دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے (مکمل)

9 0 0
                                    


تحریر: مریم صدیقی
آج پھر بنا دستک دیے لوٹ آیا ہوں، یہ جان کر بھی کہ وہاں میری سنوائی نہیں ہوگی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کے در پر جا کھڑا ہوتا ہوں اس آس میں کہ وہ قدموں کی چاپ پہچان کر ان بند کواڑوں کو کھول دے گی جنہیں اس نے میرے رخصت ہونے پر لرزتے ہاتھوں اور نم آنکھوں سے بند کردیا تھا۔ یہ سزا میں نے خود اپنے لیے مقرر کی تھی لیکن اب پچھتاوے کا ناگ مجھے ہر لمحہ ڈس رہا ہے۔ میں اس چوکھٹ پر منتظر کھڑا رہتا ہوں کہ کب وہ دوڑتی ہوئی میرے قدموں سے آ لپٹے گی اور پہلے کی طرح مسکرا کر میرا خیر مقدم کرے گی لیکن یہ آس ادھوری ہی رہے گی، ان عنابی ہونٹوں سے مسکان تو میںبیس سال قبل ہی چھین چکا ہوں۔ ان بیس سالوں میں ہر لمحہ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے رہا ہے، اس کی فریاد کرتی آہیں اور سسکیاں میرے کانوں میں آج بھی گونجتی ہیں۔ وہ محبت کے واسطے دینا، وہ وعدوں کو دہرانا، وہ التجائیں، وہ آنسو، وہ گڑگڑانا، کچھ بھی تو نہیں بھولا ہوں میں۔
میں اس کے لیے دیوتا سمان تھا، میں وہ تھا جس کی وہ من سے پوجا کرتی تھی۔ میری منشا، میری خوشی اس کے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ میری خفگی جان لینے کے مترادف تھی۔ اس کی بندگی نے مجھے فرعون بنا دیا۔ محبت میں انسان کو دیوتا بنالو تو وہ اکثر خدا بن بیٹھتا ہے۔ مجھے اس کی سادہ فطرت اور طبیعت کی عاجزی نے بے زار کردیا تھا، جب اپنے ارد گرد خوش نما تتلیاں دیکھتا تو وہ مجھے بے رنگ دکھائی دیتی تھی۔ مجھے ان تتلیوں کا چہچہانا بھا گیا، اس کی جی حضوری سے دل اوب گیا تھا۔ کچھ بھی تو نہ تھا اس میں نہ ضد، نہ نخرا، نہ ادا، نہ دل لبھانا آتا تھا وہ تو سادگی کی مورت تھی، محبت کی دیوی تھی جیسے رنگوں میں سفید رنگ لیکن میری بے اعتنائی نے میری بے وفائی نے اس سفید اجلے رنگ پر اداسی کی مہر لگادی ہے وہ ان گزرے ماہ و سال میں یکسر بدل چکی ہے۔
وہ میرے والد کے دیرینہ دوست عزیز انکل کی بیٹی تھی۔ نام اس کا ہانیہ تھا اور میں اسے ہانی بلایا کرتا تھا۔ عزیز انکل اور ہم شروع سے ایک دوسرے کے پڑوسی تھے اور وہ اپنے گھر میں کم اور میرے گھر میں زیادہ پائی جاتی تھی۔ میرا ہوم ورک اکثر وہی کیا کرتی تھی، مجھے امتحانات کی تیاری بھی وہی کرواتی، میرے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتی اور فٹ بال بھی۔ مجھے بہت بعد میں جاکر احساس ہوا کہ اس کی ذاتی پسند و ناپسند تو کچھ تھی ہی نہیں۔ اسے ہر وہ چیز پسند تھی جو میری پسندیدہ تھی چاہے وہ کھانا ہو یارنگ، موسم ہو یا خوش بو، چاکلیٹ، کولڈ ڈرنک، پرفیوم، غرض اس کی ہر پسند، ہر خواہش یہاں تک کہ وہ خود بھی مجھ سے شر وع ہو کر مجھ پر ختم ہوجایا کرتی تھی وہ سارا دن عالی عالی کرتی میرے آگے پیچھے گھوما کرتی تھی۔ اس کی اس تابعداری نے مجھے احساس برتری بخشا، میں ہی سمجھ نہیں پایا تھا کہ یہ تابعداری محبت کی دین ہے اور محبت کی قدر نہ کرو تو وہ ہر نعمت چھین لیتی ہے۔
”عالی ! میں گھر جارہی ہوں، تمہارا ہوم ورک کرکے میں نے کاپی تمہارے بیگ میں رکھ دی ہے۔ تم ٹیسٹ یاد کرلینا ورنہ کل ٹیچر سے ڈانٹ پڑے گی“۔
”تم جاو ¿ ہانی میں ٹیسٹ کی تیاری کرلوں گا“،میں نے ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔ماضی کے دریچوں سے جھانکتی ایک یاد ذہن کے پردے پر ابھری تو لب مسکرا اٹھے اور دل نے چپکے سے ان لمحوں کے لوٹ آنے کی خواہش کی۔
وہ آرٹسٹ بننا چاہتی تھی، اسے تصویروں میں رنگ بھرنے اور رنگوں سے کھیلنے کا جنون تھا۔ یہ صلاحیت عطائے خداوندی تھی کہ وہ ایسے شاہکار تخلیق کرتی کہ بندہ دیکھ کر گنگ رہ جائے۔ کینوس پر رنگ بکھیرتے ہوئے وہ کسی اور ہی دنیا کی باسی لگتی تھی، وہ ان رنگوں میں کھو جاتی تھی اور رنگ اس کا لمس پاتے ہی کھل اٹھتے تھے۔ مجھے اس کا یہ جنون پسند نہ آیا تھا، اس کی آنکھوں میں یہ جنون میں فقط اپنے لیے دیکھنا چاہتا تھا لیکن وہ پانی کی طرح ٹھہرے ہوئے مزاج کی حامل تھی۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے اپنائیت، محبت کے رنگ تھے۔ میں ہی وقت رہتے ان رنگوں کو سمجھ نہ پا یا۔
ہم لڑکپن کی دہلیز عبور کر چکے تھے جب میں نے اسے کہا کہ وہ آرٹس نہیں پڑھے گی بلکہ بزنس پڑھے گی میری طرح، میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں حیرانی در آئی۔
”لیکن عالی میں آرٹس پڑھنا چاہتی ہوں“، اس نے دبے دبے لفظوں میں کہا۔ میں نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
”کیا میرے کہنے پر بھی بزنس نہیں پڑھوگی؟ میں چاہتا ہوں کہ تم ایک بزنس وومن بنو“، میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے، اس نے ہونٹ بھینچ کر ضبط کرنے کی کوشش کی۔ وہ آنسوو ¿ں کو روکنے کی کوشش میں سرخ پڑ رہی تھی۔میں جانتا تھا اسے بزنس پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیںہے اور آرٹس اس کا جنون ہے۔ رنگوں میں اس کی روح بستی ہے اور میں نے وہی رنگ اس سے چھین لینے چاہے تھے۔ میں نے اسے کندھے سے تھام کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا، اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلادیا اور اسیری کی بیڑیاں پہن لیں۔ یہ پہلی بار تھا جب میں نے بے دردی سے اس کی آنکھوں سے آرٹسٹ بننے کا خواب نوچ پھینکا تھا۔ میں سر شار سا تھا کہ اب کچھ ایسا نہیں جو ہمارے درمیان حائل ہو۔ میرا دل مطمئن تھا بالکل ایسے ہی جیسے کسی بچے کا من پسند کھلونا چھین کر اسے اپنے گھر میں سجا لینے جیسی خوشی لیکن مجھے علم نہ تھا میں نے اس سے اس کا اکلوتا خواب چھینا تھا۔ یہ واحد خواب تھا جو اس نے اپنے لیے اپنی مرضی سے دیکھا تھا۔ میں اس سے جنونی محبت کرتا تھا اور اپنے لیے بھی اس کی آنکھوں میں جنون دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا۔
ہم دونوں اپنے جذبات سے آگاہ تھے، ہم محبت کی ڈور کے دونوں سروں پر ایک دوسرے سے بندھے تھے۔ ہمارے والدین بھی یہ بات جانتے تھے۔ ایک ان کہا رشتہ تھا ہمارے درمیان۔ اس نے میرے کہنے پر بی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ میں ایم بی اے کے پہلے سال میں تھااور یوں اس دور کا آغاز ہوا جس نے اس رشتے کی کایا ہی پلٹ دی۔ وہ میری سالگرہ کا دن تھا، میرے دوستوں نے پارٹی رکھی تھی، پہلے پہل خیال آیا کہ ہانی کو ساتھ لے چلتا ہوں۔ مسرت کے عالم میں اس کے گھر جا پہنچا، وہ اپنے کمرے میں تھی۔ کمرے تک پہنچتے پہنچتے میں اپنا خیال تبدیل کر چکا تھا۔ میں راستے سے ہی پلٹ آیا۔ میرے دماغ نے صلاح دی کہ ہانیہ ،حرا، نیلم، رومی اور عروہ جیسی ہر گز نہیں ہے۔ وہ اس پارٹی میں لے جانے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ پہلی دڑاڑ تھی جو ہمارے رشتے میں پڑی۔ ہانیہ ساری رات اور اگلا سارا دن میرا انتظار کرتی رہی، میں گھر نہ آیا اور اس کے لبوں پر حرف شکایت تک نہ آیا۔ وہ خاموشی سے میرا تحفہ میرے کمرے میں رکھ کر چلی گئی۔ میں شام کے سات بجے گھر پہنچا، کافی تھکا ہوا تھا سیدھا کمرے میں چلا آیا۔ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل گفٹ ریپنگ کے ساتھ ایک باکس سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اٹھا یا تو اس پر ایک کارڈ چسپاں تھا جس پر لکھا تھا، ”زندگی کا ایک اور نیا سال مبارک ہو، زندگی کی ہر خوشی تمہارے ہی دم سے ہے، ہانیہ“۔ اندر میراپسندیدہ پرفیوم اور اس کے ہاتھ کا کڑھا ہوا ایک رومال تھا جس پر ایک گلاب خوب صورتی سے کاڑھا گیا تھا اور ساتھ ہی میرا نام لکھا تھا، عالیان گردیزی۔ میں نے وہ گفٹ ویسے ہی ٹیبل پر رکھ دیا اور بیڈ پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں چلا گیا۔
”عالی تمہیں میرے تحفہ کیسا لگا؟“ اس نے میرے سامنے جوس کا گلاس رکھتے ہوئے پوچھا۔ آنکھوں میں امید کے دیے تھے اور محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ جب کہ میرے ذہن میں یاد کرنے پر بھی اس کا تحفہ نہیں آرہا تھا۔ میرے ذہن پرتو حر افہام کے ساتھ گزاری ہوئی خوب صورت شام نقش تھی۔ ہمارا ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کرنا۔ میں ابھی تک اسی پرکیف لمحے میں جی رہا تھا۔
”ہاں اچھا تھا،تمہارا ہر تحفہ ہی بیسٹ ہوتا ہے ہانی۔ چلو اب میں چلتا ہوں مجھے یونیورسٹی جلدی جانا ہے تم ڈرائیور کے ساتھ آجانا“۔ میں اپنی بات کہہ کر رکا نہیں۔ میں اپنی پشت پر اس کی حیران نظریں محسوس کرسکتا تھا لیکن اس وقت دل و دماغ حرا کے حسن کا اسیر ہوچکا تھا۔ حرا فہام نے ایک ماہ پہلے ہی یونیورسٹی جوائن کی تھی۔ ابتداءمیں وہ ماڈرن اور بولڈسی لڑکی مجھے سخت زہر لگی تھی لیکن نہ جانے کیسی مقناطیسیت تھی اس میں کہ میں خود بخود اس کی جانب کھینچا چلا گیا۔ ہانیہ کے لیے وہ جنونی محبت پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی۔
آہستہ آہستہ ہمارے درمیان دوریاں بڑھنے لگیں، میں اس کی کہی باتیں بھولنے لگا، اس کی برتھ ڈے، اس کا گفٹ،یہاں تک کہ اس کا سراپا بھی میری نظروں سے محو ہونے لگا۔ کئی بار میں اسے جھڑک دیتا، اس کی کالز اور میسجز کا جواب نہ دیتا۔ اس کے ہاتھ کے بنے کھانوں تک کا ذائقہ بھول گیا تھا میں اور وہ صبر کی دیوی ہر ایک چیز خاموشی سے سہہ رہی تھی۔ کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاتی۔ میری لاپروائی کا نہ جتاتی۔ خاموشی سے اپنے حصے کی محبت نبھاتی رہی اور پھر میں نے اسے چھوڑ کر حرا کا ہاتھ تھام لیا۔ مشہور بزنس مین فہام گردیزی کی بیٹی حرا فہام گردیزی۔ میں نے دو پل ٹھہر کر اس لڑکی کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جس کی دنیا میرے ارد گرد تھی۔ جس نے دنیا کو مجھ سے زیادہ جانا ہی نہ تھا۔ میں اس کی محبت کو قدموں تلے روند کر اپنی خوشیوں کا محل تعمیر کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بھول گیا تھا کہ خوش رنگ تتلیاں سدا ایک پھول پر نہیں ٹھہرا کرتیں۔
ہماری شادی تین سال میں ہی ناکامی کی دہلیز پر آپہنچی تھی۔ حرا ان لڑکیوں میں سے نہ تھی جنہیں گھر بسانے کی چاہ ہوتی ہے۔ وہ تو آزاد خیال اور لبرل ذہنیت رکھنے والی لڑکی تھی۔ مجھے ابتدائی ماہ میں ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا لیکن میں نے حتی الامکان کوشش کی اس شادی کو کام یاب بنانے میں لیکن یکطرفہ کوشش کب تک اس رشتے کو بچائے رکھ سکتی تھی۔ میں نے یہ آٹھ سال پشیمانی میں گزارے، میں ہانی سے آنکھیں ملانے کی ہمت آج بھی خود میں نہیں پاتالیکن یہ بوجھ دل پر لیے مرنا نہیں چاہتا اس لیے ایک بار پھر ان گلیوں میں آکھڑا ہوا ہوں۔
آج پھر قدم انہی راستوں پر چل پڑے ہیں، ایک بار اور قسمت آزمانے نکل پڑا ہوں۔میں ہر حال میں ہانی سے ملنا چاہتا ہوں، اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ آج مجھ سے پہلے میرا احساس اس تک پہنچ گیا تھا۔ جونہی اس کی گلی میں قدم رکھا، بالکونی سے اس کا لہراتا آنچل دکھائی دیا۔ دل خوشی سے سرشار ہوا کہ آج وہ میری منتظر ہے، وہ آج بھی منتظر ہے۔ دل ناداں اسی سبب مچل اٹھا اور پل بھر میں نہ جانے کیا کیا خواب بن ڈالے۔ دل میں جینے کی خواہش ایک بار پھر سے جاگ اٹھی۔ دل مسرت سے جھوم اٹھا تھا فقط اس خیال کے تحت آج بیس برسوں بعد اس ماہ جبین کا دیدار ہوگا، آج پیاسا من سیراب ہوگا۔ آج ہر تشنگی مٹ جائے گی۔ دل تھا کہ اڑھ کر دہلیز پار کرجانا چاہتا تھا لیکن قدم تھے کہ من من بھر کے ہو رکھے تھے۔ میں بمشکل دروازے تک پہنچا، وہ بھی سیڑھیاں اتر کر دروازے کی اوٹ میں آچکی تھی۔ میں نے دستک دینے کے لیے دست دراز کیا اسی لمحے وہ اوٹ سے نکل کر سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے مجھ سے شکوہ کناں تھے، اس کی آنکھوں میں اگر کچھ تھا تو ان گزرے ماہ و سال کا حساب، ان گنت شکوے، بے رخی، لاتعلقی اور نفرت ہاں وہ نفرت ہی تھی جو اس کی آنکھوں سے عیاں تھی۔ میں جان گیا تھا کہ وہ مجھے پہچان چکی ہے۔ نہ پہچاننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں ہی تو تھا جس نے اس کی دنیا اجاڑ دی تھی۔
’ ’تمہیں یاد ہے اس آخری ملاقات کا احوال؟، میری آنکھوں نے تو جیسے اس منظر کو قید کرلیا ہے“۔ اس کی شعلہ بار نگاہیں مجھ پر جمی تھیں، اس کے چہرے پر سالوں کی تھکن نمایاں تھی، گویا ایک طویل مسافت طے کرکے آئی ہو۔ بالوں میں چاندی جگمگا رہی تھی لیکن چہرے پر آج بھی وہ دلفریب سادگی تھی۔ وہ مجھ سے مخاطب تھی اور میں اس پر گزرے احوال کو اس کے چہرے سے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”وہی منظر رہتا ہے اب نگاہوں کے سامنے، یہیں، یہیں پر ہی تو ٹھکرایا تھا تم نے مجھے، یاد ہے یہیں تو دھتکارا تھا میری محبت کو، اسی دہلیز پر میری آنکھوں سے خواب نوچ پھینکے تھے۔ یہیں میرے دل کے ٹکڑے ہوئے پڑے تھے جن کو قدموں تلے روند کر تم اپنی دنیا بسانے گئے تھے۔ تم تو آسمانوں میں اونچی اڑان بھرنے کی خواہش لیے، ایک امیر زادی کے سنگ زندگی بسر کرنے کے لیے یہاں سے گئے تھے لیکن یہ کیا کہ زمین پر چلنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ تو بتاو ¿ کیوں لوٹ کر آئے ہو محبت کے اس مقبرے پر، جہاں سے تمہیں اب محبت کی خاک بھی نہیں ملے گی۔ اگر معافی مانگنے کا ارادہ رکھتے ہو تو نہ مانگو، محبت کو ٹھکرانے کی معافی نہیں ہوتی۔ اگر محبت کے حصول کی خواہش ہے تو انہی قدموں پر لوٹ جاو ¿، جن پر چل کر یہاں تک آئے ہو۔ محبت اپنے رسوا کرنے والوں کو زمانے بھر میں رسوا کر دیتی ہے معا ف نہیں کرتی۔ تو بتایا نہیں تم نے کیسے آنا ہوا؟“
میں خاموش کھڑا اسے سن رہا تھا، اس کی آواز لرز رہی تھی، وہ درد جو اس کے اندر قید تھا، جو اسے تل تل مار رہا تھا آج اس کے لہجے میں عود آیا تھا۔ میں نظریں جھکائے کھڑا تھا۔ میں نے ایک خوش نما تتلی کے لیے اس پری پیکر کو دھتکارا تھا، یہ سادگی جو مجھے بے زار کرتی تھی اسے میں نے نگر نگر تلاش کیا۔ میں آج صرف اسے سننا چاہتا تھا، میں چاہتا تھا کہ آج وہ بولے اور وہ سب کہہ دے جو اتنے سال اس نے کسی سے نہیں کہا، ہاں میں جانتا ہوں اس نے کسی سے اپنا درد نہیں کہا ہوگا، کسی سے شکایت نہیں کی ہوگی وہ ایسی ہی تھی۔ میں آج اس کے ہر غم کا مداوا کردینا چاہتا تھا لیکن کیسے؟ ابھی میں کچھ کہتا کہ میں نے دیکھا اس کی سانس پھول رہی ہے۔ اس کا چہرہ سفید ہونے لگا اور وہ لڑکھڑا کر گڑ پڑی۔ میرے منہ سے ایک چیخ بر آمد ہوئی میں نے معافی مانگنے میں دیر کردی تھی۔ آج اس کا انتظار تمام ہوا تھا۔ وہ محبت کا بوجھ تنہا اٹھائے اٹھائے تھک چکی تھی میرے آنسو اس کے چہرے پر گررہے تھے۔ سچ کہتے ہیں ہر گناہ کی معافی دنیا میں نہیں ملا کرتی۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Nov 14, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کےWhere stories live. Discover now