باب دہم۔ تربیلہ جھیل سے پہلے

ابدأ من البداية
                                    

دریا پار پہنچ کر اباجان نے مغرب کی نماز ادا کی اور پھر ستھانہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔ ​

تھورا ہی آگے گئے ہوں گے کہ ” ہالٹ !ہو کمس دیر! (( Halt! who comes there“کی ایک گرج دار آواز کے ساتھ ایک فوجی ہاتھ میں اپنی گن سنبھالے ہوئے سامنے آگیا۔ اس نے اباجان کو اپنے افسر کے سامنے پیش کردیا۔ اس فوجی افسر کے ساتھ اباجان کے دوست جبار شاہ صاحب بھی موجود تھے اباجان انھیں وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے اباجان اور اس فوجی افسر کا آپس میں تعارف کرایا۔ وہ افسر جناب کرنل احیاءالدین صاحب تھے۔ جبار شاہ صاحب نے اباجان کو بتایا کہ ستھانہ کا محاصرہ ہوچکا ہے اور کچھ ہی وقت جاتا ہے کہ اس علاقہ پر فوج کی پیش قدمی ہونے والی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت اہم تھا اور علاقہ کے لوگ مسلم لیگ اورپاکستان کے خلاف ہونے اور ایڈین نیشنل کانگریس سے سیاسی ہمدردی رکھنے کی وجہ سے ہندوستان میں ضم ہونے کا اعلان کرنے والے تھے۔​

اباجان نے ان فوجی افسر سے ایک دن کی مہلت مانگی تاکہ وہ اس علاقہ میں جاکر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکیں اوراس خون ریزی کو روک کر امن و آشتی اور سکون کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرواسکیں۔وہ جو رزمِ حق و باطل میں فولاد ہونے کے باوجود حلقہ​

¾ یاراں میں بریشم کی طرح نرم تھے ، یہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے کہ اللہ کے نام لیوابھولے بھالے مسلمانوں پر توپ و تفنگ کے دھانے کھول دیے جائیں۔ اباجان نے اسی وقت اللہ سے دعا کی کہ یہ جنرل انھیں ایک موقع دینے کے لیے تیار ہوجائے۔قبولیت کی گھڑی تھی ، ان کی دعایئں رنگ لائیں اور کرنل احیاءالدین نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا۔

” اچھا مولوی صاحب ! ہم تمہیں ایک دن کی مہلت دیتے ہیں۔ جاﺅ اور جاکر اس مسئلے کو حل کرو، ورنہ ہم فوجی ایکشن کے لیے تیار ہیں۔“​

اباجان نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اور تیز تیز وقدموں کے ساتھ گاﺅں کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاﺅں میں پہنچے تو ایک ​

عجیب نظارہ دیکھا۔ علاقے کے افراد جو اپنی روایتی مہمان نوازی میں مشہور تھے، آج کوئی انہیں گرم جوشی کے ساتھ ریسیو کرنے والا نہیں تھا۔ اباجان جو علاقے میں اپنی مسلم لیگ دوستی کی وجہ سے مشہور تھے ، آج اس علاقے میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے ۔ بہر حال وہ مسجد میں پہنچے تو کوئی بھی ان سے ملاقات کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے ان سے کھانے کا پوچھا اور اس طرح اباجان نے وہ رات بھوکے رہ کر اس مسجد میں گزاری۔ صبح ہوئی تو انھوں نے ایک بار پھر علاقے کے عمائدین سے ملاقات اور بات چیت کی کوشش کی۔ اباجان عجب مشکل میں تھے۔ اس صورتحال کی سنگینی کو جس طرح وہ سمجھتے تھے اس طرح اس علاقے میں کوئی اسے سمجھتا نہیں تھا۔ اور مزید یہ کہ اباجان اس پوزیشن میںبھی نہیں تھے کہ ان لوگوں کو صورتحال کا صحیح ادراک کرواسکتے ۔کوئی مشکل سی مشکل تھی۔گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ ​

فسانہٗ آزادحيث تعيش القصص. اكتشف الآن