دوستی اور محبت | ✔

Af easternbirdiee

10.2K 781 335

دوستی اور فرض کے بیچ جدوجہد۔۔۔ ایک ایسا سفر جس کی منزل وہم و گمان میں نہ تھی۔۔۔ ایسا ہمسفر جسکی چاہت نہ تھی۔۔... Mere

1~Arguements+Cast1
2~Wild Cat
3~Sorry
4~Innocent Gangster
5~Sweet Sorry
6~Aryan Kapoor
7~Someone from past
8~A little avenge
9~Rain Dance
10~When we were happy
11~Our First Mission+Cast2
12~Nagin Dance
13~Someone is back
14~Diary
15~Zah E Naseeb
16~They lost them
17~Secrets of past
18~That two years
19~Not again
20~Let's play with a new start
21~Distraction
23~All about past
24~So called drama
25~We just hate you
26~Happy Birthday Nael
27~It's over
28~Dinner
29~New Entry
30~Dream
31~As you sow so shall you reap
32~He got his punishment
33~Azan has gone
34~Azhar
35~We have got Master Mind
36~ Canada(LAST)
Note

22~He is also hurt

132 10 0
Af easternbirdiee


🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

You know it hurts me but you do it anyway.

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شام پھیل رہی تھی جب سب اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے. اذان نائل عنایہ آئرہ آج سب ساتھ ہی تھے. اس دن کے واقعہ کے بعد اذان اور عنایہ کی بات نہیں ہوئی تھی. آج ملے بھی تھے تو اذان نے بلکل ظاہر نہیں کیا تھا کہ اسے سب یاد ہے. وہ عنایہ کو انکمفرٹیبل نہیں کرنا چاہتا تھا. چلتے ہوئے عنایہ زرا سی پیچھے تھی اسنے نائل کو روکا تو وہ رک گیا کہ کسی اور نے عنایہ کو اسے پکارتے نہیں سنا. 

"ساحر یہ جیکٹ تم پلیز اذان کو دے دینا۔" اذان کی دی ہوئی جیکٹ اسے پکڑاتے ہوئے کہا. ساحر نے پہلے تو الجھ کے اسے دیکھا.

" کیوں؟ تم خود دے دو. تمہاری لڑائی ہوئی ہے کیا؟"

"ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. تم دے دو نا... اتنے سوال کیوں کرتے ہو؟  اگر تمہیں نہیں چاہیے تو میں واپس رکھ لیتی ہوں." عنایہ نے اسے چھیڑنے کے لیے جیکٹ واپس اپنی طرف کرتے ہوئے کہا. "نہیں نہیں چاہیے نا مجھے." ساتھ ہی اسنے عنایہ کے ہاتھوں سے پکڑ لی.  جس پر عنایہ ہنس دی.

"جب تک تمہیں بلیک میل نہ کرو نہ.. تم سنتے نہیں ہو۔"  لیکن ساحر چھوٹے بچوں کی طرح جیکٹ بازو میں دبائے مسکراتا رہا.

تب ان دونوں نے اپنے قریب کسی کا تالی بجاتے سنا.  مڑ کر دیکھا تو وہاں آریان تھا اور آریان کی آمد کی دیر تھی نائل اور عنایہ کو ساتھ نا پاکر اب اذان اور آئرہ بھی ان کے پاس آچکے تھے.
"Wow guys! what a plan... Do you think you can trouble me by these cheap tricks?"

"زین just get lost from here. ہمیں یہاں کوئی تماشا نہیں چاہیے. "آئرہ نے عنایہ کی ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے کہا.

"کیوں ڈیئر؟ اِن فیکٹ تمہیں تو ایسی چیزیں اچھی لگتی ہیں. " وہ اب طنز کررہا تھا.

"اپنی زبان کو لگام دو زین۔" نائل بھڑکا تھا.

"Oh please stop this crap you loser... you are protecting them? But what'll happen when they would get to know your real identity?"
زین انہیں یاد دلا رہا تھا.

"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟" عنایہ نے الجھتے ہوئے پوچھا.
اس سوال پر زین عنایہ کے قریب ہوا تھا  "اوہ سویٹ ہارٹ.. تم اتنی کنفیوز کیوں ہو.. میں تمہیں کبھی بھی پریشان نہیں کرنا چاہتا. " بہت پیار سے کہہ رہا تھا وہ

اور اسکے کھلے بالوں میں اپنی انگلی پھیرنے لگا تھا. جسے ہاتھ لگاتے ساتھ ہی عنایہ نے جھٹک دیا تھا۔ لیکن اس نے اسکا بھی کوئی اثر نہیں لیا۔ اثر تو اذان پر ہوا تھا. آگے بڑھ کر زین کے منہ پر زور دیا مکا رسید کیا تھا. اور یہ اچانک سے ہوا کہ زین بھی لڑکھڑا گیا.

اپنے آپکو سنبھالتے زین نے بھی جوابی وار کیا تھا۔ آئرہ اور عنایہ ایک دم سے ہونے والی لڑائی دیکھ کر گھبرا گئی تھیں اور پھر سے ہجوم اکٹھا ہونے لگا تھا.

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی کی تم اسے چھوؤ بھی!" اور خوش قسمتی کہہ لو اذان کو یہ کیتے عنایہ اور ساحر دونوں نے سنا تھا اور وہ اسے دیکھتے رہ گئے.

کوئی انہیں نہیں روک رہا تھا۔ عنایہ نے الفاظوں سے روکنے کی کوشش کی، ساحر کو روکنے کی لیے کہا لیکن... شاید ساحر بھی یہی چاہتا تھا کہ زین کے ساتھ ایسا ہی ہو.

لیکن بلآخر کچھ نے مل کر انہیں الگ کیا . "تم مجھے بہت ہلکا لے رہے ہو اذان.  تم مجھسے الجھنے پر پچھتاؤ گے. " خون آلود چہرہ لیے وہ دھمکی دیتا چلا گیا.

یہ حال صرف اسی کا نہیں تھا. اذان کے بھی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا اور چوٹ اسے ہاتھ پر بھی لگی تھی جسے وہ جھٹک رہا تھا.

"اوہ گاڈ.. اذان کتنا خون بہہ رہا ہے.. تم کیوں لڑے اس سے؟" عنایہ بہت فکرمند تھی.

"میں ٹھیک ہوں." اذان نے اسے دیکھے بغیر کہا.

"نہیں.. تم ٹھیک نہیں ہو.. چلو میرے ساتھ۔" کہتے کوئے عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑا ہی تھا کی اسنے زور سے جھٹک دیا. 

"میں نے کہا نہ میں ٹھیک ہوں."چلا کے کہتا وہاں سے چلا گیا اور اسنے آواز سے عنایہ کچھ لمحے کے لیے تو خوف زدہ ہوگئی اسے اذان کو کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ آج تک تو کوئی اس پر ایسے چلایا بھی نہیں تھا۔ آئرہ بھی ایسے کھڑی تھی کہ جو کچھ بھی ہوا وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی اور ساحر نہ کچھ بولا تھا نہ کسی عمل کا مظاہرہ کیا تھا. وہ تو جیسے کچھ بھی محسوس کرنے سے محروم تھا. لیکن اذان کے جاتے ہی وہ اسکے پیچھے گیا تھا.

"اذان... اذان...میری بات تو سنو۔"

"خدا کے لیے ساحر مجھے اکیلا چھوڑ دو.. چلے جاؤ۔" اسے بھی غصے میں بول کر وہ چلا گیا اور ساحر اسے جاتے دیکھتا رہا۔ عنایہ بھی ساحر کے پیچھے آئی تھی.

"ساحر! اذان..."نام لینا ہی کافی تھا اور وہ سمجھ گیا تھا. "ڈونٹ وری.. کبھی کبھی زیادہ ایموشنل ہوجاتا ہے. ٹھیک ہو جائے گا." کہہ کر وہ بھی فوراً چلا گیا.

آئرہ عنایہ کے پاس آئی لیکن کچھ نہیں بولی. وہ دونوں چپ تھیں لیکن زہن میں بہت سے سوال تھے.. جن کے جواب ملنے آسان نہیں تھے.

¤---------¤----------¤


ساحر ڈرائیو کرکے گھر جارہا تھا اور کھویا ہوا تھا. "آج بھائی کو کیا ہو گیا تھا؟ زین نے عنایہ کو کچھ کہہ دیا تو اتنا زیادہ کیوں بھڑک گئے. غصہ کرتے ہیں لیکن اتنا نہیں کے مار پیٹ پر اتر آئیں لیکن آج... مار پیٹ کی ضرورت کیا تھی آخر. "

سوچنےکو تو اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اسنے سب خیالوں کو زہن سے جھٹک دیا اور بریک لگائی تو پتا چلا بریکس فیل ہیں. اسنے بہت کوشش کی لیکن بریکس نہیں لگ رہی تھیں.  ٹریفک زیادہ تھی... گاڑی کی سپیڈ بھی زیادہ تھی لیکن اب کم نہیں ہو رہی تھی اور پھر سامنے ایک گاڑی سے اسکی ٹکر ہو گئی جس سے زور دار دھماکہ ہوا.

¤--------¤----------¤


اذان اپنے گھر پر تھا، لیکن اسکا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا. وہ شیشے کے سامنے کھڑا روئی سے زخم صاف کر رہا تھا..

"مجھے ہو کیا گیا ہے؟ میں نے زین کو کیوں مارا... صرف اس لیے کہ اسنے عنایہ سے بدتمیزی کی؟.. میں کبھی بھی اتنا آؤٹ اوف کنٹرول نہیں ہوتا تو اب... اور میں نے کتنی بری طرح اس سے بات کی. " اذان بھی پتا نہیں کن کن سوالوں کا جواب ڈھونڈ رہا تھا.

جب فارغ ہوگیا تو اپنا فون بیڈ پر سے اٹھایا اور کال لسٹ میں عنایہ کا نمبر نکالا... لیکن ساتھ ہی اسکے چلتے ہاتھ رک گئے.

وہ کیا کر رہا تھا؟ اور کیوں؟ اسے عنایہ کی اتنی فکر کیوں تھی اور کیوں ہو رہی تھی. اسنے جیسی بھی بات کی وہ اسے اب شرمند کیوں کر رہا تھا.؟ وہ یہاں ایک مقصد کے لیے آیا تھا اور ختم ہوتے ہی چلا جائے گا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تو پھر... ان ہمدردی.. معافی... اور اتنی دوستی بڑھانے کی کیا ضرورت ہے. ؟ لیکن کچھ تھا جو دل میں کھٹک رہا تھا جسے چاہ کر بھی نہیں روکا جا رہا تھا اور اسنے کال ملا دی تھی. نہ جانے کیوں.. وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا اور سیکنڈز میں کال اٹھالی گئی.

"ہیلو اذان.. تم ٹھیک ہو؟ کہاں ہو تم؟" "ایک ہی سانس میں وہ اور بھی سوال کرلیتی اگر اذان بات نہ کاٹتا.  "میں ٹھیک ہوں بلکل... کالم ڈاؤن ہو جاؤ.. گھر پر ہوں." اسنے عنایہ کو تسلی دی. "تو کیا ضرورت تھی تمہیں اس سے لڑنے کی۔ کوئی ضرورت تھی کیا؟"

"میں بس آؤٹ اوف کنٹرول ہو گیا تھا." انسے زرا مایوسی سے کہا تھا۔ وہ بھی بدل رہا تھا اسے محسوس ہورہا تھا.

"ہاں ہاں تم اور تمہارا غصہ... ہونہہ!"

"میں معزرت کرنا چاہ رہا تھا.. تب میں اتنے غصے میں تھا کہ میں نے کسی کی بات نہیں سنی اور سب کے ساتھ مس بہیو کیا."  وہ واقعی بہت شرمندہ تھا.  البتہ وہ اپنے کیے پر ہوتا نہیں تھا لیکن اب ہونے لگا تھا... اب کچھ ہونے لگا تھا... عرصے بعد...

"تمہیں realize ہو گیا کافی ہے۔" عنایہ نے مسکرا کر کہا.  "ویسے تمہیں پتا ہے ساحر کہاں ہے؟ کافی دیر سے کال کر رہے ہیں وہ آنسر نہیں کر رہا۔"  عنایہ نے اذان سے پوچھا.

"نہیں میں بھی آخری بار یونی میں ہی ملا تھا۔" لیکن اندر ہی اندر اذان پریشان ہو گیا تھا... ساحر فون دو صورتوں میں نہیں اٹھاتا تھا.. جب سرپرائز دینا ہو... یا پھر...

"عنایہ مجھے کام ہے زرا میں بعد میں بات کرتا ہوں۔" اور عنایہ کا جواب سنے بغیر ہی فون بند کر دیا .

¤--------¤---------¤


اذان مسلسل نائل کو کال کررہا تھا. اس نے نائل سے بھی آخری بار کتنی بدتمیزی سے بات کی تھی... ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا... اسکا کیا قصور... اذان اب پچھتا رہا تھا. . لیکن تھوڑی دیر بعد جب اسکے نمبر سے کال بیک آئی تو بغیر کچھ سنے اذان بولنے لگا.

"ساحر کہاں ہو تم میں کب سے کال کر رہا ہوں۔ ریسیو کیوں نہیں کر رہے تھے ؟" جب آگے سے کوئی آواز نہیں آئی تو اذان چپ ہوگیا لیکن پھر جو سنا تو چہرے کے تاثر بدل گئے. پھر کچھ ہی دیر لگی تھی اسے ہسپتال پہنچنے میں۔ ریسیپشن پر OT کا بتایا گیا تو وہ اس طرف بھاگا اور اوٹی سے ابھی ابھی ایک ڈاکٹر باہر آیا تھا..

"ڈاکٹر ساحر کیسا ہے؟"

"آپ اذان ہیں؟"

"جی"

"بہت بلڈ لوس ہوا ہے. ہیڈ انجری بھی یے.  اوپریٹ کرنا پڑے گا. " ڈاکٹر نے اطلاع دی.

"تو آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟"

"آپکی پرمیشن اور سیگنیچر چاہیے۔" کہہ کر اسنے اذان کا طرف ایک پیپر بڑھایا... جسے دیکھ کر اذان خاموش ہوگیا تھا.

"وہ ٹھیک تو ہو جائے گا؟" امید کے ساتھ اس نے پوچھا تھا.

"ابھی کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔"

پیپر پکڑ کر کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اذان نے سیگنیچر کیے اور ڈاکٹر کو تھما دیا.

"میرے بھائی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ڈاکٹر۔" اذان نے کچھ جتاتے ہوئے سخت مزاج سے کہا تھا... لیکن ڈاکٹر سر ہلاتا اندر چلا گیا.

اذان وہیں بینچ پر بیٹھ گیا تھا. اور آنسو تھے کہ آج تھم بھی نہیں رہے تھے.  خدا کے فیصلے کے آگے کوئی بھی کچھ بھی نہیں کرسکتا. ماضی میں بہت کچھ کھویا تھا اذان نے ... تو کیا ہر قربانی اسی کی قسمت میں لکھی تھی؟ ہر اپنے کو کھونا اسے کے نصیب میں تھا؟ کھویا تو نائل نے بھی تھا کچھ لیکن وہ کبھی اپنے دکھ کو ظاہر نہیں کرتا تھا.

بعض اوقات انسان کتنا مجبور ہوجاتا ہے کہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتا. 

"تم مجھے چھوڑ کر ایسے نہیں جا سکتے نائل.. تم نے تو ہمیشہ میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا. تم ہی نے کہا تھا کے آریان کو اسکے اعمال کا حساب دینا ہوگا. اسے اسکے عمل کی سزا ملے گی... اب تم سب ایسے بیچ میں نہیں چھوڑ سکتے... میں تمہاری مدد کے بغیر اب کچھ نہیں کرسکتا. وہ اذان تو کب کا مر گیا جسے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی تھی. تمہارے بغیر میں اب کچھ نہیں کرسکتا... اب دوبارہ کسی کو کھونے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں. یا اللہ میرے بھائی کو زندگی بخش دے... اسے موت کی راہ سے واپس لے آ... چاہے تو اسے میری بھی عمر دیدے... لیکن اسی زندگی دے دے میرے اللہ... اسے زندگی دے دے... "

وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے دعا مانگ رہا تھا... دل ہی دل میں بول رہا تھا... اسکا چہرہ بھیگ گیا تھا... لیکن اسکے آنسو جیسے آج سب بہہ جانا چاہتے تھے.   دو سال پہلے ایسے ہی ہسپتال میں اسنے دو لوگوں کو کھویا تھا... آج پھر وہی ہونے جارہا تھا.

فریال بھی وہاں پہنچ گئی تھی آپریشن میں دو گھنٹے لگے تھے اور جب ڈاکٹر باہر آئے تو اذان فوراً کھڑا ہوگیا لیکن بولا کچھ نہیں کیونکہ اسکی آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی.... لیکن ڈاکٹر کو اسکی کیفیت کا اندازہ تھا. 

"ساحر اب ٹھیک ہے.... ہیڈ انجری زیادہ ڈیپ نہیں تھی ورنہ مسئلہ ہوسکتا تھا. ایکسیڈنٹ جتنا برا تھا اگر بروقت وہ گاڑی سے نہ نکلتا تو شاید.... لیکن اب وہ خطرے سے باہر ہے.... " ڈاکٹر نے مسکرا کر انہیں خوشخبری دی تھی. جس سے اذان کی رکی سانس اب بھال ہوئی تھی اور فریال نے سکون کا سانس لیا تھا۔

"ہم کب مل سکتے ہیں؟" فریال نے پوچھا۔

"کل صبح تک ہوش آنے پر ہی۔" کہتا ہوا ڈاکٹر اذان کا کندھا تھپکتا وہاں سے چلا گیا اور اذان واپس بینچ پر بیٹھ گیا ساتھ ہی اسکے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے... خدا کا شکرادا کرنے کے لیے.
بہت کم خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کی دعا فوراً قبول کرلی جاتی ہے... بیشک شاید وہ بھی اتنا خوش قسمت تھا اور یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا.

فریال اذان کے ساتھ ہی بیٹھی تھی جب اسنے اذان کی حالت دیکھ کر بھی اس سے بات کرنے کا سوچا.

"اذان ایک بات کہوں؟" اسنے ہمت کی تھی. ورنہ اذان کا کہاں پتا چلتا تھا کہ بات بیچ میں چھوڑ کے چلا جائے.

"بولو۔"

"اپنے ماضی کا غصہ نائل پہ مت نکالا کرو۔ مِرہا اور ایشل کو تم نے ہی نہیں اسنے بھی کھویا تھا۔ تکلیف اسے بھی ہوتی ہے اور جب تم ایسا رویہ رکھتے ہو تو اسے اور برا لگتا ہے۔ تم تو اپنا دکھ غصہ نکال کر بانٹ لیتے ہو لیکن نائل... نہ تو اسے غصہ کرنا آتا ہے اور نہ ہی وہ ہر ایک سے ہمدردی لینے والوں میں سے ہے۔ وہ اندر ہی اندر گُھٹٹا رہتا ہے۔  تم اسکے بھائی ہو مجھ سے زیادہ اسے جانتے ہو.   وہ اپنی ہر بات تم سے شیئر کرتا ہے۔ لیکن جب تم اپنا رویہ بدل لیتے ہو تو اسے تکلیف ہوتی ہے وہ کسی کو دکھاتا نہیں ہے۔ اپنی ہنسی کے پیچھے اپنے دکھ درد چھپا لیتا ہے۔ اسکا بھی احساس کرو اذان...  کہیں تم اپنے رویے کی وجہ سے اسے بھی نہ کھو دو." آخری بات پر فریال زرا ہچکچائی تھی مگر اسنے کہہ دی تھی. اذان نے کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا تھا. فریال بھی گہری سانس لیتے چپ ہوگئی.

تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب فریال کو کسی کی کال آئی تو وہ سنتے ہوئے باہر چلی گئی۔ اس کے جاتے اذان نے ایک نظر اس طرف دیکھا جہاں وہ گئی تھی۔ وہ سچ کہہ رہی تھی۔ صرف میں نے نہیں اسنے بھی کچھ کھویا تھا۔ وہ شروع سے ہنسنے مسکرانے والوں میں سے ہی رہا ہے اور اپنے ہر درد کو اپنی ہنسی کے پیچھے چھپانے میں ماہر رہا ہے.

(آپکو پتا ہے میں آپکو ایسے دکھی نہیں دیکھ سکتا۔ آپکو پتا ہے مجھے بھی دکھ ہوتا ہے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے بھائی.)

اذان کے کانوں میں نائل کی آواز گانجی تھی۔ وہ بھی تو انسان ہے کب تک اپنے دکھوں کو چھپائے گا۔ اذان واقعی اسکے ساتھ زیادتی کرتا تھا۔ اسنے کیوں نہیں سمجھا۔ اب دوسرے لوگ اسے احساس دلائیں گے اسکے خود کے بھائی کے لیے.
اور یہاں اذان کو آئرہ کی کال آئی تھی.

"اذان کہاں ہے یہ ساحر کا بچہ... ہم شام سے کال کر رہے ہیں آدھی رات ہونے کو آئی ہے... ہے کہاں وہ... ہیلو؟اذان؟ "

لیکن اذان خاموش رہا اور کچھ وقت بعد بولا تو اسنے ساحر کے ایکسیڈنٹ کی خبر دی. جسکے بعد اسنے آئرہ کی آواز نہیں سنی... وہ کال پر تھی یا کال کٹ گئی... دیکھے بغیر اسنے فون نیچے رکھ دیا... واپس دیوار کے ساتھ سر ٹکادیا... اور کب اسکی آنکھ لگی اسے پتا بھی نہیں چلا.

رات اتنی پھیل چکی تھی کہ اب دن کا آغاز ہونے لگا تھا...  صبح اٹھتے اذان نے ان دونوں کو دیکھا جو وہیں بنچ پر بیٹھی سو رہی تھیں. وہ کب اور کیسے سو گیا... اسے پتا بھی نہیں چلا... کسی نے اسے اٹھایا کیوں نہیں... لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے عرصے بعد وہ گہری نیند سویا تھا.  کچھ ہی دیر میں وہ اتنا فریش ہوگیا تھا کہ رات والے حالات کا کوئی اندیشہ تک نہیں تھا. پل لگتا تھا اسے بھی بدلنے میں.... انداز بھی رویہ بھی...

¤--------¤----------¤


دو دن گزر چکے تھے. لیکن ساحر ابھی بھی وہیں ایڈمٹ تھا. سب اسکے پاس تھے اور اب وہ سب سے صحیح طرح بات بھی کر رہا تھا۔

"کیسے ہو ساحر؟" آئرہ نے مسکرا کر پوچھا تھا. "میں ٹھیک ہوں. تھینک یو۔" ساحر نے بھی مسکرا کر جواب دیا تھا اور پھر اسکے دیکھا کے آئرہ اسے گھور رہی تھی....

"Why are you glaring at me? As if I did something."
معصوم سا چہرہ بنا کر ساحر نے کہا.

"TO HELL WITH YOUR SOMETHING!"

آئرہ چلا کر بولی تھی کے سب جھنجھلا گئے اور آئرہ کو دیکھنے لگے.

"آئرہ؟" عنایہ نے اسے پکارا... لیکن وہ سن ہی نہ لیتی.

"کیا آئرہ؟ (عنایہ کو دیکھتے کہا) اور تم(اب ساحر سے مخاطب ہوئی) سمجھتے کیا ہو تم خود کو... مزاق ہے سب... دیکھ کے ڈرائیو نہیں کر سکتے تھے۔ جلدی کس بات کی تھی. اگر کچھ ہوجاتا تو... کبھی سوچا ہے دوسروں کے لیے تم کیا اہمیت رکھتے ہو ؟"

جہاں آئرہ بولے چلی جا رہی تھے.. باقی اسے دیکھ کر ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہے تھے اور نائل پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہا تھا. لیکن مکمل خاموشی محسوس کر کے آئرہ چپ ہوگئی اور سب کو دیکھا... (اوف... آئرہ زبان پر قابو نہیں رکھ سکتی کیا... کتنا بول گئی... چچ) آئرہ نے خود کو دل میں کہا.

"آہ ... سوری... تم سب بت کیوں بن گئے ہو؟" لیکن سب نے جو اپنی ہنسی کو قابو میں کیا ہوہوا تھا آخر کار وہ باہر آگئی.

"میری حالت کا تو خیال کرلو... تم تو جنگلی بلی کی طرح مجھ پر شروع ہی ہوگئی. " نائل نے معصوم چہرہ بنا کر کہا. "ارے میں تو آرام سے ہی جا رہا تھا... بریکس فیل تھیں( اس پر اذان سیدھا ہوا) جب نہیں لگیں تو ایکسیڈنٹ ہوگیا. "

"اچھا اب اسے ریسٹ کرنے دو... آئرہ بہت ہوا." عنایہ نے کہا.

"تم لوگ ویسے یہاں کیا کر رہے ہو؟ یونی نہیں گئے؟"نائل نے سب سے پوچھا.

"تمہیں یہاں آرام کرتا چھوڑ کے ہم کیوں جائیں بھلا." آئرہ نے پھر سے تلی لگائی.

"وری فنی آئرہ۔" نائل  نے لگی تلی پر پانی پھینک دیا.

"تم لوگ جاؤ ... مجھے چھوٹے بچوں کی طرح تو اب ٹریٹ مت کرو."

"لیکن میں یہیں رہوں گی۔" آئرہ نے  فیصلہ سنایا. اس پر نائل نے اسے دیکھا.. 

"کیا؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ کوئی تو یہاں بھی ہونا چاہیے نا" آئرہ نے کیا بات کہی تھی.

"ہاں تو اذان عنایہ میں سے بھی کوئی رک سکتا ہے... پلیز آئرہ نہیں یہ جنگلی بلی مجھے کاٹ کھائے گی۔" نائل کی بات پر جہاں سب ہنسے تھے وہیں آئرہ نے برا سا منہ بنایا تھا.

"وری فنی ساحر... اب تو یہیں رہوں گی... کرلو جو کرنا ہے۔"
آئرہ بھی ڈھیٹ تھی...

"یا اللہ مجھے بچانا..." نائل پوری کوشش کر رہا تھا آئرہ کو تنگ کرنے کی... لیکن وہ بھی ڈھیٹ بن کے بیٹھی تھی... Ego کی بات جو تھی.

******

Fortsæt med at læse

You'll Also Like

3 0 5
یہ کہانی فاطمہ آفندی کی ہے ، جو طوفانوں سے ٹکراتے ہوئے اکیلے ان سب کا سامنا کر ائی، یہ کہانی ایک بری شادی کے بارے میں ! ایک تلخ حقیقت سے جڑی ہے،
27.4K 1.5K 10
"مشغلۂ عشق" اصل میں "داستانِ عشق" ہے۔ اور پھر، جب بات آئے عشق کی تو عشق میں کوئی منطق نہیں ڈھونڈی جاتی بلکہ اُس کے سحر میں کھویا جاتا ہے۔ یہ بھی ساری...
7.6K 497 13
رسم و رواج کی زنجیروں میں لپٹی وہ ایک سرکش و باغی لڑکی تھی۔ وہ انہی پہاڑوں کی طرح سخت تھی۔ انہی موسموں کی طرح اس کا مزاج بھی سرد تھا۔ وہ بھاگنا چاہتی...
76.9K 434 3
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحم کرنے والا ہے! اسلام علیکم ریڈرز...! یہ ناول میرے دل کے بہت قریب ہے۔ اسے لکھتے ہوئے الگ ہی خوشی ملتی تھی۔ لک...