بے ربط موتی

By Hudaya_Writes

2.3K 131 88

زندگی کے تلخ اور خوبصورت حقائق پر مبنی ایک کہانی امید ہے آپ کو پسند آئے گی More

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11

Episode 12

273 11 11
By Hudaya_Writes


"اوچ ۔" شیزا جو اشعر لوگوں کے ساتھ پانی میں انجواۓ کر رہی تھی پاؤں پھسلنے پر گرتے گرتے بچی۔

"حسبی اللہ۔" احسن جو اموں لوگوں کو چیزیں دے رہا تھا پر دیہان سارا اُن پر تھا بےاختیار  بولا۔

شہلا بیگم نے بغور جائزہ لیا۔ دل پھر دُکھا تھا۔ اپنے بچوں کو چاہ کے بھی انکی خوشیاں فراہم نہیں کر سک رہی تھیں وہ۔

"بھابھی مجھے دے دیں حوریہ کو۔ آپ جا کر انجواۓ کریں آئمہ لوگوں کے ساتھ۔" احسن چلتا ہوا شہناز کے پاس آ کر بولا۔

"نہیں احسن یہ تنگ کر رہی ہے بہت۔۔ آپ سے نہیں سنبھالی جائیگی۔ یہ دیکھو محترمہ نے دوپٹہ اتنی زور سے پکڑا ہوا جیسے میں اِسکو چھوڑ کر جا رہی ہوں کہیں۔ "

"ہاہاہا۔۔۔نئی جگہ ہے نا گھبرا گئی ہوگی۔" احسن حوریہ کے گال سہلاتا ہوا پیار سے بولا۔

"ہاں شاید ۔پرام میں بھی لیٹ نہیں رہی۔ میں بس اِسکو سلا کر آتی ہوں۔۔ آپ جاؤ۔" شہناز نے مسکرا کر کہا۔

"اوکے۔ ابراہیم بھائی کدھر ہیں؟" احسن نے جانے سے پہلے  پوچھا۔

"اِدھر ہی تھا ابھی۔ موڈ آف تھا جناب کا۔ زبردستی لانے کی وجہ سے۔۔ بیٹھا ہوگا کہیں اکیلا۔" شہناز نظریں گھماتی بولی۔

"کیوں موڈ کیوں خراب تھا؟" احسن نے پوچھا۔

"یہی کے مجھے ہزار کام ہیں آپ لوگ جائیں۔ ہمیشہ کی طرح رٹ لگائی اُس نے۔ ہم نے بھی پھر دھمکی دی کہ چلو ورنہ دوبارہ تمہارے ساتھ بھی کہیں نہیں جائینگے۔ سوچ لو۔ پھر تم بھی بلاؤگے تو بھی ہم نہیں آئینگے۔ ہاہاہاہا۔ پھر ایسے فٹا فٹ مانا ہے۔ شکل دیکھنے والی تھی اُسکی۔ بہت ایموشنل ہے میرا وير۔" شہناز مسکراتے ہوئے پیار سے بتایا۔

"ہاہاہاہا۔۔ سہی آپ نے بیچارے بھائی پر ايموشنل اتیاچار کیا ہے۔" احسن ہنستا ہوا بولا

"بس ایسے مانتا نہیں ہے نہ کوئی بات۔"  شہناز حوریہ کو جھلاتی بولی۔

"ہاہاہاہا۔۔اچھا میں ذرا دیکھوں بھائی کدھر ہیں۔" احسن کہتا ہوا مڑا۔

"ہاں آپ اُدھر دیکھ لو اگر مجھے یہاں نظر آیا تو بھیج دونگی۔" شہناز بولی۔

"اوکے۔" احسن کہتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہ بہت اچھی ہے۔بلکہ بہت بہت اچھی ہے یقین کرو۔۔اچھا تم بس مان جاؤ نا۔ پہلے ہی اتنی دیر کر دی ہے تم۔نے شادی میں، مجھے ڈانس بھی کرنا ہے۔کیا مجھے بوڑھا کرنے کا ارادہ ہے پھر شادی کروگے؟ تا کہ میں ڈانس بھی نہ کے سکوں۔ ایک ہی وير ہے میرا وہ بھی اتنا کھڑوس۔" ابراہیم پتھروں پر قدرے سائڈ پر بیٹھا آئمہ کو دیکھتا ہوا شہناز بھابھی کی بات سوچتے ہوئے مسکرایا۔ پھر جیسے ہوش میں آتے ہوئے سنبھلا اور پھر سنجیدہ ہوگیا۔

گزشتہ ویک کی ایک شام  ابراہیم شہناز اور شمس کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا جب شہناز نے بات شروع کی۔

"بھابھی وہ میری سٹوڈنٹ ہے۔۔ کیا ہوگیا ہے آپکو؟ بہت چھوٹی ہے میرے سے۔" ابراہیم بولا۔

"ہاں نقلی کی سٹوڈنٹ اور ویسے بھی وہ ابھی اکیس سال کی ہے اور تم ستائیس کے۔ بس چھے سال کا ہی فرق ہے۔ اتنا ایج ڈفرینس تو چلتا ہے۔" شہناز نے جواز پیش کیا۔

"بھابھی چھے سال بھی بہت ہوتے ہیں۔ اور ویسے بھی وہ کافی مختلف ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی اس سے تو تو میں میں ہوگئی تھی میری۔ ہمارے مزاج نہیں ملتے بھابھی پلیز۔" ابراہیم نے سمجھانا چاہا۔

"دیکھا کیسے بہانے بنا رہا ہے اب۔۔ تم نے ہی مجھے کہا کہ جب میں سیٹل ہوجاوں گا تو آپ جہاں کہیں گی میں شادی کر لونگا۔ اور اب۔۔ کوئی ویلیو ہی نہیں ہے میری۔۔" شہناز ناراضگی سے بولی۔

"ایسی بات نہیں ہے بھابھی۔ آپ جہاں کہیں گی میں وہاں کر لونگا۔ پر یہاں نہیں۔۔ ہمارے تو جھگڑے ہی ہوتے رہنے ہیں۔ " ابراہیم معصوم شکل بنا کر بولا۔

"میں کچھ نہیں سن رہی۔ پچھلی دس لڑکیوں کے رشتے میں نے دیکھے جنکو تم نے دیکھے بغیر منع کر دیا کہ ابھی نہیں کرنی۔ تو کب کرنی ہے ویرے ہمارے مرنے کے بعد۔" شہناز چڑ کر بولی۔

"استغفراللہ بھابھی کیا ہوگیا ہے۔۔ "ابراہیم خفا ہوا۔

"دماغ کا رائتہ بنا کر پوچھتا ہے کیا ہوگیا ہے۔ مجھے کچھ نہیں پتہ ابراہیم میں ہاں کر رہی ہوں۔۔ شادی نہ سہی پر نکاح ہم آئمہ کے پیپرز کے بعد کر دینگے تم دونوں کا۔" شہناز نے حتمی فیصلہ کیا۔

"یار بھابھی۔۔۔" ابراہیم کی بات بیچ میں ہی تھی جب شمس نے اسکو ٹوکا۔

"کیا مسئلہ ہے فوجی صاحب کیوں میری بیوی کو تنگ کر رہے ہو۔۔ مان جاؤ شرافت سے ورنہ۔۔۔" شمس نے گھورتے ہوئے کہا۔

"بھائی آپ ہی سمجھاؤ یار۔۔ ایسے کیسے۔۔" ابراہیم بولا۔

"ایسے کیسے کیا مطلب ایک تو اتنی اچھی لڑکی مل رہیں ہے اور نواب صاحب کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔ میں بتا رہی ہیں ہاں کرو شرافت سے اور بس۔" شہناز  کہتی چائے پینے لگی۔

چل مان جا یار۔ کرنی تو ہے نا کسی نا کسی سے۔۔ بلکہ کوئی پسند ہے تو وہ بتا دو ہم برا نہیں مانے گے۔ شمس نے شرارتی انداز میں پوچھا۔

کیا بھائی۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔ ابراہیم نے منہ بنایا۔

تو بس پھر ہاں کرو شاباش۔ شمس بولا۔

"جب سب فیصلے خودی کر لیے ہیں تو مجھ سے پوچھ  کیوں رہے ہیں۔" ابراہیم نے بھنویں اُچکایں۔

"وہ تو ویسے ہی کوٹہ پورا کرنا تھا کہ پوچھا ہے ابراہیم سے۔ اب تم بس گھوڑی چڑھنے کے لیے ریڈی رہو۔" شہناز خوش ہوتے بولی۔

"جی۔۔ی۔۔ی؟ اُف آپکا کچھ نہیں ہوسکتا بھابھی۔۔جو مرضی کریں بھئی کچھ نہیں کہتا میں۔" ابراہیم شہناز کے شاہانہ انداز کو دیکھتے ہوئے ہنستا ہوا بولا۔

"اچھی ہے نا؟" شہناز کی آواز اُسے حال میں لے کر آئی تھی۔

"جی؟ کیا؟ کون؟" ابراہیم فوراً سنبھلتے ہوئے آئمہ سے نظریں ہٹاتا بولا۔

"وہی جسکو دیکھ کر مسکرایا جا رہا تھا۔ گھنے میسنے۔" شہناز مسکراتے ہوئے بولی۔

"نہیں میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ بے خیالی میں نظریں وہاں تھیں۔" ابراہیم نے صفائی دیتے ہوئے آئمہ کو دیکھا۔

"چل جھوٹے۔" شہناز ہنسی۔

"بھابھی۔۔ی۔" ابراہیم نے منہ بنایا۔

"اچھا بتاؤ نا کیسی لگی۔ میں بات آج ہی پکی کرتی ہوئی نہ جاؤں؟" شہناز شرارتی انداز میں بولیں۔

"جیسے آپکی مرضی بھابھی۔ میں کچھ نہیں کہہ رہا اب۔" ابراہیم بولا۔

"اوئے ہوئے۔۔۔سچی۔۔۔ جیتے رہو میرے شیر۔۔" شہناز خوشی سے کھلکھلائی۔

"میں ابھی شمس سے کہتی ہوں۔۔ ہائے میری ویر گھوڑی چڑھے  گا۔۔۔
او ہاں احسن ڈھونڈ رہا تھا تمہیں۔۔جاؤ اسکے پاس۔۔یہاں اکیلے بیٹھنے نہیں آئے اچھا۔" شہناز کہتی ہوئی مڑ گئی۔

"اوکے۔" ابراہیم مسکراتے ہوئے  سیدھا ہوا تو سامنے پھر نظر دور کھڑی پیلے لباس میں کھڑی آئمہ پر اٹکی۔ اب وہ لوگ پکس لے رہے تھے۔ نہ جانے کیوں اسکو دور کھڑی آئمہ اُداس اور اُکھڑی اُکھڑی لگی۔ پھیکی مسکان لیے سب کے بیچ گھومتی پھرتی باتیں کرتی۔ خیر۔۔ وہ سر جھٹکتا  اٹھ کر احسن کے پاس چل پڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آئمہ کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ ابھی آتے ہوۓ تم ٹھیک تھی۔۔ اب بیزار شکل لیے کیوں گھوم رہی ہو۔ پکچرز بھی سہی نہیں لے رہی۔" شیزا چڑ کر بولی۔

"یار دل نہیں کر رہا۔" آئمہ نے جواب دیا۔

"وٹ دل نہیں کر رہا؟ وہ بھی تُمہارا؟ اور وہ بھی ادھر؟ خیریت ہے نہ؟" شیزا نے اسکے ماتھے اور ہاتھ رکھا۔

"کیا ہے پیچھے ہٹو۔" آئمہ کہتی پانی کی طرف ٹہلنے چلی گئی۔

آئمہ آپی کو کیا ہوا؟تھوڑی دیر بعد اِرحا نے پوچھا۔

"یار یہ اسکو ایسے دورے کبھی کبھی پڑتے ہیں۔۔ تم لوگ انجواۓ کرو میں آتی ہوں۔" شیزا کہتی آئمہ کے پیچھے ہو لی۔

"میں نور بی بی کے پاس سے ہو کر آتی ہوں۔" اِرحا کہتی ہوئی جانے لگی۔

"او واشنگ پاؤڈر نرما۔ میں نے تمہیں کھا نہیں جانا جو بلاوجہ کا attitude دیکھاتی ہو۔"  اشعر کو تو غصّہ ہی آگیا اپنی بےقدری پر۔

"جی ی ی ی۔۔۔ دماغ تو ٹھیک ہے آپکا؟ یہ بات کرنے کا کون سا طریقہ ہے۔" اِرحا حیران ہوتے بولی۔

"آپ سے ملنے سے پہلے تک ٹھیک تھا۔ اب لگتا ہے علاج کروانا پڑےگا۔ پیارا لڑکا دیکھا نہیں attitude دکھانے آ جاتی ہیں ۔" اشعر نے جواب دیا۔

"واٹ؟۔۔شٹ اپ۔ اتنے بھی کوئی حسن پرے نہیں ہیں آپ۔۔استغفراللہ۔" اِرحا کہتی ہوئی واپس مڑ گئی۔

"عجیب پاگل ہے۔ پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو۔ ارگھ۔۔" اشعر کہتا واپس کیمرے کی طرف متوجہ ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیسے چھچھوروں کی طرح دیکھ رہے تھے مسلسل۔اور بتیسی بھی اندر نہیں جا رہی تھی۔ ہنہہ ۔۔" آئمہ ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔

"ایمی۔" شیزا کی آواز پر وہ رکی اور مڑ کر اسکے آنے کا انتظار کرنے لگی۔

"اُف۔۔ بہت تیز چلتی ہو یار۔" شیزا نے سانس بحال کی۔

"ابھی میں ٹہل  رہی تھی محترمہ۔ توبہ ہے موٹی عورت۔"
آئمہ نے صدمے سے بولا۔

"جو بھی ہے۔ اچھا کیا ہوا تمہیں؟ منہ پر بارہ کیوں بجے ہوئے؟" شیزا نے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔ ایسے ہی۔ دل نہیں کر رہا بس۔" آئمہ کہتی ہوئے جوتے اتارتی ننگے پاؤں چلنے لگی۔

"ایسے ہی تو کچھ نہیں ہوتا۔۔بول نہ کیا مسئلہ ہے؟ جیجو نے تو کچھ نہیں کہہ دیا۔" شیزا بھی جوتے اتارتی اسکے ساتھ ہو لی۔

"کیا ہے یار ۔۔۔ایک ویسے ہی غصّہ آ رہا آگے سے تو بھی شروع ہوجا۔" آئمہ چڑی۔

"کیوں  جی؟" شیزا پریشان ہوئی۔

" وہ جو استادِ اعظم ہیں نا جن کے لیے پتہ نہیں بابا نے کیا سوچ کر مجھ سے ہاں کروائی ہے۔۔موصوف گھنٹے سے گھور گھور کے دیکھ رہے تھے۔۔ چھچھوندر کہیں کے۔ ہنہہ کھڑوس۔" آئمہ نے شکل بگاڑی ۔

"خبردار او کنیا کنواری ۔۔ ہونے والے شوہر نامدار ہیں تمہارے۔ " شیزا سر جھٹکتے مسکرائی۔

"خبردار اب تم دوبارہ مت شروع ہو جانا۔ اللّٰہ کا واسطہ ہے۔" آئمہ نے رک کر سختی سے کہا۔

"اب تو میں کچھ نہیں کہہ رہی جو بھی کہینگے آپکے وہ کہینگے۔" شیزا ہنستی چلی گئی۔

"یار۔۔ چپ کر نہ پلیز۔۔ ساتھ چلنا ہے تو سکون سے چل ورنہ دفع ہوجا۔" آئمہ نے اسکے کندھے پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔

"شرم دا گھاٹا۔ اتنی دور تیرے ساتھ چل کر آئی ہوں اور بکواس کر رہی آگے سے۔۔ جا میں نہیں آتی ۔" شیزا منہ بناتے ہیو مڑی۔

"یار اچھا سوری۔۔ شیزو پلیز۔" آئمہ نے بےبسی سے اُسے پکارا۔

"اچھا چل کیا یاد رکھیگی۔" شیزا جو دو قدم چلی تھی واپس مسکراتے ہوئے آئی۔

"ویسے میں پوچھنے یہ آئی تھی کہ کیسے مزاج ہیں پھر؟ بات پکّی کی جائے؟ دیکھ غصّہ نہ ہوئیں سیدھی طرح بتا دے جو دل میں ہے. مجھے تو اچھے لگے ہیں بھائی۔۔ڈیسنٹ se" شیزا نے ہاتھ کھڑے کرتے بولا۔

" ڈیسنٹ اور یہ۔۔۔خیر۔۔۔یار مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی۔ کوئی بھی خیال دل میں نہیں آرہا۔ کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔ کیا بتاؤں تُجھے۔" آئمہ چلتے ہوئے بولی۔

"دیکھ مجھے نہیں پتہ اللّٰہ پاک نے تیرے نصیب میں کیا لکھا ہے پر مجھے یہ پتہ ہے کہ بہت بہترین لکھا ہے تبھی وہ تُجھے ایک بے مروت شخص کے ہاتھوں نہیں سونپنا چاہتے تھے۔ تو بس ریلیکس رہ۔ اللّٰہ بہتر سبب بنائینگے اور اگر ابراہیم بھائی تیرے حق میں بہترین ہوئے تو اللہ تجھے انکو سونپ دینگے۔ دماغ سے ہر غلط بات نکال دے اب۔۔خوش رہ بس۔" شیزا نے سمجھایا۔

"ہممم۔۔۔ میں ریلیکس ہوں بلکل۔۔مجھے اپنے رب پر مکمل بھروسہ ہے۔" آئمہ نے آہستہ سے کہا۔

"یہ ہوئی نا بات میری چیتی۔ اچھا بہن چل واپس زیادہ آگے آ گئے ہیں۔ مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے۔ مغرب کا وقت ہورہاہے۔" شیزا نےکہا۔

"ہاں چل۔" دونوں واپسی کے لیے چل دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا کھانا سب نے سی ویو کے قریب موجود ریسٹورانٹ سے کھایا۔ مردوں نے الگ اور عورتوں نے الگ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھایا۔
کھانے کے بعد سب اکھٹے بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے اور ساتھ ساتھ آئسکریم انجواۓ کر رہے تھے۔

"یار حوریہ کیا ہوگیا ہے بچے۔۔بس بھی کر دو جانی۔۔ماما آپکے پاس ہی ہیں۔" شہناز نے آئسکریم جلدی جلدی ختم کرتے ہوئے کہا۔ حوریہ نور بی بی کے پاس بہت رو رہی تھی وہ مسلسل اُسکی پرام جھلا رہی تھیں پر وہ چپ نہیں ہورہی تھی۔

"بھابھی ہم دیکھ لیتے ہیں آپ لوگ باتیں کریں۔" آئمہ کہتے ہوۓ نورے کو ساتھ لیے حوریہ کی طرف بڑھی۔

"جزاک اللہ آئمہ۔۔ بس میں آتی ہوں۔پتہ نہیں پہلی بار باہر نکلی ہے شاید تبھی comfortable نہیں ہو پا رہی۔" شہناز تشکرانہ انداز میں بولی۔

"کیا ہوگیا حوریہ کو؟ کوئی حوریہ کو آئسکریم نہیں دیتا۔۔سب خودی کھا جاتے ہیں۔۔حوریہ کو کوئی بھی نہیں پوچھتا۔" آئمہ حوریہ کو گود میں لیتے ہوئے بولی۔حوریہ رونا بھول کے آنکھیں پوری کھول کر اسکو دیکھنے لگ گئی۔

"بیچارے کہہ رہی ہوگی پتہ نہیں کیا فارسی بولی جا رہی ہیں یہ آنٹی۔" آئمہ نے نورے سے کہا۔

"ہاہاہاہا۔۔ کوئی حال نہیں ہے آپی آپکا۔ لائیں مجھے دیں میری گڑیا کو۔"  نورے ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہنستے ہوۓ بولی۔

"ارے رُکو نا ابھی مجھے تو تھوڑی دیر اٹھانے دو۔۔ آپ تو گھر ہوتی ہوئے بھئی ڈھیر سارا اٹھا لیتی ہو۔" آئمہ نے ہاتھ پیچھے کیے۔

"تو تمہارا انتظام جلدی کر دیتے ہیں اس گھر میں جتنا مرضی اٹھانا۔۔کیسا؟" شیزا نے پیچھے سے آ کر کہا۔

آئمہ نے گھوری سے نوازا۔۔۔جب کے نورے اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی کوئی بھروسہ نئی نئی دوستی ہوئی ہے جھاڑ ہی نہ پلا دیں آئمہ آپی۔

"بھابھی پھر آپ نے کیا سوچا۔ بات کی گھر میں۔۔آئمہ سے پوچھا؟" شہناز جو شہلا بیگم اور سلمہ بیگم کے ساتھ بیٹھی تھی اُن سے قریب ہو کر پوچھنے لگی۔

"ہاں شہناز آزر بھائی سے بچے بہت کلوز ہیں۔۔انہوں نے ہی پوچھا تھا۔ آئمہ نے کہا جو ہمارا فیصلہ وہی اُسکا فیصلہ۔اسکو کوئی اعتراض نہیں۔۔آپ بتاؤ ابراہیم سے بات کی آپ لوگوں نے؟" شہلا مسکراتے ہوئے بولیں۔

"شکر الحمدلللہ۔۔ جی جی ہم نے بھی بات کی ابراہیم سے اسکو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔" شہناز دلی خوشی کے ساتھ بولی۔

"اچھا۔ ما شاء اللہ۔۔مبارک ہو۔" شہلا بیگم اور سلمہ بیگم مسکرائیں۔

"جب بچے دونوں راضی ہوگئے ہیں تو اب آپ بتائیں ہم کب آئیں آپکی طرف اپنی امانت مانگنے؟ " شہناز ٹھہر کر بولی۔

"بس بات کرتے ہیں پھر آزر صاحب اور عاطف سے۔۔ اللّٰہ خیر کا وقت لائیں۔" سلمہ بیگم نے جواب دیا۔

"آمین۔۔" شہناز اور شہلا بیگم نے بولا۔

"آئمہ حوریہ کو لا دو میں نے ختم کے لئے آئسکریم۔ آپکو بھی تنگ کر دیا نا۔" شہناز نے کچھ فاصلے پر موجود آئمہ کو آواز دی۔

"ارے نہیں بھابھی، یہ تو موڈ فریش کر دیتی ہے۔" آئمہ پاس ہوتے بولی اور حوریہ کو شہناز بھابھی کی طرف بڑھایا۔

" میرا بچہ۔" شہناز نے ہاتھ بڑھائے۔

حوریہ نے آئمہ کا دوپٹہ پکڑ لیا۔۔۔

"ہاہاہا۔۔شاباش ہے بیٹا اب ماں کے پاس بھی بھی آنا۔ شام میں مجھے نہیں چھوڑ رہی تھی اب آپکو دیکھو کیسے پکڑ لیا ہے۔" شہناز ہنستے ہوئے بولی۔

"ہاہاہا۔۔۔بس میں ہوں ہی اتنی اچھی۔" آئمہ شوخ ہوئی۔

"بلکل۔۔۔نو ڈاوٹ۔" شہناز نے ہنستے ہوئے حوریہ کو گود لیا۔

آئمہ ہنستے ہوئے پیچھے ہوئی۔۔ تبھی نظر سامنے بیٹھے ابراہیم پر پڑی تبھی ابراہیم نے بھی تبھی اُسے دیکھا۔ دونوں نے اکھٹے نظریں پھیریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر کچھ دیر بعد سب نے واپسی کی راہ لی۔

"بھابھی میں آپکی کال کا بےصبری سے انتظار کرونگی۔ جلدی بتائیے گا۔" شہناز نے جاتے جاتے یاددہانی کروانی ضروری سمجھی۔

شمس اور ابراہیم اپنی اپنی گاڑیاں لے کر پہلے نکلے۔ انکا گھر تھوڑا دور تھا سی ویو سے جب کہ آئمہ لوگوں کا آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔ پیچھے پیچھے آئمہ لوگ ایک گاڑی میں جبکہ بڑے دوسری گاڑی میں نکلے۔ شاہ نہیں آیا تھا اسکے بقول اسکے ایسے فضول گھومنے سے اچھا ہے بندہ کوئی کام کر لے۔

آئمہ لوگوں کو ابھی گھر پہنچے گھنٹہ ہی ہوا تھا جب آزر صاحب کو ابراہیم کی کال آئی۔

شمس لوگوں کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔۔وہ لوگ ہسپتال میں ہیں۔

"یا اللہ خیر۔" سلمہ بیگم کا دل ڈوبا۔سب اکھٹے ہوگئے۔

ہسپتال کا ایڈریس وغیرہ پوچھتے آزر صاحب جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھے۔ دل بھاری ہو رہا تھا۔۔

"ہم بھی چلتے ہیں رکیں۔" آئمہ اور شیزا بولی۔ سلمہ بیگم بھی آگئیں تب تک۔

"نہیں تم لوگ بیٹھو گھر۔۔" سلمہ بیگم نے روکا۔

"اموں پلیز۔۔۔ حوریہ پتہ نہیں کیسی ہوگی۔میں چلوں گی آپ لوگوں کے ساتھ پلیز۔" آئمہ ڈوپٹہ لیتی آگے بڑھی۔

"اچھا شیزا بچے آپ گھر ہی رہو۔۔ احسن  آپ چلو ساتھ۔ آزر صاحب پتہ نہیں ڈرائیو کر سکیں بھی یا نہیں۔" سلمہ بیگم پریشانی سے بولیں۔

سب ہسپتال پہنچے تو ابراہیم نے بتایا کہ اپنے راستے پر گاڑی ڈالنے کے کچھ دیر بعد ہی سامنے ایک خراب ٹرک بند کھڑا تھا۔ شمس بھائی دیہان میں نہیں تھے شاید اور گاڑی ٹرک سے جا کر ہٹ کی ہے۔

آئمہ فوراً اِرحہ کے پاس آئی جو مسلسل رو رہی تھی ۔نور بی بی ہسپتال کے پرئیر روم میں دعائیں مانگ رہی تھیں۔جب کہ اِرحہ حوریہ کو گود میں لیے بیٹھی  مسلسل رو رہی تھی۔

"یار چپ کر جاؤ پلیز دعا کرو سب ٹھیک ہوجائےگا۔" آئمہ خود رونے والی ہوئی پڑی تھی۔

"آپی میری آنکھوں کے سامنے گاڑی کی اتنی بری ٹکر ہوئی تھی۔۔ بھیّا بھابھی کا اتنا خون نکل رہا تھا۔بھابھی بھی اتنا کراه رہی تھیں۔ " اِرحہ  بتاتے ہوئے اور رونے لگی۔

"یار رونا بند کرو دعا کرو۔۔دیکھو حوریہ پریشان ہورہی ہے۔" آئمہ نے تسلی دینی چاہی۔

واپسی پر شہناز اور شمس اپنی کار میں نکلے تھے جب کہ ابراہیم کی کار میں اِرحہ اور نور بی بی بیٹھ گئیں۔حوریہ نورے کی گود میں تھی تو اس نے کہا وہ سنبھال لے گی واپسی پر۔

سب دعاگو تھے۔۔مسلسل دعائیں مانگ رہے تھے۔ گھنٹہ گزر گیا تھا۔۔  شمس آپریشن تھیٹر میں تھا  اور شہناز کو آئی سی یو میں شفٹ کیا تھا ابھی۔

تھوڑی دیر بعد آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر باہر آیا۔ابراہیم فوراً لپکا۔

ڈاکٹر نے آ کر جو اطلاع دی وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ ابراہیم ہل نہ سکا۔

تبھی آئی سی یو سے نرس باہر آئی۔ سر پیشنٹ کو ہوش آرہا ہے وہ مسلسل شمس نام پُکار رہی ہیں۔

"میں ۔۔۔میں چلتا ہوا۔۔" ابراہیم ضبط کرتے کہتے ہوۓ آگے بڑھا۔

"بھابھی۔۔۔میں ابراہیم۔۔بھابھی پلیز ہوش میں آئیں۔" ابراہیم اپنی بھابھی کی حالت دیکھ کر ٹوٹتا بکھرتا جا رہا تھا۔۔یہ کیا ہوگیا تھا پل  بھر میں۔

"شا۔۔۔شمس۔۔ شمس س۔۔۔ " شہناز نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔

"بھابھی بھائی بلکل۔۔۔بلکل ٹھیک ہیں بھائی۔۔آپ اٹھیں نا پلیز۔" ابراہیم رونے والا ہوگیا۔

"شمس کو بلاؤ۔ " شہناز بمشکل بولی۔

"بھابھی انکو تھوڑی چوٹیں آئی ہیں وہ ابھی نہیں آ سکتے آپ پلیز ہمت مت ہاریں اور پلیز آنکھیں بند مت کریں۔ دیکھیں حوریہ بھی رو رہی ہے۔۔اٹھیں چپ کرائیں اسکو۔" ابراہیم کی آنکھوں سے آنسو نکلنے کو تیار تھے۔ ضبط کرے کھڑا تھا۔

"حوریہ۔۔حوریہ کہاں ہے۔۔۔حوریہ کو لاؤ۔۔۔ابرا ابراہیم۔۔ شمس ۔۔۔حوریہ کو بلاؤ۔" شہناز نے ٹوٹ ٹوٹ کر لفظ ادا کیے۔

"بھابھی لاتا ہوں میں پلیز آپ آنکھیں بند مت کریے گا۔" ابراہیم باہر کی طرف بڑھا۔ اور جلدی میں آئمہ کو لیے واپس آیا جسکے ہاتھوں میں حوریہ تھی۔

ڈاکٹر سے کچھ دیر کی اجازت لے کر پیچھے پیچھے سلمہ بیگم اور اِرحہ بھی داخل ہوئیں۔ آزر صاحب کچھ پیپر ورک نبٹانے باہر  تھے۔

آئمہ آ کر دروازے میں کھڑی ہوگئی۔ ابھی کچھ وقت پہلے کیسے سب ہنسی خوشی بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ اور اب ۔۔۔

"آئمہ آئیں اندر پلیز۔ بھابھی بلا رہی ہیں حوریہ کو۔" ابراہیم نے اسکو ہوش دلایا۔

آئمہ دھیرے دھیرے چلتی شہناز کے قریب آئی۔ آنکھوں میں آنسو بے اختیار ہوئے تھے۔ ایک طرف آئمہ اور سلمہ بیگم کھڑی تھیں جب کہ دوسری طرف ابراہیم اور اِرحہ کھڑی تھی جو مسلسل رو رہی تھی۔

"آئمہ۔۔۔ حوریہ۔۔" شہناز نے ہاتھ بڑھایا۔

آئمہ نے حوریہ کو انکے قریب کیا۔ شہناز نے ہاتھ بڑھا کر حوریہ کے گال چھوئے۔ اور اُسی ہاتھ سے اپنا آکسیجن ماسک اتارتی اپنی انگلیوں پر بوسہ دیا۔

"شہناز کیا کر رہی ہو۔ماسک مت اتارو۔۔۔" سلمہ بیگم نے اسکو ماسک دوبارہ پہنانا چاہا۔

"بھابھی۔۔ٹھیک ہوں۔۔
بھابھی ۔۔۔میں ۔۔۔شمس۔۔
شمس۔۔۔۔ چھوڑ گئے۔۔۔چلے گئے ہیں نا۔۔۔ مجھے؟
مجھے چھوڑ گئے نا؟"  شہناز کی آنکھوں میں تکلیف کے آثار تھی۔۔آنسو رواں تھے۔

ابراہیم نے منہ پھیر لیا۔ آنسوؤں پر بند باندھنے لگا۔۔ فوجی بندہ تھا پر اپنوں کو بچھڑتا ہوا دیکھنا برداشت سے باہر تھا۔

"شہناز سنبھالو خود کو۔۔۔دیکھو حوریہ رو رہی ہے۔۔۔ہمت مت ہارو بچے۔" سلمہ بیگم بھرائی ہوئی آواز میں بولیں۔

"آپ لوگ پلیز باہر چلے جائیں۔۔۔پیشنٹ کی حالت خراب ہوجائیگی ایسے۔۔ پلیز۔۔" نرس نے آ کر سب کو باہر نکلنے کا کہا۔

نرس آ کر آکسیجن ماسک دوبارہ لگانے لگی جب شہناز نے آئمہ کو روکا۔

"پلیز باقی باہر چلیں۔" نرس بولی۔

"آئمہ۔۔۔۔ ابراہیم۔۔۔" آئمہ کے نزدیک آنے پر شہناز نے ہاتھ کے اشارے سے ابراہیم کو بلایا۔ابراہیم جو دروازے کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا تھا فوراً قریب آیا۔

شہناز نے ابراہیم کا ہاتھ پکڑا۔ اور مڑ کر آئمہ اور اُسکی گود میں حوریہ کو دیکھا۔ حوریہ کی طرف ہاتھ کرتے اُسکا ہاتھ پکڑا۔ اور سہلانے لگی۔

"آئمہ۔۔۔ابراہیم۔۔۔ میری حوریہ ۔۔میری گڑیا کا۔۔۔۔ خیال رکھنا۔۔۔یہ بہت۔۔" شہناز کی سانس پھولنے لگی۔

"بھابھی پلیز ۔۔۔آپکی بیٹی آپ خود سنبھالیں گی۔۔۔پلیز ایسے مت کہیں۔ہمت کریں۔" ابراہیم انکی بات کاٹتا بولا۔

"آپ لوگ پلیز باہر جائیں ۔پلیز۔۔۔ " نرس آئمہ کو پیچھے کرتی بولی۔ اور شہناز کو انجکشن لگانے لگی۔

"آئمہ۔۔۔۔ابرا۔۔۔۔ہیم۔۔۔
میری حور۔۔۔۔آہ ۔۔
شمس۔۔۔۔" شہناز نے کہتے ہوۓ آخری سانس لی تھی۔

دو محبت کرنے والوں کی ایک ہی دن روح پرواز کر گئی تھی۔

آئمہ کھڑی کھڑی سکتے میں چلی گئی تھی ۔۔گود میں موجود ڈیڑھ ماہ کی بچی یتیم ہوگئی تھی۔ جب کہ ابراہیم لڑکھڑاتا دیوار سے جا لگا۔۔۔ ایک بار پھر سے اسکے اپنے اُسے چھوڑ گئے تھے۔ اس بار وہ اکیلا رہ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

Feedback please 🙏😇✨❤️

Continue Reading

You'll Also Like

Tales of heart By Sophie

General Fiction

93 6 7
Wo log jo nahi chahte milna zindagi kyu unhe ek hi mod par baar baar le aati hai..... Tumhe kabhi ksi se mohabbat huyi??? Ha huyi thi To shadi kyu na...
Aşkım By Afreen Khan

General Fiction

2.8K 181 22
یہ کہانی ہے پشاور کی فرسودہ روایت "غگ" کے بارے میں ۔ یہ کہانی ہے عمارہ ایبک اور خانزادہ ابراہیم کی یہ کہانی ہے بیازد اسلان خان اور گل نین دلاور خان...
461 37 29
《Teri meri kahani》 Roman Urdu Novel Give it a chance please Haider or Layla ki kahani, nok jhok hassi mazakh pyar muhabbat ke sath bhari hui. Haider...
39.8K 2K 10
پیشِ لفظ :-- شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ تمام تر لازوال اور بے مثال تعریفوں کے لائق ہے ۔ وہ پاک ذات جو تمام جہانوں کا خ...