قسط 7 (دلِ صحرا)

Start from the beginning
                                    

عائشے کو مایوں بٹھا دیا گیا تھا کمرہ گیندے کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔پیلا جوڑا پہنے اوبٹن میں لت پت انوش کے ساتھ وہ تصویروں میں مگن خود بھی ایک گیندے کا پیلا پھول ہی لگ رہی تھی۔"یہ ارغن کیوں کال کر رہے؟"داہنے ہاتھ میں فون پکڑے عائشے چونک ک...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

عائشے کو مایوں بٹھا دیا گیا تھا کمرہ گیندے کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
پیلا جوڑا پہنے اوبٹن میں لت پت انوش کے ساتھ وہ تصویروں میں مگن خود بھی ایک گیندے کا پیلا پھول ہی لگ رہی تھی۔
"یہ ارغن کیوں کال کر رہے؟"داہنے ہاتھ میں فون پکڑے عائشے چونک کے بولی انوش نے اپنا تصویر کے لیے بلند کیا ہاتھ نیچے کیا۔
"پاگل لڑکی کال اٹھاؤ نا انکو بات کرنی ہوگی یقیناً۔آخر اب تو نکاح ہونے کو ہے پھر مسز ارغن بن جاؤگی۔"انوش نے اس پہ دباؤ ڈالا تو عائشے نے منہ بگاڑ کے کال ریسیو کرلی۔
"اسلام و علیکم۔"مقابل کا دھیما لہجہ عائشے کو کنفیوز کرنے لگا۔
"وعلیکم اسلام۔کیوں کال کی آپ نے؟"
"اچھا سوال ہے،،سوچا تھوڑی گفتگو کر لوں شادی سے پہلے کچھ انڈر اسٹینڈنگ ہوجائے۔"ارغن کے انداز میں دل نشینی تھی عائشے نے آنکھیں گھمائیں۔برابر میں لیٹی انوش عائشے سے چپک کے مسہری سے ٹانگیں لٹکائے پھولوں کی مہک خود میں اتار رہی تھی۔۔
"تو آپکو اب انڈر اسٹینڈنگ یاد آرہی؟"عائشے کے منہ سے بے ساختہ نکلا جو بول کے پچھتائی تھی۔
"تو آپ پہلے سے منتظر تھیں۔مجھے پتا ہوتا تو پہلے ہی کال کرلیتا۔"وہ شاید سیگریٹ پی رہا تھا۔
"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں فون رکھتی ہوں امی آگئی ہیں۔"عائشے نے کہہ کر فوراً لائن کاٹ دی اور لمبی سانسیں لیں۔انوش اٹھ بیٹھی اور اسے گھورا۔
"بات تو کرلیتی ڈھنگ سے اگلے کا بھی پتا چلے کے کیسا ہے،،"
"اچھا۔مجھے روما پہ بہت غصہ آرہا ہے میری شادی کے وقت ہی چلی گئی ہے تھوڑا انتظار کرلیتی ویسے تو بہت خوش ہورہی تھی میری شادی کو لے کر۔"عائشے کا موڈ اسکی یاد ستانے پہ خاصا بگڑا تھا مجبوری تھی ورنہ روما کی غیر حاضری میں شادی کرنا اسے خود اچھا نہیں لگ رہا تھا آخر کو وہ بیسٹ فرینڈ تھی۔
"مجبوری بھی کسی بلا کا نام ہے،تمھاری ملاقات کی سیٹنگ کرواؤں؟"انوش نے سرسری سا پوچھا۔
"کس سے؟"عائشے کا دھیان موبائل میں لگا تھا۔
"ارغن بھائی سے۔"انوش آنکھوں میں چمک لیے بولی عائشے نے تپ کے اسے دیکھا تو انوش کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"اچھا سوری مذاق کر رہی ہوں۔تمھاری شادی ہوجائے گی،،مجھے لگ رہا روما کی خالہ کا بھی کوئی بیٹا ہوگا تو سمجھ جاؤ اب بچی ایک کنواری میں جو پڑھ پڑھ کے کتابوں کو پیاری ہوجاؤنگی۔"
"تمھارے غم تھوڑے ویلیڈ ہوں تو ہم کچھ کریں بھی۔"عائشے نے جتایا اور انوش ہمیشہ کی طرح آنکھیں گھماتی کچھ کھانے کے لیے کمرے سے باہر نکل گئی۔اسی کے پیچھے عائشے کی کزنس نے کمرے میں ڈیرہ ڈال لیا تھا۔
                            ★ ★ ★
   ماڈل یلدیز کے ائیرپورٹ پہچنے کی خبر پکی تھی۔مراد نے ساری سکیورٹی الرٹ کروادی۔
دو دن میں زولفقار جاہ کے کیس کی سماعت تھی اور وہ ثبوت عدالت میں پیش کرکے کرپشن ثابت کردیتا۔
"مس اسٹاپ ہیئر۔"سکیورٹی اہلکار نے یلدیز کا راستہ روکا تھا جو آنکھوں پہ چشمہ لگائے سفید شرٹ اور بلیک لیدر کی پینٹ میں ملبوس،،ہاتھ میں ایک سوٹ کیس تھامے سیدھے ناک کی سمت میں چلے جا رہی تھی۔سکیورٹی کے روکنے پہ اسے مجبوراً رکنا پڑا۔
"بیگ چیکنگ ہوگی۔"
"پیچھے ہوئی تو ہے ابھی۔"یلدیز نے وضاحت کی ماتھے پہ پیسنہ آنے لگا۔
"میم آرڈر ملا ہے ہمیں۔پلیز کاپریٹ وتھ اس.."ساتھ میں لیڈیز کانسٹیبل بھی تھی جس نے ایک جست میں آگے بڑھ کے اسکا بیگ کھولا۔
یلدیز نے ہونٹ تر کرتے ہوئے انکے چہروں کا جائزہ لیا۔
"فائن آپ جاسکتی ہیں۔"خاتون نے اچھے سے اسکے سامان اور اسکی تلاشی لی،جب کچھ نا ملا تو اسے جانے دیا یلدیز مسکراہٹ اچھالتے ہوئے آنکھوں پہ چشمہ واپس لگائے آگے بڑھ گئی۔
                           ★ ★ ★
"ڈیم اٹ!ایسے کیسے ہوسکتا ہے ہماری خبر بلکل پکی تھی۔"
مراد غصے میں ٹیبل پہ ہاتھ مارتا ہوا دھاڑا..ائیرپورٹ کا ہی کوئی کمرہ تھا جہاں ساری سیکورٹی اور پولیس فورس تھی جو مراد کے انڈر کام کر رہی تھی۔
"سر یقیناً زولفقار جاہ کو خبر کا پتا چل گیا ہوگا جب ہی اس نے سوٹ کیس بدل دیئے یا پھر اس نے ہمیں بے وقوف بنایا ہے اس نے منی لانڈرینگ کروائی ہی نہیں ہوگی اسے پتا ہوگا آج ائیرپورٹ پہ کیا ہونے والا ہے۔"
خورشید کڑیاں ملاتے ہوئے بولا مراد نے گھور کے اسے دیکھا۔
   "خبر لیک کیسے ہوگئی پتا کرو کون ایسا ہے جو یہاں کی خبریں وہاں پہنچا رہا ہے۔"مراد نے جبڑے بھینچے کہا تمام افراد اسکا غصہ سہہ رہے تھے۔وہ غصہ ہوتا بھی کیوں نا اتنا اہم کیس اسکے ہاتھ میں تھا دو دن میں کورٹ کو ثبوت دینے تھے اور اب سب ہاتھ سے نکل گیا۔وہ جلے پیر کی بلی ہی بنا ہوا تھا۔
یہ کام واقعی اتنا آسان نہیں تھا جتنا مراد کو لگا تھا وہ اندر ہی جل رہا تھا زولفقار جاہ کا چہرہ ہر صورت وہ دنیا کے سامنے لانا چاہتا تھا ثبوت سمیت۔
    "سائیں وہ آفیسر غصے سے پاگل ہورہا ہے۔"ڈرائیونگ کرتے ہوئے شمس نے قہقہہ چھوڑتے ہوئے بتایا۔
"ابھی کا بچہ ہے زمہ داری کا جوش چڑھا ہے کچھ سالوں میں ہمارے ہی انڈر کام کرے گا۔"زولفقار جاہ ہنستے ہوئے بولے نگاہیں سڑک پہ جمی تھیں۔
"سائیں وہ کچھ عجیب سا ہے،اس میں الگ جنون سا ہے تھوڑا مشکوک لگتا ہے اور بہت پُر راز.."شمس نے اپنے خدشات ظاہر کیے۔
"دیکھتے ہیں اس میں کتنا جنون ہے۔فلحال تو کیس ہم جیت گئے یہی سمجھو اب شنواری سے مل لیا جائے۔"زولفقار کی بات پہ شمس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی تھی۔
احتشام شنواری اپنے دوست میاں حسن کے ہمراہ فیکٹری میں ہی تھے۔
میاں حسن انکے ہر مسئلے سے واقف تھے دونوں کے درمیان کافی گہری اور پرانی دوستی قائم تھی۔
پچاس لاکھ تک کی تو وہ بھی مدد کر رہے تھے۔
"فیکٹری کو بیچ دونگا تو آگے کیا ہوگا اور فیکٹری کی قیمت گر گئی ہے اور اس کو بیچنے میں بھی وقت لگے گا کوئی خریدنے پر راضی ہی نہیں۔باقی اپارٹمنٹ بیچ دیا تب بھی اتنے پیسے بن نہیں پارہے اور پھر روما کو لے کر جاؤنگا کہاں۔"احتشام شنواری نے سارے حالت پیشمانی سے بتاتے ہوئے کہا۔
"تم پریشان مت ہو میرا گھر تمھارے لیے ہر وقت کھلا ہے تمھارے پاس جو کچھ سیوونگز ہیں اور یہ پچاس پہلے اتنا ادا کردو تاکہ زولفقار جاہ کو تسلی ہو جائے۔"میاں حسن کی بات پہ انھوں نے سر کو تھوڑی جنبش دی۔
یہ کوئی بہت بڑی فیکٹری نہیں تھی پر جتنی تھی اور جتنا شنواری صاحب نے کمایا تھا وہ دو باپ بیٹی کے لیے بہت تھا بیٹی کو انھوں نے کسی چیز کی کمی ہونے نہیں دی تھی۔
اور جب حالات تنگ ہونے لگے تب بھی رومائزہ کو کسی چیز کی بَھنک نہیں پڑنے دی تھی اسکی زندگی کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
اور اب فیکٹری چل تو رہی تھی پر کچھ پیچھے منافع نہیں ہورہا تھا۔نو سال کا کنٹریکٹ بھی ختم ہوچکا تھا جو انھوں نے قرضے کے وقت لیا تھا۔
کچھ عرصہ فیکٹری بننے اور کاروبار کے جمنے میں لگا پھر اس دوران شنواری صاحب نے قرضا ادا نہیں کیا تھوڑی تھوڑی رقم جو وہ جما کرتے رہے تھے کہ ایک ساتھ ادا کرینگے وہ سب واپس کاروبار میں ہی لگ گئی تھی اور اب دیکھتے دیکھتے نو سال کی مدت ختم ہوچکی تھی وہ وہیں نو سال پیچھے کھڑے تھے۔بس تب قرضے جیسا بوجھ نہیں تھا صرف آگے بڑھنے کی امنگ تھی۔
قرض وہ بوجھ ہے جو اللہ بھی معاف نہیں کرتا تو وہ کیسے مزید پل سکتے تھے واپس حالت بگڑ گئے اور اس حد تک خراب ہوئے کے بیٹی تک کی وہ حفاظت نہیں کرسکے۔
                          ★ ★ ★
"سر زولفقار جاہ آئے ہیں۔"کسی ورکر نے اطلاع دی تھی اور پیچھے ہی زولفقار اور شمس نظر آئے۔
احتشام شنواری فوراً کھڑے ہوئے انھیں بیٹھنے کا کہا۔
"کتنے پرسکون ہو تم!میرے بیٹے کو میرے ہی خلاف کرکے تمھیں لگتا ہے کہ جیت تمھاری ہوئی ہے تو یاد رکھنا تمھاری بیٹی تمھارے پاس نہیں ہے..اور میران بھی اسکی حفاظت تب تک حفاظت کرسکتا ہے جب تک اسکا باپ خاموش ہے۔"وہ سینا چوڑا کیے کھڑے نہایت غضب کے تیور لیے رعونت سے بنا کسی لحاظ کے بولے شنواری صاحب نے صبر کا گھونٹ پیا۔
"محض غلط فہمی کی بنا پہ آپ میری بیٹی کو درمیان میں مت لائیں آپکا قرض اتارنے کو میں راضی ہوں اور جلد از جلد پیسے لوٹا دونگا۔"ماحول کی سنگینی بھانپتے ہوئے احتشام شنواری نے نرم لہجہ اپنایا تھا۔
  "پیسے تو تم لوٹاؤگے ساتھ ساتھ میران کو میرے خلاف کھڑا کرنے کا خمیازہ بھی بھگتو گے۔"کھلے لفظوں میں دھمکاتے ہوئے آنکھوں پہ چشمہ لگا کر زولفقار جاہ وہاں سے نکل گئے جیسے صرف احتشام شنواری کو وہ اپنی جھلک دکھانے ہی آئے تھے۔احتشام صاحب نے مٹھیاں بھنیچ کے میاں حسن کو دیکھا۔حسن نے پلکیں جھپکا کے انھیں حوصلہ دیا۔جبڑے بھینچتے وہ شمس کی طرف بڑھے۔
انھوں نے شمس کو اگلے دن تک دیڑھ کڑوڑ لوٹانے کی خبر دی تھی تاکہ کچھ زور کم ہو۔شمس متکبر سا احتشام صاحب کا شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دھیمے سے ہنسا اور زولفقار جاہ کے پیچھے ہی پلٹ گیا۔
اور احتشام صاحب ماتھا رگڑتے ہوئے کرسی کھینچ کے بیٹھ کر سوچ و بیچار میں لگ گئے۔
                            ★ ★ ★
رومائزہ کمرے میں بند پینٹنگ میں خود کو مصروف کر چکی تھی اسکا شوق ذہنی سکون کا ذریعہ بن رہا تھا۔
خود میں گنگناتی وہ شاید کسی انسانی شکل کے نقشے میں رنگ بھر رہی تھی۔
   صبح میران کی میٹنگز اور دورے وغیرہ طے تھے عزیز سے بات کرتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکلا۔رومائزہ کا جب کمرے میں جی متلانے لگا تو وہ باہر نکل آئی۔
فارم ہاؤس کے بیرونی داخلی دروازے کے ساتھ چھوٹی راہدری کے بعد بڑا سا ہال تھا جو لاؤنچ میں تبدیل تھا جسکے تھوڑا اندر کی طرف ڈائننگ ایریا قائم تھا اور وہیں تھوڑے فاصلے پہ کچن۔
لاؤنچ کے ایک جانب سیڑھیاں اوپر کی طرف جاتی تھیں جہاں الگ کاٹیج لک پہ پورشن بنا تھا اور اسکے ساتھ نیچے دو سے تین کشادہ لگژری کمرے موجود تھے۔عین دروازے کے ساتھ لگی کانچ کی بڑی دروازہ نما دیوار کھڑکیوں کے سنگ تھی جن پہ دھاری دار پردے یک طرف پڑے تھے۔
میران کو ہال کے دروازے کے قریب سے گزرتا دیکھ کر رومائزہ فوراً وہاں پہنچی۔
وہ سفید کُرتا شلوار پہنے چوڑے شانوں پہ بھورے رنگ کی گرم شال لٹکائے ہوئے تھا ہلکی بڑھی داڑھی،درخشاں چہرہ!
   "سنو کڈنیپر.."رومائزہ کی پکار پہ میران کے قدم ٹھہرے۔ہال میں سوائے فانوس کے ساری بتیاں بند تھیں اسی کی روشنی اس احاطے کو ملگجا روشن کیے ہوئے تھی اور باقی دروازے کے قریب چاند کی گرتی روشنی!
"تم جا رہے ہو؟"لہجے میں تشویش واضح تھی میران مبھم سا ہنسا۔
"فون رکھو عزیز میں آکے بات کرتا ہوں۔"فون کان سے ہٹا کر اس نے رومائزہ پہ مکمل نگاہ ڈالی جو جواب کے انتظار میں کھڑی تھی۔
غیر ضروری شانوں اور چہرے کے گرد بکھرے بال،،شانوں پہ پھیلا زرد رنگ کا دوپٹہ اور نیم سوجی ہوئی آنکھوں میں لاپرواہی تھی!
"ہاں..روکنے آئی ہو؟"
لہجے میں شوخ پن تو نہیں پر سرسری سی پراسراریت ضرور تھی ہمیشہ کی طرح وہ گڑبڑائی۔
"نہیں بلکل نہیں...واپس کب آؤگے؟"رومائزہ کے اتنے سوالوں پہ میران متحیر سا اسکو دیکھتا رہا جو سکون سے سامنے کھڑی سوال پہ سوال کر رہی تھی۔
"کیوں انتظار کروگی میرا؟"ماتھے پہ بل نمایاں ہوئے۔
"نہیں۔سکون کے دن گنوں گی..جب سے تم زندگی میں آئے ہو کچھ نا کچھ برا ہورہا ہے۔"
بنا لحاظ کیے وہ جھٹ بولی تھی۔لحاظ میران کے لیے تو رکھنا آتا ہی نہیں تھا۔ہاں اسکے دن کا ایک حصہ میران کو کوسنے میں بھی نکل جاتا تھا۔وہ سب حقیقت جان چکی تھی پھر بھی غصہ تھا اس پہ بہت غصہ!
میران کو بھی یقین تھا وہ الٹا جواب ہی دے گی۔باتیں مارنے میں وہ ماہر تھی اندازہ ہوگیا تھا۔
"بلکل جب سے تم زندگی میں آئی ہو میرے بھی مسئلے دوگنے ہوگئے ہیں۔"وہ کونسا کم تھا جواب سن کے رومائزہ کا منہ کھلا میران جو ہلکا سا اس کی طرف جھکا تھا اب پیچھے ہوا۔
"تم خود آئے تھے یونی،میں تو وہاں پڑھتی تھی۔اور پرنسپل کے آفس میں بھی یقیناً تم نے ہی بلایا ہوگا۔"اسے فوراً آگ لگی تھی گرم انگاروں پہ جلتے ہوئے کہا۔
"اچھی خوش فہمی میں رہ رہی ہو میں دور کرنا چاہتا بھی نہیں۔"دروازے سے باہر لان کا منظر آنکھوں میں سموتے ہوئے میران نے سادگی سے کہا البتہ رومائزہ کی نظریں اسی پہ جمی تھیں وہ اسے سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی۔
"میں جا رہا ہوں جلد ہی چکر لگاؤنگا خیال رکھنا اپنا۔"میران نے چہرہ واپس اسکی طرف پھیرا اسکی آنکھوں میں محبت خیال عزت کے الگ ہی رنگ تھے روما خاموشی سے سنتی گئی جب وہ جانے لگا تو پھر اسے روکا۔
"میں باہر لان میں جاسکتی ہوں؟اندر رہ رہ کر بیزار ہوگئی ہوں۔"وہ پوچھ رہی تھی پر اسکو حکم چلاتے ہوئے زیادہ لگی۔میران نے گہری سانس بھری ہاتھ میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھا اور سر ہلایا۔
"صرف شام میں۔"تحکم سے کہہ کر نظر بھر رومائزہ کو دیکھ کر میران نکل گیا تھا اگر تھوڑی دیر اور ٹہھرتا تو جانا مشکل ہو جاتا وہ دل پہ کس طرح پھہرے بٹھا چکا تھا یہ رومائزہ شنواری کو علم بھی نہیں تھا۔
کوئی تھا جو اسکی محبت میں خود کو جھلسا رہا تھا صرف اسکو وقت دینے کے لیے!
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے رومائزہ کا بولا لفظ 'کڈنیپر' یاد کرکے وہ مسکرایا ضرور تھا۔
ادھر رومائزہ کو تھوڑی خوشی ملی تھی باہر لان میں جانے کی...فلحال تو رات کا وقت تھا اب اگلے دن ہی وہ لان کا چکر لگا سکتی تھی تو واپس کمرے میں چلی آئی۔
                            ★ ★ ★
کسی این جیو کی افتتاحی تقریب تھی جس میں کئی سیاستدان شریک تھے اور میران ان میں سے ایک تھا۔
میران کو اکیلا صوفے پہ بیٹھا دیکھا تو اجمل خان نے اپنے قدموں کا رخ اسی جانب کیا اور معمولی سلام دعا کے بعد اسی کے ساتھ بیٹھ گئے نزدیک ہی لوگوں کی چہل پہل جاری تھی۔
"بہت مبارک ہو۔"مبارکباد وصول کرتے ہوئے میران نے سر ہلایا۔
"بہت شکریہ۔"تمکنت سی مسکراہٹ ہونٹوں کو چھو کر گزری اجمل خان زرا کھل کے بیٹھے اور واسکٹ کا درمیانہ بٹن کھولا۔
"مجھے اندازہ تھا زولفقار تمھیں ضرور سیاست میں لائے گا امید کرونگا ہمارے تعلقات بہتر رہیں۔"دیگر مہمانوں پہ انھوں نے نظر ڈالی میران ہونٹوں کے کونے پہ تبسم روکے سنتا رہا۔
"میرے تعلقات ہر اس شخص کے ساتھ اچھے رہیں گے جو اپنے فرائض میں کھوٹ نہیں کرے گا۔"وہ گہری بات کرگیا تھا اجمل خان رسمی مسکرایا۔
"بلکل۔یہ سیاست ایک ایسی فلم ہے جہاں ڈھیروں کردار ہیں اور ہمارے ساتھ مخلص کون ہے خبر نہیں ہوتی بعض اوقات ہمارے قریبی ہی ہماری ڈور کاٹ رہے ہوتے ہیں اور ہم اسکا پتا نہیں چلتا ہے ہم بے خبر رہ جاتے ہیں۔"اجمل خان کی تلخ مخلصانہ بات پہ اس نے لب ملائے۔
    "میں زولفقار کو عرصے سے جانتا ہوں تم اسکے بیٹے ہو پر پھر بھی اسکے بدلتے رویے سے آگاہ کرنا چاہوں گا۔وہ تب تک ساتھ رہتا ہے جب تک آپ اسکے پشت قدم رہیں اور اسکے بعد...."خان نے جملہ ادھورا چھوڑ کے میران کے تاثرات بھانپے تھے۔
"اسکے بعد کیا؟"پاس گزرتے بیرے کو اشارے سے روک کے قریب بلایا اور اسکے دائیں ہتھیلی پہ جمی ٹرے سے کوئی مشروب کا گلاس اٹھا کے میران نے لبوں سے لگا بھنویں سکیڑیں استفسار کیا۔
"میں نے سنا ہے تمھارے اور اسکے درمیان کسی معاملے میں اختلاف چل رہا ہے..."ایک گلاس انھوں نے بھی اٹھایا تھا میران سکون سے گلاس کی نوک پہ انگھوٹا پھیرتا رہا اور گہری سانس بھری۔
"کچھ خاص نہیں چھوٹے موٹے اختلافات ہوجاتے ہیں۔"اس نے بات ٹالی نہیں پر پردہ گوشی ہی کی تھی اجمل خان ہنس دیا۔
"چھوٹے موٹے ہی بڑے اختلافات بنتے ہیں اور زولفقار کو میرے خیال سے یہ پسند نہیں وہ فوراً خاتمہ کردیتا ہے۔"وہ شخص طنز کر رہا تھا یا میران سے مخلص تھا جو زولفقار کے ہر پہلو کا ذکر چھیڑ دیتا۔میران کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی اس نے کان کی لوو مسلی اور نرم تاثر دیتے ہوئے ہی سیدھا ہوا۔
"خان صاحب آپ فکر نا کریں۔خوشی ہوئی اپنے لیے آپکی فکرمندی دیکھ کر پر ایسا ہے وہ باپ ہیں میرے کہیں غلط ہوجاؤں تو آرام سے سمجھا دیتے ہیں غیروں جیسا رویہ ہمارے درمیان نہیں۔"
وہ صاف گوئی سے بولا اس نے کسی کو حق نہیں دیا تھا کہ اسکے باپ کے خلاف بیٹھ کے بولتا جائے اور وہ چپ کرکے سنے۔وہ کافی ناراض تھا زولفقار جاہ سے پر انکی عزت میں کمی کیسے کرسکتا تھا۔صرف ایک واقعے کی وجہ سے انکے پچھلے تمام احسانات بھول جاتا؟احسان تو نہیں پر میران پہلے جو تھا باپ کی بدولت تھا اور اب جو میران جاہ تھا وہ اس نے خود محنت کرکے اپنا نام بنایا تھا۔
دنیا اب جانتی تھی میران زولفقار جاہ سے کتنا مختلف ہے۔
"یہ اچھی بات ہے۔وزیرِ اعلی صاحب کو میرا سلام کہنا۔میں چلتا ہوں.."واسکٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے وہ کھڑے ہوگئے میران نے انکو الوادع کیا۔انکے رویے سے کافی حیران ہوا تھا جاتے جاتے بھی مصافحہ اور گلے مل کر گئے تھے۔
کیا میران کو اپنا کامپیٹیر سمجھ کے یہ سب کیا گیا تھا؟کیونکہ انکے معاملات تو سیاستدانوں والے ہی تھے کب کیا گولہ باری کردیں خبر نہیں۔خیر وہ زیادہ اس بارے میں سوچ کے خود کو تھکانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا کچھ خاص بات ہوتی تو چند دن میں خود ہی سامنے کھل جانی تھی۔
                           ★ ★ ★
پورا گھر برقی قمقمے جلنے سے روشن تھا گھر میں الگ افراتفری مچی تھی۔
گلی میں ہی نکاح کی تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔چند مہمان تھے جن میں کچھ رشتے دار اور اہلہ محلہ شامل تھا۔
رخصتی چونکہ ساتھ ہی تھی تو عائشے کو پالر سے تیار کروایا گیا تھا۔انوش پل پل اسکے ساتھ تھی دونوں ہی روما کی کمی محسوس کر رہی تھیں۔آج صبح سے ہی عائشے کا دل گھبرا رہا تھا اور انعم بیگم اسے مسلسل سمجھا رہی تھیں۔
تھوڑی ہی دیر میں مہمانِ خصوصی لڑکے والے بھی آگئے۔انوش اندر ویڈیو بنا کے لائے تھی اور اب باہر کا سارا منظر عائشے کی نظروں کے سامنے تھا۔
ہالف وائٹ شیروانی میں ملبوس ارغن تیار ہوکے مزید اپنی جانب توجہ کھینچ رہا تھا۔عائشے نے ویڈیو بند کردی۔
انعم بیگم کے ساتھ ارغن کی والدہ داخل ہوئیں جنھوں نے لال نیٹ کا دوپٹہ عائشے کے سر پہ ڈالا اور مہندی سے رنگے ہاتھ دیکھے۔
ہاتھوں کی پشت پہ ارغن کی دلہن ذیل تھا۔
بلوچی اسٹائل سرخ فراک میں عائشے بہت پیاری لگ رہی تھی۔پالر والی نے گہرے رنگ کی لپ سٹک لگا کر عائشے کا دل خوش کردیا تھا ہاں اسے لپ اسٹک کے گہرے رنگ بے حد پسند تھے۔ہلکے گلابی گال ناک میں باریک نازک سی نتھ اور بیچ کی مانگ سے گزرتی بندیا اور سائیڈ جھومر!
"انوش جلدی سے تصویر لو یار۔"انعم بیگم اور ارغن کی والدہ کے کمرے سے نکلتے ہی لال دوپٹے کو سر سے اٹھا کے عائشے نے انوش کو کہا جو موبائل میں گھسی ہوئی تھی اسکی آواز پہ سر اٹھایا اور چڑ کے عائشے کو دیکھا۔انوش گولڈن رنگ کی فینسی کرتی میں دلکش لگ رہی تھی۔
"عائش میں تھک گئی ہوں دیڑھ سو تصویریں ہوگئیں صرف ابھی ابھی کی۔"انوش نے جتایا تھا عائشے کا منہ بگڑا۔
"دلہن کی ساری باتیں مانی جاتی ہیں شرافت سے اس لال دوپٹے کے ساتھ بھی تصویر لو۔"وہ حکم دیتے ہوئے سر پہ دوپٹہ سیٹ کرچکی تھی انوش ناک کے نتھنے پھلا کے اپنا بیلبوٹم پجامہ سنبھالتی اسکی مسہری کے سامنے آگئی اور دھڑا دھڑ تصویریں کھینچ ڈالیں۔
    تھوڑی ہی دیر میں نکاح کا شور اٹھا عائشے کو صحن میں لاکر صوفوں پہ بیٹھا دیا گیا انوش اسکے بائیں جانب پیچھے کھڑی تھی اور معین صاحب اور انعم بیگم عائشے کے ساتھ تھے۔
قاضی صاحب نے سب کی موجودگی میں نکاح پڑھانا شروع کیا۔
                            ★ ★ ★
مراد لاک اپ میں کسی مجرم سے تفتیش کرکے باہر نکلا تھا اور خورشید کو کچھ انفارمیشن دینے لگا۔
"سر لڑکیاں اسمگل کرنے والے رفیق کا پتہ چل گیا ہے۔"جونیئر انسپیکٹر نے آکے اسے خوشی خوشی اطلاع دی تھی مراد جو کمر پہ ہاتھ جمائے خورشید سے گفتگو میں محو تھا اسکی آنکھوں میں انوکھی سی چمک امڈ آئی۔
"کہاں ہے وہ؟"سر پہ کیپ پہنتے ہوئے مراد نے بازوؤں کو گھما کے حرکت دی۔
"وہی کسی لڑکی کی زندگی برباد کرنے پہنچا ہوا ہے۔سنا ہے شادی کر رہا ہے۔اس وقت وہ جہاں ہے اسکی خبر خبری نے دے دی ہے۔"انسپیکٹر نے مزید بتایا تو مراد نے گہری سانس لی۔
"خورشید جیپ تیار کرو آج کسی صورت یہ خبیث بچے گا نہیں۔"انسپیکٹر کو ساتھ لے کر وہ تھانے سے باہر نکل گیا۔
                         ★ ★ ★
مولوی صاحب نے نکاح کے بول پڑھنا شروع کیے تھے کہ عجیب سا شور اٹھا۔
"معین بھائی باہر پولیس آئی ہے۔"پڑوسی ہانپتا ہوا اندر آیا اور چڑھتی سانسوں کو تھامے کہا عائشے کے والد تشویش کے عالم میں جگہ سے کھڑے ہوئے۔ماحول میں سرگوشیاں شروع ہوگئی تھیں۔
جب باہر شور اٹھا تو معین بلوچ گھر کے دروازے سے باہر نکلے کیونکہ باقی مہمان تو باہر ہی اہتمام کی گئی میز کرسیوں پہ موجود تھے۔
معین صاحب کے پیچھے باقی لوگ بھی گلی میں پہنچے باہر کا منظر ہی گویا الٹ چکا تھا۔
قناعت کا پردہ اٹھاتے ہوئے اے_ایس_پی اور مزید حوالدار داخل ہوئے تھے گلی کی پچھلی جانب کابھی پولیس کی جیپ نے راستہ بند کردیا تھا۔
اسٹیج پہ بیٹھا ارغن بھی گڑبڑا کے اٹھ کھڑا ہوا۔جونیئر انسپیکٹر نے فوراً ہی درمیان کا فاصلہ طے کیا اور ارغن کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالی تھی۔
"انسپکٹر صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں ہمارے داماد کو چھوڑیے۔"معین صاحب اسٹیج کی طرف ہونقوں کی حالت میں بڑھے۔مراد قہقہے سے ہنسا۔
اندر بیٹھی عائشے کا دل جو صبح سے گھبرا رہا تھا اس سے مزید بیٹھا نہ گیا خود بھی گھر کے عین دروازے کی چوکھٹ پہ آئی اور نظر دوڑائی پولیس کو دیکھ کر اسے سہی میں سانپ سونگھ گیا تھا۔انوش نے اسے تھاما۔
"بلوچن ہوش کرو۔"
"انسپیکٹر یہ کیا بدتمیزی ہے ہاتھ کھولیں میرے۔"ارغن نے گھبراہٹ کو پست پشت ڈالا اور انسپیکٹر سے مخاطب ہوا۔
"سر اسکی مرمت آپ ہی کریں۔"انسپیکٹر نے نیچے کھڑے مراد کو مخاطب کیا جو لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا اسٹیج پہ چڑھا تھا معین صاحب نے اسے کافی غور سے دیکھا جیسے کسی چیز کی تصدیق کر رہے ہوں۔
"انکل جی آپکا داماد ایک بہت بڑا مجرم ہے۔لاہور سے لڑکیوں کی اسمگلنگ کرنے میں اسکا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔کیوں بھائی رفیق بولنا پسند کروگے یا ہم ہی پول پٹیاں کھولیں؟"مراد نے جبڑے بھینچتے ہوئے اسکی گردن دبوچی تھی۔
  ارغن کے گھر والوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تو باقی حوالدار راستے میں حائل ہوگئے۔بلوچ فیملی پہ تو حیرانی کا عالم تھا اور محلے والے بھی ہکا بکا سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔
انوش کا بھی سر گھوما اس نے عائشے کو دیکھا جو بے یقینی کے عالم میں کھڑی تھی۔
اسکا نکاح تھا اور اب یہ اے_ایس_پی کیا باتیں کر رہا تھا۔
انعم بیگم ساکت نظروں سے ارغن کو دیکھنے لگیں۔کون تھا وہ ارغن یا رفیق؟یا کوئی بھروپیہ؟
"بھروپیہ ہے یہ۔اپنی بھلی شکل کا فائدہ اٹھا کر کئی شریف لوگوں کو بے وقوف بنا کر کئی نکاح کرچکا ہے اسکے بعد لڑکی کی زندگی برباد!"
"نکاح ویسے ہوا کہ نہیں؟"مراد نے غضب سے اس جھوٹے ارغن کو اسٹیج سے نیچے دھیکلا جو لڑکھڑا کے نیچے گرا۔مراد کی نظریں گھومتی ہوئی کونے کے مکان کے دروازے کی چھوکٹ پہ کھڑی لڑکی پہ ٹہھریں جو لال عروسی لباس میں آنکھوں میں حیرت لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی مراد کی نظروں میں نرم تاثر جھلکا۔اس نے نظریں گھوما کر معین صاحب پہ ڈالیں۔
"نکاح ہونے لگا تھا اور آپ لوگ آگئے میرے سب سمجھ سے باہر ہے۔یہ لوگ کافی شریف ہیں کیا آپ شیور ہیں؟"یقین کرنا بھی تو مشکل تھا وہ اپنی بیٹی سونپ رہے تھے جسکو اب ہتھکڑی لگی تھی۔
"صاحب جی پولیس ایسے ہی کسی کو گرفتار کرنے نہیں پہنچ جاتی کافی عرصے سے ہم کو اسکی تلاش تھی۔یہ آپ اپنی بیٹی کی خوش نصیبی سمجھیں جو اس درندے سے جان بچ گئی۔"وہ اسٹیج سے اترتا ہوا بولا۔اسکی جاذب شخصیت پہ ہر ایک کی نگایں جمی تھیں۔پولیس والے اتنے خود شکل اور ہینڈسم بھی بھلا ہوتے ہیں؟محلے کے اراکین نے پہلی بار ہی شاید دیکھا تھا۔
"عائشے یہ تو وہی اے ایس پی ہے۔اور یہ الو کا پٹھا رفیق اس مکار کو میں چھوڑونگی نہیں کیسے لڑکیوں کی یہ زندگی برباد کرسکتا ہے،،کاش روما یہاں ہوتی اسے تو داؤ پیچ مارنے بھی آتے ہیں اس ارغن روغن کا حلوہ بنا دیتے ہم!"
انوش بے قابو ہوچکی تھی عائشے نے اسکا بازو دبوچا اور اسے روکا۔
"پاگل ہوگئی ہو کیا۔پولیس والے اب خود نمٹ لیں گے۔میں تو شکرانے کے نفل ادا کروں بال بال بچ گئی اس عذاب سے۔۔اللہ معافی۔"بے یقینی کی کیفیت میں عائشے پھڑکتے لبوں سے بڑبڑا رہی تھی۔
"جھوٹے فریبیوں شرم نہیں آتی تم لوگوں کو۔"انعم بیگم ارغن کی جھوٹی ماں پہ برس پڑیں۔یہ اسی کے گینگ کے لوگ تھے جو صاف ستھرے حلیے اور پوری پلاننگ کے ساتھ سامنے والے کو شیشے میں اتار لیا کرتے تھے۔
انعم بیگم نے غصے میں اس عورت کو مارنا شروع کیا تو محلے کی عورتوں نے انکو سنبھالا اور معین صاحب کے کہنے پہ انکو گھر میں لے گئیں۔مراد نے ارغن کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا۔
حوالدار نے مجرموں کو ہتھکڑی لگائی اور انکو باہر لے جاکے جیپ میں ڈالا۔رفتہ رفتہ پولیس کے آنے سے جو گہما گہمی مچی تھی چھنٹتی گئی۔جو لوگ تقریب میں مدعو تھے بھی نہیں پولیس کو دیکھ کر وہاں پہنچ چکے تھے اور اب طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے۔
معین صاحب خود کو سنبھالتے ہوئے اندر چلے آئے۔پولیس کی وین جا چکی تھی پر مراد خورشید کے ساتھ بلوچ منزل میں داخل ہوا۔
صحن میں ہی بچھے صوفوں پہ اس لڑکی کے ماں باپ سر تھامے بیٹھے تھے چند رشتہ دار جو انکو سنبھال رہے تھے۔مراد نے سانس خارج کی اور معین صاحب کے برابر میں بیٹھا وہ انھیں پہچان چکا تھا ایک دو بار انھی دنوں تھانے میں اسکی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔
اسکے پاس بیٹھنے سے معین صاحب کو بھی وہ یاد آگیا تھا وہ شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے تھے۔
"دمیر صاحب بہت شکریہ اگر آپ وقت پر نہ پہنچتے تو ناجانے میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوجاتا۔"ایسا سوچ کر ہی تکلیف کے مارے دونوں میاں بیوی کے رونگھٹے کھڑے ہورہے تھے۔عائشے اکلوتی ہی بیٹی تھی دونوں کی کل کائنات!
مراد نے انکی جھکی کمر تھپکی۔
انوش کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی منظر کتنا بدل گیا تھا چند لمحوں پہلے عائشے کی شادی کے شادیانے بج رہے تھے اور اب ماتم بچھ گیا تھا اسے اپنی دوست کا اس طرح دور جانے کا خیال ہی تڑپا چکا تھا وہ بے ساختہ پلٹ کے عائشے کے گلے لگی۔
"عائشے شکر تم بچ گئیں۔"انوش نے جب اسکا گال چوما تو عائشے نے مسکرا کے اسے پیچھے کیا۔انوش کی نم آنکھیں دیکھ کر وہ اسے اسکی حرکت پہ باتیں سنانے کا ارادہ ترک کرتی واپس اسے گلے لگا چکی تھی۔
"تمھاری جان میں نے زندگی بھر نہیں چھوڑنی۔"خود میں بھینچے وہ نخرے سے بولی انوش ہنس دی۔
وہ دونوں خود کو نارمل کر چکی تھیں۔رشتہ ہی تھا ختم ہوگیا بلکہ جان بچی تھی عائشے کے لیے اس سے بڑی بات اور کیا ہونی تھی۔افسوس عائشے کو ضرور ہو رہا تھا پر شکر بھی منا رہی تھی اس نے ارغن سے کوئی دلی تعلق قائم نہیں کیا تھا اور یہ ساری سختی روما کی وجہ سے تھی ورنہ انوش نے تو پہلے ہی محبت کرواکے دم لینا تھا۔اور دل میں رفیق عرف ارغن کو لعن طعن کرکے مسہری پہ بیٹھ گئی۔
     "کتنے عرصے بعد بھائی صاحب کے گھر میں خوشی کے شادیانے بجے تھے سب خاک کردیا ان فریبیوں نے۔"کسی رشتہ دار کے کہنے پہ انعم بیگم نے سر ہلایا۔
"میری بچی کتنی خوش تھی خوشیوں کو نظر لگ گئی لوگ الگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔اب آگے اسکا رشتہ کرنا کتنا مشکل ہوگا۔"
رنجیدہ حالت میں انعم نے دوپٹے کے پلو سے آنکھوں کے کنارے آئی نمی صاف کی.
مراد کی نظر بھٹک کے کھڑکی کے پار گئی وہاں دو لڑکیاں کھڑی تھی لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے کچھ سوچ کے فیصلہ کیا اور بات کے اظہار کے لیے لفظ مجتمع کرکے گلا کھنکار کے بول پڑا۔
"میں آپکی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اگر آپکی اجازت ہو تو ابھی یہ کام سر انجام دیا جائے گا۔"صحن کی خاموشی مراد کی رعب دار آواز سے ٹوٹی خورشید نے چونک کے اسے دیکھا۔
اچانک اسکا فیصلہ سب کو حیران کرگیا تھا۔
اندر کمرے میں عائشے کے کانوں تک جوں ہی اسکی آواز پہنچی وہ آنکھیں پھاڑے نفی میں سر ہلاتے کھڑکی سے دور ہٹتی پیچھے ہوئی۔
جاری ہے......
Twist!
I don't know what is happening...lol
Mai bs apky comments ki muntazir hun..
Mujhy lag rha tha bht se log anoosh or murad ka couple soch rhy thy..
Kher lazmi btayein episode kesi lagi..story kesi ja rhi?
Must vote and comment..
JazakAllah!

عشقِ متشکرمWhere stories live. Discover now