میں کملی ہوئی تیرےعشق میں بقل...

By iqraAshrf

319 72 0

Rude Hero/Misunderstanding/Multiple couple/ Bitter Attitude Between Couple and Suspense based (دو لوگوں کی زن... More

میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp 2
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp3
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp4
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp5
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp6
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp7
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp8
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp 9
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںLast Ep
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںLast Ep

میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp1

103 9 0
By iqraAshrf

ناول: میں کملی ہوئی تیرے عشق میں
بقلم: اقراءاشرف
قسط نمبر: 1

وہ جاگنگ ٹریک پر بھاگ رہا تھا۔ جب کہ ہاتھ میں موجود فون کی اسکرین روشن ہوتی اور پھر تھوڑی دیر بعد بجھ جاتی۔ اور یہ سلسہ کافی دیر تک چلتا رہتا اگر سامنے سے کسی سے ٹکر لگنے پر اس کے ہاتھ میں موجود موبائل نیچے نہ گرتا۔

” ہے۔۔۔آر یو اندھے؟“

وہ جو حیرت سے نیچے گرے ہوئے اپنے موبائل کو تک رہا تھا سامنے والے کی غصے بھری آواز پر اسے دیکھا۔

وہ جان صفدر تھا۔ لیکن اسے اپنے نام کے ساتھ صفدر لگانا پسند نہیں تھا۔ وہ ہنس مکھ طبیعت کا مالک تھا۔ نہ صرف خود خوش رہتا بلکہ دوسروں کو بھی اپنی باتوں اور شرارتوں سے خوش رکھتا تھا۔ لیکن کیا وہ واقعی ہنس مکھ تھا۔

” کیا ہے ہاں؟۔۔۔ٹریک پر اچانک سے پتا نہیں کہاں سے ٹپک کر میرے سامنے آئے اور میرا موبائل بھی گرا دیا اور اب الٹا اندھا بھی مجھے ہی کہہ رہے ہو۔“

وہ سامنے والے شخص کی انگریزی لہجے میں آدھی انگریزی اور آدھی اردو پر بمشکل اپنی ہنسی کو روک پایا تھا۔ اور پھر اس کو گھورتے ہوئے بولا۔

وہ عائث شاہ تھا۔ سکھر کے ایک گاؤں کے سردار قاسم شاہ کا اکلوتا بیٹا۔۔۔قاسم شاہ کی آنکھوں کا تارا اور بتول بیگم کی جان۔۔۔اس حویلی کا چشم و چراغ۔۔۔عائث شاہ۔ کسی کی اونچی آواز برداشت کرنا اس کی شان کے خلاف تھا۔ اور یہ عادت اس نے قاسم شاہ سے چرائی تھی۔ پھر وہ کیسے جان کو بخش دیتا۔

سامنے والا بے اختیار سر کھجانے لگا۔ پھر جلدی سے نیچے جھک کر اس کا موبائل اٹھایا اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔

” یہ لو اپنا موبائل۔۔۔دیکھ لو کہیں سے بھی نہیں ٹوٹا اور ہاں میں تو اس لیے تمہارے سامنے ٹپکا تاکہ تمہیں بتا سکوں کہ تمہارے بابا سائیں کی 21 مس کالز آچکی ہیں۔“

وہ اس کے ہاتھ میں موبائل تھما کر اب سیٹی بجاتے ہوئے اس کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لینے لگا۔

”ویسے میرا نام جان ہے۔“

اس نے اس کو موبائل میں مصروف دیکھا تو خود ہی بولنے لگا اور ساتھ ہی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ جبکہ وہ جو پریشانی سے اب اپنے بابا سائیں کا نمبر ملا رہا تھا بس آہستہ سے سر ہلا گیا۔ جس پر جان تلملایا.

” او ہیلو۔۔۔مسٹر۔۔۔آسمان سے اترے کوئی شہزادے ہو تم جو اتنے نخرے دکھا رہے ہو۔“

اس کی بات پر اس نے موبائل کان سے ہٹایا اور اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھا پھر سمجھ آنے پر جلدی سے ہاتھ آگے بڑھایا۔

”اوہ ویری سوری۔۔۔میں پریشانی میں کچھ سمجھ نہیں پایا تها۔ میں عائث شاه ہوں۔“

اس نے شرمندگی سے بولتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تو جان نے دیر کیے بغیر اس کا ہاتھ تھام لیا۔

”ہمم۔۔۔نائس نیم۔“

جان کے کہنے پر عائث ہلکا سا مسکرایا. جب کے اب وہ پھر سے موبائل پر بابا سائیں کو کال کرنے لگ گیا۔ اور اس بار ادھر سے کال پک کر لی گئی تھی۔

”اسلام علیکم بابا سائیں۔۔۔کیسے ہیں آپ؟ اور سوری بابا سائیں موبائل سائلنٹ پر تھا تو آپ کی کال نہیں دیکھ پایا۔“

دوسری طرف جیسے ہی کال اوکے کی گئی تو وہ جلدی جلدی بولنے لگا۔ اور ساتھ ہی وہ ٹریک سے ہٹ کر ایک درخت کے نیچے رکھے بینچ کی طرف بڑھا۔

”ارے ارے سانس تو لو نا عائث۔ ایسا بھی کیا ہو گیا بابا۔ دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔“

دوسری طرف سے قاسم شاہ نے سندھی لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا تو عائث بھی مسکرا دیا۔

” اماں سائین کیسی ہیں؟“

اس نے ملائم لہجے میں اپنی ماں کے بارے میں پوچھا تو جان جو اس کے سامنے والے بینچ پر آبیٹھا تھا وہ بے اختیار عائث کا چہرہ دیکھنے لگا۔

” جی جی بابا سائیں میں بس کل ہی سکھر کے لیے نکلتا ہوں۔ چلیں اب میں فون رکھتا ہوں۔“

عائث کچھ دیر اردگرد سے بے نیاز قاسم شاہ سے باتیں کرتا رہا اور پھر فون رکھا تو سامنے جان کو خود کو محویت سے دیکھتے ہوئے پایا۔

” ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ “

عائث نے مسکراتے ہوئے اس کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ چونکا تو عائث کو اس کے چہرے کے تاثرات کچھ عجیب سے لگے۔ لیکن جان نے فوراً خود کو سنبھالا اور گلا کھنکھارتے ہوئے بولا۔

” کہاں رہتے ہو؟“

”شاہی کالونی۔“

عائث نے جان کے سوال کا جواب دیا تو وہ پرجوش ہوا۔ اور خوشی سے بولا۔

”اوہ میں بھی وہیں رہتا ہوں۔ واہ یہ تو اچھا ہو گیا۔“

جان نے تالی بجاتے ہوئے کہا اور کھڑا ہو گیا۔

”چلو میں چلتا ہوں۔ پھر شام کی چائے پر ملتے ہیں۔“

جان نے لاپرواہی سے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کر انگڑائی لی اور بینچ کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہوئے بینچ کے اس پار جا کھڑا ہوا۔

”ایکسکیوز می۔۔۔“

عائث کھڑا ہوا اور حیرانی سے بولا۔

” یس۔۔۔ایکسکیوز۔۔۔اوکے بائے۔۔۔شام کو ملتے ہیں۔ اور ہاں چائے کے ساتھ کباب بھی فرائی کروا لینا۔ واہ شام کی چائے اور ساتھ کباب مزہ ہی آجائے گا۔“

جان پورے اعتماد سے بولتے ہوئے عائث کو وہیں ہقا بقا چھوڑ کر جا چکا تھا۔

” عجیب انسان ہے۔ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان۔۔۔ہنہ۔۔۔چائے کے ساتھ کباب بھی فرائی کروا لینا۔“

عائث نے جھنجھلاتے ہوئے گردن جھٹکی۔ اور پھر وہ بھی شاہی کالونی کی طرف بڑھ گیا۔

                          ••••••••••••••

” اوئے کون ہو تم اور کیوں ہمارا راستہ روکاہوا ہے؟“

اس نے غصے سے سامنے موجود کندھے سے بندوق ٹانگے لوفروں کی طرح دیکھتے ہوئے شخص سے پوچھا۔ جو اچانک سے ان کے راستے میں آکر کھڑا ہو گیا تھا۔

” آہلہ چھوڑ نہ اس کو یہ تو ہے ہی آوارہ انسان ٬ اس سے بھی کیا بحث کرنی۔ چل تو میرے ساتھ۔“

اس کی دوست نے اس شخص کے تیور دیکھتے ہوئے اس کے کان میں کہا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دوسری طرف سے گزرنے لگی۔ لیکن وہ شخص پھر سے ان کے راستے میں آگیا۔

” دیکھ لیا سُکھاں اس کو چھوڑ دینے کا انجام۔۔۔ اور تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔ اور کچھ منہ سے پھوٹو گے کہ ہمارا راستہ کیوں روکا ہوا ہے تم نے؟“

وہ آہلہ تھی‘ آہلہ ارباز۔ اس نے غلط کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا سیکھا تھا۔ تو کیسے وہ کسی شخص کا بلاوجہ اپنا راستہ روک کر کھڑا ہونے پر چپ ہو جاتی۔

” بڑی اکڑ آگئی ہے تجھ میں پڑھ لکھ کر۔ او بات سن میری تو کہیں سے بھی پڑھ لکھ کر آ۔۔۔رہے گی تو اسی گاؤں کے سردار شاہ سائیں کے نوکر کی بیٹی۔“

وہ شخص بولتے بولتے اچانک خاموش ہوا۔ اور اس کو خاموش کروانے والا وہ تھپڑ تھا جو آہلہ نے کھینچ کر اس کے گال پر مارا تھا۔

” تو تم ہو وہ گھٹیا انسان‘ جو میری دوست سُکھاں کو تنگ کرتے ہو۔ ویسے حیرت کی بات ہے۔ اس کی ماں نے تمہیں اس کا رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن تم میں زرا بھی شرم نہیں ہے دلدار۔ لگتا ہے تمہیں عزت راس ہی نہیں آتی۔ اور اب دیدے پھاڑے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔ہٹو سامنے سے۔۔۔اور آئندہ سُکھاں کے راستے میں آنےکی کوشش کی نہ تو تمہاری ٹانگیں توڑ کر تمہارے ہاتھوں میں دے دوں گی۔“

وہ غصے سے بولتے ہوئے سُکھاں کا ہاتھ پکڑے اب دوسری طرف سے نکلتی چلی گئ۔ جبکہ دلدار ابھی تک منہ پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے منہ پر کسی نے تپھڑ مارا ہے اور وہ بھی ایک لڑکی نے۔

”یہ تو تم نے اچھا نہیں کیا لڑکی۔ اب دیکھو کہ میں تمہارے ساتھ کرتا کیا ہوں۔“

وہ غصے اور نفرت سے زمین پر تھوکتے ہوئے بولا۔ اور زور سے ایک پاؤں زمین پر مارا۔

                           ••••••••••••••

”شگفتہ۔۔۔او  شگفتہ۔۔۔کہاں مر گئی ہے تو۔۔۔کب سے بلا رہی ہوں۔ مگر مجال ہے جو یہ سن لے۔“

سعدیہ بیگم کب سے ملازمہ کو آوازیں دے رہی تھیں۔ جبکہ وہ یہ بھول گئیں کہ اس کو خود ہی انہوں نے پلوشے کو جگانے بھیجا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد شگفتہ ہانپتی کانپتی سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آئی۔

”جی جی بیگم سائین‘ میں حاضر۔“

ملازمہ سندھی لہجے میں بولی۔

”کہاں تھیں تم۔۔۔کب سے آوازیں لگا رہی ہوں۔“

سعدیہ بیگم نے غصے سے پوچھا۔

” وہ بیگم سائیںن آپ نے ہی مجھے چھوٹی بی بی کو جگانے بھیجا تھا۔ وہ جی‘ وہ نہیں اٹھ رہی ہیں۔ مجھے ڈانٹ کر بھیج دیا۔“

ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

”اچھا‘ جا جا اب زیادہ باتیں نہ بنا۔ بہت بولنا آگیا ہے تمہیں۔“

سعدیہ بیگم نے ہاتھوں کے اشارے سے اسے جانے کا کہا۔ ملازمہ تو جیسے اسی حکم کی منتظر تھی۔ تیزی سے وہاں سے غائب ہوئی تھی۔

”میں خود دیکھوں جا کر‘ یہ لڑکی میرا ناک کٹوائے گی۔ دن چڑھے سوتی رہتی ہے۔ اس گھر کی روایات تو بھول ہی گئی ہے۔ اس کے بابا سائیں کو پتا چلا تو میری جان کو آجائیں گے۔“

سعدیہ بیگم بڑبڑاتے ہوئے اوپر پلوشے کے کمرے تک  آئیں اور دروازہ کھٹکھٹایا۔

”اب کیا موت آپڑی ہے تجھے شگفتہ کیوں تو۔۔۔اماں سائین آپ۔۔۔“

اس نے غصے سے اس  بار بھی شگفتہ سمجھ کر بولتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے سعدیہ بیگم کو کھڑے دیکھ کر اپنی زبان کو بریک لگائی۔

”ہاں میں‘ کتنی بار تجھے شگفتہ جگا جگا کر گئی ہے لیکن مہارانی کو ابھی اور سونا تھا اس لیے مجھے خود آنا پڑا۔ پلوشے کیوں اپنے بابا سائیں کے غضب کا شکار ہونا چاہتی ہو۔ تم نے ابھی ان کا پیار دیکھا ہے غصہ نہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی بیٹی صبح سویرے اٹھ کر ماں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ اور بہت سگھڑ اور سمجھدار ہے۔ انہیں کیا پتا کہ ادھر مہارانی کو سونے سے ہی فرصت نہیں۔“

سعدیہ بیگم بہت غصے میں بول رہیں تھیں۔

”اوہ بس کر دیں اماں سائین‘ میں پلوشے شاہ ہوں۔ نیاز شاہ کی بیٹی‘ اس گاؤں کے سردار کی بیٹی۔مجھے یہ سب کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آخر یہ اتنے ملازم کس لیے ہیں۔“

پلوشے کے لہجے میں غرور بول رہا تھا۔ سعدیہ بیگم اسے گھورتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔ وہ پھر سے دروازہ بند کر کے واپس مڑی اور کمرے کے وسط میں کھڑی ہو کر ایک دیوار پر لٹکی ایک بڑے فریم میں موجود تصویر کو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگی۔

” کب آئیں گے آپ عائث شاہ‘ اور کتنا انتظار کروں۔۔خیر۔۔۔جب بھی آئیں۔۔۔آنا تو آپ کو میرے ہی پاس ہے۔۔۔کیونکہ آپ میرے ہیں۔ اور میں جانتی ہوں آپ ہمیشہ میرے ہی رہیں گے‘ صرف پلوشے شاہ کے۔“

وہ مغرور مسکراہٹ کے ساتھ عائث شاہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے پورے یقین سے بولی تھی. کیونکہ وہ پلوشے شاہ تھی۔ اور اسے لگتا تھا کہ پلوشے شاہ جو چاہے وہ حاصل کر سکتی ہے۔

                         •••••••••••••••

”ویسے تجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا آہلہ‘ تو جانتی ہے نہ یہ دلدار نامی شخص جب دشمنی پر آجائے تو بلا کی طرح چمٹ جاتا ہے۔ تونے اس کو تھپڑ مار کر اپنے لیے مصیبت کھڑی کر لی ہے۔“

سُکھاں بہت ڈری ہوئی تھی۔ اور خوف سے اپنے ساتھ چلتی آہلہ کو بول رہی تھی۔ جبکہ آہلہ اس کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر خاموشی سے چلتی رہی۔

”کچھ تو بول‘ تجھے ڈر نہیں لگ رہا دلدار سے۔ تونے اس کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ کیسا خون پلٹ آیا تھا اس کی آنکھوں میں تمہارے تھپڑ مارنے پر‘ پتا نہیں کیا کرے گا اب وہ۔“

سُکھاں اس کو خاموش دیکھ کر بولی اس کے لہجے میں ابھی بھی خوف بول رہا تھا۔

”کیا بولوں میں سُکھاں؟ اور کیا میں اس کو کرنے دیتی جو وہ کرنا چاہتا تھا؟ مرد ہے تو کیا کسی بھی لڑکی کا راستہ روک کر کھڑا ہونے کا حق مل گیا اس کو؟اور کیا کر لے گا وہ‘ اگر اس میں زرا سی بھی غیرت ہوئی تو اب تمہارے سامنے آنے سے بھی کترائے گا۔“

وہ سُکھاں کو دیکھتے ہوئے بولی۔ وہ دونوں اب گھر کے قریب آچکی تھیں۔ دونوں کا گھر ساتھ ساتھ تھا۔ بس بیچ میں ایک دیوار دی گئی تھی۔ اس دیوار کے درمیان بھی ایک چھوٹا سا دروازہ موجود تھا۔

” پھر بھی آہلہ‘ جب تک اس گاؤں میں دلدار جیسے آوارہ مردوں کا راج ہے تب تک اس گاؤں میں جہالت کا راج رہے گا۔ اور دلدار خطرناک آدمی ہے۔ تیرے لیے مسلئہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ بدلہ لے کر رہے گا۔“

سُکھاں آہلہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے سمجھانے والے انداز میں بولی تو آہلہ نے گردن جھٹکی۔

”سُکھاں یہی تو ہماری غلطی ہے. ہم کیوں اس جہالت کا حصہ بنے ہوئے ہیں. کیوں اپنے حق کی خاطر آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں. اس گاؤں کے مرد کچھ بھی کریں. تب  کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا. اور عورتیں ان مردوں کا حکم ماننے سے انکار کریں تو سب کی غیرت جاگ اٹھتی ہے. خیر چھوڑو ان سب باتوں کو اور میرے لیے پریشان مت ہونا.“

وہ سُکھاں کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نرمی سے چھڑواتی ہوئی اپنے گھر کے دروازے کی طرف بڑھی. تو سُکھاں جلدی سے بولی.

”ارے کہاں چلی...آجا آج ناشتہ ہمارے گھر  کر...اماں نے ساگ بنایا ہے. روٹی کے ساتھ ساگ اور مکھن تو تمہیں بہت پسند ہے نہ...اماں نے کہا تھا کہ واپسی پر آہلہ کو یہیں لیتی آنا.“

سُکھاں نے آہلہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور اپنے گھر کا چھوٹا اور بوسیدہ لکڑی کا دروازہ پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے اندر بڑھ گئی. جب کہ آہلہ بھی ساگ اور مکھن کا سن کر پر جوش ہو گئی.

وہ میٹرک کے بعد گاؤں میں کالج نہ ہونے کے باعث شہر چلی گئی تھی. وہاں وہ اپنے بابا ارباز کی ایک کزن کے گھر رہتی تھی. اب وہ گریجوئیشن کر چکی تھی. اور کل ہی واپس آئی تھی.

                         •••••••••••••••

وہ اپنے کمرے میں موجود الماری سے اپنی شرٹس اور کچھ اور ضروری چیزیں سوٹ کیس میں رکھ رہا تھا. کیونکہ کل صبح ہی اسے سکھر کے لیے نکلنا تھا. ابھی وہ پھر سے الماری کی طرف بڑھا ہی تھا کہ باہر کے دراوزے پر دستک ہوئی. وہ حیران ہوا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے.

” کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں. اب تو ساتھ والی آنٹی بھی دروازے سے مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی ہیں. ارے اب آنے بھی دو گے اندر....“

جان اس کے دروازہ کھولتے ہی بولنا شروع ہو گیا. اور پھر عائث کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہو گیا. جبکہ عائث ابھی تک دروازے پر ہاتھ رکھے خاموشی اور حیرت سے اسے دیکھتا رہا.

” اوہ ہیلو...کبھی کوئی خوبصورت لڑکا نہیں دیکھا کیا....اور دیکھو میں ایک شریف لڑکا.....“

” تمہیں کس نے بتایا کہ میں اس فلیٹ میں رہتا ہوں؟“

عائث اس کی بات کاٹ کر جلدی سے بولا.

” بھئی...آج کل کسی کے گھر کا ایڈریس ڈھونڈنا کوئی مشکل کام تو نہیں ہے. ان سب باتوں کو چھوڑو اور جلدی سے چائے اور کباب حاضر کرو. اس چکر میں میں نے آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا.“

جان نے کندھے اچکاتے ہوئے اس کے سوال کو نظر انداز کیا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں بولا. جبکہ عائث اس کی لا پرواہی پر حیران ہوا.

”لیکن میں نے تو کوئی چائے اور کباب نہیں بنائے.“

عائث نے الجھتے ہوئے کہا. تو جان نے آنکھیں پٹپٹائیں.

”کیا مطلب...ابھی صبح ہی تو ہماری ملاقات ہوئی اور ہم نے طے کیا تھا کہ شام کی چائے تمہارے گھر میں مل کر پیئں گے.“

جان نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا. جبکہ عائث کو اپنی اور جان کی صبح کی ملاقات یاد آئی.

”ہم نے نہیں...تم نے کہا تھا. اور مجھے کیا پتا تھا کہ تم واقعی یہاں آجاؤ گے. میرا مطلب ہے کہ.....“

عائث کچھ الجھتے ہوئے بولا. تو جان نے اسکی بات کاٹی.

”بس بس یہ میسنا منہ نہ بناؤ...مجھے پتا تھا کہ تم یہ اہتمام کبھی نہیں کرو گے اس لیے میں نے خود ہی رات کے لیے کھانا آرڈر کر دیا ہے. ہماری نئی نئی دوستی ہے. میرا خیال ہے ایک ڈنر تو بنتا ہے. لیکن پیسے تم ہی دینا. میرے پاس نہیں ہیں.“

جان نے مزے سے کہتے ہوئے عائث کو شرارت بھری نظروں سے دیکھا. جب کہ عائث تلملا کر رہ گیا.

اب ایسے کیوں گھور رہے ہو. تم ایک ڈنر نہیں کروا سکتے اپنے نئے نویلے دوست کو.“

جان نے اس کو مسلسل خود کو گھورتے ہوئے دیکھ کر ڈھٹائی سے کہا. پھر اس کو خاموش دیکھ کر خود ہی اٹھ کر کچن کی طرف بڑھا. تو عائث جلدی سے بولا.

”اب ادھر کہاں جا رہے ہو؟“

” چائے بنانے جا رہا ہوں. ہماری دوستی کی خوشی میں پہلی چائے میری طرف سے. اب تم بھی تو ڈنر کروا رہے ہو نہ تو میں اتنا بھی نہیں کر سکتا کیا.“

جان اونچی آواز میں کہتے ہوئے کچن میں داخل ہوا. جب کہ پیچھے لاؤنج میں موجود عائث اس جان نامی بلا کے زبردستی اپنے سر پر مسلط ہونے کی وجہ سے جھنجھلا کر رہ گیا تھا. پھر وہ بھی اٹھ کر کچن کی طرف بڑھا. کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں جان کچن میں پھیلاوا نہ کر دے. اسے اپنے گھر میں کسی قسم کی بے ترتیبی پسند نہیں تھی.

”تمہیں کس نے کہا کہ ہم دوست ہیں؟“

عائث فریزر کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے بولا. وہ جان کو صفائی اور سلیقے سے کام کرتا دیکھ کر حیران ہوا تھا. یہ اسکی لاپرواہ شخصیت کے متضاد تھا. اسی لیے عائث کا حیران ہونا بنتا تھا.

” میں نے کہا...اب تم تو کہنے سے رہے. ویسے اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کر کے تم آج رات کا ڈنر گول کر دو گے. تو یہ تمہاری بھول ہے.“

جان نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا. اور ساتھ ساتھ وہ چائے بنانے میں بھی لگا رہا.

”میرا کوئی دوست نہیں ہے.“

عائث نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر کہا. تو جان اسکی طرف پلٹا.

” تو اس میں اتنا اداس ہونے کی کیا بات ہے. اب سے میں ہوں نہ تمہارا دوست...“

جان کی بات پر عائث نے اسے گھورا.

” میرا کوئی دوست اس لیے نہیں ہے کیونکہ مجھے دوست بنانا پسند نہیں ہے.“

عائث نے سنجیدگی سے جواب دیا.

”تو بس پھر مبارک ہو اب تم بھی دوست والے بن گئے ہو.“

جان نے تالی بجاتے ہوئے کہا اور چائے کی طرف پلٹا. جبکہ عائث اس عجیب و غریب انسان کو دیکھ کر جھنجھلایا. پھر پیر پٹختے ہوئے کچن سے باہر نکلا. جبکہ جان اس سے بے نیاز اب چائے کپ میں انڈیل رہا تھا.

                          ••••••••••••••

”بی بی سائین... بی بی سائین....“

ملازمہ نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ بتول بیگم کو پکارا تو وہ حیران ہوئیں.

” بختاں کیوں اتاولی ہوئی پھر رہی ہو..ایسا بھی کیا ہو گیا ہے؟“

بتول بیگم نے سختی سے پوچھا تو بختاں بولی.

” وہ بی بی سائین...چھوٹے سائیں آگئے ہیں جی.“

بختاں کی بات سن کر بتول بیگم جلدی سے کھڑی ہوئیں.

”کیا تم نے خود دیکھا میرے لال کو؟“

بتول بیگم کے پوچھنے پر بختاں نے زور زور سے ہاں میں سر ہلا دیا.

” بی بی سائین میں نے گاڑی دیکھی ہے جی انکی...بڑے گیٹ سے اندر داخل ہو رہی تھی.“

بختاں کی بات سن کر بتول بیگم باہر کی طرف دوڑنے والے انداز میں بڑھیں. اور یہ پہلی بار نہیں تھا. عائث شاہ جب بھی آتا بتول بیگم اس کے استقبال کے لیے دوڑی چلی جاتیں.

بتول بیگم نے دور سے ہی عائث شاہ کو دیکھ کر اپنے بازو وا کر دیے. اور عائث شاہ ہمیشہ کی طرح بھاگتا ہوا ان کی بانہوں میں آ سمایا.

”میری پیاری اماں سائین کیسی ہیں آپ؟“

اس نے ماں کے سر پر پیار سے بوسہ دیتے ہوئے کہا تو بتول بیگم کی آنکھیں چھلک پڑیں.

” تمہیں دیکھ لیا ہے نہ اب عائث تو سمجھو چنگی بھلی ہو گئی ہوں...عائث بس بہت رہ لیا تم نے کراچی...اب واپس آجاؤ ہمیشہ کے لیے...اب اور دور نہیں رہا جاتا میرے لال.“

بتول بیگم نے بھیگے لہجے اور نم آنکھوں سے کہا تو عائث تڑپ اٹھا.

” اماں سائین آپ کو پتا ہے نہ جب آپ روتی ہیں تو میرا دل پھٹنے لگتا ہے. مجھے تکلیف ہوتی ہے.“

عائث شاہ نے بے چینی سے کہا تو بتول بیگم بیٹے کی اس قدر محبت پر سرشار ہو گئیں. اور اس کا ماتھا چوم کر بولیں.

”بس تو پھر میری بات مانو...اور اب واپس مت جانا. تمہاری پڑھائی تو کب کی ختم ہو گئی ہے نہ تو بس اب یہیں رہو اپنی ماں کے پاس.“

عائث شاہ اپنی ماں کی بات پر دھیرے سے مسکرا دیا. اس نے فون کر کے بتایا تھا کہ اس کا گریجوئیشن مکمل ہو گیا ہے. تو بتول بیگم سمجھیں کہ اس کی پڑھائی مکمل ہو گئی ہے. عائث ماں کو کندھوں سے تھامتے ہوئے اندر حویلی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا.

”اماں سائین...آپ کا حکم سر آنکھوں پر...بھلا پہلے کبھی آپ کی کسی بات کا انکار کیا ہے جو اب کروں گا.“

عائث کے لہجے میں ماں کے لیے اس قدر محبت دیکھ کر ساتھ چلتی بختاں کا دل بھر آیا. اسے اس وقت ماضی یاد آگیا تھا. وہ اس خوبرو جوان کو دیکھ کر بتول بیگم کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے ہوئے وہاں سے ہٹ گئی.

”اچھا مجھے یہ بتائیں کہ بابا سائیں کہاں ہیں؟“

عائث نے قاسم شاہ کی غیر موجودگی محسوس کی تو بتول بیگم سے پوچھا.

” پتا نہیں عائث...تمہارے بابا سائیں کہیں جاتے ہوئے مجھے آج تک کبھی بتا کر گئے ہیں جو آج بتا کر جائیں گے. آج صبح ہی صبح کہیں چلے گئے تھے. اور اب رات ہونے کو آئی ہے ان کی کوئی خبر نہیں۔“

بتول بیگم نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو عائث اس اداسی کا اثر زائل کرنے کے لیے جلدی سے بولا.

”اماں سائین..اور کہاں جانا ہے بابا سائیں نے ڈیرے پر ہوں گے اپنے...آپ کو پتا تو ہے گاؤں کے لوگ ان کو اپنی پریشانیاں اور مسئلے مسائل بتانے آتے رہتے ہیں.تو بس اسی لیے ہی وہ دیر سے آتے ہیں. اور اب تو میں آگیا ہوں نہ تو اب یہ اداسی مجھے آپ کے چہرے پر نظر نہ آئے.“

عائث نے مسکراتے ہوئے کہا تو بتول بیگم اس کے چہرے کو دیکھنے لگیں. عائث کے ابرو اچکانے پر انہوں نے سر جھٹکا اور بولیں.

” ہاں بلکل میرے لال کے ہوتے ہوئے بھلا مجھے اداس ہونے کی کیا ضرورت ہے. اور تم آنے سے پہلے بتا دیتے تو آج میں سارے کھانے تمہاری پسند کے بنواتی.“

بتول بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو عائث مسکرا دیا.

”اماں سائین میں نے بابا سائیں کو بتادیا تھا. شاید وہ آپ کو بتانا بھول گئے. اور کھانوں کا کیا ہے اب تو میں ادھر ہی ہوں تو میں جانتا ہوں کہ اب میری پیاری اماں سائین روز میرے ہی پسند کے کھانے بنوائیں گی.“

اس نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو بتول بیگم بھی ہلکے سے مسکرا دیں. جب کہ عائث کا دل کیا کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی مسکراتی رہیں.

وہ بچپن سے ہی بتول بیگم کے بہت قریب تھا. اور اس میں بتول بیگم کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا. وہ عائث شاہ کو قاسم شاہ کی عادتوں اور مزاج سے دور رکھنا چاہتی تھیں. اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گئی تھیں. لیکن ایک عادت عائث شاہ نے قاسم شاہ سے اس طرح چرائی کہ بتول بیگم چاہ کر بھی نہ بدل پائیں. اور وہ تھا غصہ. عائث شاہ‘ قاسم شاہ کی طرح غصے کا بہت تیز تھا. لیکن غصے کا استعمال عائث شاہ نے کبھی ناجائز نہیں کیا تھا.اور اسی بات کو لے کر بتول بیگم مطمئن تھیں. کیونکہ عائث شاہ نے کبھی کسی ملازم پر بلاوجہ غصہ نہیں کیا تھا. جبکہ قاسم شاہ کا ملازموں کو ڈانٹنا اور بات بات پر جھڑک دینا معمول بن چکا تھا. لیکن یہ رویہ وہ تب ہی اپناتے جب عائث شاہ گھر نہ ہوتا. یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے باپ کو ایک رحمدل انسان اور گاؤں کا انصاف پسند سردار سمجھتا تھا. جو اپنے گاؤں کے لوگوں کی پریشانیاں اور مسئلے حل کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹوں تک اپنے گھر سے دور رہتے تھے. اور بتول بیگم اس وقت سے ڈرتی تھیں. جب عائث شاہ کا یہ غرور ٹوٹتا. اور یہی سوچ کر وہ خاموش ہو جاتیں. اور ان کی یہ خاموشی کتنا بڑا طوفان لے کر آنے والی تھی. اس بات سے وہ خود بھی بے خبر تھیں.

                           ••••••••••••••

” تمہیں تو ڈوب کر مر جانا چاہیے دلدار ایک لڑکی سے ڈر گئے. میں تو تمہیں بہت بہادر سمجھتا تھا. اور تم ایک لڑکی سے تھپڑ کھا کر آگئے.“

قاسم شاہ سخت غصے کے عالم میں دلدار پر چلا رہے تھے. دلدار سمیت کئی ملازم اور بھی ان کے غصے سے ڈر کر کانپ رہے تھے.

”سائیں بس ایک موقع دے دیں. پھر آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا.“

دلدار قاسم شاہ کے آگے گڑگڑایا تھا.

”دیکھو دلدار... اس لڑکی کے نہ ماننے پر میں نے تمہیں کھلی چھوٹ دی تھی کہ چاہو تو اس لڑکی کو اغوا کر کے نکاح پڑھوا لو. لیکن تم نے کہا کہ تم اس سے محبت کرتے ہو اور تم اسے عزت سے گھر لانا چاہتے ہو. اب دیکھ لیا کہ کیا انجام ہوا. الٹا اس کی ماں  نے تمہیں ذلیل کر کے گھر سے نکال دیا. اور وہ اس کی سہیلی اس نے بیچ چوراہے میں تمہیں تھپڑ مارا. مجھے تو شرم آتی ہے تم جیسے بزدل انسان کو اپنا خاص ملازم کہتے ہوئے.“

قاسم شاہ نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حقارت سے دلدار کو دیکھتے ہوئے کہا. اور اسی لمحے دلدار کے دل میں آہلہ کے لیے ایک اور نفرت کی چنگاری ابھری تھی.

”سائیں..بس ایک موقع دیں....اس ارباز کی چھوری کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ اس کی ساری تعلیم دھری کی دھری رہ جائے گی. اور آئیندہ اس گاؤں کی کوئی لڑکی کسی مرد کے مد مقابل آتے ہوئے ہزار بار سوچے گی.“

دلدار نے پہلے لجاجت سے اور پھر کمینگی سے کہتے ہوئے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرا. جبکہ قاسم شاہ نے اس کی بات پر ہاتھ اٹھا کر منع کیا.

”اوہ نہیں دلدار نہیں...اب یہ صرف تمہارا مسئلہ نہیں رہا. ارباز کی لڑکی نے میرے خاص بندے پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت کی ہے. اس کا خمیازہ تو اسے بھگتنا پڑے گا.“

قاسم شاہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا.

”آپ حکم کریں سائیں...کہیں تو ابھی اس لڑکی کو لے آؤں؟“

دلدار نے خوشامدی لہجے میں کہا.

”اوہ نہیں...یہ نہ کرنا. تمہارے کہنے کے مطابق وہ اور سُکھاں بہت پکی سہلیاں ہیں. اور ایک دوسرے پر جان وارنے کو بھی تیار ہو جاتی ہیں. تو کیوں نہ تم اپنی سُکھاں کو اغوا کر لو. اور نکاح پڑھواؤ. پھر دیکھنا ارباز کی لڑکی خود ہی سر کے بل دوڑتی ہوئی آئے گی. ارباز کو بھی بڑا غرور ہے اس کی تعلیم پر‘ اس کو بھی تو پتا چلے کہ لڑکیوں کو سر چڑھانے کا انجام کیا ہوتا ہے.“

قاسم شاہ نے مغرور لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا. تو دلدار نے سر ہلادیا.

”اور وہ حنیف والی زمین کا کیا بنا. دینے کو تیار ہوا یا ہڈیاں تڑوانے کا ارادہ ہے اسکا؟“

حنیف گاؤں کا غریب آدمی تھا. اور اس کی زمین قاسم شاہ کی زمینوں کے ساتھ جڑی تھی. اور قاسم شاہ وہ زمین اس سے بہت کم قیمت پر خریدنے پر بضد تھے. جبکہ حنیف کی روزی روٹی اسی زمین کے وسیلے سے تھی. اس لیے وہ اس زمین کو نہیں بیچنا چاہتا تھا.

”سائیں آپ فکر نہ کریں...اب تک میں اس کی عمر کا لحاظ کر رہا تھا. لیکن اب بھی اگر وہ نہ مانا تو پھر میں اپنے طریقے سے اسے منا لوں گا.“

دلدار نے قاسم شاہ کو تسلی دینے والے انداز میں کہا تو  انہوں نے دلدار کو جانے کا اشارہ کیا. اسی وقت کسی ملازم نے عائث شاہ کے حویلی آنے کی خبر دی تو وہ بھی حویلی کے لیے نکل گئے.

                       ••••••••••••••••

آہلہ اپنے گھر کے چھوٹے سے صحن میں لگے درخت کے نیچے بنائے گئے جھولے پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی. جب سُکھاں نے پیچھے سے آکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا. تو وہ یکدم اچھلی اور اس کے ہاتھ میں موجود کتاب نیچے گر گئی.

”توبہ ہے سُکھاں ڈرا دیا تم نے مجھے.“

آہلہ نے خفگی سے کہتے ہوئے زمین سے کتاب اٹھائی. اس کی بات پر سُکھاں کھلکھلائی.

”واہ...دلدار جیسے غنڈے کو چوراہے میں کھڑے ہو کر اسے اسکی اوقات یاد کروانے والی آہلہ مجھ معصوم سے ڈر گئی.“

سُکھاں نے پیار سے اس کے گال کھینچے. تو آہلہ جھنجھلائی.

”اوں ہوں...چھوڑو میرے گال سُکھاں کی بچی...“

آہلہ نے ہلکے سے اس کے ہاتھوں پر تھپڑ مارا تو وہ زور سے ہنس پڑی. اس کو ہنستا دیکھ کر آہلہ بھی مسکرانے لگی.

”اچھا یہ بتا...تونے شہر جانا تھا نہ اپنی پھوپھو کے گھر سے اپنا سامان لینے. تو گئی کیوں نہیں ابھی تک.“

سُکھاں نے یاد آنے پر پوچھا تو آہلہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا.

”ہاں بابا کسی کام سے گئے ہیں. انہوں نے ہی لے جانا تھا مجھے شہر...شاید آج شام تک جائیں ہم.“

آہلہ کی بات پرسُکھاں نے سر ہلا دیا. پھر یاد آنے پر زور سے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی.

”ارے تجھے ایک بات تو بتائی ہی نہیں میں نے....تجھے پتا ہے چھوٹے سائیں کل رات ہی کراچی سے آگئے ہیں.“

سُکھاں کی بات سن کر آہلہ چند لمحے خاموش ہوئی پھر سر جھٹک کر سُکھاں کو گھورا.

” نام نہیں آتا تمہیں عائث شاہ کا..سائیں سائیں کرتی رہتی ہو. بختاں ماسی کام کرتی ہیں حویلی میں‘ تم ملازمہ نہیں ہو ان کی.“

آہلہ کے کہنے پر سُکھاں نے اس کے سر پر ہاتھ مارا.

”ارے پگلی...میں اس لیے سائیں تھوڑی کہہ رہی ہوں . اور یہ سندھی روایت ہے نہ جس کو ہم عزت دیں اس کو ہم سائیں یا سائین کہتے ہیں. اور چھوٹے سائیں تو شاہ سائیں سے بڑے اچھے ہیں. اس لیے میں ان کی عزت کرتی ہوں. بلکہ میں کیا سارا گاؤں....“

اچھا بس بس...اب اس کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دو گی...ایک منٹ کیا کہا تم نے...چھوٹے سائیں‘ شاہ سائیں سے اچھے ہیں؟“ کیا مطلب ہے اس بات کا؟“

آہلہ بولتے بولتے یکدم چونکی. اسے سُکھاں کی بات پر حیرانی ہوئی.

”وہ کچھ نہیں..میں نے تو بس ویسے ہی کہہ دیا..“

سُکھاں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن اب دیر ہو چکی تھی.

”بتاؤ مجھےسُکھاں...کیا مطلب تھا تمہاری بات کا...قاسم شاہ کا رویہ کیسا ہے یہاں کے لوگوں کے ساتھ...میں تو یہاں ہوتی ہی نہیں...تمہیں تو پتا ہوگا نہ.“

آہلہ کے انداز سے سُکھاں کو اندازہ ہو گیا کہ وہ جب تک آہلہ کو پوری بات نہیں بتائے گی تب تک آہلہ اس کی جان نہیں چھوڑے گی. اور پھر سُکھاں نے قاسم شاہ کے گاؤں کے غریب لوگوں پر ظلم وستم اور ملازموں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کی ساری داستان سنا دی. آہلہ کو یہ سب سن کر شاک لگا تھا.

” آج سے پہلے تو تم نے مجھے کبھی نہیں بتایا اور بابا نے بھی مجھ سے کبھی زکر نہیں کیا.“

آہلہ شاک کے عالم میں بول رہی تھی.

” تم آتی ہی دو دنوں کے لیے تھی. اسی لیے تجھے ارباز چاچا نے پریشان نہیں کیا. انہیں پتا تھا کہ تمہیں یہ سب سن کر برا لگے گا. اور مجھے بھی انہوں نے منع کیا تھا. اور اب تو یہ سب نہ سوچ‘ یہ تو اب کئی سالوں سے معمول بن چکا ہے.“

سُکھاں نے اس کے تیور دیکھتے ہوئے اسے پرسکون کرنا چاہا.

”اور تو کہہ رہی تھی کہ عائث شاہ اچھا انسان ہے. اگر وہ اتنا ہی اچھا ہے تو کبھی اپنے باپ کو روکا کیوں نہیں اس سب سے.“

آہلہ نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا تو سُکھاں مسکرائی.

” پگلی وہ تو خود اس سب سے انجان ہیں. انہیں کیا خبر کہ یہاں کیا ہوتا ہے. وہ تو یہاں ہوتے ہی نہیں. اور جب یہاں ملنے کے لیے آتے ہیں تو  قاسم شاہ ان کے سامنے ہر کسی سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے ان سے زیادہ رحمدل انسان کوئی ہو ہی نہ...اور یہ سب دیکھ کر چھوٹے سائیں کو اپنے بابا سائیں پر فخر ہوتا ہے. انہیں کیا پتا کہ ان کی بابا سائیں کا اصل روپ کیا ہے.“

سُکھاں نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ بتایا. اس کی ماں بختاں حویلی کی پرانی اور بتول بیگم کی خاص ملازمہ تھی. اور وہ سُکھاں کو قاسم شاہ کے رویے کے بارے میں بتاتی رہتی تھی.

”اور عائث شاہ کی ماں اس کو حقیقت نہیں بتاتیں ؟“

آہلہ کو بتول بیگم پر غصہ آیا. وہ کیوں اپنے بیٹے سے حقیقت چھپاتی تھیں. اس نے بتول بیگم کے بارے میں بختاں سے سن رکھا تھا کہ وہ اچھی اور نیک خاتون ہیں. ارباز کے علاوہ آج تک کوئی نہیں جان سکا تھا کہ وہ آہلہ سے ہی کیوں بتول بیگم کی باتیں اور تعریفیں کرتی تھی.

”اب مجھے کیا پتا کہ بی بی سائین کیوں نہیں بتاتیں چھوٹے سائیں کو...اور تو چھوڑ ان باتوں کو...“

سُکھاں نے آہلہ کا دھیان بٹانا چاہا. لیکن آہلہ تو کچھ اور ہی سوچ کر بیٹھی تھی. اس نے سُکھاں کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلا دیا.

آنے والے وقت سے دونوں ہی بے خبر تھیں. دونوں اس بات سے انجان تھیں کہ آنے والے دنوں میں دونوں کی زندگی کس موڑ پر مڑنے والی تھی.

                           •••••••••••••

Vote and Reviews Please 📌📌

    

Continue Reading

You'll Also Like

3.7K 431 28
یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے ہم چاہے خود کو دینا کی رنگینیوں میں جتنا بھی گم کر...
3 0 6
This novel, Ishq e Fana, has been previously published on other platforms and is available in its entirety there. The version presented here on Wattp...
14.8K 510 16
یہ کہانی ہے احان حیدر شاہ اور عابیر عاظم ملک کی۔ احان حیدر شاہ جو ایک خاندانی رئیس ہے اور عابیر عاظم ملک جو احان کی جنونیت اسکا عشق ہے جس کو حاصل کرن...
21.2K 1.3K 16
انبھاج اور ضرار کی تکرار کی کہانی ۔ عفیفہ اور ایان کے اعتبار کی کہانی ۔ دادی اور ازلان کی نوک جھونک کی کہانی ۔ کہانی ہے ساتھ نبھانے والوں کی ہر قدم س...