میں کملی ہوئی تیرےعشق میں بقل...

By iqraAshrf

319 72 0

Rude Hero/Misunderstanding/Multiple couple/ Bitter Attitude Between Couple and Suspense based (دو لوگوں کی زن... More

میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp1
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp 2
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp3
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp4
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp5
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp6
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp8
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp 9
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںLast Ep
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںLast Ep

میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp7

22 5 0
By iqraAshrf

ناول: کملی ہوئی تیرے عشق میں
بقلم: اقراءاشرف
قسط نمبر: 7

” کیا ہوا‘ تمہارا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟ اور یہ تمہارا کمرہ تو نہیں ہے۔ پھر یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔؟ تم نے سنا نہیں ہے کہ ہر وقت بھی مہمان کے سر پر سوار رہنا میزبان کو زیب نہیں دیتا۔“

جان نے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے بیڈ پر لیٹے عائث سے کہا تو وہ سر اٹھا کر جان کو گھورنے لگا۔

” آم کھاؤ ‘ پیڑ گننے کی کوشش نہ کرو۔“

عائث نے تکیہ منہ پر رکھتے ہوئے کہا تو جان نے حیرت سے آنکھیں سکوڑیں۔

” لیکن یہ تو روٹی ہے۔۔۔شاید یہاں روٹی کو آم کہتے ہیں۔۔۔“

جان نے بڑبڑاتے ہوئے پہلے اپنے سامنے رکھی کھانے کی ٹرے کو اور پھر عائث کو دیکھ کر کہا اور کندھے اچکا دیے۔ لیکن پھر کسی خیال کے تحت اچھلا تھا۔

” اوئے اٹھو یہاں سے‘ میں کہاں سوؤں گا۔۔۔؟“

جان نے پوری طرح بیڈ پر پھیل کر سوئے عائث سے کہا تو عائث نے ایک لمحے کو تکیہ منہ سے ہٹایا۔

” اس صوفے پر۔۔۔“

عائث نے کہتے ساتھ ہی پھر سے تکیہ منہ پر رکھا اور جان کے چہرے کے دلچسپ تاثرات میں کوئی دلچسپی نہ لیتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔ جبکہ جان ابھی تک سکتے میں تھا۔

                          ••••••••••••••

” تو اور کیا کرتا میں بابا سائیں۔۔۔؟ مجھے آپ ہی بتائیں۔“

عائث نے تھک ہار کر بے بس لہجے میں قاسم شاہ سے کہا۔ وہ کافی دیر سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن قاسم شاہ کی انا اور غرور کی دیوار بہت اونچی تھی۔ وہ ابھی تک اپنے خاندان میں ایک ملازم کی بیٹی کی بہو کی حیثیت سے شمولیت برداشت نہیں کر پائے تھے۔

” عائث شاہ ! کیا تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے گاؤں کی لڑکیوں کو بچانے کا‘ اور اگر اتنا ہی تمہارے سر پر اس لڑکی اور اس کے باپ سے ہمدردی کرنے کا بھوت سوار تھا تو پکڑ کر اپنے کسی ملازم سے اس کا نکاح کیوں نہیں پڑھوا دیا۔۔۔؟ خود کو ہی کیوں پلیٹ میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کر دیا تھا۔“

قاسم شاہ نے ایک ہی سانس میں اونچی آواز میں کہا تو عائث کو لگا کہ وہ انہیں کبھی نہیں سمجھا پائے گا۔ اسی وقت اس کے موبائل کی سکرین ایک بار پھر روشن ہوئی تو اس نے بے چینی سے ایک نظر  موبائل کو دیکھا اور پھر قاسم شاہ کی طرف جو خود بھی اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔

” جاؤ عائث ! تم نے بہت محنت کر کےبزنس سیٹ کیا تھا۔ اور اب میں نہیں چاہتا کہ اس کو تمہاری غیر موجودگی نقصان پہنچائے۔ اور کب تک اسے ملازم سنبھالیں گے؟“

قاسم شاہ کا لہجہ یکدم بدلا تھا۔ وہ تھوڑی دیر پہلے والے قاسم شاہ سے بلکل مختلف دکھائی دے رہے تھے۔ عائث شاہ کو جھٹکا قاسم شاہ کی کراچی جا کر بزنس سنبھالنے والی بات سن کر لگا تھا۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ اس کے بزنس کے خلاف تھے۔ وہ تو عائث شاہ کو اپنی طرح اس گاؤں میں سردار اور حاکم کی طرح دیکھنا چاہتے تھے۔ عائث کے دل میں کچھ کھٹکا تھا‘ لیکن اسے ابھی جانا تھا۔ کل رات اسے اس کے مینیجر کی طرف سے آفیشل میل آئی تھی۔ جو عائث نے صبح اٹھ کر دیکھی تھی۔ اس کی غیر موجودگی سے شاہ اینڈ کمپنی پر برا اثر پڑا تھا۔

” بابا سائیں ! میری درخواست ہے آپ سے کہ میرے آنے تک آپ۔۔۔۔۔“

اس نے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن قاسم شاہ نے ہاتھ کھڑا کر کے اس کی بات بیچ میں ہی ٹوک دی۔

” تم جاؤ عائث شاہ ! میں نے کہا نہ کہ تم اپنا بزنس دیکھو‘  یہ مسئلے مسائل تو چلتے ہی رہیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ سلجھتے بھی رہیں گے۔ تم خیر سے جاؤ۔ اور ہاں جاتے ہوئے منظور کو اندر بھیج دینا باہر ہی کھڑا ہوگا۔“

قاسم شاہ نے اپنی بات کرتے ہی اسے جانے کا سگنل دیا تو عائث نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے انہیں دیکھا اور پھر کھڑا ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ بابا سائیں اتنی آسانی سے اس بات کو نہیں جانے دے رہے ہیں۔ بلکہ عائث کو کراچی جانے کی اجازت دینے کے پیچھے ان کا کوئی مقصد ہے۔ اسے پہلی بار قاسم شاہ کی خاموشی سے تھوڑا سا خوف بھی محسوس ہوا تھا لیکن اس کا کراچی جانا بے حد ضروری تھا۔
اس نے باہر جاکر منظور کو اندر جانے کا اشارہ کیا اور خود اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

منظور اندر جا کر قاسم شاہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ان کے حکم کا منتظر تھا۔ لیکن ان کا حکم سن کر منظور کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔

” کیا ہوا۔۔۔؟ کیا تم میری دی گئی یہ زمہ داری پوری کرنے سے گھبرا رہےہو؟ اگر ایسا ہے تو مجھے بتا دو ابھی‘ میرے پاس اور ایسے کئی بندے ہیں جو اس کام کو کرنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچیں گے۔“

قاسم شاہ نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو منظور جلدی سے بولا۔

” نن نہیں شاہ سائیں ! آپ کا حکم سر آنکھوں پر‘ میں بھلا کیوں گھبراؤں گا؟ آپ فکر ہی نہ کریں۔ آپ کا کام ہو جائے گا۔“

منظور کو اتنے سالوں بعد قاسم شاہ کا بھروسا جیتنے کا موقع ملا تھا۔ قاسم شاہ کی بات سن کر جو تھوڑا بہت ڈر دل میں پیدا ہوا تھا وہ قاسم شاہ کی اگلی بات سنتے ہی رفو چکر ہو گیا تھا۔ اسے ہر حال میں دلدار کی جگہ لینی تھی۔

” ٹھیک ہے پھر‘ کل شام کو یہ کام ہو جانا چاہیے۔ اور ہاں انسپکٹر صاحب کو میرا سلام کہنا۔“

قاسم شاہ نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے نوٹوں کی ایک بڑی گڈی نکالی اور اس کے حوالے کی۔ منظور سمجھ گیا کہ یہ انسپکٹر کا منہ بند کروانے کے لیے ہے۔

” جاؤ۔۔۔لیکن دھیان رہے۔ اس بات کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑنی چاہیے ورنہ تم جانتے ہو کہ نقصان صرف تمہارا ہی ہوگا۔“

قاسم شاہ کی بات سن کر منظور نے سر ہلاتے ہوئے دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ جبکہ قاسم شاہ اب اگلا لائحہ عمل طے کرنے لگے۔

                            •••••••••••••••

عائث نے ایک اور پانی کا گلاس خالی کر کے میز پر پٹخا تھا۔ لیکن اس کا غصہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اسی لمحے دروازے پر کھٹکا ہوا تو وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔ دوسری طرف آہلہ نے جیسے ہی کمرے کے اندر قدم رکھا تو اپنے سامنے عائث کو دیکھ کر اپنا سانس اٹکتا ہوا محسوس کیا۔لیکن پھر ہمت کر کے پوری طرح اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہا تو عائث کو اس کی ڈھٹائی پر اور زیادہ غصہ آیا اور اس نے اپنا بازو آہلہ کی راہ میں حائل کر کے اس کا راستہ روکا۔

” تمہارا مسئلہ کیا ہے آہلہ۔۔۔؟ کیوں تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے؟“

عائث نے بمشکل اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے آہستہ آواز لیکن سرد لہجے میں پوچھا۔

” مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور آپ نے مجھے کون سی بات سمجھائی تھی‘ جو مجھے سمجھ نہیں آئی؟“

آہلہ نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے معصومیت سے کہا تو عائث یکدم خاموش ہوکر اسے دیکھنے لگا۔ اسی لمحے آہلہ نے بھی اس کی طرف دیکھا تھا۔ شاید اس لمحے نے دونوں کو ایک ہی سحر میں جکڑا تھا۔ لیکن یہ سحر بس چند لمحے کا ہی تھا۔ عائث فوراً اس سے دور ہوا تھا۔

” میں نے منع کیا تھا نہ کہ تم اس کمرے سے باہر نہیں نکلو گی۔“

عائث نے اس کو گھورتے ہوئے اب کی بار کچھ نرمی سے کہا تھا۔

” مجھ سے نکاح کیا ہے تم نے‘ خریدا نہیں ہے۔ جو اس طرح کی فضول پابندیاں عائد کر رہے ہو۔ جب تک میں اس گھر میں ہوں‘ تب تک یہ میرا گھر ہے۔ عائث شاہ کی بیوی کی حیثیت سے۔ اور مجھے میرے ہی گھر میں تم قید کر کے رکھنا چاہتے ہو تو تمہارا یہ خواب ادھورا رہ جائے گا۔“

آہلہ کو سخت غصہ آیا تھا۔ لیکن اس نے آہستہ آواز میں عائث کو بہت کچھ جتا دیا تھا۔ عائث نے اس کی بات پر بے اختیار اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ جبکہ وہ جو پہلے ہی اس کی طرف دیکھ رہی تھی‘ نظریں جھکا گئی۔ عائث نے گہرا سانس لیا اور کچھ اور سمجھ نہ آنے پر بولا۔

”یہ کیا تم نے ’تم تم‘ لگا رکھا ہے۔ ہم کوئی بچپن کے دوست نہیں ہیں جو تم اتنی بے تکلفی سے مجھے تم کہتی ہو۔ جب تک میں تمہارا شوہر ہوں تب تک تم مجھے آپ کہو گی۔ عائث شاہ کی بیوی کو اتنی تمیز تو ہونی چاہیے کہ شوہر کو عزت کے ساتھ پکارے۔“

عائث نے کہتے ساتھ ہی الماری کی طرف قدم بڑھائے‘ کیونکہ اسے ابھی پیکنگ بھی کرنی تھی۔ جبکہ آہلہ عائث کی بات پر یکدم ساکت ہوئی تھی۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کا دل پہلے سے زیادہ تیز تیز دھڑک رہا ہے۔ اس نے جلدی سے عائث کی طرف دیکھا جو اب الماری سے اپنی شرٹس نکال کر بیگ میں رکھ رہا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اس کے دل کی تیز دھڑکن سن نہ لے۔ وہ تیزی سے اٹھ کر باتھروم کی طرف چل دی۔ جبکہ عائث اس سے بے خبر پیکنگ میں لگا ہوا تھا۔ کیونکہ پہلے ہی اسے بہت دیر ہو گئی تھی۔ اور اسے جلد سے جلد کراچی پہنچنا تھا۔

                        ••••••••••••••••

” تم پاگل نہیں‘ پاگلوں کے سردار ہو۔ مطلب حد ہو گئی‘ میں یہاں اور کسی کو نہیں جانتا تو تمہارے جانے کے بعد یہاں میں کیا کروں گا۔۔۔؟“

جان عائث کی بات سن کر دانت پیس کر بولا تھا۔ جو جان کو یہیں رکنے کا کہہ رہا تھا۔

” جان ! میرا جانا ضروری ہے یہ تم بھی جانتے ہو۔اور تمہیں یہاں رکنے کا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ۔۔۔۔۔۔“

عائث بولتے بولتے یکدم خاموش ہوا تو جان چونکا۔

” اگر تم مجھ پر اتنا بھروسا کر کے مجھے اپنے گھر چھوڑ کر جا رہے ہو تو تھوڑا سا بھروسا اور کر کے ساری بات بھی بتا دو۔ یقین کرو عائث‘ تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔“

جان نے دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو عائث نے حیرت سے اس کو دیکھا۔ ابھی ان کی دوستی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا لیکن وہ دونوں ’ایک دوسرے کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے‘ جان جاتے تھے۔ عائث نے اس کی بات سن کر گہری سانس لی اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

” جان کچھ غلط ہے۔۔۔۔ کیا۔۔۔یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ میرے جانے کے بعد کچھ اور غلط نہ ہو جائے۔۔۔“

عائث کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح جان کو اپنی بات سمجھائے۔ جان کچھ دیر خاموشی سے اس کو دیکھتا رہا پھر اس کے ساتھ ہی صوفے پر جا کر بیٹھا اور آہستہ آواز میں گویا ہوا۔

” عائث جو بھی مسئلہ ہے کہہ دو‘ یقیناً کوئی بڑی بات ہی ہوگی جو تمہیں اس قدر پریشان کر رہی ہے۔ لیکن اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے جانے کے بعد میں یہاں سب کچھ سنبھال لوں گا تو پھر مجھے سب کچھ بتا دو۔“

جان کی بات پر عائث نے اس کو دیکھا اور پھر سر ہلاتے ہوئے بولا۔

” بابا سائیں اور آہلہ کے درمیان پہلے ہی سرد جنگ چل رہی تھی۔ جبکہ اب تو بابا سائیں میرے اور آہلہ کے نکاح کی وجہ سے شدید غصے میں ہیں۔ اور اب اگر۔۔۔۔۔“

عائث ابھی بول ہی رہا تھا جب جان زور سے اچھلا۔

” ویٹ ویٹ ویٹ۔۔۔ کیا کہا تم نے۔۔۔؟ تمہارا نکاح۔۔۔۔رائٹ؟“

جان کے حیرت سے پوچھنے پر عائث نے اس بات میں سر ہلادیا۔ جس پر جان نے اس کو ایک زبردست گھوری سے نوازا۔ لیکن عائث اس کی پروا کیے بنا پھر سے بولنا شروع ہوا۔ تو جان بھی اس کی طرف متوجہ ہوا۔

                          ••••••••••••••••

عائث کو گئے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے جب آہلہ کے کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور دروازہ کھولا ‘ لیکن دروازے کے کھلتے ہی کسی نے بے دردی سے آگے بڑھ کر اس کی گردن پکڑی تھی۔

” تو تم ہو اس نوکر ارباز کی بیٹی۔“

پلوشے نے اس کی گردن پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس کو دیوار کی طرف دھکیلا اور غراتے ہوئے بولی۔

” جس نے بھی کروایا ہے پہلا اور ادھورا تعارف کروایا ہے میرا تم سے۔“

آہلہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی گردن پر رکھا پلوشے کو ہاتھ زور سے مڑورا۔ جس سے اس کی ہلکی سی چیخ نکلی تھی اور وہ یکدم اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے سہلاتی ہوئی پیچھے ہٹی تھی۔

” لیکن کوئی بات نہیں‘ میرا پہلا تعارف بھول جاؤ اور دوسرا اور آخری تعارف سنو۔“

اب کی بار آہلہ نے اس کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے صوفے پر بیٹھ کر کہا اور اس کو بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جس پر پلوشے نے بمشکل صبر کا گھونٹ بھرا لیکن وہی کھڑی اس کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی۔

” میں‘ یعنی آہلہ عائث شاہ اس حویلی کی اکلوتی بہو اور نئی مالکن ہوں۔“

آہلہ نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ پلوشے کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔گئی۔

” تم میری بات غور سے سنو‘ اس گھر کی اور عائث کے دل کی مالکن صرف میں ہی ہوں۔ اور بہت جلد اس حویلی کی یعنی قاسم شاہ کی بہو بھی بن جاؤں گی۔ تم اور تمہارا رشتہ‘ عائث شاہ کے لیے ایک مجبوری سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اس مجبوری کو میں جڑ سے نکال کر پھینک دوں گی۔“

پلوشے کی زبان زہر اگل رہی تھی اور اس بات کا اندازہ باہر کھڑے جان کو بخوبی ہو گیا تھا۔ جب کہ آہلہ اس کی بات سن کر یکدم خاموش ہو گئی تھی۔ پلوشے نے ایک استہزائیہ نظر اس پر ڈالی اور کمرے کے دروازے کو زور سے بند کرتے ہوئے باہر چلی گئی۔

باہر کھڑا جان یکدم کھڑکی کی اوٹ میں ہوا تھا۔ اور اس کے نیچے جانے کے بعد اس نے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔

” اسلام علیکم بھابھی ! میں جان ہوں‘ عائث کا دوست۔ آپ سے میری ملاقات اسپتال میں بھی ہوئی تھی۔“

آہلہ کے دروازہ کھولتے ہی جان نے اپنا تعارف کروایا۔

” اگر آپ عائث کے دوست ہیں‘ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عائث آج صبح ہی کراچی چلے گئے تھے۔ اور آپ کو اس وقت یہاں نہیں قاسم شاہ کے حجرے میں یا نیچے ڈرائینگ روم ہونا چاہیے۔“

آہلہ نے دانت پیس کر غراتے ہوئے کہا تھا۔ اس نے پلوشے کا غصہ جان پر نکال دیا تھا۔

” بھابھی ریلیکس ہو جائیں پلیز ‘ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔“

جان تیزی سے بولا کہ کہیں وہ دروازہ اس کے منہ پر ہی نہ بند کر دے۔ جبکہ آہلہ اس کی بات پر چونکی تھی۔

” مجھ سے آپ کو کیا بات کرنی ہے؟“

آہلہ نے اچنبھے سے پوچھا۔ تو جان نے پہلے ارد گرد دیکھا اور پھر آہلہ کو۔

                           ••••••••••••••

” ہممم۔۔۔“

انسپکٹر فضل نے ایک لمبی سی ہمم کرنے کے بعد جان کو گھورنا شروع کر دیا۔

” تو آپ کو لگتا ہے کہ میں آپ کے کہنے پر آپ کے یار دلدار کو چھوڑ دوں گا؟“

انسپکٹر فضل نے ایک نظر آہلہ کو دیکھا اور پھر میز پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسا کر جان سے کہا تو جان نے ایک نظر آہلہ کو دیکھا۔

” ہماری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں انسپکٹر صاحب‘ جس لڑکی کو اس نے اغوا کیا تھا وہ لڑکی خود دلدار کو معاف کرنے پرتیار ہے۔ پھر آپ ان کو کیوں نہیں رہا کر سکتے۔۔۔؟“

آہلہ نے منت بھرے لہجے میں کہا تو انسپکٹر فضل نے ایک زور دار قہقہ لگایا تھا۔

” او میڈم جی‘ اس دلدار نامی شخص نے ایک نہیں دو لڑکیوں کو اغوا کیا تھا۔ اور ایک قتل بھی اس کے سر پر ہے۔ او اس کے خلاف پکی ایف آئی آر کٹوا دی تھی اس علاقے کے سردار قاسم شاہ کے بیٹے عائث شاہ نے۔ اب جو بھی فیصلہ کرے گی عدالت کرے گی۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔“

انسپکٹر نے آہلہ کو گھورتے ہوئے کھردرے لہجے میں کہا تو آہلہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔

” ٹھیک ہے‘ آپ انہیں رہا نہ کریں لیکن مجھے ان سے ایک بار ملنے کی اجازت دیں پلیز۔“

آہلہ کی بات پر جان نے حیرت سے اس کو دیکھا پر آہلہ انسپکٹر کا اشارہ ملتے ہی اس کی طرف دیکھے بغیر کھڑی ہوئی اور ایک اہلکار کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔ جان چونک گیا تھا۔ اسے لگا کہ آہلہ اس سے کچھ چھپا رہی ہے۔

جبکہ دوسری طرف دلدار نے جیسے ہی آہلہ کو دیکھا تو تیزی سے آہلہ کی طرف آیا تھا۔

” آہلہ‘ تم یہاں کیوں آئی ہو؟ تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔“

دلدار بے چینی سے ارد گرد دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ جبکہ آہلہ کا دل کٹ رہا تھا اس کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر‘ اس کی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ اس کے زرد چہرے اور اس کی سرخ آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ ہلکے اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ خود کو پچھتاوے کی آگ میں جلا رہا تھا۔

” بولو آہلہ ! کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔؟“

دلدار نے اس اسے پھر پوچھا تو آہلہ چونکی۔

” قاسم شاہ نے آپ کو قتل کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ کل شام تک ہر صورت آپ کے مرنے کی خبر سننا چاہتے ہیں۔“

آہلہ نے جس قدر پریشانی اور بے چینی سے یہ خبر اس کو سنائی دلدار نے اتنے ہی سکون سے اس کی بات سنی اور پھر پیچھے ہٹ کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔

” آپ کو حیرت نہیں ہوئی؟ ڈر نہیں لگا۔۔۔؟“

آہلہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اپنے قتل کی سازش کا سن کر بھی کوئی خوف نہیں جھلکا تھا۔

” حیرت مجھے تب ہوتی جب قاسم شاہ مجھے پوری دنیا کے سامنے اپنا بیٹا قبول کر لیتے‘ اور ڈر۔۔۔ یہ تو میں اسی دن سے جانتا تھا کہ قاسم شاہ مجھے مروانے کی سازش ضرور کریں گے جس دن میں نے انہیں یہ حقیقت بتائی تھی کہ میں سکینہ کی کوکھ سے پیدا ہونے والا ان کا ہی ناجائز بچہ ہوں۔“

دلدار نے اس قدر تلخی سے کہا تھا کہ آہلہ لرز اٹھی تھی۔

” بھائی ! اگر آپ کو پتا تھا کہ وہ آپ کو یہ حقیقت جاننے کے بعد مروانے کی کوشش کریں گے تو آپ نے انہیں ساری حقیقت بتائی ہی کیوں؟“

آہلہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر دلدار کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔

” مطلب یہ آہلہ کہ جنہیں زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی ہی نہ ہو انہیں موت سے ڈر نہیں لگا کرتا۔“

دلدار نے دھیمے لہجے میں سر جھکائے کہا تو آہلہ نے افسوس سے اسے دیکھا۔

” تو کیا آپ سکھاں کی وجہ سے بھی نہیں جینا چاہتے۔“

آہلہ کی بات پر وہ یکدم ساکت ہوا تھا۔

” کیسی ہے وہ۔۔۔؟“

اس نے آہلہ کی بات کا جواب دینے کی بجائے بے چین ہو کر سوال کیا تو آہلہ نے نفی میں سر ہلایا۔

” نہیں جانتی‘ لیکن وہ دکھی ہوگی۔“

آہلہ کے جواب نے اس کو پہلے سے زیادہ بے چین کر دیا تھا۔ وہ تیزی سے سلاخوں کے قریب آیا تھا۔

” کیا مطلب کہ تم نہیں جانتی‘ تم نے اس کو اس مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔؟“

دلدار کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ سکھاں کی وجہ سے خود کو مشکل میں ڈالنے والی آہلہ نے اس مشکل وقت میں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز دوست کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔

” بھائی ! میرا آپ کی گرفتاری کے فوراً بعد عائث شاہ سے نکاح ہو گیا تھا۔ اور مجھے بابا نے عائث شاہ کے ساتھ حویلی بھیج دیا تھا۔ تاکہ گاؤں والوں کے منہ بند ہو سکیں۔۔۔؟“

آہلہ نے نظریں جھکا کر کہا تو دلدار چونک پڑا۔

” تو اس کا مطلب۔۔۔ایک منٹ‘ ابھی تم کس کے ساتھ آئی ہو یہاں۔۔۔؟“

دلدار تیزی سے بولا تو آہلہ نے گہری سانس لی۔

” عائث کے دوست کے ساتھ‘ عائث شاہ آج صبح کسی بہت ضروری کام سے کراچی چلے گئے تھے۔ لیکن ان کا دوست ادھر ہی تھا۔ اور آج صبح میں قاسم شاہ کے کمرے کی طرف گئی تو وہاں ایک ملازم کو وہ آپ کو قتل کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ لیکن میرے علاوہ عائث شاہ کا دوست بھی اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ جو میری طرح چھپ کر ہی ان کی باتیں سن رہا تھا۔“

آہلہ کی پوری بات سننے کے بعد دلدار نے سر ہلایا اور آہلہ کو دیکھتے ہوئے منت بھرے لہجے میں بولا۔

” آہلہ ! اپنی زندگی برباد مت کرو انتقام کے چکروں میں۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ جان عائث کو کچھ نہیں بتائے گا۔ تم میری فکر مت کرو اور آئیندہ یہاں مت آنا۔ اگر میرے لیے کچھ کرنا ہی چاہتی ہو تو سکھاں کا خیال رکھنا۔“

دلدار نے واپس دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے عائث آہلہ سے نفرت کرنے لگے۔ لیکن آہلہ تو کچھ اور ہی سوچ چکی تھی۔ اور وہ یہ بات ابھی دلدار کو نہیں بتانا چاہتی تھی۔

                         ••••••••••••••••

” میں نے کہا پتا کرواؤ کہ وہ لڑکی عائث شاہ کے دوست کے ساتھ گئی کہاں ہے؟ اور تم لوگ اس وقت ان کا پیچھا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔تم لوگوں کو ہر بات میں بتاؤں؟“

قاسم شاہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ منظور کا گلا دبا دیں۔ جبکہ منظور جو ان کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا ان کا حکم سنتے ہی باہر کی طرف بھاگا تھا۔

” آخر یہ لڑکی اس شہری لڑکے کے ساتھ مل کر کون سا کھیل کھیل رہی ہے۔۔۔۔؟“

منظور کے جانے کے بعد  وہ دانت پیس کر بولے۔ اسی وقت کسی نے دروازے پر دستک دی تو انہوں نے قہر بھری نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا۔ انہیں اس وقت کسی مداخلت پسند نہیں آئی تھی۔ لیکن دروازے پر سعدیہ بیگم کو دیکھ کر وہ چونکے۔

” آئیں آئیں سعدیہ ڀيڻ(سعدیہ باجی)۔“

قاسم شاہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ سعدیہ بیگم ان سے 3 سال بڑی تھیں۔ اور وہ اپنی بہن سے محبت کے ساتھ ساتھ ان کی بہت عزت بھی کرتے تھے۔ انہوں نے ہر چھوٹے بڑے فیصلے پر سعدیہ بیگم کو ہمیشہ بتول بیگم پر فوقیت دی تھی۔ اور اس طرح شادی ہو جانے کے بعد بھی وہ شاہ حویلی پر قاسم شاہ کی بدولت پہلے کی طرح ہی حکومت کر رہی تھیں۔

” یہ کیا حالت بنا لی ہے آپ نے قاسم ڀاءُ(قاسم بھائی)‘ اور باہر کیوں نہیں نکلتے آپ اپنے کمرے سے؟“

سعدیہ بیگم نے خوشامدی لہجہ اپناتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا اور صوفے پر جا کر بیٹھ گئیں۔

” میرے پٽ (میرے بیٹے) نے مجھے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ‘ میں کیسے سامنا کروں گاؤں والوں کا؟ وہ کیا سوچ رہے ہوں گے کہ قاسم شاہ کے بیٹے نے اپنےملازم کی بیٹی سے نکاح کر لیا اور اس نکاح کی اپنے باپ سے اجازت لینا تو دور اس کو بتایا تک نہیں‘ اور تو اور اس کو اپنے نکاح میں شامل کرنا تک گوارا نہ کیا۔“

قاسم شاہ اس زکر پر ایک بار پھر سے بھڑک اٹھے تھے۔

” تو کیا اب اس حویلی سے قاسم شاہ کا دانہ پانی اٹھ گیا ہے؟ کیا میں سمجھوں کہ میری بیٹی کا حق جو اس ملازم کی بیٹی چھین کر کھا گئی کبھی نہیں ملے گا۔

سعدیہ بیگم نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ کرنے میں دیر نہیں کی تھی۔ قاسم شاہ نے الجھی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھا۔ لیکن پھر سمجھ آنے پر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔

” ابھی قاسم شاہ نے ہار نہیں مانی ہے باجی۔۔۔۔آپ فکر نہ کریں۔“

قاسم شاہ کی بات پر سعدیہ بیگم نے سر جھٹکا۔

” قاسم شاہ ! آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں  آپ کو اپنا بیٹا سمجھتی ہوں۔ اماں سائین اور بابا سائیں کے اس دنیا سے جانے کے بعد میں نے آپ کو ماں بن کر پالا تھا۔ حالانکہ وہ تو میرے بھی کھیلنے کودنے کے دن تھے۔ اور آج بھی مجھے آپ سے اتنی ہی محبت ہے۔“

سعدیہ بیگم نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے قاسم شاہ کو ماضی کا حوالہ دیا تو قاسم شاہ کی آنکھوں میں سعدیہ بیگم کے لیے شفقت بھری محبت جھلکنے لگی۔

” سعدیہ باجی! آپ بھی جانتی ہیں نہ کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ کیا آپ کو شک ہے کہ۔۔۔۔“

قاسم شاہ ابھی بول ہی رہے تھے جب سعدیہ بیگم نے ان کی بات کاٹی۔

” مجھے آپ کی محبت اور خلوص میں کوئی شک نہیں‘ اور اسی لیے میں چاہتی تھی کہ پلوشے آپ کی بہو بنے۔ اس حویلی کی بہو بنے۔ لیکن آپ کی بیوی اور بیٹے نے میری خواہش کا احترام نہیں کیا۔ قاسم شاہ میں آپ کو بتائے دے رہی ہوں کہ میرا عائث شاہ بڑا بھولا ہے‘ معصوم ہے۔ یہ تو آپ کی بیوی کے کہنے پر وہ آپ کے خلاف جا کر اس نوکر ذات سے نکاح کر آیا ہے۔“

سعدیہ بیگم نے ڈوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تو قاسم شاہ چونکے‘ پھر جلدی سے بولے۔

” نہیں نہیں باجی‘ وہ بھلا کیوں ایسا چاہے گی۔ وہ جانتی ہے کہ اگر اس نے میرے بیٹے کو میرے خلاف کرنے کی کوشش کی تو میں اس کا کیا حشر کروں گا۔“

قاسم شاہ نے سعدیہ بیگم کے خدشے کو رد کرنا چاہا لیکن سعدیہ بیگم استہزائیہ انداز میں ہنسیں۔

” اگر یہ نکاح بتول کی مرضی سے نہیں ہوا تو وہ کیوں اس لڑکی کی اتنی آؤ بھگت کر رہی ہے؟ جب سے وہ آئی ہے‘ بتول خود جا کر اس کو کھانا کھلاتی ہے۔ اب کہاں گیا اس کے جوڑوں کا درد؟ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سارے ڈرامے تھے ہی اس لیے۔ غضب خدا کا‘ اسے تو یہ تک بھول گیا کہ اس کا سر کا سائیں بھی ہے۔ آپ خود بتائیں‘ جب سے عائث اس لڑکی سے نکاح کر کے اس کو گھر لے کر آیا ہے تب سے کیا بتول آئی آپ کے پاس؟ حالانکہ وہ جانتی بھی تھی کہ آپ عائث شاہ کی حرکت کی وجہ سے کتنے دکھی ہیں۔“

سعدیہ بیگم نے بر وقت ایک اور چوٹ کی تھی۔ اور قاسم شاہ سوچ میں پڑ گئے تھے۔ جبکہ سعدیہ بیگم اب پرسکون ہو کر ان کے تاثرات دیکھ رہی تھیں۔

                         ••••••••••••••••

” بھابھی اب اگر آپ نے ایک بھی لفظ مجھ سے چھپایا تو میں ابھی اور اسی وقت عائث کو سب کچھ بتا دوں گا۔“

جان نے آہلہ کے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھے اس کو دیکھے بغیر ٹہر ٹہر کر کہا۔ آہلہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

” کیا بتائیں گے آپ عائث کو۔۔۔۔؟ یہ کہ ان کے رحمدل بابا سائیں دلدار کو جیل میں قتل کروانا چاہتے ہیں؟ اور وہ مان جائیں گےآپ کی بات۔۔۔؟“

آہلہ نے تلخی سے کہتے ہوئے گردن موڑی اورسامنے دیکھنے لگی۔ جان لاجواب ہو کر اس کو دیکھنے لگا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔

” بھابھی ! اگر آپ مجھے ساری حقیقت سے آگاہ کر دیں تو شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔ پلیز مجھے بتا دیں سب کچھ‘ کچھ بھی چھپائے بغیر۔“

جان نے اس کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تو آہلہ نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔ جان نے اس کو کشمکش میں دیکھ کر یقین دلانے والے انداز میں سر ہلایا۔ بلآخر آہلہ نے اس کو بتانے کا فیصلہ کر لیا۔

” دلدار بھائی قاسم شاہ کے ظلم اور میری ماں سکینہ کے ساتھ زبردستی کرنے کا نتیجہ ہیں۔“

آہلہ نے سر جھکاتے ہوئے دھیمے مگر زہر خند لہجے میں کہا۔ جبکہ جان اس کی بات پر سن رہ گیا تھا۔

” اور دلدار بھائی نے یہ سب کچھ اپنے باپ سے بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔ مگر شاید بروقت انہیں احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے بدلہ لینے کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا ہے۔“

آہلہ نے مزید بتاتے ہوئے جان کو شش و پنج میں ڈال دیا تو وہ سر جھٹکتے ہوئے حیرت بھرے لہجے میں بولا۔

” لیکن قاسم انکل سے بدلہ لینے کے لیے آپ کو اغوا کرنے کی کیا تک بنتی تھی۔ جبکہ عائث نے مجھے بتایا تھا کہ آپ قاسم انکل سے بہت بدتمیزی سے بات میرا مطلب ہے کہ انہیں پسند نہیں کرتیں؟“

جان کی بات پر آہلہ کی نظروں کے سامنے ارباز کا چہرہ ابھرا تھا۔ اور جان اس سوال پر آہلہ کے چہرے پر ازیت صاف دیکھ سکتا تھا۔

” وہ قاسم شاہ کے ساتھ ساتھ میرے بابا ارباز سے بھی بدلہ لینا چاہتے تھے۔ لیکن بعد میں انہیں احساس ہوا کہ اپنے باپ کے لیے جس طرح وہ ان چاہا وجود ثابت ہوں گے اسی طرح میں بھی ان کے لیے ان چاہا وجود ہی ہوں گی۔“

آہلہ نے تلخی سے سر جھٹکتے ہوئے کہا تو جان ایک دم ساکت ہوا تھا۔

” تو کیا آپ بھی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ۔۔۔“

جان نے اپنا سوال ادھورا چھوڑ دیا تھا۔

” نا جائز نہیں لیکن ہوں میں بھی قاسم شاہ کا خون ہی۔“

آہلہ کی بات پر جان نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اور پھر کافی دیر بعد بولنے کی ہمت کر پایا تھا۔

” تو اس کا مطلب عائث سے آپ کا نکاح جائز نہہ۔۔۔“

جان کی اگلی بات پر آہلہ نے تیزی سے اس کو آنکھیں دکھائی تھیں۔ جس پر جان نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی۔

”استغفراللہ‘ حد ہی ہو گئی۔ مطلب اس سے زیادہ گھٹیا اندازہ شاید ہی کسی نے لگایا ہو۔۔۔“

آہلہ نے غصے سے بڑبڑاتے ہوئے منہ پھیرا۔ جبکہ جان زور سے ایک چپت اپنے سر پر ماری اور پھر منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گہرا سانس لیا۔

” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ۔۔۔“

جان کے بات پوری کرنے سے پہلے ہی آہلہ نے اس کی بات کاٹی۔

” ہاں ! عائث قاسم شاہ اور اماں سائین کے نہیں بلکہ ارباز اور سکینہ اماں کا بیٹے ہیں۔“

آہلہ کی بات پر ایک بار پھر اس کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔

” اگر آپ کے سوال ختم ہو گئے ہوں تو شہر کی طرف چلیں۔“

آہلہ نے اپنا سر پیچھے ٹکاتے ہوئے کہا تو جان نے الجھن بھری نظروں سے اس کو دیکھا۔

” اب کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں آپ۔۔۔؟“

آہلہ نے جان کو دیکھا جو جواب کا منتظر تھا۔

” دلدار بھائی اور عائث کی سگی ماں سکینہ کے ساتھ زیادتی کی وجہ سے اپنے سگے باپ قاسم شاہ کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔“

آہلہ کی آنکھوں میں قاسم شاہ کے لیے نفرت اور چہرے پر موجود سختی نے جان کو لرزنے پر مجبور کر دیا تھا۔

” اس سب میں عائث ٹوٹ جائے گا۔“

جان نے ڈرتے ڈرتے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو آہلہ کی آنکھوں میں بے یقینی ابھری تھی۔ جس کو دیکھ کر جان نے نظریں چرائیں۔

” میرا ساتھ دیں گے آپ۔۔ہاں یا نہ؟“

آہلہ نے سامنے دیکھتے ہوئے پتھریلے لہجے میں سوال کیا تھا۔

” لیکن۔۔۔پہلے ہمیں اسی اسٹیشن پر کوشش کرنی ہوگی۔ اگر یہاں بات نہ بنی تو تب ہم شہر جائیں گے۔ “

جان جانتا تھا کہ اگر اس نے آہلہ کا ساتھ نہیں دیا تو بھی وہ اکیلے ہی قاسم شاہ کے خلاف جائے گی۔ اور پھر اس نے حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

” اوکے‘ لیکن اس سے پہلے قاسم شاہ کے اس آدمی کو روکنا ہوگا جس کو انہوں نے دلدار بھائی کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ پولیس چوکنا نہ ہو جائے۔ قاسم شاہ نے یقیناً اس انسپکٹر کے لیے بھاری رقم دی ہو گی۔“

آہلہ نے تیزی سے کہا تو جان نے سر ہلا دیا۔

                          •••••••••••••••






Continue Reading

You'll Also Like

9.6K 684 17
کہانی کچھ کہنے کی کچھ سنانے کی
محبت By Mehreen-ch

General Fiction

97 9 1
محبت کیا ہے؟۔۔۔۔پڑھیے اور پھر بتاٸیے۔
8K 486 16
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی حور کی ہے جس کی ایک غلطی نے اسکو برباد کر دیا ہے۔ اندھا یقین کسی پر بھی وہ برباد ہی کرتا ہے۔ یہ کہانی ہے سوشل میڈیا ریلشن...
4.1K 248 43
اسلام علیکم 😍 امید ہے کہ آپ سب ٹھیک ہوں گے۔یہ میرا نیا ناول ہے۔ بہت کچھ ہوگا اس ناول میں،اس میں محبت بھی ہو گی،کچھ مزاح بھی ہوگا، کسی کو پانے کی چاہ...