اس ایک آواز کے بعد تمام جانب خاموشی چھا گئی تھی حزیمہ بختیار نے الجھ کر دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں کھڑی ہستیوں کو دیکھ کر انہیں اپنے پیروں تلے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی راغیص نے بے یقینی سے دروازے میں کھڑے شخص کو دیکھا تھا جبکہ انہیں دیکھ کر ریحا بختیار کے چہرے پر فاتح مسکراہٹ چمکی تھی۔
"تہذیب کے دائرے سے نکلے ہوئے لوگوں کو ویسے بھی کوئی اپنی بیٹی دینا پسند نہیں کرتا۔"
ارغن کے لہجے میں عجیب سی کاٹ تھی جبکہ حزیمہ بختیار کے تاثرات سرد ترین ہوچکے تھے مگر وہ کسی خاموش تماشائی کی طرح کھڑے تھے۔
"تو ٹھیک ہے حزیمہ ہم میں اگر تہذیب کی کمی ہے تو تم اپنی بیٹی کسی تہذیب یافتہ خاندان میں بیاہ لو ہم باز آئے ایسی شادی سے۔"
اصغر صاحب سرد تاثرات کے ساتھ اپنا خاندان لیے وہاں سے آناً فاناً چلے گئے تھے جبکہ ارغن، دمیر اور میراب پُرسکون انداز میں وہی پر کھڑے تھے۔
"تم لوگ یہاں پر کیا کررہے ہو؟"
اب کی بار حزیمہ بختیار کا رخ ان تینوں کی جانب تھا جو بغیر کسی پریشانی کے وہاں کھڑے ہونے والے تماشے کو انجوائے کررہے تھے۔
"ہم اپنی امانت لیجانے آنے ہیں۔"
ارغن کا اطمینان قابلِ دید تھا۔
"اس گھر میں تمہاری کوئی امانت نہیں ہے تو بہتر ہوگا تم لوگ یہاں سے چلے جاو۔"
حزیمہ بختیار نے غصے سے کہا تو راغیص سارے ماحول پر ایک نظر ڈال کر اندر چلی گئی دل بے ہنگم انداز میں دھڑک رہا تھا آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے تھے پانچ سال بعد وہ شخص نگاہوں کے سامنے تھا جس سے نفرت کا دعوع کیا تھا جس کی صورت بھی نہ دیکھنے کی قسم کھائی تھی سارے زخم لمہوں میں ہرے ہوئے تھے۔۔
"آپ کو نہیں لگتا حزیمہ انکل! کہ آپ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ  ہے کہ میری امانت مجھے لوٹا دیں ہم دونوں کی مشکل آسان کردیں آپ کو اچھے سے معلوم ہے وہ کسی اور سے شادی نہیں کرئے گی سات سال پہلے ایک دوسرے کی انگلی میں محبت کی انگوٹھی پہنائی تھی حالات کارساز نہ ہونے کی وجہ سے میں کبھی اس سے رابطہ نہیں کرپایا۔"
ارغن مجرمانہ لہجے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرگیا تھا۔
"حالات کے کارساز ہونے کی وجہ سے نہیں اپنی بزدلی کی وجہ سے تم میرا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کرپائے۔"
کمرے کے دروازے پر دلہن بنی کھڑی وہ سپاٹ لہجے میں کہہ رہی تھی ان تینوں نے بیک وقت اوپر کی جانب دیکھا تھا جہاں وہ سیڑھیوں سے اتر کر نیچے کو آرہی تھی۔
"کس منہ سے اپنی امانت لیجانے آئے ہو تم ہاں؟ اور کون ہے تمہاری امانت؟"
وہ چلتی ہوئی عین اس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی حزیمہ بختیار آگے بڑھنے لگے تھے جب ریحا نے ان کا بازو تھام کر انہیں پیچھے ہی رکنے کا اشارہ کیا تھا۔
"تم ہو میری امانت تمہیں لیجانے آیا ہوں یار! محبت کرتا ہوں تم سے۔"
اس کے لہجے میں بے بسی نمایاں تھی راغیص کے لبوں کی تراش میں طنز بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔
"آہاں! محبت؟ مسٹر ارغن بخت! آپ کو پتہ بھی ہے محبت کس چڑیا کا نام ہے اس کے وقار اور بھرم کو قائم رکھنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کے ماتھے پر وفاداری کا ڈیگ چسپا کرنا پڑتا ہے تب جاکر اس محبت لفظ کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں اور تم نے تو اس میں سے کسی بھی اصول و تقاضے کو پورا نہیں کیا تو پھر اب کس منہ سے کہتے ہو کہ محبت ہے تمہیں مجھ سے۔"
اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کو وہ چاہتے ہوئے بھی روک نہیں پائی تھی اس کے گال پر پانی کے قطرے نمودار ہوکر اس کے گال بھگو رہے تھے۔
"سچ کہہ رہی ہو تم میں بزدل ہی ہوں بہت بُرا بھی ہوں مگر میں تمہیں کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا مجھے تم سے رابطہ نہ کرنے کی اتنی بڑی سزا نہ دو پلیز راغیص!"
اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا وہ عاجزانہ لہجے میں کہہ رہا تھا مگر راغیص کے بیتے لمحوں کی اذیت کا حساب دینے سے وہ قاصر تھا۔
"بابا اس سے کہہ دیں یہ چلا جائے یہاں سے مجھے اس کی شکل سے بھی نفرت ہے۔"
اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے گال بے دردی سے رگڑتی وہ حزیمہ بختیار سے مخاطب تھی حزیمہ بختیار کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ان سے پہلے ہی ارغن کی سپاٹ و سرد آواز نے انہیں وہی پر روک دیا۔
"انکل! اگر ابھی اور اسی وقت میرا نکاح راغیص سے نہ کروایا گیا تو میں برسوں پرانی بات کا بھرم لمحوں میں بھول جاؤں گا۔"
بغیر کسی کی جانب بھی دیکھے وہ سیدھا حزیمہ بختیار کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کررہا تھا جہاں رکم خوف کی تحریر وہ انہیں دیکھتے ہی پڑھ چکا تھا۔
"بابا! میں اس سے شادی نہیں کرؤں گی۔"
راغیص ایک بار پھر ان سے مخاطب ہوئی تھی۔
"اگر تم اس سے شادی نہیں کرؤ گی تو زمانے بھر میں ہم کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں بچیں گے لڑکی کی بارات کا لوٹ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی راغیص! مولوی صاحب آپ نکاح شروع کروائیں۔"
ان سے نگاہیں چراتے وہ سیدھا مولوی صاحب کی جانب متوجہ ہوئے تھے دل اپنے ہی کیے پر ایک بار پھر شدت سے پشیمان ہوا تھا مگر ہائے رے وقت کی یہ ڈوریں جب ہاتھوں سے پھسلتی ہیں تو لوٹ کر نہیں آتیں۔
صرف آدھا گھنٹہ لگا تھا اور وہ راغیص بختیار سے راغیص بخت بن چکی تھی ارغن نے دمیر کی جانب ایک فاتح مسکراہٹ اچھالی تھی اور پھر اس کے گلے لگا تھا۔
"مبارک ہو آپ کو بھا صاحب! اب بھابھی کو جلدی منا بھی لیجیئے گا ورنہ کام مشکل ہوسکتا۔"
اس سے الگ ہوتے ہوئے دمیر نے شرارت سے کہا تھا جس پر ارغن نے اسے ایک دھموکا جڑا تھا اس کے بعد میراب کے گلے لگتے ہوئے بھی اسے یہی نصیحت سننے کو ملی تھی ریحا کو دیکھ کر میراب ایک بار پھر بُری طرح ٹوٹا تھا۔
راغیص اور ریحا تو واپس اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں جبکہ لاونج میں صرف وہ تینوں اور حزیمہ بختیار ہی بچے تھے۔
"تم نے دھمکی دے کر مجھ سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروا تو لیا ہے مگر یاد رکھنا میں تمہیں اور تمہارے باپ کو کبھی معاف نہیں کرؤں گا۔"
اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے انہوں نے ارغن کو انگلی دیکھائی تھی۔
"معاف تو آپ تب کریں گئے جب اپنی کرتوتوں سے نگاہیں چُرا پائیں گئے مسٹر حزیمہ بختیار!"
وہ ان کے سامنے کھڑا انتہائی چبا چبا کر کہہ رہا تھا۔
"اپنی بکواس بند رکھو تم! کل کے آئے لڑکے مجھے دھمکا رہے ہیں۔"
اس کے سامنے کھڑے اب کی بار وہ بھی اشتعال میں آئے تھے۔
"فی الحال میرا بھیس کا کوئی موڈ نہیں ہے مجھے اپنی نئی نویلی دلہن سے ملنا ہے۔"
وہ کہہ کر انہیں ہکا بکا چھوڑ کر خود سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر اس نے اس کے کھلنے کا انتظار کیا تھا کچھ ہی دیر میں کلک کی آواز ابھری اور دروازہ کھل گیا ریحا نے منہ باہر نکال کر دیکھا تو ارغن کو منتظر پایا اس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ چمکی تھی۔
"آہمم! کدھر کو چلے دلہے میاں!"
وہ شرارت سے گویا ہوئی تو ارغن بے ساختہ مسکرا گیا۔
"تمہارا بہت شکریہ ریحا! اگر تم نہ ہوتی تو نجانے آج کیا ہوجاتا۔"
وہ مشکور لہجے میں اس سے مخاطب تھا ریحا نے ہلکا سا سر خم کرکے اس کا شکریہ قبول کیا اور خود باہر نکل گئی وہ گہری سانس بھر کر کمرے میں داخل ہوا تھا راغیص کھڑکی کی جانب چہرہ موڑے کھڑی تھی پورے کمرے کی خاموش فضا میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں ارغن کے دل کو بے ساختہ کچھ ہوا تھا جو بھی تھا وہ راغیص کے آنسوؤں اور تکلیف کی وجہ تھا خاموشی سے اس کے پیچھے کھڑے ہوکر اس نے اس کی ابھرتی ہوئی سسکیوں کو سنا تھا۔
"راغیص!"
اس کے کندھوں پر اپنے ہاتھوں کا دباؤ بڑھاتے ہوئے ارغن نے سرگوشی میں اسے پکارا تھا راغیص کی ابھرتی ہوئی سسکیاں ساکت ہوئی تھیں وہ یوں کھڑی تھی جیسے کوئی پتھر کا مجسمہ ہو جو ذرا سی حرکت پر ٹوٹ کر ٹکروں میں بکھر جائے گا۔
"میرے گناہوں کی اتنی بڑی سزا دے رہی ہو تم مجھے کہ مجھ سے منہ موڑے کھڑی ہو؟"
اس کو کندھوں سے تھامتے ہوئے ارغن نے اس کا رخ اپنی جانب کو موڑا تھا۔ میک اپ زدہ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا آنکھوں کا کاجل پھیل چکا تھا۔
"تم! تم اس قابل ہو ہی نہیں ارغن بخت! کہ تمہاری جانب چہرہ کرکے بات کی جائے۔"
اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاتے ہوئے اس نے درشتگی سے کہا تھا۔
"مانتا ہوں بہت بُرا ہوں بزدل بھی ہوں مگر سوچو اگر آج وقت پر نہ آپاتا تو کیا ہوتا میری سانسیں کھینچ کر تم مجھے بے سرو سامان کردیتی۔"
اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا کر ارغن نے نم لہجے میں کہا تھا راغیص کی آنکھیں ہنوز بھیگی ہوئی تھیں۔
"میرے بیتے لمہات کا حساب تم نہیں چکا پاو گئے ارغن بخت!"
اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکائے وہ آنکھیں موندے کہہ رہی تھی۔
"جانتا ہوں اسی لیے تو ساری زندگی تمہارے نام کی ہے جیسے چاہو اس سے اپنے ناتمام لمہات کا حساب نکال لو۔"
اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے ارغن نے نرمی سے کہا تھا بدلے میں راغیص مسکرا بھی نہیں سکی تھی۔
"ابھی چلو گی یا بعد میں لینے آو تمہیں؟"
اس سے الگ ہوتے ہوئے اب کی بار اس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"تب لینے آنا جب تمہارا باپ تمہارے ہمراہ ہو یونہی تم میری اذیت میں کمی کرسکو گے۔"
اس سے دور ہوتے ہوئے وہ ایک دم پیچھے کو ہوئی تھی ارغن نے گہرا سانس بھرا تھا۔
"تب ہی لینے آوں گا جب میرا باپ میرے ہمراہ ہوگا اور تمہیں عزت سے بخت خاندان کی بہو کے طور پر ساتھ لے کر جائے گا۔"
دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے یہ اس کے آخری الفاظ تھے جو راغیص کی سماعتوں نے سنے تھے اس کے بعد وہ منظر سے غائب ہوچکا تھا مگر اس کے پرفیوم کی مہک ابھی بھی راغیص کے کمرے کی فضا کو معطر کررہی تھی۔
دونوں کی زندگیوں کا ایک اہم مرحلہ طے ہوا تھا دیکھنا یہ تھا کہ ارغن راغیص سے کیے اپنے اس وعدے پر قائم رہتا بھی ہے یا پھر یونہی اپنی ازلی وعدہ خلافی کا ثبوت دیتے ہوئے کبھی لوٹ کر اسے لینے ہی نہیں آتا وقت سب کچھ صاف کرنے والا تھا۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now