ ہو رہا تھا۔

"تمہاری بیوی کچھ نہیں کہتی تمہیں؟"
حریم تعجب سے بولی۔

"میری کوئی بیوی نہیں یے۔۔۔"
احمد درشتی سے بولا۔

"اووہ تبھی یہ حال ہے اگر بیوی ہوتی تو اب تک سیدھا کر چکی ہوتی تمہیں۔۔۔"
حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

احمد نے ایک سلگتی نگاہ اس پر ڈالی۔
"تمہاری امی بات کرتی ہیں تم سے؟"
حریم اس کے غصے کا اثر لئے بنا بولی۔

"مطلب؟"
احمد بیزاری سے بولا۔

"مطلب یہ کہ نہ تو تم جواب دیتے ہو صحیح طرح نہ ہی خود سے بات کرتے تو تمہاری امی بات کرتی ہیں تم سے؟"
حریم نے معصومیت سے پھر سے سوال دہرایا۔

"تم کر رہی ہو یا نہیں؟"
احمد گردن گھماتا اسے گھورنے لگا۔

"اووہ مطلب ایسے ہی! بیچاری کیا کہتی ہوں گیں تمہاری امی کیسا بیٹا ملا ہے جو بولتا ہی نہیں۔۔۔"
حریم نفی میں سر ہلاتی تاسف سے بولی۔

احمد سر جھٹک کر زمین کو دیکھنے لگا۔
یونہی رات گزر گئی۔
صبح صادق کا وقت تھا اور یہ تہ خانہ نیم تاریکی میں ڈوبا تھا۔

یہاں بیٹھے دونوں نفوس سوچ بچار میں محو تھے جب انہیں لاک کھلنے کی آواز سنائی دی۔
حریم نے احمد کو دیکھا اور احمد نے حریم کو۔
دروازہ کھلنے کے باعث روشنی اندر داخل ہونے لگی۔

وہ ایک لڑکی تھی۔
احمد ایک لمحے میں اسے پہچان چکا تھا۔

"تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟"
احمد پلک جھپکتے اس لڑکی کے مقابل کھڑا تھا۔
آواز اتنی آہستہ تھی کہ مقابل بمشکل سن پائی۔

"احمد یہ چابی ہے یہاں ایک سرنگ ہے تم دونوں وہاں سے باہر نکل جاؤ اور ہاں دروازے پر شاید آدمی معمور ہے تم خیال سے نکل جانا اور یہ رکھ لو کھانے پینے کا سامان۔۔۔"
وہ عجلت میں کہتی عقب میں دیکھنے لگی۔

احمد اس کی گھبراہٹ سمجھ رہا تھا اس لئے فوراً اس کے ہاتھ سے بیگ اور چابی پکڑ لی۔

"بہت شکریہ آرزو۔۔۔"
احمد تشکرانہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

حریم پیشانی پر بل ڈالے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
یہ معمہ وہ حل کرنے سے قاصر تھی۔
آرزو نے ایک مسکراہٹ احمد کی جانب اچھالی اور دروازہ بند کر کے لاک کر دیا۔

"چلو جلدی۔۔۔"
احمد کہتا ہوا سرنگ کی جانب بڑھ گیا۔

حریم بھی اس کے عقب میں چل دی۔
چند منٹوں میں وہ دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔
احمد نے بنا آواز پیدا کئے دروازہ کھولنا چاہا۔

سورج کی گرم نرم کرنوں نے ان کا استقبال کیا۔
وہاں ایک آدمی کرسی پر بیٹھا خراٹے لے رہا تھا۔

لیکن آہٹ پر اس کے چہرے پر لکریں ابھریں۔
حریم اور احمد اس کے عقب میں کھڑے ہو گئے۔

وہ آدمی جاگ چکا تھا۔
گردن گھماتا دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔
احمد نے اس کی گردن پکڑی اور ایک جھٹکا دیا۔
آواز سنائی دی اور اسکی گردن ٹوٹ گئی۔

وہ ایک ہاتھ گردن پر رکھے زمین پر گرا پھٹی پھٹی نگاہوں سے احمد کو دیکھ رہا تھا۔
احمد اسے ٹھوکر مارتا آگے چل دیا۔

حریم بھی اس کے ہمراہ بھاگ رہی تھی۔
اس دفعہ احمد نے آبادی کا رخ کیا۔
وہ جلد از جلد فون کرنا چاہتا تھا۔

"بیگ میں چیک کرو کیا یے؟"
احمد نے دائیں بائیں نگاہ دوڑاتے ہوۓ کہا۔

دونوں لمبی شاہراہ پر بھاگ رہے تھے۔
صبح سویرے کے باعث سڑک سنسان پڑی تھی۔
ان دونوں کے سواء کوئی آدم ذات دکھائی نہ دے رہی تھی۔
حریم بھاگتی ہوئی بیگ ٹٹولنے لگی۔

"سیب؟"
وہ ہاتھ باہر نکالتی ہوئی بولی۔

کچھ سوچ کر اس نے احمد کی جانب بڑھا دیا۔
احمد نے ایک نظر حریم کو دیکھا پھر اس کے ہاتھ کو۔

"تم کھا لو۔۔۔"
وہ مرد تھا مضبوط اعصاب کا مالک۔

"فکر مت کرو میں بھوکی نہیں رہوں گی اندر اور بھی ہے اسی لئے تمہیں دے رہی ہوں ورنہ پوچھتی بھی نہ۔۔۔"
حریم منہ بناتی ہوئی بولی۔

احمد نے مسکراتے ہوۓ سیب پکڑا اور کھانا شروع کر دیا۔
دور سے احمد کو ایک کھوکھا نظر آیا۔

"حریم جلدی چلو۔۔۔"
کہہ کر احمد نے رفتار بڑھا دی۔

حریم اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔
دونوں کی حالت ابتر تھی۔

دکاندار بغور دونوں کا جائزہ لینے لگا۔
چہرے پر خون کے دھبے اور نیل پڑے ہوۓ تھے۔
گرد سے اٹے کپڑے اور چہرے۔
وہ الجھ گیا۔

"بھائی صاحب آپ کا فون مل سکتا ہے؟"
احمد کا تنفس تیز ہو چکا تھا۔

"آپ دونوں کہاں سے؟"
دکاندار بولتا ہوا خاموش ہو گیا۔

"ہمیں کسی نے پکڑ لیا تھا بڑی مشکل سے جان بچا کر آےُ ہیں پلیز مجھے گھر فون کرنا یے۔۔۔"
احمد التجائیہ انداز میں بولا۔

ان دونوں کی حالت احمد کی بات کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
دکاندار نے بنا کسی حیل و حجت کہ فون احمد کی جانب بڑھا دیا۔
احمد حریم کو دیکھتا دوسری جانب چلا گیا۔

"ہیلو سر۔ہم وہاں سے نکل آےُ ہیں لیکن ہمیں کنوینس کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پیدل آےُ تو بہت ٹائم لگ جاےُ گا اور پکڑے جانے کا خدشہ ہے۔۔۔"
احمد اردگرد نگاہ ڈالتا آہستہ سے بول رہا تھا۔

"جی ٹھیک یے سر۔۔۔"
احمد نے نمبر ڈیلیٹ کیا۔

اب وہ کسی دوست کا نمبر ملا رہا تھا۔
احمد نے کچھ بولا نہیں اور دو منٹ کی کال کے بعد کال کاٹ دی۔

مطمئن سا ہو کر وہ واپس آ گیا۔
شکریہ ادا کر کے حریم کو چلنے کا اشارہ کیا۔

"احمد وہ تمہاری گرل فرینڈ تھی؟"
حریم کے دماغ میں یہی سوال گردش کر رہا تھا۔

"تم ابھی تک اسی کے بارے میں سوچ رہی ہو؟"
احمد کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

وہ دونوں بھاگ نہیں رہے تھے لیکن ان کی رفتار ایسی تھی کہ وہ بھاگتے معلوم ہو رہے تھے۔
"ہاں تو جب تک تم سے پوچھوں گی نہیں کیسے بھولوں گی؟"
حریم استحقاق سے بولی۔

"کیا میں تمہیں جواب دینے کا پابند ہوں؟"
احمد نے گردن اس کی جانب گھمائی۔

حریم اس کی آنکھوں میں دیکھتی چلنے لگی۔
"تم بتاؤ گے مجھے رائٹ؟ آفٹر آل ہم پاٹنرز ہیں۔۔۔"
حریم کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
کچھ تھا اس کی آنکھوں میں جسے احمد محسوس کر رہا تھا۔

"میں نے اسے دو ماہ اپنے ساتھ رکھا تھا تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے لیکن پھر اس نے کہا کہ میں کب تک اسے محفوظ رکھوں گا اور اتنے وقت بعد کون اسے اپناےُ گا؟ اسی وجہ سے اس نے میری مدد کی۔۔۔"
احمد نے مختصر اسے سمجھا دیا۔

حریم سانس خارج کرتی سامنے دیکھنے لگی۔
"ہمیں اس طرف سے چلنا ہے سڑک پر چلنا خطرے سے خالی نہیں اور اس مشن کو مجھے ہر حال میں پورا کرنا ہے۔۔۔"
احمد پرعظم تھا۔

حریم مسکرا رہی تھی۔
ایسا نہیں تھا وہ کوئی دل پھینک قسم کی لڑکی تھی۔
لیکن نجانے کیوں احمد کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق جنم لے چکا تھا جسے وہ سمجھ بھی رہی تھی اور خود کو سمجھا بھی رہی تھی۔
یہ خاردار جھاڑیاں تھیں جہاں سے وہ دونوں گزر رہے تھے۔

"دھیان سے۔۔۔"
حریم کی شرٹ ایک جھاڑی میں اٹک گئی تو احمد گویا ہوا۔
حریم بنا کچھ کہے شرٹ آزاد کرتی آگے نکل گئی۔

احمد جھاڑیاں ہٹاتا راستہ بنا رہا تھا۔ اسی اثنا میں اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔
خون کے قطرے نیچے گرنے لگے۔

حریم کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑی تو چہرے پر پریشانی ابھر آئی۔
وہ تیزی سے احمد کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"یہ تو بہت زیادہ لگی ہے۔۔۔"
حریم خون میں رنگتے اس کے ہاتھ کو دیکھتی ہوئی بولی۔

احمد نے اپنا ہاتھ اس کے نرم گداز ہاتھ سے نکالنا چاہا لیکن حریم نے مضبوطی سے اس کی کلائی تھام رکھی تھی۔

"حریم چھوڑ دو۔۔۔"
احمد اس کے نزدیک آنے سے ہمیشہ الجھن کا شکار ہو جاتا۔
وہ اس کی حریف تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا اس رقابت میں کوئی نرم گوشہ اس کے دل میں پیدا ہو۔

"تمہیں سنائی نہیں دے رہا؟"
احمد کی آواز قدرے بلند ہو گئی۔

حریم اس کی بات کا اثر لئے بنا اس کے ہاتھ سے کانٹے نکالنے لگی۔
حریم کی انگلیوں پر جا بجا احمد کا خون لگ چکا تھا۔

احمد کو تکلیف نہیں ہو رہی تھی لیکن حریم کو تکلیف ہو رہی تھی۔
حریم جسے اپنی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا تھا وہ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے احمد کی تکلیف پر اشک بہا رہی تھی۔

"میں کیا بکواس کر رہا ہوں؟"
حریم کا چہرہ جھکا ہوا تھا وہ انہماک سے اس کا ہاتھ پکڑے اپنا کام کر رہی تھی۔

"بکواس پر کان نہیں دھرنے چائیے یہ بات تم بھی کہیں لکھ کر رکھ لو کام آےُ گی۔۔۔"
حریم ہلکا سا مسکرائی جبکہ احمد غصے سے پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔
یہ لڑکی اس کی جان کو آ رہی تھی۔

"حریم یہاں سے نکلتے ہی تم زندہ نہیں بچو گی سئیرئسلی۔۔۔۔"
احمد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔

"سئیرئسلی؟"
حریم نے قہقہ لگا کر اسے دیکھا۔

حریم کا قہقہ احمد کو سلگا گیا۔
احمد کا ہاتھ خون سے لبریز تھا حریم کی آنکھیں اشکوں سے تر تھیں۔
احمد چہرہ جھکاےُ اسے دیکھنے لگا۔

حریم خود کو رونے سے باز رکھ رہی تھی لیکن اس میں وہ بری طرح ناکام ہو گئی۔
حریم کے آنسو احمد کی ہتھیلی پر گرنے لگے۔
احمد حریم کے آنسو دیکھ رہا تھا۔
احمد متحیر سا حریم کے جھکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
حریم کے آنسو اسے بہت کچھ باور کروا رہے تھے۔

"بس کرو۔۔۔"
احمد بازو پر بندھی پٹی ہاتھ پر لپیٹتا ہوا بولا۔

حریم شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
اسے اس بات کا بھی احساس نہیں تھا کہ احمد اس کی نم آنکھیں دیکھ رہا تھا۔

"احمد تم جیسے کھڑوس اور بد دماغ لوگوں کو بھی کچھ پسند ہوتا ہے؟"
حریم اس کے ہمقدم ہوتی ہوئی بولی۔

احمد نے اسے گھورا۔
"تمہیں کھانے میں کیا پسند ہے؟"
حریم اشتیاق سے بولی۔

"تمہارا سر۔۔۔"
احمد جل کر بولا۔

حریم ہنستی ہوئی احمد کو دیکھنے لگی۔
احمد تلملا اٹھا۔
پانچ منٹ خاموشی سے گزر گئے۔
حریم سے احمد کا سکون برداشت نہیں ہوتا تھا۔

"احمد میں کیسی لگ رہی ہو؟ آئی نو اچھی لگ رہی ہوں گی لیکن پتہ ہے تم بلکل اچھے نہیں لگ رہے۔۔۔"
حریم اس کے سامنے آتی منہ بناتی ہوئی بولی۔

"خاموش ہونے کا کیا لو گی؟"
احمد رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"تم۔۔۔"
حریم دانت نکالتی ہوئی بولی۔
احمد کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔

"تم نہیں دے سکتے بلکہ تم تو کیا کوئی بھی نہیں دے سکتا جو مجھے چائیے۔۔۔"
حریم ہنستی ہوئی بول رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی احمد سے مخفی نہ رہ سکی۔

احمد یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔
لیکن اگلے ہی لمحے خود کو ملامت کرنے لگا۔
"یہ لڑکی خود تو پاگل ہے ہی تمہیں بھی پاگل کر دے گی احمد۔۔۔"
وہ سر جھٹکتا ہوا خود کلامی کرنے لگا۔

سڑک کے اس پار احمد کو سیاہ رنگ کی گاڑی نظر آئی۔
سپاٹ انداز میں چلتا ہوا آگے نکل گیا۔

حریم بھی اس کے پیچھے چل دی۔
احمد نے حریم کے سامنے ہتھیلی پھیلائی۔
نیچے گہرائی تھی بہت زیادہ نہیں لیکن بہت کم بھی نہ تھی۔
حریم نے مسکراتے ہوۓ اپنا ہاتھ احمد کے ہاتھ میں دے دیا اور احمد کے پاس آ گئی۔
احمد پہلے ہی پیچھے ہٹ گیا۔

احمد نے اسے اشارہ کیا اور دونوں سڑک کے دوسرے جانب آ گئے۔
گاڑی انہی کی منتظر تھی۔

احمد فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور حریم پچھلی نشست پر۔
دونوں کے چہرے سپاٹ تھے۔
دونوں کو زندہ بچ جانے کی خوشی نہیں بلکہ بنا کامیابی کہ واپس لوٹ جانے کا ملال تھا۔
حریم اسکرین سے پار دیکھ رہی تھی گاڑی تیزی سے سڑک پر چل رہی تھی۔

احمد کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔
تیسرے انسان کے باعث حریم احمد سے کوئی بات نہیں کر سکتی تھی۔
آدھ گھنٹے کی ڈرائیور کے بعد گاڑی ایک گھر کے باہر رکی۔

حریم اور احمد دروازہ کھول کر باہر نکل آےُ۔
تین سے چار مرلہ پر مشتمل یہ گھر نفاست سے آراستہ تھا۔
وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے۔
وہ دونوں منتظر نگاہوں سے سیڑھیوں کو دیکھ رہے تھے۔
آگے کا لائحہ عمل اب انہیں طے کرنا تھا۔

Đọc tiếp

Bạn Cũng Sẽ Thích

23.9K 2.2K 99
ALEX The name is enough to shiver down anyone. He is the defination of cruelty and known for his torture. The king of Mafia. He is cold, cruel, domin...
25.8K 3.8K 20
She was not only born with a silver spoon, she was rocked in a diamond cradle and raised in a gold castle. She had the world at her feet and on her f...
3.9K 136 10
- He is the eldest She is the youngest - He is mature She is immature - He is ice cold She is jolly | •Aaliya Idrees (18 years) The youngest chi...
14.2K 1.2K 28
Allah says in the Quran : ── "Women of purity are for men of purity, and men of purity are for women of purity" - This is the story of a girl named f...