ہانیہ دو دن بعد آج ہاسپٹل آئی تھی زوھان اور حریم نے اسے مزید آرام کرنے کا کہا مگر وہ صاف انکار کر گئی۔ کچھ پچھلے دنوں کے بخار اور کچھ اپنے اور زوھان کے متعلق ہاسپٹل میں ہونے والی چہ مگوئیوں سے اس کا دماغ چکرا گیا۔ ہانیہ کو زوھان پر بہت غصہ آ رہا تھا کہ آخر اس نے حورعین کو اپنی بیٹی کے طور پر کیوں متعارف کروایا کیونکہ پہلے سے کافی لوگ اس بات سے آگاہ تھے کے حورعین ہانیہ کی بیٹی ہے، زوھان کے اس ہاسپٹل کے اونر ہونے کی وجہ سے ہانیہ اور زوھان ہی ہر کسی کی بات کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ کافی فی میل ڈاکٹرز تو ہانیہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ ہانیہ نے اکتا کر زوھان سے صاف صاف بات کرنے کا ارادہ کیا اور اب اس کا رخ زوھان کے کیبین کی طرف تھا۔


•••••

   زوھان نے دستک کی آواز پر دروازے کی سمت دیکھا، اجازت ملنے کے بعد آنے والی ہستی کو دیکھ کر اس کی رگیں تن گئیں، ماتھ پر شکنیں بھی نمایاں تھیں۔
" یہاں کیا کر رہی ہو؟" زوھان نے مٹھیاں بھینچ کر ضبط کرتے کہا۔ زمدا نے ٹخنوں سے کافی اوپر آتے کیپری کے ساتھ شارٹ شرٹ پہن رکھی تھی جبکہ کندھے پر لٹکتا برائے نام دوپٹہ زمین کو چھو رہا تھا۔
"کیوں ڈئیر کزن نہیں آ سکتی کیا؟"  اس نے زوھان کی پیشکش کے بغیر اس کے سامنے والی کرسی سنبھالی، چہرے کو چھوتی لٹ کو ایک ادا سے کان کے پیچھے اڑسا۔
"فضول گوئی سے پرہیز کرو اور سیدھا مدعے پر آؤ۔" زوھان نے اپنی نظریں سامنے پڑی فائل پر مرکوز کیں۔ زمدا خود کو یوں نظر انداز کیے جانے پر بدمزا ہوئی۔
"بات کچھ یوں ہے ڈئیر کزن، آپ تو اس دن کے بعد دوبارہ آئے ہی نہیں تو میں خود ہی آپ سے ملنے چلی آئی۔" اس نے سامنے پڑی ٹیبل پر کہنیاں ٹکا کر ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے اس کی طرف دیکھتے کہا۔ وہ بلا کی حسین تھی، اپنی ہر ادا سے سامنے والے کو چاروں خانے چت کرنے کا ہنر رکھتی تھی مگر مقابل بھی زوھان ارباز خان تھا جس نے ایک بار اس کی طرف دیکھتے ناگواری سے منہ پھیر لیا۔
"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہمارا رشتہ کبھی اتنا خوشگوار نہیں رہا جو میں تمہاری تیمارداری کے لیے دوبارہ وہاں آتا یا تم مجھ سے ملنے کیلئے یہاں چلی آؤ۔" زوھان نے اس کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔ زمدا کی جانچتی نگاہیں بہت بریک بینی سے اس کا جائزہ لے رہی تھیں اس کا چہرہ سپاٹ تھا، اس کی آنکھوں میں وہ تاثر نہیں تھا جو زمدا کو دیکھتے ہی ہر مرد کی آنکھوں میں ابھرتا تھا۔
"پہلے نہیں تھا تو کیا ہوا اب تو کوئی خوشگوار تعلق قائم ہو سکتا ہے۔" اس نے آگے کو جھکتے  میز پر دھڑے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
زوھان نے اس کا ہاتھ جھٹکا، اسی وقت ہانیہ ایک دھاڑ سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی اگر یہ کوئی اور وقت ہوتا تو زوھان اس کے یوں آنے پر اسے ضرور ڈپٹ دیتا مگر اس وقت زوھان نے اسے یہاں دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔
"ڈاکٹر زوھان ارباز خان میرے پیچھے آپ یہاں کیا کرتے پھر رہے ہیں ذرا بتانا پسند کریں گے؟"  اس نے کڑے تیوروں سے اسے گھورتے کہا۔ زمدا نے بھی حیرت سے دھڑلے سے اندر داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھا جس کے آتے ہی زوھان کے تاثرات نارمل ہوگئے اور ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھل گئے تھے۔
"ڈاکٹر ہانیہ یہ ہاسپٹل ہے ہمارا گھر نہیں، یہ پوچھ گچھ آپ گھر جا کر بھی تو کر سکتی ہیں۔" زوھان ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھتے ہانیہ کی طرف بڑھا، اس کی بات، اس کے لہجے سے ٹپکتی نرمی و محبت پر تو ہانیہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"یہ یہ آپ۔۔" زوھان کے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑنے پر ہانیہ کی تو ہوائیاں ہی اڑ گئیں۔
"اوہ ، سوری زمدا ایک تو یہ جب میرے آس پاس ہو تو مجھے باقی کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا، مجھے باقی دنیا سے غافل ہی کر دیتی ہے میری بیوی کی موجودگی۔" زمدا کے گلہ کھنگارنے پر زوھان نے ہانیہ کی طرف دیکھتے دنیا جہان کی محبت اپنے لہجے میں سموتے کہا، زمدا اب بھی بے یقینی سے زوھان کو دیکھ رہی تھی کیونکہ زوھان کی بیوی، وہ تو اس شادی کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی تھی۔
"ویسے تمہیں پتا تو چل ہی گیا ہو گا اب تک لیکن میں پھر بھی بتا دیتا ہوں یہ ہانیہ ہے میری سوئیٹ وائف اور ہانی یہ زمدا ہے میری کزن۔" ہانیہ کی حیرت اب غصہ میں بدل گئی تھی، زوھان کا ہاتھ پکڑنا ہانیہ کو کافی ناگوار گزرا تھا۔
"زوھان ارباز خان پہلے حورعین آپ کی بیٹی اور اب ۔۔۔۔" ہانیہ نے اپنا ہاتھ زوھان کے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی مگر زوھان اپنی گرفت اس کے ہاتھ پر مضبوط کر گیا۔
"ہانی غصہ تو مت کرو اپنی بیٹی کے متعلق ہم گھر جا کر بات کر لیں گے اور جہاں تک بات ہے زمدا کی تو آئی سوئیر یہ بس میری ایکس فیانسی ہے۔ یہ ماضی ہے مگر اب تم میرا حال اور مستقبل سب کچھ ہو۔" زوھان نے ایک جتاتی نظر زمدا پر ڈالی جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ہانیہ نے اپنی بات کاٹنے پر اس کے ہاتھ پر اپنے ناخن گاڑھ دیے۔
"اگر تم مائنڈ نہ کرو تو پلیز۔۔۔ وہ کیا ہے مجھے اپنی بیوی کو منانا ہے تو وہ تو میں تمہارے سامنے نہیں کر سکتا۔" زوھان نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے بہت ہی مہذبانہ انداز میں زمدا کو گیٹ آؤٹ کہا تھا، غصے اور تذلیل کے احساس سے زمدا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"مجھے بھی خان حویلی جانے میں دیر ہو رہی ہے۔" خان حویلی پر خاصا زور دیتے وہ باہر نکل گئی اس کی دھمکی کو زوھان اچھے سے سمجھ گیا مگر سر جھٹکتے ہانیہ کی طرف دیکھنے لگا جو ابھی بھی اپنے ناخن اس کے ہاتھ پر گاڑھے کھڑی تھی۔
"پاگل عورت یہ کیا کیا ہے؟" زوھان نے اسے کندھوں سے تھام کر ایک جھٹکے میں اپنے روبرو کھڑا کرتے اپنا زخمی ہاتھ اس کے سامنے کیا۔
"آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی۔" اپنے کندھے سے اس کے ہاتھ ہٹاتے ہانیہ نے زوھان کو تھپڑ جڑ دیا۔
"یہ پہلی اور آخری بار تھا، آئندہ مجھے اس طرح کے بیہودہ مذاق میں غلطی سے بھی شامل مت کیجئے گا۔" انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتی وہ باہر نکل گئی۔
زوھان کافی دیر تو دروازے کو تکتا رہا مگر تھوڑی دیر بعد ہی اس کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔

••••••••

    پچھلے کچھ دنوں سے پریشے کو رات کے وقت بہت تیز بخار ہو رہا تھا مگر ضرار اس بات سے لاعلم تھا۔ مہرماہ پریہان کے رونے کی آواز پر نیند سے بیدار ہوئی دودھ کا فیڈر ایک ہاتھ سے اس کے منہ کو لگایا دوسرے ہاتھ سے پریشے کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کرنے لگی مگر اس کے ماتھے کو ہاتھ لگاتے اسے یوں محسوس ہوا جیسے جلتے کوئلے کو ہاتھ لگا لیا ہو۔ وہ بخار میں تپ رہی تھی، مہرماہ نے اس کی نبض ٹٹولی جو بہت آہستہ چل رہی تھی، سانسیں بھی مدھم تھیں۔ وہ روتی بلکتی پریہان کو وہیں چھوڑتی حواس باختہ ہو کر ضرار کے پاس پہنچی۔ ضرار سٹڈی میں موجود صوفے پر سو رہا تھا۔ بازو سے ہلانے پر بھی جب اس کی نیند میں کوئی فرق نہ آیا تو مہرماہ نے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔ وہ ہڑبڑا کر نیند سے جاگ اٹھا۔ مہرماہ کو اپنے سرھانے کھڑا دیکھ اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو دو بجا رہی تھی۔
"وہ پریشے کو بہت تیز بخار ہے، اس کی نبض بھی بہت آہستہ چل رہی ہے۔" ضرار کے چہرے پر پھیلتی ناگواری دیکھ کر مہرماہ نے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ ضرار ایک جست میں کھڑا ہوتا کمرے کی طرف لپکا۔
"کب سے بخار ہے؟" ضرار نے اسے گود میں اٹھایا اس کا بدن بخار میں جھلس رہا تھا۔
"تی۔۔تین چار ۔۔ دن سے۔" وہ ہکلائی تھی۔ وہ پچھلے کچھ دن سے ضرار کو پریشے کی طبیعت کے بارے میں بتانا چاہ رہی تھی مگر ضرار ناجانے رات کے کس پہر آفس سے گھر لوٹتا اور صبح مہرماہ کے اٹھنے سے پہلے ہی چلا جاتا۔
"اور تم مجھے اب بتا رہی ہو۔" وہ رات کا خیال کرتا دبی دبی آواز میں غرایا۔
"زوھان لالا سے پوچھ کر میں نے اسے میڈیسن دے دی تھی۔" اس نے کمزور سی دلیل پیش کی۔ وہ ایک تیز نظر اس پر ڈالتے گاڑی کی چابیاں اور سیل فون پکڑے دروازے کی طرف بڑھا۔
"میں بھی ساتھ جاؤں گی۔" وہ ضرار کے پیچھے آئی۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے پریہان سو رہی ہے اس کے پاس رہو۔" وہ غصے سے کہتا پریشے کو اٹھائے باہرنکل گیا۔



••••••••



ضرار کو گئے تین گھنٹے گزر گئے تھے، اس نے پریشے کی خیریت جاننے کے لیے اسے کال کی،پہلے تو وہ کاٹتا رہا مگر کچھ دیر بعد اس نے اپنا سیل فون ہی  آف کر دیا۔ وہ بےچینی سے کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی جب ضرار پریشے کو گود میں لیے اندر داخل ہوا۔ مہرماہ کو مکمل نظر انداز کیے وہ پریشے کو سٹڈی میں لے گیا۔ مہرماہ بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔
"اسے مجھے پکڑا دیں۔" ضرار اسے گود میں لیے صوفے پر ہی بیٹھ گیا تھا جب مہرماہ نے اسے لینے کیلئے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے۔
"ہاتھ بھی مت لگانا۔" ضرار نے بیدردی سے اس کے ہاتھ جھٹک دیے۔ پریشے کو صوفے پر ہی لٹاتے وہ کمرے کی طرف بڑھا۔
"آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟" مہرماہ بھی اس کے پیچھے ہی چلی آئی۔ پریہان کو بھی لا کر اس نے پریشے کے ساتھ لٹا دیا۔ مہرماہ اچنبھے سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"مہرماہ ابھی میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا پلیز یہاں سے چلی جاؤ۔" اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں۔ اس نے ان دونوں پر کمفرٹر ڈالا۔
"مگر کیوں؟" اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے ضرار نے  اسے ہاتھ سے پکڑے سٹڈی سے باہر نکالتے دروازہ بند کر دیا۔
مہرماہ نے غصے اور بےبسی سے دروازے کو گھورا۔ آنسو آنکھوں سے نکلتے گال بھگوتے ٹھوڑی سے ٹپکنے لگے۔ وہ بیڈ پر بیٹھ کر سر گھٹنوں میں دیے زاروقطار رونے لگی۔
وہ اتنے دنوں سے قائم اپنی ناراضگی بھلائے پریشے کی وجہ سے ضرار کے پاس گئی تھی مگر ضرار نے تو اس کی دونوں بیٹیوں کو اس سے ہی دور کر دیا تھا پریشے کی فکر میں روتے ضرار کی بےرخی یاد آتے ہی وہ اور شدت سے رونے لگی۔




••••••••••

مہرماہ کو کمرے سے نکالنے کے بعد ضرار نے فرش پر بیٹھتے صوفے سے ٹیک لگا لی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اسے پچھلے دو گھنٹے یاد آئے جو اس نے  پریشے کی فکر میں گھلتے ہاسپٹل کے کاریڈور میں گزارے تھے اس وقت اس نے خود کو بہت بےبس محسوس کیا تھا، اس کی بند آنکھوں کے پردے پر کبھی پلوشے کا بے جان وجود تو کبھی پشاور کے ہاسپٹل میں مشینوں میں جکڑا پریہان کا وجود لہرا رہا تھا۔ پریشے سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا  مگر پریہان اس کی زندگی میں شاہ میر اور پریشے سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ اس نے فرش پر بیٹھے ہی اپنا رخ ان دونوں کی طرف کرتے ان کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ اس کے آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کے قطرے منہ پر پڑنے پر پریشے ہلکا سا کسمسائی۔ ضرار نے اس کا چہرہ صاف کرتے دونوں کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
پریشے کی حالت نے اسے دوبارہ اسی اذیت سے دوچار کیا تھا جو اذیت، تکلیف اسے پلوشے اور زرش کی ڈیتھ پر ہوئی تھی۔ وہ جانتا تھا مہرماہ کا کوئی قصور نہیں ہے، غصہ اسے خود پر تھا کہ وہ مہرماہ سے ناراضگی میں اپنے بچوں کو یکسر نظرانداز کر گیا۔ پھر سے اولاد کھونے کا ڈر اس پر حاوی ہو گیا تھا وہ دونوں کو ایک پل کے لیے بھی اپنی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہتا تھا اسی لیے اپنے ساتھ انہیں بھی سٹڈی روم میں لے آیا۔


•••••••

لاؤنج کے دروازے سے داخل ہوتی زمدا کو دیکھ کر مہزلہ خان نے دل ہی دل میں خیر کی دعا مانگی کیونکہ اس کی آمد کبھی بھی خان حویلی کے مکینوں کے لیے خوش آئند نہیں رہی تھی۔ اس کا کندھے پر جھولتا ڈوپٹہ اب سر پر ٹکا ہوا تھا مگر اب بھی چہرہ ڈھک کر آنے کی زحمت اس نے نہیں کی تھی۔
"پاخیر راغلے تائی جان۔" زمدا نے بناوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے مہزلہ خان کے آگے سر جھکایا۔
"پاخیر راغلے بچے، کیسے آنا ہوا؟" مہزلہ خان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے سامنے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔
"دونوں ماں بیٹا ایک جیسے ہیں۔" مہزلہ خان کا زوھان کی طرح ہی سیدھا آنے کی وجہ پوچھنے پر زمدا نے دانت پیستے کہا مگر آواز اتنی مدھم تھی کہ مہزلہ خان کوشش کے باوجود سن نہ سکیں۔
"کچھ کہا بچے؟" مہزلہ خان نے ناسمجھی سے استفسار کیا۔
"نہیں تائی جان، وہ بابا جان کدھر ہیں مجھے ان سے ملنا ہے۔" چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے تمیز سے بات کرتے اب زمدا کو کوفت ہونے لگی۔ وہ سیدھا ارباز خان سے زوھان کی شادی کے متعلق بات کرنا چاہتی تھی یہاں آنے سے قبل وہ اتنا تو پتا کروا ہی چکی تھی کہ خان حویلی زوھان کی شادی سے بے خبر تھی۔
"وہ تو صبح ہی کسی کام سے اسلام آباد گئے ہیں۔"
"کب تک آئیں گے؟" اس کی بےصبری پر مہزلہ خان کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔
"ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا۔" زمدا یہ بات ارباز خان کو فون پربھی بتا سکتی تھی مگر وہ ایک ہفتے کے انتظار کو ترجیح دیتے اپنی جگہ سے اٹھی۔
"ٹھیک ہے پھر میں چلتی ہوں، ویسے تائی جان پوتی کی بہت بہت مبارک ہو۔" وہ دروازے کے قریب سے واپس آتی چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ لیے بولی۔
"پوتی نہیں پوتیاں، ضرار اور مہرماہ کی ایک نہیں دو بیٹیاں ہیں۔" مہزلہ خان نے ہنستے ہوئے اس کی بات کی تصیح کی۔
"میں مہرماہ کی  نہیں، آپ کے بیٹے زوھان کی بیٹی کی بات کر رہی ہوں۔" اس نے مہزلہ خان کے سر پر بم پھوڑا مگر اس بات پر یقین کرنا ان کیلئے آسان نہیں تھا۔
"شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے بچے، زوھان کی تو ابھی تک شادی ہی نہیں ہوئی۔" مہزلہ خان نے دھیمے اور افسردہ لہجے میں کہا۔ زمدا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
"تائی جان مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، آج خود زوھان نے مجھے اپنی بیوی سے ملوایا ہے بلکہ وہ تو اسی کے ہاسپٹل میں جاب کرتی ہے۔" زمدا اپنی بات پر مہزلہ خان کے چہرے کے بدلتے تاثرات سے بہت محظوظ ہوئی۔
وہ مزید بھی کچھ کہہ رہی تھی مگر وہ تو زوھان کی بیوی کا سن کر ہی ساکت ہو گئیں تھیں۔ زمدا ان کی غائب دماغی کو محسوس کرتی وہاں سے چلی گئی۔


••••••••

مہرماہ بیڈ پر چت لیٹی چھت پر موجود کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ اس کی ساری رات آنکھوں میں ہی کٹی تھی۔ سٹڈی روم کا دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ ضرار کو پریہان اور پریشے کو اٹھائے باہر آتا دیکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی مگر ان کو لینے کے لیے اس کی طرف نہیں بڑھی۔ ضرار کی آنکھیں بھی رتجگے کی چغلی کھا رہی تھیں۔ ضرار نے مہرماہ کی طرف دیکھا جو خالی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس سے نظریں چراتے ضرار پریشے اور پریہان کو وہیں بیڈ پر لٹاتے ڈریسنگ روم کی طرف چلا گیا، اس کے واش روم جاتے  ہی مہرماہ نے دونوں کے چہرے کا ایک ایک نقش والہانہ چومتے انہیں سینے میں بھینچ لیا۔
واش روم کا دروازہ بند کرتے اس سے ٹیک لگاتے ضرار نے اپنی آنکھیں بند کر لیں وہ رات کو تو اپنی تکلیف میں مہرماہ کی تکلیف بھول گیا تھا مگر ابھی اسکی اجڑی ہوئی حالت، اس کی ویران آنکھیں چینخ چینخ کر اس پر اپنی اذیت بیان کر رہی تھیں۔

•••••••

حریم کو اکیلے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے دیکھ کر زوھان ٹھٹھکا مگر جلد ہی خود پر قابو پاتے وہ کرسی پر براجمان ہوا۔
"ہانیہ کو کھانے کے لیے بلا کر لائیں" زوھان نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے کہا۔
"لالا انہیں بھوک نہیں ہے۔"
"میں نے کہا بلا کر لائیں۔" زوھان نے کھانے سے ہاتھ روکتے اس کی طرف دیکھتے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا۔
"مگر لالا۔۔" زوھان کی گھوری پر ہڑبڑا کر حریم نے سیڑھیوں کی طرف دور لگا دی۔
کچھ ہی دیر میں ہانیہ حریم کے ساتھ والی کرسی پر براجمان تھی۔ اس کی آنکھیں اور ناک رونے کی چغلی کھا رہے تھے۔
"لالا آپ نے ہاسپٹل میں سب کو یہ کیوں کہا کہ حورعین آپ کی بیٹی ہے؟"  ہاسپٹل میں زوھان اور ہانیہ کے متعلق ہونے والی باتیں اس نے بھی سنی تھیں اور ہانیہ نے گھر آتے ہی زوھان کے کیبین والا واقع بھی اس کے  گوش گزار کر دیا تھا۔  زوھان کی آنکھوں میں تعجب واضح تھا۔
"لالا ہر کوئی آپ کے اور ہانیہ کے متعلق من گھڑت باتیں بنا رہا ہے کیونکہ پہلے سے بہت سے لوگ جانتے ہیں حورعین ہانیہ کی بیٹی ہے اور اب آپ کی بیٹی۔۔۔۔۔" زوھان نے صدمے سے اس کی طرف دیکھا وہ اس بات سے مکمل لاعلم تھا کیونکہ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ایسی باتیں زوھان کے سامنے کر سکتا۔
"مجھ لوگوں کی باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔" وہ سپاٹ انداز میں کہتے دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
"لیکن مجھے فرق پڑتا۔"
"میں نہیں چاہتی میری بیٹی لوگوں کی بیہودہ باتوں کا موضوع بنے، اپنے پر اٹھنے والی انگلیاں میں برداشت کر سکتی ہوں مگر اپنی بیٹی  کی ذات پر اٹھتے سوالات میرے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔" وہ کرسی پیچھے کو دھکیلتے دبی آواز میں چلائی۔ گالوں پر بہتے آنسوؤں کو بیدردی سے صاف کرتے وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔
"لالا میں آپ سے جتنا بھی جھگڑا کر لوں لیکن آپ ہمیشہ میرے آئیڈیل رہے ہیں لیکن جو آپ نے آج کیا وہ بہت غلط تھا چاہے آپ کا ارادہ غلط نہ بھی ہو مگر زمدا بجو کے سامنے آپ کو ہانیہ کو اپنی بیوی کے طور پر متعارف نہیں کروانا چاہئیے تھا اور نا ہی آپ کو ان کا ہاتھ پکڑنا چاہئیے تھا۔"  اس نے تاسف سے کہا۔
"حورعین والی بات پر انہیں آپ پر غصہ تھا مگر اس کے بعد جو آپ نے کیا اس نے تو ان کے غصے کو اور  بڑھاوا دیا ہے۔" وہ زوھان کے چہرے پر نمایاں ہوتے شرمندگی کے تاثرات دیکھ چکی تھی مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اب بھی شام والا منظر تھا جب ہانیہ واشروم میں کھڑی اپنے ہاتھ کو رگڑ رگڑ کر دھو رہی تھی، آدھے گھنٹے بعد وہ زبردستی اسے واشروم سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ ہذیانی انداز میں چلائی تھی اس وقت اسے ہانیہ اپنے حواسوں میں نہیں لگی تھی، اس نے شکر ادا کیا تھا کہ زوھان تب گھر پر نہیں تھا۔
"اگر میں سچ میں اسے اپنی بیوی بنانا چاہوں تو۔۔" زوھان کھوئے لہجے میں بولا، حریم کو اپنی سماعت پر شک ہوا۔
"لالا آپ زوھان ارباز خان ہیں، سردار ارباز اسفند جبار خان کے بیٹے جن کے لیے اپنا قبیلہ، اپنی روایات سب سے اہم ہیں۔" حریم ارباز خان کے ردعمل سے باخبر تھی وہ کبھی زوھان کے اپنی برادری سے باہر شادی پر نہیں ماننے والے تھے۔ اس کی بات پر زوھان کو بھی چپ لگ گئی، حریم اس پر ایک افسوس بھری نگاہ ڈالتے اپنے کمرے میں چلی گئی۔


•••••••••

مہرماہ صبح سے اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی۔ بھوک نہ ہونے کا بہانا بناتے اس نے کچھ کھانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ کبھی اسے لگتا وہ کسی انجان کی کہی بات پر یقین کر کے ضرار کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے لیکن جب اس کی آنکھوں کے سامنے زینیا سے بات کرتے ضرار کا مسکراتا چہرہ آتا تو اس کی بدگمانی  دل میں پیدا ہوتے شرمندگی کے احساس پر حاوی ہو جاتی۔ شاہ میر کے آنے پر اس نے مسکراتے ہوئے اس کے لیے بازوں وا کیے وہ بھاگتا اس کے بازوؤں میں سما گیا۔ گزرے مہینوں میں دونوں کے درمیان قائم اٹوٹ رشتے نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ دل سے جڑے رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ مظبوط ہوتے ہیں اگر دونوں طرف سے اس رشتے کو اپنی محبت سے پروان چڑھایا جائے۔
"مما مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔" شاہ میر کافی دنوں سے اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ ضرار اور مہرماہ کے مابین بڑھتی ناراضگی نے اسے آج بات کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
"ہمارے بیٹے نے ایسی کیا بات کرنی ہے جسے کرنے سے پہلے اتنا ہچکچایا جا رہا ہے۔" مہرماہ نے پیار سے اس کے گال کھینچے جس پر وہ منہ بگاڑنے لگا۔
"پہلے آپ پرامس کریں آپ آرام سے میری پوری بات سنیں گی اور مجھے درمیان میں ٹوکیں گی بھی نہیں۔" اس نے اس کے سامنے بیڈ پر ہی گھٹنوں کے بل بیٹھتے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
"اوکے پرامس۔" مہرماہ نے اسکے اپنی طرف بڑھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
"مما، آپ جو بھی ڈیڈو اور زینی آنٹی کے متعلق سوچ رہی ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ بس ڈیڈو کی بزنس پارٹنر ہیں اور موم کی فرینڈ۔" اس کی بات پر مہرماہ کے چہرے کے تاثرات بگڑے۔
"شاہ میر آپ بچے ہو ابھی ان باتوں میں مت پڑو۔" مہرماہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے کہا۔
"مما آپ نے وعدہ کیا تھا ہماری پوری بات سنیں گی اور ہم بچے نہیں ہیں۔" شاہ میر نے  مہرماہ کا ہاتھ کھینچتے اسے واپس بیٹھایا اور ناراضگی سے کہا اسے مہرماہ کا اسے بچہ کہنا برا لگا۔
" ڈیڈو جس سے محبت کرتے ہیں وہ زینی آنٹی نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔" اس کی آخری بات پر مہرماہ نے تحیر سے اس کی طرف دیکھا، اس نے کبھی بھی اس نہج پر نہیں سوچا تھا۔
شاہ میر کے کمرے سے چلے جانے کے بعد بھی کافی دیر وہ حیرت کی تصویر بنے بیٹھی رہی اس نام کے  بعد جو کچھ شاہ میر نے اسے بتایا تھا اس پر یقین کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔
باہر سے آتی ضرار کی آواز کو سنتے اس نے ضبط سے آنکھیں بند کیں، کافی دیر سے رکے آنسوؤں بند آنکھوں سے باہر نکلتے اس کی گال بھگو گئے۔ ضرار کے کمرے میں آنے سے پہلے اس نے غصے میں اپنے آپ کو  ڈریسنگ روم میں بند کرلیا۔


•••••••••





ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now