دوستی اور محبت | ✔

By easternbirdiee

10.3K 781 335

دوستی اور فرض کے بیچ جدوجہد۔۔۔ ایک ایسا سفر جس کی منزل وہم و گمان میں نہ تھی۔۔۔ ایسا ہمسفر جسکی چاہت نہ تھی۔۔... More

1~Arguements+Cast1
2~Wild Cat
3~Sorry
4~Innocent Gangster
5~Sweet Sorry
6~Aryan Kapoor
7~Someone from past
8~A little avenge
9~Rain Dance
10~When we were happy
11~Our First Mission+Cast2
12~Nagin Dance
13~Someone is back
14~Diary
15~Zah E Naseeb
16~They lost them
17~Secrets of past
18~That two years
19~Not again
20~Let's play with a new start
21~Distraction
22~He is also hurt
23~All about past
24~So called drama
25~We just hate you
26~Happy Birthday Nael
27~It's over
28~Dinner
29~New Entry
30~Dream
31~As you sow so shall you reap
32~He got his punishment
33~Azan has gone
34~Azhar
35~We have got Master Mind
Note

36~ Canada(LAST)

346 19 15
By easternbirdiee


🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

Nothing hurts the most, but a 'Good Bye', does!

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

چلتے ہیں ایک ایسے سفر پر جو آخری ہے۔ جس کے آگے سب ختم ہوجاتا ہے۔ کچھ نہیں رہتا۔ بچتا ہے تو صرف یادیں اور احساس۔
حسین یادیں۔۔۔اچھے لمحات۔۔۔ اور بس۔ کیا کوئی سفر اتنی سی مدت رکھتا ہے۔ جیسے سب پلک جھپکتے ختم ہوجاتا ہے۔ .پلک جھپکتے۔۔۔ جی ہاں پلک جھپکتے ہی۔

¤--------¤----------¤


آئرہ اور عنایہ پاکستان پہنچی تو وہ ڈیفینس ایریا میں گئی تھیں۔ وہاں عنایہ کے والدین کا گھر تھا اور یہ اسے آنے سے پہلے پتا چلا تھا۔ یہاں پہنچنے تک آئرہ نے بہت صبر کیا تھا اب اور مشکل ہو رہا تھا۔۔لیکن عنایہ اتنی ڈھیٹ تھی کہ اسنے تب تک کچھ نہیں بتانا تھا جب تک اسکی مرضی نہ ہوتی پھر چاہے جتنی بھی زبرستی کرلو۔

"سچ آ بیوٹیفل ہاؤس۔" عنایہ گھر کی تعریف کر رہی تھی اور آئرہ کے صبر کا پہمانہ لبریز ہو رہا تھا۔

"عنایہ تم۔۔۔"

"آئرہ تم فریش ہو جاؤ پھر ہمیں کہیں جانا ہے۔ میں بھی فریش ہوکر آتی ہوں۔" آئرہ کی بات کاٹ کر اپنی کہتی وہ ایک کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ آئرہ پیر پٹختی رہ گئی۔

آئرہ جب کمرے سے باہر آئی تو اسنے عنایہ کو صوفے پر بیٹھے دیکھا جو مزے سے لیز کھا رہی تھی۔ آئرہ کا کمرہ نیچے ہی تھا۔ وہ چل کر اسکے قریب آئی بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے۔

"آگئی تم۔ کچھ کھاؤ گی؟" عنایہ نے اپنا منہ ہلاتے اس سے پوچھا۔

"مجھے کچھ نہیں کھانا۔ تم۔۔۔"

"اچھی بات ہے پھر یہ لو( اسنے ایک اور پیکٹ آئرہ کی طرف اچھالا جو اسنے پکڑلیا) ابھی اس سے گزارا کرو۔ ہمیں کہیں جانا ہے۔" عنایہ نے پھر سے اسے ٹوکا تھا۔

"نہیں اب جب تک تم مجھے نہیں بتاتی میں کہیں نہیں جاؤگی۔" وہ عنایہ کے سامنے آکر بیٹھ گئی جو ابھی ابھی وہاں سے اٹھی تھی۔

"راستے میں سب بتاتی ہوں اور تمہارا میرے ساتھ چلنا ضروری ہے۔ مجھے راستوں کا نہیں پتا تو جی پی ایس سے تم مجھے گائڈ کرو گی۔ اب اٹھو اور چلو۔" حکم رائج کرتے  منہ ہلاتی وہ باہر چلی گئی۔ آئرہ کا دل کیا تھا کچھ اٹھاکے مارے اسکے سر میں بھی اور اپنے سر میں بھی۔

گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی۔ عنایہ ڈرائیو کر رہی تھی۔ اب تک تو وہ خاموش تھیں لیکن یہ خاموشی جان لیوا بن رہی تھی آئرہ کے لیے۔

"آئرہ نائل کو کال کرو زرا مجھے بات کرنی ہے۔" جس پر آئرہ نے چونک کر اسے دیکھا۔

"تمہیں اس سے کیا بات کرنی ہے وہ بھی ابھی؟"

"اور تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ کال کرو اسے وہ میرا بھی دوست ہے میں کیوں بات نہیں کرسکتی؟" آئرہ ہر  بات کے ساتھ اور جلتی جا رہی تھی۔ آئرہ نے کال ملائی تو  عنایہ نے سپیکر آن کردیا۔

"ہیلو سویٹ ہارٹ کیسی ہو؟" نائل چہک کے بولا تھا آئرہ نے حیرت سے عنایہ کو دیکھا اور عنایہ نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔

"ہیلو جانِ من کیسے ہو؟" آگے سے عنایہ بولی تھی جس نے آئرہ کو خاموش رہنے کو کہا۔ آئرہ تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ پر دوسری طرف لمحہ بھر کا سناٹا چھا گیا۔

"عنایہ تم؟" نائل کی حیرت زدہ آواز آئی تھی۔

"ہاں کیوں میں نہیں ہوسکتی؟" عنایہ کو تو مزا آرہا تھا کباب میں ہڈی بن کر۔

"نہیں وہ مجھے لگا۔۔۔" نائل شرمندہ ہوگیا تھا یا پھر شرما گیا تھا۔

"ارے شرماؤ مت تمہاری سویٹ ہارٹ میرے ساتھ ہی ہے۔ میں نے تو بس یہ پوچھنے کے لیے کال کروائی کہ تم کہاں ہو؟"

"کیا طلب میں کہاں ہوں۔ تم نہیں جانتی کیا؟ ایسا تو ہو نہیں سکتا۔" نائل نے اسے طنز کیا۔

"جی بلکل میں جانتی ہوں۔ وہ کیا ہے نا پاکستان بہت بڑا ملک ہے۔ اب مجھے کیا پتا کہ تم لاہور شہر کے کس حصے میں ہو۔"

"میں ایمپوریم مال  میں ہوں. (نائل نے سادہ انداز میں کہا۔ لہجے سے وہ مصروف لگ رہا تھا پر ایک دم وہ چونکا) ایک منٹ ایک منٹ۔ تم کہاں ہو ابھی؟" نائل کو شک ہوا تھا۔

"بائے بائے۔ سی یو سون۔" اسکی بات کا جواب دیے بغیر اسنے کال کاٹ دی۔
"عنایہ یہ سب کیا کے؟"

"جاسوسی۔" عنایہ کا انداز مستقل تھا۔

"جاسوسی؟ کس کی؟" آئرہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔

"اذان علوی کی۔"

"اچھا۔" کہہ کر آئرہ نے چہرہ سیدھا کرلیا، پر دو سیکنڈ بعد "واٹ؟؟؟؟" ایک آواز گونجی تھی۔ آئرہ کو اب سمجھ آئی تھی اور عنایہ اب مسکرائی تھی۔

"تم یہاں اذان کو ڈھونڈنے آئی ہو؟ پر کیوں؟" آئرہ حیرت سے عنایہ کو دیکھ رہی تھی جو پرسکون تھی۔

"یہ کیسا سوال ہوا جیسے تم نہیں جانتی میں کیوں ڈھونڈ رہی ہوں۔" عنایہ نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔

"لیکن عنایہ اگر اسنے ملنا ہی ہوتا تو ایسے نہ آتا اور انکل آنٹی۔۔۔"

"وہ جانتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔" آج تو آئرہ کی حیرانگی کی کوئی حد نہیں تھی۔

"وہ جانتے ہیں؟ پر انہوں نے اجازت کیسے دی؟ انہوں نے اجازت دینی ہی تھی تو پہلے ہی کیوں اذان کو کچھ کہتے۔۔۔" آئرہ بولی چلی جارہی تھی عنایہ حیران ہوتے اسے دیکھ رہی تھی۔

"واٹ تم بھی سب جانتی تھی؟" یہ سنتے ہی آئرہ نے اپنا نچلا لب کاٹا۔ اوہ آئرہ آجکل تمہاری زبان کو کیا ہوگیا ہے۔

"ہاں میں جانتی تھی بٹ آئی سویئر مجھے نائل نے بتایا تھا۔ "

"اور کیا کیا بتایا اسنے؟" عنایہ سنجیدہ ہوگئی۔ ساتھ ساتھ وہ موبائل پر نظر آتی لوکیشن کو دیکھ کر گاڑی چلا رہی تھی۔

"کچھ بھی نہیں۔" وہ ایک دم سے بولی۔

"یہ بھی میرے پیرنٹس کا اصل بزنس کیا ہے؟" آئرہ چونک گئی۔

"تم۔۔۔تم جانتی تھی؟"اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ عنایہ سب جانتی تھی؟ کب سے؟

"جس رات میں ماما پاپا سے بات کرنے گئی اس دن ہی مجھے پتا چلا۔"

آئرہ نے وہ رات یاد کی تھی۔ اس رات سے ہی عنایہ کا موڈ تبدیل ہوا تھا۔ اسکی اداسی دور ہوگئی تھی۔

"اور کیا کیا ہے جو تم نے مجھ سے اب تک شیئر نہیں کیا؟" آئرہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"یہ کہ پاپا اذان کے لیے راضی ہیں۔" وہ مسکرائی تھی۔

"تم مجھ سے باتیں چھپانے لگ گئی ہو۔"

"بلکل ویسے جیسے تم مجھے کم باتیں بتاتی ہو۔"

"خیر چھوڑو تم نے نائل کو کال کیوں کی؟"

"اذان کا پتہ لینے کے لیے۔"

"تمہیں کیسے پتا کہ اذان مال میں ہوگا۔ ہو سکتا ہے نائل کسی اور کام سے گیا ہو وہاں۔" آئرہ نے بتایا۔

"ایسا نہیں ہوسکتا۔ آجکل وہ صرف اذان کو تلاش کر رہا ہے۔ " عنایہ نے اطلاع دی۔

"تمہیں کس نے کہا؟" آئرہ نے سوال کیا۔

"میرے پیرنٹس اتنے جاسوس ہینڈل کرتے ہیں اتنی سی ذہانت مجھ میں بھی تو آ ہی سکتی ہے نا۔" وہ جتا کر بولی تھی۔

¤---------¤-----------¤


مال میں وہ داخل ہوئی تو انہیں ایک وسیع ہجوم نظر آیا۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ ایسے میں وہ کہاں ہونگے وہ تو عنایہ کو کسی نے نہیں بتایا تھا وہ تو اسے خود پتا لگانا تھا۔

"عنایہ ویسے تم جو بھی کر رہی ہو مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی۔" آئرہ واقعی الجھی ہوئی تھی۔

"ایک کام کرو تم نا نائل کو ڈھونڈو اس سے پوچھنا وہ تمہیں اچھی طرح سے سمجھائے گا۔" کافی دیر وہاں پھرنے کے بعد کسی کے نہ ملنے کے بعد وہ اب بیٹھ گئی تھی۔

"عنایہ اتنے بڑے مال میں کیسے ڈھونڈو گی اسے۔ تم خود سوچو زرا۔"

"میری محبت اتنی کمزور نہیں ہے۔اسے ملنا ہوگا آئرہ۔ اسے ملنا ہی ہوگا۔"

تب ہی عنایہ کی نظر ایک لڑکے پر پڑی۔ پہلے تو اسنے نظر انداز کردیا لیکن دوبارہ اسنے نظر گھما کر اسے دیکھا جو بلیک جینز مہرون شرٹ میں تھا۔ ہلکی سے بڑھی شیو آنکھوں پر عینک جو کہ البتہ مصنوعی تھی آرٹیفشل شیشوں والی عین فیشن کے مطابق۔ لیکن عنایہ نے اسے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھا۔

وہ چلتا ایک کاؤنٹر پر گیا ضرور کوئی آرڈر دینے گیا ہوگا۔

وہ آرڈر ہی دے رہا تھا جب عنایہ خاموشی سے کاؤنٹر پر آکر کھڑی ہوگئی۔ جس طرف اسکا چہرہ تھا کوئی بھی یہی کہتا کہ وہ آرڈر دے رہی تھی۔

"کیا میں آپکو جوائن کر سکتی ہوں؟" عنایہ اس لڑکے سے مخاطب ہوئی تھی بغیر اسکی طرف چہرہ کیے اور یہ سنتے ہی اس لڑکے کے بٹوے سے پیسے نکالتے ہاتھ رک گئے۔

اسنے حیرت سے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو اب مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔

"کیسے ہو اذان؟" عنایہ نے دوستانہ انداز میں پوچھا۔ لیکن اذان کو تو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اذان نے گھبراتے ہوئے یہاں وہاں دیکھا۔

"کِسے ڈھونڈ رہے ہو؟ اپنی نئی گرل فرینڈ کو؟" عنایہ کا لہجہ اب بھی ویسا ہی تھا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" اسکی آواز ہلکی تھی۔

"میں ؟ پھرنے آئی ہوں۔ لوگ یہاں پھرنے ہی آتے ہیں شاید۔"

"عنایہ چلی جاؤ یہاں سے۔" وہ اردگرد دیکھتے کہہ رہا تھا۔

"پھر تو ہمیں بھی کہوگے کہ چلے جاؤ وغیرہ وغیرہ۔" ایک اور آواز آئی تھی۔ اذان نے مڑ کر دیکھا تو وہ پیچھے کھڑے تھے. نائل فریال نوید اور آئرہ۔

اذان کا تو سر چکرا گیا۔ یہ سب یہاں ایک ساتھ۔

"نوید میرے ہاتھ میں صبح سے بہت خارش ہورہی تھی۔ " اذان کو دیکھتے نائل نے کہا جو اذان کے قریب جا رہا تھا اور پاس پہنچتے ہی ایک زور دار گھونسہ اسکے منہ ہر دے مارا اور وہ اس قدر زور دار تھا کہ اذان لڑکھڑا گیا۔

"آؤچ... پاگل ہوگئے ہو تم کیا؟" اذان نے نائل کو سختی سے کہا۔

"یہی سمجھ لو۔" کہتا نائل ایک بار پھر سے اسے مارنے کے لیے آگے ہوا لیکن اذان نے اسے روک دیا۔ لوگ مڑ مڑ کر انہیں دیکھ رہے تھے۔

"آج نہیں پھر کبھی ابھی مجھے جانا ہے۔" نائل کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے وہ فوراً سے پہلے آگے بڑھ گیا۔ سامنے اسکی نظر ایک آدمی ر پڑی جس کے لیے اسکا پیچھا کرنے وہ یہاں آیا تھا۔ اذان کو اسکی نظروں میں نہیں آنا تھا۔ وہ آدمی اسی طرف آرہا تھا۔

اذان واپس مڑا اور ایک اور گھونسہ یہ والا تو واقعی غیرمتوقہ تھا۔ جس کے فوراً بعد نائل نے اسکی ٹانگ پر اس قدر زور سے اپنی ٹانگ ماری تھی کہ وہ زمین پر گر گیا۔

اس بار عنایہ بھی خاموشی سے کھڑی تھی۔ اذان کے ساتھ اتنا ہونا تو بنتا تھا۔

"تم آج واقعی پاگل ہوگئے ہو۔" اذان نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"لیکن ہمیں بہت مزہ آیا۔" فریال بھی تپی پڑی تھی۔

"اب بھی بھاگو گے؟" نائل نے غصے میں پوچھا۔

"بھاگنا چاہے بھی تو نہیں بھاگ سکتا۔ تمہارا فون اور وولیٹ تو میرے پاس ہے۔" دونوں چیزیں اپنے ہاتھ میں لہراتے عنایہ دکھا رہی تھی۔ اذان نے اپنی جیب میں ہاتھ مارا تو وہاں دونوں چیزیں نہیں تھیں۔

"یہ تم نے کب نکالا؟" وہ حیران تھا۔

"بس دیکھ لو میں نے نکالا اور تمہیں پتا بھی نہیں چلا۔ ایک ہفتے میں میں نے اچھی پریکٹس کرلی ہے۔" خود کو داد دیتے وہ بولی۔ وہ آدمی کہاں سے کہاں نکل گیا تھا اور اذان یہاں پھنسا رہ گیا۔

"تم لوگوں کو بات کرنی ہے تو ٹھیک ہے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔" اذان نے کہا۔

"یہ ہوئی نا بات۔" نائل کہہ کر باقی سب سمیت ٹیبل کی جانب بڑھے تھے لیکن جب آئرہ بولی. "وہ چلا گیا۔" سب نے مڑ کر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ سب کے پیچھے تھا تو اس نے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور بھاگ گیا۔

"جہاں بھاگنا ہے بھاگ لے واپس تو گھر ہی جائے گانا۔" عنایہ نے کہا تو نائل چونک گیا۔

"تمہیں کیسے پتا وہ کہاں رہ رہے ہیں اور مجھے یاد آیا تم دونوں یہاں کب آئی بتایا کیوں نہیں؟" نائل نے سوال کیا۔

"ڈیئر نائل مجھے میرے ڈیڈ سے ساری انفو ملی ہے اور جہاں تک آنے کی بات ہے تو ہمارے فائنلز ختم ہوگئے تو ہم یہاں سیر کرنے آئے ہیں۔ تمہیں کوئی مسئلہ؟" نائل نے آئرہ کو دیکھا جس نے اپنے شانے اچکا دیے۔

"تم کہاں جا رہی ہو؟" آئرہ نے عنایہ سے پوچھا جو ابھی پلٹی تھی۔

"اسکے گھر ریڈ مارنے۔ تم چلو گی تو آجاؤ۔" کہہ کر وہ چل دی اور سب اسکے انداز کو دیکھے رہ گئے۔

"اس لڑکی کو ہوا کیا ہے؟" نائل نے حیرت میں پوچھا۔

"پاگل تو شاید یہ ہوگئی ہے۔" فریال نے بھی اسی انداز میں کہا۔

¤--------¤----------¤


اذان گھر پہنچا تو سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔  وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ جہاں دو صوفے اور ایک چھوٹا سا ٹیبل پڑا تھا۔ اسنے وہاں پڑا کشن اٹھا کے  زمین پر دے مارا۔

وہ جس چیز سے بھاگتا تھا وہ ہمیشہ اسکے پیچھے بھاگتی تھی۔

اور اسکے اردگرد کے لوگ کتنے ضدی تھے وہ یہ بھی جانتا تھا۔ اسکا تو فون بھی اسکے پاس نہیں تھا  یا خدا! وہ جلدی میں فون بھی اس سے واپس نہ لے سکا۔

اب اسکے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا سوائے چپ چاپ بیٹھنے کے۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر گیا جہاں سیڑھیوں کے ختم ہوتے ساتھ ایک کمرا تھا ساتھ ایک چھوٹا سا ٹیرس اور بس۔۔وہ کمرے میں گیا اور کھڑکی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہلکا سا پردہ سرکا تھا ورنہ وہ کبھی بھی پورے پردے نہیں بند کرتا تھا۔

کچھ دیر وہاں کھڑے ہونے کے بعد وہ لیٹ گیا۔ فلحال اس کے پاس گھر میں بند ہونے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
پھر کب اسکی آنکھ لگ گئی اسے پتا بھی نہ چلا۔

¤---------¤----------¤


رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ موسم بہت ٹھنڈا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی بارش ہوئی تھی۔ جس سے ٹھنڈ  میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ جب تیز ہوا کہ وجہ سے بجتے دروازے کی آواز سے اسکی آنکھ کھلی تھی۔

اس پہ نیند کچھ زیادہ ہی غالب تھی۔ وہ بمشکل اٹھا۔ اتنی دیر وہ کیسے سوتا رہا  اسے پتا نہیں چلا۔ وہ اٹھ کر  پہلے کھڑکی کے پاس آیا۔ ایک نظر باہر دیکھتے جو حد نگاہ پورا بھیگا ہوا تھا۔  اس کی نظر ایک گاڑی پر پڑی جو بلکل اسکے گھر کے سامنے تھی۔  دوپہر میں جب سونے سے پہلے وہ اسی جگہ پر آیا تھا وہ تب بھی یہیں تھی اور اب بھی۔ اسنے اس خیال کو بھی سر سے جھٹک دیا شاید وہ کچھ زیادہ ہی سوچ رہا تھا۔

پورے گھر میں ایک ہی بلب تھا۔ جس نے ہر طرف روشنی کی ہوئی تھی۔ وہ اندھیرے میں رہ رہا تھا۔ اپنی مرضی سے۔

وہ سیدھا کچن میں گیا جو کے نیچے تھا۔ اسے کافی کی شدید طلب تھی۔ کافی بناتے اسے پیتے صرف ایک ہی خیال اسکے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ وہ وہاں صوفے کے ساتھ کھڑکی کی جانب بڑھ گیا۔

پردہ ہلکا سا سرکا دیا تھا۔۔وہ زیادہ دیر تک یہاں بند نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ زیادہ وقت کہیں بھی خاموش چھپکے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ تو کافی کا مگ وہاں رکھتے وہ باہر چلا گیا۔ بارش کی ہلکی بوندیں ابھی بھی پڑ رہی تھیں پر وہ بےنیاز چلتا جارہا تھا۔

لیکن اس نے اپنے پیچھے کسی گاڑی کی آواز سنی تھی۔ شاید کوئی اور تھا وہ سڑک کے ایک طرف ہوگیا جو اس سنسان سڑک پر اکیلا چل رہا تھا۔ وہ ایک سوسائٹی تھی۔ وہاں سکیورٹی تھی۔ تو رات کے کسی پہر بھی سڑک پر کوئی بھی نکل جاتا تھا جیسے وہ بھی نکلا ہوا تھا ۔ کچھ اور فاصلہ پار کرتے اس نے محسوس کیا کہ وہ گاڑی اب بھی اسکے پیچھے تھی۔ تو آہستہ سے چلتے کسی دوسری سڑک پر نکل گیا  تھا کہ کسی کو نہ پتا چلتا وہ کہاں گیا۔

تب وہ گاڑی رکی اور اس میں سے کوئی نکلا تھا۔ وہ زرا سا آگے آیا لیکن اب وہاں اس شخص کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ جب کسی نے پیچھے سے آکر کنپٹی پر بندوق رکھے اسے گلے سے دبوچا تھا۔

"کون ہو تم؟" اذان نے اسے دبوچتے پوچھا۔

"ا..اذان۔" وہ آواز عنایہ کی تھی اذان نے اسے چھوڑا تو وہ کھانستی جھک گئی۔ اپنا سانس بحال کر رہی تھی۔ جبکہ اذان حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"عنایہ؟" اسے یقین نہیں آیا۔

"آج تو تم نے میری جان لے ہی لینی تھی۔" عنایہ ابھی بھی کھانس رہی تھی۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ بے یقین تھا۔

"یہ سوال تم مجھ سے اور کتنی بار پوچھو گے؟" اسنے سوالیہ نظروں سے سوال کیا۔

"عنایہ چلی جاؤ یہاں سے۔" کہہ کر وہ پلٹ گیا۔ لیکن عنایہ گھومتی اسکے سامنے آگئی۔

"میری زندگی کے فیصلے کرنا چھوڑ دو تم۔ جب اپنے سے دور ہی رکھنا ہے تو میرے زندگی کے فیصلے کرنے کا بھی تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔" وہ سختی سے بولی تھی۔

"صحیح کہہ رہی ہو مجھے واقعی کوئی حق نہیں ہے۔ تمہاری زندگی تمہاری ہے اس پر کسی کا حق نہیں ہے۔ اب سے جو کرنا ہے جو فیصلے کرنے ہیں وہ تمہیں ہی کرنے ہیں۔ اب سے تمہیں بچانے کوئی نہیں آئے گا۔" وہ اسے حقیقت دکھا رہا تھا۔ لیکن اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

"لیکن میری زندگی میں مجھے کس کو شامل کرنا ہے اسکا حق میں رکھتی ہوں۔" دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے  جب آسمان پر بجلی چمکنا شروع ہو گئی تھی۔

"تمہیں ڈیڈ نے مجھ سے دور ہونے کا کہا تھا اور تم نے مان لیا؟(اذان نے چونک کے اسے دیکھا) چونکو مت مجھے سب پتا ہے۔ اور میں یہاں تمہاری لیے آئی ہوں۔ ڈیڈ کو یہ بھی پتا ہے لیکن انہوں نے مجھے روکا نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میری خوشی کہاں ہے۔ کس کے ساتھ ہے۔" بارش برسنے لگی تھی۔

"عنایہ موسم خراب ہو رہا ہے تم پلیز گھر جاؤ۔"

"نہیں جاؤں گی۔ آج میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی۔"

" جب نائل آئرہ کو اپنا سکتا ہے تو تمہیں کس چیز کا ڈر ہے اذان؟  تمہیں کسی چیز کا ڈر نہیں ہے نہ میری سیفٹی کا۔۔۔نہ ڈیڈ کا۔۔۔نہ مِرہا کے حوالے سے اپنے دل کے بدلنے کا۔۔۔تم خود نہیں جانتے کہ تم کیا چاہتے ہو۔ تم کنفیوز ہو اور اسی کنفیوژن میں تم کچھ بھی سمجھنا نہیں چاہتے۔" لیکن وہ چہرہ موڑے کھڑا تھا۔

"آخر تم کس سے بھاگ رہے ہو اذان؟" عنایہ نے اسکے اور قریب ہوکر اسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔ جب بارش میں بھیگتے ایک دم سے عنایہ نے جھرجھری لی۔

"میں نے کہا تھا نا چلی جاؤ لیکن تم کسی کی سنو تب نا۔" وہ اب اسے ڈپٹ رہا تھا۔

"ہاں تو تم نے یہ تھوڑی کہا تھا کہ تمہیں ٹھنڈ لگ جائے گی۔"

"بہت ضدی ہو تم گاڑی میں بیٹھو۔" کہتا وہ گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

اذان اسے اپنے گھر لے آیا۔ اب ہر طرف روشنی تھی۔۔عنایہ بازو سے خود کو ڈھانپتی اندر آئی تو اسکے دانت بھی بجنے لگے تھے۔

اذان نے اسے تولیہ لاکر دیا۔ "یہ لو اب پچھلی بار کی طرح یہاں پر ایسے کوئی کپڑے نہیں ہیں جو میں تمہیں دے سکوں۔"

"گاڑی میں ایک بیگ ہے پلیز مجھے وہ لادو۔ " اذان بیگ لے تو آیا تھا لیکن اسنے آبرو اچکاتے عنایہ کو دیکھا۔

"میں نے سوچا اگر تمہیں منانے کے چکر میں ساری رات بارش میں بھیگنا پڑے تو اسکی ضرورت تو پڑے گی نا۔" اذان سے بیگ پکڑتے وہ ہنس کے بولی۔

"فلمیں کم دیکھا کرو (یہ سنتے عنایہ نے منہ بنالیا) کافی پیو گی؟" اسنے عنایہ سے پوچھا۔

"تم پلاؤ گے تو ضرور۔" وہ خوش لگ رہی تھی۔

"بائی دی وے یہ تمہارا فون اور وولیٹ۔" اپنے بیگ سے دونوں چیزیں نکالتے اذان کی طرف بڑھا دی۔

"بہت شکریہ اس نوازش کا۔" تیز نظر اس پہ ڈالتا وہ کچن کی طرف چلا گیا تو عنایہ بھی چینج کرنے چلی گئی۔ جب واپس آئی تو وہ ابھی تک کچن میں تھا۔ عنایہ وہاں کاؤچ پر پاؤں اوپر کرکے ٹیک لگاکے بیٹھ گئی۔

عنایہ جس طرف تھی وہاں سے وہ آرام سے اذان کو دیکھ سکتی تھی۔ دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ دونوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ اذان ہاتھ میں دو مگ لیتا وہاں آیا تو دیکھا کہ عنایہ سو چکی تھی۔ مگ ٹیبل پر رکھتے  وہ اسکے پاس آیا اسے پکارا پر وہ گہری نیند میں تھی۔

کمرے سے ایک کمبل لاکر اسے ڈھانپتے وہ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا۔ عنایہ کو جتنی ٹھنڈ لگی تھی اسے اندازہ تھا ورنہ پاکستان کا ہر موسم کمبل لینے کا نہیں ہوتا۔ وہاں پر بیٹھتے کافی پیتے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ جو ایک مگ وہ گھر سے نکلتے وقت چھوڑ چکا تھا۔

رات کے پونے بارہ بج رہے تھے۔ کافی ختم ہوگئی تو وہ اپنا فون لیکر گھر سے باہر آگیا۔ بارش تھم گئی تھی لیکن ٹھنڈی ہوا ہنوز ویسے ہی چل رہی تھی۔ اسنے کسی کو کال کی.

"سر میں اذان بول رہا ہوں۔" اسنے رضوان کو کال کی تھی۔

"عنایہ سے ملے؟" انہوں نے سیدھا یہی سوال کیا۔

"جی سر۔۔۔ لیکن سر ہماری بات ہوئی تھی آپ۔۔۔"

"میں بھی ہر باپ کی طرح اپنی بیٹی کے لیے کچھ بہت بہتر چاہتا تھا۔ لیکن تمہارے جانے کے بعد  اسکی خاموشی اور اداسی میں نے دیکھی تھی۔  میں نے ہمیشہ تم پر فخر کیا ہے لیکن عنایہ کے نام پر میں خود غرض ہو گیا تھا۔ اسکی خوشی تمہارے ساتھ ہے اذان۔ اسکی حفاظت تم سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔"

"آپ نے اسے سب کچھ بتا دیا نا؟"

"سب کچھ جاننے کا حق تھا اسے۔"

"میں تمہیں کوئی نصیحت، تم سے کوئی وعدہ نہیں لوں گا۔ مجھے تم پہ بھروسہ ہے اور شاید تم میری توقعات سے زیادہ اسے چاہتے ہو۔ اپنا خیال رکھنا۔"

کال کاٹ دی گئی۔ انکے رشتے میں لحاظ تھا احترام تھا ایک رتبہ تھا اور اسکی پاسداری تھی۔

اذان اندر آیا تو ویسے ہی سوئی ہوئی تھی۔ زیادہ سے زیادہ انہیں ملے دو مہینے ہوئے تھے اور زندگی کہاں سے کہاں لے آئی تھی۔ کیا کچھ ہو گیا تھا۔ کیا اسنے سوچا تھا کہ پیرس سے آتے وقت وہ اس احساس کے ساتھ واپس آئے گا۔

قسمت نے ہمارے لیے بہت  کچھ سوچا ہوتا ہے جس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ سامنے صوفے پر بیٹھے عنایہ کو دیکھتے وہ بھی سو گیا تھا اس سے انجان کے آج اسے پرسکون نیند آنے والی تھی۔ اور کافی کا ایک مگ ابھی بھی ویسے ہی پڑا تھا ان چھوؤا۔

¤---------¤-----------¤

صبح کی سفیدی چھا چکی تھی۔ لیکن وہ ابھی بھی سو رہے تھے۔ رات کی بارش پر سورج غالب آگیا تھا۔ جب عنایہ کی آنکھ کھلی تو اسنے دیکھا کہ وہ وہیں کاؤچ پر  سو گئی تھی۔ اسکی نظر سامنے ٹیبل پر گئی جہاں کوفی کے دو مگ پڑے تھے  ایک شاید اسی کا تھا کیونکہ وہ سو گئی تھی۔ اسنے چہرہ اٹھایا تو دیکھا کہ اذان بھی وہیں پر تھا جو سر پیچھے دیوار سے ٹکائے اسے دیکھ رہا تھا۔

"صبح بخیر۔" اسنے مسکرا کر کہا۔

"تم کب اٹھے؟ میں رات کو کب سو گئی مجھے پتا ہی نہیں چلا۔"

"ناشتے میں کیا کھاؤ گی؟" وہ پوچھتے ہوئے اٹھا۔ عنایہ اسکے اس دوستانہ انداز پر حیران ہوئی تھی۔ اسنے گھڑی دیکھی جس پر دس بج رہے تھے۔

"دس جب گئے؟ مجھے جانا ہے ورنہ آئرہ اور نائل میری جان لے لیں گے۔" کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اکیلی جاؤ گی؟" اذان نے سادہ انداز میں پوچھا۔ جس پر اسنے آبرو اچکاتے اسے دیکھا۔

"اور کیا میں برات لیکر آئی تھی؟" اذان ہنس دیا۔

"نہیں وہ تو میں لیکر آؤں گا۔"

"اچھا۔" کہہ کر عنایہ قدم بڑھانے ہی لگی تھی جب اسے سمجھ آئی کہ اسنے کیا کہا۔ چونک کر اذان کو دیکھا جو اسے دیکھتے مسکرایا تھا۔

"لگتا ہے بارش کا پانی میرے کانوں میں چلا گیا ہے۔"  اسے ابھی بھی یقین نہیں آیا تھا۔

اذان اسکے قریب آیا اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں لیکر گویا ہوا۔ "تم نے ٹھیک کہا تھا میں کنفیوز تھا۔ کہیں نہ کہیں میں خود سے ڈرتا تھا۔ کسی اپنے کو کھونے سے۔۔۔ دوبارہ سے دل کے ٹوٹنے سے۔ لیکن اب میں سمجھ گیا ہوں۔ میں جتنا ان سب سے بھاگوں گا یہ سب مجھے اتنا ہی پریشان کریں گے۔ تو بہتر ہے کہ میں ان کے سامنے ہار مان لوں۔ تاکہ خود بھی پرسکون رہوں اور جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کو بھی پریشان نہ کروں۔" اذان نے اپنی بات ختم کردی تھی لیکن عنایہ کو اب بھی یقین نہیں آریا تھا۔

"عنایہ! کچھ تو کہو۔ رات کو تو اتنا بول رہی تھی۔"

"الفاظ ختم ہوگئے۔" اسکی آواز بھر آئی تھی۔

"اب نہیں۔ بہت روئی ہو تم اور نہ میں اس قابل ہوں کہ میرے لیے اتنا رویا جائے۔"

"اچھا تو تم کس قابل ہو پھر؟" عنایہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔

"تمہارے قابل۔"  وہ محبت سے بولا تھا کہ اس جواب پر وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

"تو پھر میں بارات لے آؤں؟" اسنے سنجیدہ ماحول تبدیل کرنا چاہا۔

"اگر اب بھی تم نے اپنا ارادہ بدلنا ہے تو مجھے ابھی بتادو۔" عنایہ نے اسے وارن کیا۔

"نہیں اب میرے پاس اور کوئی اوپشن نہیں ہے۔"

"اور اگر تم نے دوبارہ میرے ساتھ ایسے کیا تو۔۔۔"

"تو تم میری جان لے لینا۔" عنایہ کی بات کاٹتے وہ مسکرا کے بولا تھا کہ عنایہ چپ ہوگئی۔

کیسا تھا یہ انسان لمحے بھر میں بدلتا تھا۔ تعلق ختم کرتا تھا تو مکمل ختم کرتا تھا محبت کرتا تھا تو جان سے بڑھ کر کرتا تھا۔

"اب نہیں جانا کیا تمہیں دیر ہورہی تھی۔" اسکی اپنے پہ مسلسل نظروں کو دیکھتے اسنے پوچھا۔

"میں آج تک تمہیں سمجھ نہیں پائی۔" وہ کھوئی ہوئی بولی تھی۔

"سمجھنے کے لیے تو پوری زنگی پڑی ہے۔" وہ کیا جواب دیتا تھا کہ سننے والا لاجواب ہو جاتا تھا۔

¤--------¤---------¤

ڈیفینس میں عنایہ کے گھر پر وہ سب موجود تھے۔

"عنایہ کل سے واپس نہیں آئی تو تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں؟" نائل خفا ہورہا تھا۔

"بتاتی تو بھی تم لوگ کیا کرلیتے آج کل وہ اور بھی زیادہ ضدی بنی ہوئی ہے۔ اپنی مرضی نہ ہوتی تب تک وہ واپس نہ آتی بھلے پوری فوج اسے لینے چلی جاتی۔" آئرہ کا بھی وہی انداز تھا۔

"کتنے اچھے لفظوں میں مجھے یاد کر رہے ہو نا تم سب۔" سب نے چہرہ گھمایا تو وہ دونوں دروازے پر کھڑے تھے۔

انکو اپنی طرف دیکھتے وہ آگے آکر وہیں بیٹھ گئے۔ سب انہیں غصیلی نظروں سے گھور رہے تھے اور وہ مسکرا رہے تھے۔

اذان نے نائل کو دیکھا۔ "مجھے لگتا ہے تمہارا دل کر رہا یے کہ میری ہڈیاں توڑ دو۔ لیکن میرے کام میں ٹانگ تم اڑاتے ہو تو یہ کام تو مجھے کرنا چاہیے نا۔" وہ جتاکے بولا۔

"اچھا پلیز اب کوئی نہیں جھگڑے گا ختم کرو تم سب اپنی لڑائیاں۔" عنایہ نے ہاتھ اٹھاکے کہا۔

"اب تم دونوں کی صلح تو ہوگئی ہے نظر بھی آرہا یے تو کتنے وقت کے لیے ہے تاکہ ہم پہلے سے تم دونوں کی ایک اور لڑائی کے لیے تیار رہیں۔" آئرہ بےزاری سے بولی۔

"اور اگر میں کہوں اب کی صلح زندگی بھر کے لیے ہے تو؟" اور سب نے چونک کر انہیں دیکھا۔

"تو کب بجا رہے ہو بینڈ؟" فریال جوش میں بولی تھی۔

"ارے اتنی جلدی؟ مام ڈیڈ بھی یہاں نہیں ہیں..." عنایہ نے بتایا۔

"وہ آج آرہے ہیں شام تک پہنچ جائیں گے۔ میری بات ہوئی تھی آنٹی سے۔ وہاں اب کوئی کام نہیں تھا تو وہ واپس آرہے ہیں۔" آئرہ نے اسے بتایا۔

"اور انہیں تمہارے پیرنٹس سے بھی تو ملنا ہے نا۔" عنایہ نے اذان کو کہا۔

"ہاں تو مل لیں گے۔ اب کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا۔"اذان نے پرسکون انداز میں کہا۔

"ہماری شادی کی چھوڑوں۔ تم دونوں کی تو منگنی بھی ہو چکی ہے تم دونوں کب شادی کر رہے ہو؟" نائل نے فریال اور نوید سے پوچھا۔

"تم اجازت دو تو تمہارے ساتھ ہی کر لیتے ہیں خرچہ بھی کم ہوجائے گا۔" نوید نے مزاق کیا تھا۔

"اتنے تم بچت کرنے والے تو انکے ساتھ ہی کیوں کورٹ میرج ہی کرلیتے ہیں وہ جو کم خرچہ ہونا ہے وہ بھی نہیں ہوگا۔" فریال نے نوید کو چھیڑا تھا۔ جس پر سب کا قہقہہ گونجا تھا۔

¤----------¤-----------¤


چھ مہینے بعد:

پاکستان میں بہار کا موسم تھا۔ سورج نکلے کچھ ہی وقت ہوا تھا۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول کھل رہے تھے۔ ہر طرف خوشی کا سا سماں تھا۔۔باغوں میں ہر طرح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ آج علوی ولا ایک بار پھر سے اپنی شان سے کھڑا تھا۔

آئرہ نائل اور عنایہ اذان اب ساتھ تھے ہمیشہ کے لیے۔ عنایہ آئرہ نے اپنی ڈگری حاصل کرلی تھی۔ آئرہ کے ہیرنٹس کا بزنس بھی  علویز کے ساتھ ملا کر اب عنایہ اور آئرہ اسے لیڈ کر رہی تھیں۔ مشکلیں ختم ہوگئی تھیں زندگی سے۔

دوسری منزل پہ وہ کمرہ جس کی کھڑکیاں کھلی تھیں۔ اور صبح کی ہوا سورج کی کرنوں کے ساتھ اندر آرہی تھی۔

نائل سو رہا تھا جبکہ آئرہ بیڈ کنارے زمین پر بیٹھی نائل کے چہرے پر پانی کی چھینٹے مار رہی تھی۔ نائل نیند میں ہلا لیکن آئرہ اپنے مزے میں لگی ہوئی تھی۔

"آئرہ مت کرو نا سونے دو مجھے سکون سے۔" اسنے چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔

"مجھے بےسکون کر کے تم سکون سے سو جاؤ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔" آئرہ اب  بیڈ پر دوسری طرف آکر پھر سے وہی کام کرنے لگی تھی۔

"میں نے کب بےسکون کیا تمہیں؟" اسنے بند آنکھوں سے پوچھا۔

"یہ پوچھو کب نہیں کیا؟" وہ صبح صبح بلکل اچھے موڈ میں نہیں تھی۔

"اچھا بتاؤ کب نہیں کیا؟" نائل نے نہایت طعبیداری سے پوچھا۔

"سارا وقت تم اپنے کام میں لگے رہتے ہو۔ .مجھے بلکل وقت نہیں دیتے اور باہر جانے کا پلان بناؤ تب بھی تمہیں کہیں جانا پڑ جاتا ہے۔ رات کو دیر سے آتے ہو صبح جلدی چلے جاتے ہو۔ اذان کو دیکھو عنایہ کے ساتھ کتنا وقت گزارتا ہے اور تم۔۔۔پوری ایجنسی کا کام تم نے اٹھا رکھا ہے کیا؟" وہ پانی پھینکنے سے بلکل باز نہیں آرہی تھی۔

"ششش آہستہ وائلڈ کیٹ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔" نائل نے سرگوشی کی۔

"تم اگر نہ اٹھے تو میں تمہارے کانوں کو خراب کردوں گی اٹھو۔"اور ساتھ ہی آئرہ نے پانی سے بھرا گلاس نائل پر انڈیل دیا۔ نائل جھٹکے سے اٹھا تھا۔ "واٹ دی ہیل آئرہ۔"

"فائنلی تم اٹھ گئے۔" کہتی آئرہ بیڈ سے اترنے لگی تھی لیکن نائل نے اسکا ہاتھ کھینچا کہ وہ اسپر جا گری۔

"نائل کیا ہے چھوڑو مجھے جانا ہے۔" اسنے اٹھنے کی کوشش کی پر نائل نے گرفت زرا سی بھی ڈھیلی نہ کی۔

"ہاں تو چلی جاتی۔۔۔ نہ مجھے اٹھانے آتی نہ میں تمہیں روکتا۔" وہ بھیگے چہرے کے ساتھ دل شکن انداز میں مسکرایا تھا۔

"اگر تم نے نہ چھوڑا تو وائلڈ کیٹ کو چھڑوانا آتا ہے۔"

"اچھا واقعی میں بھی تو دیکھوں میری وائلڈ کیٹ کیسے اپنے آپکو چھڑواتی ہے۔" لیکن اسے اپنے قریب کر رہا تھا۔ آئتہ سوچ ہی رہی تھی جب اسنے چہرہ اٹھا کر دیوار پر دیکھا۔

"ن..نائل...چھپکلی! "آئرہ کی آواز کپکپائی تھی۔ پر نائل نہیں ہلا۔

"سوچنا بھی مت ہمیشہ بھائی بھی مجھے ایسے ہی ڈراتے ہیں۔ اب میں تمہیں نہیں چھوڑنے والا۔"

"پر میں جھوٹ نہیں بول رہی یکھو تو سہی۔" آئرہ کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔

نائل نے بیڈ کے پیچھے دیوار پر چہرہ اٹھا کر دیکھا۔ "آئرہ  کچھ بھی نہیں۔۔۔" نائل کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔

وہاں واقعی چھپکلی تھی۔ آئرہ آہستگی سے ہٹ گئی نائل نے بھی بیڈ سے نیچے چھلانگ لگا دی۔

اسکی حالت دیکھ کر آئرہ کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ "اب کرو مزے تم اپنی چھپکلی کے ساتھ۔ "وہ کہتی کمرے سے جانے لگی۔

"آئرہ۔۔۔آئرہ۔۔۔" نائل اسے آوازیں دیں رہا تھا وہ جاچکی تھی۔
.
.
.
.
.
.

عنایہ اپنے کمرے میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ ٹینشن میں لگ رہی تھی۔ ایک ایک دراز، الماری اسنے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی۔۔اذان تولیے سے اپنے بال خشک کرتا باتھ روم سے نکلا تو جھنجھلائی ہوئی عنایہ کو دیکھا۔

"عنایہ؟" اذان نے الجھن میں اسے پکارا۔

"بات مت کرو مجھ سے۔" ساتھ ہی وہ ہر اس جگہ کو دوبارہ سے کھنگال رہی تھی جہاں پہلے ڈھونڈ چکی تھی۔

"ارے میں نے کیا کیا ہے۔ تم کل سے مجھ سے بات نہیں کر رہی۔"

"تم نے کل وعدہ کیا تھا کہ تم جلدی گھر آؤ گے۔ آئرہ کہتی ہے کہ تم مجھے بہت وقت دیتے ہو (عنایہ نے اب مڑ کر غصے میں اسے گھورا) بیشک میں گھر سے باہر تمہارے ساتھ جاتی ہوں پر واپس اکیلے ہی آتی ہوں۔" کہہ کر وہ اب بیڈ کے نیچے جھکی تھی شاید وہ وہاں پر ہو پر نہیں۔

اذان خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ "اچھا یہ تو بتاؤ ڈھونڈ کیا رہی ہو؟"  لیکن عنایہ تو جیسے رونے والی ہوگئی تھی۔ "میرے ساتھ رہو تو پتا چلے نا کہ میرا کیا کچھ گم ہوتا رہتا ہے۔" اب وہ واقعی روتے ہوئے بولی تھی۔

اذان ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گیا اور دراز میں سے ایک ڈبہ نکالتے اس میں سے کچھ نکالا تھا۔ وہ عنایہ کے پاس آیا وہ کس بات پر رو رہی تھی اذان کی وجہ سے یا جو ڈھونڈ رہی تھی وہ نہ ملنے کی وجہ سے؟ یا شاید دونوں وجہ سے۔

عنایہ کا ہاتھ پکڑتے وہ اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لے گیا۔ شیشے کی طرف کھڑا کرتے وہ اسکے پیچھے کھڑا تھا۔ "اب کیا کر رہے ہو؟ میں کب سے ڈھونڈرہی ہوں مل ہی نہیں رہا۔" اسکا دھیان ابھی بھی اسی چیز کی طرف تھا۔ وہ بڑبڑا رہی تھی جب ایک دم سے وہ چپ ہوگئی۔

اسے اپنی گردن پر کچھ محسوس ہوا تھا۔ اسنے شیشے میں دیکھا تو اذان اسے ایک پینڈنٹ پہنا رہا تھا۔ جس میں ایک چھوٹا سا گلاب کا پھول جڑا ہوا تھا سنہرے رنگ کا۔۔اندر سے کافی گہرہ تھا جس میں ایک ڈائمنڈ تھا اور پتیوں کے اردگرد تین بڑی پتیاں تھیں۔  عنایہ اسے ہی دیکھ رہی تھی  جب اذان نے اسکے کندھے کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تھا۔

اذان اسکے سامنے آیا اور اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ڈریسنگ کے کونے پر بیٹھ گیا۔ عنایہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔

"تم اپنا پینڈنٹ ڈھونڈ رہی تھی نا؟" اذان نے سادہ انداز میں پوچھا پر عنایہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ "تمہیں کیسے...؟" وہ چپ ہوگئی۔

"تم نے ٹھیک کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہوں تو مجھے پتا چلے کہ تمہارا کیا کچھ گم ہوتا ہے۔ پر کیا تم نے نوٹس کیا کہ تمہارا پینڈنٹ دو دن سے تمہارے گلے میں نہیں ہے اور تمہیں یہ آج پتا چلا۔" عنایہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔دو دن سے؟ اور اسے پتا بھی نہیں چلا۔ پر اذان کو پتا تھا۔

اذان نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر اسکے آنسو پونچھے اور پھر اسکے ہاتھ تھام لیے۔ عنایہ تو ایسے شرمندہ سی کھڑی تھی جیسے اسکی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔

"میں کہاں مصروف ہوتا ہوں تم جانتی ہو اسکے علاوہ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ تمہیں وقت دے سکوں۔ اور میں بہت اچھے سے جانتا ہوں کہ تم مجھے سمجھتی ہو کبھی کبھی اداس ہوجاتی ہو تو روتے ہوئے ایسے مجھ پہ غصہ نکالتی ہو۔" اذان نرمی سے کہہ رہا تھا پر وہ چہرہ جھکائے کھڑی رہی۔ اذان نے اسکی ٹھوڑی تلے انگلی سے اسکا  چہرہ اوپر کیا۔

"میری انوسینٹ گینگسٹر غصہ کرتی رعب جماتی اچھی لگتی ہے ایسے روتے ہوئے اور شرمندہ ہوتے نہیں۔" کیا احساس اور اپنایت تھی اس شخص میں اسکی ان اپنایت بھری باتوں پر تو اور بھی پیار آتا تھا۔۔لیکن عنایہ اب بھی نہیں مسکرائی تھی بس اذان کو دیکھے جا رہی تھی۔

"اچھا پینڈنٹ کیسا لگا؟" اذان نے اسکا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔

"بہت اچھا۔"بلآخر وہ مسکرائی تھی۔ عنایہ مڑنے لگی تھی لیکن اذان کے ہاتھ نہ چھوڑے پر وہ رک گئی۔

"کیا ہوا؟ کچھ کہنا ہے؟" عنایہ نے سادہ انداز میں سوال کیا تھا۔

"تھیک یو مجھے سمجھنے کے لیے۔ میری زندگی کا حصہ بننے کے لیے۔" وہ ایموشنل ہو رہا تھا۔

"حصہ تو میں کافی پہلے بھی بن جاتی بس تمہارا اٹیٹیوڈ نہیں جاتا تھا۔ یاد دلاؤں سارا کچھ؟" عنایہ زرا سخت مزاج میں بولی تھی جس پر اذان نے آنکھیں گھماتے کہا۔

"اس بات کا طعنہ دینا تم کب چھوڑو گی؟" وہ اکتا کے بولا۔

"کبھی بھی نہیں۔"وہ بھی ڈھیٹ تھی۔ پھر ایک ساتھ ہی دونوں مسکرا دیے۔ عنایہ اسکے سینے سے لگ گئی.
"آئی لَو یو"
"لَو یو ٹو" اذان نے بھی اسکے گرد بازو حائل کرتے اسی محبت سے جواب دیا تھا۔
.
.
.
.
.
.

کافی عرصے بعد آج پھر کچن میں وہی پرانی رونق لگی ہوئی تھی۔ ماھین سبکو گائیڈ کر رہی تھیں۔

"السلام علیکم مام۔" آئرہ کچن میں داخل ہوئی تھی۔
"وعلیکم السلام آؤ آئرہ۔"

"میں کوئی مدد کروں؟" آئرہ نے آفر کی۔

"آپ کیوں کریں گی؟ سروینٹس ہیں. ویسے بھی میں اپنی بیٹیوں سے کام نہیں کرواتی۔" ماھین نے مسکراتے ہوئے کہا تھا پر آئرہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔ اسے اپنی ماں یاد آئی تھیں۔ ماھین نے ایک دم سے اسے اداس ہوتے دیکھا تو وہ سمجھ گئیں۔

"آئرہ! آپ دونوں کے آنے سے لگا تھا مجھے اپنی دونوں بیٹیاں واپس مل گئیں۔ کیا میں آپکی مام جیسی نہیں ہوں؟ یا پھر آپ صرف بلانے کے لیے مجھے مام کہتی ہیں؟"

"نہیں مام ایسی بات نہیں ہے بس انکی یاد بھی آجاتی ہے۔"

"بس بیٹےانکے لیے دعا کیا کرو۔" ماھین نے اسے حوصلہ دیا۔

"ماحول کچھ زیادہ ہے ایموشنل ہو گیا ہے۔" انہوں نے چہرہ موڑ کے دیکھا تو دروازے میں عنایہ کھڑی تھی۔

"آئیے محترمہ آپکی ہی کمی تھی" آئرہ نے اسے کہا۔

"لیکن مام میں نے تو سنا تھا کہ مِرہا خود کچن میں کام کرتی تھی۔" عنایہ نے اندر آتے پوچھا۔

"اسے شوق تھا کوکنگ کا ہمارے منع کرنے کے بعد بھی وہ نہیں مانتی تھی اس لیے ہم نے بھی اسے کوکنگ تک کی ہی اجازت دی تھی اور کچھ نہیں۔ "

"نئے نئے کھانوں کے شوقین تو یہ دونوں بھائی بھی ہیں۔" عنایہ نے سوچتے ہوئے کہا۔

"ہاں وہ تو ہے۔" کہہ کر ماھین ایک طرف چلی گئیں۔

آئرہ نے عنایہ کے قریب ہوکر سرگوشی کی۔ " اور ہمیں تو کوکنگ کا سی بھی نہیں آتا۔"

" جی بلکل محترمہ آپکو تو سبزیوں کا قتل کرنا ہی آتا ہے۔" عنایہ نے اسے کچھ یاد دلایا۔ جس پر عنایہ کہہ کر مسکرائی پر آئرہ جل گئی تھی۔

¤---------¤----------¤


کھانے کی میز پر سب شامل تھے سوائے نائل کے، وہی پرانی عادت جلدی نہ آنے کی.

"مام آپکا لاڈلا واقعی بہت سست ہے۔ شادی ہوگئی ہے اب تو نیند  ٹھیک ہوجائے۔ سارا دن سوتا رہے گا نہ اٹھاؤ تو۔" اذان کافی دیر چپ رہنے کے بعد بولا۔

"اذان کیا کہتےہو اپنی ڈیلی ڈوز دینے چلیں؟" آئرہ نے شرارتی انداز میں کہا تو اذان بھی مسکرا دیا۔

"آہاں! مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چلو پھر۔" اذان نے بھی ہامی بھری۔

"ارے پر۔۔۔" ماھین نے انہیں روکنا چاہا لیکن تب تک وہ تینوں جاچکے تھے۔

"جانے دیں ماھین کتنے وقت بعد تو فیملی پھر سے ایک ہوئی ہے۔ جیسے بھی انجوئے کرتے ہیں کرنے دیں۔" سلیمان نے کہا۔

کمرے میں وہ ابھی تک سو رہا تھا شاید چھپکلی چلی گئی تھی جو وہ واپس سوگیا۔

"یہ لو بادشاہ سلامت ابھی تک سو رہے ہیں۔" عنایہ نے کہا۔

"ڈونٹ وری سویٹ ہارٹ ابھی اٹھ جائے گا۔" اذان کہہ کر باتھ روم گیا اور پانی سے بھری بالٹی کے ساتھ واپس آیا  اور پوری کی پوری بادشاہ سلامت پر انڈیل دی۔

نائل ایسے ہربڑا کے اٹھا جیسے سیلاب آگیا ہو۔ اور جب اپنے سامنے کھڑے ان ظالم لوگوں کو دیکھا جو ہنس ہنس کے بےحال ہورہے تھے تو اسکو آگ لگ گئی تھی۔

"بھائی آپکے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ روز آپ مجھے ایسے اٹھاتے ہو آرام سے بھی بول سکتے ہو نا۔" اسے واقعی بہت آگ لگ رہی تھی۔

" آرام سے اٹھاکے دیکھا تھا میں نے پر اٹھے کیا؟" آئرہ نے آبرو اچکاتے سوال کیا۔

"روز تمہاری وجہ سے ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے اور تمہیں پتا ہے مجھ سے بھوک برداشت نہیں ہوتی۔" اذان بھی اسی کے سے لہجے میں بولا۔

"ہاں تو مت کیا کرو انتظار۔ سونے بھی نہیں دیتی ظالم دنیا۔" کہتا وہ بیڈ سے اتر کر باتھ روم میں چلا گیا۔ تینوں ابھی تک اپنی ہنسی پر قابو نہیں کر پائے۔

اور پھر ایک دم سی وہ سناٹے میں آگئے۔ کیونکہ نائل وہی بالٹی پانی کی بھر کر لیے کھڑا تھا۔ وہ کب اٹھا کے لیکے گیا کسی نے نوٹس ہی نہیں کیا  کیونکہ سب ہنسنے میں مصروف تھے۔

"ہے یہ کیا کر رہے ہو؟" اذان حیران و پریشان ہوچکا تھا۔

" As you sow so shall you reap۔"
نائل شرارت سے مسکرایا۔

جبکہ اذان اپنے قدم پیچھے لے رہا تھا۔ "نہیں نائل ہمت بھی مت کرنا۔ پاگل ہوگئے ہو کیا؟"

"اچھا جی آپ کرو تو صحیح میں کروں تو پاگل؟"

لیکن نائل نے کچھ بھی سنے بغیر بالٹی اذان پر انڈیل دی لیکن پانی اذان پر نہیں گرا تھا آخری وقت میں وہ ایک طرف کو ہٹ گیا تھا تو کس پر گرا تھا؟ آئرہ اور عنایہ پر! اور دونوں افسوس کرتے آئرہ عنایہ کو دیکھ رہے تھے۔

"اوہ تیری! نائل بیٹا تو تو گیا اب۔" نائل نے اپنا ماتھا پکڑ لیا۔

"نائل!!" آئرہ کا انداز اسے کاٹ کھانے کو تھا۔

"سوری سوری۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔"

"اوہ رئیلی؟"عنایہ کا لہجہ بھی ویسا ہی تھا۔ دونوں نائل کی طرف قدم بڑھا رہی تھیں۔ (بیٹا بھاگ جا یہاں سے ورنہ یہ بلیاں تجھے کھا جائیں گی) نائل نے سوچا اور اگلے ہی پل وہ کمرے سے باہر بھاگا تھا۔

وہ دونوں بھی اسکے پیچھے گئی تھیں اور رہا اذان...تو وہ اس منظر کے مزے لے رہا تھا ویڈیو بناتے ہوئے۔

"نائل اب تمہاری خیر نہیں۔"

"رکو نائل۔" لیکن وہ دونوں میں سے کسی کی نہیں سن رہا تھا۔

"تم نے میری فیورٹ ڈریس خراب کردی۔" آئرہ چڑ کے بولی تھی۔ وہ نائل کے پیچھے بھاگتیں لیونگ میں آگئے تھے جہاں وہ ہر ایک چیز کے پیچھے چھپتا اپنے آپکو بچا رہا تھا۔

"سوری آئرہ غلطی سے گر گیا نا میں تو بھائی پر۔۔۔( کہتے اسنے اذان کو دیکھا جو ایک کونے میں فون ہاتھ میں لیے کھڑا تھا) آپ وہاں کھڑے کیا مزے لے رہے ہو؟ پلیز مجھے ان بلیوں سے بچاؤ۔" وہ منت کرنے پر آگیا تھا۔

سلیمان اور ماھین بھی ہنسی دبانے کی کوشش میں وہ منظر دیکھ رہے تھے جو اب انکے سامنے پیش تھا۔

"میرے خیال میں تم نے ہی کہا تھا نا As You Sow So Shall You Reap . اور مجھے اپنی ہڈیاں تڑوانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔" اذان کیوں شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالتا.

"کتنے عرصے بعد آج یہ گھر پہلے کی طرح گونج رہا ہے۔" ماھین نے سلیمان سے کہا تھا۔

"اللہ ان کی خوشی ایسے ہی قائم رکھے۔" سلیمان نے دعا کی جس پر دونوں نے آمین کہا تھا.
اور ان چاروں کی نوک جھوک ایسے ہی چلتی رہتی تھی۔
.
.
.
.
.
.

دوپہر ہوگئی تھی عنایہ اور آئرہ کسی مال میں بیٹھیں سلش پی رہی تھیں۔

"عنایہ تم نے یہ پینڈنٹ کب لیا؟ مجھے تو نہیں یاد۔" آئرہ نے پوچھا۔ "اذان نے گفٹ کیا۔" وہ مسکرا کے بولی۔ "ویسے یہ پہلے والے سے بھی بہت خوبصورت ہے۔" آئرہ ابھی چپ ہوئی تھی جب دونوں کے فون پر ایک ساتھ میسج آیا تھا انہوں نے دیکھا تو صرف اتنا لکھا تھا۔

"شام سات بجے ریڈی رہنا۔"

"یہ دونوں اب پتا نہیں کیا کریں گے۔" عنایہ نے سوچتے ہوئے کہا۔

"پہلے بلاتے ہیں پھر ویٹ کرواتے ہیں۔" آئرہ نے خفگی سے کہا۔

" تو آج ہم بھی انہیں ویٹ کروائیں۔ انہیں بھی تو بتا چلے انتظار کرنا کیسا لگتا ہے۔" عنایہ  دل شکن انداز میں بولی۔

"ہاں بلکل۔"
.
.
.
.
.
.

شام ہوچکی تھی اندھیرا پھیل رہا تھا۔۔وہ دونوں اپنی اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ ساڑھے سات بج چکے تھے لیکن ان دونوں کا کوئی اتاپتہ نہیں تھا۔ میسج بھی کیا پر کوئی جواب نہیں۔

"اور کتنا وقت لگے گا انکو؟" نائل چڑنے لگا تھا۔

لیکن اذان ہنس دیا۔ " اب ہمیں بھی تو سزا ملے گی نا۔ کہ ہمیں بھی پتا چلے انتظار کرنا کیسا لگتا ہے۔ آخر انہیں بھی بدلہ لینے کا موقع جو ملا ہے۔"

"اب مجھے پتا چلا یہ وائلڈ کیٹ میرے لیٹ ہونے پر اتنی بھڑکی ہوئی کیوں ہوتی ہے۔ " نائل نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔

تب وہ دونوں آخرکار آگئی تھیں۔
دونوں نے گھٹنوں تک آتے شورٹ فراق اور کیپریز پہنی ہوئی تھیں فرق تھا تو رنگ اور ڈیذائن کا۔ لیکن سمپل اور ڈیسنٹ تھا۔

اذان اور نائل کھڑے اپنی بیویوں کو دیکھ رہے تھے جب وہ انکے سامنے آکھڑی ہوئیں.

"منہ بند کرو مچھر چلے جائیں گے۔" آئرہ نے نائل کو کہا تو وہ گھبرا سا گیا۔

"تعریف کرسکتے ہو میں پیسے نہیں لونگی۔" عنایہ نے اذان کو کہا پر انکی آواز اس قدر دھیمی تھی کہ سامنے کھڑے شخص کے علاوہ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔

"میرے لیے تم ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہو کہ تعریف کی بھی ضرورت نہیں۔" واہ یہ بھی کیا تعریف تھی۔

"ویسے تم لوگوں نے کتنی دیر لگادی۔" نائل زرا اونچا بولا کہ وہاں موجود سب نے اسکی آواز سنی۔

"تاکہ تم لوگوں کو بھی پتا چلے کہ دیر سے آنے میں کیسا لگتا ہے۔ " آئرہ کا انداز سنجیدہ تھا۔

"جو حکم محترمہ دوبارہ سے ایسے نہیں کریں گے۔" نائل اسکے سامنے عاجزی سے جھکا۔

" گڈ۔" عنایہ نے اذان کو دیکھتے نائل کے بات کا جواب دیا جو لب کاٹتے اسے مسکراتے دیکھ رہا تھا۔
.
.
.
.
.
.

وہ جہاں پر پہنچے وہاں ہر طرف روشنی چھائی ہوئی تھی۔ ایک وسیع جگہ تھی جہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔ وہاں پر سب چائنیز لینٹین جلا کر انہیں آسمان میں آزاد چھوڑ رہے تھے۔ اور اس وقت جب اندھیرا پھیلا ہوا تھا وہ لالٹین دلکش منظر پیدا کر رہی تھی۔
"کتنا خوبصورت ہے۔"عنایہ تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔

"مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ سب پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔" آئرہ نے کہا۔

"تم دیکھتی جاؤ تمہیں پتا چلتا جائے گا یہاں اور کیا کیا ہوتا ہے۔" نائل بھی اترا کے بولا۔

عنایہ اور آئرہ جو کہ اذان اور نائل کے ساتھ کھڑی تھیں اب انکے سامنے آگئیں۔ سینے پہ بازو باندھے وہ انہیں دیکھ رہی تھیں جو انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے.

"اب صاف صاف بتاؤ یہ اتنا خیال اور باہر لیکر جانا اب ایسا کیا بتانا ہے؟" عنایہ نے دونوں کو دیکھتے سوال کیا اور اسکے سوال پر دونوں نے تھوک نگلا تھا۔

"نہیں۔۔۔وہ۔۔۔" نائل نے بولنا چاہا پر آئرہ نے اسکی بات کاٹ دی۔

"ابھی ہم پوچھ رہی ہیں تو شرافت سے بتادو۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں بتاؤ ہمیں غصہ آجائے اور پھر دونوں پچھتاؤ۔" آئرہ کا انداز بھی دھمکی والا تھا۔

"ہم کینیڈا جارہے ہیں۔" اذان نے بلآخر بتا دیا۔ یہ سنتے ہی دونوں کے تاثر ڈھیلے پڑ گئے۔

"کتنی دیر کے لیے؟" عنایہ نے اداسی سے پوچھا۔ "پتا نہیں۔"  نائل نے جواب دیا۔ کچھ لمحوں کی خاموشی رہی۔ عنایہ آئرہ نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا ساتھ ہی انکا انداز بھی بدل گیا۔

"چلو اچھی بات ہے چھ مہینے سے جاب لیس لوگ کام پر جائیں گے اب۔" عنایہ نے کہا لیکن یہ سنتے اذان اور نائل نے حیرت سے انہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا۔ یہ سن کے انہیں کوئی فرق نہیں پڑا۔

" اچھا چلو مجھے یہ لالٹین جلانی ہے۔" آئرہ کہتی آگے بڑھ گئی تو باقی تینوں بھی اسکے پیچھے ہولیے.

انہوں نے لالٹین جلائیں اور سب کی طرح اسے فضا میں آزاد چھوڑ دیا۔ جو ہوا میں اوپر اور اوپر اڑتا چلا گیا۔  کتنا خوبصورت لگ رہا تھا وہ۔

وہاں پر گھومتے رات کا کھانا کھاتے کافی وقت باہر گزارتے جہاں وہ دونوں خوش تھیں ان دونوں لڑکوں کی خوشی کا قتل کرچکی تھی۔

جو بات انہیں ستا رہی تھی کہ انہوں نے کوئی ردِ عمل کیوں نہیں دکھایا؟ واپس گھر آتے تک وہ جتنا صبر کرسکتے تھے انہوں نے کرلیا تھا اب اور صبر ناممکن تھا۔ گھر پہنچ کر گڑی سے اترتے وہ اندر جارہی تھیں جب وہ دونوں اب انکے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔

"کیا ہوا؟" آئرہ نے الجھن میں سوال کیا۔

"ہم جا رہے ہیں پتا نہیں کب واپس آئیں گے۔ آئیں گے بھی کہ نہیں اور تم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑا؟" نائل کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔

"فرق تب پڑتا نا اگر ہمیں انتظار کرنا پڑتا یا اکیلے رہنا پڑتا۔" آئرہ نے اسے جواب دیا۔ "کیا مطلب؟" اذان نے ناسمجھی میں پوچھا۔ "مطلب کے ہم دونوں تم لوگوں کے ساتھ جائیں گے۔" عنایہ نے عام سا جواب دیا تھا لیکن ان دونوں کو کرنٹ لگ گیا۔

"نو وے!" دونوں ایک ساتھ بولتے ایک قدم پیچھے ہٹے تھے۔

"یس وے۔" تو یہ دونوں ایک ساتھ کہتی ایک قدم آگے ہوئی تھیں۔

"لیکن۔۔۔" نائل نے بولنے کے لیے منہ کھولا۔

"ہم تم لوگوں کی بات نہیں مانیں گں  یہ تم دونوں اچھے سے جانتے ہو۔ اور اب وہ بات نہیں ہے کہ چپ چاپ چلے جاؤ اور کسی کو پتا نہیں چلے گا( عنایہ نے اذان کو دیکھتے کہا) تو ہماری بات ماننے کے علاوہ اور کوئی اوپشن نہیں ہے۔۔۔ہے تو بتاؤ۔" عنایہ نے اتنے میں ساری بات مکمل کردی تھی۔

نائل اذان نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اندازہ کرلیا کہ انکے پاس کوئی اوپشن نہیں ہے اور یہ دونوں ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔

"فائن۔" اذان نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ تو دونوں نے فاتحانہ مسکراہٹ دی۔

"میں چلتا ہوں مجھے نیند آرہی ہے۔" کہتا نائل اندر کی جانب بڑھ گیا۔ "نائل رکو مجھے کچھ پلان ڈسکس کرنا ہے وہاں کے لیے۔" آئرہ بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔

عنایہ بھی اذان کے بازو میں بازو ڈالتے اندر کی طرف چلنے لگی۔ "تو تم مجھے یہ طعنہ دینا واقعی کبھی نہیں چھوڑو گی۔" اذان نے  اس سے سوال کیا۔ تو عنایہ نے ہنسی دباتے سر نفی میں ہلایا جسے دیکھ کر اذان مسکرا دیا۔ وہ بھی اذان کے ساتھ ایک نئے ملک کے لیے لائحہ عمل تیار کرتی جا رہی تھی۔

ایک نیا سفر شروع ہونے جارہا تھا ایک نئے ملک میں کچھ نئے بدلے رشتوں کے ساتھ.

ایک کہانی جو دوستی سے شروع ہوئی تھی۔ کبھی ہم اپنی محبت کو کھو دیتے ہیں۔ لیکن سچے دوست کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے،  تو کبھی سچی محبت ہر رشتے پر حاوی ہو جاتی ہے۔ تو اپنی محبت ایک ایسی دوستی میں تلاش کریں جو کسی رشتے میں آپکا ساتھ نہ چھوڑے۔

*******

ختم شد

👇

Continue Reading

You'll Also Like

169K 9.7K 9
Hamdaani Heirs #3 The story of Furqaan and Aamaal. How fate brings them together in bleak circumstances. The storms they brave. How a lover's wait i...
62.6K 2.2K 12
یہ کہانی ہے ظلم سے لڑتے لوگوں کی۔۔ اپنی عزتیں بجاتی لڑکیوں کی۔۔ ایک ایسی لڑکی کی جس نے عزت کی خاطر اپنا گھر اور اپنی ماں کھو دی۔ ایک ایسے جانباز سپاہ...
34.8K 1.3K 20
کچھ کہانیاں لوحِ محفوظ کے کورے اوراق پر سیاہی کے خطوں کو کھنچ کر یوں جنم لیتی ہیں کہ تقدیر بھی اس انوکھے کھیل کی تماشائی بننے سے پہلے ہی آنسو بہاتی ہ...
508 73 14
اسلام علیکم . آزاد خیال میرا ایک ایسا خیال ہے جس میں مینے اپنی سوچ اور سمجھ كے مطابق حقیقت کو لکھنے کی کوشس کی ہے . میں کوئی رائٹر نہیں ہو۔ اور نا ہی...