انجانے راہی

Beginne am Anfang
                                    

کیوں جسم تیری روح سے جل تھل نہیں ہوتا
رشتہ یہ ادھورا سا مکمل نہیں ہوتا

کیسے میں کہوں تو ہے میرے پیار کا مجرم
اتنا حسین تو کوئی بھی قاتل نہیں ہوتا

یہ راہِ محبت ہے محبت کے سفر میں
کنارے نہیں ہوتے کوئی ساحل نہیں ہوتا

بانہوں میں مجھے لے کر یہ اس نے کہا زید
کیوں تو میرے پیار میں پاگل نہیں ہوتا

********************************
صبح بے حد خوب صورت انداز میں ضرار ہاوس پر اتری تھی ساری رات دمیر بخت سو نہیں پایا تھا وہ تو فوری سے بیشتر اس لڑکی کے پاس جانا چاہتا تھا اس کے حسن کو خراج پیش کرنا چاہتا تھا مگر ضرار بخت کے ساتھ طے پانے والی میٹنگ کی وجہ سے وہ اسے لینے بھی نہیں جا پایا تھا اور رات دیر ہونے کی وجہ سے وہ سیدھا گھر ہی آیا تھا مگر وہ آج آفس کے بعد وہاں جانے کا ارادہ رکھتا تھا وہ خوبصورتی کو زیادہ دیر انتظار کروانے کا قائل نہیں تھا۔اسے خود بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ اس نے وہ لڑکی خریدی ہی کیوں وہ چاہتا تو پیسے دے کر اس کے ساتھ آرام سے میراج کوٹھی میں رات گزار سکتا تھا مگر نہیں اس نے ایسا نہیں کیا تھا شاہد اسے لگا تھا کہ وہ حسن میں اتنی زیادہ ہے کہ ایک بار خراج پیش کرنے سے اس کے حسن کا حق ادا نہیں ہوپائے گا اور پھر اس پر یہ کہ گل شیرہ بائی کے مطابق وہ آج تک ان چھوئی تھی۔ دمیر بخت کو جو لڑکی پسند آتی اس کے لیے یہ بات اہم ہوتی کہ اسے اس سے پہلے کسی اور نے نہ چھوا ہو اس کا نفس اس سے ایک ان چھوئی کونمپل مانگتا تھا اور دمیر بخت نے اپنے نفس کو کبھی جھوٹے کی عادت نہیں ڈالی تھی حتی کہ وہ دوبارہ خود بھی اپنا جھوٹا نہیں چاٹتا تھا مگر اس بار معاملہ بہت مختلف تھا جس لڑکی کو وہ خرید کر اپنے لیے لایا تھا اس کا استعمال وہ تب تک کرنے والا تھا جب تک اس کا نفس سیر نہیں ہوجاتا اور یہ کب تک ہونا تھا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا شاور لے کر وہ جیٹ بلیک ٹوپیس وائٹ شرٹ کے ساتھ پہنے بالوں کو سلیقے سے جما کر قیمتی گھڑی پہن کر اور پرفیوم اسپرے کرکے وہ تیار ناشتے کی میز پر سے عجلت میں ٹوس اٹھا کر باہر کی جانب بڑھا تھا۔
" ارے ناشتہ تو کرجاو سکون سے۔"
ماہ وین بیگم نے اس کے پیچھے سے ہانک لگائی تھی۔
" اماں میٹنگ ہے میں الریڈی لیٹ ہوچکا ہوں آفس میں کچھ کھا لوں گا خیال رکھیے گا خدا حافظ۔"
دور سے ہی انہیں بول کر وہ اپنی سفید لینڈ کروزر کی جانب بڑھا تھا اسے آتے دیکھ کر چوکیدار نے فوری سے بیشتر گیٹ کھولا تھا گاڑی میں بیٹھ کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی اور زن سے ضرار ہاوس سے باہر نکل گیا۔ کتنے پیچیدہ راستے پر تھا وہ اسے اس راستے کی لذت کی عادت تھی صرف اس کے نقصانات سے وہ ابھی تک لاعلم تھا اللہ تعالی انسانوں کی رسی جب تک دراز چھوڑتا ہے تب تک وہ جی بھر کر گناہوں سے لذت لیتے ہیں مگر جب رسی کھینچ لی جاتی ہے تو اپنے کردہ سارے گناہ ایک ڈراونی یاد بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ اس کی لذت کی ابھی شرواعات تھی بہت جلد سارے حساب بے باک ہونے والے تھے۔
***************************

چھنکار مکمل✅Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt