راہِ حق ازقلم ندا فاطمہ

By Nidafatimaa

3.2K 364 540

نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں جو ہو یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں​ یہ کہانی ہے ان نوجوانوں کی جن... More

Ep 1
Ep 2
Ep 3
Ep 4
Ep 5
Ep 6
Ep 7
Ep 8
Ep 10

Ep 9

260 32 78
By Nidafatimaa

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہے

نوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور وقعات فرضی ہیں حقیقی زندگی میں انکا کوئی عمل دخل نہیں.

BISMILLAH

تجھ سے بچھڑ کر سانس تو چلتی رہی مگر
میں خود کو زندہ دیکھ کر حیرت سے مر گیا

وہ اس وقت آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر اسلام آباد کے آفیسرز میس میں بیٹھے تھے.
"فاز تم مجھے کب سے ایسے کیوں گھورے جا رہے ہو؟" ضرار جو کافی دیر سے فاز کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کر رہا تھا جھنجلا کر بولا.

"میری آنکھیں، جسکو مرضی دیکھوں!"فاز نے ڈھٹائی سے کہا اور اسے دیکھنے لگا جو ابھی ابھی کرنٹ کا جھٹکا کھانے کے بعد ہسپیٹل جانے کی بجائے ہیڈکوارٹر رپورٹ کرنے چلا آیا تھا اور اب بڑے مزے سے میس میں بیٹھا پانی کے گھونٹ اندر اتار رہا تھا.

"ہاں لیکن تم دیکھ نہیں رہے تم گھور رہے ہو." ضرار اپنی بات پر قائم رہا جس پر فاز نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا.

"تم میری بات مانتے ہو جو میں مانوں؟ بکواس کر رہا تھا کہ فرسٹ ایڈ کروا لے پر نہیں جناب تو آئرن مین ہیں....انہیں کیا ہونا ہے."فاز منہ بسور کر کہتا رخ پھیر کر بیٹھ گیا.

"ارے یار میں ٹھیک ہوں....اب کیا سٹامپ پیپر پر لکھ کہ سائن کر کے دوں تب مانے گا؟"اسنے اسکا رخ واپس اپنی جانب موڑتے ہوئے کہا تو فاز نے ایک نظر اسے دیکھا.

"تجھے پتہ ہے کیا فاز.....جب مجھے میجر کا بیج ملا تھا تب چیف ایک بہت خطرناک مشن سے کامیاب ہوکر واپس لوٹے تھے تب انہیں بھی اس کے اعزاز میں ایک میڈل دیا گیا تھا.....لیکن جانتا ہے انہوں نے کیا کہا؟"
ضرار نے چہکتے ہوئے پوچھا جس پر فاز نے نفی میں گردن ہلائی.

"کیا کہا؟"
فاز کے کہنے پر ضرار کی آنکھوں میں چمک اور بھی بڑھ گئی.

"اتنا خطرناک مشن سر انجام دینے کے باوجود مجھے بس ایک میڈل دیا جا رہا ہے وہ بھی بند کمرے میں جوکہ تقریب کے بعد مجھ سے واپس لے لیا جائے گا اور ہماری عوام کو معلوم ہی نہیں کہ میں نے کس طرح اپنی جان خطرے میں ڈالی."
یہ انکے الفاظ تھے....
انکے ان الفاظ پر وہاں موجود ہر فرد نے تالیاں بجائیں پر پتہ ہے پھر انہوں نے کیا کہا؟"
ضرار نے فخر سے گردن بلند کرتے ہوئے فاز سے پوچھا تو اسنے سر نہ میں ہلایا.

"انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے تالیاں ہی سننی ہوتیں تو سرکس جوائن کرتے نہ کہ انٹیلیجنس." ضرار نے یہ کہہ کر فاز کو دیکھا جو بغور اسکی بات سن رہا تھا اور پھر دوبارہ بولنا شروع کیا.

"فاز میں بھی ان جیسا ہی مضبوط بننا چاہتا ہوں. جو کسی مشکل کسی تکلیف میں نہ گبھرائے اور نہ ہی اللہ سے کوئی شکوہ کرے. بس اسکی رضا اور اپنے فرض کی تکمیل میں ہر حد سے گزر جائے." اسکی آنکھوں میں جیسے جگنو چمک رہے تھے.

"انشا اللہ....ایک دن ایسا ضرور ہوگا."فاز نے مسکرا کر ضرار کا کندھا تھپکا تو وہ فاز کو دیکھ کر رہ گیا.

"اچھا اب تو جا نہیں تو کوئی پرابلم نہ ہو جائے....مجھے بھی سیف ہاؤس کے لئے نکلنا ہے." انہیں نکلے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا

"ہاں یار کافی ٹائم ہوگیا....اب میں چلتا ہوں.....تو اکیلا چلا جائے گا نہ یا میں چھوڑ دوں؟" فاز چیئر سے اٹھتے ہوئے بولا

"تو ایک کام کر مجھے اپنی باہوں میں اٹھا کے سیف ہاؤس تک چھوڑ کے آ.....ارے بھائی کہہ رہا ہوں نہ ٹھیک ہوں." میجر ضرار نے دانت پیستے ہوئے کہا تو فاز کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری.

"جا رہا ہوں میں....بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے." فاز اس سے بغلگیر ہو کر جلدی سے باہر کی جانب بھاگا.
ضرار بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور دو ٹیبل چھوڑ کر بیٹھے حامد عرف کرشن دیو کو دیکھ کر طنزیہ مسکرایا.
اور حامد جسکی اچانک ہی ضرار پر نظر پڑی تھی اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر حیران ہوا.

ضرار نے ہاتھ کنپٹی تک لے جا کر دور سے ہی سلام کیا تو حامد نے بھی ویسے ہی دور سے سلام کا جواب دیا.
ایک نظر اسکی طرف دیکھ کر اسنے ہاتھ اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈالا جو وہ پہنے ہوئے تھا اور گاڑی کی کیز نکالتا میس سے باہر نکل گیا.

•_•

کوئی شکوہ نہیں لیکن
اگر ہو بھی تو کیا حاصل

رات کے سائے کافی گہرے ہو چکے تھے، سب جانور پرندے اس وقت اپنے ٹھکانوں میں دبکے بیٹھے تھے گھڑی رات کے دس بجنے کا پتہ دے رہی تھی.
بیڈ پہ پڑا فخر کا موبائل اچانک سے چنگھاڑنے لگا تو خضر نے ایک نظر واشروم کے بند دروازے کی طرف دیکھا.

"فخر تیرا فون رنگ کر رہا ہے یار اب نکل بھی آ." خضر نے وہیں بیڈ پہ بیٹھے بیٹھے ہی فخر کو آواز لگائی.

فخر کے روم میں شاور سے پانی نہیں آ رہا تھا تبھی اسنے خضر کے واشروم کو یہ شرف بخشہ تھا اور اب شاور لینے گھسا ہوا تھا.

"اٹھا لے یار، میں بس آتا ہوں." فخر نے بھی اندر سے ہی آواز لگائی
تو خضر نے اسکے فون کی سکرین پر دیکھا جہاں عزہ کی ویڈیو کال آ رہی تھی.
خضر بےچارہ عجیب کشمکش میں پڑ گیا کہ اٹھائے یا نہیں پر پھر خیال آیا کہ کہیں کوئی ایمرجنسی نہ ہوگئی ہو تو کال اٹھا لی.

ادھر عزہ جو سکرین کی طرف متوجہ نہیں تھی، سر پہ بلیو رنگ کا ڈوپٹہ جمائے جھنجلائی ہوئی اپنی امی کے ساتھ الجھ رہی تھی.

خضر کو تو جیسے چپ لگ گئی تھی وہ بس سامنے حرکت کرتی اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جسکا دھیان کسی اور طرف تھا.

"امی، کیا ہوا ہے اب، کر تو رہی ہوں کال، اب تو میڈیسن لے لیں." عزہ کی صورت ایسی تھی جیسے ابھی رو دے گی.
کہ اچانک اسکی نظر موبائل کی طرف گئی جہاں کال اٹھا لی گئی تھی پر سامنے کا منظر دیکھ کر اسکا سر چکرا گیا.
کوئی لڑکا اسے نجانے کب سے گھورے جارہا تھا.

"ایکسکیوز می مسٹر، یہ میرے بڑے بھائی فخر لغاری کا فون ہے، یہ آپ کے پاس کیا کر رہا ہے؟" عزہ نے بھی فخر ہی کی بہن ہونے کا ثبوت دے دیا تھا اور خضر جو اسکے پوچھنے پر گڑبڑایا تھا وہ الفاظ جمع کرنے لگا کہ اب کیا کہے اسے.

"وہ دراصل میں فخر کا فرینڈ ہوں، فخر واشروم میں تھا تو اسنے مجھے بول دیا کہ کال اٹھا لوں کہیں کوئی ایمرجنسی نہ ہو!" خضر خجل ہوتا ہوا بولا تو عزہ کے تنے ہوئے اعصاب کافی حد تک پرسکون ہو گئے.

"ارے اوہ عزہ، بچے نے کال اٹھا لی ہے تو لا فون ادھر دے مجھے." راحیلہ لغاری، عزہ کی امی نے کہتے ہوئے فون اسکے ہاتھ سے چھینا.

"امی کیا ہوگیا ہے، بھائی بزی ہیں تو انکے دوست نے کال ریسیو کی ہے! آپ پلیز ضد نہ کریں." عزہ نے بےبسی سے کہا تو خضر کو وہ بہت ہی معصوم لگی.

"کیا ہوا ہے عزہ، آنٹی میڈیسن کیوں نہیں لے رہیں؟" خضر نے عزہ کو نام لے کر مخاطب کیا تو اسنے ایک نظر سامنے موجود لڑکے کو دیکھا
فوجی کٹ بال، کالی آنکھیں، کلین شیو، کسرتی جسم، کھڑی ناک....کافی ہینڈسم ہے.....عزہ نے اسکا جائزہ لیتے ہوئے سوچا اور پھر اپنے اسے خیال پر لعنت بھیجی.
اور وہاں خضر کے چہرے پر عزہ کو یوں اپنی طرف دیکھتا پا کر مسکراہٹ آئی جسے وہ دبا گیا تھا.

"امی ضد کر رہی ہیں کہ بھائی سے جب تک بات نہ کی تب تک میڈیسن نہیں لیں گی." عزہ نے منہ بناتے ہوئے کہا تو خضر کو بات سمجھ آئی.

"اوہ اچھا،ویسے یہ اچھی بات نہیں....میں فخر کو بلاتا ہوں!" خضر کے کہنے پر عزہ نے پلیز بلا دیں کہا تو وہ سر ہلا کر اٹھا اور واشروم کا دروازہ پیٹنے لگا.

"فخری....باہر نکل آ یار، اور کتنا ٹائم لگائے گا، آنٹی کی کال ہے جلدی باہر نکل." وہ دروازہ بجاتا ہوا بولا تو فخر تولیے سے بال رگڑتا باہر آیا.

"آگیا یار." فخر تولیہ سائیڈ پہ پھینکتا موبائل کی طرف لپکا..

"شکر ہے بھائی آپ آ گئے، اب سمجھاییں اپنی ماں کو، اللہ حافظ." عزہ جلدی سے موبائل اپنی امی کو تھما کر وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئی.

خضر کی نظریں بھی فون کے اس پار ہی جمیں تھیں، عزہ کو جاتا دیکھ کر وہ بھی اٹھا اور تولیہ بیڈ کے سائیڈ سے اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھنے لگا.

فخر نے مسلسل بیس منٹ بحث کے بعد اپنی امی کو دوائی لینے پر راضی کیا اور اب اپنے کمرے میں جا چکا تھا.

پر خضر وہیں کہیں اٹک گیا تھا، وہ خود اپنے اس احساس پر حیران تھا، ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا اسکے ساتھ، اسے رہ رہ کر عزہ کا وہ رونے والا چہرہ یاد آ رہا تھا.
وہ بیڈ پر آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا اسے ہی سوچ رہا تھا.

"خضر، یہ تم بلکل غلط سوچ رہے ہو، اگر فخر کو پتہ چل گیا کہ تم اسکی ہی بہن کے بارے میں یہ سب، نہیں نہیں، وہ مجھ پہ کتنا بھروسہ کرتا ہے، یہ سب غلط ہے، مت سوچو کچھ بھی." وہ خود سے بڑبڑاتا رہا اور پھر نیند اس پر مہربان ہو گئی.
پر بھروسہ تو ٹوٹنے کےلئے ہی ہوتا ہے نا!

•_•

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری ہی سحر نہیں ہوتی

رات کے اس پہر وہ لان میں رکھی چئیر پر بیٹھی سناٹے ناپ رہی تھی، ہاں وہ ہنال ہی تھی، آنکھوں میں بلا کی سردمہری، بھورے بال کمر پر بکھرے تھے، گرے شرٹ کے بازو اتنے لمبے تھے کہ اسکے ہاتھوں کی صرف انگلیاں ہی نظر آ رہی تھیں، کالی جینز پہنے ٹانگیں چئیر کے اوپر رکھے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی.

"ہانی پتہ ہے جب میں پی ایم اے میں تھا، تب ایک دن میں اور میرا روم میٹ صرف ویسٹ اور شورٹس میں سوئے ہوئے تھے کہ وہاں اچانک سے پلٹون کمانڈر آ گئی....وہاں سے اسی ڈریس میں مجھے اور روم میٹ کو نیچے لے گئیں اور روڈ پہ کھڑا کر دیا.....میں نے سیلپرز پہنے ہوئے تھے اور روم میٹ نے وہ بھی نہیں....ہم دونوں half naked وہاں روڈ پہ کھڑے اور وہاں سے لیڈی کیڈٹس گزر رہیں تھیں.....وہ ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنسیں....یقین کرو ہمیں اتنی شرم آئی کہ میں بتا نہیں سکتا اور مزے کی بات یہ کہ ہم اس وقت تھے بھی پتلے پتلے، ایسا لگتا تھا جیسے ہینگر پہ ویسٹ ٹانگی ہوئی ہے."
عائق اسے اپنی پی ایم اے میموریز بتا رہا تھا اور ہنال کی آنکھوں میں ہنس ہنس کے آنسو آ گئے تھے.

اسکی باتیں یاد کر کے لان میں بیٹھی ہنال کے چہرے پہ بے ساختہ مسکراہٹ آئی.

اسکی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں پر نجانے وہ کس احساس کے تحت ڈھیٹ بنی مسکرا رہی تھی.

تبھی سیف ہاؤس کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی تو وہ اپنے خیالوں سے باہر نکلی اور گیٹ کی جانب دیکھا جہاں بلیک کلر کی کار میں بیٹھا ہاں وہ وہی تھا، میجر ضرار واپس آ چکا تھا.

ہنال نے ایک نظر اپنی کلائی میں بندھی گھڑی کو دیکھا جدھر گیارہ بج رہے تھے.
پھر وہ ٹانگیں کرسی سے نیچے اتارتی سیلپرز پہننے لگی.
ادھر ضرار جو گاڑی سے باہر نکل کر اندر جانے والا تھا، اسے لان میں کچھ ہل چل محسوس ہوئی تو آنکھیں سکوڑ کر وہاں دیکھنے لگا.

"اس وقت لان میں کون ہے؟" وہ ابھی کچھ قدم آگے بڑھا تھا کہ ہنال بھی اسی کی طرف آئی.
لائٹ پڑنے سے ضرار کو اسکا چہرہ نظر آیا.
وہ ایک ہفتے بعد اسے دیکھ رہا تھا، لیکن وہ پہلے سے زیادہ پیاری ہو گئی تھی یا صرف اسے ہی لگ رہی تھی.
تھوڑا قریب آنے پر اسکی آنکھوں کی سرخی ضرار نے باخوبی دیکھی تھی، تبھی وہ نظریں چرا گیا.

"السلام علیکم، آپ سوئی نہیں اب تک؟" ضرار نے اندرونی دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا تو ہنال بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے ساتھ چلنے لگی.

"و عليكم السلام! دراصل مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو باہر آ گئی، سب ٹھیک رہا؟" ہنال دونوں ہاتھ پیچھے باندھتی ہوئی اپنے قدموں کو دیکھتی ہوئی بولی تو ضرار نے ایک نظر اپنے ساتھ چلتی ہنال پر ڈالی اور پھر نظر جھکا گیا.

"جی سب ٹھیک رہا، اب بس کچھ اور وقت اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا." وہ دونوں چلتے چلتے اب اندر لاؤنج میں پہنچ گئے تھے.

"ہمممم، وہ اوپر رائٹ سائیڈ والا روم خالی ہے." ہنال نے روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، پر وہ کہاں اس طرف دیکھ رہا تھا.
اسکا دھیان تو ہنال کی آواز کی طرف تھا جو کے کافی بھاری لگ رہی تھی اور آنکھیں بھی لال تھیں.

"تو کیا یہ روئی ہے!"اسنے دل ہی دل میں سوچا پر پھر خود ہی اپنے خیال کی نفی کی، کیونکہ اسنے کبھی بھی اسے روتے نہیں دیکھا تھا وہ بہت مضبوط تھی،
شاید یہ اسکی برداشت ہی کی نشانی تھی جو وہ خود کو رونے سے باز رکھے ہوئے تھی.

"آپ ٹھیک ہیں؟" ضرار نے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے کہا تو ہنال نے چونک کر اسکی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا.

"جی، مم....میں چلتی ہوں اب، گڈ نائٹ." ہنال نے بال کانوں کے پیچھے اڑستے گڑبڑا کر کہا اور جلدی سے سیڑھیاں چڑھتی روم میں گھس گئی، جیسے کوئی چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو.

ادھر ضرار اسے جاتا دیکھا کر تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا اور خود بھی روم کی طرف بڑھ گیا، وہ بھی اب آرام کرنا چاہتا تھا.

ہنال دروازہ بند کر کے اسکے ساتھ ٹیک لگا کر نیچے بیٹھتی چلی گئی، نیند تو اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی، شاید اسے ڈر تھا، پھر سے اپنے کسی پیارے کو کھو دینے کا ڈر....
وہ وہیں اپنا سر گھٹنوں پہ ٹکائے بازو ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر نجانے کتنی دیر بیٹھی رہی.

پھر تھک کر اٹھی اور اوندھے منہ بیڈ پر گرنے کے سے انداز سے بیٹھی کہ کچھ ہی دیر بعد اسکا فون بجنے لگا، اسنے کوفت سے بغیر سکرین دیکھے تکیہ اٹھا کر منہ پر رکھا.
پر مسلسل بجتے فون نے اسے تنگ کر دیا تھا، اسنے تکیہ اٹھا کر زور سے سامنے دیوار پر دے مارا اور غصے سے سیدھی ہو کر لیٹی، کال بند ہو چکی تھی.

موبائل کی سکرین پر کرنل وحید کی تقریبأ بارہ مسڈ کالز تھیں....
اسنے جلدی سے کال بیک کی جوکہ فورأ اٹھا لی گئی.

"السلام علیکم بابا، سب خیریت ہے، مام تو ٹھیک ہے نا؟" وہ کال اٹھاتے ہی بول اٹھی.

"وعلیکم السلام کیپٹن صاحبہ، ہم اور آپکی ملکہ بلکل ٹھیک ہیں تھوڑا حوصلہ رکھیں، لیکن کیپٹن عائق..." عائق کا نام سنتے ہی اسنے انکی بات بیچ میں ہی کاٹ دی.

"کیا ہوا ہے عائق کو؟ ٹھیک ہے نا وہ؟ فائرنگ ہو رہی تھی نہ وہاں، بولیں بھی اب!"  ہنال کی بات سن کر وہ حیرت سے چونکے.
یعنی بات ہوئی تھی اسکی عائق سے تبھی اسے معلوم تھا.

"جی جی، آپ میری بات تو سنیں، کیپٹن عائق اور انکی ٹیم نے دشمنوں کو بھرپور جواب دیا، ایسے میں انکے ایک جوان کو شہادت نصیب ہوئی ہے اور عائق کو گولی لگی تھی، CMH لایا گیا ہے."  ادھر ہنال دل ہی دل میں اسکی خیر کی  دعائیں مانگ رہی تھی.

"آپریشن کے ذریعے گولی نکال لی گئی ہے....اب دوائیوں کے زیر اثر ہے.....پر غنودگی میں بھی وہ یہی کہہ رہا تھا کہ تمہیں بتا دیں کے وہ ٹھیک ہے." کرنل وحید نے مسکراتے ہوئے کہا تو ہنال نے اللہ کا شکر ادا کیا.

"اللہ کا شکر ہے....جب اسے ہوش آئے تو اسے بولئے گا کہ مجھ سے بات کر لے." ہنال نے اپنی آواز کو نارمل کرنے کی بھرپور کوشش کی تو وحید صاحب کو اسکی فکر ہونے لگی.

"اوکے میرا بیٹا، آپ فکر نہیں کرو، سب ٹھیک ہے." انہوں نے ہنال کی حالت کو سمجھتے ہوئے کہا.

"جی، آپکو پتہ ہے بابا میں ڈر گئی تھی، مجھے لگا وہ مجھے چھوڑ کے چلا جائے گا، میں پھر سے اکیلی رہ جاؤں گی." وہ بار بار بالوں میں ہاتھ پھیرتی اپنے آنسو روک رہی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی تھی......پر دروازے کے باہر کھڑے اس وجود کو اندھیروں میں دھکیل چکی تھی.
میجر ضرار جو ہنال کے روم میں فرسٹ ایڈ  باکس لینے آیا تھا، تاکہ اس میں سے کوئی ointment لے کر ہاتھ پر لگا سکے، اسکا وجود اس وقت زلزلوں کی زد میں تھا، ادھ کھلے دروازے کا ہینڈل پکڑے وہ کسی بے جان مجسمے کی طرح کھڑا تھا.
اسنے بے یقینی سے ہنال کو دیکھا اور پھر وہیں سے واپس مڑ گیا.

"کچھ مت سوچیں آپ اس وقت، سب ٹھیک ہو گیا ہے، وہ کہیں نہیں گیا....اب آپ آرام کریں." ان کے کہنے پر اسنے بلکل مدھم آواز میں جی کہا اور پھر الوداعی کلمات کہہ کر کال کاٹ دی.

ہنال نے فون بیڈ پر رکھ کہ دروازے کی طرف دیکھا جو کہ کھلا ہوا تھا.
پر وہ تو اندر آتے ہوئے دروازہ بند کر کے آئی تھی.
ہنال نے بیڈ سے نیچے اتر کر دروازے کا رخ کیا اور باہر جھانکا، پر وہاں کوئی نہیں تھا.....
تبھی میجر ضرار کے روم کا دروازہ بند ہونے کی آواز پر اسنے انکے روم کی طرف دیکھا

"میجر؟ وہ یہاں کیا کر رہے تھے؟" ہنال نے تیوری چڑھا کر سوچا اور پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل کرتی، میجر کے روم کی طرف بڑھی....

دروازہ ناک کرنے پر ضرار کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی...

"آ جاؤ، دروازہ کھلا ہے!" اسکے کہنے پر ہنال آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر آئی اور اسے کھلا ہی رہنے دیا، بے شک یہ سمجھداری کا مظاہرہ تھا.

ادھر ضرار جو آنکھوں پر بازو رکھے صوفے پر دراز تھا، ہنال کو دیکھ کر سیدھا ہوا، پر چہرے پر کسی قسم کا بھی تاثر نہیں تھا.

"آپ ادھر؟" اسنے خود کو تلخ ہونے سے روکتے ہوئے کہا.

"جی، آپ روم میں آئے تھے میرے؟" ہنال نے وہیں دروازے میں کھڑے کھڑے پوچھا تو ضرار کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا.

"وہ مجھے فرسٹ ایڈ باکس چاہئیے تھا، پر آپ کال پہ مصروف تھیں تو میں واپس آ گیا." شاید وہ اس لئے یہ کہہ گیا تھا کہ شاید وہ اسے کہہ دے کہ جو وہ سوچ رہا ہے وہ صرف اور صرف غلط فہمی ہے، ایسا کچھ بھی نہیں.....پر کچھ باتوں کا اظہار منہ سے کرنا بہت ضروری ہوتا ہے.

"اوہ، میں لا دیتی ہوں." ہنال نے کہا اور روم سے باہر نکل گئی اور ضرار اسکی پشت دیکھ کر رہ گیا.

"تو کیا وہ سچ میں!.....لیکن کیوں؟..... ضرار اسنے تم سے کوئی محبت کے دعوے کئے ہیں جو تم اس پر الزام لگانا چاہ رہے ہو کہ اسنے تمہارے احساسات کی قدر نہیں کی!..... جو سب تھا وہ تمہاری طرف سے تھا.....تم ہو قصوروار."

"میجر!" ہنال پتہ نہیں کب سے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس پکڑے اسے پکار رہی تھی پر وہ خود سے جنگ میں مصروف تھا.

"ہاں؟" ضرار نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا تو ہنال کو اسکی غائب دماغی کا اندازہ ہوا.

"فرسٹ ایڈ باکس!"ہنال نے باکس اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو اسے یاد آیا..

"اوہ تھینکس! اب آپ جائیں پلیز....اور دروازہ بند کر کے جائیے گا." وہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو رہا تھا.
ہنال نے اوکے کہہ کر کندھے اچکائے اور دروازہ بند کرتی اپنے روم میں چلی گئی.
پر ضرار ابھی بھی اس بند دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ گئی تھی.

"آہہہہ....تو آخر چلی گئی وہ!" ضرار نے ایک لمبی سانس لی اور سر صوفے کی پشت سے ٹکا گیا.
شاید کچھ لوگ زندگی میں بس جانے کے لئے ہی آتے ہیں.

•_•

میرے اخلاص سے فریب نہ کھا
میرے اندر ہیں ہزار دھوکے

"مارتھا تم فکر مت کرو، جیسا پلان ہوا تھا بلکل ویسا ہی ہو گا.....ہم اپنا پلان چینج نہیں کریں گے...سب ایسے ہی چلنے دو جیسے چل رہا ہے!" زی اس وقت اپنے سامنے بیٹھی اس گندمی رنگت کی لڑکی سے مخاطب تھا جو کہ را کی جاسوس تھی.

"لیکن زی....حامد پر شاید کچھ لوگوں کو شک ہو گیا ہے....اگر وہ پکڑا گیا تو ہم بھی مارے جائیں گے." مارتھا نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا جس پر میر زکوان کا ایک بھر پور قہقہہ گونجا.

"زی کو مارنا اتنا آسان کام نہیں ہے.....کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا....اور یہ زی کی زبان ہے.....جو کٹ تو سکتی ہے پر اپنی بات سے پھر نہیں سکتی." اسکے لہجے سے چھلکتے غرور سے مارتھا کافی حد تک پر سکون ہو گئی تھی...

"تم نے کہا تو مان لیتے ہیں....پر اب ایجنسی پریشر ڈال رہی ہے کہ مشن جلدی کمپلیٹ کر کے رپورٹ کریں." اسنے فکر مندی سے کہا تو زی کے ماتھے پر چند شکنیں نمودار ہوئیں جو اسے اور بھی جاذب بنا رہی تھیں.

"تم اور وہ تمہارا وہ ساتھی ایک بار سوچ لو.....اپنی ایجنسی کے کہے پر چلنا ہے یا زی کہ....اگر ایجنسی کی بات مانو گے تو بھول جاؤ کہ میں تمہاری کوئی مدد کروں گا یہاں سے نکلنے میں." زی آگے ہو کر بیٹھتا ہوا بولا تو مارتھا گڑبڑائی.

"نہیں نہیں، جیسا تم کہو...... اب میں چلتی ہوں.....میں کچھ وقت کے لئے بلوچستان جا رہی ہوں...جب تک ماحد کے ہاتھ وہ فائل نہیں لگتی."   اسکے کہنے پر زی اٹھا اور سامنے جاکر کھڑکی کے آگے کھڑا ہو گیا...
مطلب صاف تھا کہ اب تم یہاں سے جاؤ....
مارتھا نے ایک زہریلی نگاہ اس مغرور شہزادے پر ڈالی اور وہاں سے باہر نکل گئی...
اور پیچھے زی اسکی ہیل کی ٹک ٹک سنتا رہ گیا جب تک وہ آواز وہاں سے گم نہیں ہو گئی....

پھر موبائل نکال کر ایک پتے پر کچھ میل لکھ کر سینڈ کر دی اور سیٹی بجاتا پر اسراریت سے مسکراتا اپنے خول میں سمٹ گیا.

•_•

نہ گلے رہے نہ گماں رہا
نہ گزارشیں نہ گفتگو

انہیں یونیورسٹی میں قدم جمائے آج ایک ہفتہ گزر گیا تھا، وہ سب اپنے پلان کے مطابق کام کر رہے تھے، فخر یونیورسٹی کی بیک سائیڈ پر کیمرہ لگانے میں کامیاب ہو چکا تھا، ہنال اس پورے ہفتے میں ہر وقت عاشر کے ساتھ پائی گئی تھی.
اسد وقتأ فوقتأ انہیں کیمراز میان ہوتی ہل چل سے آگاہ کرتا رہا تھا ایسے میں جس ایک فرد کا اضافہ ہوا تھا وہ میجر ضرار تھا.
ضرار بھی اسد کے ساتھ گھر میں رہ کر ہی ان سب کو اگلے اقدام بتاتا رہا تھا، لیکن ہنال کے ساتھ اسکا انداز بہت لیا دیا سا تھا.
شاید اسی میں ان سب کی بھلائی تھی.
اس وقت وہ سب سیف ہاؤس میں ہی موجود تھے....
کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آواز کوئی الگ پیغام دے رہی تھی.
جدھر فخر پلیٹس دھونے میں مصروف تھا.
کیپٹن کے سامنے تو وہ کچھ اعتراض کر لیتا تھا پر میجر کے آتے ہی اسکے عیش کے دن ختم ہو چکے تھے...
یہ بھی میجر ہی کی عنایت تھی جو وہ اس وقت کچن میں کھڑا برتن دھو رہا تھا.

"کس عذاب میں پھنس گیا میں! یونی میں بھی صفائی کرو اور گھر آ کر بھی برتن دھوؤ.....شاید  مجھے لڑکا نہیں، کام والی ماسی بن کر پیدا ہونا چاہیے تھا." فخر زور زور سے برتن شیلف پر پٹختا بڑبڑایا
کہ تبھی دو پیلٹیں جو بلکل کنارے پر پڑی تھیں دھڑم سے زمین بوس ہوئیں اور ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئیں.

گرنے کی آواز پر اسنے گڑبڑا کر آگے پیچھے دیکھا پر کسی نے بھی پلیٹس ٹوٹتے نہیں دیکھا تھا.

اسنے جلدی سے وہ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اٹھائے اور انہیں ڈسٹ بن میں پھینکتا خود جلدی سے باہر نکل آیا.

اسکا رخ اب اسفند کے کمرے کی جانب تھا جو بیڈ پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا.
فخر ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر گھسا اور بلکل اسکے سامنے چڑھ کر بیٹھ گیا.
چہرے پر چھائی شیطانی مسکراہٹ اس بات کا ثبوت تھی کے جناب کوئی گل کھلا کر آ رہے ہیں.

اسفند نے بغور اسکے چہرے کی طرف دیکھا اور کتاب سائیڈ پر رکھتا اس سے مخاطب ہوا.

"تو کیا نیا کارنامہ سرانجام دیا گیا ہے اب؟" اسکے کہنے پر پہلے تو فخر گڑبڑایا پر پھر معصوم شکل بنا کر رہ گیا.

"کون سا کارنامہ؟" وہ آگے پیچھے دیکھتا بولا تو اسفند نے اسے گھورا.

"ابھی کہاں سے آ رہا ہے؟" اسنے فخر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.

"لاش ٹھکانے لگا کے." شیطانی مسکراہٹ ابھی بھی قائم تھی.

"کیییییییییا؟ کس کی لاش؟ اور کدھر؟" اسفند اپنی جگہ سے اچھلتے ہوئے بولا

"برتن دھو رہا تھا کچن میں، اچانک دو پلیٹوں نے خودکشی کر لی، پھر کیا، میں نے بھی لاشیں ٹھکانے لگا دیں." فخر نے ہنستے ہوئے کہا تو اسفند نے پاس پڑا تکیہ زور سے اسے دے مارا.

"کیوں کرتا ہے تو ایسی حرکتیں؟" اسفند مسکراتا ہوا واپس بیڈ پر اسکے مقابل بیٹھتا ہوا بولا.

"میری بات سن،
پہلے دل کی سنو
پھر دماغ کی
پر کرو وہی جس سے سب منع کرتے ہیں." فخر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کہ سنجیدہ ہو کر نجانے کتنے پتے کی بات بتائی تھی اسے😂.

"دفع ہو جا بے غیرت." اسفند اسکا ہاتھ کندھے سے ہٹاتا روم سے باہر نکل گیا اور فخر وہیں اسکی کتاب جو وہ پڑھ رہا تھا ہاتھ میں لے کر ڈھیر ہو گیا.

جاری ہے....
Assalam o alaikum  dear readers!
hope so k sab kheriyat sy hon gy...
2 din ka keh kr late epi dainy k lia mazrat.
Tragedy mairy sath yh hoi k epi 2 din mn likh to li but woh save hi nhi hoi na hi restore hoi....
buht afsoos howa mujy...
phir dubara sy yh sab likha
umeed h ap zaida gusa nhi hon gy.
To kesi lagi episode?
koi idea h k agay kia hony wala h?
Walii ko kis kis ny miss kia😂
Mn ny to kia...
please comment mn btain k apko episode kasi lagi
or achi lgy to vote zaror karain.
Allah apka hami o nasir ho.
Fe Aman Allah

Please do vote and comment if u like the episode
Waiting for your precious feedbacks.
Comment ur most favrt part of this episode😁❤

Continue Reading

You'll Also Like

2 0 1
انها مستوحاه،من أحداث حقيقيه انا كاتب محمد اللواء كتبت مقاله الفناء الظالم وحصلت علي ١٩ مليون مشاهده و٧ مليون استماع واليوم سأكتب روايه الشمس المشرقه...
28.5K 1.8K 101
کہانی ایک ایسے شخص کی ۔۔۔جو اپنی چاہت کے پیچھے سب کچھ تباہ کر گیا ۔۔۔ محبت میں انتقام نہیں ہوتا ۔۔۔جس میں انتقام ہو وہ محبت نہیں ہوتی ۔۔۔ محبت روح ک...
28 3 1
??