قسط 06

38 3 0
                                    

انٹرنیٹ بلاک ہے۔۔ لیپ ٹاپ پہ نمودار ہوتے ٹرائی اگین کا نشان ان کی محنت اور کاوشوں کو منہ چڑا رہا تھا۔
لگتا ہے ان لوگوں نے جیمرز استعمال کئے ہیں۔ارون کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے حل سوچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اب ہمیں ہر صورت یہاں سے زندہ نکلنا ہے ورنہ آج پھر ایک بار برائی جیت جائے گی۔۔۔ زونیا بڑبڑائی۔
۔۔۔۔
میں نے سنا ہے جب جہاز مشکل میں ہوتے ہیں سفید رنگ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہیں جسے دیکھ کر دوسرے جہاز مدد کو پہنچتے ہیں۔ لائبہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
ہم یہ نہیں کرسکتے۔۔ باذل دو لفظ کہہ کر پھر سے کچھ مشینوں میں جٹ گیا۔
عجیب آدمی ہے ۔۔۔لائبہ غصے سے دونوں ہاتھ اس کی طرف بڑھائے جسے گلا دبا دے گی۔
کوئی مشکل میں گھرے جہاز کی مدد کرسکتا ہے لیکن جس جہاز کو ڈاکؤں نے یرغمال بنا لیا وہ بھی جدید اسلحے کے ہمراہ تو ان کی مدد کو کون آئے گا۔
پریشے گہری سوچ میں تھی۔
۔۔۔۔
میرے پاس ایک آئیڈیا ہے ۔۔۔ یہ پین ڈرائیو لیں اور آپ لائف بوٹ لے کر نکل جائیں۔ اس میں میں نے سارے کیس کو آرٹیکل رپورٹ کی صورت میں بنادیا ہے۔ ساتھ میں ایک فائل الگ سے تیار کر دی ہے جس میں میں نے لکھا ہے میں نے کون سا ثبوت کہاں چھپا کر رکھا ہے۔
میں خود کو ان لوگوں کے حوالے کردوں گی۔ ان کی تلاش ختم ہوجائے گی اس کا فائدہ اٹھا کر آپ یہاں سے نکل جائیں۔
ارون نے ایک نظر اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا۔ جو دوسروں کی جان بچانے کیلئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھی۔ چہرے پہ نا کوئی خوف تھا نا کسی قسم کی گھبراہٹ۔
تم چاہتی ہو تمھارا مشن کامیاب ہوجائے اور میرا فلاپ۔۔ سینے پہ ہاتھ باندھتے ہوئے وہ سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ میں سمجھ نہیں پارہی ہوں۔۔
تمھیں کچھ ہوگیا تو میرا مشن فلاپ ہوجائے گا نا۔۔ لیکن تمھاری یہ پین ڈرائیو نیول والوں تک پہنچ گئی تو تمھار مشن پورا ۔۔
دیکھیں ابھی آپ مجھے سمجھا رہے تھے یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے اور اب آپ خود ہی ایسے کر رہے ہیں۔ وہ لوگ مجھے تب تک نہیں ماریں گے جب تک انہیں پوری طرح سے یقین نا ہوجائے کہ انہوں نے ثبوت مٹا دیئے ہیں۔ انہیں ثبوت چاہیے ہیں اور ہمیں وقت۔۔ میرے ملنے سے ان کی تلاش تھم جائے گی اور آپ پر ان کا دھیان نہیں جائے گا۔
چلیں جلدی کریں لائف جیکٹ یہیں کہیں رکھی ہوگی۔ ہاں وہ اوپر والے حصے میں رکھی تھی ہم نے۔۔ یہ لیں، اس کو پہنیں اور جب تک میں ان لوگوں تک نا پہنچ جاؤں آپ باہر نہیں نکلیے گا۔
اور تمھیں لگ رہا ہے زونیا کے میں تمھیں ان کے حوالے کر کے چلا جاؤں گا۔۔ اتنی دیر سے تمھیں بچانے کی کوشش اسی لئے کر رہا ہوں میں ۔۔
آپ میری بات نہیں سمجھ رہے ہیں۔۔خود بتائیں ہمارے پاس اور کوئی آپشن ہے کیا ؟
وہ لوگ وہاں اوپر مسافروں کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں۔ اوپر سے ہم ان کے خلاف ثبوت ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرسکتے کیوں کیونکہ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں ۔۔ آپ ہی بتائیں مجھے میں کیا کروں۔۔زونیا تھک کر بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی۔
کوئی آپشن ہو نا ہو میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہیں کرسکتا یہ آپشن ہے ہی نہیں تم بھی اپنے دماغ سے نکال دو۔۔ اٹل لہجے میں فیصلہ سنادیا گیا۔
۔۔۔۔
ارے واہ باذل آپ تو کمال کے نکلے مجھے نہیں پتا تھا ٹی وی اینکرز یہ سب بھی کرسکتے ہیں۔ پریشے کی زبان سے بے اختیار ادا ہونے الفاظ تھے جس کی وجہ اس کمرے کا دوبارہ متحرک ہوجانا تھا،  وہ کمرے میں مکمل روشنی اور کچھ مشینوں کو دوبارہ ورکنگ میں لے آیا تھا۔
بس یہ والا پینل بھی ٹھیک ہوجائے پھر ہم ان سمندری ڈاکؤں کی بینڈ بجادیں گے۔مگر یہ ارون پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے؟ پہیہ چلاتے حداب نے کہا
میں نے مکینکل انجینئرنگ کی ہے اور دو سال پاکستان نیوی میں بطور انجینئر بھی کام کیا ہے۔ باذل نے فخر سے اپنے بارے میں بتایا۔
اوہ مجھے تو لگا آپ شاید صرف تیار ہوکر کیمرے کے سامنے بولتے ہی ہیں۔ ایک ڈیسک پہ چڑھ کر ناک پہ کپڑا رکھ کر بیٹھی لائبہ نے جملہ ٹانکا۔
لیکن یہ ساری مشینیں صحیح کرنے سے کیا ہوگا؟ پاکستان نیوی کا کیا کوڈ ہے وہ ڈھونڈ کر ہم وائر لیس سے ان سے رابطہ نہیں کرسکتے۔۔ لائبہ نے ایک بار پھر کچھ سوچ بچار کے بعد اپنی بات رکھی۔
ہم یہ نہیں کرسکتے۔۔ باذل ہمیشہ کی طرح اپنی بات کہہ کر پھر سے کام میں لگ گیا تھا۔
یہ کیا طریقہ ہے میں جو آئیڈیا دوں وہ ہم نہیں کرسکتے۔ مگر جو آئیڈیا خود کا ہو ہم وہ مانیں بھی اور کریں بھی واہ۔۔ لائبہ شدید غصے میں تھی۔
ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ ارون کا آئیڈیا ہے۔ ہم یہاں زونیا کو بچانے آئے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس کوئی پلان نہیں تھا ایسا کیونکہ ہمیں ہمارے دشمن کے لاحئہ عمل کی خبر نہیں تھی۔ مگر جیسے ہی ارون نے سمندری ڈاکو دیکھے اس نے ہمیں جو کرنے کو کہا ہم وہی کر رہے ہیں اس کے مطابق ہم اس وقت جو کر رہے ہیں یہ پلان بی ہے اور اگر وہ اپنا پہلا  پلان پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تب ہم اسے عمل میں لائیں گے۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم مکمل طور پہ تیار ہوں تاکہ اس کا اشارہ ملتے ہی عمل کر سکیں۔ حداب نے نہایت تحامل اور ادب سے لائبہ کو سمجھانے کی سعی کی تھی جو کسی حد تک کام کر گئی تھی۔ مگر وہ باذل سے اب بھی غصہ تھی۔
۔۔۔۔
دیکھو مس دیوان ہم جانتے ہیں تم یہیں کہیں ہو اس لئے جہاں کہیں بھی ہو چپ چاپ باہر آجاؤ ورنہ ہر دس منٹ پہ ایک مسافر مارا جائے گا۔ لیکن اگر ہم نے تمھیں ڈھونڈ نکالا تو یہاں کوئی ایک مسافر زندہ نہیں جائے گا۔ سب مریں گے۔ ایمرجنسی اسپیکرز میں انگریزی زبان میں اعلان کیا جارہا تھا۔
مس زونیا دیوان۔۔ ہم تم سے ہی مخاطب ہیں۔۔ تمھارے پاس صرف 10 منٹ ہیں اور تم اپنے 3 منٹ ضائع کرچکی ہو۔
میں نے کہا تھا نا آپ سے۔۔ میں جارہی ہوں۔۔
رکو۔۔ایسے پینک کرنے سے کیا ہوگا؟ کچھ سوچنے دو۔۔
ہاں۔۔ بیٹھو یہاں اور میری بات دھیان سے سنو۔۔ جو میں کہہ رہا ہوں بس ویسے ہی کرنا اور ڈرنا نہیں میں تمھیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ یاد رکھنا اگر مجھے کچھ ہوجائے تو بھی میرے کچھ لوگ یہاں ہیں وہ تمھیں یہاں سے لے جائیں گے۔
پریشان نہیں ہو اور دماغ پہ زیادہ زور نہیں ڈالو تم ابھی کمزور ہو زہر کے اثر سے تمھارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں پہ بھی اثر پڑا ہوگا اسٹریس لوگی تو پھر خون میں گردش ۔۔
تو کیا زہر اب تک میری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔۔ زونیا نے دونوں ہاتھون کو اپنی نگاہوں کے سامنے کیا۔
میں نے اینٹی ڈوڈ دیا تھا مگر میں سائیڈ ایفیکٹ کی بات کررہا ہوں۔ ارون کے الفاظ اس کے لہجے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، شاید زہر اب بھی زونیا کے جسم میں گردش کر رہا تھا۔
۔۔۔۔
رک جائو ۔۔ میں یہاں ہوں۔۔ آٹھویں منزل پہ موجود ہال میں مسافروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ جہاز میں ہلچل ہورہی تھی پورے جہاز کا سامان باکسز میں بند کرکے نکالا جارہا تھا۔ کچھ اہلکاروں نے کمرے سے نکلتے ہی زونیا کو اپنے نرغے میں لے لیا تھا اب وہ اس کو وہاں لے گئے جہاں ان کا باس اور ڈاکؤں کا سرغنا موجود تھا۔
مسافروں سے کھچا کھچ بھرے ہال اور اس سرغنا کے درمیان شیشے کی دیوار حائل تھی۔ جس سے آوازیں یہاں کی وہاں اور وہاں کی یہاں نہیں آسکتی تھیں۔
تم لوگوں کو میں چاہیے تھی میں آگئی ہوں اب سب کو چھوڑ دو۔۔ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی زونیا نے درخواست کی جہاں اس کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پہ ایک عدد نائلون کی ڈور سے باندھے تھے جو شاپنگ مالز میں سامان کے پیکٹ کو سیل کرنے کیلئے لگائی جاتی ہے۔ جو اس زرا سی دیر میں اس کی کلائیوں میں گھس چکی تھی کیونکہ اتنی مضبوطی سے باندھی گئی تھی ہلکی سی جنبش بھی اسے مزید اندر دھنسا دیتی تھی۔
ارے نصیب ہمارے ۔۔ آپ پدھارے ہمارے آنگنا میں۔۔ پردے کے پیچھے سے ایک آدمی نمودار ہوا۔ جو ایک بلکل صاف اردو یا پھر ہندی بول رہا تھا۔
کون ہو تم اور مجھے یہاں ایسے کیوں رکھا ہے کیا چاہیے۔۔ بندوق کی نال سر ہلا کر دور کرنے کی کوشش کی مگر لاحاصل۔
ارے ہلنا جلنا بند کرو جو ہاتھ میں بندھا ہے نا وہ کلائی کاٹ کر اندر گھس جائے گا۔ پھر لوگ کہیں گے ہم کتنے ظالم ہیں۔۔
آرام سے بیٹھ جاؤ شاباش اچھے بچوں کی طرح اور بتاؤ ہماری امانت کہاں چھپا کہ رکھی ہے۔۔ کچھ دور صوفے پہ بیٹھ کر ٹانگ پہ ٹانگ ڈالے زونیا سے سوال کر رہا تھا۔
کیسی امانت کون سی امانت میرے پاس کچھ نہیں ہے۔زونیا نے صاف انکار کردیا۔
ٹھیک ہے لگتا ہے مس دیوان کی یاداشات چلی گئی ہے۔جاؤ زرا باہر سے کسی کو لے کر تو آؤ ۔۔۔ پاس کھڑے ایک آدمی کو باہر سے ایک مسافر کو اٹھا لانے کو کہا۔
مار دو اسے۔۔ تھوڑا وزن کم ہوجائے گا جہاز کا۔۔
رک جاؤ پلیز کسی کو کچھ مت کرنا میں نے کہا نے مجھے کچھ نہیں پتا ۔۔
اچھا تو یہ میڈم ہم سے کہانی سننا چاہتی ہیں۔۔ تو سنو ۔۔ 28 اکتوبر کی رات کراچی پورٹ پہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اندھیری رات میں وہاں آئے تھے۔ جہاں انہوں نے وہ دیکھا جو نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ بڑے ہی بدتمیز قسم کے بچے تھے جہنوں دوسروں کی باتوں کو نا صرف کان لگا کر سنا بلکے کیمرہ لگا کر دیکھا بھی۔۔ اب یاد آگیا ہو تو ہماری امانت واپس کردو۔
میں سچ کہہ رہی ہوں میرے پاس کوئی ویڈیو نہیں ہے،جو بھی تھی جگّو کے پاس تھی اور وہ بھی پانی میں گرنے کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔۔ خود سوچو اگر ہمارے پاس وہ ہوتی تو ہم اتنا وقت انتظار کرتے ۔۔
بات تو لڑکی نے پتے کی ہے اس کو وہ ویڈیو مل جائے تو یہ تو ہمیں پھانسی پہ چڑھادے۔ ہیں بھئی۔۔
سر سر ہمیں باہر سے پاکستانی کوسٹل گارڈز نے گھیر لیا ہے۔ہمارے لوگ ان کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن ہمارے لوگوں نے دیکھا ہے انٹرنیشل کوسٹل گارڈز بھی ہماری طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک اہلکار نے تیزی سے کمرے میں داخل ہوکر خبر دی۔
زونیا کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
اسی وقت یکِ بعد دیگر دو دھماکوں کی آواز آئی۔
کیا ہورہا ہے یہ ؟ دونوں لوگ کھڑے ہوگئے ایک ڈاکؤں کا سرغنا دوسرا وہ جو زونیا سے سوال جواب کر رہا تھا۔
سر میرا خیال ہے آپ یہاں سے نکل جائیں باقی ہم سنبھال لیں گے۔ ڈاکؤں کے سرغنا کی بات اس آدمی کو مناسب لگی۔اشارے سے زونیا کو ساتھ لیجانے لا اشارہ کیا۔
باہر دو جہاز جو ڈاکؤں کے تھے پاکستانی نیوی نے اڑا دیئے تھے جو اس وقت سرحد کے آس پاس ہی گشت کر رہے تھے۔
اگر ہمارے پاس آنے کی کوشش کی تو سارے مسافر مارے جائیں گے۔ بہتری اسی میں ہے ہم سے دور رہو اور واپس لوٹ جاؤ ہم بھی اپنا کام ختم کرکے چلے جائیں گے۔ ڈاکؤں کی طرف سے اعلان کیا گیا۔
۔۔۔۔۔

سمندری ڈاکو اور مرجینا Donde viven las historias. Descúbrelo ahora