ملال

518 24 4
                                    

یہ ایک امریکہ کا خوبصورت اپارٹمنٹ ھے جہاں اس وقت وہ بیڈ پر بیٹھا اسے سوچ رہا ھے ۔
مجھے  پاکستان سے آۓ ھوۓ دو سال ھو گےٕ ۔پاکستان میرا ملک میرا گھر اور جہاں وہ ھے۔۔۔۔۔۔ میری زندگی میں وہ کسی ھوا کے جھونکے کی طرح آٸ ۔
ہانی ۔ام ہانی نام تھا اسکا اور میں زاویار اسکا زاویار۔میں اسکے لیے سب کچھ تھا پر وہ میرے لیے کچھ بھی نہیں۔۔اسکی باتیں مجھ سے شروع ھو کر مجھ پر ختم ھو تیں تھیں۔۔جیسے مجھ سے اہم اسکے لیے کوٸ نہیں تھا۔میں اسکے جذبات سے واقف تھا۔پر  مجھے ان سب باتوں اور اسکے جذبات سے کوٸ سروکار نہیں تھا۔وہ میری لیے صرف ایک کلاس فیلو تھی اور ایک دوست۔ایسی دوست جو ہر کالج یونیورسٹیز میں بنتی ھیں اور وہی تک محدود رہتی ھیں۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ھے جب وہ پہلی بار مجھ سے ملی تھی ۔ میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر کھڑا اپنے دوست تابش سے باتیں کر رہا تھا۔
ایکسکیوز می ۔جب کسی نسوانی آواز نے مجھے مڑنے پر مجبور کیا۔
یس۔میں نے اسے دیکھتے ھوۓ کہا۔وہ بہت عام سی لڑکی تھی ۔عام سے نین نقش کالی چادر اوڑھے کچھ بھی تو خاص نہیں تھا اس میں ۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایم بی اے کا ڈیپارٹمنٹ کس سإیڈ پر ھے ۔وہ میرے ہی ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔
جی مس اس وقت آپ ایم بی اے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر کھڑی ھیں ۔میں نے سینے پر ہاتھ باندھتے ھوۓ کہا۔
اوہ ۔اسنے سامنے دیکھا جہاں ڈیپارٹمنٹ کا نام چپساں تھا۔۔
بہت شکریہ آپ کا ۔وہ کہہ کر چلی گیٕ ۔یہ تھی ہماری پہلی ملاقات ۔اور اس پہلی ملاقات میں کچھ خاص بات نہیں تھی ۔۔
وہ بہت ذہین تھی اور ایک اچھی ڈیبیٹر اسکے پاس جیسے الفاظ کا ذخیرہ تھا۔ہر سوال کا جواب ۔ہر جواب کی دلیل اور دلیل کے ساتھ ایک ٹھوس جواز۔جو کسی کو بھی چپ کرا دیتا۔آہستہ آہستہ اسکے نوٹس پوری کلاس میں مشہور ھونے لگے ۔پہلی ملاقات کے بعد ہماری کبھی بات نہیں ھوٸ تھی ۔
ایک دن وہ خو چلتی ھوٸ میرے پاس آٸ ۔میں اس وقت کنٹین میں اکیلا بیٹھا تھا۔
السلام وعلیکم زاویار ۔
اسکا مجھے مخاطب کرنا چونکا گیا۔
وعلیکم السلام ۔میرے سلام کا جواب دینے کے بعد وہ کچھ جھجھکتے ھوۓ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیٕ ۔وہ مجھے کچھ پریشان سی لگی ۔۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ھوٸ ۔
کیا آپ میری مدد کر سکتے ھیں 
وہ جھجھکتے ھوۓ کہہ رہی تھی ۔
کیسی مدد؟ میں نے حیرانگی سے پوچھا۔
وہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی ۔میں بہت جلدآپکو واپس کر دوں گی ۔اسنے کچھ ڈرتے کہیں میں منع نا کر دوں اور کچھ شرمندگی سے کہ پیسے ادھار مانگ رہی ھے کہا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ پہلی بار وہ اتنی مجبور ھوٸ  کہ اسے کسی کے سامنے ھاتھ پھیلانا پڑ رہا ھے ۔۔
مجھے اس کا  چہرہ دیکھ کر ترس آیا۔
مجھےچیریٹی کرنے کا بہت شوق ھے ۔میں اکثر یونیورسٹی میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مالی مدد کرتا رہتا۔ اور اگر اسکی بھی کر دیتا تو مجھے کوٸ فرق نا پڑتا۔نہ ہی میری دولت میں کمی آنی تھی۔۔
ضرور ہانی ۔یہ کہتے ھوۓ میں نے والٹ سے نارنجی رنگ کے دو نوٹ نکالے ۔اور اسے دینے لگا ۔
مجھے اتنے روپے کی ضرورت نہیں صرف پانچ ہزار چاہیے وہ کچھ شرمندہ ھوتے ھوۓ بولی ۔

MalalWhere stories live. Discover now