پارٹ (2)

134 12 5
                                    

مرحا نے بریانی دم پہ لگایا ہوا تھا اور کلثوم بیگم کباب تل رہی تھی ۔وہ مسکراتی ہوئی کیچن میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔
السلام عليكم ۔!! میری پیاری پھوپھو زنیرہ کی آواز پہ کلثوم بیگم نے اپنا سر اوپر کیا تھا ۔وعلیکم السلام میری جان کہاں تھی کب سے تمارا انتظار کر رہی تھی میں ۔کلثوم نے پیار سے پوچھا تھا ۔۔۔۔
میں خود کو پیاری بنانے کی کوشش کر رہی تھی ۔کیسی لگ رہی ہوں میں ۔۔۔ زنیرہ کی بات پہ کلثوم بیگم کے چہرے پہ مسکراہٹ پہل گئی تھی ۔۔۔۔
ماشاءاللّه میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ۔۔الله نظر بد سے بچاےُ میری بیٹی کو ۔۔۔۔
استغفرالله ۔۔!! امی خدا کا خوف کریں یہ بندری اور پیاری توبہ امی مجھے ہارٹ اٹیک نا آ جائے اسکی جھوٹی تعریف سن کے۔۔۔!! کیچن میں آتے زوھان زنیرہ کی تعریف سن کے تپ گیا تھا۔۔۔
جل رہا ہے مجھ سے مینڈک مت جلا کر مینڈک کالے ہو جاؤگے زیادہ جل جل کے ۔۔۔زوھان کی بات سن کی مانو زنیرہ کو آگ لگ گئی تھی ۔۔۔۔
تم دونوں لڑنا بند کرو بچے نہیں ہو اب بڑے ہو گئے ہو ۔۔۔۔اور زنیرہ تم ادھر آؤ میری مدد کرو ۔۔۔دونوں کو چپ نا ہوتے دیکھ کے مرحا نے ڈانٹ کے چپ کروایا تھا ۔۔۔اسے پتا تھا یہ جب شروع ہو جاتے تو چپ ہونے کا نام نہیں لیتے ۔۔۔
زنیرہ زوھان کو گھور کے اپنے کام میں لگ گئی تھی۔۔۔۔وہ کھیر بنانے میں مصروف تھی جبکے مرحا وہاں سے چلی گئی تھی کسی کام سے ۔۔کھیر بنا کے وہ بادام کھیر کے اوپر رکھنے لگی تھی۔۔۔کہ ملازمہ کی بات پہ وہ چونک گئی تھی ۔۔۔۔
زنیرہ باجی آفاق بابا آ گئے ۔۔
جلدی سے کھیر کو ڈیزائن کر کے اس نے فریزر میں رکھ دیا تھا اور اپنا جائزہ لے کے کیچن سے نکل کے لیونگ روم میں آ گئی تھی ۔۔۔۔ السلام عليكم آفاق بھائ اس نے تقریباً چیختے ہوئے سلام کیا تھا آفاق کو ۔۔آفاق لمحے بر کے لئے ٹھٹک گیا تھا ۔۔دودھیا رنگت سفید بے داغ چہرہ ۔بادامی آنکھیں ۔ستواں ناک ۔مناسب قدوقامت۔۔۔۔ اور اوپر سے اس نے ریڈ اینڈ بلیک پاؤں کو چھوتا فراک اور اسکے ساتھ چوڑیدار پاجامہ پہنا ہوا تھا جس میں وہ اور بھی پیاری لگ رہو تھی۔۔۔ بلاشبہ وہ بہت پیاری تھی ۔۔آفاق کی نظر اسکے چہرے سے ہٹ کے کھولے بالوں پہ پڑ گئے تھے ۔۔لمبے بال اسکے کمر کو چھو رہے تھے ۔آفاق پلک جھپکانا بھول گیا تھا ۔۔۔وہ آہستہ آہستہ چل کے کلثوم بیگم کی پاس بیٹھ گئی تھی ۔بندری تم تھوڑا اور تیز چیخ کے سلام نہیں دے سکتی تھی کیا وہ جیسے ہی بیٹھی زوھان نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔
ہاں تو مینڈک تمیں کیا میں جو کروں میری مرضی زنیرہ کہاں پیچھے رہنے والوں میں سے تھی۔۔۔ہاں بھوکی چڑیل تم تو بیٹھی ہی ہو اپنی مرضی کرنے افریقہ کی ملکہ (وہ زنیرہ کو افریقہ کی ملکہ کہتا تھا جس سے زنیرہ کو بہت چڑ تھی )آفاق ان دونوں کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔۔زنیرہ بھی آفاق کی موجودگی کی پروا کئے بغیر شروع ہو گئی تھی زوھان کے ساتھ ۔۔پھوپھو دیکھیں اس زوھان مینڈک کو مجھے افریقہ کی ملکہ بول رہا ہے معصوم سی شکل بنائے وہ کلثوم بیگم سے شکائتں لگا رہی تھی تھی ۔۔آفاق اب بھی اسی کو دیکھے جا رہا تھا (وہ چودہ سال کی تھی جب آفاق نے اسے دیکھا تھا اور ابھی وہ بیس سال کی ہو گئی تھی اور آفاق پانچ سال اس سے بڑا تھا اسی لئے وہ آفاق بھائ کہتی تھی اسے ۔۔۔ مرحا بھی ہاتھ میں کولڈ ڈرنک پکڑے وہاں آ گئی تھی ۔سلام کر کے اس نے کولڈ ڈرنک آفاق کو دے دیا تھا ۔آفاق نے گلاس تھام لیا تھا لیکن اس نے ایک نظر بھی اس پہ نہیں ڈالا تھا ۔وہ بھی کلثوم اور زنیرہ کی درمیان بیٹھ گئی تھی ۔ ۔لیکن وہ یک ٹک آفاق کو دیکھے جا رہی تھی وہ کتنا بدل گیا تھا ان ساتھ سالوں میں ۔۔
اس نے وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ پہنا ہوا تھا ۔ اسکے بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے روشن سرمئ آنکھیں جن میں بندا ایک سیکنڈ بھے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ ۔چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔۔۔مرحا کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی ۔۔اس نے جلدی سے اپنے نظریں نیچے زمین پہ گاڑ دیے تھے ۔۔۔۔۔
پتا نہیں کیا کشش ہے اس شخص کی آنکھوں میں ۔
نظر انداز جتنی بھی کروں نظر اسی پہ ہی پڑتی ہے ۔۔۔۔۔
آفاق بیٹا آپ فریش ہو جایںُ تب تک میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔
اوکے مام وہ وہاں سے اٹھ کے چلا گیا تھا ۔مرحا کلثوم بیگم کے ساتھ کیچن میں چلی گئی تھی انکی مدد کرنے ...
زوھان اور زنیرہ موبائل کی طرف متوجہ تھے کے آسیہ بیگم اور ہانیہ بھی وہاں آ گئے تھے ۔(آسیہ بیگم کلثوم بیگم کی نند تھی)ہانیہ کو دیکھ کے جہاں زوھان کو خوشی ہوئ تو وہی زنیرہ دل ہی دل میں ہانیہ کو باتیں سنا رہی تھی۔۔۔
آسیہ بیگم نے زوھان کو پیار کیا تھا زنیر نے بھی انکو سلام دیا تھا انہوں نے عام سے لہجے میں اسے جواب دیا تھا جبکے ہانیہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے صوفے پہ بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔ایک نظر ہانیہ پہ ڈال کے وہ وہاں سے نکل آئ تھی ۔۔
کیا ہوا زونی اپسیٹ کیوں ہو ۔۔اسکا خراب موڈ دیکھ کے مرحا وجہ پوچھنے لگی اس سے ۔۔۔
آ گئی وہ ہانیہ ایکٹنگ کی دکان اور وہ زوھان بندر ایسے غور رہا تھا اسے واللہ دل چاہا وہی اسکے آنکھیں نکال دون ۔۔۔اسکی اس طرح کہنے سے مرحا اپنی ہنسی روکھ نہیں پائ تھی ۔۔۔۔
آپ اب کیوں ہنس رہی آپی حد ہے ویسے ۔۔۔۔۔وہ رونے والی شکل بنا کے کہ رہی تھی ۔۔۔۔۔
چلو چلو اچھی لڑکیوں کی طرح میری ہیلپ کرو مرحا نے اسے اپنے سامنے سے ہٹاتی ہوئی کہا تھا ۔۔۔۔۔کھانا لگا کے مرحا سبکو بلانے چلی گئی جبکے زنیرہ اپنا سیل فون پکڑے زوھان کی کمرے کی طرف بڑھنے لگی جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پونچی تو پل بھر کے لئے ہل نہیں سکی اپنی جگہ سے ۔۔۔
زوھان ہانیہ کا ہاتھ تھامے اسے دیکھ رہا بلکل قریب سے ایک انچ کا فاصلہ تھا دونوں کے درمیان ۔۔۔۔زنیرہ کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔آنسو اسکے آنکھوں سے رخسار پہ کسی آبشار کی مانند بہنے لگے ۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے پلٹ گئی تھی ۔آفاق جو اپنے کمرے سے نکل رہا تھا زنیرہ کو روتے ہوئے دیکھ کے وہی فریز ہو گیا تھا ۔۔۔
وہ روتی ہوئی معصوم بچی لگ رہی تھی ۔۔۔اپنے گالوں کو بےدردی سے رگڑتی ہوئی وہ نیچے جا رہی تھی کے اسکی نظر آفاق پہ پڑی جو اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔اسے مکمل طور پہ اگنور کر کے وہ سیڑیاں تیز تیز عبور کر کے اپنے گھر آ گئی تھی ۔۔۔۔آفاق کو حیران چھوڑ کے ۔۔۔
گھر آ کے وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی کمرے اندر سے لاک کر کے اس نے اپنا دوپٹہ بیڈ پہ پینک دیا تھا اور جلدی سے اپنے چوڑیاں نکالنے لگی کانچ کی چوڑی ٹوٹ گیا تھا اور اپنا زخم اسکے نازک کلائ پہ چھوڑ گیا تھا ۔۔آ۔ہ ۔درد کی وجہ سے وہ سسک گئی تھی ۔۔
اپنی دراز سے ایک ڈائری نکال کے اس پہ کچھ لکھنے لگی ۔۔۔۔(بچپن سے وہ ڈائری لکھتی آ رہی تھی جب بھی اسکے ساتھ کچھ ہوتا وہ اپنے ڈائری سے شئر کرتی تھی)
ڈیر ڈائری ۔۔!!
تمیں پتا ہے آج وہ کسی اور کے ساتھ تھا ۔۔آج وہ مجھے فراموش کئے کسی اور کے ساتھ تھا کیا میری محبّت میں اتنی طاقت نہیں کے وہ میری طرف دیکھتا ہی نہیں اس چڑیل کے علاوہ اسے کچھ نظر کیوں نہیں آتا ہاں میں۔۔ میں تو بچپن سے اسے چاہتی ہوں کیا میری محبّت میں سچائی نہیں ہے ۔۔۔میں کیوں اسے کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی ہاں ایسا کیوں ہے ۔۔۔اس کے ہاتھوں نے اب حرکت کرنا بند کر دیا تھا ۔۔۔
وہ اپنا سر ڈائری پہ رکھ کے کب نیند کی آگوش میں چلی گئ تھی سے پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔
زونی اٹھو کالج نہیں جانا کیا ۔۔
اسکی آنکھیں مرحا کی آواز سن کے نیم کھول گئے تھے ۔۔۔
زونی تم رات کو وہاں سے کیوں چلی آئ تھی بنا بتائے کتنا برا لگا تھا سبکو مرحا کی بات پہ اس نے اپنا سر جھکا لیا تھا ۔۔۔۔
آپی سر میں درد ہو رہا تھا اسی لئے آ گئی تھی مرحا کو جواب دے کے وہ باتھروم میں گھس گئی تھی جبکے مرحا اسے دیکھتی رہ گئی تھی( کچھ تو ہوا ہے جو تم چھپا رہی ہو زونی) مرحا سر جٹک کے کمرے سے باہر نکل آئ تھی ۔۔۔۔
السلام عليكم بابا جان عبّاس صاحب جو نیوز پیپر پڑھنے میں مصروف تھے ۔ زنیرہ کی آواز پہ انہوں نے نیوز پیپر تہ کر کے رکھ دیا تھا ۔
وعلیکم السلام بابا کی جان !!ادھر آؤ میرے پاس انہوں نے پیار سے اسے اپنے پاس بلایا تھا ۔۔۔۔وہ خاموشی سے چل کے انکے پاس آ کے بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
عبّاس صاحب نے بھی محسوس کیا تھا آج وہ کچھ خاموش تھی ۔۔
کیا ہوا میری بیٹی آج خاموش کیوں ہے ۔۔۔
بابا ابھی اٹھی ہوں نیند سے اسی لئے نیند پوری نہیں ہوئی شاید اسی لئے سر میں درد ہو رہا ۔۔۔
ویسے آپکو بڑی پریشانی ہو رہی کے میں خاموش ہوں ۔۔۔ویسے تو چلتے پھرتے کہتے رہتے تھے زونی بچی نا بنو زونی بڑی ہو جاؤ یہ وہ ۔۔اس نے جس انداز میں کہا تھا عباس صاحب کی ہنسی نکل آئ تھی ۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔نہیں نہیں تم بولتی رہا کرو تم سے اس گھر میں رونق ہے ۔۔۔انہوں نے پیار سے کہا تھا ۔زنیرہ انکی لاڈلی بیٹی تھی ۔زنیرہ میں انکی جان بستی تھی ۔۔۔زنیرہ انکے لئے ایک گلاب جیسی تھی ۔۔۔جسکی خوشبو سے یہ گھر مہک رہا ہوتا تھا ۔۔۔۔
چلیں بابا اللہ‎ حافظ میں لیٹ ہو رہی کالج کے لئے ۔۔۔
ارے بیٹا ناشتہ تو کرتی جاؤ ۔۔۔۔۔نہیں بابا میں کالج میں کھا لونگی کچھ ابھی لیٹ ہو رہی ہوں اپنا بیگ اور کوٹ ہاتھ میں اٹھا کے وہ تقریباً بھاگتی ہوئی گھر سے باہر نکل آئ تھی ۔۔۔۔
وہ جب مختار ہاؤس میں داخل ہوئی تھی تو دیکھا آفاق باہر بیٹھ کے ناشتہ کر رہا تھا اور کلثوم بیگم وہی پہ بیٹھی ہوئی تھی جبکے زوھان اپنا کوٹ اور گاڑی کی چابیاں ہاتھ میں لے ابھی باہر ہی آ رہا تھا ۔۔۔زوھان کو اگنور کر کے وہ سیدھا کلثوم بیگم کے پاس آ گئی تھی ۔۔
جاری ہے ۔۔۔!!

محبّت آتش عشق  از  قلم سمیرہ ظاہر Where stories live. Discover now