•••••••••••

گرے ڈریس پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے کہنیوں تک سلیوز فولڈ کیے، بازو پر اوور آل ڈالے، ہاتھ میں سٹیتھو اسکوپ پکڑے وہ کافی عجلت میں ریسیپشن پر پہنچا اور وہاں موجود ریسیپشنسٹ سے کسی کے متعلق دریافت کیا لیکن جواب میں کہی گئی بات نے اس کے چہرے پر موجود سنجیدگی اور تھکن کو ایک دم ہی غصے میں بدل دیا تھا۔ وہ بات مکمل کرتے ہی لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کیبن میں پہنچا اور آوور آل کو زور سے کرسی کی ٹیک پر پٹخا۔ موبائل فون جیب سے نکالتے ایک نمبر ڈائل کیا، جواب موصول نہ ہونے پر دوبارہ سے کال کی اب ک بار چوتھی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی۔
"اسلام علیکم!" سپیکر سے کسی لڑکی کی چہکتی ہوئی آواز ابھری۔
"کہاں ہیں آپ اس وقت؟" گہری نیلی آنکھوں میں غصے اور نائٹ ڈیوٹی کی تھکن کی وجہ سرخ ڈورے واضح تھے۔
"کون۔۔۔؟" اپنے بے تکے سوال پر اس نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی اور اپنی گہری نیلی آنکھیں سختی سے بند کر لیں کیونکہ آواز تو وہ پہچان چکی تھی اور اب بغیر نام دیکھے کال ریسیو کرنے پر خود کو کوس رہی تھی۔
"حریم شہیر خان نیند سے بیدار ہو جائیں اور بستر سے نکل کر منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں تاکہ ہوش میں آسکیں۔" ایک ایک لفظ چبا کر کہا گیا۔
"لا۔۔۔لالا" اس نے کمزور سی آواز میں کہا۔
"جی بالکل آپ کے لالا۔۔۔ زوھان ارباز خان اور اگر اب آپ کو ہوش آ ہی گیا ہے تو کیلینڈر سے آج کی ڈیٹ بھی دیکھ لیں اور آپ کی میمری اتنی شارپ تو ضرور ہے کہ ڈیٹ دیکھ کر یاد آجائے کہ آپ کو آج کیا کرنا تھا کہ اب یہ بھی میں ہی آپ کو بتاؤں؟"  شرمندہ کر دینے والے انداز میں کہا گیا مگر وہ تو اب تک شرمندگی کے 'ش' سے بھی واقف نہ ہوئی تھی۔ اس نے بمشکل ہی اپنی ہنسی ضبط کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس وقت زوھان کا منہ غصے سے سرخ ہو گیا ہو گا۔ اس کا سرخ چہرہ تصور میں لاتے ہی اس کا دل قہقہہ لگانے کو کرنے لگا مگر ہائے رے قسمت۔۔۔۔۔۔
"لالا اب ہماری بات بھی تو سن لیں آپ ، ضرار لالا حویلی آرہے ہیں تو میں آج جوائیننگ نہیں دے سکتی۔" اس نے کمزور سا عذر پیش کیا۔
"پہلی بات ضرار آج نہیں کل تک آئے گا دوسری بات وہ ایک دو دن نہیں زیادہ عرصے کے لیے آرہا ہے تو ہم ویکینڈ پہ بھی جاسکتے ہیں، تیسری اور اہم بات آپ یہاں جوائیننگ دیے بغیر حویلی نہیں جا سکتیں۔" اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"لالا لیکن ہم زارام لالا سے کہہ چکے ہیں وہ تو اب تک اسلام آباد کے لیے نکل چکے ہوں گے۔"اس نے ایک اور عذر تراشا۔
"یہ بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ہم ابھی کال کر کے منع کر دیتے ہیں۔" جواب دوبدو آیا تھا۔
"لیکن لالا۔۔۔۔" اس نے اپنی آواز کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
"ہمارے سامنے ان حیلے بہانوں سے اجتناب کریں تو آپ کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔" زوھان نے بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے لالا میں کوئی بہانہ، کوئی عذر پیش نہیں کروں گی لیکن میں اسلام آباد میں نہیں آپ کے میرپور والے ہاسپٹل میں جاب کرنا چاہتی ہوں۔" اب کہ اس کی آواز میں نمی گھل گئی تھی۔
"اور میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں ایسا نہیں ہو سکتا۔" اس نے حتمی انداز میں کہا۔
"اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو اس بار میں بھی ضرار لالا کے ساتھ چلی جاؤں گی اور کبھی واپس نہیں آؤں گی۔" اس نے دھمکی دی۔
"تمہاری اس بلیک میلنگ سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑنے والا میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے۔" اس نے سنجیدگی سے کہا۔
"صحیح کہا آپ نے لالا، آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا آپ پتھر دل انسان ہیں آپ کو دوسروں کی فیلینگز کا کوئی  خیال ہی نہیں ہے۔" حریم نے بیدردی سے اپنی گال سے آنسو رگڑتے ہوئے کہا اور کال کاٹ کر فون غصے سے  دور اچھال دیا۔
کال کٹتے ہی زوھان موبائل فون کی سکرین کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ اسے دکھ نہیں پہنچانا چاہتا تھا پر سختی کے سوا اس کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہ تھا۔
"ریم آپ کے لالا نے آپ کو ہمیشہ اپنی سگی بہن کی طرح چاہا ہے  آپ کو تکلیف میں دیکھ کر آپ کے بھائی کو بھی تکلیف ہوتی ہے جو ماضی میں ہو چکا ہے اسے تو میں نہیں بدل سکتا لیکن آپ کو خود کو تکلیف پہنچاتے دیکھ کر چپ بھی نہیں رہ سکتا ماضی میں رہنا بےوقوفی ہے بچے آپ کو ماضی کو بھلا کر حال میں جینا سیکھنا ہوگا اور اس کے لیے مجھ سے جو ہو سکا وہ کروں گا میں۔" وہ چئیر کی بیک پر سر گرائے سوچوں میں خود سے ہی عہد کر رہا تھا، اس کی آنکھیں ضبط سے مزید سرخ ہو چکی تھیں۔

ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now