ریاضت تمام

whollySinner által

3.4K 345 263

سیکوئل آف صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی یہ کہانی تھی: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔... Több

بنام سعدیہ
باب نمبر 1
باب نمبر 2
باب نمبر 4
باب نمبر 5
باب نمبر 6
Announcement

باب نمبر 3

400 42 43
whollySinner által

3

"ما میں مجدے کو باہر لے جاؤں گا آج رات۔" کھانا ختم کر کے عجلت میں مطلع کرتا وہ ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مجدے حیران و پریشان سی اسے دیکھنے لگی۔ 

"ہاں ضرور۔ لیکن یہ لڑکی راضی نہیں ہوگی۔" مادام ایولین نے نفی میں سر ہلا کر مجدے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"مس مجدے اس مرتبہ میرے پاس وقت بہت کم ہے اور کرنے والے کام بہت زیادہ ہیں، اور بہت ضروری کام ہیں، اس لیے انکار تو میں کسی صورت نہیں سنوں گا۔" ٹیبل پر دونوں ہتھیلیاں پھیلائے وہ اس کی طرف جھک کر کہنے لگا۔

"میں آپ کے ساتھ باہر نہیں جاؤں گی وہ بھی اس قدر رات کو۔" مجدے نے فوراً ہاتھ کھڑے کیے تھے۔

وہ ایکدم کچھ بولتے بولتے چپ ہوگیا تھا۔

مادام ایولین نے اس کی خاموشی اور مجدے کی برہمی محسوس کر کے بڑے اعتماد سے کہا۔

"مجھے اپنے پوتے پر بہت بھروسا ہے مجدے۔ وہ تمہیں نہ غلط نظر سے دیکھے گا نہ کسی کو دیکھنے دے گا۔ ایک دفعہ اس پر اعتبار کرو اگر کہیں اسے زرا سا بھی ڈگمگاتا پاؤ تو بھلے روح جسم سے کھینچ لینا میں تم سے سوال نہیں کروں گی۔"

مادام ایولین اکثر ہی جیکب کے لیے بہت possessive ہو جایا کرتی تھیں۔

جیکب لب بھنچے سر جھکائے میز کے پاس کھڑا تھا۔

"جاؤ گی اس کے ساتھ؟"

مثبت میں سر ہلا کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"اس کی باتوں کا غصہ مت کیا کرو وہ جلدی کسی پر بھروسہ نہیں کرتی۔ اس بات کا اندازہ اب تک تمہیں ہوجانا چاہیے تھا، اسے تین سال ہوئے ہیں یہاں آئے اور ہماری فیملی، رینا، ڈیوڈ اور چند ایک لائبریری کے مستقل وزیٹرز کے علاوہ وہ کسی کو بھی نہیں جانتی۔" مادام ایولین جیکب کے پاس آ کھڑی ہوئیں اور اس کا بازو تھپک کر سمجھانے لگیں۔

"وہ سب تو ٹھیک ہے ما۔" انہیں بازوؤں میں بھر کر وہ گول گول گھمانے لگا، وہ سر پیچھے پھینک کر ہنس دیں۔ "لیکن جب بھی اس کے جاننے والوں کی بات کریں نا تو میرا نام سر فہرست رکھا کریں۔"

"اس سے کیا ہوگیا؟" وہ آنکھیں چھوٹی کر کے غصے کے تاثرات سجا کر پوچھنے لگیں۔

"اس سے مجھے اطمینان ہوگا۔" اس نے مسکرا کر انہیں زمین پر سہارا دیکر کھڑا کیا۔

اس کی بات سن کر اسے چپت رسید کی۔ "اس کے معاملے میں بالکل جھلے بن جاتے ہو، جیکب۔"

"خوش ہوجائیں نا کہ آپ کا فیورٹ پوتا آپ کی فیورٹ ورکر اور روم میٹ کو پسند کرتا ہے۔"

"وہ صرف میری ورکر یا روم میٹ نہیں ہے۔ مجھے اس سے بہت خاص انسیت ہوگئی ہے جیکب۔ جیسی تمہیں ہوگئی ہے۔" وہ ہنسنے لگا۔ "میں تمہیں دکھی نہیں دیکھ سکتی اور اسے۔۔ اسے تو میں نے آج تک کھل کر مسکراتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔"

مادام ایولین کی بات درمیان میں کاٹ کر وہ آہ بھر کر بولا۔ "افسوس! میں نے بھی نہیں۔"

اسے ایک اور چپت مار کر وہ دوبارہ گویا ہوئی تھیں۔ "میرا پوائنٹ یہ ہے کہ اگر تم اسے مسکرانا سکھا دو تو میں تمہاری شکر گزار ہوں گی اور اگر وہ نہ کر سکو تو کم از کم اتنا یقینی بنانا کہ اس کی آنکھوں میں تمہاری وجہ سے کبھی بھی آنسو نہ آئیں۔"

"Trust me Ma, bringing tears in her eyes wouldn't even be the last thing in the world that I'd want to do."

ان کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ "ہمیشہ خوش رہو۔" وہ اس کا ماتھا چوم کر بولیں۔ "اب جاؤ اس سے پہلے کہ وہ تیار ہوکر باہر آ جائے اور تمہیں یونہی کھڑا دیکھ کر تم پر غصہ کرے۔" اسے کچن سے باہر دھکیلتے ہوئے انہوں نے کہا۔

"جا رہا ہوں، جا رہا ہوں۔ مگر آخری بات ابھی تک میں اسے کھل کر ہنسا تو نہیں سکا مگر ہاں کبھی کبھار میری باتوں پر مسکراتی ضرور ہے۔ اینڈ دیٹس آ ون گرینڈ ما۔"
(And that's a win)

مادام ایولین کو آنکھ مار کر وہ تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

____________

جیکب، مجدے کو لیکر پیدل ہی بلڈنگ سے نکل آیا تھا۔ اب وہ تقریباً تین بلاکس چل چکے تھے مگر جیکب کی مطلوبہ جگہ تک نہیں پہنچے تھے۔

وہ سفید ٹی شرٹ کے ساتھ سیاہ جینز اور سیاہ لیدر کے اینکل بوٹس پہنے تھا۔ مجدے عبایہ پہنے اور نقاب کیے تھی۔

وہ اس کے بالکل برابر ایک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر چل رہا تھا۔ وہ پاس سے گزرتے شخص پر تبصرہ کرتا، پھر اس کی رائے مانگتا، ہوں ہاں میں جواب دے کر وہ خاموش ہو جاتی وہ پھر نیا شخص ڈھونڈ کر اس کی کوئی نئی بات بتانے لگتا وہ پھر ایک دو لفظ سے زیادہ نہ بولتی۔

"تم ہمیشہ یونہی خاموش رہتی ہو یا مجھ سے شرما رہی ہو؟" بڑی سنجیدگی سے پوچھتے ہوئے وہ اس کے برابر سے نکل کر اس کے عین سامنے کھڑا ہوگیا۔

وہ آنکھوں میں حیرت و نا پسندیدگی لیکر اسے تکے گئی۔

"نیور مائنڈ۔" ہاتھ جھلا کر وہ چلنے لگا۔

"اور کتنا چلنا ہے؟" تنگ آکر وہ پوچھنے لگی۔

"بس تھوڑا سا ہی اور۔"

ایک بار کا دروازہ دھکیل کر وہ اندر داخل ہوا تو مجدے ٹھٹک کر رک گئی۔

اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ دروازے سے باہر اسے شاکی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"میرے دوست ہیں اندر مجھے ان سے ملنا ہے۔ آ جاؤ۔" اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر وہ اسے اندر بلا رہا تھا۔

"میں نہیں آؤں گی۔" وہ تیز تیز سر نفی میں ہلانے لگی۔

"ٹھیک ہے۔" وہ بھی باہر آ کھڑا ہوا، اور اسے لیکر دروازے سے ایک جانب ہوگیا۔ فون ملا کر وہ اپنے دوستوں کو باہر آنے کا کہنے لگا۔

پانچ منٹ بعد تین لڑکے اور دو لڑکیاں آ کر جیکب سے ملنے لگیں۔

"گائز مجدے، مجدے ہیری، جارج، ایلن، فریحہ، جسٹن۔"

"لیٹ می گیس یہ وہی مجدے ہے نا۔" فریحہ چہک کر بولی تھی۔

مجدے جو کب سے دل برداشتہ ہوئی کھڑی تھی ایکدم رخ موڑ کر جیکب کو دیکھنے لگی، جو اس بات پر مسکرا رہا تھا۔

اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے وہ اس کی طرف پلٹا اور ایکدم اس کی آنکھوں کی سرخی سے چونکا۔

"تم لوگوں سے بعد میں ملوں گا ابھی مجھے جانا ہے۔" جیکب سے مل کر وہ سارے مجدے کو خدا حافظ کر کے بار کے اندر چلے گئے۔

مجدے فوراً واپس مڑ گئی۔ "مجدے میری بات تو سنو۔" جیکب اس کے پیچھے لپکا۔

وہ ایکدم بیچ سڑک کے جا کے رک گئی۔ آر پار گاڑیاں جا رہی تھیں۔ جیکب بھاگتا ہوا اس کی طرف آیا اور بازو سے کھینچ کر اسے ایک طرف لے گیا۔

"یہ کیا بے وقوفی تھی۔" اس کی آواز میں غصہ بول رہا تھا۔

"اس کی بات کا کیا مطلب تھا؟ کون سی مجدے؟ کیا کیا بتایا ہوا ہے انہیں میرے بارے میں۔" اس کا گریبان دبوچ کر وہ درشتی سے دریافت کررہی تھی۔

"جب میں پہلی دفعہ تم سے ملا تھا تب میں نے فریحہ سے ذکر کیا تھا کہ ما کے پاس ایک مسلمان رہتی ہے اور تمہارے نقاب کا بتایا تھا کیونکہ میں فریحہ کو بچپن سے جانتا تھا اس کی فیملی کو بھی وہ بھی مسلم ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نقاب نہیں کرتا اس لیے میں حیران ہوا تھا تھوڑا تمہیں نقاب میں دیکھ کے۔" اس کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر اس نے آہستگی سے اپنا گریبان چھڑوایا۔

وہ ابھی بھی چہرہ اٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔

"جب میں دوسری بار تم سے ملا تم مجھے اچھی لگ گئی اور جو ہمیں اچھا لگتا ہو اس کا ذکر تو ہم ہمہ وقت کرتے رہتے ہیں۔" لبوں پر مسکراہٹ سجا کر وہ اس کی آنکھوں میں موجود اپنے عکس کو بغور تکنے لگا۔

کتنی ہی دیر وہ اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا مگر وہ پلکیں جھپکائے بغیر یک ٹک اسے دیکھتی رہی تھی، آنکھوں میں سرخی پھیل رہی تھی۔

"تم اس بات پر حیران ہورہی ہو؟" وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر جا کھڑا ہوا، اس کی آواز میں مایوسی چھلک رہی تھی۔

"تم نہیں جانتی تھی کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور وہ بھی پہلے ملاقات سے ہی؟" وہ یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ اسے یہ سوال پوچھنے پڑ رہے تھے۔

وہ سر جھکائے کھڑی تھی۔

"بولو مجدے!" وہ اضطراب میں مبتلا ہو رہا تھا۔

"مجھے ما سے محبت تمہارے آنے سے پہلے بھی تھی مگر میں ہر دوسرے ہفتے ان سے ملنے نہیں آتا تھا۔" وہ اس کے سامنے چکر کاٹنے لگا۔

"مجدے کچھ تو بولو۔" وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی، دونوں کی آنکھیں لال تھیں۔

"میں تمہیں کسی بھی فیصلے کے لیے پریشرائز نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے پہلے کبھی تم سے کچھ نہیں کہا، لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں مجدے ابراہیم تم سے زیادہ میں نے کسی کو نہیں چاہا نہ کسی چیز کو نہ کسی شخص کو۔"

اپنی سمندر سی گہری آنکھوں کو اس کی رات کے اندھیرے سی سیاہ آنکھوں میں گاڑھے وہ اپنے جذبات کا پہرہ کھول رہا تھا۔

ان کے پیچھے ایک شخص گٹار پر you and I کی دھن بجا رہا تھا۔ مجدے کو اشارہ کر کے وہ گٹارسٹ سے کچھ فاصلے پر آ بیٹھا۔

"آج میرے آنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"

اس کا چہرہ پیلا پڑنے لگا تھا، جیکب کو اندازہ ہوا، اس کی آنکھیں پتھرائی تھیں۔

"تمہیں فوراً جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے مجدے۔ تم سے محبت کرنے سے زیادہ میں تمہاری عزت کرتا ہوں، تم میرے لیے بہت اہم ہو۔"

"میں واپس جا رہی ہوں۔" وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔

وہ بھی ساتھ ہی کھڑا ہوا۔

"مجدے پلیز مجھے غلط مت سمجھنا۔" اس کے پیچھے لپکتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا مگر وہ تیزی سے بھاگنے لگی۔

وہ تو اسے بہت خوبصورتی سے پروپوز کرنے والا تھا پھر یہ کیا ہوگیا۔ مجدے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ ندامت سے سوچنے لگا۔

چلو اچھا ہی ہوا۔ مجھے اس کی مرضی معلوم کیے بغیر ویسے بھی سب کے سامنے پروپوز نہیں کرنا چاہیے۔ پھر خود کو تسلی دینے کی سعی کی۔

جیب سے فون نکال کر اس نے فریحہ کو ملایا۔ "ہائے! گرینڈ ما کو اپارٹمنٹ پر چھوڑ آؤ پلیز اور انہیں کہنا کہ مجدے سے کسی بات کا ذکر نہ کریں۔"

"کیا اس نے انکار کردیا؟" فریحہ کی آواز میں حیرانگی تھی۔

"نہیں اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اب وہ بھاگ کر مصروف روڈ کراس کرنے والی ہے مجھے جانا ہے۔" وہ فوراً اس کے پیچھے بھاگا۔

_____________

اپنے کمرے میں پہنچنے تک وہ ڈھیروں ڈھیر آنسو بہا چکی تھی۔ وہ تو لوگوں کی نظروں سے ہمیشہ بچتی آئی تھی تو جیکب کی نظروں میں کیسے آ گئی۔

"مادام ایولین!" منہ اچھے سے دھو کر وہ مادام ایولین کے کمرے کے باہر کھڑی ہوکر آواز لگانے لگی۔

جیکب صوفے پر خاموشی سے بیٹھا تھا۔

"کیا بات ہے مجدے؟"

"میں آج رات رینا کے پاس گزاروں گی۔"

"سب ٹھیک ہے نہ؟"

"جی ہاں۔ میں جانے لگی ہوں۔"

"جیکب ساتھ کوئی بات ہوئی ہے؟" مادام ایولین دروازہ کھول کر باہر آگئیں۔

"نہیں.. سب ٹھیک ہے۔" اس کی آواز کانپ گئی تھی۔

مادام ایولین نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا تو وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔

"میں چلا جاتا ہوں مجدے تم نہیں روؤ۔" جیکب بیتابی سے بولا تھا۔

ان کے گلے لگی وہ سسکتی رہی۔

"میرا بچہ روؤ نہیں۔ اگر تمہیں جیکب پسند نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ وہ تم سے کوئی زور زبردستی نہیں کرے گا۔ تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔" وہ اسے خود سے الگ کرنا چاہ رہی تھیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

جیکب نظریں جھکا گیا۔

"ما میں واپس جا رہا ہوں۔"

"ٹھیک ہے۔" مادام ایولین نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دینا چاہی۔

وہ کمرے سے بیگ لیکر آیا تو مادام ایولین صوفے پر مجدے کے برابر بیٹھیں اسے پانی پلانے کی کوشش کررہی تھیں۔

"آئی ایم سوری مجدے۔" وہ بلند آواز میں کہہ کر باہر نکل گیا۔

وہ باہر چلا گیا تو مجدے بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔

وہ اپنے بستر پر دو زانوں بیٹھ گئی۔ تب اس کی نظر سامنے ٹیبل پر پڑے کاغذوں پر پڑی۔ یہ کاغذ وہ مادام ایولین کے دوستوں کو خط لکھنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔

آنسو صاف کرکے ایک کاغذ اور قلم اٹھا کر وہ لکھنے لگی۔

پیاری سعدیہ غفار!
السلام علیکم!

لیمپ کی زرد روشنی اس کے چہرے کی کملاہٹ کو مزید ابھارنے لگی۔

صفحے کے وسط پر پہنچنے تک اس کی آنکھیں حد سے زیادہ جھلملانے لگی تھیں اور سر میں درد کی شدید ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔ کاغذ پر قلم رکھ کر وہ بستر پر جا لیٹی۔

بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا

___________

ایک ہفتے بعد ہفتے کی ہی سہ پہر مجدے لائبریری میں کھڑی تھی جب اپنے پیچھے اسے جیکب کی آواز سنائی دی۔ پلٹ ے پر اس نے جیکب کو مسکرانے کی سعی کرتے پایا۔

"مجدے!!" اس کا سانس اکھڑا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

"غصہ مت کرنا۔" وہ فوراً آگے بڑھا۔ "میں بس ایک دفعہ تم سے بات کرنا چاہتا تھا اگر پھر بھی تمہارا جواب نفی میں ہوگا تو میں پیچھے ہٹ جاؤں گا۔" اپنی بات مکمل کرکے وہ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔

"سنٹرل پارک چل کر بات کرتے ہیں۔" جیکب کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"اوکے۔"

لیڈی ایولین کو بتا کر وہ اور جیکب آگے پیچھے پارک کی طرف چل دیے۔ پارک کے داخلی دروازے کے سامنے پھولوں کی دکان تھی، جسے دیکھ کر جیکب رک گیا۔

"میں ابھی واپس آیا۔" اس کا جواب سنے بغیر وہ بھاگتا ہوا سڑک پار کرکے پھولوں کی دکان میں داخل ہوا۔

وہ آنکھیں چھوٹی کر کے اس کی پشت کو گھورنے لگی۔ اور جب وہ واپس آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور ہاتھوں میں تین لمبی ٹہنیوں والی سفید کلیاں تھیں۔

وہ دونوں آہستہ آہستہ چہل قدمی کرنے لگے۔ معمول کے برعکس جیکب اس کو تکے ہی نہیں جا رہا تھا بلکہ اپنے ہاتھوں میں موجود پھولوں کے ساتھ لگے کانٹے چن رہا تھا۔

"میرا نام۔۔۔ میرا نام مجدے ابراہیم نہیں ۔۔ علوینہ ذوالقرنین ہے۔"

جیکب نے حیرت سے اسے دیکھا مگر کچھ بولا نہیں، وہ کب سے اسے سننا چاہتا تھا۔ "اس سے پہلے کہ تم مجھے دوبارہ اپنی زندگی میں شامل ہونے کے لیے پوچھو میں تمہیں اپنی حقیقت بتا دینا چاہتی ہوں۔" وہ ٹھہر ٹھہر کر بڑے تحمل سے الفاظ ادا کررہی تھی گویا اس وقت الفاظ کا چناؤ اسے بڑی اذیت میں مبتلا کررہا تھا۔

"تمہاری حقیقت علوینہ ہے یا مجدے، مجھے فرق نہیں پڑتا۔ میں صرف تمہیں اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا میں تمہاری زندگی کا بھی حصہ بننا چاہتا ہوں۔ بھلے تم مجھے مرکزی حیثیت نہ دو بس اپنی زندگی میں جگہ دے دو۔ اور میری اس خواہش کو تمہارا کوئی بھی اعتراف یا کوئی حقیقت نہیں بدل سکتی۔" اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا کہہ رہا تھا۔ سورج بادلوں کے پیچھے چھپا تھا اور پھولوں کی مہک سے مزین ہوا ان کا طواف کررہی تھی۔

علوینہ نے آنکھوں سے سیاہ لینز اتارے تو جیکب ایکدم ہنس پڑا، اس کی بے طرح ہنسی علوینہ کو بری لگی تھی۔

"ان کالی آنکھوں پہ میں مر مٹا تھا، اب ان سبز آنکھوں کا شیدائی ہو جاؤں گا۔" اس کا لہجہ لو دیتا تھا، وہ چہرہ موڑ گئی۔

"کہانی بہت لمبی ہے۔" وہ طنز سے بولی۔

اختتام تک تمہارے تمام عہد دم توڑ جائیں گے، اس نے تلخی سے سوچا۔

"تم جو بھی بتانا چاہتی ہو میں سن رہا ہوں۔ آؤ ادھر بیٹھتے ہیں۔"

وہ ایک درخت کے سائے تلے گھاس پر بیٹھ گئے۔

"میری زندگی میں داخل ہونے کے اپنے خیال کا تم گلہ گھونٹ دو گے۔" اس نے مطلع کرنا ضروری سمجھا۔

"آزمانا چاہتی ہو؟" نیلی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بہہ رہا تھا، وہ ہمیشہ کی طرح نظریں چرا گئی۔

"آزما لو، تمہاری قسم ہر امتحان پاس کر جاؤں گا۔"

درختوں کی سرسراہٹ دھیمی ہونے لگی گویا تمام کائنات تھم کر نیلی آنکھوں والے دیوانے کو محبت کا امتحان دیتے ہوئے دیکھنے لگی ہو۔

"یہ لو۔ ایک پھول مجدے کے لیے۔" سفید کلی اس کی طرف بڑھا کر وہ بولا۔ "اور یہ علوینہ کے لیے۔" دوسری بھی اس کے ہاتھوں میں پکڑا کر وہ تیسری کلی پر انگلیاں پھیرنے لگا۔

"اب مجھے سوچ لینے دو تیسرا پھول کس کو دوں۔ مجدے کو یا علوینہ کو۔ کیونکہ دونوں ہی مجھے زندگی سے زیادہ عزیز ہیں۔" پتوں کی سرسراہٹ پھر سے تیز ہوگئی تھی۔

آج وہ بھی تمام اعتراف کرلینا چاہتا تھا۔

مجدے نے چہرہ بگاڑ کر اسے دیکھا، اس کے محبت کے دعوے، اس لڑکی کو کھوکھلے لگ رہے تھے۔

"میں سن رہا ہوں مجدے۔ تم مجھے کچھ بھی بتا سکتی ہو۔" درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر اس نے ٹانگیں پھیلا دیں۔ مجدے نے ایک نظر اس کے پر سکون چہرے پر ڈالی، تبھی وہ سر موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔

مجدے فوراً نظریں دوسری طرف پھیر گئی۔

"نقاب اتار لو مجدے۔ تم علوینہ کو چھپانے کے لیے نقاب کرتی ہو اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔"

"میں کسی کو بھی چھپانے کے لیے نقاب نہیں کرتی۔" مجدے کو اس کی بات بری لگی تھی۔

علوینہ کو چھپانے کی ضرورت ابھی بھی ہے اور شاید ساری زندگی رہے، مجدے نے کٹے دل سے سوچا۔

______________

"فرہاد سے طلاق لینے کے بعد میں نے اپنی ماما اور بہن سے رابطہ کیا مگر وہ مجھ سے شدید ناراض تھیں۔۔ ان کا حق بھی بنتا تھا شاید۔۔ انہوں نے کہا وہ کبھی میری شکل نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اور یہ ۔۔۔" اس کی ہچکیاں بندھنے لگیں۔ جیکب بے چینی سے اسے دیکھنے لگا۔

"اور یہ بھی کہ میں نے بابا کو مار دیا۔ میں اپنے بابا کو مار سکتی ہوں کبھی۔۔ مممم-میرا بس چلتا تو میں اپنی زندگی بھی اپنے بابا کے سر سے وار دیتی۔" وہ کانپنے لگی تھی۔

جیکب نے اسے دونوں بازوؤں سے تھاما۔

"میں جانتا ہوں مجدے۔۔ ہم مسز ذوالقرنین سے بات کریں گے۔ وہ تمہیں سمجھیں گی۔"

"آؤ گھر چلیں شام ہورہی ہے۔"

"نہیں۔۔" علوینہ نے اس کی گرفت سے بازو آزاد کروائے اور اپنی انگلی کی پوروں سے آنسو صاف کرنے لگی۔ نقاب وہ اتار چکی تھی۔

جیکب پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا مگر دوبارہ جانے کا نہ کہا، اس کی طرف چہرہ موڑ کر وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"پھر فرہاد سے بدلہ لینے کے لیے اور یشعر لوگوں کو ان کا حق دلانے کے لیے میں نے عاہن کا ساتھ دیا۔ مری کی بلیک مارکیٹ میں ایک شخص غیر قانونی ویزے بناتے تھا، میں جانتی تھی مجھے اب کیا کرنا تھا، اس ترکی کا ویزہ بنوا کر میں نے پاس رکھ لیا۔ اور عاہن سے اپنا بدلہ لیکر میں پاکستان چھوڑ کر ترکی چلی گئی۔ تین سال میں ترکی میں ایک شہر سے دوسرے شہر گھومتی رہی اور پھر تین سال پہلے ٹرانسلوانیا آگئی۔"

"عاہن سے کیسے بدلہ لیا؟" جیکب کی آواز میں تجسس نمایاں تھا۔

"اس کی کچھ ویڈیوز تھیں میری پاس جن میں وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث دیکھا جا سکتا تھا، اور لڑکیوں کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے وہ جن ریسورسز کا استعمال کرتا تھا ان کی تفصیلات تھیں۔ وہ میں نے میڈیا میں دے دی تھیں۔" اس کا لہجہ نارمل اور چہرہ کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری تھا۔

شام کا اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ وہ زمین سے اٹھ کھڑی ہوئی جیکب نے بھی پیروی کی۔

خاموشی کا ایک طویل وقفہ ان دونوں کے درمیان حائل رہا جسے علوینہ کے نئے اعتراف  نے ختم کیا۔

"پھر میں نے اس پر گولیاں چلائیں۔"

رک کر وہ جیکب کے چہرے کو بغور دیکھنے لگی، اگر وہ حیران بھی ہوا تھا تو اس نے ظاہر نہیں کیا تھا۔

"کیا وہ مر گیا؟"

علوینہ نے کندھے اچکائے۔ "پہلی گولی عین دل کے مقام پر لگی تھی، دوسری کندھے سے آر پار ہوئی تھی اور تیسری پیٹ میں۔"

خاموشی کے ایک مختصر وقفے نے دوبارہ ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

"یعنی وہ مر گیا؟" جیکب نے یقین دہانی چاہی۔

"معلوم نہیں۔ میں اگلے دو گھنٹوں میں  پاکستان سے نکل آئی تھی۔ نہ میرے پیچھے کوئی آیا نہ میں نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا۔"

______________

اپنے کمرے میں کھڑی وہ ٹیبل پر رکھے ایک گلدان میں پانی ڈال رہی تھی۔ پانی ڈال کر اس نے ایک طرف رکھی تین مرجھائی ہوئی سفید کلیاں گلدان میں رکھیں۔

اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔

ایک سفید کلی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے جیکب کی کہی باتیں یاد آنے لگیں۔

پارک سے نکل کر جیکب نے تیسری کلی بھی اس کی جانب بڑھا دی۔ یہ اس علوینہ کے لیے جو دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر ترین بھی ہے۔"

علوینہ نے فوراً اس کی بات کو رد کیا۔

"میں بہادر نہیں ہوں، جیکب۔"

اس کے منہ سے پہلی دفعہ اپنا نام سن کر جیکب کا دل تھم ہی گیا تھا۔ پھر اپنے جذبات پر قابو پا کر بردباری سے گویا ہوا۔

"اپنے آپ کو کریڈٹ دو مجدے۔ تم نے وہ مصائب بھی برداشت کیے ہیں جن کی تم مستحق نہیں تھی، تم نے ان لوگوں کو سبق بھی سکھایا ہے جنہوں نے تمہارے ساتھ برا کیا اور تم نے زندگی گزارنی بھی نہیں چھوڑی۔"

"زندگی مجھے گزار رہی ہے۔" اس کی پژمردہ آواز ابھری۔

"تو تم دوبارہ سربراہی کی سیٹ پر برا جمان ہو جاؤ۔ زندگی کو بھی بتا دو کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔" اس کے الفاظ جوشیلے تھے، زندگی سے بھر پور۔

علوینہ نے سالوں بعد اپنے اندر ایک امید پیدا ہوتی محسوس کی مگر اگلے ہی پل اس کا دل ڈولنے لگا۔

اگر پھر کچھ غلط ہوگیا۔

مگر اس کے خیالوں کا محور جیکب نے فوراً ہی توڑ دیا تھا۔

وہ فٹ پاتھ پر اس کے سامنے ایک گھٹنے پر جھکا بیٹھا تھا۔ سفید کلی آگے کیے جو اب مرجھا گئی تھی۔

"یہ پھول میری زندگی کے نام۔" مجدے کی آنکھوں میں محبت سے تکتے ہوئے کہا۔ "اور اس زندگی کے نام جس کا حصہ بننے کا شرف اگر تم مجھے بخش دو تو میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان کہلاؤں گا۔" مجدے کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔

"مجدے پلیز یہ پھول پکڑ کر مجھے اپنی زندگی میں شامل کرلو ورنہ میں رو دوں گا۔" اس کی بات سن کر وہ روتے ہوئے ہنسنے لگی اور کلی تھام لی۔

"شکریہ مائی لیڈی۔" وہ جھک کر کورنش بجا لایا۔

علوینہ ہنسی، اور وہ اس کی ہنسی کی کھنک میں کھو گیا تھا۔


ویکینڈ گزارنے کے بعد وہ واپس چلا گیا تھا۔ اور اب کچھ ہی گھنٹوں میں پہنچنے والا تھا۔ علوینہ کی نظر ٹیبل پر دھرے خط پر پڑی۔ قلم اٹھا کر اس نے اسے مکمل کیا اور پھر اسے لفافے میں ڈال کر پوسٹ آفس چلی گئی۔

وہ پوسٹ آفس سے نکلی تو جیکب کو اپنے گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے پایا۔ اسے ادھر دیکھ کر وہ حیران ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ گزشتہ ملاقات یاد کرکے تھوڑی شرمندہ بھی۔

"مجدے۔۔" جیکب نے اسے ایک ہی جگہ پر رکے پایا تو بلند آواز میں پکارا۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر وہ اس کی جانب بڑھ گئی۔

"کیسی ہو؟" اس کی آواز میں ہمیشہ والی نرمی تھی۔

علوینہ نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

"ما کوئی خط پوسٹ کرنے آئی تھی؟"

اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ "نہیں اپنا۔"

جیکب کے دل میں تجسس اٹھا تھا کہ کس کو خط لکھا مگر اس نے دریافت کرنا مناسب نہ سمجھا۔

"کینڈی فلاس کھاؤ گی؟" جیکب نے دائیں جانب لگے کینڈی فلاس کے کارٹ کو دیکھ کر کہا۔

علوینہ گلابی رنگ کے لچھے دیکھ کر ہنس دی۔

"میں ستائیس سال کی ہوں۔ کینڈی فلاس کھاتے ہوئے عجیب مخلوق لگوں گی۔"

جیکب نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا۔ "میں بھی ستائیس کا ہوں میں پوچھتے ہوئے کونسی مخلوق لگ رہا تھا۔"

وہ بغیر آواز کے ہنس دی۔

"اس کارٹ پر کہیں بھی مجھے لکھا ہوا نظر نہیں آرہا کہ ستائیس سالہ مرد و خواتین مجھ سے دور رہیں۔"

جیکب دو چار قدم اٹھا کر کارٹ کے قریب پہنچ گیا مگر علوینہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔

"کم آن مجدے۔۔" اس کی آواز میں بچوں سی ضد تھی۔

مجبوراً علوینہ کو اس کے ساتھ جانا پڑا۔

کینڈی فلاس ہاتھوں میں تھامے وہ دونوں فٹ پاتھ پر چہل قدمی کے انداز میں چل رہے تھے۔

علوینہ نےعبایہ اور نقاب نہیں کیا ہوا تھا مگر بڑی سی سیاہ چادر لے رکھی تھی۔ اس کے بالوں کی کچھ لٹیں اس کے چہرے کے دونوں اطراف جھول رہی تھیں۔

جیکب ہمیشہ کی طرح رخ موڑے اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر ایکدم اس کی آنکھوں کو دیکھ کر بول اٹھا۔

"تم نے لینز نہیں اتارے؟" اسے سبز آنکھیں زیادہ خوبصورت لگی تھیں۔

"ہونہہ ۔۔ " وہ دائیں بائیں سر ہلانے لگی۔ "رینا مادام ایولین وہ سب میری حقیقت نہیں جانتے۔"

جیکب اس کے بالکل سامنے آ کر رک گیا، اس نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ "اگر تم انہیں بتانا چاہتی ہو تو بتا دو میں تمہیں اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی تمہیں جج نہیں کرے گا۔ بلکہ کسی کو بھی تمہیں جج کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، مجدے۔ یہ تمہاری زندگی ہے اور ہر فیصلے کا حق صرف اور صرف تمہیں ہے۔ تم بہتر جانتی تھی تمہارے لیے کیا اچھا تھا کیا نہیں۔"

"وہ تمام فیصلہ میرے لیے اچھے نہیں تھے۔" وہ روہانسا ہونے کو تھی۔

"وہ تمہارے لیے ضروری تھے۔"

"میں نے اپنی زندگی کے سات سال گنوا دیے ہیں۔"

"تم نے کچھ نہیں گنوایا۔ ابھی بھی تمہارے ہاتھوں میں بہت کچھ ہے، تمہارے سامنے بہت کچھ موجود ہے۔ وہ تمام چیزیں انتظار کررہی ہیں کہ کب تم ان کی طرف پیش قدمی کرو اور انہیں علوینہ ذوالقرنین کے نام کے ساتھ جڑنے کا شرف حاصل ہو۔ تمہارا نام ہی اس قدر خوبصورت ہے، علوینہ کہ اس کو سوچو تو یوں لگتا ہے تمام کائنات کو اپنے اشاروں پہ نچا سکتا ہے۔ بہت بڑی سیکم کے تحت یہ نام رکھا گیا ہے۔" وہ خوشگواری سے کہہ رہا تھا، اس کے لفظوں میں مان بول تھا۔

وہ الفاظ ہمت افزا تھے مگر علوینہ کی ہمت پسپائی کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔

"بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میرا نام میرا نہیں رہا۔" اس کا سانس پھول رہا تھا، جیکب نے محسوس کیا۔ وہ اسے آہستگی سے سہارا دیکر قریبی آؤٹ ڈور کیفے کی طرف چل پڑا۔

"میں کبھی اتنا آہستہ نہیں چلتی تھی۔" اس نے ہنستے ہوئے اضافہ کیا۔ "اور کسی کا سہارا لیکر تو ہر گز نہیں۔" جیکب نے فوراً اپنے ہاتھ پیچھے کر کے ہوا میں بلند کردیے۔

وہ پھر سے ہنس دی۔ اور اسے دیکھ کر جیکب بھی ہنسنے لگا۔

ٹیبل کے آر پار بیٹھے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

مجدے کی چادر اور جیکب کی مردانہ وجاہت نے کافی لوگوں کو ان کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کیا تھا۔

"مجدے کیا تم دوبارہ زندگی شروع کرنا چاہو گی؟"

مجدے نے کچھ دیر سوچا پھر اس کے لب پھڑپھڑائے۔

"میں نہیں کرسکتی۔ میں وہ سب نہیں بھول سکتی۔" وہ ایک مرتبہ پھر رونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔

"بھولنے کی ضرورت نہیں ہے وہ تمہاری بہادری کی داستانیں ہیں، علوینہ ذوالقرنین۔ اور تمہارا مجدے بن کر رہنا بھی تمہارے سروائیول survival کی ایک تکنیک تھی۔ اب تمہیں صرف سروائیو نہیں کرنا ہے اب تمہیں thrive بھی کرنا ہے۔"

جیکب کو پہلے علوینہ نام عجیب لگا تھا، وہ لڑکی جو تین سال سے اس کے لیے مجدے ابراہیم تھی وہ ایکدم علوینہ ذوالقرنین بن گئی تھی۔ پچھلا پورا ہفتہ وہ اسی کشمکش میں مبتلا رہا تھا کہ اسے مجدے کہہ کر پکارے یا علوینہ۔ اور آج اسے دیکھتے ہی اس کی مشکل آسان ہوگئی تھی۔

علوینہ ذوالقرنین بہادر تھی، وہ ڈر بھی جاتی تھی مگر اس ڈر کو چیر کر بے خوفی سے اپنا مطلوبہ راستہ تلاش کر لیا کرتی تھی۔ وہ اپنی مجدے کو اس طرح کا دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مجدے ابراہیم کو علوینہ ذوالقرنین کی طرح بنا دینا چاہتا تھا۔

"میں پہلے روتی بھی نہیں تھی۔ اتنا زیادہ تو ہر گز نہیں۔" علوینہ ٹشو سے اپنے آنسو پونچھتی ہوئی ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہہ رہی تھی۔

"رونا کمزوری کی نشانی تو نہیں۔" اس نے ایک اور ٹشو علوینہ کی طرف بڑھایا۔

"لیکن مجھے رونا اچھا نہیں لگتا۔"


_________

کوئی فریاد تیرے دل میں دبی ہو جیسے
تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے

فیض انور کی لکھی غزل جگجیت سنگھ کی خوبصورت مترنم آواز میں کمرے میں گونج رہی تھی۔

سیاہ ڈریس پینٹ اور شرٹ میں ملبوس وجود صوفے پر ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ چڑھائے لیٹا تھا۔ بازوؤں کا تکیہ بنا کر سر کے پیچھے رکھا ہوا تھا۔ سیاہ بال ماتھے پر بکھرے تھے۔ چہرے پر دکھ کی گہری پرچھائیاں تھی۔

"آج کل کیسا محسوس کررہے ہو؟"

صوفے پر لیٹے وجود کے سر کی جانب ٹیبل کے دوسری پار بیٹھے قریباً پچاس سالہ شخص نے اس سے دریافت کیا۔

جواباً وہ جگجیت سنگھ کے کہے بول دہرانے لگا۔

"جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے!"

"میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا عاہن۔"

یہ الفاظ سن کر صوفے پر لیٹا وجود اٹھ بیٹھا اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں کی مدد سے ماتھے سے بال ہٹائے اور اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھنے لگا۔

"آپ ہر ملاقات پر یہی کہتے ہیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے مطلع کیا۔

"تم ہر ملاقات پر میرے اندر انجانے خوف پیدا کر جاتے ہو۔"

"میں اس الزام کی تردید کرتا ہوں۔ Psychiatrist آپ ہیں۔ میں آپ کے پاس اپنے خوف کا علاج ڈھونڈنے کے لیے آتا ہوں آپ الٹا مجھ پر الزام دھر رہے ہیں کہ میں آپ کو خوفزدہ کرتا ہوں۔"

"تمہیں خوف نہیں ہے تمہیں پچھتاوا ہے، پشیمانی ہے۔"

ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے
مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے

جگجیت سنگھ کی آواز ان دونوں کی آواز کے سامنے دب رہی تھی۔

"چار سال بعد آپ نے میری بیماری ڈھونڈی ہے۔ اب اگلے چار سال میں اس کا علاج ڈھونڈ لیجیے گا میں آتا جاتا رہوں گا۔"

وہ دوبارہ صوفے پر لیٹ گیا۔

"پچھلے چار سال سے میں تمہیں تمہاری بیماری بتا رہا ہوں۔ تم علاج سے گریز کرتے ہو۔"

"علاج ایک ہی ہے۔" اس کا جواب رٹا رٹایا تھا جو وہ ہر ملاقات پر دہراتا تھا۔

"موت علاج نہیں ہے۔"

"اس کے ہاتھوں سے ملے تو شفا ہے۔"

ڈاکٹر نے بے بسی سے سر ہلایا۔

وہ جگجیت سنگھ کے ساتھ ساتھ بول ادا کرنے لگا۔

ایک لمحے میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میں
میری ہر سانس تیرے نام لکھی ہو جیسے

______________

Assalam u Alaikum!

How is the chapter?

You are Surprised or shocked?

💖💖

Vote comment and share the story with others ❤️

I'll try to update ASAP 🧡

Olvasás folytatása

You'll Also Like

8K 486 16
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی حور کی ہے جس کی ایک غلطی نے اسکو برباد کر دیا ہے۔ اندھا یقین کسی پر بھی وہ برباد ہی کرتا ہے۔ یہ کہانی ہے سوشل میڈیا ریلشن...
3.3K 246 16
ایک ماں کی کہانی...
3.7K 431 28
یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے ہم چاہے خود کو دینا کی رنگینیوں میں جتنا بھی گم کر...
9.6K 684 17
کہانی کچھ کہنے کی کچھ سنانے کی