انا کا کھلاڑی

400 25 4
                                    

"عاشق انا کا کھلاڑی"
دارالبشیر کے سامنے جیسے ہی اسنے گاڑی کو بریک لگایا ۔۔۔ایک دم اسے لگا جسے وہ آج جیت حاصل کر کہ بھی ہار چکا ہو۔۔۔
اسنے ایک نظر اپنے دائیں طرف بیٹھی خوبصورت سی لڑکی پہ ڈالی ، جو تقریباً اسکے آدھی عمر کے برابر دکھ رہی تھی۔۔۔
"مجھے خوش ہونا چاہئے،کہ میری خواہش بغیر کسی رکاوٹ کے پوری ہوگئ ہے۔۔"
یہ سوچتے ہوۓ وہ گاڑی سے اتر چکا تھا۔۔۔۔
"دیکھو میں اپنی ماں سے بے پناہ پیار کرتا ہوں، تمہیں بھی ان کو اتنی ہی عزت دینی ہوگی جتنی میں دیتاہوں"۔۔۔وہ اب اس کی طرف مڑتے ہوے بولا۔یہ جملہ وہ اسے کوئ دسویں بار بول چکا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ وہ کوئ نیک کام نہیں کر کہ آیا ،البتہ اس عمل میں گناہ بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس نے خود کو تسلی دلائ۔۔
وہ،خوش شکل تھا ،اور دولت نے اسے مزید نکھارا تھا theperfect man۔۔۔شادی شدہ ہونے کے باوجود اس سے شادی کرنے کی طلب بہت سوں کے دل میں تھی ۔مگر اسنے ہمیشہ ماں کے بارے میں سوچا۔جنہیں شائستہ سے بہت محبت تھی۔
وہ اندر کی اور بڑھا۔۔۔۔اور سیدھا اپنی ماں کے قدموں میں جا کہ جھکا۔۔۔اور انکے قدموں کو بڑی عقیدت سے ہونٹوں سےلگایا۔۔۔
"میری پیاری امی جان! دیکھیں،میں آپ سے ملوانے کسے لیکر آیا ہوں۔۔۔۔"
وہ ضعیف عورت جو کہ بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی اور نہ ہی اس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کچھ بول سکے،ایک اسٹریچر پر بے جان وجود کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ بڑی اذیت سے کاٹ رہی تھی۔۔۔
بیٹے کی آواز پر اسنے فورا نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔اور بس دیکھتی گئ ۔۔۔وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی بس دیکھ ہی سکتی تھی یا بغیر آواز کے رو سکتی تھی۔۔۔۔
"امی جان ! "۔۔۔۔اسنے دوبارہ مخاطب کیا ۔۔۔
"یہ میری بیوی ہے ،علیزہ"۔۔۔۔ (اسنے گویا ایک بمب پھوڑا ہو۔۔۔) آپ کی بہو ہے ۔۔۔کیا آپ اسے پیار نہیں دیں گی؟۔۔۔۔"
یہ کہتے ہوۓ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ خود ہی اٹھا کر اس کے سر پہ پھیرا۔۔مگر وہ ماں کی آنکھوں میں پھیلتی ویرانی کو نہ دیکھ سکا تھا۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
چائینہ میں "ہان زو" ائیرپورٹ پہ ایک جہاز لینڈ ہوتا دکھائ دے رہا تھا۔۔۔۔
ائیرپورٹ سے تین افراد ایک ساتھ باہر نکلے۔۔۔۔
"نی ہاؤ! ۔۔۔(ان میں سے ایک افراد نے۔۔۔وہاں پہلے سے موجود شخص سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا )میں ہوں "وی وو شی ین" یہ میری وائف " لی یی فی ین" ہیں(وو شی ین نے اپنے پاس کھڑی ایک خوبصورت ،نازک سی لڑکی کا تعارف کر وایا) ۔۔۔۔اور یہ میرا بیٹا"زہانگ ہان" ہے۔۔۔" اسنے اب پاس کھڑے نوجوان کا تعارف کروایا ۔۔۔
"اور میں شانگ ہوں ۔آپ کو اس خوبصورت شہر میں خوشآمدید!"۔پہلے سے موجود شخص نے جھکتے ہوے اپنا تعارف کروایا۔
"مہربانی کر کے اپنے آئ ڈی کارڈ دکھاۓ۔۔۔۔ آئیے سر ۔۔وہ آئ ڈی کارڈ دیکھتے ہوے بولا۔"
وہ لوگ ایک بلیک کلر کی کار کی جانب بڑھ گۓ۔۔۔۔
"ہم "ای وو" شہر میں پہلی بار آۓ ہیں وہ بھی بس اپنے دوست کی خاطر ،جسکی ہمیں تلاش ہے،وہ ڈرائیور کو بتا رہا تھا۔۔۔"
جی ہاں ،اسی کام کے لیے تو میں یہاں موجود ہوں ۔ابھی آپ لوگ آرام کیجئے کل میں آپ کو اس دوست کی ساری انفرمیشن پہنچا دوں گا۔اب وہ لوگ ہوٹل کی طرف بڑھنے لگے ۔وہ لوگ ایئرپورٹ کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔
"پاپا !مجھے ایسی لڑکی سی شادی کرنی تھی جو شہزاد انکل جیسی ہو، کئیرنگ،لونگ۔۔۔پاپا ہمیں ایک دفعہ ٹراۓ کرنا چاہئے کہ انکی کوئ بیٹی ہے کہ نہیں"۔اچانک اسکے دماغ میں اک نیا خیال آیا،۔
انہوں نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔"میرا نہیں خیال کہ اسکی کوئ بیٹی ہو گی۔اور زوشی کو چھوڑے تمہیں دیر ہی کتنی ہوئ ہے؟
ویسے۔۔۔تم نے زوشی کو چھور کر کوئ غلطی تو نہیں کردی؟۔۔۔وہ الگ بات ہے کہ اب اسکے باپ کو مجھے کیسے ہینڈل کرنا ہے۔۔۔۔"وہ اسکی باتوں کو نظر انداز کیے زوشی کی فکر میں لگ گۓ۔
انکی باتیں اب کافی دیر تک چلنے والی تھیں ۔۔۔اس لمحے کو مدّ نظر رکھتے ہوۓ یی فی ین کافی آڈر کرنے چلی گئ۔۔۔
"نئ بابا ۔۔مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کوئ غلطی کی ہے اسے چھوڑ کر،۔۔۔۔شہزاد انکل کی نیچر مجھے اتنی پسند آئ تھی کہ میں نے صرف انکی خاطر کسی پاکستانی سے شادی کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔۔۔مگر کاش میں ایک بار بس ایک بار ان سے مل پاتا ۔۔۔تو ان ہی کی بیٹی سے شادی کرتا۔۔۔۔۔اب مجھے دوسری شادی کبھی نہیں کرنی ۔۔۔اور اگر کرنی ہے تو وہ بس شہزاد انکل کی اگر کوئ بیٹی ہوگی تو اس سے بس"۔۔۔۔۔وہ گرم گرم کافی کے گھونٹ بھر تے ہوۓ کہ رہا تھا۔۔۔۔وہ بات بدل رہا تھا اور اب وہ کر بھی یہی سکتا تھا ۔مگر یہ بات وہ اور زوشی ہی جانتے تھے کہ ان دونوں کے الگ ہونے کا فیصلہ حقیقت میں زوشی کا ہی تھا۔۔۔۔۔
"میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی پاکستان کا ایک چکر لگا ہی لوں۔۔۔۔تمہاری خواہش بھی پوری ہوجاۓ گی۔۔اور میرا وزٹ بھی"۔۔وہ آنکھ مارتے ہوے بولے ۔۔
پھر ہم کب نکل رہے ہیں مہم پہ؟ زہانگ خوش ہوتا ہوا بولا۔
"جلد ہی "یہ کہتے ہوے وہ سونے کی تیاری کرنے لگے تو زہانگ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
اسکی ماں بت بنے بس اسے دیکھے جارہی تھی،کہ اچانک کمرے میں کسی کے آنے کی آہٹ محسوس ہوئ۔۔۔
"چاچو! ۔۔۔" کسی نے پیچھے سے آکر آواز دی ۔۔۔۔وہ اچانک پلٹا۔۔
"اوہ۔۔ہ۔۔ کیسے ہو بیٹا؟۔۔۔، ان سے ملو یہ آپ کی چچی ہیں۔
وہ مسکراتے ہوۓ کہ رہا تھا۔۔۔۔حاجرہ جو کے چاۓ وغیرہ کا پوچھنے آئ تھی۔چاچو کے ساتھ کھڑی لڑکی کو بس دیکھے جا رہی تھی حیرانی اسک چہرے پر صاف ٹپک رہی تھ۔۔۔۔مگر ایکدم ہی اسکی حیرانی نے غصہ کی جگہ لےلی۔
"علیزہ! یہ میری بھتیجی ہے،حاجرہ۔"
"ہاۓ، حاجرہ کیسی ہو آپ۔۔۔۔؟" علیزے نے ہاتھ بڑھاتے ہوے پوچھا۔
حاجرہ کوئ بھی جواب دئے بنا جن قدموں سے آئ تھی ان سے ہی پلٹ گئ۔۔۔
وہ جانتا تھا اسے یہ سب فیس کرنا پڑے گا۔۔۔۔
جس نے اپنی ماں کی اونچی آواز کبھی نہ ہونے دی تھی آج وہ ان کے آنسوؤں کو بت بنے دیکھ رہا تھا۔۔۔
"ٹھیک ہے ۔۔۔امی جان اب مجھے چلنا چاہئے،کل دوبارہ چکر لگاؤں گا"۔۔۔۔وہ انکے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوۓ بولا۔۔۔۔
"میری امی جان مجھسے بہت پیار کرتی ہیں،اسی لئے رودی ہیں ،کہ میں نہ جاؤں۔۔"وہ مسکراتے ہوۓ علیزہ کو بتا رہا تھا۔۔۔
وہ انکے آنسوؤں کی زبان خوب سمجھتا تھا۔۔۔اور آج وہ ان آنسوؤں کو سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
جیسے ہی وہ چلے گۓ۔۔۔۔ایک عورت بھاگتی ہوئ کمرے میں آئ ۔۔۔
"امی جان وہ۔۔۔و۔۔وہ۔۔شادی کر آۓ ہیں ، میں نے آپکو بتایا تھا ،آپ نے مذاق سمجھا تھا۔۔۔۔کیا وہ مجھسے زیادہ پیاری ہے؟۔۔۔۔کیا وہ مجھسے زیادہ وفادار ہوگی؟۔۔۔"یہ کہتے ہوۓ وہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئ اور پھوٹ پھوٹ کہ رونے لگی۔۔۔۔اتنے میں حاجرہ بھاگتی ہوئ آئ ۔۔۔
"چچی اٹھیے نیچے سے پلیز۔
"دارلبشیر کے مکین ایسے تو نہیں تھے،آج اس گھر میں بس تین مکین رہ گۓ تھے،کہاں یہ گھر خوشیوں کا گہوارہ ہوتا تھا۔۔۔اور کہاں آج سوگ منایا جا رہا تھا۔"
بیڈ پہ نیم مردہ وجود آنسوؤں کے ساتھ اپنی سوچوں میں گم ہو رہا تھا۔۔۔"کیا دن آگۓ ہیں سٹمچ ٹیوب سے مجھے کھانا کھلایا جاتا ہے،نہ میں بول سکتی ہوں۔۔۔،نہ کچھ پکڑ سکتی ہوں۔۔۔یااللہ تم نے مجھے کس چیز کی سزا دی ہے۔۔۔۔میں نے تو آج تک اپنی بہوؤں کو نہیں ستایا۔۔۔پھر؟۔۔۔۔۔میں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔پھر پھر کیوں؟"۔۔۔انکے آنسو بستر کو بھگونے لگے۔وہ خود سے باتیں کر رہی تھیں،کسی اور تک تو انکی آواز نہیں پہنچ پاتی تھی۔۔۔۔وہ اپنی بہو کو زمین پہ بلکتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی تھیں انہوں نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔
آہستہ آہستہ وہ ماضی کے دریچوں کو کھولنے لگیں تھیں۔
دارلبشیر میں ایک ثریا بیگم کے علاوہ کوئ لڑکی نہیں تھی۔
ثریا بیگم اور بشیر شاہ کے دو بیٹے تھے،"شہزاد اور شاہ زیب"۔ایک چھوٹی سی خوشحال فیملی تھی ۔۔۔مگر بشیر شاہ کی اچانک وفات سے ثریا بیگم ٹوٹ سی گئ تھیں،انکا تیسرا بیٹا اپنے باپ کی وفات کے بعد دنیا میں آیا تھا،جو باپ کی جھلک تک سے محروم ہوگیا تھا،وہ کبھی باپ کے رتبے کو سمجھ ہی نئ سکا۔۔۔۔اور اسکو نام دیا گیا"شاہمیر"
پوتی کی چیخوں سے ثریا بیگم واپس حال میں آچکی تھیں،۔۔۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
"پاپا میں ریڈی ہوں،چلیں؟۔۔۔"
"میں ریڈی نہیں ہوں" لی فی ین چیخ اٹھی۔۔۔۔
"پاپا ان عورتوں کا نہ کبھی میک اپ ختم نہیں ہونا ہم نے ختم ہو جانا ہے۔۔۔"زہانگ اپنی ماما کو چھیڑ رہا تھا۔۔
"یہ عورتیں نہ ہوں نا، تب تم لوگوں کو پتہ چلے ، ہر جگہ پیسہ اور بزنس کام نہیں آتا۔۔۔"وہ شوز پہنتے ہوۓ بولی۔۔
ویسے مامایہ میک اپ بنایا کس نےتھا؟۔۔۔میرے خیال سے ایک حبشی نے بنایا ہوگا اپنی وائف کیلئے۔۔۔یا پھر "وہ اپنے سے اندازے لگاۓ جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ یی فی ین اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔
"تمہاری میک اپ ہسٹری پوری ہوگئ ہو تو چلیں بیٹا؟۔۔" وہ طنز کرتی ہوئ باہر کی جانب بڑھی ۔۔۔
"ارے ماما آپ تو ناراض ہی ہو گئ، آپ اب تک دادی بن چکی ہوتی اگر میری اولاد ہوتی۔۔۔۔ہاہ ! میری اولاد ،کہاں سٹے کیے بیٹھی ہو گی؟ ،کہ مجھ تک پہنچ ہی نہیں پارہی؟۔۔۔۔وہ اول فول بولتا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔
یی فی ین کا پھولا منہ دیکھ کر زہانگ کو اور ہنسی آگئ ۔۔
"ماما عنقریب آپ دادی بن رہی ہیں تو ناراض مت ہوں۔۔آپکو پوتا چاہئے یا پوتی جو کہیں گی وہی آۓ گا۔۔۔۔۔"
میرے بچے پہلے شادی کرلو پھر ڈیسائیڈ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہئے۔۔۔
"ماما میری اولاد آنے سے تو رہی ،آپ اپنی اولااا۔۔۔۔"
اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ایک زوردار تھپڑ وہ کھا چکا تھا۔۔۔
"ہااااااہ۔۔۔مما" وہ چلاتے ہوۓ بولا۔۔
"تمہیں کسی پاکستانی لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہئے،وہ ہماری نیچر کے نہیں ہے اسی لئے ہم ایک ساتھ نبھ نہیں سکتے، ایک شادی تو کر کے توڑ آۓ ہو ایک سال تو کم ازکم رہنے دیتے۔۔۔افف اب پلیز شادی نامہ اور یہ تمہارا اولاد نامہ بند کرو۔۔۔"وہ اب بات کا رخ بدل رہی تھیں۔
"مما آپ کی ریکویسٹ کومدّ نظررکھتے ہوۓ نہ میں شادی کی بات کررہا ہوں اور نہ ہی اولاد کی۔۔میں بس اتنا کہ رہا ہوں کہ کاش میرا کوئ بھائ،بہن ہوتا جس سے میں کھیل "اس سے پہلے کہ یی فی ین کا دوسرا تھپڑآتا وہ منہ پہ بچوں کیطرح انگلی رکھ کر چپ ہوگیا۔۔
تقریباً وہ اپنے ہوٹل سے پچیس کلو میٹر دور آچکے تھے۔۔۔۔
ای وو میں مشہور (گلاس بریج)شیشے کے پل کے پاس وہ پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
"پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اس بریج کو دیکھنے ،ایک ہم ہیں اسی ملک میں رہ کر بھی یہاں آ نہیں سکے "زہانگ بچوں کی طرح للچائ ہوئ نظروں سے اسے مڑ مڑکر دیکھ رہاتھا ۔۔۔
"بیٹا تم اتنی دنیا گھوم چکے ہو ایک یہ نہیں دیکھا پھر کبھی دیکھ لینا،ابھی ہم جس کام کیلئے نکلے ہیں وہ پورا کرناہے۔۔۔"
"پاپا آپ سے کس نے کہا میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔۔ہزار بار دیکھا ہے مگر کبھی اس پہ گیا نہیں ہوں۔۔۔"
یی فی ین اور وو شی ین کھل کھلا کے ہنسنے لگے۔۔۔وہ اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے سفر کو آگے بڑھا رہے تھے۔۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
ثریا بیگم کی بہو جیسے ہی ہوش میں آئ تو اپنے کمرے کی جانب بھاگی،اور اندر جا کہ کمرے کو اندر سے لاک کر لیا۔۔۔اور شیشے کے سامنے آ کر رک گئ۔وہ کتنی ہی دیر شیشے کے سامنے کھڑی رہے۔۔۔اور اپنا معائینہ کر رہی تھی ۔مگر اس لڑکی سے جسے آج بس وہ پیچھے سے ہی دیکھ سکی تھی۔۔۔۔
اسنے اپنے سنہری بالوں پہ ایک بھر پور نظر ڈالی،پھر سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو دیکھا،تم اتنی خوبصورت ہو،
"پھر کیوں تمہارے ہیزبینڈ نے دوسری شادی کی"
"تمہارے دو بچے ہیں،یعنی کہ شاہ میر کو بچوں کی بھی کمی نہیں،خوبصورتی کی بھی کمی نہیں،پیسے کی بھی کمی نہیں پھر کیوووووں"
اس کے کانوں میں اپنی دوستوں کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔۔
اگر میں مر گئ تو سب کہیں گے شاہ میر کی بیوی اتنی پیاری تھی پھر کیوووں۔۔۔۔اس کیوں کا جواب کیا شاہ میر دے سکے گا؟ نہیں ایسے اسکی میڈیا میں انسلٹ ہو گی۔۔۔۔وہ میڈیا کا ہیرو ہے ساتھ میرا ہیرو بھی ہے،میں اپنے ہیرو کی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔پریشانی میں وہ کیا کیا سوچ رہی تھی وہ خود سمجھنے سے قاصر تھی۔
ہر خطا کی ہوتی ہے کوئ نہ کوئ سزا۔۔۔۔
مگر میں خود ایک سزا ہوں بے خطا کی۔۔۔۔
اسنے یہ کہتے ہوۓ قینچی اٹھائ۔۔۔اور اپنے بال کاٹنے لگی۔۔۔۔اسکے سنہری لمبے اور انتہائ خوبصورت بال کٹ کٹ کر زمین پہ گر رہے تھے،۔۔۔۔۔سارے بال کاٹ کر اسنے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے پسندیدہ ٹریکس لگانے لگی ۔۔۔۔۔۔
جا تجھے معاف کیا،جا تجھے معاف کیا،
(اسنے اپنے بیگ سے ایک بلیڈ نکالا)
پیار کی راہ میں مجھکو یوں چھوڑنے والے،
(وہ بلیڈ کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی)
پیار کی راہ میں مجھکو یوں چھوڑنے والے،
( بلیڈ کو وہ اپنی کلائ پہ رکھ کر دیکھ رہی تھی)
جا تجھے معاف کیا دل کوتوڑنے والے،
(اسنے بلیڈ کو زور سے اپنی کلائ پہ مار دیا)
کہ کہ دو بول یہ اک عمر گزاروں کیسے،
اسکے ہاتھوں پہ پسینہ آگیا تھا جس کی وجہ سے بلیڈ لگ نہیں سکا،
اسنے اپنا ٹریک بدل دیا۔۔۔۔
کیوں سانس لوں ، یوں ہی بس بے وجہ،
(اسنے دوبارہ پوری قوت سے بلیڈ میرا )
رہا کر مجھے میرے دردوں سے زرا۔۔۔ا۔
(اورخون کی ایک دھار اسکی کلائ سے ابل پڑی تھی)
دل جو عبادت کرے،،،،،،،،
یہ آخری الفاظ اسکے کانوں میں گۓ تھے اور درد کی شدت سے وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔۔۔۔
تو جدا تو رک گئ ہیں سینے میں سانسیں کہیں۔۔۔۔۔ٹریک چل رہا تھا،مگر اسکی سانسیں بھی رک رہی تھیں۔۔۔
"چچی پلیز دروازہ کھولیں دیکھیں اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو میں ۔۔م۔۔میں کیا کروں گی ؟ آپ کے سوا اور کوئ نہیں ہے میرا، پلیز خود کوسنبھالیں۔۔۔۔اللہ پہ بھروسہ رکھیں ،جو گناہ کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔۔۔چاچو نے شادی کر کے گناہ نہیں کیا مگر دل دکھا کر گناہ کیا ہے انکو سزا ملے گی دیکھنا۔۔۔انکو وہ سزا ملے گی جو آپ چاہیں گی پرآپ انکے بجاۓ خود کو سزا دیتی ہیں۔۔۔۔خدا کیلئے پلیز دروازہ کھولیں۔۔" وہ سسکیاں لیتے ہوۓ رو رہی تھی۔۔۔
"آپ کادروازہ بند ہوچکا ہے،پر خدا کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا،آپ نے نہیں کھولنا دروازہ نہ کھولیں۔۔۔"وہ اٹھنے ہی والی تھی زمین سے کہ اسے اندر سے انسانی جسم کے گرنے کی آواز آئ۔۔۔حاجرہ کے تو گویا پاؤں سے جان ہی نکل گئ تھی۔۔۔اسے لگا جیسے وہ کبھی بھی یہاں سے اٹھ نہیں سکے گی،مگر اسنے ہمت کی اور باہر کو بھاگی۔۔۔۔اسنے فون اٹھایا اور چاچو کوملانے لگی۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔چاچو۔۔۔ چچی وہ۔۔۔۔اتنا کہ کر وہ رونے لگی۔
"کیا ہوا ہے ؟ دوسری طرف سے آواز آئ۔
وہ چچی نے دروازہ لاکڈ کرلیا ہے اور ۔۔۔او۔۔ر ۔۔۔ دروزے۔۔۔۔وہ ابھی اتنا ہی بول پائ تھی کہ آگے سے سننے والے الفاظ اسکی رہی سہی جان بھی نکال چکے تھے۔۔۔
"اس پاگل نے پھر کچھ کرلیا ہوگا دیکھو جا کہ اسے ،میں ڈرائیور کو بھیجتا ہوں ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔۔۔"
کھٹاک سے فون بند ہو چکا تھا۔۔۔اور حاجرہ کو اپنی رہی سہی سانس بھی بند ہوتی محسوس ہونے لگی۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہ پہنچ گۓ تھے،
اور شہزاد کے فلیٹ کے مالک کے پاس پہنچ گۓ ۔
"ہمیں شہزاد کے بارے میں جاننا ہے۔۔۔"ووشی ین نے کہا ۔۔۔پلیز ہمیں ضروری جاننا ہے،"
مگر آپ لوگ ہیں کون؟ اور کیوں جاننا چاہتے ہیں؟ وہ آدمی بڑی مشکوک نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔
میں اسکا بیسٹ فرینڈ ہوں دراصل اسکی ڈیتھ ہوگئ ہے ،میں اسوقت امریکہ میں تھا،مجھے اسکے پاکستان کے گھر کا ایڈریس چاہئے ،پلیز آپ ہماری ہیلپ کردیں۔۔۔وہ التجائیہ انداز میں بولا۔۔۔
"آپ اندر آئیے۔۔"
"او۔۔ہ۔۔ وہ بہت شریف انسان تھا مجھے دکھ ہوا اسکی خبر سن کر ۔۔۔۔ویسے اگر وہ تمہارا بیسٹ فرینڈتھا تو تمہیں اسکے گھر کا نہیں پتہ ؟حیرت کی بات ہے"۔۔۔
"میں چائینہ میں اسکے ساتھ تھا ،میرا بیٹااسکے ساتھ بہت ٹائم گزار چکا ہے،کبھی ہم نے پاکستان کو ڈسکس نہیں کیا۔۔۔آئ سوئیر پلیز "اسکا انداز مزید التجایئہ ہونے لگا
اوکے میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔وہ آدمی کچھ سوچتے ہوے بولا۔
اور وہ اندر کی اور بڑھا،کچھ دیر بعد وہ ایک فائل لئے باہر آیا۔۔۔۔
بہت تلاش کرنے کے بعد اسے شہزاد کا ایڈریس مل گیا،مگر صرف پاکستان میں شہر کانام ہی ملاکوئ اگزیکٹ ایڈریس نہیں ملا،
"وہ پاکستان ،پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں رہتا تھا،۔۔۔۔"
اس سے زیادہ میں کچھ مدد نہیں کر سکتا ،" اسنے یہ کہتے ہوۓ فائل بند کردی۔۔
"تھینکس۔۔۔۔آپ کا احسان ہے ہم پہ یہ،وہ بہت زیادہ تشکرانہ الفاظ کہتے ہوۓ ،باہر نکلے۔۔۔۔
"بابا ! سیالکوٹ کو میں نے سرچ کیا ہے،مگر شہزاد انکل کا کیسے پتہ چلے گا؟۔۔۔"وہ لیپ ٹاپ بند کرتے ہوے بولا۔
اب وہ لوگ واپسی کیلئے نکل چکے تھے،
"بابا ! میرا پرامس کب پورا ہوگا؟ "۔۔۔۔
کون سا؟
گلاس بریج والا؟
"اوہ۔وہ ۔۔۔"ووشی ین ہنسنے لگا۔۔۔۔
"کیا بات ہے بھئ اکیلے اکیلے باپ بیٹا ہنسے جارہے ہو؟ " یی فی ین پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسے بتاتے انکا فون بجنے لگا۔۔۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
ڈرائیور کے آنے تک بہت دیر ہوگئ تھی،حاجرہ نے ڈرائیور کو دروازہ توڑنے کا کہا۔۔۔۔۔
"شائستہ چچی نے پتہ نہیں کیا کرلیا ہے جلدی کرو تم۔۔۔"
ڈرائیور دروازہ توڑ چکاتھا۔۔۔اور جب اسکی نظر بےہوش شائستہ پہ پڑی وہ فورا انکی طرف لپکی۔انکا کافی خون بہ چکاتھا،اسنے دڑایئور کے ساتھ مل کر انہیں اٹھایا اور باہر کی اور بڑھ گئ۔۔۔۔۔
ثریا بیگم حاجرہ سے پوچھنا چاہتی تھیں کہ شائستہ کدھر ہے اسنے کیا کیا ہے؟ مگر وہ بس شائستہ کو لے جاتے ہوۓ دیکھ سکی تھیں اور ۔۔آج انکا دل چاہا تھا وہ چیخیں،روئیں مگر انکی آواز،انکا درد،آنسوؤں سے بہ رہا تھا۔۔۔۔۔
شاہ میر تم کتنے احسان فراموش نکلے ہو ۔۔۔۔وہ دوبارہ ماضی میں جا چکی تھیں۔۔۔۔
"امی جان ہم کام کریں گے اور شاہ میر کو پڑھائیں گے،ہم اسکی ہر خواہش پوری کریں گے،چاہےاسکیلئے ہمیں کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنی پڑے۔۔۔۔"
انکا باپ ایک نوکری کرتا تھا،جس سے وہ اپنا گھر تو چلاسکا تھا مگر بیوی بچوں کے لیے کچھ پیچھے چھوڑ کر نہ گیا تھا،جس کی وجہ سے آج اسکے بچے خود مختار ہونے جا رہے تھے۔۔۔۔
شاہ میر اپنے بھائیوں کے رحم وکرم پہ تھا دونوں بھائ کماتے ،
دن رات محنت کرکے شاہ میر کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے،جس پہ شاہ میر انگلی رکھ دیتا وہ بس شاہ میر کے نام ہو جاتی۔۔۔ہاں مگر اس لاڈ پیار میں انہوں نے اسے بگڑنے نہیں دیا تھا۔
شاہ میر کو شہر سے دور ایک نامور ہوسٹل میں ڈالا گیاتھا ۔کچھ عرصہ سکون سے گزرا اور تب ہی شاہ میر کی خواہشات بڑھنے لگیں ،یہ جانے بغیر کے بھائ کیسے کماتے ہیں ۔۔۔ اسکے بھائ کیسے بھی کرکے اسکی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے۔
ان ہی دنوں شاہ میر کی خواہشات نے اک نیا موڑ لیا۔۔۔
ایک دن وہ بھائ سے کہنے لگا"بھائ سب اپنے گھر فون کرتے ہیں میرے گھر ایک فون نہیں ہے۔۔۔" اس کے کچھ عرصہ بعد دارلبشیر میں بھی پی ٹی سی ایل لگ گیا۔۔۔۔غرض ہر طرح سے اسکو خوش رکھنے کی کوشش کی گئ۔
کچھ عرصے میں شہزاد (بڑا بھائ)کی شادی کر دی گئ۔۔۔اور اسطرح اس گھر میں کچھ رونق لگ گئ۔۔۔۔۔نئ دلہن کچھ ہی دنوں میں سمجھ گئ تھی کہ اس گھر میں شاہ میر کی ایک خاص جگہ ہے اسلیے وہ بھی اسکی بہت خاطر داری کرتی۔اسکے ہاسٹل سے لاۓ کپڑے وہ خود دھو کر استری کرتی۔ انہیں خوشی ہوتی تھی کہ اس گھر کا بچہ علم حاصل کرنے جاتا ہے ۔اور شاید یہی ایک وجہ تھی کہ سب شاہ میر کو بہت عزت دیتے تھے۔یوں ہی حالات بدلتے گۓ۔۔۔
شاہ میر کئ نئ فرمائش ۔۔۔" مجھے موبائل چاہئے" جو اس وقت کے پندرہ ہزار روپے کا تھا۔۔۔تب چونی ۔۔اٹھنی۔۔اور ایک روپیہ سے بھی بچے بہت خوش ہوجاتے تھے۔۔۔
اور یہ خواہش تو پندرہ ہزار کی تھی،ایک ہزار تو انکی تنخواہ نہیں تھی۔۔۔۔
"شہزاد! رہنے دو کوئ ضرورت نہیں ہے موبائل دلانے کی۔۔۔میں بتا رہا ہوں تم اسے بگاڑ رہے ہو۔۔۔"شاہ زیب نے کہا ۔۔۔
نہیں کوئ بات نہیں چھوٹا بھائ ہے ہم اسکے باپ کیطرح ہیں۔۔۔تم رہنے دو میں لے دوں گا۔۔۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
"اچھا میں بریج والی بات بتا رہا تھا،وہ یہ تھی ۔۔۔ایک دفعہ میں نے زہانگ کو بتایا کہ ہم ہنی مون سے واپسی پہ گلاس بریج پہ گۓ تھے،تو اسوقت اسنے کہا کہ میں بھی گلاس بریج پہ اپنی وائف کے ساتھ ہی جاؤں گا۔۔۔۔مزے کی بات ہے وائیف آکر چلی بھی گئ ہے ۔۔۔اس بیچارے کا گلاس بریج ادھر کا ادھر ہی رہ گیا ہے۔۔۔۔" وو شی ین مزے لےلے کے بتا رہا تھا۔۔۔
"پاپا! آپ میرا مذاق بنا رہے ہیں۔"
"نو سویٹ ہارٹ! میں ایسا کیوں کروں گا"
"آپ لوگوں نے تو میری شادی کا مذاق ہی بنا ڈالا ہے"
"تو تمہیں کس نے مشورہ دیا تھا پاکستانی سے شادی کرو " یی فی ین فوراً بول اٹھی۔۔۔۔۔۔
("شاید زرین شاہ (زوشی)کو جیسا چاہئیے تھا شائید میں ویسا نہیں تھا۔۔۔مجھے لگا تھا پاکستانی لڑکیاں وفادار ہوتی ہیں،مگر ۔۔۔اسنے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔اسنے مجھسے خلع لے لی"وہ بہت اداس سا دکھنے لگا تھا۔۔۔)
(" میں نے زوشی کو سات ماہ میں ایک کڑوڑ کی شاپنگ کروائ ہے،تب بھی اسنے کہا کہ میں نے تو آج تک تم سے کچھ مانگا ہی نہیں )وہ اندر ہی اندر کڑرہاتھا۔"
(شاید پاکستان میں سب ہی ایسے ہوتے ہیں۔ وہ اب یہ سب سوچ سوچ کر بیزار ہونے لگا تھا مگر ہر بار سوچنا اسے اک نیا دکھ پہنچاتا تھا۔ اور شہزاد انکل بھی تو پاکستانی تھے۔۔۔۔کتنے اچھے تھے نہ وہ،اور اسکی بیٹی اگر کوئ ہوگی وہ بھی بہت اچھی ہوگی میرا دل کہتا ہے۔")اب وہ مسکراتے ہوے خود کو بہلاتے ہوے بولا۔وہ سوچوں سے باہر نکلا۔وہ لوگ ہانزو ائیرپورٹ پہنچ گۓ تھے،واپسی کے سفر کیلئے۔
※۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔※
شہزاد نے شاہ میر کو موبائل لے دیا تھا۔۔،بچے اور بیوی کے ساتھ شاہ میر کی خواہشیں شہزاد کا دم توڑنے لگی تھیں۔۔۔تبہی اسنے چائینہ جانے کا سوچا ۔۔۔۔۔کیسے بھی کر کے وہ چائینہ چلاگیا۔۔۔۔
اسنے بہت محنت کی وہاں۔۔۔یہاں تک کہ اسے تندور میں روٹیاں لگانی پڑیں اسنے وہ بھی لگائیں۔۔۔اپنا بازو جلالیا۔۔۔بس اپنے گھر والوں کی خاطر۔۔۔۔چند ماہ بعد وہ چائینہ سے واپس آیا۔
اور واپس آکر شہزاد کو ایک دھچکا سا لگا جس شاہ میر کو وہ چھوڑکر گیا تھاوہ اب وہ نہیں رہاتھا۔۔۔حالات کیسے پلٹ جایا کرتے ہیں ،یہ آج شہزاد کو پتہ چلاتھا۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Mar 12, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

انا کا کھلاڑی ۔مکمل ناول از اناہسیہ عبداللہWhere stories live. Discover now