باب سوم۔ جوانی دیوانی

50 0 0
                                    

باب سوم۔فسانہ آزاد

جوانی دیوانی

محمد خلیل الر حمٰن

اباجان نے آٹھویں جماعت پاس کی اور اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد جانے کا قصد کیا ہی تھا کہ حیدرآباد سے ایک تبلیغی جماعت کے کچھ اصحاب باسم پہنچے اور وہاں پر جلسہ کیا اور اس میں تقریریں کیں ۔اس وفد کے سربراہ مولانا قاسم علی عرف تایا تھے جنھوں نے اباجان سے بات کی تو ان کے خیالات اور علمیت سے خاصے متاثر ہوئے اور ان کے اباسے درخواست کی کہ اللہ کے نام پر وہ اس بچے کو تبلیغ ِ اسلام کے لیے وقف کردیں اور انھیں اس بچے کو اپنے ساتھ حیدرآباد لے جانے کی اجازت دیں۔دادا نے بخوشی اجازت دیدی ۔گاﺅں میں ایک دکان دار ابراہیم بھائی جو اباجان سے کچھ سال بڑے تھے اور ان کے بہت اچھے دوست تھے ،وہ بھی اباجان کے ساتھ حیدرآباد جاکر دین کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اس طرح اباجان سولہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ سے رخصت ہوکر، ابراہیم بھائی کے ساتھ دین کی خدمت اور االلہ کا کام کرنے کی نیت سے حیدرآباد پہنچ گئے اور پیر صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔یہ وہ موقع تھا جس نے اباجان کے طرز زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا اور وہ باسم کے ایک کھلنڈرے لڑکے سے ایک نوجوان مبلغ میں تبدیل ہوگئے جس کاکام علم حاصل کرنا، دین کی اشاعت اور اللہ کے نام کو پھیلانے کی غرض سے ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کرنا اور تقریروں اور مناظروں کے ذریعے اسلام پھیلانا تھا۔ 

حیدرآباد پہنچ کر اباجان نے وہاں کی بڑی بڑی لائبریریوں میں جانا اور وہاں سے اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا، حیدرآباد کے ایک علاقے نام پلی میں یوسف شریف صاحب کی درگاہ سے ملحق ایک بڑی اور بہت اچھی لائبریری تھی۔اور وہاںپر ہر قسم کی علمی اور ادبی کتابیں 

دستیاب تھیں۔ اسی طرح جامعہ عثمانیہ کی آصفیہ لائبریری ۔اباجان نے اپنا زیادہ وقت ان لائبریریوں میں گزارنا شروع کردیا اور مطالعے کو 

اپنی عادت ثانیہ بنا لیا۔

اس مطالعے کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اباجان نے اپنے پیر صاحب کے معمولی قسم کے خیالات کو اپنے ذہن میں بالکل جگہ نہ دی اور نہ ہی ان خیالات کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا۔جہاں پیر صاحب اور ان کے دیگر مرید جنھیں پڑھنے لکھنے سے قطعاً کوئی لگاﺅ نہیں تھا، ایک خود ساختہ 

فلسفے پر یقین رکھتے تھے جس کی بنیاد چند اوٹ پٹانگ قسم کی پیشن گویوں پر تھی جن کے مصداق، عنقریب ہندوستان تمام مسلمان ہونے والا 

تھا اور ترپتی اور ہمپی کا والی بھنڈار کے مندروں کے نیچے گڑے ہوئے سونے چاندی اور ہیرے جوہرات کے خزانے مسلمان مجاہدوں کے ہاتھ آنے والے تھے۔ شاید ان خزانوں کا چکر ہی اس لیے چلایا گیا تھا کہ مریدان ان کے گرد اکٹھے رہیں اور اس وقت کے انتظار میں چندہ کرکے اپنا وقت گزارتے رہیں جب انھیں ان خزانوں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں سے ایک بڑا حصہ حاصل ہوجانا تھا۔

فسانہٗ آزادحيث تعيش القصص. اكتشف الآن