Ahsas Muhabbat❤ (Complete Nov...

By izzahOffical

45.1K 1.9K 763

اسلام علیکم یہ میرا پہلا ناول ہے احساس محبت... یہ کہانی ایک محبت کی کہانی ہے جس میں محبت کا احساس ہے.. وہ مح... More

قسط 1
قسط 2
قسط 3
قسط 4
قسط 5
قسط 6
قسط 7
قسط 8
قسط 9
قسط 10
قسط 11
قسط 13
قسط 14
قسط 15 اور آخری

قسط 12

2.1K 116 61
By izzahOffical

افان
ھادی افان کو آواز لگاتا ہوا اس کہ پیچھے باہر آیا
افان کیا ہوا
ھادی نے پیچھے اس کا ھاتھ پکڑ کر اس کو روکا
افان نے مڑ کہ خالی خالی نظروں سے ھادی کو دیکھا
مجھے گھر جانا ہے
افان نے کہا ، ھادی نے دیکھا اس کی آنکھیں لال تھی اس کہ آنکھوں سے خون بہنے کو تیار تھا
کیا ہوگیا افان،  ھادی اس کی حالت دیکھ کہ پریشان ہوگیا
مجھے گھر جانا ہے
ہاں مجھے گھر جانا ہے
افان بڑبڑایا
ہاں تو چلتے ہیں گھر 
ھادی نے نرمی سے کہا
تو نے بات کی
ھادی نے پوچھا
مجھے گھر جانا ہے ، افان نے کہا اور تیزی سے اپنا ھاتھ چھڑا کہ گیٹ کی طرف بڑ ھ گیا
افان تیری گاڑی یہاں ہے
ھادی بھی اسے آواز لگاتا اس کہ پیچھے گیا مگر تب تک وہ گیٹ کراس کر گیا تھا 
اور گیٹ سے نکل کر روڈ کراس کر گیا
کیا ہوگیا افان تو بات کرنے گیا تھا اور افان کی حالت 
ھادی الجھا الجھا واپس گھر آیا
اور سیدھا شایان کہ پاس آیا
جو کبھی مہمانوں کو دیکھتا کبھی کمرے کے بند دروازے کو جہاں آیت اور اریبہ تھی
کیا ہوا افان کہاں گا
شایان نے دھیرے سے پوچھا
وہ گھر چلا گیا ، ھادی نے افسردگی سے کہا
گھر چلا گیا کا کیا مطلب کچھ بتایا اس نے
شایان بھی الجھا
نہیں ، ھادی نے نفی میں سر ہلایا
بھابھی نہیں آئیں باہر
ھادی نے پوچھا
نہیں پتا نہیں کیا بات ہے
شایان نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
بہت دیر گزری وہ دونوں وہی ٹہلتے ان کا باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگے
ھادی رک رک کہ افان کو کال کر رہا تھا مگر وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں
ھادی نے فون سے نظر اٹھائی تو سامنے سے اریبہ آتی ہوئی نظر آئی جو سیدھا شایان کہ پاس آئی
ھادی بھی آگے بڑھا
اریبہ کا چہرہ اترا ہوا تھا اس کی آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھی جیسے وہ روئی ہو
کیا ہوا،  شایان نے آگے بڑھ کہ اریبہ سے پوچھا
شایان آیت کو گھر جانا ہے اور مجھے اسے گھر چھوڑنے جانا ہے
اریبہ نے دھیرے سے کہا
ہاں ٹھیک ہے لیکن تم
شایان کچھ الجھا
پلیز شایان میں سب بتاتی ہوں بعد میں ابھی مجھے آیت کو گھر چھوڑنے جانا ہے
ہاں ٹھیک ہے میں بھی چلتا ہوں
شایان نے کہا
نہیں آپ یہیں رکیں گھر میں ابھی مہمان ہیں
اریبہ نے سمجھداری سے کہا
ٹھیک ہے میں کہتا ہوں کسی کو
شایان نے اریبہ کی بات سمجھتے ہوئے کہا
میں چلا جاتا ہوں بھابھی والوں کہ ساتھ
ھادی آگے آیا تو شایان اور اریبہ نے سر ہلادیا
ھادی آیت کو اریبہ کہ ساتھ گھر چھوڑنے آیا تھا
پورے راستے میں خاموشی چھائی تھی
جو خاموشی گاڑی کہ اندر تھی
وہی خاموشی گاڑی کہ باہر بھی راج کر رہی تھی
ھادی کبھی مرر سے پیچھے دیکھتا تو آیت سامنے نظر آتی
وہ چپ چاپ بیٹھی اپنے لب کاٹے جارہی تھی
اور کبھی ٹشو سے آنکھیں صاف کرتی
گھر کہ باہر گاڑی رکی تو اریبہ اس کہ ساتھ اندر گئی
ھادی باہر انتظار میں تھا اور کبھی افان کو کال کردیتا
کیا ہورہا ہے یہ سب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا
اتنے سالوں بعد مل کے ان دونوں کو خوش ہونا چاہیے تھا اور یہ لوگ
ھادی الجھا اپنی سوچوں میں گم باہر کھڑا رہا۔۔۔

آیت میں تمہیں کیسے اس حالت میں اکیلا چھوڑ کہ جائوں
اریبہ نے پریشانی سے کہا
پاگل مت بنو تم جائو تمہارے گھر میں مہمان ہیں کل تمہاری شادی ہوئی ہے تم جائو
آیت نے اسے سمجھایا
لیکن تم ، اریبہ نے کچھ کہنا چاہا
میں کیا یار میں بلکل ٹھیک ہوں دیکھو
آیت نے نم آنکھوں سے جھوٹی مسکراہٹ کہ ساتھ کہا
تو اریبہ نے اسے گلے لگالیا
جائو اب تم ، آیت نے اسے ھاتھ سے پکڑ کہ کہا
تم ٹھیک ہو نا ، اریبہ نے کہا
میں کل آئوں گی
تو آیت نے اثبات میں سر ہلادیا
اریبہ کو بھیجنے کہ بعد آیت واپس اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پہ گرنے کہ انداز میں بیٹھی
اور چہرہ دونوں ھاتھوں میں چھپالیا۔۔۔

بھابھی کیا ہوا ہے
ھادی نے گاڑی میں اریبہ سے پوچھا
گھر چلیں ھادی سب بتاتی ہوں
اریبہ نے کہا اور باہر دیکھنے لگی
باقی سارا رستہ خاموشی سے کٹا
گھر پہنچے تو کچھ ہی مہمان بچے تھے جنہوں نے وہاں رہنا تھا باقی سب جاچکے تھے
شایان ان کہ انتظار میں بیٹھا تھا وہ دونوں آئے تو سب کمرے میں آگئے
کیا ہوا ہے اریبہ
شایان نے اریبہ کہ ساتھ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا
اریبہ سے اور صبر نہ ہوا اور اس کہ آنسو نکل آئے
شایان نے آگے بڑھ کہ اس کہ آنسو صاف کیے
کیا ہوا ہے اریبہ رو کیوں رہی ہو دیکھو اس طرح نہ کرو، بتائو کیا ہوا ہے
شایان نے اریبہ کو چپ کروایا
پھر پوچھا
اریبہ نے پوری بات ان دونوں کو بتائی
وہ دونوں شاک کہ عالم میں بیٹھے رہے
*میں بہت کچھ کھو چکا ہوں اب نہیں کھونا چاہتا
*ھادی تم سمجھ نہیں رہے میں مر جائوں گا
*ھادی میں نہیں جی پائوں گا
ھادی کو افان کہ کہے الفاظ یاد آنے لگے
وہ افان کہ بارے میں سوچتا رہا
اسے افان سے بات کرنی تھی
کیا تھا یہ سب اسے سب معلوم کرنا تھا
ان تینوں کی رات یونہی پریشانی میں گزری۔۔۔

وہ شایان کہ گھر سے دوڑتا ہوا نکلا
اسے یہ یاد نہیں تھا اس کا گھر شایان کہ گھر سے کتنا دور ہے
اس کی گاڑی شایان کہ گھر کہ پارکنگ میں کھڑی ہے
وہ بنا کچھ سوچے سمجھے گھر سے نکلا تھا
اسے جلد از جلد گھر پہچنا تھا
وہ سڑک پہ بھاگ رہا تھا
وہ مین روڈ پہ بھاگ رہا تھا
گاڑیاں آرہی تھی جارہی تھی
اسے کسی کا ھوش نہیں تھا
اسے یاد تھی تو بس آیت کا چہرہ
اسی کی روتی ہوئی آنکھیں
افان کو دیکھ کہ اس کی آنکھوں میں دنیا بھر کی چاہتیں
اس کا روتے ہوئے افان سے گلا
افان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے
اسے اپنے آنسوئوں کی پرواہ نہیں تھی
اسے آیت کے آنسوئوں کی پرواہ تھی
وہ کسی سے ٹکرایا
نیچے گرا ، وہ اٹھا اور پھر بھاگا
کسی نے اسے روکا
اس نے ھاتھ چھڑایا اور آگے بھاگا
وہ کسی سے پھر ٹکرایا تھا
کسی نے اسے اندھا بولا شاید کوئی گالی دی
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ گالی دینے والے کا منہ توڑدیتا مگر اسے ابھی ہوش کہاں تھا
راستہ ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا
کیا اس کا سفر کبھی ختم نہیں ہونا تھا
کیا اس کہ نصیب میں کوئی منزل نہیں تھی
کیا اس کہ نصیب میں ایسا کوئی راستہ نہ تھا جس کی منزل آیت ہو
وہ سوچتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا
پورے شہر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا
یہ اس کہ دل میں اندھیرا چھایا ہوا تھا
وہ رات کا آخری پہر تھا
افان کو رات کا وہ آخری پہر پوری رات کہ برابر لگا
افان رکا سامنے اس کا گھر تھا اس کہ گھر کا دروازہ تھا
چوکیدار نے اسے دیکھا آگے بڑھ کہ سلام کیا
اس کی حالت دیکھ کہ رکا اس کہ پاس آیا اور طبعیت پوچھنے رکا
صاحب طبعیت سہی ہے آپ کی
چوکیدار نے پوچھا
افان نے ھاتھ کہ اشارے سے اسے گیٹ کھولنے کا کہا
وہ جلدی سے آگے بڑھا دروازہ کھولا
افان اندر داخل ہوا
اور جھک کہ گھٹنوں پہ ھاتھ رکھ کہ سانس لینے لگا
اسے لگا وہ بہت بڑا سفر طے کر آیا ہے
اور ابھ ایک سفر اس کا منتظر ہے
وہ آگے بڑھا
گھر کا دروازہ بند تھا اس کی چابی افان کی گاڑی میں تھی افان کو یاد آیا
افان نے غصے سے دیوار پہ ھاتھ مارا

افان نے بیل پہ ھاتھ رکھا اور پھر اٹھانا بھول گیا
اندر سے آوازیں آنے لگی ایک کام کرنے والی نے دروازہ کھولا
اس کہ پیچھے نصرت بھی کھڑی تھی
افان کو اس حالت میں دیکھ آگے بڑھی وہ بھی آگے آیا
بابا ، افان نے بڑے بڑے سانس لیتے ہوئے کہا
بابا کہاں ہیں
افان آگے بڑھا
افان کیا ہوا ہے بیٹا
نصرت بیگم بھی اس کہ پیچھے اندر گئی
امی بابا کہاں ہیں ، افان نے مڑے بغیر کہا
افان تمہارے بابا اسلام آباد گئے ہیں نا تم ہی تو انہیں ایئر پوٹ چھوڑنے گئے تھے
نصرت بیگم نے کہا تو افان جلدی سے پلٹا  بالوں میں ھاتھ پھیرا اور ماں کی طرف دیکھا
کیا ہوا ہے افان
نصرت بیگم اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہورہی تھی
مجھے بابا سے ملنا ہے مجھے بابا سے بات کرنی ہے ہاں مجھے بابا سے بات کرنی ہے مجھے بابا سے پوچھنا ہے
افان جیسے خود سے ہی بات کرنے لگا
کیا ہوا ہے افان کچھ بتائوگے
نصرت بیگم پریشانی سے کبھی افان کو دیکھتی کبھی اس کہ ھاتھ میں پکڑے فون کو جس سے وہ بار بار نمبر ملاتا پھر کاٹتا
امی بابا کا نمبر کیوں نہیں لگ رہا ہے
افان نے بچوں کی طرح ماں سے پوچھا
بیٹا میری بات ہوئی ہے وہ پتا نہیں کہاں ٹھرے ہیں وہاں سگنل کا مسئلہ ہے کچھ
نصرت بیگم کی بات بیچھ میں ہی رہ گئی جب افان آگے بڑھا اور روتے ہوئے ماں کہ ھاتھ پکڑ لیے
امی بابا سے بات کرنی ہے مجھے
افان رو کیوں رہے ہو،  نصرت بیگم پریشان ہوئی
امی بابا سے بات کرنی ہے مجھے امی میں اسے پھر سے کھونا نہیں چاہتا امی کچھ کریں
وہ بچوں کی طرح ماں کہ ھاتھ پکڑے ضد کر رہا تھا
افان کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا میرا دل پھٹ جائے گا ایسا نہ کرو بتائو مجھے پوری بات
نصرت بیگم اپنے جوان بیٹے کو ایسے روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی نہ دیکھنا چاہتی تھی
امی میں پھر نہیں کھونا چاہتا آیت کو امی میں پھر نہیں کھونا چاہتا ثمن کو
افان نے روتے ہوئے کہا
نصرت بیگم کو لگا انہیں کچھ غلط سنائی دیا ہے
کس کی بات کر رہے ہو
انہوں نے شاک کے عالم میں کہا
افان نے چہرہ اٹھایا
امی ثمن
افان نے کہا
امی ثمن ہی وہ لڑکی ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں جس کہ لیے میں یہاں آیا ہوں وہ ثمن ہے امی وہ ثمن ہے افان نے روتے ہوئے کہا
اور ماں کی گود میں چہرہ چھپالیا
نصرت بیگم اسے کسی شاک کی حالت میں دیکھتی رہیں

افان نے چہرہ اٹھا کہ کہا
امی کیا میں نے اسے اپنے ھاتھوں سے کھودیا
کیا واقعی میں اسے کھو چکا ہوں
کیا وہ اب میری نہیں ہے
کیا اب میں اس کا افان نہیں رہا
امی آپ بتائیں بولیں کچھ امی
پلیز امی کچھ بولیں
افان نے روتے ہوئے ماں کہ سامنے دونوں ھاتھ جوڑ دیے
امی میں اس کہ بغیر نہیں رہ پائوں گا
نہیں جی پائوں گا اس کہ بغیر میں
میں خود کو ختم کر ڈالوں گا
میں، افان کہ الفاظ منہ میں رہ گئے جب اس کہ گال پہ ایک تمانچہ پڑا
اس نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا
جس نے آج تک کبھی اس سے غصے سے بات نہیں کی تھی
جو ہر بات کو نرمی سے کرتی
آج پہلی بار افان پہ کسی نے ھاتھ اٹھایا تھا
افان نے نظریں جھکالیں
امی کیا میں اسے کھو چکا ہوں
افان نے گال پہ ھاتھ رکھے کسی معصوم بچے کی طرح پوچھا۔۔۔

آیت کہاں ہے
حارث نے ناشتے کی ٹیبل پہ آیت کو نا پاکر سوال کیا
جب آیت پیدا ہوئی تب اس کا نام اس کہ ابو نے  آیت عرفان ہی رکھا تھا
مگر سب کو آیت کہنے میں مشکل ہوئی تو اس کا نام ثمن رکھ دیا گیا
گھر میں ددھیال ننھیال میں سب اسے ثمن بلاتے باقی ہر جگہ اس کا نام آیت ہی چلتا آرہا تھا
اس کا باپ اور بھائی بھی اسے آیت ہی بلاتے
بھائی آپی سورہی ہیں
صباء نے ناشتہ کرتے ہوئے بتایا
ابھی تک ، آج سنڈے تھا تو سب دیر سے اٹھے تھے پر آیت ابھی تک نہ اٹھی تھی
جی بھائی آپی کو پوری رات بہت بخار تھا جب سے وہ آئی ہیں
صباء نے کہا
آئی ہیں کیا مطلب ، حارث نے پوچھا
اریبہ کہ ولیمے سے بیٹا ، نائلہ بیگم نے کہا
آیت گئی تھی ولیمے پہ،  حارث نے نوالہ واپس رکھا
ہاں ، نائلہ نے کہا
لیکن کیوں میرا مطلب ہے کہ اس نے کہا تھا وہ نہیں جائے گی
حارث نے بات کو سنبھالا
ہاں بیٹا پر اریبہ کہ اتنے کالز آرہے تھے اور گھر پہ بھی اکیلی تھی وہ تو میں نے کہا چلی جائے
نائلہ بیگم نے تفصیل بتائی تو حارث چپ رہا
میں دیکھ کہ آتا ہوں اسے ، حارث نے کہا اور اوپر چلا گیا

جب وہ اندر آیا تو آیت لیٹی ہوئی تھی اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی
کیا ہوا ہے ، حارث نے آکے اس کہ سر پہ ھاتھ رکھا
کچھ نہیں بھائی بس رات تھوڑا بخار تھا
آیت نے آہستگی سے کہا
اس کی آواز سے ہی نقاہت جھلک رہی تھی
بخار تو ابھی بھی ہے، حارث نے پاس بیٹھ کہ کہا
تو آیت نے نفی میں سر ہلایا
کیا کچھ ہوا ہے ، حارث کھل کہ کچھ کہہ نہ سکا
آیت نے نفی میں سرہلادیا
تبھی دروازہ کھلا اور اریبہ صباء اندر داخل ہوئی
حارث اٹھ کھڑا ہوا اور سلام کیا
اریبہ نے بھی مسکرا کر جواب دیا
شادی پہ کیوں نہیں آئے میری
اریبہ نے پوچھا
دکھ تھا مجھے تمہاری شادی کا
حارث نے شرارت سے کہا
ہائے کیا کر سکتے ہیں میں تمہارے نصیب میں تھی ہی نہیں
اریبہ نے بھی شرارت سے کہا
تو آیت بھی مسکرادی
ہاں واقعی میرے ایسے نصیب کہاں
حارث نے سینے پہ ھاتھ رکھ کہ کہا
بس کریں آپ کہ شوہر نہ سن لیں
صباء نے اپنی مسکراہٹ روک کہ کہا
تو سب ہنس دیے
میں ملتا ہوں جاکے شایان سے اور تمہاری معلومات کہ لیے بتادوں میں آیا تھا تمہاری شادی میں
حارث نے مسکرا کر کہا اور باہر نکل گیا
اریبہ بچپن سے ان کی نیبر رہی تھی وہ سب لوگ بہت فری تھا ہمیشہ اریبہ ایسے مذاق حارث کہ ساتھ کرتی رہتی اور آج وہ کرگیا
صباء چائے پلادو تمہارے ھاتھ کی یار
اریبہ نے کہا تو صباء باہر نکل گئی
تب اریبہ آیت کی طرف متوجہ ہوئی
سرخ آنکھیں آنکھوں کہ نیچے ہلکے ساری رات رونے کے باعث اس زکام ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس کی ناک بھی سرخ ہوری تھی
کیا حال کرلیا ہے اپنا تم نے
اریبہ نے اس کا ھاتھ پکڑتے ہوئے کہا

آیت خاموش رہی
آیت افان تم سے بات کرنا چاہتا ہے
اریبہ نے آہستگی سے کہا
تو آیت نے چونک کہ اسے دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلایا
آیت اس کی بات سن لو
اریبہ نے اس سے کہا
نہیں اریبہ پلیز ، آیت نے کمزور لحجے میں کہا
آیت وہ صبح آیا تھا اور
بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی
تبھی اریبہ کا فون بجا
دونوں نے فون کی طرف دیکھا جس اسکرین پہ افان بھائی جگمگا رہا تھا
اریبہ نے آیت کی طرف دیکھا اور فون اٹھالیا
آیت نے چہرہ دوسری طرف کر لیے
بھابھی بات کرائیں
افان نے بے تابی سے کہا
آیت بات نہیں کرنا چاہتی
اریبہ نے آیت کی طرف چہرہ کرتے ہوئے کہا
بھابھی پلیز اسے کہیں ایک بار مل لے ایک بار بات کرے
افان کی آواز موبائل سے باہر بھی آرہی تھی
آیت کا خود پہ قابو کھوتا جارہا تھا
آیت،  اریبہ نے فون آیت کی طرف بڑھایا اور اسپیکر کھول دیا
اب کیا بات کرنی ہے جب سب ختم ہوگیا ہے
آیت نے دکھ سے کہا
کچھ ختم نہیں ہوا ثمن
اسپیکر سے افان کی آواز گونجی
آیت نے فون کی طرف دیکھا
کچھ ختم نہیں ہوا آپ یہ بتائیں بچا کیا ہے
آیت نے روتے ہوئے کہا
***آیت تم اب بھی میرے نکاح میں ہو***
افان نے شدت جذبات سے کہا
اور آیت کو لگا وہ پتھر کی ہوگئی ہے
اس کہ بعد اریبہ نے افان سے بات کی اور کچھ کہہ کر فون کاٹ دیا
آیت نے گھٹنوں پہ چہرہ ٹکادیا۔۔۔۔

************************************

شایان مجھے بات کرنی ہے کچھ بھابھی سے
صبح کو افان نے شایان کو فون کیا
ہاں ٹھیک ہے ہمیں بھی تم سے بات کرنی ہے
رات اس طرح چلے کیوں گئے تھے تم
شایان نے پوچھا
میں سب بتاتا ہوں وہاں آکے کیا میں ابھی آجائوں
افان نے پوچھا
اس وقت صبح کہ دس بج رہے تھے
ہاں آجائو،  شایان نے کہا اور فون رکھ دیا
ایک گھنٹے کہ اندر اندر افان ان کہ گھر تھا
ھادی بھی پہنچ چکا تھا
افان سے ھادی کی بات ہوچکی تھی افان نے اسے کچھ بتا رکھا تھا وہ ان سب کہ مقابلے میں کچھ مطمئن نظر آتا تھا
کیا مسئلہ ہے افان
ان سب کہ بیٹھتے ہی شایان نے پوچھا
افان اب یاد آئی ہے آپ کو ان سب باتوں کی اب یاد آئی ہے آپ کو آیت کی، اریبہ نے غصے سے کہا اس کی آنکھیں نم ہورہی تھی
بھابھی میں آپ کو پوری بات بتاتا ہوں
افان نے کہا
مجھے سب بتایا ہے آیت نے
اریبہ نے اس کی بات کاٹی
آپ کو ایک طرف کی بات پتا ہے بھابھی میری طرف کی بھی سن لیں
افان نے آرام سے کہا
اریبہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ شایان نے اس کہ کندھے پہ ھاتھ رکھ کہ خاموش رہنے کا اشارہ کیا
بتائیں ، اریبہ نے دھیرے سے کہا
جی ، افان نے بات شروع کی

جب میں یہاں سے گیا دبئی پڑھنے
ایک دن بابا کا فون آیا
انہوں نے کہا تھا عید کا موقع ہے وہ لوگ لاہور جارہے ہیں پپھو کہ گھر میں بہت خوش تھا
ثمن سے نکاح کا مطلب میں تب تو نہیں جانتا تھا مگر میں اس بات میں خوش تھا کہ ہماری زندگی ایک ساتھ گزرے گی
ہم دنوں ساری زندگی ساتھ ہوں گے یہی میرے لیے بہت بڑی خوشی تھی
افان نم آنکھوں سے سب یاد کرکے مسکرایا
بابا نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا کانٹیکٹ بہت کم ہوگیا ہے
پھر بھی بابا ان کہ گھر جاتے اور کبھی کبھی مل آتے
پپھو نے میکے آنا بلکل ہی چھوڑدیا تھا
ایک دن بابا کا فون آیا
اسلام علیکم بابا
واعلیکم سلام کیسا ہے میرا بیٹا
جی بلکل ٹھیک آپ بتائیں
اور پڑھائی کیسی چل رہی ہے
پڑھائی بہت اچھی چل رہی ہے
بابا پپھو والوں سے بات ہوئی ہے آپ کی مجھے کوئی کانٹیکٹ نمبر دے دیں ان کا
بیٹا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی
جی بابا
بیٹا تمہاری پپھو والوں کا فون آیا تھا
اچھا کیا کہہ رہی تھی
وہ لوگ یہ رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں
کیا، مجھے لگا میرے سر پہ آسمان ٹوٹ گرا ہے میں اتنا چھوٹا نہیں رہا تھا تب کہ کچھ نہ سمجھتا
ہاں میں بہت بار بات کر چکا ہوں لیکن وہ مان ہی نہیں رہے
اظھر صاحب نے کہا
لیکن بابا یہ سب کیوں
افان نے کہا
میں کیا کہہ سکتا ہوں بیٹا
بابا ان سے کوئی کانٹیکٹ کروادیں میرا
افان نے باپ سے کہا
انہوں نے نمبر وغیرہ چینج کر لیے ہیں
اظھر صاحب نے کہا
تم پریشان نہ ہو میں بات کرتا ہوں پھر کوشش کرتا ہوں جانے کی
اظھر صاحب نے اسے دلاسا دیا اور فون رکھ دیا
اور پھر یہی سلسلہ چلتا آیا
بابا مجھے پاکستان آنا ہے
افان نے فون کرکے باپ کو کہا
کیوں پاکستان کیوں
اظھر صاحب نے کہا
بابا وہ پپھو والوں سے بات کرنی ہے مجھے
افان نے کہا
میں جب تجھے پہلے بتا چکا ہوں کہ ان لوگوں نے صاف انکار کردیا ہے میں جب لاہور گیا تو ان لوگوں نے ملنے سے منع کردیا اب اور بے عزتی نہیں کروا سکتا میں اپنی
اظھر صاحب نے قطعی لحجے میں کہا
بابا ایک بار مجھ پاکستان بلالیں
افان نے منت بھرے لحجے میں کہا
ٹھیک ہے،  اظھر صاحب نے کہا

پھر تم پاکستان آئے تھے
شایان نے پوچھا
ہاں افان آیا تھا، ھادی نے کہا
میں نہیں جانتا تھا یہ کیوں گیا ہے اس نے بس یہ کہا تھا کہ اس کا فیملی پرابلم ہے
افان نے سر اثبات میں ہلایا
پھر تم گئے تھے لاہور ، اریبہ نے پوچھا
ہاں گیا تھا پر تب تک وہ لوگ لاہور سے کہیں چلے گئے تھے
اور اس دفعہ مجھ پہ اٹیک ہوا
افان نے بتایا
بابا کہاں گئے یہ لوگ
افان نے مایوسی سے پوچھا
میں پچھلی بار آیا تھا تو یہیں تھے پھر آگے کچھ پتا نہیں
اظھر صاحب نے کہا
میں آتا ہوں تھوڑی دیر میں گھر آپ چلیں،
ہم کراچی واپس آچکے تھے
میں ایک کیفے سے نکل کر روڈ پہ بڑھ رہا تھا جب مجھ پہ اٹیک ہوا
میں بہت ڈر گیا تھا پھر میں واپس آگیا
پھر میں جب بھی پاکستان جاتا ان لوگوں کو ضرور ڈھونڈتا
افان نے کہا اور چہرہ اٹھایا
وہ سب اسے ہی دیکھ رہے تھے
اب ، شایان نے پوچھا
مجھے آیت سے ملوادیں
افان نے کہا تو اریبہ نے سر ہلادیا اور شایان کی طرف دیکھا۔۔۔۔

Continue Reading

You'll Also Like

13.6K 670 17
کہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑ...
4.8K 409 48
this is a kind of fantasy . like imagine that the worldwide famous boy band BTS will be Desi ....what will happen 😂 I think this is amazing to just...
12.7K 109 5
slaam guys it's urdu novel by iffat saher Tahir I really love this novels so i'll write this so plzzzzzzzzzz Dnt mind
65 13 4
This story revolves around Mohsin Hayat and Sehar Suleman. This is the Story of love,black magic, light and betrayal Read Now