باب دہم۔ تربیلہ جھیل سے پہلے

Start from the beginning
                                    

بہر حال اباجان نے ہمت نہ ہاری اور سارا دن اس کوشش میں گزاردی کہ کسی طرح وہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرکے انھیں اس بے جا ضد سے باز رکھ سکیں۔دن گزرا اور سہ پہر آگئی۔ اباجان نے عصر پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا کرتے ہوئے اس علاقے سے نکل آئے۔وہ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے ستھانہ سے دور ہوتے جارہے تھے جہاںپر کچھ ہی گھنٹوں بعدخون کی ہولی کھیلی جانی تھی۔وہ بہت زیادہ پریشان تھے اور اپنی ناکامی پر بہت مایوس بھی۔ ​

راستے میں ، آبادی سے دور اباجان کو تبلیغی جماعت کا ایک گروہ ملا جو اپنے مشن پر رواں دواں تھا۔ اباجان کو دیکھتے ہی انھوں نے اپنا مطالبہ دہرا دیا۔” کلمہ پڑھ دیجئے۔“​

اباجان کی حالت اس وقت عجیب سی ہورہی تھی۔ انھوں نے نہایت اطمینان کے ساتھ ایک سنسکرت اشلوک پڑھنا شروع کردیا۔​

”لا حول و لا قوة“ وہ لوگ حیران رہ گئے۔ ​

اباجان نے اب انھیں بہت برا بھلا کہا کہ چند قدم کے فاصلے پر انسانی جانوں پر بنی ہوئی ہے۔ اگر وہ لوگ اللہ کی ، اسکے دین کی اور انسانیت کی کچھ خدمت کرنا ہی چاہتے ہیں تو جائیں اور اس صورتحال سے انھیں نکالنے کی کوشش کریں ۔ جس پر انھوں نے معذرت کی کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے تو اباجان ان سے سلام کرکے آگے روانہ ہوگئے۔​

فوجی بیس کیمپ پہنچے اور کرنل صاحب کو پیغام پہنچا دیا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام رہے ہیں اور اپنے بستر پر جاکر لیٹ گئے۔ صبح تک نیند تو کیا خاک آتی، البتہ کروٹیں بدلتے رہے اور پریشان ہوتے رہے۔ ​

صبح آٹھ بجے تک اباجان ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوچکے تھے اور وہاں سے روانگی کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عین اسی وقت کرنل ​

صاحب کے اردلی نے انھیں کرنل صاحب کا سلام پہنچایا۔ اباجان نے سوچا چلو اچھا ہے، چلتے وقت انھیں سلام بھی کرلیں اور اس کارروائی پر ان سے جی بھر کر شکوہ بھی کرلیں۔ شاید دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوجائے۔​

وہاں پہنچے تو ایک ہشاش بشاش کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اباجان حیران تھے کہ کیا فوج میں اپنے مشن کی کامیابی اتنی اہم ہوتی ہے جس میں بے قصور انسانی جانوں کے زیاں پر ذرا برابر بھی دکھ نہیں ہوتا؟ انھوں نے کرنل صاحب کے سامنے اپنے ان جذبات اور غصے کا بھر پور اظہار بھی کیا۔انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کل جن لوگوں سے وہ مل کر آرہے تھے ان میں سے بیشترآج صبح لقمہ​

¾ اجل بن چکے ہیں۔اور ادھراس کٹھور دل کرنل کو اس کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے۔

فسانہٗ آزادWhere stories live. Discover now