خدا کے بندوں سے پیار

47 0 0
                                    

نواب صاحب واپس تشریف لائے تو بھائی صاحب کے بے حد شکر گزار ہوئے۔ ریاست ڈبر کی پاکستان میں شمولیت بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ، اس کے بعد پورا قبائیلی علاقہ اور حکمران حضرات نے پاکستان سے وابستگی کا اعلان کیا اور پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ بھائی صاحب کی ایک ایک بات پوری ہوکر رہی۔ اس علاقے کی دس فیصد آبادی کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہوگئی۔ ان لوگوں نے محیر العقل تعمیراتی کارنامے انجام دیئے۔ شہر کراچی کو اسکے کارخانوں ، سڑکوں ، بجلی اور اونچی اونچی عمارتوں کی تعمیر سے نیویارک بنا دیا۔ پاکستان ٹیکسٹائل کنگ بن گیا۔ ​

بھائی صاحب کا مشن پورا ہوچکا تھا۔ نواب صاحب اور علاقے کے سرداروں کے روکنے کے باوجودبھائی صاحب پشاور واپس آگئے۔ بھابیجان صاحبہ اور ننھا حبیب الرحمان بھی اپنے نانا، نانی خالواور خالاﺅں کے ساتھ پشاور آچکے تھے ۔ بھائی صاحب کی یہاں سے متعلق واقفیت کام آئی اور شہر کی ایک بلڈنگ ان مبلغین کے نام الاٹ ہوگئی جس میں ان خانماں آبادوں کو سر چھپانے جگہ میسر آئی۔​

اچانک ایک دن بھائی صاحب کو پولیس نے گرفتار کرلیا، اور انھیں گورنر جنرل پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ کی تشویش سے آگاہ کیا جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ سی آئی ڈی کے علم میں لائے بغیر مولانا کو قبایئلی ریاستوں سے متعلق اتنی اہم ذمہ داری کس نے دیتھی۔مذکورہ اتھارٹیوں نے گھبرا کر اسکی انکوائری کرکے فوری رپورٹ کا حکم دیا تھا۔ اس دوران بھائی صاحب کے دوست مولانا عبدالجبارشاہ صاحب بھی حوالات پہنچ گئے اور بھائی صاحب سے متعلق تفتیشی کمیٹی کو تفصیلی بیان دیا اور یوں بھائی صاحب کی گلو خلاصی ممکن ہوسکی۔ اب تو حکام نے بھائی صاحب پر زور دیا کہ وہ سی آئی ڈی پشاور کی ملازمت اختیار کرلیں ، انہیں اچھے عہدے کی بھی پیشکش کی گئی لیکنانھوں نے اس سے معذرت کرلی اور افسران کا شکریہ ادا کرکے واپس چلے آئے۔ مقامی افسر نے اس تمام سرگرمی کو اپنا کارنامہ قرار دیا اورفائل بند کردی۔ اگر حضرت چھوٹے بھائی صاحب قبلہ یہ ملازمت قبول کر لیتے تو ہم لوگ آج زیادہ ترقی یافتہ حالت میں ہوتے۔“​

سرحدی علاقوں میں اباجان کا مشن مکمل ہوچکا تھا لہٰذہ انھوں نے بوریا بستر سمیٹا، پشاور سے بیوی بچوں کو لیا اور وہاں سے روانہ ہوکر کراچی پہنچے۔ وہ علامہ اقبال کے شعر​

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے​

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر​

کے مصداق کہیں پر بھی اپنی خودی کو بیچنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ پیر صاحب کی پیری کا ڈھونگ، ان کے نام نہادکشف وکرامات اور الہام کی اصل حقیقت کا راز اُن پر ظاہر ہوچکا تھا۔پیر صاحب نے ہندوستان ہی میں جیل کے حالات سے گھبرا کر خودکشی فرمالی تھی۔ادھر اس سے پہلے ہی قادیانیت کی بحث اور اس کے بعد جہاد کے لیے جمع کیے ہوئے پیسے سے اپنی کتاب چھاپنے کے واقعے سے بھی اباجان پیر صاحب کی طرف سے خاصے مایوس ہوئے تھے۔انھوں نے نہ صرف پیر صاحب اور ان کی جماعت کو الوداع کہا بلکہ اس مایوسی میں تبلیغی کام سے بھی دست بردار ہوگئے۔​

Du hast das Ende der veröffentlichten Teile erreicht.

⏰ Letzte Aktualisierung: Apr 07, 2015 ⏰

Füge diese Geschichte zu deiner Bibliothek hinzu, um über neue Kapitel informiert zu werden!

فسانہٗ آزادWo Geschichten leben. Entdecke jetzt