بے ربط موتی

By Hudaya_Writes

2.3K 131 88

زندگی کے تلخ اور خوبصورت حقائق پر مبنی ایک کہانی امید ہے آپ کو پسند آئے گی More

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12

Episode 4

160 13 8
By Hudaya_Writes


آج آئمہ کو  ٹرپ پر گئے پانچ دن ہوگئے تھے۔پہلے ہنزہ جانا تھا پر کچھ وجوہات کی بنا پر ہنزہ سے کینسل کر کے انکا ٹرپ آزاد کشمیر، نیلم ویلی کے لیے پلان ہوگیا تھا اور اب کل شام سے انکا آئمہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔سب پریشان تھے۔ عجیب عجیب سے وہم آرہے تھے اور کسی میں ہمت نہیں تھی کے اُن وہموں کو بیان کر سکتا۔۔سب دعاگو تھے۔۔سب ٹی وی لاؤنج میں موجود تھے۔

"بات ہوئی آئمہ سے کسی کی۔" اموں نے پوچھا۔

اتنے میں اشعر باہر سے آتا ہوا دکھائی دیا۔

"جی اموں۔ میری ہو گئی ہے بات۔" اشعر کی طرف سے جواب آیا، جس سے سب نے سکھ کا سانس لیا۔

"تو فون کیوں بند تھا؟ اب کدھر پہنچے ہیں؟" راحیلہ بیگم نے بےچینی سے پوچھا

"کہہ رہی تھی کے کل پہلے سروس پروبلم ہورہی تھی، نیلم ویلی میں سروس بند کر دیتے ہیں۔ وائی فائی سے کنیکٹ کر کے کال کرنے لگی تو بیٹری لو ہوگئی تو کال نہیں کر پائی۔تو اب مظفرآباد ہیں۔سروس ہوگئی ہے آن۔کر لیں بیشک کال اب" اشعر نے بتایا۔

" واپسی کب ہے؟ کچھ تو بتایا ہوگا؟" شیزا بولی۔جس کو آئمہ کی بےتحاشہ کمی محسوس ہورہی تھی۔

"ہاں کہہ رہی تھی کے بس اب واپسی ہے، اسلام آباد ایک دن سٹے کرنا ہے۔پھر واپس" اشعر فون استعمال کرتے ہوۓ بولا۔

"مظفرآباد سے چل پڑے ہیں یا نہیں؟" اموں نے پوچھا۔

"نہیں کہہ رہی تھی کل صبح نکلنا ہے، ابھی شام میں تو پہنچے ہیں۔" اشعر بولا

"کل کتنے بج؟" شیزا نے پوچھا

"مجھے نہیں پتہ یار۔ خودی پوچھ لو۔ آپ لوگ اب سوال جواب ہی کرینگے یا مجھ معصوم کی پیٹ پوجا بھی کرواینگے۔" اشعر نے پیٹ پکڑتے ہوئے کہا

"بُھکڑ۔" شیزا اُٹھ کے کچن کی طرف بڑھ گئی

اشعر نے آئمہ کے علاوہ کسی اور کی کمی محسوس کی تو پوچھ بیٹھا۔۔

"عوام کم کیوں لگ رہی ہے۔۔مانا کے ایمی دو لوگوں کے برابر ہے۔۔ گینڈی عورت۔۔پر۔۔اوہ اچھا۔۔شاہ بھائی کدھر ہیں؟ دکھائی نہیں دے رہے۔" بولتے بولتے یک دم سے اُس نے محسوس کیا اور پوچھ بیٹھا۔

"وہ دوستوں کی طرف گیا ہے۔۔ ڈنر کا پلان تھا۔" اموں نے بتایا۔۔۔وہ کہہ نہیں سکیں کے اُسکی بات رد کر کے آئمہ کو بھیجنے کی وجہ سے وہ ناراض ہوا وا ہے۔ اور گھر سے باہر ہی رہتا ہے۔

"اوہ اچھا۔۔ شیزو پیزو۔۔ کھانا لگوا بھی دو یار۔۔پیٹ میں چوہے بھی اب ہاتھ جوڑ کے منتیں کر رہے کے بھائی کھانا ڈال دو اندر۔" اشعر نے صوفے پے بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی۔

"ہاں ہاں لگ گیا ہے بھُکڑ۔۔ آجائیں سب۔۔۔" شیزا نے اسکو کہا پھر سب کو مخاطب کیا۔

سب ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ گئے اور خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔کل سے ایمی کی پریشانی کی وجہ سے کوئی سہی سے کھا نہیں رہا تھا اور اب سب کو زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔

"اتنی شانتی سے تو نہ کھائیں اب آپ لوگ۔۔ایسا لگ رہا کسی کے سوگ پہ بندہ آیا ہوا ہے۔۔" کھانا کھاتے ہوئے اشعر بیزار ہوا۔۔وہ یہ نہیں کہہ سکا کے اسکو ایمی کی یاد آرہی ہے۔

"برخوردار! ایمی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔یہ ساری رونق اُسی کے دم سے ہوتی ہے" بابا نے اشعر کی کھنچائ کی۔

"ہنہ اتنا بھی نہیں ہے اب۔۔میں کس مرض کی دوا ہوں۔۔میں نے کب کہا ایمی بننے کو۔۔ویسے ہی کہہ رہا تھا کوئی تو بات کریں۔۔مجھے کھانا نہیں ہضم ہونا ایسے۔۔" اشعر منہ بنا کر بولا

"اچھا۔۔یہ بتاؤ رزلٹ کب آرہا دونوں کا؟ کیا امید رکھیں ہم؟" بابا شرارتی انداز میں گویا ہوۓ۔

"بابا!! دکھتی رگ مت چھیڑا کریں۔۔آپ رہنے دیں کوئی بات نہ کریں بیشک۔۔۔ایسی باتیں سن کر تو میرا کھانا ہی باہر آ جانا ہے۔۔" اشعر آہستہ سے بولا۔

"ہاہاہا۔۔خودی تو کہا تھا بات کرو۔۔اچھا ایڈمشن آئمہ لوگوں کے ساتھ ہی لینا ہے۔۔؟" بابا نے یاد آنے پر پوچھا۔

"جی بابا ان شاء اللہ۔" احسن پانی پیتے ہوئے بولا۔

"اوقات میں رہ کر بول۔" اشعر نے دانٹ کچکچاتے ہوئے احسن کے کان میں کہا۔

"تیرا پتہ نہیں۔۔میں تو ادھر ہی جاؤنگا۔" احسن مسکراتے ہوئے سیدھا ہوا۔

"چل پھر تو چل تے میں آیا۔تو جدھر میں ادھر۔" اشعر سیدھا ہوکر بولا۔

"دونوں کھانے کے بعد مجھے سٹڈی روم میں ملو آ کر۔۔" عاطف صاحب نے اشعر اور احسن سے کہا اور اُٹھ کر چلے گئے۔

"لے بھئ بیٹا لگ گئی واٹ اب۔" اشعر نے پاپا کے جاتے ساتھ کہا۔

کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں اُٹھ کر سٹڈی روم کی طرف بڑھ گئے، جو اوپر والے پورشن میں تھا۔
عاطف صاحب نے اُنکو گائیڈ کیا کے وہ دونوں کونسا سبجیکٹ چوز کریں، کس کا کتنا سکوپ ہے اور پھر تھوڑی کونسلنگ کر کے اُنکو جانے دیا۔

"جان بچی سو لاکھوں پائے" اشعر کے دل کی آواز 😂
۔۔۔۔

آزر صاحب کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ اور سلمہ بیگم کا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں سلمہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں اور آزر صاحب کو انکا کافی کا مگ پکڑایا۔

"خیریت؟ پریشان لگ رہے ہیں۔آفس میں کوئی مسئلہ ہوا ہے؟" سلمہ بیگم نے اندازاً پوچھا۔

"ارے نہیں بیگم صاحبہ۔" آزر صاحب بیساختہ مسکرائے۔

"پھر۔" سلمہ بیگم نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"پھر یہ بیگم صاحبہ، اب ہم بوڑھے ہو رہے ہیں اور ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں۔" آزر صاحب صوفے پہ بیٹھ کر کافی پینے لگے۔

"کیا مطلب کھل کے کہیے۔کیا ہوا؟" سلمہ بیگم پریشان ہوئیں۔

"اِدھر آئیں۔" آزر صاحب نے اپنے ساتھ اُنکو صوفے پر  بٹھایا اور گویا ہوۓ۔

"میرا دوست ہے نا سرمد۔جو ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگیا تھا فیملی کے ساتھ۔" آزر صاحب نے بولنا شروع کیا۔

"جی جی۔ حیدرآباد والے نا۔۔اُنکو کیا؟ اللہ خیر کرے۔" سلمہ بیگم پریشان ہوئیں۔

"ارے حوصلہ بیگم۔ کچھ نہیں ہوا۔ انکا اکلوتا بیٹا سبحان جو پڑھائی کمپلیٹ کر کے سرمد کے ساتھ بزنس سنبھال رہا ہے اُسکا رشتہ آیا ہے، اپنی شیزو کے لیے۔" آزر صاحب نے گویا دروازے کے پاس کھڑے وجود پر بمب پھوڑا۔

"اوہ۔آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ اچھا۔۔ما شاء اللہ۔ کب۔ فون آیا تھا کیا؟" سلمہ بیگم نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کئی سوال کر ڈالے۔

"نہیں۔ آیا ہوا ہے سرمد پاکستان۔ آفس میں ملنے آیا تھا کل۔۔آئمہ کی پریشانی کی وجہ سے بھول گیا تھا۔ ابھی یاد آیا۔"

"اوہ اچھا۔تو پھر آپ نے کیا سوچا۔" سلمہ بیگم نے پوچھا۔

"مجھے تو مناسب لگا ہے۔آپ شیزا سے پوچھ لیں ایک دفعہ۔" آزر صاحب بولے۔

اور بھی بہت کچھ بات ہورہی تھی اسی حوالے سے پر دروازے کے پاس کھڑا وجود وہاں سے ہٹ گیا۔

"شیزا سے پوچھ کے آپکو بتا تو دوں پر مجھے تھا کے آپ خود بات کرتے۔" کمرے میں موجود سلمہ بیگم بولیں۔

"نہیں آپ ماں ہیں۔اس حوالے سے بیٹیاں ماں کے ساتھ زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتیں۔" آزر صاحب نے انکار کیا۔

"پر بچے آپ سے زیادہ اٹیچ ہیں۔" سلمہ بیگم نے جواز پیش کیا۔

" بیگم اس حوالے سے نہیں کھل کے بات کر سکتے بچے۔جو بھی ہے باپ ہوں میں۔میں ویسے نہیں بات کر سکونگا جیسے ایک ماں کر سکتی ہے۔" آزر صاحب نے سمجھایا۔

"اوکے ۔۔سہی ہے میں بات کر لیتی ہوں ابھی۔ اللہ سب کے حق میں بہتر کریں۔" سلمہ بیگم نے کہا اور اُٹھ کر شیزا کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

۔۔۔۔

آج آئمہ آ رہی تھی۔ اور سب سے زیادہ خوشی شیزا کو تھی کیونکہ اس کے پاس بہت کچھ تھا بتانے کو۔ کل جب اموں اُس سے پوچھ کر گئی تھیں تو اُس نے اچھی بیٹی بنتے ہوئے ہاں کر دی تھی، وہ یہی تو کرتی آئی تھی کہ جیسے بڑے کہینگے وہ وہی کریگی۔

گیٹ پر ہارن کی آواز آئی اور شیزا بھاگتے ہوۓ دروازے پر پہنچی۔پر آئمہ کو دیکھتے ساتھ چیخ نکل گئی۔

"ایمی۔۔یہ۔۔یہ کیا ہوا ہے؟ یہ پاؤں پر چوٹ کیسے لگی؟ یہ ماتھے پر بھی۔۔تم ٹھیک ہو؟ بول بھی گونگی ہو کر آئی ہے کیا؟" شیزا تو شروع ہی ہوگئی۔

"تم چپ کروگی تو وہ بیچاری کچھ بولنے کی زحمت کرے نا۔" اشعر نے آئمہ کو سہارا دیتے اندر لے جاتے بولا۔

"تم ٹھیک ہو ایمی؟" شیزا رونے والی ہوگئی۔

آئمہ سے وہ بچپن سے اٹیچ تھی۔ ہر دُکھ سکھ میں۔ ہر وقت کا ساتھ تھا۔اور اب اتنے دنوں بعد دیکھ رہی تھی۔وہ بھی اس حالت میں۔

"ارے ٹھیک ہوں یار۔ ہر وقت سینٹی نا ہوا کر۔" آئمہ نے شیزا کا ہاتھ تھامتے ہوئے تسلّی دی۔

اشعر نے آئمہ کو لاؤنج میں لا کر بٹھایا اور کچن میں چلا گیا۔ اب آئمہ سب کو تسلّی دے رہی تھی کے میں بلکل ٹھیک ہوں۔ اموں اور ماما کو تو تسلّی ہوگئی پر شیزا کو سکون نہیں آرہا تھا۔

"اڑنگ کیل میں ہائیکنگ کرتے ہوئے پاؤں مڑ گیا تھا اور سہارا لینے کے چکر میں درخت سے ٹکرا گئی تھی۔بس۔۔وہ تو سعدیہ نے بروقت ہاتھ پکڑ لیا۔۔ورنہ اور پتہ نہیں کتنی چوٹیں آتیں۔ آئمہ نے بتایا۔

ڈاکٹر کو چیک کروایا تھا یا ایسے ہی پھر رہی ہو؟ شیزا نے پریشان ہوتے پوچھا۔

ہاں جی۔ مظفرآباد میں دکھایا تھا، ویسے جب چوٹ لگی تھی تب سعد بھائی ہیں ہماری کلاس میں۔انہوں نے فوراً فرسٹ ایڈ دے دی تھی۔اُنکی بہن ڈاکٹر ہیں۔تو اُنکو آئیڈیا تھا۔ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا سارا ٹرپ برباد جانے والا ہے۔۔زبردستی جانے کی سزا ملی ہے۔" آئمہ ہنستے ہوئے بولی۔

"اتنا کچھ سمجھا کر بھیجا تھا پر اس بھیجے میں کچھ گھسے تب نا۔" شیزا غصے سے بولی۔

"لو اب بس بھی کر۔۔ آتے ساتھ کلاس لینے شروع ہوگئے ہو سب۔اس سے اچھا تو میں وہیں لڑھک۔۔۔" آواز منہ میں ہی تھی جب شیزا نے اُسکے بازو پر مُکہ جڑا۔

"منہوس شکل،،بوتھا چنگا نہیں ہے۔بات تو کم از کم چنگی کر لیا کر۔"

"اچھا بابا۔معاف کر۔" آئمہ ہنسی

اموں اور ماما اُنکو کھانے کا بول کر کچن کی طرف بڑھ گئیں۔۔بابا اور پاپا آفس تھے، شاہنواز بھی آفس تھا۔۔۔احسن آج کل کہیں غائب تھا، ابھی بھی دوستوں کی طرف گیا ہوا تھا۔

"بیٹا ابھی تو بابا ،،پاپا کے سامنے بھی حاضری ہونی۔۔تیار رہ۔" شیزا نے ڈرایا۔

"میں بھی قسم سے وہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہی تھی۔" آئمہ نے منہ بسور کر کہا۔

"چل چھوڑ، دیکھی جائیگی۔۔آ تو میرے کمرے میں ہی آ جا۔ چینج کر لے،، پھر مل کر لنچ کرتے، میں نے تیری آنے کی خوشی میں ناشتا بھی سہی نہیں کیا ہوا۔" شیزا اُٹھتے ہوئے بولی

"دفع ہو۔۔ پاگل ہے پوری تو۔ چل اِدھر آ سہارا دے۔۔" آئمہ نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا

"ہاں ہاں۔۔آجا۔" شیزا نے فوراً اُسکے ہاتھ پکڑے

"گرا نہ دیں بہن۔ تیرا کوئی بھروسہ نہیں۔" آئمہ کھڑے ہوتے بولی

"میں تجھے کبھی گرنے نہیں دونگی۔" شیزا سینٹی ہوتے ہوئے منہ بنا کر بولی

"اش۔۔ کیا ڈائیلاگ مارا ہے۔" آئمہ کا ہلکا سا قہقہ گونجا

"دفع ہو۔ کمینی۔۔ ایک تو لوگوں کو عزت راس نہیں آتی۔" شیزا نے ہنستے ہوئے بولا۔ دونوں کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

۔۔۔۔

"چاۓ۔۔" شزا نے کپ آئمہ کے سامنے کیا جو شیزا کے کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی باہر کہیں کھوئی ہوئی تھی۔

شیزا کی آواز پر چونکی اور سامنے بیٹھتی شیزا کے ہاتھ سے کپ پکڑا۔

"نوازش۔شدید طلب ہورہی تھی۔" آئمہ سیدھے ہو کر بیٹھتی بولی

"کیا سوچ رہی تھی؟" شیزا نے اُسکا بجھا چہرہ دیکھتے ہوئی پوچھا۔

"کچھ نہیں ایسے ہی بس۔وہی پرانے دُکھ ہیں۔۔ ہم انسان کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ اُس سے پیار کرتے ہیں جو ہمارا نہیں ہوسکتا۔اور جو ہم سے پیار کرتے ہیں اسکو چھوڑ دیتے ہیں۔ مکافات عمل اسی کو کہتے ہیں شاید۔" آئمہ پھیکا سا مسکرائی۔

"کیا ہوگیا بہن۔اب کس نے دل توڑ دیا تیرا؟" شیزا نے پوچھا۔

"ایک ہی نے توڑا ہے بس۔اب کوئی اور اس ٹوٹی ہوئی چیز کو کتنا توڑے گا۔" آئمہ شیزا کو دیکھ کر عجیب انداز سے ہنسی۔

"سینٹی ہوئی وی ہے۔۔کسی نے کچھ کہا ہے؟ شاہ بھائی نے؟" شیزا کو سمجھ آ رہی تھی۔

"جانے انجانے یہی تو دُکھ ہے۔اُس نے کچھ نہیں کہا۔مجھ سے سب نے پوچھا چوٹ کیسی ہے۔۔اُس نے نہیں پوچھا۔" آئمہ نے دُکھ سے بولا۔

"اگر وہ پوچھ لیں ہم سے تمہیں کس بات کا غم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے اگر وہ پوچھ لیں ہم سے"

"ارے یار پتہ تو ہے اُنکا۔چھوڑ۔۔نا سوچ۔۔خود ہی تکلیف ہوگی۔" شیزا نے آہستہ سے بولا۔

"کوشش تو کر رہی ہوں۔اور کیا کروں۔ہمت ہارتی جا رہی ہوں۔ اللہ سے دعا بھی کے رہی ہوں، پر سکون نہیں آ رہا." آئمہ چائے پیتے بولی۔

"سوری یار۔ساری غلطی میری ہے۔مجھے تجھے اتنا تنگ نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ کچی عمر تھی۔تب ایسی باتیں واقعی نہیں کرنی چاہیے تھیں۔" شیزا کو دُکھ اسی بات کا تھا۔

"یہی تو دُکھ ہے۔کچی عمر تھی۔روگ پکّا لگا گئی ہے۔۔" آئمہ نے آخری گھونٹ پیا۔

"کچی عمر کا عشق بڑا پکّا ہوتا ہے"

"اور تیری کوئی غلطی نہیں ہے۔۔میری قسمت میں تھا یہ سب" آئمہ نفی میں سر ہلاتے اپنی آپکو نارمل کرتے بولی۔

"خیر چھوڑ تو بتا، کیا بتانا تھا تو نے۔اتنی آخر آئی ہوئی ہے تجھ کل سے۔" آئمہ خالی کپ سائڈ پر رکھتے لمبا سانس لیتے ہوئے بولی۔

"چھوڑ بعد میں بتاؤں گی۔" شیزا دوپٹے کے پلّو کو انگلی پر لپیٹتے بولی۔

"بول منہوس میں ٹھیک ہوں۔۔ڈرامے بند کر۔۔" آئمہ چڑی۔

"آ آ۔۔ وہ نا۔۔" شیزا رازداری سے بولی۔

"بھونک بھی۔" آئمہ نے اُسکے بازو پر تھپڑ جڑا۔

"یار جب تو ٹرپ پر گئی ہوئی تھی نا۔۔تو نا۔۔۔وہ بابا کے ایک دوست ہیں نا۔۔انکل سرمد۔کینیڈا والے۔۔۔وہ نا پاکستان آئے ہوئے۔ انہوں نے نا۔۔۔" شیزا اڑ اڑ کر بول رہی تھی

"اپنی نا نا تو بند کر۔۔" اُسکی بات بیچ میں ہی تھی جب آئمہ نے ٹوکا

"تو چپ کر کہ سن نا۔" شیزا شرمائی

"ہیں۔۔ یہ تو ایسے کیوں بول رہی۔اُن انکل کا  رشتہ تو نہیں آگیا تیرے لیے۔" آئمہ نے مذاق سے کہا۔

"او منہوس۔۔شرم کر۔۔اُنکے بیٹے کا آیا ہے۔" شیزا جلدی سے بولی

"واٹ ٹ ٹ ٹ۔۔۔۔نا کر۔۔۔۔" آئمہ کا منہ پورا کھل گیا

"اہم اہم۔۔واؤ۔۔ بی بنو۔۔پھر۔۔۔آپ نے ہاں کر دی؟۔۔" آئمہ پھر  ہوش میں آ کر بولی۔

"ہاں۔۔" شیزا نے منہ جھکا کر سر ہلایا

"اِدھر آ جھپی دے شرمیلہ فاروقی۔بہت بہت مبارک ہو یار۔" آئمہ فوراً موڈ میں آئی۔

شیزا نے اسکو ہنستے دیکھ شکر کا کلمہ پڑھا۔

"اچھا نام کیا ہے؟" آئمہ نے جلدی سے پوچھا

"وہ تو مجھے نہیں پتہ۔" شیزا بولی

"کیا مطلب ہے موٹی۔نام نہیں پوچھا۔۔اب سٹالک کیسے کرینگے۔" آئمہ کو دُکھ ہوا

"اب میں اموں سے یہ پوچھتی۔شرم کر۔" شیزا نے کہا۔

"انھوں نے بس آ کر پوچھا۔میں نے بولا جیسے آپ سب مناسب سمجھیں۔" شیزا بلش کرتے ہوئے بولی۔

"ہائے اوئے۔۔چل کوئی نہیں۔۔ہم بھی پتہ کر لینگے۔بڑے ذرائع ہیں۔" آئمہ زبان نکالتے بولی۔

"چل اسی خوشی میں کہیں گھومنے چلتے ہیں۔ ہاکس بے کا پلان کرتے ہیں۔" آئمہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔ سب دُکھ بھلائے سچی خوشی۔

"ہاں یار۔ میرا بھی بڑا دل ہے گھومنے کا۔پر تیرا پاؤں۔" شیزا کو یاد آیا

"اوہ ہفتہ تو ہوگیا ہے بیڈ ریسٹ پہ۔ اب ٹھیک ہے" آئمہ نے فوراً پاؤں گھوما کے دکھایا۔

"چل پھر بابا سے بات کرتے ہیں۔کتنا ٹائم ہوگیا ہے فیملی ٹور پر نہیں گئے۔" شیزا فوراً کھڑی ہوئی۔

"ہاں ہاں۔چل ابھی بات کرتے ہیں۔" دونوں چائے ختم کر کے باہر گارڈن کی طرف بڑھیں جہاں بڑے اس وقت بیٹھ کر شام کی چائے پیتے تھے اور گپ شپ لگاتے تھے۔

"بابا۔۔پاپا۔۔آپ سے ایک بات کرنی تھی۔" آئمہ نے بات شروع کی۔

"ہاں جی بولیں۔" پاپا آج فریش موڈ میں تھے، گویا ہوۓ

"وہ پاپا۔۔" آئمہ نے کہتے ہوۓ شیزا کو کہنی ماری اور بولنے کا اشارہ کیا

"وہ پاپا اکچولی کتنا ٹائم ہوگیا ہے نا۔ہم سب کہیں گھومنے نہیں گئے۔ اکھٹے سب مل کر۔۔" شیزا ڈرتے ڈرتے گویا ہوئی۔

"تو ہم نے سوچا کہ کسی دن مل کر ہاکس بے کا پلان کرتے ہیں۔۔کیا خیال ہے" آئمہ ساتھ میں بولی۔

"نیک خیال ہے۔۔کسی دن پلان کر لیتے ہیں۔۔بلکہ سنڈے کو ہی چلتے ہیں۔۔صبح صبح نکلیں گے۔۔اور سن رائز بھی دیکھ لینگے۔شام تک واپس۔کیا خیال ہے۔۔" بابا نے پاپا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہاں سہی ہے۔کافی ٹائم ہوگیا ہے۔دماغ کو تھوڑا آرام ملےگی۔" پاپا نے حامی بھری۔

"اوکے ڈن۔۔تھینک یو پاپا۔۔اور بابا آپکو بھی تھینک یو۔" آئمہ دانٹ نکالتے ہوئے بولی۔

"یو ویلکم بچوں۔۔" بابا بولے۔

اور دونوں اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ اشعر لوگوں کو بھی تو بتانا تھا۔

۔۔۔۔

اتوار کی صبح چار بج ہی سب تیار ہو کر ہاكس بے جانے کے لیے نکل پڑے تھے۔ پہنچتے پہنچتے اُنکو ایک گھنٹہ لگ گیا تھا۔جلدی جلدی سارا سامان ہٹ میں رکھ کر سب چھوٹی جنتا باہر سن رائز دیکھنے باہر کو لپکی۔
سوائے شاہنواز کے( سدا کا بورنگ بندہ)

"دھیان سے۔ زیادہ آگے مت جانا۔پانی میں بھی دھیان سے جانا۔سنبھل کر۔" اموں نے پیچھے سے نصیحت کرنا ضروری سمجھا

"اوکے اموں۔" سب بیک وقت بولے اور باہر نکل گئے۔

سن رائز دیکھنے اور ڈھیروں تصویریں لینے کے بعد اب انہوں نے پانی میں جانے کا ارادہ کیا۔سب پانی میں بھی ایک دوسرے کی تصویریں لے رہے تھے۔جب آئمہ کو آئیڈیا آیا۔

"اوئے سنو۔۔ریت پر نام تو لکھنا یاد ہی نہیں رہا۔" آئمہ چیخ کر بولی۔

"ہائے شکر ہے ایمی یاد دلا دیا۔چلو کریں" شیزا جوش سے بولی۔

سب نے باری باری اپنا نام لکھا اور تصویریں اور ویڈیوز بنائیں سوائے احسن کے۔
وہ جب بھی اپنا نام لکھنا شروع کرتا پانی آجاتا۔۔اور اگر لکھ بھی لیتا تو پانی آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔

"بیٹا تو رہنے دے، تجھ سے نہ ہو پائیگا۔۔" اشعر قہقہ لگاتے ہوئے بولا۔

"چپ کر تو۔اب دیکھیں، یہاں لکھوں گا یہاں پانی نزدیک آ رہا ہے۔" کہتے ساتھ احسن جلدی جلدی اپنا نام لکھنے لگا

لکھ کر جیسے ہٹا فوراً پانی آگیا۔ اور بلآخر احسن کی خواہش بھی پوری ہوگئی

"واہ احسن سب سے اچھی تیری والی ویڈیو بنی ہے۔" آئمہ جو ویڈیو بنا رہی تھی، جوش سے بولی

"دکھاو۔" احسن فوراً دیکھنے کے لیے بڑھا۔

"اوہ بعد میں دیکھنا۔ابھی گروپ فوٹو بنانی ہے۔" آئمہ فوراً پیچھے ہوئی۔

"چلو کھڑے ہوجاؤ سمندر کی طرف منہ کر کے۔" آئمہ نصیحت کرتے ہوئے بولی۔

آئمہ ٹائمر لگا کر فوراً بھاگ کر اُنکے ساتھ کھڑی ہوئی۔

"چلو ایک فرنٹ سے۔۔اِدھر کیمرے میں دیکھو۔ اشعر تم بیچ میں شیزا کو آنے دو۔میں شیزا کے ساتھ بیچ میں کھڑی ہونگی۔جلدی۔" آئمہ ٹائمر لگاتے ہوئے بولی۔

ابھی ٹائمر لگا ہی رہی تھی کے اشعر کی آواز آئی۔ اور ساتھ ہی انجانے میں تصویر کلک ہوگئی۔جو کے بہت یادگار ہونے والی تھی۔

"اوچ۔یا اللہ۔۔" اشعر جو شیزا کے پیچھے سے ہو کر دوسری طرف جا رہا تھا، اُسکے جھاڑو دیتے دوپٹے سے اڑ کر گرتے گرتے بچا

"یہ تھان کندھوں پر سنبھالا نہیں جا رہا تو سر پر لپیٹو، مفتے میں مجھ معصوم کو مرواؤگی۔" غصے سے کہتا دوسری طرف جا کر کھڑا ہوا۔

"سوری۔" شیزا گھبراتے ہوئے بولی اور دوپٹہ کندھوں پر ٹھیک کرنے لگی۔

"اچھا چلو ریڈی۔۔میں ٹائمر لگا رہی۔۔" کہہ کر آئمہ فوراً جا کے اُنکے ساتھ کھڑی ہوئی۔اور ایک اور یادگار تصویر کیمرے میں محفوظ ہوگئی۔

"اچھا بس ہم جا رہے ہیں۔آجانا تم لوگ بھی جلدی۔" احسن اشعر کو لے کر جاتے ہوئے بولا

"اچھا۔" آئمہ کیمرہ احسن کو پکڑاتے بولی۔

ی"ہاں کون ہے باہر والا۔جب دیکھو یہ دونوں چھوٹے لیکچر دیتے رہتے ہیں۔" شیزا نے اُنکے جاتے ساتھ چڑ کر آئمہ سے کہا۔

"ان دونوں نے باہر کی اصل دنیا اب دیکھنا شروع کی ہے نا بس اسلیئے سمجھاتے رہتے ہیں۔تو زیادہ بُرا فیل مت کریں۔وہ اپنی طرف سے ٹھیک کہتے ہیں۔
کزن بھی تو نامحرم ہوتے ہیں۔کہنے سے کوئی بھائی تھوڑی بن جاتا ہے یار۔ لڑکیوں کو سنبھل کے رہنا چاہئے نا۔ تو چھوڑ لا میں تیرا حجاب کر دوں۔۔" آئمہ اسکو حجاب کروانے لگی۔

"دراصل یہ دونوں چاہتے ہیں کہ ہم جتنا انکے ساتھ فری ہیں کسی اور دور دراز کے کزن کے ساتھ نہ ہوں نا۔ جیلس ہوتے ہیں۔ یو نو" آئمہ نے اُسکا موڈ ٹھیک کرنا چاہا۔۔پھر کچھ دیر بعد دوبارہ بولی۔

"دوپٹہ عورت کے سر کا تاج ہوتا ہے۔ تاج کو ہار سمجھ کر گلے میں ڈالو گے تو گرا دیا جائیگا۔" آئمہ شیزا کے حجاب کو پن اپ کرتے ہوئے بولی۔

"احسن کہتا ہے۔۔اور مجھے اُسکی یہ بات بہت اچھی لگی تھی سچی۔" آئمہ شیزا کے ہاتھ سے اپنا فون لیتے بولی۔

"پرفیکٹ۔۔چلیں؟" شیزا کے حجاب پر آخری طائرانہ نظر ڈالتے آئمہ نے پوچھا۔

"ہممم۔۔" شیزا سارے ٹائم میں پہلی بار بولی۔

"وہ دونوں لنگور تو چلے گئے ہیں اپنی ٹک ٹوک بنانے۔ چل ہم بھی اپنی بناتے ہیں۔" آئمہ نے زمین پر پتھر کے ساتھ فون سیٹ کرتے ہوئے کہا۔

ابھی وہ ویڈیو بنا رہی تھیں کے شاہ کی دور سے آواز آئی جو شیزا کو بولا رہا تھا۔۔

"اوہ میں آئی۔۔" شیزا فوراً شاہ کی طرف بڑھی

آئمہ نے فون بند کیا اور پانی کے کنارے چلنے لگی۔

شدید سکون تھا یہاں۔پانی کی آواز میں جو سکون تھا وہ اسکو بھی سکون بخش رہا تھا۔ جس سکون کو وہ تلاش کرنے ضد کر کے ٹرپ پر گئی تھی۔۔وہ سکون اسے اُس پہاڑوں سے زیادہ اس پانی کے شور میں محسوس ہورہا تھا۔وہ آنکھیں بند کر کے چلنے لگی۔

اُسے یاد آرہا تھا،، جب کشمیر میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے قبرستان دیکھ رہی تھی تو اسکو ڈر نہیں لگ رہا تھا۔
شاردا میں رات کے وقت جب سب بورن فائر پر جمع تھے تو تھوڑی دور ایک قبرستان کے سامنے وہ کھڑی تھی تو کتنی ہی دوستوں نے آ کر اُسے منع کیا تھا۔پر وہ کیسے بتاتی اُسے اب وہاں بہت سکون ملتا تھا۔

"قبرستان سے ڈر نہیں لگتا
یہاں میرا عشق دفن ہے"
(ہدیٰ آرائیں)

بادلوں کی گرج چمک سے ڈرنے والی لڑکی، قبرستان سے دور رہنے والی لڑکی۔اکیلے کہیں آنے جانے سے گھبرانے والی۔۔اب اپنے آپ کو بدل رہی تھی۔۔تو وجہ چھوٹی تو نہیں ہوگی۔

انہی سوچوں میں گم اُسے چند پل ہی گزرے تھے کہ یہ سکون برباد ہوا تھا، اور وہ حال میں واپس لوٹی تھی۔

تمہیں الگ انویٹیشن دینی پڑےگی کے اندر چلو۔منہ اٹھا کر اکیلے گھوم رہی ہیں محترمہ۔ شاہ اُسکے سر پہ موجود تھا۔

آئمہ فوراً منہ جھکا کر سائڈ سے نکلی اور ہٹ کی طرف بھاگی۔

"پتہ نہیں کیا سوچ کر اِس کو میرے سر پر مسلط کرنا چاہ رہے تھے سب۔۔ ہنہ۔۔" شاہ تنفر سے سر جھٹک کر فون نکال کر کسی کو کال کرنے لگ گیا۔

۔۔۔۔
(جاری ہے)
Forgive mistakes and shortcomings.  Sorry for the wait

Continue Reading

You'll Also Like

70.3K 4.8K 34
Ranked#1 . A romantic/social story. episodes will be coming weekly. it is a story of a girl huda , who goes throw different phases of life. A story o...
2 1 1
اپ کہے تو میں مار کھا لوںگا
111 8 1
" أنا ملطخ بالفعلِ " كيم تايهيونغ " إذاً دعنى أزيل عنك سوادك " جيون جونغكوك * يتم النشر ... _الغُلاف من صُنع:- ...
4.1K 248 43
اسلام علیکم 😍 امید ہے کہ آپ سب ٹھیک ہوں گے۔یہ میرا نیا ناول ہے۔ بہت کچھ ہوگا اس ناول میں،اس میں محبت بھی ہو گی،کچھ مزاح بھی ہوگا، کسی کو پانے کی چاہ...