راہِ حق ازقلم ندا فاطمہ

By Nidafatimaa

3.2K 364 540

نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں جو ہو یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں​ یہ کہانی ہے ان نوجوانوں کی جن... More

Ep 1
Ep 2
Ep 3
Ep 4
Ep 5
Ep 6
Ep 7
Ep 9
Ep 10

Ep 8

192 32 83
By Nidafatimaa

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہے

نوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور وقعات فرضی ہیں حقیقی زندگی میں انکا کوئی عمل دخل نہیں.
______________________

آج میں سٹارٹ میں آپکو یہ بات کلئیر کرنا چاہتی ہوں کہ جیسا ابھی تک آپ لوگ پڑھ رہے ہیں کہ کیپٹن ہنال کے آرڈرز باقی ٹیم ممبرز فولو کر رہے ہیں...
لیکن کیپٹن ہنال یہ مشن لیڈ نہیں کر رہیں.
ایسے مشنز میں کبھی بھی لڑکیاں لیڈ نہیں کر سکتیں.....
تو پھر کون کر رہا ہے یہ مشن لیڈ؟
جیسے جیسے آپ لوگ پڑھتے جائیں گے ویسے ہی تجسس بڑھتا جائے گا.
ایپیسوڈ انجوائے کریں.
لاسٹ میں پھر سے ملا قات ہوتی ہے.

BISMILLAH
کمال بھول گیا اور زوال بھول گیا
کہاں کہ ماضی و فردا کا حال بھول گیا

بساط ایسی کہ گویا ابھی الٹتی ہے
اناڑی ایسے کہ شاطر بھی چال بھول گیا

اسے مکالمہ کہیے جمال فطرت سے
جواب ڈھونڈنے نکلا سوال بھول گیا

بڑی ہی یاس کہ عالم میں گھر کو نکلا ہے
چمن کہ بیچ میں صیاد جال بھول گیا

ہمیں تو عشق میں خود عشق کی خبر نہ رہی
تمھیں بھی خیر سے اپنا جمال بھول گیا

رقیب ہوتے ہیں کیسے ٹکے ٹکے کہ لوگ
برا ہو حافظے کا میں مثال بھول گیا

فراق کاٹنا راحیل مجھ سے سیکھے کوئی
شبیہ یاد رکھی ماہ و سال بھول گیا

•_•

زندگی سکھا رہی ہے آہستہ آہستہ
لوگ نیند کی گولیاں کیوں لیتے ہیں

کمرے کا ماحول اندھیرے کی وجہ سے واضح نہیں ہو رہا تھا...صوفے پر پڑا اسکا موبائل نجانے کتنی بار بج بج کہ بند ہو گیا....دوبارہ سے موبائل فون کی ارتعاش سے اسنے آنکھیں وا کیں...
وہ مندھی مندھی آنکھوں سے اپنے اردگرد دیکھتا شاید سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کہاں ہے....کچھ ہی لمحوں میں سارا منظر واضح ہو گیا...
ولی نے ایک نظر صوفے پر پڑے مسلسل بجتے ہوئے فون کو دیکھا.
سکرین پر چمکتے نام کو دیکھ کر اسنے جلدی سے کال اٹھائی.
رسمی سلام جواب کہ بعد اسنے کال نہ اٹھانے کی وجہ بتائی....
سامنے سے کچھ کہا گیا جس پر اسکے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں.....

"لیکن آپ کو پتہ ہے...." اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا  سامنے والے نے اسے بیچ میں ہی کچھ کہہ کر خاموش کروا دیا.

"اوکے." اسنے نجانے کتنی مشکل سے ہامی بھری.
چند ایک باتوں کہ بعد کال ڈسکنیکٹ ہو گئی.
ولی نے موبائل واپس سے صوفے پر رکھا اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کےلئے خود کو مضبوط کرنے لگا.

•_•

حادثے ہو گئے نت نئے لیکن
دل نہیں بھولتا چوٹیں پرانی

"مما.....مما." وہ چار سالہ بچہ بھاگتا ہوا جاکر اپنی ماں سے لپٹ گیا.
جس پر ایک جھٹکے سے اس عورت نے اسے خود سے دور پھینکا.....اس قدر نفرت سے اس عورت نے اپنی ہی اولاد کو خود سے دور جھٹکا تھا، کہ وہ بچہ منہ کہ بل فرش پہ جا گرا.

"ماریہ......ماریہ....کہاں مرگئی ہو؟" وہ اونچی اونچی آواز میں بولتی اس بچے کی آیا کو آوازیں دینے لگی....جس پر وہ بوتل کے جن کی طرح نمودار ہوئی.

فرش پہ گرا وہ چار سال کا معصوم بچہ اپنی ماں کے چہرے کو ایک حسرت سے دیکھ رہا تھا.....جہاں  غصہ، نفرت، بیزاری اور نجانے کیا کیا موجود تھا، جو نہیں تھا وہ پیار تھا.....
میک اپ سے لدا چہرہ، بالوں کو اوپر جوڑے کی شکل میں باندھا ہوا، ریڈ ٹاپ کہ ساتھ بلیک جینز اور ہائی ہیلز پہنے وہ مکمل تیار شاید کہیں جانے کے لئے نکل رہی تھی.

"تم سے کتنی دفعہ کہا ہے، اس گند کی پوٹلی کو میری نظروں سے دور رکھا کرو!....اگر تم یہ کام نہیں کر سکتی تو بتا دو مجھے، میرے پاس اور بہت سے آپشنز ہیں!"اسنے تقریبأ چیختے ہوئے کہا

اپنی ماں کو یوں چیختا دیکھ کر وہ بچہ سہم گیا تھا.

"نہیں نہیں بی بی جی! میں تو اسکے ساتھ ہی تھی....وہ تو اسنے آپ کو دیکھا تو ادھر بھاگ آیا." آیا نے منمناتے ہوئے کہا.

"اسے لے کر دفعہ ہو جاؤ یہاں سے...جلدی کرو." اسکے کہنے پر آیا اس بچے کی طرف بڑھی.

"نہیں مما....یہ آنٹی بہت گندی ہیں.....میں انکے ساتھ نہیں جاؤں گا." وہ بچہ آنکھوں میں خوف لئے روتے ہوئے ایک بار پھر ماں کہ قریب ہوا.

"تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی....اسے لے کر دفعہ ہو جاؤ.....آئی سیڈ لیو."اسنے چیختے ہوئے کہا جس پر اس بچے کا رنگ فق ہوا....آیا اس بچے کا بازو کھینچ کر اسے گھسیٹتے ہوئی اپنے ساتھ لے گئی.
وہ بچہ آنسو بہاتا بار بار مڑ کر اپنی ماں کو دیکھتا، شاید اس امید سے کہ وہ اسے روک لے گی....خود سے دور نہیں جانے دے گی.....

پر کچھ امیدیں بہت بری طرح سے ٹوٹتی ہیں!

"اف، سارا موڈ خراب کردیا." وہ اپنے کپڑے جھاڑتی بازو پہ لٹکا پرس ٹھیک کرتی گھر سے باہر نکل گئی.

•_•

تو ہجوم میں دو کوڑی کا
میں تنہا بھی کروڑوں کی!

سیف ہاؤس کا منظر دیکھا جائے تو وہ سب اس وقت روم میں ٹیبل پر پڑے لیپ ٹاپ کے گرد جمع تھے....سب بڑے انہماک سے لیپ ٹاپ کی روشن سکرین میں آنکھیں گاڑے ہوئے تھے. جدھر صبح کینٹین میں عاشر کہ ساتھ ہوئی گفتگو چل رہی تھی.

"ارے نہیں یار....میریڈ نہیں ہوں....اور گرلفرینڈ بھی نہیں ہے.....میں دراصل لڑکیوں سے دور ہی رہتا ہوں....لیکن اب تم میری فرینڈ ہو."
عاشر کو ہنال کا ہاتھ تھامتا دیکھ کر وہاں موجود چاروں نفوسوں کی رگیں تن گئی تھیں.

ان میں سے کسی نے کبھی ہنال کو نظر اٹھا کے دیکھا تک نہیں تھا، وجہ ہنال کے کردار کی پختگی تھی، اسکا کردار اتنا مضبوط تھا کہ وہ اسے مخاطب کرتے ہوئے جھجکتے تھے....
عورت جب تک خود نہ چاہے کوئی مرد اسے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا....کسی غیر محرم سے بات کرتے وقت لہجہ اتنا تو سخت ہونا چائیے کہ وہ آپ کے کردار کا اندازہ بخوبی لگا سکے.

نجانے اس ملک اور اپنے لوگوں کے دفاع کی خاطر انہیں کیا کچھ کرنا پڑتا تھا....جس نے ہمیشہ خود کو ہر نامحرم کے لمس سے پاک رکھا تھا...آج اپنے وطن کی خاطر اسے اپنے ملک کے غدار کا ہاتھ تھامنا پڑ گیا تھا....ناجانے ایسی اور کتنی ان کہی داستانیں وقت کے پنوں پر لکھی ہوئیں تھیں....ان گمنام سپاہیوں کیں.....جو کبھی یونیفارم میں ملبوس اپنی سرحدوں کی خفاظت کےلئے کھڑے ہیں، تو کبھی خواجہ سرا کے روپ میں اپنی پہچان چھپائے دشمن کے عزائم پر نظر رکھے، کبھی پھٹے پرانے مٹی سے اٹے جگہ جگہ پیوند لگے کپڑوں پہنے کسی سگنل پر بھیک مانگتے بھیکاری کی شکل میں، کبھی کسی سٹوڈنٹ کی بھیس میں اپنے مقصد میں کوشاں، تو کبھی کسی بزنس مین کے حلیے میں، کبھی کسی سبزی والے کی شکل میں تو کبھی کسی چرسی کی صورت میں، اور کبھی آدھی رات کو سنسان سڑکوں پر سیٹیاں بجاتے پہرہ دار کی صورت میں، وہ ہوا کی طرح ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، یہ گمنام سپاہی رات کے آخری پہر بھی عقاب کے سی نظر اپنے شکار پر گاڑے اسکے بل میں سے نکلنے کے انتظار میں چوکنے بیٹھے ہوتے ہیں.... وہ اپنے کسی گمنام روپ میں ہماری انکھوں کے سامنے ہی موجود ہیں، لیکن ہم ان کی اصلیت سے انجان ایک نظر انہیں دیکھ بھی نہیں پاتے....

اس وقت بھی کچھ مارخور پوری دنیا سے چھپ کر اپنی جنگ لڑ رہے ہیں......کیا پتہ ابھی وہ کسی روپ میں ہمارے اردگرد موجود ہوں.

میں تمہیں ہر جگہ ملوں گا
میں دنیا میں ہوا کی طرح موجود ہوں
کیونکہ یہ میرا فرض ہے
میں اپنے وطن کا مخافظ
اسلام کا پاسبان ہوں
میں پاکستان ہوں
میں آئی ایس آئی ہوں
                        (ازخود)

ریکارڈنگ ختم ہوچکی تھی وہ سب اپنی اپنی جگہوں پر آکر بیٹھے.

"میجر سے میری بات ہو گئی ہے. انشااللہ کچھ ہی دنوں میں وہ واپس آ رہے ہیں....تب تک ہمیں یہ سب ایسے ہی کنٹینیو کرنا ہے." ہنال نے اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے کہا تو باقیوں نے اثبات میں سر ہلایا

"کوئی مشکوک سرگرمی؟" اسنے دائیں ابرو اچکا کر اسد سے پوچھا.

"نو کیپٹن....ابھی تک ایسا کچھ نظر نہیں آیا." اسنے جوابأ کہا.

"مجھے کچھ لوگوں کی حرکتیں مشکوک لگی ہیں!" خضر آگے کو ہو کر بولا.

"مطلب؟" ہنال نے وضاحت چاہی

"مطلب یہ کہ یونیورسٹی کی بیک سائیڈ پر بنے سٹور روم کے آس پاس میں نے کچھ لڑکوں کو گھومتا دیکھا ہے....حالانکہ وہ ایریا کافی سنسان ہے...بہت کم سٹوڈنٹس اس طرف جاتے ہیں....لیکن جیسے ہی میں سٹوروم کی طرف گیا تو ایک لڑکے نے میرا راستہ روک لیا.....میں نے اسے یقین دلا دیا کہ میں غلطی سے اس طرف آ گیا تھا....لیکن مجھے ان پر شک ہے." خضر نے صبح کا سارا واقعہ انہیں بتایا.

"خضر ٹھیک کہہ رہا ہے....مجھے بھی وہ جگہ مشکوک لگی.....میں صفائی کے بہانے سے ادھر کیمرا فکس کرنے گیا تو ایک گروپ نے جھڑک کر واپس بھیج دیا....ضرور وہ لوگ وہاں کچھ چھپا رہے ہیں." اب کی بار فخر نے کہا

"ہممم....یقینا وہ کچھ غلط کرنے والے ہیں....ان لوگوں پر نظر رکھیں.....اور کسی بھی طرح سے سٹوروم کے سامنے کیمرا فکس کرنا ہوگا....ہمیں جلد ہی کوبرا کا سراغ لگانا ہے....وقت بہت ہی کم ہے ہمارے پاس.....ان لوگوں کا پیچھا کریں اور یہ جس جس جگہ جاتے ہیں ان سب کی ڈیٹیلز مجھے رپورٹ کریں." ہنال نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کرکے ٹیبل پر ہاتھ رکھے.

"اوکے کیپٹن.." اسفند نے اسکی بات کے جواب میں کہا.

سیکریٹ ایجنٹس بہت ہی نپے تلے الفاظ استعمال کرتے ہیں انکے الفاظ انکے کامیاب مشنز کی ضمانت ہوتے ہیں....ایک  بے دھیانی میں منہ سے نکلا لفظ دشمن کو انکی پہچان واضح کر سکتا ہے...

ٹیبل پر پڑا ہنال کا فون بجنے لگا.
ہنال نے ایک نظر اپنے موبائل کی بلینک ہوتی سکرین کو دیکھا، جدھر کسی ان نان نمبر سے کال آ رہی تھی، اسے بس کچھ سیکنڈ لگے تھے سمجھنے میں....پھر سب کو خاموش رہنے کا اشارہ دے کر اسنے کال پک کی اور سپیکر آن کر کے اسد کو لوکیشن ٹریس کرنے کا اشارہ دیا.

"ہیلو سویٹی!" فون اٹھاتے ہی عاشر کی آواز سپیکر پر ابھری.

"ہائے! عاشر تم ہو کیا؟" اسے یقین تھا کہ یہ وہی ہے پر پھر بھی سوال کیا.

"بلکل جناب...آپکا خادم عاشر بات کر رہا ہوں." اسکی اس بات پر فخر کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی.

"میرا نمبر کدھر سے ملا تمہیں؟" ہنال نے تفتیشی انداز اپنایا، تاکہ اسے شک نہ ہو کہ ہنال نے جان بوجھ کر اپنا نمبر اسکے ہاتھ لگنے دیا ہے.

"دیکھ لو...دل کو دل سے راہ ہوتی ہے....ڈین کے آفس سے تمہاری فائل میں سے نکلوایا ہے....بتانا یہ تھا کہ تمہارا کام ہوگیا ہے." عاشر خود کو بہت بڑا کھلاڑی سمجھ رہا تھا، یہ جانے بغیر کہ وہ انکے جال میں پھنستا چلا جا رہا تھا.

"مان گئی تمہیں....تھینک یو سو مچ کہ تم نے میرا کام کر دیا....میں صبح یونی میں لے لوں گی...کوئی پرابلم تو نہیں؟" لہجہ تھوڑا نرم تھا جس پر فخر نے دل ہی دل میں سوچا کہ
"ہم سے اچھا تو یہ چھچھوندر ہے....کتنے پیار سے بات کر رہی ہے ہٹلر."

"ارے نہیں کوئی پرابلم نہیں....اور فرینڈ ہو کر تھینکس اور سوری کچھ سوٹ نہیں کرتا." عاشر تو اس سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے برسوں سے اسے جانتا ہو.

ہنال آگے کچھ کہنا چاہتی تھی پر موبائل کی سکرین پر " کیپٹن عائق کالنگ" بلنک کرنے لگا. جسے ان سب نے ہی بڑی آسانی سے دیکھا تھا.
ہنال کے بارے میں آجکل انہیں کافی نئی نئی چیزیں معلوم ہونے لگی تھیں.

"سو نائس آف یو.....بٹ سوری عاشر فرینڈ کی کال آ رہی ہے....صبح ملتے ہیں ہم." ہنال ویسے بھی کال کاٹنے کا انتظار کر رہی تھی.....اسفند اسکے نمبر کی لوکیشن ٹریس کر چکا تھا جو کسی کلب کا اڈریس شو کر رہا تھا.

"اوکے....ٹیک کیئر...بائے." عاشر نے کہہ کر کال کاٹ دی تو ہنال نے دوسری کال پک کی.

" کدھر دفعان ہوئی ہو تم.....شہادت تو نہیں نوش فرما لی تم نے....دس ہزار بار کال کی ہے پر مجال ہے جو شہزادی صاحبہ پک کریں." عائق جو کتنے دنوں سے بھرا پڑا تھا، ہنال کے کال اٹھاتے ہی پھٹ پڑا.
فون سپیکر پر ہونے کی وجہ سے باقی سب نے بھی باآسانی اسکی بات سنی تھی.
ہنال سپیکر آف کرتی، ایکسکیوز می کہتی وہاں سے اٹھ گئی.

"مسلہ کیا ہے یار، آرام سے بات کرو!" ہنال کمرے سے باہر چلی گئی لیکن اندر سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے رہ گئے

"کسی کو پتا ہے کہ یہ محترم عائق صاحب کون ہیں جو ہٹلر پر رعب ڈال رہے ہیں؟" فخر نے شرارتی انداز میں پوچھا.
جس پر سب نے اپنی گرنیں نہ میں ہلائیں.

"پتہ نہیں ابھی میری اس ننھی جان نے اور کیا کیا دیکھنا ہے." فخر چھت کی طرف دیکھتا افسوس سے بولا.... تو اسفند نے ایک دھپ اسے رسید کی.

"فخر جناب آپ ننھی جان نہیں ہیں....بلکہ شیطان کا لیٹسٹ ورژن ہیں وہ بھی فلی اپڈیٹ." اسد نے مسکراتے ہوئے فخر سے کہا.

"کیپٹن کہ سامنے منہ میں دہی جما لیتا ہے اور میرے سامنے پٹر پٹر زبان چلتی ہے اسکی.....شیطان کا لیٹسٹ ورژن...." فخر اسد کی نقل اتارتا ہوا بولا.
جس پر خضر اور اسفند ہنسنے لگے.

•_•

سلجھی ہوئی ضرور ہوں
الجھنے سے گریز کیجئیے

"ہاں ہاں.....ایک تو کب سے تم مجھے اگنور کر رہی ہو اوپر سے باتیں بھی مجھے ہی سنا رہی ہو کہ آرام سے بات کرو.....یہ دن ہی دیکھنا باقی تھا." عائق کے ڈرامے عروج پر تھے.
ہنال نے ایک نظر موبائل کو گھور کر گہرا سانس ہوا کہ سپرد کیا.

"میں کب اگنور کر رہی ہوں....مصروف تھی میں تمہاری طرح مکھیاں نہیں مارتی بیٹھ کہ." ہنال سیڑھیاں چڑھتی اوپر کی جانب بڑھی.

"پوری ایجنسی تو تم نے اکیلی نے سر پہ اٹھا رکھی ہے نہ جو مصروف ہو اور اوہ ہیلو.... کس کو بولا مکھیاں مارنے والا؟" وہ فل لڑائی کے موڈ میں تھا.

"کہاں ہو ابھی اور ہوا کیا ہے؟" ہنال صوفے پر نیم دراز ہوتی ہوئی بولی.
اسکی ایک ایک حرکت کو ہنال بخوبی جانتی تھی.

"بلوچستان میں ہوں یار، اور ہوا کچھ یوں ہے کہ امی کی کال آئی اور پھر عرض کیا ہے:

مرشد ہماری بے عزتی کی گئی
مرشد ہمیں نکمی اولاد کہا گیا😢"

"اور تم نے یہ بتانے کہ لئے مجھے کال کی😞" ہنال نے شاید اسکے دماغ سے فارغ ہونے کی تصدیق کرنی چاہی تھی..

"اب اپنا درد تم سے ہی شئیر کروں گا نہ.....ویسے بھی تم نے دوسروں کی زندگی حرام کی ہونی ہے اپنی حرکتوں کی وجہ سے....سو تھوڑا ثواب کما لو میرا درد بانٹ کے." عائق مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا.

"کیپٹن عائق آفندی.....کیا آپ میرے فون کی بلاک لسٹ کی زینت بننا پسند کریں گے؟" ہنال نے دانت چباتے ہوئے کہا

"ہائے شعر یاد کروا دیا ایک،

عرض کیا ہے:
اس سے بہتر کہاں ملے گا گھر
آپ بلاک لسٹ میں میری رہا کیجئیے 😜" اپنے شعر کے اختتام پہ وہ خود ہی ہاتھ پہ ہاتھ مار کہ ہنس دیا. وہ ایسا ہی تھا ہنس مکھ سا.

"ہوگئی بکواس....چلو اب اپنا کام کرو اور مجھے بھی کرنے دو." ہنال نے ایسے شو کیا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو

"ابھی تو ساری رات تمہارا سر کھاؤں گا....تم نے دی گریٹ کمانڈو 7 کیپٹن عائق آفندی کو اگنور کیا ہے....ویسے تم کہاں ہو آجکل اور مشن کیسا جا رہا ہے." وہ واقعی ساری رات اسے جگانے کا ارادہ رکھتا تھا.

"اسلام آباد ہوں... مشن ابھی تک ٹھیک جا رہا ہے....انشااللہ بہت جلد کامیابی ملے گی.....اور معاف کرو مجھے...آنٹی سے میں بات کر لوں گی.....مجھے صبح بہت ضروری کام ہے....ساری رات نہیں جاگ سکتی تمہارے ساتھ." ہنال نے گھڑی پہ ٹائم دیکھا جہاں 9 بج رہے تھے.

"اچھا نہ بس تھوڑی دیر بات کر لو.... میں اکیلا ادھر اداس ہو جاتا ہوں تم سب کے بغیر... ویڈیو کال پہ آؤ....ایک منٹ سے پہلے." ہنال کو آرڈر کرتا وہ کال کاٹ گیا، اور وہ بس مسکرا کر رہ گئی.

کیپٹن ہنال وحید سے کوئی بات منوانی ہو تو یہ کام بس دو لوگ ہی کر سکتے تھے....ہادیہ بیگم جو کہ اسکی مام تھیں اور دوسرا کیپٹن عائق آفندی.
وہ واحد انسان جس کی ہر بات ہنال برداشت کر لیتی تھی...

عائق آفندی، کرنل آفندی کا اکلوتا سپوت تھا جو ہنال کے فادر لیفٹیننٹ کرنل وحید عالم کے فیملی فرینڈ تھے انہوں نے عائق کا لاابالی پن ختم کرنے کے لئے اسے فوج میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا.

اور پی ایم اے تو وہ جگہ ہے جہاں بڑے بڑے لوگ سیدھے ہوگئے....پر عائق کے مزاج میں رتی برابر فرق نہ پڑا البتہ اسکی پرسنیلٹی کافی گروم ہوگئی تھی.

ہنال اور عائق دونوں کی انٹیلیجنس کی ٹریننگ ایک ساتھ  ہوئی تھی، انکا تعلق سپیشل سروسز گروپ (SSG) کے
(spy commando 7)

Babrum Battalion
سے تھا....
کیونکہ ابھی وہ اتنے تجربہ کار نہیں تھے اسی لئے انہیں سیف ہاؤسز سے ہی مشن کنٹینو کرنے تھے، نئے ایجنٹس کا رابطہ ڈائریکٹ ہائی کمان سے نہیں ہوتا، بلکہ انکی Battalions  کی کمانڈ لیفٹیننٹ کرنلز اور دو
Independent commando companies        
کے ہاتھ میں ہوتی ہے  

ایس ایس جی کی کل آٹھ Battalions ہیں
جن میں ہر Battalion  سات سو جوانوں اور چار companies پر مشتمل ہوتی ہے، ہر ایک کمپنی platoons میں تقسیم ہے جو آگے جا کر 10 جوانوں کی ٹیم کی شکل اختیار کر لیتی ہے.

ٹریننگ کے دوران ہنال کو خاموش اور سنجیدہ دیکھ کر عائق کی برداشت جواب دے جاتی تو وہ بلاوجہ اسکے سر پہ سوار رہتا اور آج تکا سوار تھا.

ان دونوں کے صبر کی داستان ایک ہی تھی.
انہوں نے ایک ساتھ نوکیلے پتھروں پر چل کر اپنا خون بہایا تھا، ایک ساتھ اندھیری راتوں میں سناٹوں کو ناپا تھا، مل کر وہ زخم جھیلے تھے جس پر وطن کے پتھر روتے تھے، انہوں نے کئی راتیں کھلے آسمان تلے یخ ٹھنڈی راتوں میں بارش میں بھیگتے گزاریں تھیں، ایک ساتھ آگ اگلتے سورج کی گرمی میں تپتی ریت پر ننگے پاؤں چل کر ضبط کیا تھا، وہ دونوں ایک دوسرے کے ضبط کے گواہ تھے،
نوکیلے پتھروں پر چلنے سے پاؤں اور ایڑھیاں لہو لہان ہو جاتیں جس پر انہیں مرہم لگانے کی اجازت نہیں تھی، بوٹس پہنے اپنے خون رستے زخموں کو سب سے چھپایا تھا انہوں نے، آندھیوں طوفانوں کی پرواہ کئے بغیر بھاری بھرکم بوجھ کندھوں پر لادے نجانے کتنے پہاڑ انہوں نے سر کئے تھے، وہ مخافظ تھے اور مخافظ کمزور نہیں ہوتے وہ طاقت ہوتے ہیں اپنوں کی...
وہ اپنی ٹریننگ کی فلم اپنے ذہن کی سکرین پر چلتی دیکھ رہی تھی جہاں کون کون سی قربانیاں نہیں تھیں....

کچھ ہی سیکنڈز میں عائق کی ویڈیو کال آنے لگی تو ہنال نے سر جھٹک کر کال اٹھائی.

اب وہ دونوں ایک دوسرے کہ بلکل آمنے سامنے تھے.
"تم کب سے مولوی بن گئے...بتایا ہی نہیں!" ہنال نے اسکی بئیرڈ دیکھتے ہوئے کہا.....عائق اس وقت ایس ایس جی کا مخصوص یونیفارم پہنے، ہاتھ میں رائفل پکڑے ایک پہاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھا، ہلکی ہلکی داڑھی کے ساتھ بہت خوبرو لگ رہا تھا.

مشن کے دوران اسے شیو کرنے کا ٹائم بھی نہیں ملا تھا.....آج کوئی دو مہینے بعد وہ اس طرح سکون سے بیٹھا ہنال سے بات کر رہا تھا کیونکہ اسکا مشن بس کچھ ہی دنوں میں کامیاب ہونے والا تھا.
وہ اس وقت بلوچستان کے پہاڑی علاقے میں دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے اور بہت سے سانپوں کا سر کچلنے کے لئے موجود تھا....
بلوچستان کی ان سیدھی چٹانوں پہ قدم قدم پہ موت لکھی تھی، کہیں اندھیری کھائیاں تو کہیں دہشتگروں کی اندیکھی گولیوں کا خطرہ....لیکن وہ گوریلاز تھے، جنہیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں، وہ دشمن کا سراغ ملنے کے بعد اسے اسکے ٹھکانوں میں گھس کے جہنم رسید کرنا جانتے تھے.
تبھی اسکا چہرہ ہر قسم کے خوف سے پاک بلکل پر سکون تھا.

ہنال کی بات سن کے عائق کے چیرے پہ بےساختہ مسکراہٹ آئی.

"ہائے میری جھلی....بس سوچا کچھ نیا ہو جائے😂" عائق ہنال کو جیسا چھوڑ کر گیا تھا ویسا ہی سامنے پایا تھا.
گرے کلر کی فل سلیو شرٹ کے ساتھ بلیک جینز، لمبے بھورے بال چہرے پہ گرائے وہ ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھ کہ بیٹھی رف سے حلیے میں بھی بے حد خوبصورت لگ رہی تھی. ہنستے ہوئے اسکے دانت موتیوں سی چمک پیدا کر رہے تھے.
اسکے گال کا ڈمپل بار بار نمایاں ہو رہا تھا.

"اور پھر تم لیول بڑھا کہ نیکسٹ پہ آگئے😂." ہنال نے ہنستے ہوئے اسکا جملہ مکمل کیا.

"تم تو میرے ساتھ رہ کر بڑی سیانی ہو گئی ہو!" عائق نے انکھیں مٹکاتے ہوئے کہا اور ہنال نے اسے زبان دکھائی.

"ہر بات پہ کریڈٹ لینا ضروری ہے کیا😏؟" اس نے منہ کے زاویے بگاڑے.

"ہاں کریڈیٹ تو بنتا ہے....ویسے بھی تم ہر وقت ویمپائر بنی اپنی ٹیم کا خون جو چوستی رہتی ہو چڑیل." عائق اسے جان بوجھ کے چڑا رہا تھا.

"خود کیا ہو تم، موٹے سانڈ." اور وہ ہنال ہی کیا جو عائق کی باتوں سے چڑے نہ.

"دل تو پہلے ہی نہیں تھا تمہارے پاس، لگتا ہے اب آنکھوں سے بھی فارغ ہو گئی ہو."اسنے حیران ہوتے ہوئے اپنی طرف دیکھا.

"میرے پاس الحمداللہ دل اور آنکھیں دونوں سلامت ہیں اور سہی ہی تو کہہ رہی ہوں دیکھو یونیفارم میں بھی پورے نہیں آ رہے....ایسا لگ رہا ہے کہ پھٹ جاؤ گے ابھی." ہنال منہ پہ ہاتھ رکھتی ہناتی ہوئی بولی.

"اسے six packs کہتے ہیں محترمہ اور یہ بڑی جان کھپانے کے بعد بنے ہیں....اویں ہی نہ مجھے نظر لگاتی رہا کرو." عائق اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا....وہ واقعی ایک کسرتی جسم والا، طاقتور آدمی تھا.

"میں تمہیں نظر لگاتی ہوں؟" ہنال نے بے یقینی سے آنکھیں پھاڑ کر موبائل کی سکرین پر دیکھا جدھر وہ اپنی ہنسی روکے بیٹھا تھا.

"ہاں نہ.....تم جلتی ہو کہ کہیں مجھ شہزادے کو کوئی پری نہ لے اڑے.....ایسے تو تم ہاتھ ملتی رہ جاؤ گی نہ....تبھی مجھے نظر لگاتی رہت....." وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ پیچھے سے گولیوں کی تڑتراہٹ گونجی.

دشمن نے ایک بار پھر پیٹ پیچھے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا.... گولیوں کی آواز سے ہنال یکدم سنجیدہ ہوئی.

عائق نے پتھر کی اوٹ سے سر نکال کر دیکھا جدھر اسکی پلٹون کے جوان دشمن کو بھرپور جواب دے رہے تھے.

"ٹیک کئیر بڈی....وطن کا قرض چکانے کا وقت آ گیا ہے....اٹس ٹائم فار ایکشن." یہ کہہ کر اسنے بھرپور مسکراہٹ سے ہنال کو دیکھا اور اپنی 106 ایم ایم ریکولیس اٹھا کر دشمن کو ٹکر دینے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا.
کال کٹ چکی تھی....ہنال ابھی بھی موبائل ہاتھ میں ویسے ہی پکڑے بیٹھی تھی...
اسکے ہونٹوں نے ایک سرگوشی کی تھی "اللہ کے امان میں"
موبائل کی سکرین پر جگمگاتا وہ چہرہ گم ہو گیا......اور سکرین بالکل سیاہ....بلکل اسکی زندگی کی طرح!!

•_•

وہاں سے ہاں کی تمنا میں عمر بیت گئی
جہاں نہیں کہ سوا دوسرا جواب نہیں!

وہ اس وقت اپنا یونیفارم پہنے، چہرے پر ماسک چڑھائے، ایک گھر کی دیوار کے ساتھ لگے پائپ پر بڑی مہارت سے چڑھ رہا تھا.
پائپ کی مدد سے اسنے ایک کمرے کی بالکونی میں چھلانگ لگائی، اسکے کودنے سے بھی کوئی آواز پیدا نہ ہوئی کیونکہ وہ ایک خاص قسم کے جوتے پہنے ہوئے تھا جن کی چاپ نہ ہونے کے برابر تھی.
اپنے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے اسنے بالکونی سے کمرے میں کھلنے والے دروازے کو دھکیلا تو وہ اندر سے لاک تھا.
کچھ سیکنڈز سوچنے کے بعد
ضرار نے اپنی جیب میں سے ایک کارڈ نکالا اور اسے دروازے کی سلائیڈ میں سے اندر گزار کر لاک کو دائیں طرف دھکیلا.
اسکے ایسا کرنے سے تھوڑی ہی دیر میں لاک کھل گیا.
ایک ہاتھ سے اسنے اپنی سائلنسر لگی گن کو مضبوطی سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے دروازہ کھولا

وہ بلکل چوکنا ہو کر اندر داخل ہوا جہاں کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا.
وہ ایک کے بعد ایک قدم اٹھاتا اندر آیا جہاں اس وقت کوئی موجود نہیں تھا،
بغیر کسی بھی چیز کو ہاتھ لگائے وہ اندھیرے میں بھی ہر چیز کا جائزہ لے چکا تھا، لائٹ آن کرنے کی حماکت وہ نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ اس سے وہ دشمن کو اپنی موجودگی کے بارے میں مطلع کر دیتا.

"راستہ کلئیر ہے...آگے بتاؤ وہ دروازہ کدھر ہے؟" اسنے اپنے کان میں لگی ڈیوائس پر انگلی رکھ کر پوچھا،
سامنے سے اسے اگلا قدم بتایا گیا.

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا سامنے بنے بک ریک کی طرف گیا اور ایک کتاب کو تھوڑا سائیڈ پہ کھسکایا
ایک دم سے بک ریک کے پیچھے ایک دروازہ کھلتا چلا گیا...
اسنے آگے پیچھے دیکھ کر کسی کے نہ ہونے کی تصدیق کی اور بغیر ذرا سی بھی آواز پیدا کئے دیوار کے ساتھ لگتا اس کفیہ کمرے میں داخل ہوا.

کمرہ نہیں اسے اگر کمپیوٹر لیب کہا جائے تو بہتر ہو گا.
جگہ جگہ کمپیوٹر اور ہیکنگ ڈیوائسز موجود تھیں.

"میجر ضرار حیدر، یو ہیو اونلی فور منٹس لیفٹ! پھر سارا سیکیورٹی سسٹم واپس آن ہو جائے گا....اس سے زیادہ دیر نہیں لگا سکتے آپ." اسکے کان میں لگے ڈیوائس سے آواز ابھری.

اسنے اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے ایک چھوٹی سی چپ نکالی اور اسے سامنے پڑے کمپیوٹر میں لگا دیا....
گلوز پہنی اسکی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر حرکت کر رہی تھیں...... مطلوبہ فولڈر ملتے ہی کلک کیا تو سامنے پاسورڈ کے الفاظ ابھرے.
بغیر ذرا سی دیر کئے اسنے پاسورڈ انسرٹ کیا اور وہ فائل کھل گئی.
60%.....75%....99%
کچھ ہی سیکنڈز میں دشمن کا سارا ڈیٹا اسکی  چھوٹی سی چپ میں کاپی ہو چکا تھا.
اسنے وہ چپ باہر نکالی اور اسے واپس جیکٹ کی جیب میں رکھ کہ ایک اور چپ کمپیوٹر کے ساتھ اٹیچ کر دی.

وہ جیسے اندر آیا تھا ویسے ہی بغیر کسی اور چیز کو ہاتھ لگائے دیوار کے ساتھ ہوتا ہوا باہر آیا.
روم کا دروازہ بند کرکے کتاب کو واپس اسکی جگہ پر سیٹ کیا اور بالکونی کی طرف چل دیا.
پائپ کی مدد سے وہ جلدی سے نیچے اترا....لیکن تب تک سارا سکیورٹی سسٹم آن ہو چکا تھا.

"میجر! سیکیورٹی سسٹم آن ہو گیا ہے.....جلدی سے وہاں سے نکلیں." ایک چنگھاڑتی ہوئی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی.
وہ سیاہ ہیولہ چھپتے چھپاتے اس گھر کی پچھلی دیوار کے قریب پہنچا.

اسنے اپنی جیکٹ کی نیچے پہنی سیاہ شرٹ اتاری اور اسکے دو حصے کر کے جیکٹ دوبارہ پہن لی.
شرٹ کے دونوں حصوں کو اسنے گلوز پہنے اپنے دونوں ہاتھوں پر باندھ لیا.
دیوار کہ اوپر لگی وائرز جن میں کرنٹ دوڑ رہا تھا انکے لئے یہ کپڑا بہت چھوٹی سی رکاوٹ تھی.
اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ضرار نے دیوار پر ہاتھ رکھا جس پر کرنٹ کا ایک جھٹکا اسکے اعصاب ہلا گیا.

وہ ہمت کر کے اوپر چڑھا لیکن کرنٹ اسکے جسم میں بہتے خون کے بہاؤ کو روک رہا تھا.
اوپر چڑھتے ہی خود بخود وہ ایک جھٹکے سے گھر کے باہر کی طرف جاگرا.

ہاتھوں پر بندھا کپڑا جل گیا تھا اور اسکے ہاتھوں کی جلد بھی نیلی پڑ رہی تھی....آنکھوں کہ نیچے ہلکے واضح ہو رہے تھے.

وہ ہمت کرتا اٹھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے تھوڑے دور کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھا.
اسکے اعصاب اس قدر مضبوط تھے کہ کرنٹ کے اتنے شدید جھٹکوں کہ باوجود وہ اپنے قدموں پہ کھڑا تھا...

وہ تیز تیز قدم بڑھاتا کار کے پاس پہنچا اور اسکے بیٹھتے ہی ساتھ بیٹھے آدمی نے گاڑی ریورس کی اور زن سے بھگا لے گیا.

"میجر آپکو فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہے!" ساتھ بیٹھے گاڑی چلاتے میجر فاز نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے کہا، وہ گاڑی چلاتا ایک نظر ساتھ بیٹھے ضرار پر ڈالتا.

کشادہ سینہ، کسرتی بازو، ورزشی جسم، گورا رنگ، گہری جھیل سی آنکھیں، دراز قد، چوڑا ماتھا جس پر بھورے بال براجمان تھے، ہونٹوں کے اوپر دائیں سائیڈ پہ چھوٹا سا تل جوکہ اس وقت ہلکی ہلکی داڑھی مونچھوں میں گم تھا، بے شک فاز نے اپنی زندگی میں اتنا دلکش اور خوبرو مرد نہیں دیکھا تھا...اسکی پرسنیلٹی مقابل کو زیر کرنے کا ہنر رکھتی تھی.
لیکن اس وقت وہ کچھ اور ہی لگ رہا تھا، ہاتھوں پہ جلے ہوئے گلوز پہنے، آنکھوں کے نیچے نمایاں ہلکے، نیلے پڑتے ہونٹ، کیونکہ ابھی وہ ایک زبردست کرنٹ کا جھٹکا کھا کہ آ رہا تھا پر پھر بھی وہ سہی سلامت بیٹھا تھا
اتنے درد سے گزرنے کہ بعد بھی ضرار کہ چہرے پر ایک مسکراہٹ رقصاں تھی.

"نہیں فاز، یہ درد نہیں ہے، یہ وہ سکون ہے جو کسی بھی کمانڈو کی رگوں میں اپنے وطن کو خطرے سے محفوظ کرنے کے بعد دوڑتا ہے." ضرار سیدھا ہو کر بیٹھتا ہوا مسکرا کر گویا ہوا.

"یہ لوگ خود کو کیا سمجھتے ہیں، آئی ایس آئی میں اپنے دو بندے ڈال دیں گیں تو کیا؟
وہ ساری عمر بھی لگا لیں، آئی ایس ائی کے منصوبوں کی دھول تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے....آئی ایس آئی وہ طاقت ہے جو نظر تو نہیں آتی، پر اپنے ہونے کا احساس تب دلاتی ہے جب واپسی کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں، مارخور اپنے خفیہ انداز سے وار کرتا ہے، جسے دشمن ہلکا لیتا ہے اور اگر مارخور خاموش ہو تو دشمن اسے اپنی جیت سمجھ لیتا ہے، ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں کہ مارخور جب وار کرتا ہے تو سامنے والے کو اسکا انجام سوچنے تک کی مہلت بھی نہیں ملتی، عنقریب بھارت کے بےشمار ٹکڑے ہوں گیں." اور آخر کیوں نہ ہوتے بھارت کہ ٹکڑے، اسکی چہیتی را نے پاکستان کی آئی ایس آئی پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کی تھی.

"مارتھا اور کرشن دیو نے ہمیں سمجھنے میں غلطی کر دی ہے، مارخوروں کے دماغ را کی گنجھی منجھی کھوپڑیوں سے بہت اوپر ہیں." میجر فاز نے ضرار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.

لكل اجل كتاب○
ہر کام کا مقرر وقت لکھا ہوا ہے
                                     (سورة الرعد ٣٨)

ضرار نے سورة الرعد کی آیت ترجمے سے پڑھی تو فاز نے بےشک کہہ کر سر جھکایا.

•_•

اس سے پہلے کہ یہی کام زمانہ کر دے
میری بات مان لے مجھے روانہ کر دے

"ارے، پچھلے دو مہینوں سے تمہیں مال پہنچا رہا ہوں.....کبھی کوئی غلطی کی ہے بھلا؟" کوبرا سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا.

"ہم نے کب کہا کہ ہمیں تم پہ وشواس نہیں ہے....بس چنتا لگی رہتی ہے....آجکل ایجنسی والے بہت جوش میں ہیں." مقابل نے قدرے توقف کے بعد کہا.

"کرشن دیو....چھوڑ یہ چنتا ونتا....ایک تو کیا دس ایجنسیاں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں....ویسے بھی جب زی واپس پاکستان آ چکا ہے....اب ہمیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا." اسنے لاپرواہی سے کہتے ہوئے سگریٹ کو سائیڈ پر پھینکا.

"ہممم...چلو آگیا (اجازت) دو کام ہونے پر ملتے ہیں." کرشن دیو نے اسکی بات پر یقین کر لیا.
کیونکہ وہ دو سال سے آئی ایس آئی میں ایک ایجنٹ کے طور پر چھپ کر پاکستان کے نیوکلیئر  ہتھیاروں کی معلومات چوری کرنے کی تگ و دو میں تھا....
لیکن ابھی تک ایسا کچھ بھی اسکے ہاتھ نہیں لگ پایا تھا.

کرشن دیو اور مارتھا را کی طرف بھیجے گئے جاسوس تھے....انہیں خاص طور پہ پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا....
کوئی کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اسکا حریف طاقتور بنے....وہ پاکستان کو کیسے ایک ایٹمی قوت کے روپ میں دیکھ سکتے تھے.

"اوکے." کوبرا نے یہ کہہ کر کال کاٹی اور فون پاس کھڑے آدمی کو تھما دیا.

"باس ایک نئی لڑکی ہاتھ لگی ہے....قسم سے کیا حور ہے....آپ دیکھیں گیں نہ تو اس ہالہ کو بھول جائیں گے." عاشر نے کابرا کے ہاتھ سے فون پکڑتے ہوئے خباثت سے کہا.

"ایسی بھی کیا پری ہے....اور اس ہالہ (گالی) کا غرور تو میں توڑ کے رہوں گا....سمجھتی کیا ہے خود کو." کوبرا ہالہ کے نام پر تیش میں آ گیا.

ہالہ عاشر کی ہی یونی فیلو تھی....بے شک وہ بہت معصوم اور پیاری لڑکی تھی پر کوبرا کی نظر اس پہ پڑ چکی تھی....وہ ایم بی اے کی سٹوڈنٹ تھی....اس بیچاری کو تو معلوم بھی نہیں تھا کہ قسمت اسکے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی تھی.

·_·

سنی سنائی پہ لشکر کشی سے بہتر تھا
تو دیکھ لیتا مجھ سے گفتگو کر کے

"جی کام ہو گیا ہے." زی اس وقت اپنی  سٹڈی میں کھڑا کسی سے فون پہ بات کر رہا تھا کہ تبھی جیکب اندر داخل ہوا.

زکوان نے جیکب کو آتا دیکھ کر کال کاٹی اور ماتھے پر تیوری لئے جیکب کے بلکل سامنے جاکر کھڑا ہوگیا.

"کیا تم بھول گئے ہو کہ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازہ ناک کیا جاتا ہے." اسکی بات پر جیکب کا گلا خشک ہوا کیونکہ اسنے خود اپنی شامت بلائی تھی.

"سوری باس" اسنے ہچکچاتے ہوئے کہا.

"ایک دن تمہاری وجہ سے میں بہت بڑی مصیبت میں پھنس جاؤں گا اور تم سوری کہہ کہ نکل لینا."

زکوان کی بات پہ جیکب نے اپنا جھکا ہوا سر مزید جھکا لیا.

"بولو کیوں آئے تھے." زی اب اسے دور ہوتا ہوا چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولا.

"باس وہ کوبرا کی کرشن دیو سے بات ہوئی تھی....اسکا کہنا ہے کہ ایجنسی والے چوکنے ہو گئے ہیں...ایسے میں بلاسٹ کروانا خطرے سے خالی نہیں." اسنے ہچکچاتے ہوئے کہا تو ذی نے بغور سامنے کھڑے اٹھائیس سال کے اس نوجوان کو دیکھا..

"کیا مطلب؟ اب تم مجھے بتاؤ گے کہ کب کیا کرنا ہے..." زی نے درشتگی سے کہا

"نہیں باس...میں تو بس..." اسکے کچھ بولنے سے پہلے ہی زی نے اسے چپ کروا دیا.

"بس بہت ہوگیا....جاؤ تم یہاں سے." اسکے ایسا کہنے پر جیکب نے تابداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلے جانے میں ہی عافیت جانی.

اور زی کمرے سے نکلتے جیکب کی پشت دیکھ کر رہ گیا.


جاری ہے.....
السلام عليكم پیارے ریڈرز
جی تو کیسی لگی آپکو اپیسوڈ؟
تھوڑی سیریس تھی لیکن ایس ایس جی سے ریلیٹڈ معلومات بلکل حقیقی ہے...
اب آپ لوگ تکے لگائیں ذرا کمنٹس میں اور بتائیں کہ زی، ولی، فاز، ضرار، عائق کون کون کیا ہے😂
انشااللہ آپ کو پسند آئے گی.
مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ووٹ کرنا نہ بھولیں.
فی امان اللہ

Please do vote n comment if u like the episode.
Waiting for your precious feedback❤

Continue Reading

You'll Also Like

38 3 1
یہ کہانی ہے دو ایسے محبت کرنے والوں کی جو ایک دوسرے کی محبت سے انجان زندگی کے کئی سال اپنی محبت کے انتظار میں تڑپتے ہیں۔۔
0 0 3
6歳の時に黒いスーツを着た5人の男とカウルマスクの男に人質に取られ母親を亡くした若い女性たちが、国家公務員として働く資産家である父親「ケビン・マイヤーストン」の財産を狙っていた。 裁判官は正義をもたらす人々を支援するために到着し、警察とFBIは男性を捕らえたが、カウルマスクをした男は逃走した、警察...
7 0 3
ماذا لو كيم نامجون احب ابنت عمتهو و هانته و احب ابنت عمه و هي تحب فتي اخر كيم نامجون عمره 35 فتي وسيم صاحب اكبر عصابات مافيا في العالم كيم ستيلا (ا...