Uljhy Bandhan (Hamna Tanveer)

By UrduWORLD

1.2K 8 1

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" مولوی صاحب کی آواز گونجی۔ اس نے نظر اٹھا کر سامنے سرخ جوڑے میں ملبوس ہاتھ مسلتی... More

Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17

Episode 1

215 2 0
By UrduWORLD



احمد بھاری قدم اٹھاتا اندر کی جانب چل رہا تھا۔
رات کی تاریکی نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
دو کنال پر مشتمل یہ محل نما گھر روشنی میں جگمگا رہا تھا۔
باہر کی نسبت اندر زیادہ رنگ تھے۔

احمد بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا اندرونی دروازے پر آیا۔
احمد نے ہاتھ رکھا اور دروازہ اندر کی جانب کھلتا چلا گیا۔
نسوانی پرفیوم کی خوشبو اس کے نتھنوں سے آ ٹکرائی۔
معمول کے خلاف آج کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

"افشاء کہاں ہے؟"
احمد نے ملازم کو روک کر مخاطب کیا۔

"میڈم اوپر کمرے میں ہیں۔۔۔"
وہ ٹرے سنبھالتا چل دیا۔

وسیع و عریض لاؤنج کے وسط میں صوفے تھے۔
بائیں جانب قد آور پردے کھڑکیوں کے آگے گرے ہوۓ تھے۔
لکڑی نما سیڑھیاں جن کی دیوار پر سیاہ رنگ کا ماربل آویزاں تھا۔
دائیں سمت سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔
احمد زینے چڑھنے لگا۔
سیڑھیوں کے ساتھ شیشہ نصب تھا۔

بنا دستک دئیے احمد پہلا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
افشاء سنگھار میز کے مقابل کھڑی اپنی زلفیں سنوار رہی تھی۔
احمد دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔

ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔
نظریں افشاء کے سراپے پر تھیں۔

افشاء اس وقت مہرون رنگ کی سلیو لیس ساڑھی زیب تن کئے ہوۓ تھی۔
دودھیا بازو پلو کے نیچے سے جھانک رہے تھے۔
سیاہ سٹیپ میں کٹے بال شانوں پر ڈال رکھے تھے۔

ہونٹوں کو مہرون کلر کی لپ اسٹک سے پوشیدہ کر رکھا تھا جو اس کی دودھیا رنگت پر آفت ڈھا رہا تھا۔
چھوٹی چھوٹی سنہری آنکھیں جو کہ مصنوعی لینز کا کمال تھیں۔

سلم سمارٹ سی افشاء اپنی عمر سے بے حد چھوٹی معلوم ہوتی تھی۔
اس کی دراز قدامت پر ساڑھی جچ رہی تھی۔
احمد کی موجودگی کے باعث اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
نزاکت سے اس کی جانب گھومی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی۔

"آج تم جلدی کیوں آ گئے؟"
ملائی جیسے چہرے پر پہلے خفگی پھر حیرت کا عنصر نمایاں ہوا۔

"فارغ تھا تو سوچا تم سے مل لوں۔۔۔"
احمد دروازہ چھوڑ کر سیدھا ہو گیا۔

"حیرت ہے سردی میں بھی سلیو لیس۔۔۔"
احمد اسے دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا۔

احمد براؤن پینٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ اس پر براؤن کلر کا سویٹر پہنے ہوۓ تھا۔
سانولی رنگت پر ہلکی ہلکی شیو۔نفاست سے سیٹ کئے بال اسے پرکشش بنا رہے تھے۔

قدرتی بھنویں ایسے معلوم ہوتی مانو ابھی تراش کر آیا ہو۔
گلابی عنابی لب مسکراتے تو مقابل کو خیرہ کر دیتے۔
نجانے اس کی شخصیت میں کیسا سحر تھا جو ہر کسی کو اس کی جانب مائل کر دیتا۔

"واپس چلا جاؤں؟"
احمد افشاء کو خاموش پا کر بولا۔

"تمہیں واپس بھیج سکتی ہوں کیا؟"
پیشانی پر بل ڈالے وہ احمد کو دیکھنے لگی۔

"آؤ بیٹھو۔۔۔"
وہ مسکراتی ہوئی بیڈ کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

بیڈ کے گرد چوکور قالین بچھایا ہوا تھا۔
بیڈ کی پشت والی دیوار ہلکی جامنی رنگ تھی جب کہ باقی دیواریں سفید رنگ کی تھیں۔
دائیں جانب سنگھار میز اور بائیں جانب کھڑکی پر سفید اور ہلکے جامنی رنگ کے قد آور پردے گرے ہوۓ تھے۔
احمد سانس خارج کرتا دھپ سے بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

"اور بتاؤ دو دن کیسے گزرے؟"
احمد ہاتھ میں کشن پکڑے افشاء کو دیکھ رہا تھا۔

"بہت برے گزرے ہیں۔۔۔"
افشاء کے مخملی چہرے پر بیزاری تھی۔

"کیوں؟"
احمد کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"وہ جو لڑکی لاےُ تھے بخدا میرا بس چلتا نہ تو اس کا کام تمام کر دیتی۔۔۔"
افشاء سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔

"تنگ کر رہی ہے؟"
احمد دلچسپی لیتا ہوا بولا۔

"ایسا ویسا۔۔۔"
افشاء منہ بناتی ہوئی بولی۔

"پھر میرے لئے پرفیکٹ رہے گی۔۔۔"
احمد بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔

"تمہاری وجہ سے تو نرمی سے ڈیل کر رہی تھی ورنہ اب تک اس کے چہرے کا نقشہ بگاڑ چکی ہوتی میں۔۔۔"
افشاء نزاکت سے بال پیچھے کرتی ہوئی بولی۔

"اچھا بتاؤ کون سے کمرے میں ہے وہ؟ بہت تھکا ہوا ہوں میں۔۔۔"
احمد انگڑائی لیتا ہوا بولا۔

"تیسرے کمرے میں ہے۔۔۔"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

"پھر صبح ملتے ہیں۔۔۔"
احمد اس کے گلے لگتا ہوا بولا۔

"جاؤ اپنی جوانی کا مزہ لو۔۔۔"
افشاء اس کا شانہ تھپکتی ہوئی بولی۔

احمد نے جیب میں ہاتھ ڈال کر فون نکالا اور باہر نکل گیا۔
اسکرین پر انگلی چلاتا وہ چہرہ جھکاےُ چل رہا تھا۔

دوسری جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا تھا۔

اس نیم تاریکی میں بھی احمد اس لڑکی کا وجود دیکھ سکتا تھا۔
وہ چہرہ موڑے صوفے پر بیٹھی تھی۔

احمد نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا اور کمرہ روشنی میں نہا گیا۔
روشنی میں اس لڑکی کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

پھر چہرہ موڑ کر اس نفس کو دیکھنے لگی جس نے اس تاریکی کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔
ناک پر غصے سجاےُ وہ پاؤں نیچے کرتی سلیپر پہننے لگی۔

"تم؟"
احمد سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
احمد کے چہرے پر شناسائی کی رمق تھی جس کے باعث وہ تلخ ہو گیا ورنہ یہ طرز تخاطب نہیں تھا ان کا۔

"انسان۔۔۔"
حریم بگڑ کر بولی۔

"اچھا مجھے لگا حیوان۔۔۔"
احمد کو اس جواب کی توقع نہیں تھی۔

"اپنی غلط فہمی دور کر لو اب۔۔۔"
حریم بے نیازی سے کہتی اس کے مقابل آ گئی۔

"آفیسر احمد شیر۔۔۔"
احمد جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔

حریم نے سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔
"اچھا لیکن مجھے تو کسی اینگل سے شیر نہیں لگتے البتہ بیر ضرور۔۔۔"
حریم نے مسکراتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی۔

"مائنڈ یو۔۔۔"
احمد انگلی اٹھا کر دھاڑا۔

"اوکے۔۔۔"
حریم ہاتھ اٹھاتی ہوئی الٹے قدم اٹھانے لگی۔

"آئم ایم حریم۔۔۔"
احمد فون نکال کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
حریم تفتیشی انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔

"آفیسر ایسے تو نہیں ہوتے جیسے تم ہو۔۔۔۔"
چند پل بیتنے کے بعد حریم پھر سے گویا ہوئی۔

"کیوں ان کے سینگھ نکلتے ہوتے ہیں کیا جو میرے نہیں ہیں؟"
احمد سلگتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

حریم کے اطمینان میں رتی بھر فرق نہ آیا۔
"ایسے تو بلکل بھی نہیں ہوتے۔‍۔۔"
وہ قطعیت سے بولی۔

"تمہیں یقین دلانا میں ضروری نہیں سمجھتا۔۔۔"
احمد لاپرواہی سے کہتا پھر سے فون پر محو ہو گیا۔

حریم منہ بناتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
"دو دن سے کہاں تھے؟"
وہ تیکھے تیور لئے بولی۔

حریم کا انداز ایسا تھا مانو وہ اس کا غلام ہو۔
"جواب دینے کا میں پابند نہیں۔۔۔"
احمد اکتاہٹ کا شکار تھا۔

"پتہ نہیں کہاں سے یہ بیوقوف ملی تھی انہیں۔۔۔"
احمد تاسف سے نفی میں سر ہلاتا ہوا بڑبڑایا۔

"تھوڑا اونچا بول لو میں بھی یہی بیٹھی ہوں۔۔۔"
حریم خفگی سے بولی۔

"براےُ مہربانی خاموش رہیں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔۔۔"
احمد ضبط کرتا ہوا بولا۔
حریم نے بولنے کے لیے لب وا کئے ہی تھے کہ اس کی بات سن کر آپس میں مبسوط کر لیے۔
***********
"ایمن چاےُ لا دو گی؟"
اسد کمرے میں جھانک کر بولا۔

"ابھی؟"
ایمن رونے والی شکل بناتی ہوئی بولی۔

"ظاہر ہے اب بندہ ایک دن پہلے تو آڈر نہیں دیتا۔۔۔"
اسد شانے اچکاتا ہوا بولا۔

"آپ نہ ہمیشہ غلط ٹائم پر آتے ہیں۔۔۔"
ایمن بس رو دینے کو تھی۔

"تم کیا کر رہی تھی؟"
اسد بولتا ہوا اندر آ گیا۔

"ہیروئن گم ہو گئی ہے ابھی تو ہیرو اسے ڈھونڈنے بھی نہیں نکلا اور آپ آ گئے۔۔۔"
ایمن ناول بیڈ پر رکھتی ہوئی بولی۔

"تمہارے ناول کسی دن میں نے سارے اٹھا کر جلا دینے ہیں۔۔۔"
اسد خطرناک تیور لئے بولا۔

"خبردار جو آپ نے میری جان کو بری نظر لگائی تو کبھی آپ کا کوئی کام نہیں کروں گی۔۔۔"
ایمن دہائی دیتی ہوئی بولی۔

"اچھا نہ کرنا لیکن ابھی تو مجھے چاےُ بنا دو قسم سے بہت تھکاوٹ ہو گئی ہے آج۔۔۔"
اسد کا چہرہ ستا ہوا تھا۔

"قسم نہیں کھائیں گے تو پھر بھی بنا دوں گی۔۔۔"
ایمن منہ بناتی سلیپر پہننے لگی۔

"میرے کمرے میں لے آنا۔۔۔"
اسد ہانک لگاتا باہر نکل گیا۔

"اللہ پاک پلیز ملیحہ(ناول کی ہیروئن)کو کچھ نہ ہو۔۔۔"
ایمن دعا کرتی چلنے لگی۔

اسد کمرے میں آیا اور لیپ ٹاپ اٹھا کر بیٹھ گیا۔
ڈیسکٹوپ پر ابھرنے والی تصویر سے جوں ہی آنکھیں چار ہوئیں لب دھیرے سے مسکرانے لگے۔

پاؤں میز پر رکھ کر لیپ ٹاپ ٹانگوں پر رکھ لیا۔
اسکرین پر ابھرتے مناظر دیکھ کر پیشانی پر شکنیں ابھریں۔

چہرے پر پریشانی کی لکریں نمایاں تھیں۔
ہوا سے پردے پھڑپھڑا رہے تھے۔
اسد دو انگلیوں سے پیشانی مسل رہا تھا جب ایمن نمودار ہوئی۔

"اگر چینی کم ہو تو خاموشی سے پی لیں۔۔۔"
ایمن میز پر کپ رکھتی ہوئی بولی۔

"کیوں؟"
اسد چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔

"خان بابا باہر گئے ہیں اور چینی ختم ہو گئی ہے اس لئے اتنے پر ہی اکتفا کریں۔۔۔"
وہ تیز تیز بول رہی تھی۔

"اچھا چلو کوئی نہیں۔۔۔"
اسد کپ لبوں سے لگاتا ہوا بولا۔

ایمن بنا کچھ بولے باہر نکل گئی۔
اسے اپنا ناول پڑھنے کی جلدی تھی۔
***********
"میں سوچ رہی تھی کہ عید پر اسد کی شادی کر دیں۔۔۔"
لبنا انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔

"ابھی وہ دونوں رضامند نہیں ہوں گے۔۔۔"
منیر صاحب پریشانی سے گویا ہوۓ۔

"وہ کون سا بچے ہیں جو بلا جواز انتظار کیا جاےُ۔۔۔"
الماری میں کپڑے درست کرتیں وہ خفا ہوئیں۔

"آپ جانتی تو ہیں آج کل بچوں کے ذہہن۔جب مناسب ہو گا تبھی یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔۔۔"
وہ پھیکا سا مسکراتے ہوۓ بولے۔

"ٹھیک ہے جی پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔"
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔

"ایمن کا کالج کیسا جا رہا ہے؟"
وہ آنکھوں سے چشمہ اتارتے ہوۓ بولے۔

"آپ کی ملاقات نہیں ہوئی؟"
وہ ان کی جانب تعجب سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"نہیں۔دروازہ بند تھا میں نے سوچا شاید سو رہی ہو اس لئے واپس آ گیا۔۔۔"
وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔

"اچھا سہی۔آج پہلا دن تھا بتا رہی تھی مجھے۔۔۔"
وہ دھیرے سے مسکرائی ہوئی گویا ہوئیں۔

وہ جو کچھ بولنے والی تھیں فون کی رنگ ٹون نے انہیں خاموش کروا دیا۔
"ہاں منصور کیسے ہو؟"
اب کمرے میں منیر صاحب کی آواز سرسرا رہی تھی۔
***********
"جی سر کام ہو رہا ہے اور کافی حد تک پیش رفت بھی ہوئی ہے۔۔۔"
احمد فون کان سے لگاےُ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔

حریم چہرے پر اکتاہٹ سجاےُ احمد کو دیکھ رہی تھی۔
جامنی رنگ کی ٹی شرٹ اس کے رنگ کو مزید نکھار رہی تھی۔
اس پر ستم یہ کہ اس کی نخریلی ادائیں۔
اب بھی وہ ناک چڑھاتی احمد کو دیکھ رہی تھی۔

"جی میں سمجھا لوں گا۔۔۔"
احمد نے کہہ کر فون بند کیا اور حریم کو دیکھنے لگا۔

حریم جو احمد کو دیکھ رہی تھی اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر جخل ہونا تو درکنار چہرے کے تاثرات میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔

"یہ مائیکرو فونز ہیں انہیں لگانا تمہارا کام ہے۔۔۔"
وہ کھڑا ہو کر جیب سے مائیکرو فونز نکالتا ہوا بولا۔

"اور لگانے کہاں ہیں؟ افشاء کے منہ پر؟ویسے میرا دل تو یہی چاہتا ہے اس کے پھٹے ہوۓ منہ پر لگا دوں۔۔۔"
حریم دانت پیستی ہوئی بولی۔

"میں نہیں جانتا وہ ڈیلنگ کہاں کرتی ہے یہ کام تمہارے سپرد ہے معلوم کرو اور وہاں یہ مائیکرو فون احتیاط سے لگا دو۔۔۔"
احمد ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔

Continue Reading

You'll Also Like

13.7M 550K 80
"I know that we will never be a real couple, but we can at least be nice to each other Aneel" I told him. I've had enough. Tears were starting to pri...
13.7K 1.7K 14
Mehrbano is a kind enthusiastic girl entrapped in a loveless marriage with a cold man Ehan Haider. She had fully invested herself in her marriage but...
16K 620 24
what would be the events of mahabharata war if lord sri krishna made friendship with karna? What would happened if karna listened to krishna's advice...
651K 10.8K 14
On the verge of tears, she smiled. ~~~~~ "I have noticed a thing about you; you don't like being treated like a lady. You prefer being treated with...