Episode : 22 (Last Episode)

2.3K 103 58
                                    

دن رات اسی صورت حال میں گزر رہے تھے اور ابراہیم کے جانے کے دن بھی قریب آرہے تھے اور وہ دن رات اسی تیاریوں میں مصروف تھا۔۔ نور اسے کالز میسجز کرتی شازو نادر ہی اس کی بات ہو پاتی۔۔ کیونکہ اس وقت ابراہیم کہیں باہر ہی ہوتا یا پھر کسی کے ساتھ ہوتا تھا۔۔
زکیہ بیگم نے اپنی بہن سے مشورہ کرنے کا سوچا اور اسی نیت سے انہیں فون کیا۔۔
انہوں نے ساری صورت حال بتائی اور پھر آخر میں اپنا خیال ظاہر کیا۔۔ اس خیال سے دونوں بہنوں نے آپس میں اتفاق کیا۔۔ اور یوں ان سے بات کرنے کے بعد زکیہ بیگم مطمئن ہوگئیں۔۔
                           ----
رات کا وقت تھا۔۔۔ فاطمہ میز پر کھانا لگا رہی تھی۔۔ جب کہ زکیہ بیگم گہری سوچ میں مصروف تھیں۔۔
"امی کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے تو بتائیں؟" ابراہیم نے متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔۔
"کچھ نہیں بیٹا بس سوچ رہی ہوں کہ کل ملک ولاز جاکر بات طے کر لوں۔۔۔"
"جی امی کیونکہ تین دن بعد میری فلائیٹ ہے اس لیئے جلدی ہی ہوجائے۔۔۔
"تو بس پھر ٹھیک ہے کل صبح مجھے وہاں لے جانا۔۔۔"
اور پھر سب خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔۔۔
                       ☆☆☆☆

عنیقہ بیگم۔۔۔ کہاں ہیں آپ بات سنیے۔۔
احسن صاحب انہیں آوازیں دینے لگے...
اتنے میں نور اور لائبہ سب لوگ وہاں آگئے۔۔۔
"جی بتائیے کیا بات ہے؟" عنیقہ بیگم صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔۔
دو تین گھنٹے میں آپا آرہی ہیں انہیں کچھ بات کرنی ہے تو کھانے میں دیکھ لیجئیے گا۔۔
"احسن صاحب آپ بے فکر رہیئے سب کچھ ہوجائے گا۔۔ آپ پریشان مت ہوں۔۔
"جب آپ جیسی بیگم ہوں تو اسے کیا پریشانی ہوسکتی ہے۔۔۔" احسن صاحب ہنستے ہوئے عنیقہ بیگم کو چھیڑنے لگے۔۔۔
اور عنیقہ بیگم ہنستی ہوئی وہاں سے چل دی۔۔۔
جب کہ نور کے دل کو پتنگے لگ گئے۔۔ کہ خدا خیر کرے۔۔ ایک پہلے ہی وہ ابراہیم کے باہر جانے سے افسردہ تھی اور اب اچانک سے پھوپو کی آمد۔۔۔ وہ دل ہی دل میں سب اچھا ہو کی دعا کرنے لگی۔۔
کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ذکیہ بیگم اور فاطمہ ملک ولاز آگئے۔۔ ذکیہ بیگم نے سب کو ملنے کے بعد مٹھائی کا ڈبہ انیکا بیگم کے ہاتھ میں تھمایا۔۔
انیقہ بیگم مٹھائی کا ڈبہ دے کر کچھ حیران سی رہ گئی جبکہ نور خوشی اور حیرانی کے ملے جلے جذبات میں گھر گئی۔۔
کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا, کھانا کھانے کے بعد احسن صاحب اور زوار صاحب کو فون کرکے گھر بلایا گیا۔۔
انکی آمد کے بعد نور ،فاطمہ لائبہ اور تیمور اندر کمرے کی طرف چلے گئے۔۔ جبکہ لاونج میں صرف بڑے ہی موجود تھے۔۔ زکیہ بیگم نے ساری روداد بیان کی۔۔ احسن صاحب اور عنیقہ بیگم پہلے تو ابراہیم کے باہر جانے کا سن کر کافی پریشان ہوگئے لیکن جب ذکیہ بیگم نے بتایا کہ اس کے جانے سے پہلے ان کی خواہش ہے کہ نور اور ابراہیم کا نکاح کردیا جائے۔۔
نکاح کا سن کر احسن صاحب اور انیقہ کے چہرے پر پر خوشگوار تاثر آئے۔۔
جبکہ زوار صاحب اور نازیہ بیگم نے خوشی خوشی ہاں کرنے کو بولا۔۔ سب کی باہمی رضامندی کے ساتھ ساتھ ابراہیم کے جانے سے ایک دن پہلے نکاح کا دن فائنل ہوا۔۔ اور خیر کی دعا مانگنے کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرایا گیا۔۔
زکیہ بیگم نے نور کو بلا کر اسے گلے سے لگایا اور پیار کیا۔۔
                       ☆☆☆☆
نکاح کا دن آن پہنچا تھا صبح سے ملک ولاز میں ہلے گلے کا ساماں تھا۔۔ سب کے چہروں پر خوشی رقص کر رہی تھی۔۔ ہر کوئی اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھا۔۔
ایسے میں نور بھی ابراہیم سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی وہ پارلر جانے سے پہلے ایک بار ابراہیم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ خدا خدا کرکے ابراہیم نے کال ریسیو کی۔۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد نور نے جھجکتے ہوئے اس سے پوچھا کہ آپ خوش تو ہیں۔۔؟
"ظاہری بات ہے خوش ہوں تبھی یہ نکاح ہو رہا ہے یہ کیسا سوال تھا نور۔۔؟ اب آپ میری بیوی بننے جارہی ہیں لہذا ڈاکٹر ابراہیم کی ہونے والی مسز بس تھوڑی میچور ہو جائیں۔۔" اور مسکرا دیا۔۔
نور بھی ہنسنے لگی۔۔ اور کال بندکردی۔۔۔
                            ----
نور بچے جلدی سے آ جاؤ پارس آپ کو پارلر چھوڑ کر آئے گا اور بھی بہت سے کام کرنے کو رہتے ہیں۔۔ جی مما آ رہی ہوں۔۔۔۔ وہ چادر سنبھالتی باہر آئی۔۔ جہاں انیکا بیگم لائبہ کو اس کے زیورات اور نکاح کا جوڑا تھما رہی تھی۔۔
انیقہ بیگم دعائیں پڑھ کر کر نور پر پھونکنے لگی۔۔ اور دعا کے ساتھ رخصت کیا۔۔
وہ دونوں جلدی جلدی گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی۔۔
پارس ان کو پارلر چھوڑ کر واپس گھر آ گیا کیونکہ اس کو ہال کا انتظام بھی دیکھنا تھا۔۔
                       ☆☆☆☆
ہال میں سب لوگ پہنچ چکے تھے کچھ دیر ہی گزری تھی تھی کہ ہال کے باہر آتش بازی کا شور اٹھا وہ سب لوگ ان کا استقبال کرنے دروازے پر پہنچ گئے۔۔
سب لوگ اندر آ چکے تھے۔۔
کچھ دیر بعد ہی نور کو سٹیج پر لایا گیا۔۔ اور مولوی نکاح پڑھانے لگا۔۔
جیسے ہی نکاح کی رسم ہوئی تو ہر طرف مبارک سلامت کا شور اٹھا۔۔۔ ذکیہ بیگم اور عنیقہ بیگم نے گلے لگ کر ایک دوسرے کو مبارک دی۔۔۔ جبکہ ابراہیم بھی مسلسل نور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھا۔۔ ہر طرف خوشی ہی خوشی تھی۔۔ اور اطمینان الگ۔۔ ابراہیم نے چپکے سے ایک خوبصورت نیکلس نور کو گفٹ کیا۔۔ نور کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔۔
جبکہ ابراہیم نے بہت ہی پیار سے اسے پچکارتے ہوئے کہا کے آج کے دن تو ایسا ظلم بالکل بھی نہیں کرنا۔۔۔ اور اس کی بات پر روتی آنکھوں سے مسکرا دی۔۔
رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا ہاں اور اس کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔۔
                           ----
ابراہیم کے جانے کا دن آ چکا تھا۔۔ سب ایئرپورٹ پر موجود تھے۔۔۔ نور چپکے چپکے آنسو بہا رہی تھی۔۔ اور مسلسل رونے کی وجہ سے اس کی ناک سرخ ہو چکی تھی
ابراہیم اس کے پاس آیا اس کے آنسو صاف کیے اور اس سے عہدوپیماں کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگیا۔۔
جاتے جاتے اس نے ہاتھ ملائے اور بولا کے میں جلد ہی واپس آؤں گا یہ کہہ کر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔
لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ وقت کیسی کروٹ لینے والا ہے۔۔
سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے جبکہ نور سیدھی  اپنے کمرے کی جانب چل دی۔۔ کسی نے اس کو کچھ نہ کہا کیونکہ اسے اس وقت اکیلے رہنے کی ضرورت تھی سب جانتے تھے کہ وہ ابراہیم کے جانے سے بہت اداس ہے۔۔
                        ☆☆☆☆
نور نے یونیورسٹی جانا سٹارٹ کر دیا احد اور باقی اسکی دوستوں نے اس کو نکاح کی مبارکباد دی۔۔ وہ خوشی خوشی مبارک باد وصول کرنے لگی۔۔
جبکہ افرا اس سے پوچھنے لگے کہ ابراہیم بھائی کا اسے رابطہ ہوا ہے یا نہیں۔۔
نور نے چپکے سے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
افرا اس کا جواب سن کر مطمئن ہو گئی۔۔
ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد دونوں اپنا آخری لیکچر لیکر گھر کی جانب چل دیں۔۔
گھر آگئے خاموشی سے اس نے کپڑے تبدیل کرکے کھانا کھایا اور لیٹ گئی۔۔
اس کا دل کہیں بھی کسی چیز میں بھی نہ لگ رہا تھا۔۔
یونہی دن گزرتے گزرتے ابراہیم کو گئے ایک ہفتہ بیت گیا۔۔ ایک ہفتے کے بعد اس نے گھر میں سب سے رابطہ کیا اور نور کو بھی فون کیا۔۔
نور اس سے بات کر کے بہت خوش ہوگی اور گلہ کرنے لگی کہ آپ وہاں جا کر تو مجھے بھول ہی گئے ہیں جبکہ ابراہیم نے اس کو وضاحت کے ساتھ بتایا ایسا کچھ بھی نہیں ہے دراصل میں بہت مصروف تھا یہاں اس لئے رابطہ نہیں کر پایا۔ اس کے لیے سوری لیکن آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ اوکے مسز ابراہیم حیات۔۔۔۔
اور اس کے آخری جملے پر پرسکون ہو گئی۔۔ تھوڑی سی مزید بات کرنے کے بعد فون بند ہوگیا۔۔
دن تیزی سے گزرنے لگے ابراہیم سے روز اس کی کبھی اسکائپ تو کبھی فون پر بات ہو جاتی تھی۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو اپنے دل کا حال بتاتے ایک دوسرے کو تسلی دیتے اور پرسکون ہو جاتے۔۔۔
اس دوران زکیہ بیگم بھی کبھی کبھی چکر لگا لیتی تھی۔۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا وقت تھوڑا اور آگے سرکا تو گھر میں پارس کی شادی کا شور اٹھا۔۔
گھر میں ایک رونق لگ گئی اور سب اس گہما گہمی میں مصروف ہو گئے نور ظاہری طور پر تو وہاں ہوتی تھی لیکن اس کا دل دماغ کہیں اور ہوتا تھا۔۔ یعنی وہ وہاں موجود ہو کر بھی وہاں نہ ہوتی تھی۔۔
سب اس کی حالت کو سمجھ رہے تھے لیکن کچھ بھی نہ کہتے تھے۔۔
وقت تھوڑا اور آگے بڑھا تو پارس کی شادی کا دن بھی آن پہنچا۔۔
نور بارات کے دن دل لگا کر تیار ہوئی۔۔۔ وہ باہر جانے کے لیے قدم بڑھانے ہی لگی تھی کہ ابراہیم کی کال آنے لگی۔۔ وہ خوش ہو گئی اور جلدی سے اس کی کال ریسیو کرکے اس سے بات کرنے لگی ابراہیم نے اس کی خوب تعریف کی۔۔۔ نور اس کی تعریف سن کر ایک دم تازہ دم اور خوش ہوگی۔۔
یوں ہی شادی کے تمام فنکشنز خیرو عافیت سے گزر گئے۔۔
                       ☆☆☆☆
زندگی روٹین پر آچکی تھی۔۔۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ابراہیم کے رابطوں میں رفتہ رفتہ کمی آنے لگی وہ جب شکوہ کرتی تو وہ ہر بار مصروفیت کا بول کر ٹال دیتا تھا۔۔ نور کبھی چپ ہوجاتی تو کبھی اس سے جھگڑ پڑتی لیکن ابراہیم کو کوئی فرق نہ پڑتا۔۔
نور کی ڈگری مکمل ہونے کو تھی اور ابراہیم کو گئے ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔۔
زکیہ بیگم بھی چکر لگا لیتی تھیں اور ابراہیم کا رابطہ نہ کرنے کی سو وجوہات بتاتی تسلی دیتی اور چلی جاتی۔۔۔
نور بس دن رات اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی یا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتی۔
آہستہ آہستہ ابراہیم کا رابطہ اور کم ہو گیا تھا وہ بہت پریشان رہتی لیکن کسی سے بھی اظہار نہ کرتی کہ ایسے سب خواہ مخواہ پریشان ہوجائیں گے۔
نور کے فائنل ایر کے پیپرز ہونے والے تھے اور وہ گھر پر تھی لیکن اسے کچھ نوٹس درکار تھے سو  اسی سلسلے میں وہ ڈرائیور کے ساتھ یونیورسٹی آگئی۔ وہاں سے نوٹس کاپی کرا کے کچھ بکس لائبریری سے ایشو کرا کے واپسی کے لیئے نکلی۔۔ ابھی اس نے گیٹ سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ اچانک سے اسے وہی لڑکی اپنی طرف آتی دکھائی دی جو اسے اکثر کبھی ابراہیم کے ہاسپٹل کے آس پاس تو کبھی کہیں دکھائی دیتی۔ نور اسے ان دیکھا کر کے گاڑی کی طرف بڑھنے لگی تبھی اس عورت کی آواز سنائی دی۔
"اے لڑکی رکو، رکو۔۔" وہ پیچھے سے مسلسل آوازیں دیتی آرہی تھی۔
نور رک گئی۔۔ اتنے میں وہ ہانپتی ہوئی اس کے قریب آگئی۔۔
"دیکھو لڑکی میں تمہیں ایک بار پھر کہہ رہی ہوں دور ہوجاو بچ جاو اس سے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی اور تم پھر بہت پچھتاو گی۔۔" وہ بات مکمل کر کے نور کی طرف دیکھنے لگی۔۔
جبکہ نور کے دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے ایک وہ پہلے ہی بہت پریشان تھی دوسری یہ باتیں۔۔وہ رو دینے کو تھی۔۔
"دیکھو تم جو کوئی بھی ہو مجھے تم سے کوئی سروکار نہیں نہ ہی میں جانتی ہوں کہ تم کس کی بات کر رہی ہو، میں اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں لہزا آئندہ کبھی میرے راستے میں مت آنا پلیز۔۔۔" نور پھٹ پڑی۔۔ اور گاڑی کی جانب چل دی۔۔
تم ایک دن خود آو گی میرے پاس دیکھنا تم بچ جاو تم اس دردندے سے۔۔۔ وہ بولتی رہی جبکہ نور گھر کی طرف چل دی۔۔۔
                           ☆☆☆☆
"ہیپی نکاح اینورسری ماہ نور"
نور کو احد کی طرف سے میسج موصول ہوا۔۔۔ وہ میسج کو دیکھتی رہی۔۔۔ اور حیران ہوئی کہ اسے آج بھی اس کے نکاح کی ڈیٹ یاد تھی۔۔
وہ انگلیوں پہ حساب کرنے لگی اسکے نکاح کو اور ابراہیم کو گئے ساڑھے چار سال مکمل ہونے کو تھے لیکن نور سے اس کا رابطہ ایک سال سے نہ ہونے کے برابر تھا۔ادھر نور دن رات جلتی کڑھتی رہتی۔۔ باقی سب اس سے پوچھتے ابراہیم کے بارے تو وہ خاموش ہو کر رہ جاتی۔۔
آخر بتاتی بھی تو کیا بتاتی کہ اس کا اس دشمن جاں سے کوئی رابطہ نہیں۔۔ جو وہاں جاکر اسے بھول ہی گیا ہے۔۔
زکیہ بیگم الگ پریشان رہتی کیونکہ احسن صاحب ان سے ابراہیم کے بارے پوچھتے کہ کب آئے گا وہ تاکہ وہ بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہوں۔  جبکہ زکیہ بیگم انہیں تسلی دے کر رہ جاتی۔۔ اور دل ہی دل میں سب اچھا ہونے کی دعا کرتی۔۔
وقت کا کام سرکنا سو وہ آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔۔ اب نور کے دل میں طرح طرح کے خدشات جنم لینے لگے تھے کبھی اسے وہ عورت کی باتیں یاد آجاتی تو کبھی اسے احد کی باتیں یاد آجاتی تھیں۔۔۔ اور پھر وہ ہر طرح کے خیال کو جھٹک کر خود کو مصروف کر لیتی۔ 
ایک دن نور دوپہر کو سو کر اٹھی تھی کہ ڈور بیل بجی۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد ان کا کام والی ماسی نے آکر نور سے کہا
"نور بی بی دروازے پر ڈاکیا آیا ہے اور وہ آپ کا نام کہہ رہا کہ آپ کے نام پہ ڈاک آئی ہے۔ نور پہلے تو حیران ہوئی پھر ایک سم سے پھرتی سے اٹھی دل میں خوش ہوئی کہ شاید کوئی ابراہیم کی طرگ سے لیٹر ہوگا یا شاید کچھ اور، وہ دل ہی دل میں خوش ہوتی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
اسے کیا معلوم تھا کہ اگلے ہی پل اس پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔۔
دروازے پر پہنچ کر اس نے دستخط کئیے اور لیٹر لیکر خوشی خوشی لاونج میں آگئی۔۔
دل میں ہزار طرح کے خواب سجائے وہ خط کھولنے لگی جیسے جیسے وہ کھول رہی تھی اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔۔
اس نے جیسے ہی وہ کھولا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اسے لگا کہ اس کی سانسیں رک سی گئی ہوں۔ کوئی آسمان تھا جو اس کے سر پہ ٹوٹ کر گرا وہ کانپتے ہاتھوں اور دھندلی آنکھوں سے اس کاغذ کو دیکھ رہی تھی جس نے اک ہی پل میں اس کی دنیا اندھیر کردی۔
اس کے ہاتھوں میں جو کاغز تھا وہ کچھ اور نہیں طلاق نامہ تھا۔ اسے لگا کسی نے اس کے اندر سے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔ وہ کاغز کو گھورتی رہ گئی۔۔ ساتھ میں ایک اور لفافہ تھا جس میں اس نے لکھا ہوا تھا
" مجھے معاف کرنا پر میں جانتا ہوں مشکل ہے لیکن میں آج تمہیں حقیقت بتاتا ہوں میں ڈاکٹر ابراہیم حیات جس پہ لاکھوں کروڑوں لڑکیاں مرتی ہیں جس کے ایک اشارے پر ہزاروں لڑکیاں جان دینے پہ تیار ہوجاتی ہیں اس ڈاکٹر ابراہیم کو تم نے نخرے دکھائے مجھے ریجیکٹ کیا۔۔۔ مجھے، مجھے جس کو جو چاہے مل جائے تو پھر تب سے تم میری ضد بن گئی تمہارا غرور اور تمہاری انا توڑنا میری ضد بن چکی تھی اور اس کے لیئے مجھے پتا نہیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے، میں اگر کرنے پہ آتا تو میں تمہارے ساتھ بہت کچھ غلط کر سکتا تھا جس میں ایک منٹ میں تمہاری ساری اکڑ طنطنہ ٹوٹ جاتا۔ پر میں نے تم پہ آہستہ آہستہ ڈورے ڈالے تمہیں اپنے پیار میں پاگل کیا اور آج دیکھو تم بھی مجھ پہ مرتی ہو کیونکہ ڈاکٹر ابراہیم کو کوئی بھی لڑکی انکار نہیں کر سکتی۔۔ اور ہاں ایک اور سچ سن لو اب تم سوچ رہی ہوگی کہ مجھے تم سے پیار محبت تھی تو تمہیں بتاتا چلوں مجھے تم سے کبھی محبت ہوئی ہی نہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر ابراہیم کو کوئی لڑکی زیر نہیں کرسکتی۔ میں صرف کچھ ٹائم کے لیئے دوستیاں رکھتا ہوں پھر چھوڑ دیتا ہوں اس لئے تمہیں بھی چھوڑ رہا ہوں کیونکہ میرا تم سے دل بھر چکا ہے۔ اس لیئے میں ابراہیم حیات اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ آج سے تم اس نام نہاد بندھن سے آزاد ہو۔ اللہ حافظ۔"
الفاظ تھے یا کوئی سیسہ، نور کو لگا کوئی اس کے کانوں میں انڈیل رہا ہے۔۔ وہ ایک دم زور سے چلائی اور رونے لگی۔۔۔ اتنے میں سب وہاں جمع ہوگئے۔۔ احسن صاحب جو ابھی گھر میں داخل ہوئے ہی تھے شور سن کر بھاگے آئے جب خط دیکھا تو ان کے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی اور وہ یوں ہی بیٹھے رہ گئے۔۔ نور روتے روتے بیہوش ہوگئی۔۔۔جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو اپنے کمرے میں پایا ساتھ اس کے لائبہ، اس کی بھابھی اور اریبہ تھیں۔۔۔ وہ چند لمحے چھت کو گھورتی رہی پھر اچانک لائبہ اور اریبہ سے پوچھنے لگی کہ مما پاپا کہاں ہیں؟  سن خاموش تھیں۔۔۔
وہ دوبارہ پوچھنے لگی تو اریبہ نے بتایا کہ پاپا کو ہارٹ اٹیک آیا ہے۔۔۔یہ سن کر نور کو لگا کہ وہ ابھی مر جائے گی۔۔ وہ رونے لگی۔ اریبہ اور باقی اسے تسلی دینے لگی کہ پاپا اب ٹھیک ہیں وہ شام تک گھر آجائیں گے تم پلیز رونا بند کرو نور۔۔
نور خود کو کوسنے لگی کہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ وہ روتے روتے پھر بے ہوش ہوگئی۔۔۔
                        ☆☆☆☆
قیامت آئی اور گزر چکی تھی اس واقعہ کو چھ ماہ بیت چکے تھے سب کچھ بدل گیا تھا اس دوران احسن صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔  جب کہ نور کو چپ سی لگ گئی تھی۔۔ وہ نہ تو کسی سے بولتی اور نہ کسی سے کوئی بات کرتی بس اپنے کمرے تک محدود رہتی۔ جبکہ عنیقہ بیگم الگ نڈھال تھیں ایک طرف جواں بیٹی کا دکھ اور دوسرا شوہر کا دکھ۔  وہ بس ٹوٹ سے گئیں لیکن حالات کے پیش نظر اور اپنے گھر اور بچوں کی خاطر خود کو سنبھال لیا تھا۔
وقت بہت بڑا مرہم ہے ہر زخم بھر دیتا ہے سب کچھ روٹین پہ آگیا تھا ایک نہ سنبھلی تھی تو وہ نور تھی۔۔ اس کے دل کو کسی طور پر قرار ہی نہیں تھا۔۔ اس کے پاپا کا دکھ اسے نڈھال کئیے جاتا اس کے دکھ کی وجہ سے اس کے پیارے پاپا ان سب سے بہت دور چلے گئے تھے جہاں سے واپسی نا ممکن تھی۔۔
وہ پھر رو دی۔۔۔۔ کیوں ابراہیم کیوں ایسا کیا؟ کیا بگاڑا تھا آخر میں نے تمہارا۔۔ وہ زارو قطار رونے لگی۔۔۔ پھر جب سکون نہ آیا تو پارس کے ساتھ اپنے پاپا کی قبر پہ آگئی۔۔ فاتحہ پڑھا اس نے اور تو کر معافی مانگنے لگی۔۔۔ پارس نے اسے بڑی مشکل سے سنبھالا اور گھر لے آیا۔ جیسے ہی گھر داخل ہوئی سامنے عنیقہ بیگم کے ساتھ زکیہ بیگم کو بیٹھے دیکھا وہ چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب زکیہ بیگم نے اسے آواز دی تو وہ ایک دم بپھری ہوئی شیرنی کی طرح مڑی اور پھٹ پڑی اور کہنے لگی
"اب اور کیا چاہتی ہیں سب کچھ تو چھن گیا ابھی بھی آپ کو اور آپ کے بیٹے کو سکون نہیں ملا جو دوبارہ ہمارے زخموں پہ نمک چھڑکنے آگئی ہیں آپ۔ پلیز پھوپو آپ چلی جائیے یہاں سے۔ ہاتھ جوڑتی ہوں میں آپ کے آگے۔۔ " نور ہانپ کر خاموش ہوگئی۔۔
جبکہ زکیہ بیگم دکھی ہوگئی کہ یہ نور تو وہ نور تھی ہی نہیں جو ہمیشہ ہنستی مسکراتی تھی اب اس کی جگہ تو یہ اور ہی نور تھی جس کی آنکھوں کے گرد حلقے اور پیلا زرد چہرہ۔۔ وہ اس کی حالت پہ دکھی ہوگئی اور ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔۔
"بیٹا میں تو خود بہت شرمندہ اور دکھی ہوں مجھے خود نہیں معلوم اس نے ایسا کیوں اور کس لیئے کیا۔ مجھے کچھ بھی علم نہیں۔۔ جبکہ نور چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف چل دی۔۔۔۔
                          ☆☆☆☆
دو سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔۔۔اس دوران لائبہ اور جہانزیب کی شادی بھی ہو چکی تھی سب نارمل ہو چکے تھے ایک نہیں تھی تو وہ نور تھی۔۔
"نور اٹھو یار باہر چلتے ہیں آئسکریم کھا کر آتے ہیں، لایبہ اسے اٹھانے لگی۔۔۔
"نہیں لائبہ تم لوگ جاو میرا موڈ نہیں ہے" نور بیزاری سے بولی۔۔
"تم اٹھ رہی ہو ورنہ میں زبردستی گھسیٹتی ہوئی کے جاوں گی۔۔ حالت دیکھو کیا بنا رکھی ہے۔۔ کب تک سوگ مناو گی اس کم ظرف انسان خی خاطر وہ تمہارے قابل تھا ہی نہیں۔۔" لائبہ ترشتی سے بولی۔۔۔
"اور تم شرافت سے سب اٹھ رہی ہو یا میں پھر زبردستی کروں" لائبہ نے ماحول ٹھیک کرنے کی خاطر ہنستے ہوئے اسے دھمکی آمیز انداز میں کہا۔
"اچھا بابا اٹھتی ہوں تم لوگ چلو میں فریش ہو کر آتی ہوں۔۔" نور اٹھتے ہوئے بولی۔۔
"گڈ گرل، یہ ہوئی نہ بات۔۔" لائبہ خوش ہوتے اسے جلدی آنے کی تاکید کرتے باہر چلی گئی۔۔
نور فریش ہو کر باہر آگی جہاں سبھی اس کا انتظار کر رہے تھے اسے دیکھ کر سب کے چہروں پہ مسکراہٹ در آئی۔۔۔ وہ بھی مسکرا دی۔۔
سب ہنسی خوشی چل دئیے۔۔ نور گاڑی کا شیشہ نیچے کیئے آئسکریم کھا ہی رہی تھی کہ اچانک سے وہ لڑکی نمودار ہوئی۔۔ نور اسے دیکھ کر ایک دم سے ڈر گئی اور وہ لڑکی اسے دیکھ کر ہنسنے لگی۔۔
"کون ہو تم آخر کیا چاہتی ہو مجھ سے کچھ نہیں رہا اب میری زندگی میں سب ختم ہوگیا ہے پلیز میری جان بخش دو مت آیا کرو میرے راستے میں۔۔" نور التجائی انداز میں بولی۔۔
"میں جانتی ہوں تمہارے ساتھ کچھ بہت غلط ہوا ہے جس وجہ سے تم بہت افسردہ ہو۔۔ مجھ سے ایک دفعہ مل کر میری بات سن لو پھر کبھی تمہارے راستے نہیں آوں گی۔۔"
"ٹھیک ہے میں کل اسی جگہ آوں گی ملنے۔۔۔" نور اسے وقت بتانے لگی اور چل دی۔۔۔
                           ----
اگلے دن ٹھیک تین بجے نور اسی آئسکریم پارلر پر موجود تھی اور وہ عورت وہاں پہلے سے ہی موجود تھی۔۔
کچھ دیر گزری تھی وہ لڑکی بولنے لگی
"میرا نام بریرہ ہے اور میں بھی ڈاکٹر ہوں ابراہیم کی کلاس فیلو تھی میں میرے پیرنٹس اور شہر میں رہتے ہیں میں یہاں اپنی ایک آنٹی کے ساتھ رہتی تھی۔۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا پھر ابراہیم میرے آگے پیچھے پھرنے لگا بقول اس کے پورے ڈیپارٹمنٹ کی سب سے خوبصورت لڑکی میں ہی ہوں۔۔لیکن میں نے اسے لفٹ نہ کرائی وہ مسلسل میرے پیچھے لگا رہا آخر مجھے بھی آہستہ آہستہ اس سے محبت ہونے لگی، اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا۔۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ میں اس کے جال میں پھنس چکی ہوں تو اس نے ایک دن مجھے گھمانے کا بہانا کرکے کسی ہوٹل لے جاکر موقع کا فائدہ اٹھا کر میرے ساتھ زبردستی کی اور مجھے وہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا۔۔ تب میں بہت رقئی تڑپی مگر بے سود۔
جب اس سے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ لڑکیاں بدلنا اس کی عادت ہے اور اس کی ہابی بھی۔۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ وہ میرے ساتھ اتنا گھناونا کام کرے گا۔ میری زندگی برباد کردی اس نے۔ اس لیئے میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ کسی اور کی زندگی خراب کرے۔ تبھی جب میں نے تمہیں اس کے ساتھ دیکھا تو تمہیں بچانے اور روکنے کی کوشش کرتی تھی مگر تم ہمیشہ وہاں سے بھاگ جاتی تھی اور ابراہیم نے ایک دن مجھے دھکے دیکر وہاں سے نکلوا دیا۔۔جب میں نے اسے روکنا چاہا۔۔
مجھے نہیں معلوم تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن جو بھی ہوا مجھے اس کے لیئے بہت افسوس ہے۔۔" وہ اپنی ساری روداد سنا کر رودی۔۔
نور اس کی دکھ بھری داستان سن کر خود بھی رو دی۔۔ اور اسے بتانے لگی کہ ابراہیم اس کا پھوپو زاد کزن ہے اور ساری روداد سنا دی۔۔۔
"مجھے بہت دکھ ہے کہ تم اس کی اپنی ہوتے بھی اس نے خیال نہیں کیا وہ انسان نہیں بلکہ انسان کے روپ میں درندہ ہے اس نے میری عزت کو پامال کیا میری زندگی خراب کی تمہاری کی اور پتا نہیں کتنوں کی وہ کبھی خوش نہیں رہ پائے گا وہ ضرور پچھتائے گا ایک دن تم دیکھنا۔ تب کوئی بھی نہیں ہوگا اس کے ساتھ۔۔۔ وہ اسے تسلی دینے لگی۔۔۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد بل ادا کر کے نور وہاں سے شکستہ حال نکل پڑی وہ یوں ہی روڈ پر چل رہی تھی کہ احد نے پاس آکر گاڑی کا ہارن دیا۔ نور ایک دم چونکی، احد نے گاڑی کے شیشے نیچے کیئے اور بولا میں آپ کو گھر تک ڈراپ کر دیتا ہوں آپ ٹھیک نہیں لگ رہی اور ایسی حالت میں آپ کا یوں اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔۔
نن نہیں میں خود چلی جاوں گی۔۔نور نے صاف انکار کیا۔۔
کہا نہ کہ میں ڈراپ کردیتا ہوں بیٹھیں آپ۔۔۔" اس ے دوبارہ اصرار کرنے پر نور گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔سارا راستہ خاموشی سے کٹا لیکن احف گاہے بگاہے کن اکھیوں سے اس پہ نظر ڈال لیتا۔۔
گلا کھنکارتے ہوئے اس نے کہا کب تک یوں ہی ڈپریس رہو گی اپنے آس پاس دیکھو کوئی ہے جو آج بھی تمہارا شدت سے منتظر ہے مگر تم نے کبھی جانا ہی نہیں۔۔۔ صرف ایک بار ، ایک بار چانس تو دے کر دیکھو۔۔
اتنے میں نور کا گھر آگیا اور وہ ہونٹ بھینچے خاموشی سے گاڑی سے اتر کر گھر چل دی۔۔۔
اپنے کمرے میں آکر ایک بار پھر وہ بے تحاشا روئی۔۔۔ نماز پڑھی۔۔۔  نماز پڑھ کر وہ پرسکون سی ہوگئی اور سوگئی۔۔۔ اس حادثے نے اسے عشق حقیقی کے قریب کردیا تھا۔۔ اور وہ اسی طرح ہمیشہ اللہ کے آگے اپنے دل کا سارا حاک بیان کر کے پرسکون سی ہو جاتی
                         ☆☆☆☆
دن پر لگا کر تیزی سے اڑنے لگی کہ ایک روز اس کی سب سے اچھی اور قریبی دوست ملنے آئی اسے اپنی شادی کا کارڈ دینے۔۔ نور اس سے مل کر بہت خوش ہوئی ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد افرا اسے احد کے بارے سمجھانے لگی کہ
"نور وہ بہت پسند کرتا ہےتمہیں سچی محبت کرتا ہے تم سے اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ خود کی زندگی کو گھٹن آمیز مت بناو اس کی خاطر جس نے تمہاری قدر نہیں کی بلکہ وہ تمہارے قابل تھا ہی نہیں۔۔"
"افرا پلیز مجھے اس ٹاپک پہ کوئی بات نہیں کرنی۔ اور رہی بات شادی یا محبت کی تو میرا مرد ذات اور محبت شادی سب سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں پلیز ختم کرو یہ بات۔۔۔" نور تھکے انداز میں بولی۔۔
افرا خاموش ہو گئی۔۔ اور اپنی شادی کی باتیں کرنے لگی۔۔  کچھ دیر کے بعد وہ واپس چلی گئی۔۔۔ ایک دو دن بعد پھر افرا نے فون کر کے اسے احد کے حوالے سے سوچنے کے لیئے مجبور کیا۔۔۔ نور نے غصے سے فون بند کردیا۔۔
دن یونہی بے کل سے گزرنے لگے کہ ایک شام کو احد کی کال آئی نونر نے تین چار اگنور کیا مگر وہ بھی تواتر سے کال کیئے جارہا تھا۔۔
آخر کار زچ ہوکر نور نے فون ریسیو کیا۔۔
"جی فرماو کیا مسئلہ ہے آخر تمہیں جب ایک بار ریسیو نہیں کی تو مطلب صاف ظاہر ہے کہ مجھھ بات نہیں کرنی۔۔" نور درشتی سے بولی
لیکن مجھے تو کرنی ہے نہ یار، ایک بار میری بات سن لو پھر تمہاری مرضی۔۔
ٹھیک ہے کہو۔۔۔
"ماہ نور میں کوئی فلمی باتیں یا ڈائیلاگ نہیں بولوں گا۔صاف بات ہے میں تمہیں پسند کرتا ہو بہت زیادہ چاہتا ہوں اور تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاپتا ہوں میں اب سے نہیں تب سے چاہتا ہوں جب میں نے تمہیں پہلی بات کیفے میں دیکھا تھا اسی ایک پل میں تم میرے دل میں اتر گئی۔۔ اور میں نے تہیہ کر لیا کہ میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کروں گا۔۔ لیکن پھر تمہاری زنگی میں کوئی اور آیا تو میں پیچھے ہٹ گیا کیونکہ تم بہت خوش تھی اور تمہارہ خوشی میں ہی میری خوشی تھی لیکن میں نے ابراہیم کو جب کسی لڑکی کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بیٹھے دیکھا تو مجھے لگا کچھ غلط ہے تمہیں بتایا لیکن تم نے یقین نہیں کیا تو میں خاموش ہوگیا کہیں تم کچھ غلط نہ سوچو۔۔
اب جب اتنا کچھ ہوگیا تو میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں دل سے میں وعدہ کرتا ہوں تمہاری زندگی سے ہر دکھ نکال دوں گا بس ایک بات یقین کر کے دیکھو پلیز۔۔۔" وہ اپنی بات پوری کرکے خاموش ہوا تو نور نے بنا کچھ کہے کال بند کردی۔۔ اور احد ٹھنڈی سانس بھرے فون کو تکتا رہ گیا۔۔
لیکن اس نے ہمت نہ ہاری بار بار کوشش کرتا رہا۔۔ آخر کار سات ماہ بعد قدرت کو اس پر رحم آ ہی گیا تھا نور نے اس کی بات پر ہامی بھر لی اپنی مما سے مشورہ کرنے کے بعد، اور  احد کو اپنے پیرنٹس کو بھیجنے کا کہا۔۔
ایک ہفتے کے بعد احد کی والدہ اور تایا تائی باضابطہ طور پر احد کے لیئے نور کا رشتہ مانگنے آئے۔۔
عنیقہ بیگم نے انہیں ساری سچائی بتائی۔۔۔
احد کے گھر والوں نے بتایا کہ احد انہیں پہلے ہی سب بتا چکا ہے اس سب کے بعد بھی ہم آپ کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر لے جانا چاہتے ہیں۔
عنیقہ بیگم ان کی سادگی، سچائی اور محبت پر نہال ہوگئی اور سب سے مشورہ کرنے کے بعد تھوڑی پش و پیش کے بعد ہاں کردی۔۔۔
گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔
آناً فاناً  سب کچھ طے ہوگیا۔۔۔
چٹ منگنی پٹ بیاہ والا حال ہوا۔۔۔۔ اسی اثناء میں شادی کا دن بھی آن پہنچا تھا۔۔
نور دلہن بن کر بہت پیاری لگ رہی تھی اس پر بہت روپ آیا تھا۔۔ احد بھی ہینڈسم لگ رہا تھا چاند سوج کی جوڑی تھی دونوں کی۔۔۔سب نے خوب تعریف کی۔ نکاح کی رسم ہوئی نکاح کے بعد رخصتی کا وقت آیا۔۔ جب احد کی والدہ نے عنیقہ بیگم سے کہا
ہمیں اجازت دیں عنیقہ بہن۔۔ عنیقہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ خوشی کے آنسو تھے۔۔
پارس اور جہانزیب جب اس سے ملنے آئے تو وہ بلک بلک کر روئی دونوں بھائیوں نے خوب پیار کیا  پھر لائبہ اریبہ سب باری باری ملے۔ آخر میں عنیقہ بیگم نے خوب بلائیں لی اور ڈھیر ساری دعائیں دے کر بیٹی کو رخصت کیا۔۔
                         ☆☆☆☆
ساری رسومات کے بعد نور کو اس کے کمرے میں لایا گیا۔۔ وہ بہت زیادہ تھک چکی تھی اس لیئے اس نے آنکھیں موند لی۔۔
اور احد کے بارے سوچنے لگی۔ اس کے دل میں ہزار وسوسے اور خدشات جنم لے رہے تھے۔۔
اس نے خود کو آئینے میں دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ ایسے میں ایک دم سے اسے ابراہیم یاد آگیا۔۔ اس نے جلدی سے اس کا خیال جھٹکا۔۔
اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
احد اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔۔ اس نے خوبصرت مخملی ڈبیا اس کی طرف بڑھائی نور نے تھام کی دیکھا تو بہت خوبصورت ڈائمنڈ رنگ تھی۔۔ اس نے تھینکس بولا۔۔
احد نے اس کی بے تحاشا تعریف کی نور اپن اس قدر تعریف پر جھینپ سی گئی۔۔
احد نے اس سے بہت سارے وعدے کیئے۔۔ وہ پرسکون سی ہوگئی۔۔
اگلے دن رسم کے لیئے وہ اپنے پیرنٹس کے گھر گئی وہاں اس کو خوش دیکھ کر باقی سب بھی بہت خوش ہوئے۔۔۔
لائبہ اسے کمرے میں لے گئی اور اس سے پوچھمے لگی کہ وہ خوش تو ہے نہ احد نے کوئی طعنہ تو نہیں دیا۔۔ نور نے اسے بتایا کہ احد بہت اچھا ہے اور وہ خوش ہے۔۔ تو لائبہ مطمئن ہوگئی۔۔ اور اسے بتانے لگی کہ ابراہیم کے بارے میں خبر ملی کہ اس نو وہاں شادی کی تو اس کی بیوی اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی اور ابراہیم کو کسی کیس میں پھنسا کر اسے جیل میں بند کروادیا۔۔۔ اب وہ بہت پچھتا رہا ہے۔۔
نور نے اس کی بات سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دھیمے سے بولی کہ شاید اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔۔ اس نے باقی سب کے ساتھ جیسا کیا ویسا صلہ ملا اسے۔۔
یوں وہ ایک خوبصورت شام گزار کر کھانا کھا کر وہ احد کے ساتھ واپس آگئی۔۔
گھر آکر اس نے احد کو بات بتائی۔۔
تو احد نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ تم زبردستی مجھ سے محبت کرو پر ہاں ایک وعدہ ضرور کروں گا میں تمہیں اتنا خوش رکھوں گا کہ تمہاری زندی میں کوئی دکھ نہیں رہے گا تمہاری زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گا میری ساری چاہتوں کی وارث ہو تم۔۔
اور میری محبتوں کا سفر تو تم سے ہی ہے اور ہمیشہ تم تک ہی رہے گا۔۔
نور اس کے اس قدر والہانہ اظہار اور محبت پر اپنے رب کی مشکور ہوگئی اور پرسکون ہوکر احد کے سینے سے سر ٹکا لیا اور آسودگی سے آنکھیں موند لیں۔۔
اسے یقین تھا کہ محبت کے اس سفر میں اس نے سچی محبت کو ڈھونڈ ہی لیا ہے۔۔۔۔
                     ☆☆☆☆
                               ختم شد۔۔

Assalam O Alaikum..
Hope u guys r fine shine..🥰
Here's last episode... i know it's too late.. Bas masroofiyat ki bina pe tine hi nahi mill pata tha.. But finally aj post krdi..
Ap sab k reviews ka ab shiddat se intazar rahay ga...k apko last episode kesi lagi. Ap logon ne kia socha tha kesa laga end or overall novel kesa laga...
Dont forget to share ur valuebale rewies guys...
Nd nd dont forget to tap the star button at the corner of ur screen..
Thank you !!!😊

"محبتوں کا سفر تم سے ہی"Where stories live. Discover now