آخری حصہّ

164 14 5
                                    

وہ تیز تیز قدام اٹھاتی اسکے قریب آ کے کھڑی ہو گئی تھی آج وہ پہلے والی مرحا نہیں لگ رہی تھی اسکا یہ الگ روپ ہی تھا 
آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں بہت طاقتور آپ جس پہ چاہے اپنا قبضہ کر سکتے  جس کو چاہے آپ درد دے سکتے  تو میری  بات سن لو آفاق  مختار میں آپ سے ڈرتی نہیں میں اپکی عزت کرتی تھی اور میں نے آپ سے محبّت کیا تھا میں آپکو دن رات مانگتی تھی آپکے خواب دیکھتی تھی  میں فخر محسوس کرتی تھی کے مجھے آپ سے محبت ہے  میری محبّت آتش عشق میں بدل گئی تھی لیکن آج مجھے نفرت ہو رہی ہے خود سے کے میں نے آپکو چاہا میں نے اللہ‎ سے آپکو مانگا  مجھے تو اللہ‎ سے اللہ‎ کی محبت مانگ لینی چاہی تھی لیکن نہیں اپکی محبّت مانگ لی لیکن آج میں نے جان لیا آپ محبّت کے قابل ہی نہیں آپ ویشی دارندے ہیں  اپکی اوقات ہی نہیں کے آپ کسی کی سچی محبّت حاصل کر لے  آفاق  ساکت کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
یہ بات یاد کرنا آپ کبھی  زونی کو نقصان نہیں پونچا سکتی  اسکے ساتھ زوھان کی محبّت ہے اسے آپ  جیسے ظالم لوگ کوئی نقصان نہیں پونچا سکتے اور  وہ زوھان سے  عشق  کرتی ہے  یہ بات اپنی زین میں بیٹھا لینا آپ 
اس نے آج اپنی اندر کی ساری بڑاس نکال دی تھی  وہ وہی زمین پہ بیٹھتی چلی گئی تھی    آفاق جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گیا تھا کیا ہوا آپکو مرحا کیا ہوا ۔۔اس نے اسکے بازو کو ہلایا تھا لیکن مرحا نے ایک جھٹکے کے ساتھ  اسکے ہاتھ اپنے  بازو سے ہٹا دیے تھے ۔۔۔
اور روتی ہوئی اٹھ کے واشروم میں گھس گئی تھی ۔۔۔۔
جبکے آفاق  غصے سے وہاں سے نکل گیا تھا ۔
وہ بے مقصد گاڑی سڑکوں پہ گھوما  رہا تھا ۔ مرحا کی باتیں اسکے دماغ کے ارد گرد گھوم رہے تھے وہ اب بھی اس بات پہ حیران تھا کے مرحا اس سے محبّت کرتی تھی ۔۔۔۔آج پہلی بار آفاق کی بھی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھی ۔مرحا کا وہ روتی ہوئی چہرہ بار بار اسکے نظروں کے سامنے آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ اسکے سوچوں میں اس طرح گم تھا کے سامنے سے آتے گاڑی  پہ اسکی نظر پڑھی ہی نہیں تھی اور  اسکی گاڑی سامنے سے آتے گاڑی سے جا لگی تھی اور اسکے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ جو اسکے جاتے ہی باہر آ گئی تھی وہی بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی  اسکی دل میں عجیب سے خدشات آ رہے تھے اسے یاد آیا اس نے مغرب کی نماز نہیں پڑھی وہ جلدی سے اٹھ گئی تھی اور نماز پڑھنے لگی تھی ۔۔نماز پڑھ کے اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے ۔۔۔۔۔
یا اللّه آج ایک بار پھر سے میں ٹوٹ کے بکھر چکی ہوں  لیکن آپ تو مجھے سمیٹ سکتے ہیں نا  میرے اللّه میرے ذات کا مذاق بنایا گیا میری جذبات سے کھیلا گیا   میں تھک گئی ہوں برداشت کر کر کے میں تھک گئی ہوں لوگوں کے رویہے سہ سہ کے  اب مجھ میں اور صبر ڈال دیں میرے اللّه مجھے کمزور ہونے نا دینا  اللّه اسے ھدایت دے اللّه مجھے پتا ہے وہ لاکھ برا سہی میرا محرم ہے میرا اس سے نکاح ہوا ہے   میرے رحمان وہ میری عزت ہیں انکی حفاظت کرنا اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ اس شخص کے لئے دعا مانگ رہی تھی جس نے اسکی ذات کی نفی کی تھی وہ جو اپنے اللّه سے دعا مانگنے میں اتنی مصروف تھی اسے پتا ہی نہیں چلا کے زوھان اسکے کمرے میں آیا ہے زوھان نے کہی دفع اسے آواز دیا تھا لیکن  وہ کسی  اور دنیا میں تھی  وہ اسکی آواز سن نہیں پا رہی تھی اب کی بار اس نے ذرا بلند آواز میں اسے پکارا تھا  اس نے چونک کے زوھان کو دیکھا تھا اور اپنی جگے سے اٹھ گئی تھی  ۔۔۔
کیا ہوں تم اس وقت یہاں ۔۔۔
بھابھی بھائ کا کار یکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ ہسپتال میں ہیں  آپ  بھی چلیں ہمارے ساتھ  زوھان کی بات سن کے اسکی دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا تھا اسکا وجود  کانپ سی گئی  تھی اسے پل بھر کے لیے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اس نے آفاق کو کھو دیا ہو  نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھیں بھیگ گئی بھابھی بھائ خطرے سے باہر ہے اللّه کا شکر ادا کریں انکی جان بچ گئی  انکو کچھ ہوا نہیں اور آپ خود  کو سمبھال لیں اور چلے میرے ساتھ  اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کے زوھان  اسے تسلی دینے لگا۔۔جلدی سے عبایا پہن کے وہ زوھان کے ساتھ چل دی تھی ۔۔
آفاق کو سر پہ چوٹ لگی تھی اور بازؤں پہ  کچھ خراشیں آئ تھی ۔۔۔۔ اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا ۔۔۔
کلثوم بیگم  الگ سے رو رہی تھی جب کے وہ وہی خاموش بیٹھی تھی ۔۔۔
اتنے میں  نرس باہر آ گئی تھی ۔۔۔
زوھان اسکی طرف لپک گیا تھا  سسٹر بھائ کیسے ہیں وہ پریشانی سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔
جی انکو ہوش آ گیا ہے اور وہ بار بار کسی مرحا کا نام لے رہے ہیں ۔پلز آپ میں سے مرحا جو بھی ہیں ان سے مل لیں یہ کہے کے نرس چلی گئی تھی ۔۔۔۔
جبکے  مرحا سر جھکائ کھڑی تھی اسکی ہمّت نہیں ہو رہی تھی آفاق کو دیکھنے کی ۔۔۔۔
بھا بھی آپ بھائ سے مل لیں جا کے ہم بعد میں مل لیں گے ۔۔۔
زوھان کے کہنے پہ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی     روم میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔
آفاق جو منہ اس طرف کئے لیٹا ہوا تھا دروازہ  کھولنے کی آواز پہ  اس نے چہرہ اٹھا کے آنے والے کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
اسے اس حال میں دیکھ کے مرحا کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔۔۔
مرحا آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اسکے پاس آئ تھی  چیئر اٹھا کے اسکے بیڈ کے قریب بیٹھ گئی تھی ۔اور ہک ٹک اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
آفاق نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بڑھا کے اس  کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے سینے پہ رکھ دیا اسکے اس کاروائی پہ وہ جھنپ سی گئی تھی ۔۔
اب وہ برداشت نہیں کر پائ تھی اور رونے لگی تھی ۔۔دیکھیں کیا حالت بنا کے رکھی ہے آپ نے  اپنا  تھوڑا سا بھی غصہ کرنے کا حق نہیں تھا کیا مجھے  کے آپ نے یہ کر دیا  یہ سوچے بغیر کے میں آپکے بنا کیسے جیو نگی
اسکے اس اظہار پہ آفاق کے لب مسکرائے تھے
  آپ ہنس کیوں رہے ہاں مجھے تڑپا کے آپکو مزہ آتا ہے نا وہ اسکے سینے پہ مکوں کی برسات کرنے لگی ۔۔۔
آہ۔ ۔ آفاق کے بازو سے درد کی لہر اٹھ گئی تھی ۔۔۔
ایم سو سوری میں بھول گئی تھی ۔۔۔
اٹس اوکے  اور مارو مجھے درد نہیں ہو رہا  بلکے بڑا پیار آ رہا ہے آپ پہ  آخری بات اس نے ذرا شرارت کے ساتھ کہا تھا ۔
جس پہ وہ اسے گھورنے لگی تھی ۔۔۔
اتنے میں کلثوم بیگم  زوھان اور  زنیرہ  بھی وہاں آ گئے تھے ۔۔وہ اسکے پاس سے اٹھ کے دور کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔
رمضان کا تیسرا عشرہ چل رہا تھا اور آفاق ہوسپیٹل سے ڈسچارج ہو کے گھر آ گیا تھا ۔۔۔مرحا جی جان لگا کے اسکی خدمت کرتی تھی۔۔۔۔
زوھان بیڈ پہ لیٹا موبائل میں گیم کھیل رہا تھا جبکے وہ اسکے پاس بیٹھی سوچوں میں گم تھی ۔۔زوھان نے کہی بار اس پہ نظر  ڈالا لیکن وہ مسلسل سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔
کدھر گم ہو زوھان نے اسکا بازو زور سے ہلایا تب جا کے وہ اپنی سوچوں کی ایثار سے باہر آ گئی تھی ۔۔۔
کیا کہا آپ نے  وہ نا سمجھی سے اسے دیکھ کے پوچھنے لگی ۔۔۔
کدھر گم ہو ۔۔۔۔
آپ نے ردا کو نوٹ کیا ہے آج کل وہ گھر ہوتی ہی نہیں ہے  اگر ہوتی بھی ھو تو سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی  بچی ہے نا سمجھ ہے ذرا دھیان دیا کرو اس پہ ۔۔۔۔
ہاں یہ بات تو تم نے سہی کی مجھے بھی وہ آج کل نظر نہیں آتی۔۔
اچھا زوھان میں ذرا اسے دیکھ کے آؤں یہ کہے کے وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی ۔۔۔
ردا جو کسی سے بات کرنے میں مصروف تھی اسکے  دروازہ کھولنے پہ وہ ہڑبڑائ تھی ۔۔زنیرہ کو اپنے سامنے دیکھ کے اس نے جلدی سے موبائل وفف کر دیا تھا ۔۔۔۔
آج آپ یہاں بھابھی اس نے مسکراتی ہوئی پوچھا ۔۔۔
ہاں تم غائب رہتی ہو میں نے سوچا میں ہی پوچھ لوں تم سے تمارا حال ۔۔۔۔
ہاں بھابھی بس اسٹڈیز میں بزی رہتی ہوں ۔۔
گڈ اچھی بات پڑھو ۔۔۔۔
اور سناؤ  کیا کر رہی تھی ۔۔۔
کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی بیٹھی  تھی ۔۔۔
اچھااااا اس نے اچھا کو ذرا کینچ کے کہا تھا ۔
بھابھی میں آپ سے ایک بات شئر کر سکتی ہوں کیا  اس نے ڈرتی ہوئی کہا تھا ۔
ہاں بلکل   کر سکتی ہو ۔۔۔
میں کسی کو پسند کرتی ہوں اور شادی کرنا چاہتی ہوں آپ بھائ سے بات کریں نا ۔۔۔
اچھا کون ہے وہ نام کیا ہے ۔۔
بھابھی وہ  میرے کلاس میں ہے اسکا نام عدیل ہے ۔۔۔۔
میں بات کرتی ہوں زوھان سے  یہ کہے کے وہ اٹھ گئی تھی وہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحا سونا مت مجھے آپ سے ایک کام ہے ۔۔
وہ جو سونے کی تیاری کر رہی تھی آفاق کی بات پہ  پھر سے اٹھ کے بیٹھ گئی تھی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔۔۔
اپنے ہاتھ میں ڈبہ تھامے وہ اسکی قریب آ کے بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
ڈبہ سے ایک لاکیٹ نکالا جسکے اوپر مرحا آفاق  لکھا ہوا تھا ۔۔ اس نے وہ لاکیٹ اسکے گلے میں پہنا دیا تھا ۔۔۔۔
یہ کبھی اُتارنا مت  یہ میری عشق کی نشانی ہے ۔۔۔اسکی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کے اس نے کہا تھا ۔
بہت درد دیا میں نے آپکو  ہر پل تڑپایا اپکی جو جگہ تھی وہ نہیں دے پایا ہو سکے مجھے معاف کرنا ۔۔
اسکی آنکھیں نم ہو گئی تھی ۔۔۔
ارے میری جان  رو کیوں رہی ہیں آپ اسے خود سے لگاتے ہوئے آفاق نے کہا تھا ۔۔۔
مجھے کبھی چھوڑ کے مت جانا آفاق میں آپکے بغیر مر جاؤنگی ۔۔۔۔۔
ارے میں کبھی نہیں جاؤنگا آپکو چھوڑ کے ۔۔۔آفاق کی بات سن کے اس نے اپنی آنکھیں موند لئے تھے ۔۔۔۔۔
زوھان مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے ۔۔
ہاں کہو تم کب سے اجازت  مانگنے لگی ہو ۔۔۔۔
ہاں تو آپکو عزت دے رہی ہوں خوش ہو جاؤ الٹا سوال جواب کر رہے ۔۔۔
ہاہاہا شکریہ آپکا اتنی عزت دینے کے لئے یہ کہے اس نے ہنس کے کہا تھا ۔
اچھا وہ نا ردا نے لڑکا پسند کر لیا اسکی کلاس میٹ ہے لڑکا  نام عدیل ہے  میں چاہتی ہوں آپ اس سے ایک بار مل کے فیصلہ کر لو ۔۔۔
کل چاند رات ہے ردا سے کہو اسے بلا لے مل لیں گے اگر اچھا لگا تب رشتہ پکا کر دیں گے اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا ۔
زوھان آئ لو یو سو مچ اسکے گلے لگتی ہوئ زنیرہ  نے کہا تھا ۔۔۔
آئ لویو ٹو زوھان کی جان میں بہت خوش نصیب ہوں جو مجھے تم ملی ایک بہت ہی پاکیزہ لڑکی  زوھان نے محبّت   بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔۔
میں بھی تو خوش نصیب ہوں جو میں نے آپکو پا لیا جس سے میں نے عشق کیا جسے رو رو کے اللّه سے مانگا  اچھا چلو
میں جا کے ردا کو بتاتی ہوں اس سے الگ ہوتی ہوئی اس نے کہا تھا  ۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ ۔۔
وہ اسکے کمرے میں آگئی تھی وہ موبائل کے ساتھ مصروف تھی ۔۔
وہ آہستہ چل کے اسکی پاس بیٹھ گئی تھی ۔۔
بھابھی آپ۔۔۔ اسے دیکھ کے ردا نے خوشگوار لہجے میں پوچھا تھا ۔۔۔
ہاں میرے پاس سرپرائز ہے تمارے لئے ۔
وہ کیا بھابھی جلدی سے بتا  دیں آپ مجھ سے اب صبر نہیں ہو رہا ۔۔۔۔
زوھان مان گیا اور کل تم عدیل کو بلا لینا سب اس سے مل کے فیصلہ کریں گے کے وہ اچھا ہے کے نہیں ۔
تھنک یو سو مچ بھابھی  آپ نا ہوتی یہ سب ممکن  نا ہوتا آپ بہت اچھی ہیں ۔۔
اچھا بابا اب مکھن نا مارو  زنیرہ کی بات پہ وہ کھلکھلا کے ہنسی تھی ۔
اچھا اگر وہ تمیں نا ملے  میرا مطلب کسی کو پسند نا آے  تو تم رو دو گی کیا اداس ہو جاؤ گی  کیا  ۔۔۔۔
ہاں بھابھی میں رو رو کے اسے اللّه سے مانگو گی   اور اللّه مجھے دے دینگے ۔۔۔
گڈ ۔۔۔ویسے میں نے بھی زوھان کو رو رو کے اللّه سے مانگا  اور اللّه نے مجھے دے بھی دیا ۔۔۔
ہاں بھابھی آپ بھائ کے ساتھ اچھی لگتی ہیں  مجھے  ۔۔۔۔ اس  ہانیہ کا بھائ کے ساتھ کوئی جوڑ  ہی نہیں تھا اسکی بات پہ  وہ مسکرائ تھی ۔۔۔۔
آج رحمتوں کا مہینہ ختم وہ  چکا تھا  اور سب عید کے چاند کے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
عدیل اور اسکے گھر والے بھی آ گئے تھے اور عدیل سبکو بہت پسند آیا تھا اور عدیل کے گھر والوں کو بھی ردا اچھی لگی تھی عید کے بعد انکی منگنی کی  ڈیٹ رکھ دی گئی تھی ۔۔سب بڑے  لیونگ روم میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے جبکے  زوھان اور  زنیرہ  باہر گئے ہوئے تھے  وہ  جو  سبکے پاس بیٹھی تھی   ملازمہ کے بلانا پہ  وہاں سے اٹھ گئی تھی ۔۔۔۔
آپکو آفاق بھائ بلا رہے  وہ چھت پہ آپکا انتظار  کر رہے  یہ  . کہے کے ملازمہ  وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔۔
وہ چھت پہ آ گئی تھی ۔۔۔۔
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا اسے آفاق کہی نظر نہیں آیا تھا ۔۔وہ آفاق کو آواز دینے لگی کے اچانک کسی نے اسے بازؤں سے پکڑ کے اپنے طرف کینچ لیا تھا وہ سامنے والے کے اس افتاد پہ تیار نہیں تھی اور ڈائریکٹ جا کے اسکے سینے سے جا لگی تھی اس نے اپنے سر اوپر کر کے دیکھا تو اندھیرا میں آفاق کا مسکراتا ہوا چہرہ اسے نظر آیا۔۔۔
چاند رات مبارک ہو جان آفاق  آفاق نے گمبھر لہجے میں کہا تھا   آفاق کی لہجے کی تپش  کو  محسوس کر کے اس نے اپنی نظریں  جُھکا لئے تھے ۔۔۔۔
آفاق نے اپنی شہادت کی انگلی سے اسکا چہرہ اوپر کیا تھا ۔۔۔۔
مبارک ہو آپکو مسز آفاق آخر کر آپ نے آفاق کو بھی خود سے عشق کرنے پہ مجبور کر دیا  وہ عشق جو اب آتش عشق میں بدل گیا ہے ۔اور مضبوط ہو گیا ہے  تھنک یو میری زندگی میں آنے کے لئے یہ کہے کے اس نے مرحا کو خود میں بھنچ  لیا تھا اور چاند بھی ان دونوں کی ملن پہ مسکرایا تھا ۔۔۔
مثال آتش ہے، یہ روگِ محبّت
روشن تو خوب کرتی ہے،لیکن جلا جلا کر 

AsSalam O Alaikum umeed karti hun apko mera yeh novel pasand aya hoga plz parh ky apna feedback zaror dena apki writer sameera zahir......

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jun 09, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

محبّت آتش عشق  از  قلم سمیرہ ظاہر Where stories live. Discover now