دوستی اور محبت | ✔

By easternbirdiee

10.3K 781 335

دوستی اور فرض کے بیچ جدوجہد۔۔۔ ایک ایسا سفر جس کی منزل وہم و گمان میں نہ تھی۔۔۔ ایسا ہمسفر جسکی چاہت نہ تھی۔۔... More

1~Arguements+Cast1
2~Wild Cat
3~Sorry
4~Innocent Gangster
5~Sweet Sorry
6~Aryan Kapoor
7~Someone from past
8~A little avenge
9~Rain Dance
10~When we were happy
11~Our First Mission+Cast2
12~Nagin Dance
13~Someone is back
14~Diary
15~Zah E Naseeb
16~They lost them
17~Secrets of past
18~That two years
19~Not again
20~Let's play with a new start
21~Distraction
22~He is also hurt
23~All about past
24~So called drama
25~We just hate you
26~Happy Birthday Nael
27~It's over
28~Dinner
29~New Entry
30~Dream
31~As you sow so shall you reap
32~He got his punishment
33~Azan has gone
34~Azhar
36~ Canada(LAST)
Note

35~We have got Master Mind

169 14 2
By easternbirdiee

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

One day everyone gets punishment of their cruel acts.

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس رات اذان شاہین اعظم کے گھر کے باہر موجود تھا۔ اسنے فن پر کیز دبائے اور چہرہ اٹھا کر اس بنگلے کو دیکھا جس کے تمام کیمرے جام کر دیے گئے تھے۔ اسنے جس نمبر پر کال کی تھی کہ اذان نے انکا راستہ صاف کردیا تھا پھر کچھ کہے بغیر کال کاٹ دی تھی۔ وہ درخت کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا جب اسکی کی ایجنسی کے تین آدمی آئے تھے۔ جب وہ اپنا کام کر کے چلے گئے تب اذان نے تمام کیمروں کو پھر سے آن کردیا۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

وہ وہاں سے نکلا لیکن گیا وہ عنایہ کے گھر تھا۔ اسکے گھر کے باہر کھڑا وہ اس روشن گھر کو دیکھ رہا تھا جہاں وہ موجود تھی۔ اسنے آگے بڑھ کر گارڈ کو ایک خط تھمایا اور وہاں سے چلا گیا۔

گارڈ خط لیکر اندر آیا تو پوری فیملی کھانے کی میز پر موجود تھی۔ آئرہ بھی وہیں تھی۔

"سر کوئی آدمی یہ خط دیکر گیا ہے۔" عنایہ نے فوراً سے اٹھ کر خط اس سے لے لیا۔

"ڈیڈ آپکے لیے ہے۔" اسنے اوپر لکھا نام پڑھا لیکن وہ ہاتھ کی لکھائی نہیں تھی نام ٹائپ کیا ہوا تھا ورنہ شاید وہ لکھائی پہچان لیتی۔

عنایہ رضوان کو خط تھما کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سب اپنے کھانے کہ طرف متوجہ ہوگئے پر رضوان نے پیچھے کھڑے گارڈ کو ہاتھ سے کچھ ایسا اشارہ کیا کہ گارڈ سر ہلاتا باہر گیا اور اپنے فون سے رضوان کا نمبر ملایا۔

اندر رضوان کا فون بجا تو وہ اکسکیوز کرکے وہاں سے اٹھ گئے۔ باتھ روم میں آکر انہوں نے خط کھولا تو وہ بھی ٹائپ کیا ہوا تھا۔

"ایک آخری کام بھی پورا ہو گیا۔ میں کل پاکستان واپس جا رہا ہوں۔ زندگی رہی تو وہاں ملیں گے۔ خدا حافظ!"

اور کوئی نام نہیں تھا۔ رضوان مسکرائے تھے۔ انہیں اس لڑکے پر فخر تھا اس اوپشن پر فخر کرتے وہ لیکن انہیں اپنی بیٹی کو کبھی ان سب میں نہیں ڈالنا تھا اور یہی چیز انہیں روکے رکھے تھی۔ انہوں نے اپنی جیب سے لائیٹر نکالا اور خط کو جلا کر اسکی راکھ بناکر اسے پانی میں بہا دیا۔ یہی تو ایک فائدہ تھا خط کا نہ کوئی ثبوت نہ کوئی چھان بین۔

¤---------¤-----------¤

آ

ج نائل اور اذان ان دونوں کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ بول کر چلے گئے تھے۔ اذان عنایہ کے پاس سے گیا ہی تھا لیکن اسے پتا تھا کہ عنایہ اسکے پیچھے ضرور آئے گی۔ اسنے پارکنگ میں آکر گاڑی میں بیٹھتے ہی رضوان کو کال کی۔ کیونکہ اس وقت کال کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی فوری ذریعہ نہیں تھا۔

رضوان گھر پر تھے اظہر کچھ دیر پہلے ہی وہاں آیا تھا۔ رضوان کا فون وائبریٹ ہوا تھا کسی کو کچھ ظاہر کیے بغیر معزرت کرتے وہ اٹھے اور اپنے کمرے میں آگئے۔

اذان کا نمبر دیکھتے انہوں نے فون کان سے لگایا۔ تو دوسری طرف سے اذان کی آواز آئی۔ " میں کچھ دیر میں جا رہا ہوں لیکن مجھے پتا ہے کہ عنایہ وہاں ضرور آئے گی پلیز آپ اسے وہاں آنے سے روک دیں۔"اتنا کہہ کر اسنے کال کاٹ دی۔ رضوان کچھ نہیں بولے۔

کچھ وقت کمرے میں رہنے کے بعد عنایہ کو کال کر کے انہوں نے جلدی میں بلایا تھا۔

دوسری جانب جہاں نائل اپنی پیکنگ کر رہا تھا۔ جب اذان اپنا سامان لیکر اسکے کمرے کے باہر آیا۔

"نائل میں جا رہا ہوں۔ مجھے کہیں اور بھی جانا ہے تو میں وہاں سے سیدھا ایئر پورٹ پہنچ جاؤں گا۔"

"اب ایسا کونسا کام ہے؟" نائل نے شکی نظروں سے اسے دیکھا.۔

"ہے ایک کام تم اپنی پیکنگ کرلو۔ میں چلتا ہوں۔" اور وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ نائل کے مزید سوالوں سے بچنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ گھر سے سیدھا وہ ایئر پورٹ گیا تھا۔

جب عنایہ گھر آئی تو اپنے سامنے اظہر کو دیکھ کے وہ حیران ہوئی تھی۔ وہ جس زبردستی سے وہاں بیٹھی تھی وہی جانتی تھی۔ اسکی بے صبری ان تینوں نے دیکھی تھی۔ لیکن وہ مجبور بنی ہوئی تھی۔ رضوان سب جانتے تھے نادیہ بھی سب جاننے کے باوجود چپ تھیں جبکہ اب اظہر کو بھی شک ہونے لگا تھا۔

اب تو عنایہ کے صبر کی انتہا ہو گئی تھی۔ بہانہ کرتی وہ چلی گئی۔ اتنی دیر روکے رکھنے کے بعد وہ اب اسے اور نہیں روک سکتے تھے تو اسے جانے دیا اور اسکے بعد کی کہانی سے سب واقف ہیں۔ بہت ہو گیا ماضی اب زرا حال میں آتے ہیں۔
.
.
.
.
.
.

نائل اور آئرہ کشمکش کا شکار ہوئے بیٹھے تھے۔ جب نائل نے بات کا آغاز کیا۔

"مجھے پاکستان جانا ہوگا۔" آئرہ نے چہرا اٹھا کے اسے دیکھا۔

"بھائی کو ایسے نہیں جانا چاہیے تھا، یا تو اسے ساتھ لےکر جاتے یا سب ختم کر کے جاتے۔ ایسے بیچ میں چھوڑ کے نہیں جا سکتے۔"

"اتنا تو میں بھی اسے جان چکی ہوں کہ اگر وہ ایسے گیا ہے تو ضرور آگے بھی سب پلان کر کے گیا ہوگا۔ اپنے گھر تو جا کے نہیں بیٹھے گا نا۔" آئرہ نے اپنا اندازہ بتایا۔

"اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے جاکر انہیں ڈھونڈنا ہے۔ میں جتنا دیر سے جاؤں گا کہیں تب تک وہ آگے نا موو کر جائیں۔"

"تو کب جاؤ گے؟"آئرہ نے اس سے سوال کیا جسے بیٹھ کے چین نہیں آرہا تھا اور وہ یہاں سے وہاں چکر لگا رہا تھا۔

"کل ہی۔"
"اور واپس کب آؤ گے؟" آئرہ کے اس سوال پر نائل نے اسے دیکھا جو اداس نظر آرہی تھی۔ نائل اسکے پاس آکر بیٹھا اور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ لیتے گویا ہوا۔

"وعدہ کیا ہے اب تو نبھانا پڑے گا۔ اس بار تو یقین کروگی نا؟" آئرہ نے اثبات میں سر ہلادیا. آنکھیں بھر آئی تھیں الفاظ ختم ہوگئے تھے.

¤----------¤------------¤


میں نے کہا تھا نا پاکستان کے ابھی بہت سے سفر ہونے ہیں تو پھر چلیے۔

اگلے دن نائل پاکستان آگیا وہ اپنے گھر آیا تھا۔ سلیمان اور ماھین وہاں موجود تھے۔ نائل کو دیکھ کر وہ پھولے نہیں سمائے تھے۔

"اذان کہاں ہے؟" ماھین نے نائل سے پوچھا اور یہ سوال سنتے ہی نائل کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جو سوچا تھا وہی ہوا تھا۔ کچھ کہنے پوچھنے کی بجائے نائل نے انہیں سب سچ بتا دیا تھا۔

"اذان اپنی چھپانے کی عادت سےکبھی باز نہیں آئیں گے۔" ماھین نے غصے میں کہا تھا۔

" اب کہاں ڈھونڈو گے اسے؟" سلیمان نے پوچھا۔

"وہ ایجنسی ہی گئے ہوں گے اور کہیں نہیں جائیں گے اب تو جو بھی پتا چلے گا وہیں سے ہوگا۔" نائل نے انہیں بتایا۔

(بھائی اس بار آپ نے واقعی حد کردی ایک بار ہاتھ لگ جاؤ ہڈیاں نہیں توڑی نا تو پھر دیکھنا) نائل بھی آگ بگولہ ہو رہا تھا۔

وہ ایجنسی گیا تھا. لیکن اسے وہاں سے بھی اذان کے بارے میں کچھ نہیں پتا چلا اور خوش قسمتی سے اسے وہاں تب نوید ملا تھا۔

"نوید کسی بھی طرح اس ماسٹر مائنڈ کا پتا لگوانا ہوگا ورنہ یہ مجھ سے پٹے گا۔" نائل بھڑکا ہوا تھا۔ لیکن نوید ہنس دیا۔

"ایک شرط پر تمہاری مدد کروں گا اگر تم واقعی اسکی ہڈیاں توڑنے کا عہد کرتے ہو۔" نوید تو مزے ے رہا تھا۔

"تمہیں اب بھی مجھ پہ شک ہے کیا؟" نائل نے اسے جتایا تھا۔

"تو بھائی تم گھر جاؤ کچھ دن تک تمہیں ساری انفو مل جائے گی۔" نوید نے بھی اسے جتا دیا تھا۔

¤-----------¤------------¤


پیرس میں بھی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ عنایہ اپنے کمرے میں سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی تھی۔ اسکی مسکراہٹ کو کہیں کھو سی گئی تھی۔ وہ تو اپنے کمرے میں بند ہوکر رہ گئی تھی۔

سب آکر اس سے بات کرتے اسے کمرے سے نکالنے کی کوشش کرتے لیکن وہ وہاں سے نہ ہلتی کسی سے بات نہ کرتی سوائے آئرہ کے۔ اب بھی وہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو اسنے عنایہ کو خاموش بیٹھے دیکھا۔

"عنایہ۔" آئرہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا پر اسنے کوئی ردِعمل نہیں دکھایا۔

آئرہ ٹیبل کے ساتھ کمر ٹکائے عنایہ کی طرف چہرہ کیے کھڑی ہوگئی۔ "لگتا ہے اس بار ٹاپ کرنے کا ارادہ ہے تمہارا۔" آئرہ نے اسکا موڈ بہتر کرنے کی کوشش کی۔

لیکن وہ طنزاً مسکرا دی تھی۔

"نائل کہاں ہے؟" عنایہ نے اس سے سوال کیا۔

"وہ۔۔۔ وہ پاکستان گیا ہے۔" اسکے سوال سے آئرہ بھی اداس ہوگئی۔

"کب تک آئے گا؟" عنایہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔

"پتا نہیں۔" مختصر سے سوالوں کے مختصر سے جواب تھے اور خاموشی چھا گئی۔ بلآخر آئرہ وہاں سے جانے ہی لگی تھی۔

"کوئی اتنا خود غرض کیسے ہو سکتا ہے آئرہ؟" کہ عنایہ کی بات سنتے ہی وہ وہیں رک گئی۔

"کیا محبت میں خود غرضی لازم ہوتی ہے؟" پر آئرہ کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔

"عنایہ ہر کہانی کے پیچھے ایک سچ بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات ہم اس سچ سے واقف نہیں ہوتے۔ ہر پہلو کو دیکھ کر ہمیں کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔" آئرہ نے اسے چھپے الفاظوں میں کچھ کہا تھا پر اسنے چونک کر آئرہ کو دیکھا۔

"کیا کہنا چاہتی ہو تم؟ تم۔۔۔ تم کچھ جانتی ہو نا جو میں نہیں جانتی۔ بتاؤ آئرہ۔" عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے اس سے سوال کیا لیکن آئرہ ہڑبڑا گئی تھی۔

"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔" وہ تو بول کے ہی پھنس گئی تھی۔

"آئرہ مجھے بتاؤ تم کیا جانتی ہو ورنہ تم مجھے بھی جانتی ہو۔" عنایہ درشتی سے اسے آنکھیں دکھاتی بولی تھی۔

"عنایہ اگر تمہیں کچھ بھی جاننا ہے تو میں یہی کہوں گی کہ انکل آنٹی سے پوچھو۔ میں کچھ نہیں کہوں گی۔" آئرہ نے چہرہ موڑ کر کہا۔

"مطلب مام ڈیڈ کچھ جانتے ہیں۔" عنایہ کا دماغ گھوم کر رہ گیا اور اس سے پہلے کہ آئرہ کچھ کہتی عنایہ کمرے سے باہر تھی۔

"یا اللہ میں کچھ زیادہ بول گئی کیا۔ آئرہ کی بچی ایک تو تمہاری زبان کہیں پر کچھ زیادہ ہی چل جاتی ہے۔ اب تو تیری بھی خیر نہیں۔" آئرہ اب پچھتا رہی تھی۔

عنایہ دروازے کے باہر کھڑی تھی اسے کھٹکھٹاتے وہ اندر سٹڈی روم میں داخل ہوئی جہاں رضوان اور نادیہ دونوں مطالعے میں مصروف لگتے تھے۔

"عنایہ آؤ۔" نادیہ نے مسکرا کر کہا۔ لیکن وہ انکے سامنے کھڑی رہی۔

"آپ دونوں اذان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟" یہ سنتے ہی ان دونوں کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔

"بتائیں ڈیڈ۔ آپ اس سے اس دن ہوسپٹل میں ملے تھے نا؟" عنایہ اب رضوان سے مخاطب تھی۔

"عنایہ بیٹھیں ہمیں آپکو کچھ بتانا ہے۔" نادیہ نے تحمل سے کہا تو رضوان نے انہیں روکنا چاہا تھا۔ "نہیں رضوان عنایہ کو اب سب بتادیں۔ وہ اتنی بڑی تو ہوگئی ہے کہ سب سمجھے گی۔ اس کا حق ہے سب جاننا۔" لیکن عنایہ ناسمجھی سے انہیں دیکھتی رہی اور پھر انہوں نے اسے اول تا آکر سب کچھ بتادیا۔ انکا کام۔۔۔اذان سے انکی ڈیل سب کچھ۔

وہ خاموش ہوگئے پر عنایہ تو جیسے بت بن گئی تھی۔ اس سے آج تک کیا کچھ چھپایا گیا تھا۔ اسے کسی بات پر بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ سب نے جو کچھ کیا جو فیصلے لیے سب اسکے لیے اور اسے ہی کچھ نہیں پتا تھا۔ سب اسکی مرضی کے بغیر اسکی زندگی کے فیصلے کر سکتے تھے۔

"وہ۔۔۔وہ۔۔۔میری وجہ سے چلا گیا؟ میرے لیے چلا گیا؟" وہ صدمےمیں بولی تھی۔ نادیہ اسکے پاس آکر بیٹھ گئیں اور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے سہلانے لگیں۔ رضوان خاموشی سے ریوالونگ چیئر پر بیٹھے تھے۔ عنایہ فوراً سے اٹھ کر انکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی گئی انکے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھے اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں۔

"پاپا پلیز مجھے اس سے ملنا ہے۔ وہ کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ میں جانتی ہوں اسے اسنے اپنے ماضی میں بھی بہت کچھ کھویا ہے آپ تو سب جانتے ہیں نا! (دونوں کو اسکی حالت پر ترس آرہا تھا) اذان کے ساتھ رہنا میری مرضی ہے۔ میں اسی کے ساتھ خوش رہوں گی اور جہاں تک میری سیفٹی کی بات ہے تو آج تک آپ دونوں نے مجھے سیف رکھا ہے نا وہ بھی مجھے کبھی کچھ نہیں ہونے دے گا۔ پلیز پاپا مجھے اس سے ملوا دیں پلیز۔ ورنہ میں مر جاؤں گی۔"

"عنایہ!" نادیہ نے اسے ٹوکا لیکن وہ صرف رضوان کی طرف متوجہ تھی۔ "ٹھیک ہے میں آپکو ملواؤں گا لیکن پہلے آپ اپنے فائنلز دیں گی۔" رضوان نے اتنی سے شرط رکھی تھی کہ عنایہ نے سر جھکا لیا تھا۔ انکے گھٹنوں پر سر رکھے وہ روئے چلی جا رہی تھی۔ ایک اکلوتی بیٹی کے آگے وہ والدین بھی مجبور ہوگئے تھے۔


سچ کہا تھا آئرہ نے سچ جان کر ہی کوئی فیصلہ لینا چاہیے اگر وہ سچ نہ جان پاتی تو شاید ابھی بھی کسی غلط فہمی میں ہوتی۔ لیکن اب وہ پرسکون تھی۔ واپس کمرے میں آتے اسکے تاثر کافی بدل چکے تھے۔ آئرہ اسکے آنے تک پرسکون نہیں ہو پائے تھی۔

"عنایہ!" آئرہ نے کپکپاتی آواز میں پکارا۔

"ہاں؟" اسنے سادہ انداز میں جواب دیا اور آکے وہیں سٹڈی ٹیبل پر بیٹھ گئی۔

"کیا ہوا ہے؟"اسنے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

"کچھ بھی نہیں۔"اسنے مسکرا کے جواب دیا۔

"تو تم کیا کر رہی ہو؟"اسے عنایہ کی اچانک سے بدلی حالت کو دیکھ کر گھبراہٹ ہو رہی تھی۔

"پڑھ رہی ہوں۔ پرسوں سے فائنلز ہیں۔ تمہیں نہیں پڑھنا کیا؟ جاؤ تم بھی اپنے کمرے میں۔" کہہ کر وہ کتاب کی طرف متوجہ ہوگئی۔

آئرہ نے ایک بار خود کو چیونٹی کاٹی کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی لیکن سب سچ تھا جو اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ لگتا ہے یہ لڑکی پاگل ہوگئی ہے۔ کہیں پاگل پن میں مجھے نا کچا چبا جائے۔ تو وہ جان بچاتی کمرے سے نکل گئی تھی۔

¤----------¤-----------¤

ف

ائنلز شروع ہوچکے تھے۔ زندگی میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ پیپر۔۔۔پڑھائی۔۔۔مارکس۔۔۔ ٹینشن۔۔۔ کیا ماحول بنا ہوا تھا۔ ہفتہ پورا ہونے والا تھا اور آج آخری پیپر تھا۔ پورا ہفتہ آئرہ عنایہ کا جوش دیکھ کر حیران و پریشان تھی۔ وہ کچھ بھی پوچھتی عنایہ بات ہنسی مزاق میں اڑا دیتی۔ گھر آکر عنایہ نے اپنی پیکنگ شروع کردی تھی۔

"عنایہ یہ کیا کر رہی ہو؟"آئرہ نے اس سے سوال کیا۔

"لمبی سیر پر جارہی ہوں۔ تم چلو گی؟" لیکن آئرہ دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔ آئرہ نے اسے کندھے سے تھام کر اپنی طرف گھمایا۔

"عنایہ تمہیں ہوا کیا ہے میں اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں تم عجیب سا بہیو کر رہی ہو۔ ہوا کیا ہے تمہیں؟"

"ارے پیپر ختم ہونے کی خوشی ہے اور کیا ہو گا مجھے۔ اب بتاؤ تم میرے ساتھ چل رہی ہو یا نہیں؟" آئرہ اسکا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ یہ لڑکی واقعی پاگل ہوگئی ہے۔ "اچھا ٹھیک ہے میں چلوں گی تمہارے ساتھ پر۔۔۔" پر عنایہ نے اسکی بات کاٹ دی۔

"تمہارے پاس آدھا گھنٹہ ہے اپنے کمرے میں جاؤ پیکنگ کرو اور کچھ نہیں پوچھو گی تم کیونکہ میں بتاؤں گی نہیں۔ اس لیے وقت ضائع مت کرو اور جاؤ۔" عنایہ واپس اپنی پیکنگ میں متوجہ ہوگئی۔ تو آئرہ سوچتی کمرے میں آگئی۔ جب وہ دونوں ایئر پورٹ کے لیے نکلیں تو پیچھے سے نادیہ اور رضوان زرا پریشان بھی تھے۔

"کیا ہم نے صحیح کیا؟" نادیہ اب بھی سوچ رہی تھیں۔

"اسی میں اسکی خوشی ہے اور ہمیں اسکی خوشی زیادہ عزیز ہے۔"

عنایہ بہت خوش تھی اور آئرہ اسے خوش دیکھ کر پریشان تھی۔
ہم کہاں جا رہے ہیں اس کا جواب اسے ایئر پورٹ جاکے ملا اب تو اسکا دماغ اور گھوم کر رہ گیا تھا۔ یہ لڑکی آخر کرنا کیا چاہ رہی ہے۔ لیکن اسنے اب بھی کچھ نہیں پوچھا۔ کیونکہ فائدہ نہیں تھا۔

دوسری جانب نائل کو ابھی تک کوئی معلومات نہیں ملی تھی وہ فریال کے ساتھ بیٹھا تھا۔ فریال بھی وہاں پہنچ ہی گئی تھی۔ نائل نے اپنی طرف سے بھی پوری کوشش کی تھی پر اسے اذان کا کچھ پتا نہ چلا اور تب ہی اسے کال آئی۔ اسنے کالر آئی ڈی دیکھے بغیر فون کان سے لگالیا۔

"ہیلو؟"

"بھائی اپنی شرط یاد ہے نا؟ (نائل نے چہرا اٹھا لیا) ماسٹر مائنڈ کا پتا لگ گیا۔ آجا یہاں پہ۔" نوید نے اسے اطلاع دی جس سے آج وہ کئی عرصے بعد دل شکن انداز میں مسکرایا تھا۔

"ماسٹر مائنڈ کی تو اب خیر نہیں۔"

********

So friends... Last part reh gya hai. Aj raat ko mil jaye ga lekin us se phle apna guess btayen k agy kya ho ga? Wo part lmba hai to guess b bnta hai.
Or Anaya k parents ka secret ksa lga? Mene hints b diye thy lekin kisi ko b pta ni lga.

Continue Reading

You'll Also Like

99.8K 18.9K 76
سیدنی براون دەبێتە 18 ساڵ لەچەند ڕۆژێکی تر دا، بەڵام ئەو ڕۆژە وەک کابوسێکە بۆی،چونکە دەبێ هاوسەرگیری لەگەڵ پیاوێکی 49 ساڵەدا بکات. ژیانی ئەو شاراوە ن...
4.6K 520 29
خواب اور حقیقت میں ٹھہرا سفر ۔۔۔🇵🇸 اع راف!
169K 9.7K 9
Hamdaani Heirs #3 The story of Furqaan and Aamaal. How fate brings them together in bleak circumstances. The storms they brave. How a lover's wait i...
345 16 5
انقام كره حقد حب ثار منافسه بين... لذلك أصبحت إمرة...