دوستی اور محبت | ✔

By easternbirdiee

10.2K 781 335

دوستی اور فرض کے بیچ جدوجہد۔۔۔ ایک ایسا سفر جس کی منزل وہم و گمان میں نہ تھی۔۔۔ ایسا ہمسفر جسکی چاہت نہ تھی۔۔... More

1~Arguements+Cast1
2~Wild Cat
3~Sorry
4~Innocent Gangster
5~Sweet Sorry
6~Aryan Kapoor
7~Someone from past
8~A little avenge
9~Rain Dance
10~When we were happy
11~Our First Mission+Cast2
12~Nagin Dance
13~Someone is back
14~Diary
15~Zah E Naseeb
16~They lost them
17~Secrets of past
18~That two years
19~Not again
20~Let's play with a new start
21~Distraction
22~He is also hurt
23~All about past
24~So called drama
25~We just hate you
26~Happy Birthday Nael
27~It's over
28~Dinner
29~New Entry
30~Dream
31~As you sow so shall you reap
32~He got his punishment
33~Azan has gone
35~We have got Master Mind
36~ Canada(LAST)
Note

34~Azhar

163 14 4
By easternbirdiee

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

Some friends meet you in your hard times, and they last forever.

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

پیرس میں وہ رات بہت گہری تھی۔ آسمان پر تارے نہ ہونے کے برابر تھے کیونکہ فضا میں دھند کا راج تھا اور دھند ہر چیز کو اپنے اندر سما لیتی ہے اسے دوسروں کی نظروں سے ہٹا دیتی ہے۔

ایسے ہی اندھیری رات میں وہ سنسان سڑک پر چلتا جا رہا تھا۔ مکمل سیاہ لباس میں ہڈ میں چہرہ چھپائے وہ ایک بنگلے کے سامنے رکا جو بنگلہ تو کم کسی محل کی مشاہبت رکھتا تھا۔

اسنے جیب سے فون نکالا اور کچھ کیز دباکر واپس اس بنگلے کی طرف نظر اٹھائی تو دوبارہ کچھ نمبر ملاتے اسنے کان سے لگایا لیکن کچھ کہے بغیر کال کاٹ دی۔

وہ وہاں سے ہٹا اور وہیں ایک درخت کی اوٹ میں جا چھپا۔ وہیں درخت کے ساتھ کمر لگائے سینے پر بازو باندھے ہینڈفری لگا کر کھڑا ہوگیا جب ایک گاڑی اس بنگلے کے گیٹ کے آگے آکر رکی تھی۔ اس گاڑی سے تین آدمی نکلے تھے اور گیٹ کی طرف بڑھے لیکن کچھ بھی کرنے سے پہلے گیٹ انکے لیے کھول دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک نظر یہاں وہاں دیکھا اور اندر داخل ہوگئے۔

اندر سے وہ ایک عالیشان مقام تھا جو کسی رئیس کے مقام کا صاف پتا دیتا تھا۔ ہر ایک جگہ روشن تھی۔ روشنی بھی اس قدر تیز کے آنکھیں چندھیا جائیں۔ ہر چیز ایسے چمک رہی تھی جیسے سونے کی بنی ہو۔ لیکن ان آدمیوں کو ان سب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس عالیشان بنگلے میں وہ صرف ایک مقصد کے تحت آئے تھے۔

انہوں نے گیٹ کھولنے والے اس آدمی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ انہیں ایک طرف لے گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے کچھ فاصلہ عبور کرتے وہ ایک کمرے کے سامنے رکے۔ اس شخص نے ان آدمیوں کو اس کمرے کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے سر ہلایا اور وہ شخص وہاں سے چلا گیا۔

وہ آدمی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ ایک سٹڈی روم تھا اور بہت وسیع تھا۔ ہر طرف بک شیلف نظر آتے تھے جو کتابوں سے بھرے ہوئے تھے اور ایک طرف ٹیبل کے دوسری طرف کوئی کرسی پر بیٹھا تھا اور وہاں سیگریٹ کے دھواں پھیلا ہوا تھا۔

"کافی لے آئے تم؟" کرسی پر بیٹھے اس شخص نے پوچھا جو کھڑکی کی طرف چہرہ کیے بیٹھا شاید مطالعہ میں مصروف تھا۔

"مسٹر شاہین اعظم اب تو ہمیشہ سادہ پانی پر گزر بسر کرنا ہوگا۔" ان تین میں سے ایک آدمی بولا تو اس شخص کا ہاتھ ایک لمحے کے لیے تو ہوا میں معلق رہ گیا۔ اسنے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور کرسی موڑ کر دیکھا تو وہاں وہ تین آدمی کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

"کون ہو تم لوگ؟ اور اندر کیسے آئے؟" اس مضبوط بھاری جسامت والے شاہین اعظم نے پوچھا۔ جس کی آواز بھی کافی بھاری تھی رعب دار۔ سگریٹ اسنے ایش ٹرے میں گرا دی تھی۔ لیکن دھواں ابھی بھی وہاں پھیلا ہوا تھا۔

"ہمارے لیے کہیں بھی آنا مشکل نہیں ہوتا شاہیں اعظم۔ یہ ہماری لیے آسان ترین کام ہے۔" ان میں سے ایک شخص قدم اسکی طرف بڑھاتا ہوا کہہ رہا تھا۔ اب وہ اسکے سامنے آکر ٹیبل کے ایک کونے پر بیٹھ گیا تھا اور شاہین کے ہاتھوں سے کتاب پکڑ کر اسکے صفحے پلٹنے لگا۔

"نِلیا نام کی لڑکی تو یاد ہوگی تمہیں۔" اسنے صفحوں پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔ یہ نام سنتے ہی شاہین کے اوسان خطا ہوگئے۔

"ک..کون.. ہو تم لوگ؟" شاہین کی آواز کپکپانے لگی تھی۔

"کاش تم اسے بچا لیتے تو آج تم بھی بچ جاتے۔ جاتے جاتے نِلیا نے تمہارے سارے کالے دھندے کی تفصیل خود ہمارے ہاتھوں میں سونپی تھی۔ تم نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی۔" اس آدمی نے کتاب واپس اسکے سامنے رکھتے شاہین کو تفصیل بتائی۔ جسے سنتے ہی ایک پل کے لیے تو شاہین کا سانس تھم گیا۔ لیکن وہ ہنس دیا۔

"تو تم لوگ کیا کرلو گے۔ مجھے جانتے ہو نا؟ کیا بگاڑ لو گے میرا؟" کہہ کر شاہین نے سامنے پڑا اپنا سیل فون اٹھایا اور کسی کو کال ملائی۔۔جس پر ان آدمیوں نے کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ پرسکون تھے۔
کیوں؟

فون کان سے لگاتے ہی شاہین کے تاثر بدل گئے تھے۔ اسنے بے یقینی سے اس آدمی کو دیکھا جو ناک پر عینک جمائے اسکے سامنے پرسکون بیٹھا تھا۔

"کیا ہوا تمہاری کال نہیں لگ رہی؟ چچ چچ بہت افسوس ہوا" اس آدمی نے شاہین کے ساتھ افسوس کیا۔

" بہت عزت ہے نا تمہاری کہ بہت سے فنڈز دیتے ہو۔ فری میں سب کی مدد کرتے ہو۔ مگر بیچاری عوام کو کیا پتا کہ تم کس کالے دھندھے کے تحت ان سے اپنے وہی پیسے وصول کرتے ہو۔"

"تم کیا کہنا چاہتے ہو؟" شاہین اب گھبرانے لگا تھا۔

"کہ اب تمہیں بچانے بھی کوئی نہیں آئے گا۔ آج سے تم مسنگ پرسن بننے والے ہو۔" اور ساتھ ہی عینک والے آدمی نے شاہین کی گردن پر ایک ایسے پوائنٹ پر دبایا کے وہ کچھ بھی بولے بغیر وہیں بیہوش ہوگیا۔

اس بیہوش شاہین کو وہ آدمی وہاں سے لے گئے تھے اور ان میں سے ایک اسکے کمرے میں کاغذ لیپٹوپ سب کی تلاشی لے رہا تھا۔

انہوں نے بیہوش شاہین کو گاڑی میں ڈالا تو گیٹ کھولنے والا شخص واپس اسے بند کرتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔

وہ گاڑی وہاں سے روانہ ہوگئی۔ تب ہڈ والا شخص اس اوٹ سے نکلتا اس بنگلے کے سامنے آیا اور اپنا ہڈ ہٹایا تو وہ وہی تھا۔ اذان! اسنے ابھی تک ہینڈفری کانوں میں لگا رکھے تھے۔ دوبارہ سے فون پر کچھ کیز دبائے اور جو کیز اسنے پہلے دبائے تو سارے کیمروں کو بلاک کرنے کے لیے اب وہ دوبارہ سے کام کرنے لگے تھے۔ واپس ہڈ سر پہ ڈالتے وہ وہاں سے چلا گیا۔ ہونٹوں کو گول بناتے ان سے ایک دھن نکاتے وہ چلا جا رہا تھا. پرسکون... بے خوف ... موسم کے مزے لیتا۔

اور سٹڈی میں پڑی ایش ٹرے میں ایش ویسے ہی گری پڑی تھی۔ اب وہاں کسی نے نہیں آنا تھا۔

گیٹ کھولنے والا شخص بھی انسے وابستہ تھا، اور اسنے انکی کتنی مدد کی تھی۔ اسکے علاوہ ہر شخص کو کسی نا کسی کام سے باہر بھیج دیا گیا تھا۔ پیچھے صرف یہ تھا جسنے اپنے لوگوں کی مدد کرنی تھی۔ پھر کسی کے گھر آنے پر شاہین کا پوچھا جائے تو جواب کیا تھا؟ "میں تو ملازم ہوں میں کچھ نہیں جانتا۔" اسکی بھی کیا ایکٹنگ تھی کہ سننے والوں نے بھی پہلی بار میں اسکا یقین کرلیا تھا۔

¤---------¤-----------¤


حال میں ایک وقت میں جب عنایہ کی گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی تو وہ سامنے چلتی ایک گاڑی سے جا ٹکرائی۔ جس سے ٹریفک کا نظام بگڑ گیا تھا، اور ٹریفک جام ہوگیا تھا۔

عنایہ کا سر اسٹیرنف ویل سے ٹکرایا تھا۔ جس کی گاڑی سے عنایہ کی گاڑی ٹکرائی تھی۔ وہ تیش میں گاڑی سے نکل کر اس طرف آیا۔ حادثہ زرا سنجیدہ تھا لیکن اس شخص کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا تھا لڑنے کے لیے۔ وہاں ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔ لیکن وہاں اس لڑکی کو بیہوش دیکھ کر اس کا انداز نرم ہو گیا تھا۔ اسنے گاڑی کا شیشہ توڑ کر دروازہ کھولا۔

"عنایہ؟" وہ شخص عنایہ کی سیٹ بیلٹ کھولنے کے لیے زرا آگے ہوا لیکن اسنے بیلٹ نہیں لگائی ہوئی تھی۔

"عنایہ... عنایہ۔" اسنے اسکا چہرہ تھپکا جس کے سر سے خون رس رہا تھا۔ اسنے عنایہ کو گاڑی سے نکالا تب ہی وہاں آئرہ اور نائل بھاگے ہوئے آئے تھے۔ ٹریفک کی صورت حال اور ہجوم دیکھ کر انہوں نے دور سے ہی اندازہ لگا لیا تھا اور وہی ہوا تھا۔

"عنایہ! یا میرے خدا۔" آئرہ تڑپ اٹھی تھی۔

"جو سوچا تھا وہی ہوا۔" نائل نے کہا۔
سکارف ڈوپٹہ نما جو بھی چیز تھی اسکے پاس اسنے عنایہ نے زخم پر رکھ کر دبایا تاکہ خون زیادہ نہ بہے۔

"جی آپ؟" وہ شخص آئرہ سے مخاطب ہوا۔

"میں...میں اسکی دوست ہوں۔" اسکا دل بھر آیا تھا اور آنسو بہنے لگے تھے۔ اسکی دوست اسکی بہن اسکی نظروں کے سامنے اپنی جان دینے تک آگئی تھی۔

"پلیز کوئی ایمبولینس کو بلائے... عنایہ ... " آئرہ چلا اٹھی۔ لیکن عنایہ کو ہوش آرہا تھا۔ اسنے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔ اسکا سر بھاری ہو رہا تھا۔ وہ درد سے کراہی تھی۔

"عنایہ.. تم..تم ٹھیک ہو نا؟" آئرہ نےاسکا ہاتھ تھامتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔

"آئرہ...میں.. میں ٹھیک ہوں۔" عنایہ نے اپنے اردگرد دیکھا تو ایک ہجوم پایا۔ ساتھ ہی اسکی نظر اس شخص پر پڑی جس کی گاڑی سے وہ ٹکرائی تھی۔

"اظہر؟ تم !" عنایہ نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔ جس کی سنتے آئرہ اور نائل نے بھی اسے پہچاننے کی کوشش کی لیکن وہ اسے نہیں پہچان پائے۔

"تم میری گاڑی سے ٹکرائی تھی۔ فلحال تمہیں ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے ہم بعد میں بات کریں گے۔" اس بار اسکا انداز روکھا سا تھا۔ لیکن ابھی اس انداز کی پرواہ بھی کسے تھی۔

عنایہ نے واپس اپنا سر پکڑ لیا جو آئرہ کے سہارے پر کھڑی تھی۔

¤---------¤-----------¤


ہسپتال میں عنایہ کو ٹریٹمنٹ مل گئی تھی۔ زخم زیادہ نہیں تھا تو وہ گھر آگئی تھی۔ ساتھ ہی آئرہ اور نائل بھی تھے اور اظہر بھی۔

عنایہ کے والدین اسے اس حالت میں دیکھ کر گھبرا گئے تھے۔

لیکن اس وقت جو سب سے زیادہ جھٹکا لگا تھا وہ نائل کو لگا تھا۔ عنایہ کے والدین کو دیکھ کر۔ کیا اسنے جو دیکھا تھا وہ سچ تھا؟ قسمت کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہے نا اب اسے کہیں نا کہیں اندازہ ہوا تھا کہ اذان ایسے بنا بتائے کیوں چلا گیا تھا۔

جہاں سب اپنی اپنی نشست سنبھال چکے تھے نائل الٹے پاؤں واپس مڑ گیا تھا۔ باہر آکر اسنے اذان کو دوبارہ سے فون کرنے کی کوشش کی لیکن بےسود۔ اب وہ جھنجھلانے لگا تھا۔ اسنے منٹ ضائع نہیں کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ اندر آتے ہیں جہاں سب عنایہ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔

"عنایہ یہ سب کیسے ہوا؟" نادیہ نے اسے اپنے سے لگاتے پوچھا۔

"کچھ نہیں بس گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی تھی۔" عنایہ نے انہیں دیکھے بغیر کہا۔

"میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔مجھے کچھ دیر سونا ہے۔" کہہ کر بغیر کسی کی سنے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ لیکن سب خاموش تھے کسی کو بھی کچھ صحیح نہیں لگ رہا تھا۔ " آئرہ بیٹا۔۔۔" نادیہ نے اس سے کچھ پوچھنا چاہا۔

"آنٹی بس وہ تھکی ہوئی ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ فکر مت کریں۔ " آئرہ نے انہیں تسلی دی۔ آئرہ نے نظر گھما کے دیکھا تو نائل اسے کہیں نظر نہیں آیا (یہ نائل کہاں چلا گیا؟)

"انکل مجھے عنایہ سے کچھ بات کرنی ہے ابھی۔"

"لیکن ابھی۔۔۔" نادیہ نے اسے روکنا چاہا تھا پر اظہر نے انکی بات کاٹ دی۔ "پلیز آنٹی ضروری ہے اور کچھ دیر میں میری فلائٹ ہے تو بات نہیں ہو پائے گی۔"

"ٹھیک ہے۔" رضوان نے رضامندی ظاہر کر دی تھی۔

اظہر عنایہ کے کمرے کی طرف چلا گیا اور آئرہ ضروری کام کا بہانہ کرتی خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔ باہر آکر اسنے نائل کو کال کی تو پتا چلا وہ گھر پر ہے۔ اس سے آئرہ اور کشمکش کا شکار ہوگئی تھی۔ وہ ایسے کیسے اچانک چلا گیا؟

¤----------¤-----------¤

عنایہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھی۔ گھٹنوں کے گرد بازو حائل کیے وہ چہرہ موڑے کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جب دروازہ کھٹکا۔

"مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔" عنایہ زرا اونچی آواز میں بولی پر دروازہ کھلا تھا اور قدموں کی آواز بھی آئی تھی۔

"پر مجھے بات کرنی ہے۔" اظہر نے اسکے سامنے آتے کہا تو عنایہ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔

"تم؟"

"کیا مجھے کچھ وقت مل سکتا ہے؟"اظہر نے اس سے اجازت طلب کی تھی۔

"بیٹھو۔" بائیں جانب پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرکے عنایہ نے کہا۔ اظہر صوفے پر زرا آگے ہوکے بیٹھا تھا اور عنایہ کو دیکھ رہا تھا۔

"ایسا کیوں کیا عنایہ؟ کیوں اپنی جان لینے چلی تھی؟" اظہر نے سادہ انداز میں کہا تھا لیکن عنایہ نے چونک کر اسے دیکھا۔

"چونکنے والی بات نہیں ہے۔ اگر یہ صرف ایک حادثہ بھی ہوتا تو تمہارا رویہ ایسا روکھا نہ ہوتا۔ اس سے پہلے جب تم انکل کے بلانے پر گھر آئی تھی تب بھی تم کچھ پریشان لگ رہی تھی اور اسکے بعد یہ سب۔۔۔وہ دھوکا دے گیا یا اقرار نہیں کر پایا۔" اظہر کی اس بات سے عنایہ کو ایک اور جھٹکا لگا تھا۔ لیکن وہ کچھ بھی مزید سوچنے کی حالت میں نہیں تھی۔ وہ صرف اسے سن رہی تھی۔

"شاید قسمت کو منظور نہیں تھا۔" اسنے اداسی سے اظہر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"قسمت کو ہم خود بھی لکھتے ہیں اپنے رویے اور کردار سے۔ بعض اوقات کچھ لوگ آڑے آجاتے ہیں۔" وہ اسے چھپے الفاظوں میں سمجھا رہا تھا۔

"میں نے ابھی تک اس رشتے کے لیے ہاں نہیں کی تھی کیونکہ تم نے ہاں نہیں کی۔ اب تک جو ہوا ہمارے والدین کی مرضی سے ہوا۔ جب میں پہلی بار تم سے ملا تھا تم مجھے اچھی لگیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کی میں تمہارے جواب کی قدر کیے بغیر اپنی مرضی تھوپ دوں اور اب تک میں یہ سمجھ چکا تھا کہ اس میں ہرگز تمہاری مرضی نہیں ہے۔ اس میں انکل آنٹی کی مرضی ہے۔"

لیکن عنایہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

"میں آج پاکستان واپس جا رہا ہوں اور اس رشتے کی تم فکر مت کرنا آگے میں سنبھال لوں گا۔ کچھ نہیں تو شاید مجھے ایک اچھی دوست تو مل ہی جائے گی اس سے۔" اظہر نے مسکرا کر کہا تو اس پر وہ بھی اب تک پہلی بار مسکرائی تھی۔

"تھینک یو۔" عنایہ کا بوجھ کافی ہلکا ہوگیا تھا۔

"کبھی اپنے اس دوست کی ضرورت پڑے تو یاد کرنا۔" عنایہ کو آفر کرتا وہ وہاں سے چلا گیا اور عنایہ نے محسوس کیا تھا جیسے اسکا دل ہلکا ہوگیا تھا۔ ایک بوجھ اتر سا گیا تھا۔ لیکن کچھ ابھی بھی بہت ستا رہا تھا اور وہ بوجھ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔

اظہر نیچے آیا تو وہ دونوں وہیں تھے۔
"انکل جب تک عنایہ ٹھیک نہیں ہو جاتی اس سب کے بارے میں اس سے کوئی بات مت کیجیے گا۔ جب تک وہ خود ہاں نہ کہے پلیز اسکے فیصلے کو بھی اہمیت دیجیے گا۔" ادب سے کہا تھا اسنے جس کا انہوں نے برا نہیں مانا تھا۔

¤----------¤------------¤


کچھ دیر بعد رضوان عنایہ کے کمرے میں آئے تو وہ اب بھی ویسے ہی بیٹھے تھی۔ رضوان خاموشی سے آکر وہیں صوفے پر بیٹھ گئے۔

"ایسا کیوں کیا عنایہ؟" انہوں نے دکھ سے پوچھا تھا۔

"میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا پاپا۔" سچ ہی تو کہا تھا اسنے واقعی کچھ نہیں کیا تھا۔

"تو اتنا بڑا قدم اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟"

"میں نے تو کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جو ہوا اپنے آپ ہوتا چلا گیا۔" واقعی مرنے کا تو اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ ایکسیڈنٹ تو صرف ایک حادثہ تھا۔

"اظہر کے بارے میں کیا کہیں گی؟" انہوں نے اس سے وہ سوال کیا جو انہیں اہم لگا۔

"جو میں نے کہنا ہے وہ اظہر آپ کو بتا چکا ہوگا۔"

"لیکن اس رشتے میں مسئلہ کیا ہے؟"

"میرا دل نہیں مانتا پاپا۔ پلیز اور کچھ مت کہیں۔" وہ رونے والی ہوگئی تھی۔

"تو دل اور کہاں مانتا ہے؟ بیٹا صرف محبت کے سہارے پوری زندگی نہیں گزرتی۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ کیا گارنٹی ہے کہ آپکی چوائس ہمیشہ آپکا ساتھ دیگا۔" رضوان اسے ڈھکے الفاظوں میں کچھ جتا رہے تھے۔

"کیا گارنٹی ہے کہ آپکی چوائس بھی کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔" عنایہ نے سوال پر سوال کیا۔

لیکن رضوان کچھ کہے بغیر اٹھ گئے وہ دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ "مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ کچھ جانتے ہیں لیکن مجھ سے چھپا رہے ہیں۔" عنایہ کی بات سنتے ہی انکے قدم رکے تھے۔

"آپ نے مجھے اس وقت بلایا جب آپ شاید جانتے تھے کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ آپ نے اتنی جلدی میں بلایا اور گھر آکر مجھے دیکھنے کو کیا ملا؟ اظہر! کیا اس سے اس وقت ملنا اس قدر ضروری تھا؟ یا پھر بات کوئی اور تھی جس سے میں ناآشنا ہوں۔" انہوں نے کوئی بھی جواب نہیں دیا اور وہاں سے چلے گئے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے جس کے پیچھے اب وہ تکیہ بازو میں دبائے لیٹ چکی تھی۔

¤----------¤-----------¤


آئرہ نائل کے گھر پہنچی تو وہ پریشانی میں یہاں سے وہاں چکر لگا رہا تھا۔

"نائل تم بتائے بغیر ایسے کیوں آگئے؟" وہ اسکی پریشانی دیکھ کر پریشان سی ہوگئی تھی۔

"آئرہ تم جانتی ہو کہ عنایہ کے والدین کیا کام کرتے ہیں؟" اسنے فوراً سے پہلے اس سے سوال کیا۔ اس اچانک سے سوال پر وہ الجھ سی گئی تھی.۔

"انکا بزنس ہے کوئی۔ اسی کی وجہ سے وہ زیادہ وقت گھر سے باہر ہی ہوتے ہیں۔ پر تم اچانک سے یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟" لیکن وہ ابھی بھی اپنے بال نوچے یہاں سے وہاں چکر لگا رہا تھا۔

"آخر ہوا کیا ہے بتاؤ بھی۔" آئرہ اسکی گھبراہٹ دیکھ کر خود بھی بےحال ہونے لگی تھی۔

نائل اسکے سامنے آکھڑا ہوا وہ سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔ "تم یقین کروگی اگر میں کہوں کہ عنایہ کے والدین کا بزنس اور کوئی نہیں بلکہ وہ میری ایجنسی کو لیڈ کرتے ہیں۔ وہ موسٹ سینئر ہیں۔ میری پوری ایجنسی ان دو لوگوں کے نیچے کام کرتی ہے۔ رضوان ملک اور نادیہ رضوان۔ اب میں سمجھا کہ بھائی ایسے بغیر بتائے عنایہ سے دور کیوں چلے گئے۔"

وہ واپس مڑگیا لیکن آئرہ وہیں جمی رہ گئی.۔ اسکے کانوں نے کچھ غلط سنا تھا کیا؟ یا نائل کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ آئرہ نے نفی میں سر ہلایا۔

"نہیں۔۔۔ضرور تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟" اسے زرا سا بھی یقین نہیں آیا

"مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی آئرہ، اور اس معاملے میں میں کوئی مزاق بھی نہیں کر رہا۔ " وہ سخت الجھن کا شکار ہو چکا تھا۔

آئرہ بھی وہیں صوفے پر ڈھیہ سی گئی تھی۔ اسنے جو کچھ سنا اسکے لیے یقین کرنا کافی مشکل تھا۔ ایک دم سے کیا کچھ ہو رہا تھا زندگی میں۔

"تو۔۔کیا۔۔۔عنایہ بھی سب جانتی ہے؟" اسنے کشمکش میں سوال کیا۔

"نہیں وہ کچھ نہیں جانتی۔ وہ صرف اتنا جانتی ہے جتنا اسے بتایا گیا ہے۔ انکا ایک بزنس ہے اور بس۔" نائل نے صحیح اندازہ لگایا تھا۔

"اور اذان؟" آئرہ نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا۔

"وہ یقیناً عنایہ کے والدین سے یہاں مل چکے ہیں، اور اس بار بھی انہوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ بھائی ایک دن میں آپ سے چن چن کے بدلے لوں گا۔"

لیکن ابھی دونوں کسی اور ہی مشکل سوچ میں کھوئے بیٹھے تھے۔

¤----------¤------------¤


کچھ ادھورا سا ہے۔ کچھ ایسا جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ کوئی ایسا واقعہ جس سے سب انجان تھے سوائے دو لوگوں کے۔ اذان اور رضوان!!

آریان سے سب نے اپنا بدلہ لے لیا تھا۔ اسکی سانسیں تھم چکی تھیں، اور آئرہ بیہوش ہوگئی تھی۔ نائل فریال کے ساتھ وہیں رکا تھا جو کہ اس لیے برداشت سے باہر تھا کہ اسے آئرہ کی بہت فکر ہو رہی تھی۔ لیکن اسے وہاں بھی رکنا تھا۔ اذان اور عنایہ آئرہ کے ساتھ تھے۔ اسے ہسپتال لیجاتے ٹریٹمنت کے بعد پتا چلا کہ اسکا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا۔ سب اسکے لیے بہت پریشان تھے۔

عنایہ نے ریسیپشن سے اپنے گھر کال کی تھی اور دوسری طرف اسکے والدین اسکی آواز سنتے ہی ڈھیلے پڑ گئے، جو اسکے اغوا ہونے سے لیکر اب تک بہت پریشان تھے۔

عنایہ کمرے کے باہر بنچ پر بیٹھی تھی اور ساتھ ہی اذان بھی، لیکن دونوں خاموش تھے۔ ایک طرف عنایہ جس کی دوست اس وقت مشکل میں تھی، جسنے اپنی ماں کو بھی کھو دیا تھا دوسری طرف اذان جسے آج باری باری ایشل اور مِرہا یاد آرہی تھیں، پر ان دونوں کے پاس ایک دوسرے کو کہنے کے لیے اور کچھ بھی نہیں تھا۔

عنایہ کے والدین ہسپتال پہنچے تو عنایہ کو دیکھتے ہی انکی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ نادیہ نے اسے سینے سے لگا لیا لیکن رضوان پرسکوں انداز میں کھڑے تھے۔ کرنٹ تو کسی اور کو لگا تھا جب اذان کے پاس بیٹھی عنایہ اپنے والدین کے آنے پر اس کے پاس سے اٹھی تھی۔ اذان اٹھ کھڑا ہوا لیکن اسکی بےیقینی کی انتہا نہیں تھی۔

نادیہ نے ایک نظر اذان کو دیکھا پھر رضوان کو پھر عنایہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ "آئرہ کیسی ہے؟ اسے دیکھ سکتے ہیں؟" نادیہ نے عنایہ سے پوچھا جو بہت اداس تھی۔ عنایہ نادیہ کو اپنے ساتھ لے گئی تو وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

"کم ود می۔" رضوان نے اذان کو کہا اور ایک طرف مڑ گئے۔ وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں ایک ڈاکٹر موجود تھا اور رضوان کو دیکھتے ہی کھڑا ہوگیا

"رضوان تم یہاں؟ " البتہ وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے

"ہاں وہ عنایہ کی دوست یہاں ایڈمٹ ہے۔ تم ہی اسے ٹریٹ کر رہے ہو نا؟ اب کیسی ہے وہ؟" رضوان وہیں اسکے سامنے کھڑے تھے اور اذان بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا۔

"نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔ شاید کسی بات کا بہت سٹریس ہے۔ ویسے کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔" ڈاکٹر نے اطلاع دی۔

"ہمم.. اچھا مجھے اس سے کچھ بات کرنی ہے تو تم کچھ دیر کے لیے باہر ویٹ کر سکتے ہو؟" رضوان نے ڈاکٹر سے کہا اور انداز سے صاف لگتا تھا کہ یہ التجا نہیں تھی۔

"ہاں کیوں نہیں ضرور۔" وہ کہتا باہر جانے لگا تھا۔ "اور پلیز تب تک کوئی اندر نہ آئے۔"

"بےفکر رہو۔" ڈاکٹر کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ لگتا تھا جیسے وہ رضوان کے بارے میں کافی کچھ جانتا تھا۔ رضوان نے مڑ کر اذان کو دیکھا جو انکے پیچھے کھڑا تھا۔

"بیٹھو۔" ایک طرف پڑے دو صوفے کی طرف بڑھتے انہوں نے اذان کو بھی اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گئے تو رضوان نے بغور اسے دیکھا جو انہی کو دیکھ رہا تھا۔

"سر آپ؟" اسنے کچھ پوچھا یا کہنا چاہا لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے

"عنایہ ہماری ہی بیٹی ہے اور تم یہ بات نہیں جانتے تھے۔"

"نو سر۔" اسنے اس بات کا اقرار کیا۔

"تم جس کام کے لیے آئے تھے اسکا کیا بنا؟" وہ گھما پھرا کے بات کر رہے تھے اور اذان کو انکے سامنے بیٹھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ پر اسنے جیب سے ایک یو ایس بی نکال کر سامنے موجود سینٹر ٹیبل پر رکھ دی۔

"اس میں ساری انفو ہے اس شخص کی جو اس میں شامل ہے اور یہی ہے جو سب کچھ لیڈ کرتا ہے۔" اذان نے طعبیداری سے کہا۔

رضوان نے یو ایس بی اٹھائی اور اسے گھماتے ہوئے اذان کو دیکھا۔
"تم نے اسے کھول کے دیکھا؟"

"نو سر یہ مجھے کچھ دیر پہلے ہی ملی ہے۔"

"اور جسنے بھی یہ تمہیں دی ہے تم یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ اسنے صحیح یو ایس بی ہی دی ہے؟"

"سر جسنے بھی دی ہے اسنے کچھ دیر پہلے آپکی بیٹی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دے دی (اسی سنتے ہی رضوان سیدھے ہوگئے) تو ایسا شخص جھوٹ نہیں بول سکتا۔"

"اور آریان؟" رضوان نے اسکے تاثر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا سر اور اسنے آئرہ نے والدہ کو بھی مار دیا۔" اذان نے انہیں وہ سب بتایا جو کچھ دیر پہلے ہوا تھا۔

"واٹ؟" یہ سنتے ہی انہیں جھٹکا لگا تھا۔ آئرہ کی فیملی کے ساتھ انکے بہت اچھے تعلقات تھے۔ پہلے اسکے والد کی کسی حادثے میں موت ہوگئی تھی اور اب اسکی والدہ بھی۔

"اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔" رضوان نے دعا کی۔

"آمین۔"

کچھ دیر دونوں کے بیچ خاموشی چھائی رہی۔ اذان کچھ انکمفرٹیبل ہو رہا تھا۔ جب اس خاموشی کو رضوان کی آواز نے توڑا۔

"تم عنایہ سے محبت کرتے ہو؟" سوال تو سادہ تھا پر اذان نے چونک کر انہیں دیکھا۔ اسکا چہرہ دیکھ کر رضوان نے اپنے اندازے کی یقین دہانی کرالی۔

"ہم اپنے لوگوں کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ پہلے دن سے مجھے سب معلوم تھا کہ تم اور نائل دو لڑکیوں کے گروپ میں ہو پر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ میری ہی بیٹیاں ہیں۔ ماضی میں تم دونوں کے ساتھ کیا ہوا میں باخوبی واقف ہوں۔ لاہور میں جب عنایہ اغوا ہوئی مجھے تب دیر سے خبر ملی لیکن اس بار انکے اغوا ہونے پر میں نے اس کی یونی سے معلومات لی تو پتا چلا کہ تم دونوں عنایہ اور آئرہ کے ساتھ ہو صرف اتنا ہی نہیں یہ بھی کہ تم لوگوں کے بیچ میں آجکل جو بھی ہے وہ بھی پوری یونی جانتی ہے تو مجھے پتا لگنا بھی مشکل نہیں تھا۔ اس لیے میں نے کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا کیونکہ میں جانتا تھا کہ تم دونوں انہیں بچا لو گے۔ تم دونوں پر مجھے اتنا یقین تو تھا ہی کہ مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔" رضوان اسے لمبی کہانی سنا رہے تھے جو خاموشی سے سن رہا تھا اور کہیں نہ کہیں اس بات کے مقصد کا اندازہ لگا چکا تھا۔

"سر یہ سب تو وہ ہے جو ہو چکا اب آپ کیا چاہتے ہیں وہ بتاہیے۔" اذان کی بات سن کر رضوان پہلے تو خاموش ہوگئے۔ وہ اس لڑکے کو ہمیشہ سے پسند کرتے تھے جو اپنے کام کے ساتھ ہمیشہ سنجیدہ رہتا تھا۔ اسنے پچھلے دو سالوں میں جتنی کامیابی حاصل کی تھی وہ سب جانتے تھے۔ لیکن اس بار معملہ انکی بیٹی کا تھا۔

"جس طرح عنایہ کی زندگی میں داخل ہوئے تھے ویسے ہی ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔" اپنی طرف سے تو رضوان نے آسان سا حل بتایا تھا لیکن کوئی اذان سے پوچھتا کہ ان الفاظ نے اسے کتنے زخم دیے تھے۔ یہ اسکے لیے کتنا مشکل تھا۔ اب شاید وہ اپنے معملات درست کرلیتا لیکن اب جس نے اسکے سامنے یہ اوپشن رکھا تھا اسے انکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اتنے سے وقت میں کتنے وار ہوئے تھے اسکے دل پر۔

"ایک آخری کام اس کے بعد میں پاکستان جا رہا ہوں۔" یہ کہتا اذان کھڑا ہو گیا تو رضوان بھی اٹھ گئے۔

"اس پیشے کی نویت تم اچھی طرح جانتے ہو اذان۔ میں عنایہ کو ان سب میں نہیں ڈالنا چاہتا۔"

"میں جانتا ہوں۔ وہ آپکی بیٹی ہے اسکے حوالے سے بھی آپکی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ "

"اور یہ تم اپنے پاس رکھو( انہوں نے یو ایس بی اذان کو دینی چاہی) جہاں تم نے اتنا کیا ہے اب یہ آخری کام بھی تم خود کروگے۔ اس میں تمہاری محنت ہے تو اب تم ہی اسے انجام دوگے۔" اذان نے پین ڈرائیو پکڑی اور وہاں سے باہر آگیا۔ وہ کمرے سے باہر آیا تو عنایہ اندر داخل ہونے والی تھی لیکن اسے نکلتا دیکھ رک گئی۔

"اذان تم کہاں تھے؟" عنایہ نے اس سے سوال کیا۔

اذان نے ایک نظر اپنے پیچھے بند دروازے کو دیکھا پھر عنایہ کو "کچھ کام تھا؟"

"نہیں وہ یہی بتانا تھا کہ آئرہ ٹھیک ہے ہوش آگیا ہے اسے۔" لیکن مزید کچھ بولنے سے پہلے اذان نے اسکی بات کاٹ دی۔

"مجھے ضروری کام سے جانا ہے۔ میں اور نہیں رک سکتا۔" کہہ کر وہ پلٹ گیا۔ عنایہ نے اسے آواز دی لیکن وہ چلا گیا۔

¤----------¤------------¤

آ

ئرہ تو صدمے میں تھی کوئی اسکا خیال کرنے والا نہیں تھا سوائے عنایہ اور اسکی فیملی کے۔ وہ آئرہ کو اپنے گھر لے آئے تھے۔ لیکن وہ بس روتی رہتی تھی۔ نہ کسی سے بات کرنا نہ کہیں جانا۔ بس ایک کمرے میں بند ہوکر رہ گئی تھی۔ عنایہ اس سے کوئی بات کر لیا کرتی تھی لیکن آئرہ خود خاموش رہتی تھی۔

زندگی سے کوئی ایک جاتا ہے تو مانو جیسے کوئی رہا ہی نہیں اب تو۔ ہماری پوری زندگی ایک اسی شخص پر منحصر تھی وہ چلا گیا تو ہماری زندگی بھی کسی موڑ پر رک گئی ہو۔

دوسری جانب اذان اپنے گھر پر موجود تھا۔ سب لیونگ میں موجود تھے اور ماحول بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔

"مام ڈیڈ آپ دونوں پاکستان چلے جائیں۔۔ہم دونوں بھی کچھ دنوں میں واپس آجائیں گے۔" اذان نے اپنا فیصلہ سنایا۔

"ساتھ بھی تو جا سکتے ہیں ہم۔" ماھین نے کہا۔

"نہیں ابھی کچھ کام ہے آپ دونوں چلے جائیے۔" وہ نہایت ہی سنجیدہ تھا۔

"ٹھیک ہے ہم چلے جائیں گے۔ لیکن آپ لوگ جلد ہی واپس آئیں گے۔" سلیمان نے کہا تو انہوں نے سر ہلادیا۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد سب اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

اذان نے وہ پین ڈرائیو لیپ ٹاپ میں لگائی جس سے اسے کافی معلومات ملی تھی۔ اب اس شخص کو پکڑنا تھا اور وہ شاید اتنا مشکل نہیں تھا۔ جب وہ تھک گیا تو اسکرین بند کرتے وہ اٹھ کر ٹیرس پر آگیا۔

جہاں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ موسم کافی ٹھنڈا تھا پر اسکی اندر تو گرمی بھر رہی تھی۔ اسے کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ رضوان نے بھی کچھ غلط نہیں کہا تھا عنایہ انکی بیٹی ہے، اور اذان بھی تو اسی وجہ سے عنایہ کو اپنے سے دور رکھ رہا تھا تو اب جب کسی اور نے اسے دور رہنے کو کہا تو اسے درد کیوں ہو رہا تھا۔ کیوں اسکا دل نہیں مان رہا تھا۔

اسنے آنکھیں بند کرلیں تو آنکھوں کے سامنے وہی سفید منظر آیا تھا۔ جب مِرہا نے اسے کہا تھا کہ اسکی خوشی عنایہ کے ساتھ ہے اب وہی اسکی ہمسفر بن سکتی ہے۔ وہ اسے کے ساتھ خوش رہ سکتا ہے۔ اذان نے جھٹکے سے آنکھیں کھول لیں۔ یہ منظر اسے کبھی نہیں بھولتا تھا۔

"میں عنایہ کے ساتھ خوش رہ سکتا ہوں پر وہ میرے ساتھ خوش نہیں رہ پائے گی مِرہا۔" وہ واپس کمرے میں چلا گیا۔ ٹھنڈی ہوا اب بھی ہنوز ویسے ہی چل رہی تھی۔ کسی کے اندر لگی آگ کی پرواہ کیے بغیر۔

دوسری جانب نائل اپنے کمرے میں پریشان بیٹھا تھا آئرہ کیسی ہوگی۔ کس حال میں ہوگی۔ اسے کچھ نہیں پتا تھا اور وہ معلوم کرتا بھی تو کس سے؟ عنایہ سے؟ اور یہ وہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ تو ایک ہی حل تھا کہ وہ چپ رہتا۔ تاکہ انہیں شک بھی نہ ہو۔ لیکن کتنا مشکل تھا دل کو سمجھانا پر اسے سمجھانا تھا۔

دل پر کیسا بوجھ تھا جو کم ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ آتے دنوں کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔

دو دن بعد ماھین اور سلیمان چلے گئے تھے اور وہ دونوں پھر سے اپنے کمرے تک محدود رہ گئے تھے۔ نائل نے یونی کے چکر بھی لگائے تھے کہ شاید اسی بہانے اسے آئرہ دکھ جائے لیکن وہ نہیں آئی تھی تو وہ مایوسی سے واپس آجاتا تھا۔

جبکہ اذان اس شخص کے خلاف ہر ایک ثبوت اکٹھا کر رہا تھا۔ بس زندگی یہیں تک محدود رہ گئی تھی۔ خوشی تو جیسے روٹھ سی گئی تھی۔ چناچہ یہ کچھ دن بھی ایسے ہی گزر گئے کوئی کسی سے نہ ملا۔ یہاں تک کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی نائل اور اذان کو ملے بھی کافی دن ہوگئے تھے۔

¤---------¤-----------¤


عنایہ نے کافی بار اذان کو فون کیا تھا پر اسنے شاید اپنا نبمر بدل لیا تھا۔ اب وہ کیا کرے؟ کیسے اس سے بات کرے؟ وہ یونی بھی نہیں آتا تھا۔ نائل فون نہیں اٹھاتا تھا۔ گھر پر وہ جا نہیں سکتی تھی۔ سامنا کرنے کی نہ جانے کیوں ہمت نہیں تھی اس میں۔ اسکے سامنے وہ اس سے کیا کہتی یہی سوچتی وہ اسکے سامنے جانے کا ارادہ ترک کر دیتی تھی۔

تقریباً مہینہ ہونے لگا تھا اور فائنلز بھی قریب ہی تھے جب عنایہ نے آئرہ کو پڑھائی کے بہانے یونی لے جانا شروع کیا تاکہ وہ زرا مصروف ہو جائے اور اس صدمے سے کچھ حد تک نکل آئے۔

عنایہ آئرہ کا موڈ جتنا بہتر کرنے کی کوشش کرتی تھی آئرہ اسکی اس محنت سے بھی واقف تھی اور کچھ نہیں تو عنایہ کے سامنے وہ اب مسکرا لیتی تھی۔

*******

Continue Reading

You'll Also Like

كَـذبه. By Rona𓆙.

Mystery / Thriller

13 1 1
لَو أننِي اعلمُ كلَ شيءٍ لمَ وقِد بَدأت حكَايتنا . - ‏كل هذا الثبات، خلفه براكينٌ ثائرة .
530 54 5
تتحدث الرواية عندما تشعر في نوم عميق تذهب بها أحلامها إلى عالم آخر وكأنها تبحث عن شيء مثل المتاهة وكأنه ابيها ورؤية غير واضحة لها بما تراه في علقه...
27.4K 1.5K 10
"مشغلۂ عشق" اصل میں "داستانِ عشق" ہے۔ اور پھر، جب بات آئے عشق کی تو عشق میں کوئی منطق نہیں ڈھونڈی جاتی بلکہ اُس کے سحر میں کھویا جاتا ہے۔ یہ بھی ساری...
23.4K 1.5K 17
it is a story about a girl who faces many difficulties in her life her past was unpleasant present is unhappy but she makes or show herself brave the...