تقدیر کے کھیل نرالے

Start from the beginning
                                    

تونے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ لگتے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں لاعلم
چھوڑ جائیں گئے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفان میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ غصے سے بھری ہوئی اس کے کمرے میں آئی تھی نیلا آسمان اس لمہے سیاہ گھور لگ رہا تھا جہاں کچھ فاصلے سے تارے چمک رہے تھے دور کہیں ان تاروں کی اوٹ میں چاند بھی چھپا ہوا تھا جو بڑی دکتوں کے بعد آسمان پر اپنی جھلک دیکھا رہا تھا راجن پور کی خاموش فضا میں عجیب سا سناٹہ تھا پتہ نہیں یہ سناٹہ فضا میں تھا یا لوگوں کے دلوں کا درناب نے ایک گہرا سانس فضا کے سپرد کیا تھا اور کمرے میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑائی تھیں جو بالکل خالی تھا البتہ واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی وہ مطمعن ہوکر اس کے بستر پر بیٹھ گئی تھی سامنے ہی کاوچ پر سیاہ سوٹ کیس رکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر درناب کی آنکھیں چمکی تھیں مگر وہ اس کی اجازت کے بغیر سوٹ کیس کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی ایک پل میں اداسی اس پر غالب آئی تھی ساتھ ہی واشروم کا دروازہ کھولتا وہ تولیے سے بال رگڑتا باہر نکلا تھا گرے ٹراوز پر بلیک ٹی شرٹ پہنے وہ تازہ دم لگ رہا تھا۔
" آپ یہاں کیا کررہی ہیں درناب؟"
اس نے تولیہ بستر پر پھینکتے ہوئے اس سے پوچھا تھا جو مسلسل سیاہ سوٹ کیس کو گھور رہی تھی۔
" اب کیا میرے سوٹ کیس کو نظر لگائیں گی؟"
وہ بالوں میں برش چلاتا اس کی جانب گھوما تھا۔
" بھا صاحب! شہر سے میرے لیے کیا لائے ہیں؟"
وہ ابرو اچکا کر خاصی سنجیدگی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
" ابھی کچھ عرصہ پہلے تو آپ کے لیے اتنی چیزیں لے کر آئے تھے اب کیا ہر بار شہر سے آئیں تو آپ کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آئیں؟"
وہ برش واپس ڈریسنگ میز پر رکھتا اس سے کہہ رہا تھا۔
" آئیں اپنی چھوٹی پیاری بہن کے لیے کچھ نہ کچھ ہاں تو اور کیا آپ کا فرض بنتا ہے جب بھی شہر سےلے کر آئیں۔"
وہ اپنی بات پر خاصہ زور دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری چھوٹی پیاری بہن کس قدر بھوکی ہے۔"
اس نے ناک چڑھا کر مسکراہٹ دبا کر کہا تو درناب کا صدمے کے مارے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
" بھا صاحب! بھوکی کس کو بولا ہے آپ نے جلدی نکالیں کیا لے کر آئیں ہیں کب سے حسرت بھری نگاہیں آپ کے سوٹ کیس پر جما کر بیٹھی ہوں میں۔"
وہ اب خاصی تنگ آچکی تھی۔ اس کی بات پر آبیان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بغیر لیے تو یہ جان چھوڑنے والی ہے نہیں اس لیے ٹھنڈی سانس بھرتا ہوا سیاہ سوٹ کیس کی جانب بڑھ گیا سوٹ کیس کی چھوٹی اندرونی جیب سے اس نے ایک ہری مخملی ڈبیہ نکالی تھی ڈبیہ دیکھ کر درناب کی حیرت کے مارے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔
" یہ۔۔یہ میرے لیے ہے؟"
اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا بھائی اس کے لیے انگھوٹی جیسی کوئی چیز لا سکتا ہے۔
" پہلے ڈبیہ کھول کے دیکھ لیں منہ بعد میں کھول لیجیے گا۔"
اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا تو درناب نے خفگی سے اسے گھورتے ہوئے ڈبیہ اس کے ہاتھ سے لے لی۔
درناب نے اشتیاق بھرے انداز میں ہری مخملی ڈبیہ کھولی تھی اندر موجود چیز کو دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا تھا۔
" یہ کیا بھا صاحب! فیروزے کی لونگ؟"
درناب کی شکل اس لمہے دیکھنے لائق تھی آبیان نے اسے گھورا تھا۔
" اتنی خوبصورت لونگ ہے درناب! مجھے تو دیکھ کر ہی بہت پسند آئی تھی سوچا آپ پہنیں گی تو کتنی حسین لگے گی۔"
اس نے تصور میں بینچ پر بیٹھی ہوئی اس حسین لڑکی کو سوچا تھا جس کا چہرہ اس فیروزے کی لونگ سے دمک رہا تھا۔
" بھا صاحب! پیاری تو بہت ہے پر میں کہاں پہنو اس کو میرا ناک ہی نہیں بنا ہوا۔"
اس نے اپنے ناک کی جانب اشارہ کرکے اسے بتایا تھا۔ اس کی بات پر آبیان کو بے ساختہ اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ اسے تو وہ لونگ اس لڑکی کی ناک پر اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے درناب کے لیے بھی ویسی ہی ڈھونڈ کر لی تھی پر لیتے ہوئے اسے یہ تو بالکل بھی یاد نہیں تھا کہ درناب کا ناک ہی نہیں بنا ہوا۔
" تو ناک بنوانے میں کونسا وقت لگتا کل صبح ہی بنوا لینا حویلی بلوا کر کسی کو۔"
اپنی خفت مٹانے کو اس نے فوری مشورہ دیا تھا۔
" اچھا اگر اب آپ لے ہی آئیں ہیں تو پہن لوں گی تھینک یو۔"
وہ اس کے ساتھ لگتی ہوئی مسکرا کر بولی تھی۔
" خوش رہیے۔"
اس نے اس کے دوپٹے پر اپنے لب رکھے تھے۔
" شب خیر بھا صاحب آپ بہت اچھے ہیں۔"
وہ ہاتھ ہلاتی ہوئی اس کے کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ وہ گرنے کے سے انداز میں بستر پر لیٹ گیا۔
" کبھی کبھی بے اختیاریاں بھی کیا کچھ کروا لیتی ہیں بندے سے۔"
اس نے یونہی سوچا تھا جبکہ سیاہ گھور آسمان اس کی سوچ پر مسکرا رہا تھا تارے بھی کہیں آسمان کے ساتھ اس کی آنے والی آزمائش پر مسکرا اٹھے تھے۔ آبیان بخت کے لیے زندگی کبھی بھی اتنی سیدھی نہیں تھی جتنی وہ تصور کرتا تھا کچھ پا لینے کا عزم رکھنے والوں کے لیے مشکلات کا ایک جہان آباد ہوتا ہے اور اسے بھی ابھی اس جہان میں داخل ہونا تھا جہاں بہت سے امتحان اس کا انتظار کررہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
نیلم کی وادی میں سردی اپنے عروج پر تھی روئی کے گالوں جیسے پہاڑ اپنی پوری تکمنت سے وادیے نیلم پر راج کررہے تھے چھوٹے چھوٹے گاوں میں موجود لوگ سردی کی وجہ سے اپنے اپنے بستروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ فضا میں دھند کا راج تھا لکڑی کے کوٹیجوں کے دروازوں پر برف کی موٹی تحیں جم چکی تھیں ایسے میں وہ اپنے مسلسل بجتے فون سے نگاہیں چرا رہی تھی جینز پر ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہنے پیروں کو موذوں میں قید کیے وہ مسلسل اپنے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑ رہی تھی کمرے کی کھڑکیوں کے پردے برابر تھے لحاف اوڑے وہ ایک بار پھر سے بجتے ہوئے فون کو بے بسی سے دیکھ رہی تھی اس نے گہرا سانس بھر کر بجتے ہوئے فون کو اٹھا کر کان سے لگایا تھا۔
" ہیلو!"
آواز بے حد دھیمی تھی۔
" یار کدھر تھی تم اور فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی میرا؟"
دوسری جانب سے انتہائی خفگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
" موڈ نہیں تھا میرا۔"
آنکھوں کو بند کرتے ہوئے وہ یہ جملہ بامشکل ہی کہہ پائی تھی مقابل کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔
" آر یو اوکے ریحا!؟"
اس کے لہجے میں بلا کی بے قراری بول رہی تھی۔
" یس میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں پلیز!"
اس نے کہہ کر اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر کال کاٹ دی تھی اپنے دکھتے سر کو تھام کر اس نے دونوں طرف سے دبایا اور آنکھیں موند کر سر بیڈ کراون سے ٹکا گئی۔
" کبھی کبھی جان سے پیارے لوگوں کو نظر انداز کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام لگتا۔"
وہ عجیب سا سوچ رہی تھی جو اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔
ریحا اور راغیص کی زندگیوں کو امتحان کا مرکز بنانے والا کوئی اور نہیں ان کا اپنا باپ تھا دونوں کی زندگیاں ایک عجیب سی ڈگر پر چل رہی تھی ہونے نا ہونے کے درمیان کے احساسات زندگی کو بے انتہا مشکل بنا دیتے ہیں کسی ان دیکھی ڈگر پر چلتے ہوئے پاوں ہمشہ تھک جاتے ہیں کیونکہ وہاں مسافت کے لمہات کتنے ہونگے یہ اندازہ لگانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی ایک راستے پر چل رہی تھی جس کی منزل کی چاہ بہت تھی مگر امکان کم تھے اور جب امکان کم ہو تو چاہ مانند پر جاتی ہے کیونکہ اندر عجیب ڈگمگاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہورہا تھا وہ گزشتہ لمہات میں اتنی بے چین ہوچکی تھی کہ اس کا اندر عجیب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا تھا اور یہی بات اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی اپنے دکھتے سر کو سہلاتے ہوئے وہ بیڈ پر ہی ڈھیر ہوگئی تھی اسے معلوم بھی نہیں ہوا اور وہ دھیرے دھیرے نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
لاہور شہر کے اوپر خوبصورت صبح اتری تھی مرغے کی بانگ کے ساتھ نمازی فجر ادا کرکے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ایسے میں کچھ لوگ غفلت کی نیند بھی سوئے ہوئے تھے مگر حیرت انگیز طور پر وہ آج صبح صبح ہی نک سک سا تیار اپنے کار پورچ میں کھڑا تھا جہاں سفید رنگ کی لینڈ کروزر اپنے پورے وقار کے ساتھ کھڑی تھی انگلی میں چابی گھماتے ہوئے اس نے چوکیدار کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا جو گیٹ کے قریب کرسی رکھے اونگ رہا تھا۔
" تمہیں کیا سونے کی تنخواہ ملتی ہے؟"
اس نے گھور کر چوکیدار کو دیکھا تو وہ ہڑبڑا کر اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
" نہ۔۔نہیں صاحب! معافی وہ بس ابھی آنکھ لگی تھی۔"
چوکیدار نے گھبرا کر اسے صفائی دی تو اس نے اچھا خاصہ چوکیدار کو گھورا۔
" آئیندہ سوئے ہوئے نظر مت آو ورنہ تمہیں فارغ کردوں گا گیٹ کھولو اب۔"
اس نے سخت لہجے میں کہا تو چوکیدار نے تیزی سے گیٹ کھول دیا تب تک وہ سفید لینڈ کروزر سٹارٹ کرچکا تھا چوکیدار کے گیٹ کھولتے ہی گاڑی زن سے نکال کر لے گیا۔ مین شاہراہ پر پہنچتے ہی ہلکی ہلکی دھوپ نے اس کا استقبال کیا تھا ڈیش بورڈ پر رکھے ہوئے شیاہ شیڈز اٹھا کر اس نے اپنی آنکھوں پر لگائے اور کان میں لگائے ہوئے بلو توتھ کا بٹن پریس کیا دوسری جانب بیل جارہی تھی۔
" ہاں آپ پہنچ گئے ہیں؟"
اس نے دوسری جانب موجود شخص سے پوچھا تو اس نے سر ہلا کر بٹن بند کردیا اس کے پاوں کا دباو ایکسلیٹر پر بڑھا تھا اس کا رخ اب علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی جانب تھا۔
وہ ائیرپورٹ کے اندرونی حصے میں ڈیپارشن ائیریا کے باہر کھڑا تھا کلائی میں پہنی ہوئی گھڑی پر بار بار نگاہیں ڈالتا وہ خاصا بے چین دکھ رہا تھا۔ ابھی وہ فون نکال کر دوبارہ کال ملانے ہی والا تھا جب اسے دور سے اس کا مطلوبہ شخص آتا دیکھائی دیا۔ گرے پینٹ پر ڈارک گرین ٹی شرٹ پہنے وہ شفاف رنگت اور مناسب نقوش والا پرکشیش نوجوان تھا جو اپنے ایک بازو پر کوٹ ڈالے جبکہ دوسرے بازو سے سوٹ کیس گھسیٹے انتہائی بیزار دیکھائی دے رہا تھا۔ وہ شاہد دور سے دمیر کو اپنا منتظر دیکھ چکا تھا اس لیے بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھا اس تک آیا تھا۔
" ہیلو بھا صاحب! "
وہ اس سے بغل گیر ہوا تھا انداز سے ہی گرمجوشی جھلک رہی تھی۔
" کیسے ہو برو؟"
ارغن کی کچھ دیر قبل والی بیزاری اڑن چھو ہوئی تھی۔۔
" گڈ ایز آلویز۔"
دمیر نے اپنی باہیں پھیلا کر گویا اسے اپنے فٹ ہونے کا یقین دلایا تھا۔ باتیں کرتے دونوں پارکنگ تک آگئے تھے جہاں دمیر کی گاڑی کھڑی تھی۔ ارغن فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا جبکہ خود اس نے فوری ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی اور گاڑی سٹارٹ کرکے تیزی سے ائیرپورٹ کی حدود سے باہر لے آیا۔
" ویسے مجھے حیرت ہورہی ہے کہ تم مجھے لینے کے لیے آج اتنی صبح اٹھ گئے ہو؟"
ارغن نے آنکھوں پر شیڈز لگاتے ہوئے دمیر پر چوٹ کی تھی۔
" کہاں سوتا ہوں اب میں بھا صاحب! اچھے بیٹوں کی طرح بابا کے ساتھ آفس جاتا ہوں اس لیے جلدی اٹھتا ہوں اور آپ تو ایسے حیران ہورہے ہیں جیسے ایک مہینے کے بزنس ٹرپ پر نہیں بلکہ ہمشہ ہمشہ کے لیے ہی وہاں گئے تھے۔"
اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے منہ پھلا کر کہا تو گاڑی میں ارغن کا قہقہ گونجا۔
" اماں سچ کہتی ہیں تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔"
اس نے سر ادھر ادھر مارتے ہوئے کہا تو دمیر بے ساختہ مسکرا دیا۔ سفید لینڈ کروزر ڈیفینس فیز فائیو میں داخل ہوچکی تھی خوبصورت بنگلے کے باہر گاڑی روک کر اس نے ہارن بجایا تھا چوکیدار نے فوری گیٹ کھول دیا تھا جیسے کب سے اس کی واپسی کا ہی منتظر ہو۔ ضرار ہاوس میں ایک اور نفس کا اضافہ ہوچکا تھا جو اپنے باپ کے بقول ان کا بازو تھا۔ زندگی اور سوچ کسی کی بھی کبھی ایک سی نہیں رہتی وقت اور حالات انسان کو بدلتے رہتے ہیں اور اس کا نمونہ ہر فرد دیکھنے والا تھا۔
*********************
میراج کوٹھی میں رات کے فنکشن کے بعد ہر سو سناٹا چھایا ہوا تھا شاہد میراج کوٹھی کے مکین ابھی تک نیند میں تھے راتوں کے بعد کچھ لوگوں اپنی صبح کے لمہے بھی رنگین کررہے تھے ایسے میں وہ دو نفوس ہمشہ خود سے لڑنے والی جنگ میں اس قدر محو ہوتے کہ ان کے وجود ان کی روحوں سمیت جھلس جاتے تھے مگر اذیت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ سر پر کس کر دوپٹہ باندھے وہ کراہ رہی تھیں پیروں کے تلوے سرخ انگارے ہورہے تھے جن میں جگہ جگہ چھالے پڑے ہوئے تھے اور کئی چھالوں میں سے پیپ رس رہی تھی ہونٹ باہم پینچ کر وہ جسم میں سے اٹھنے والے درد کو دبا رہی تھیں ایک نظر انہوں نے سائیڈ میز پر ڈالی تھی جہاں گھنگروں کا جوڑا رکھا ہوا تھا۔ ایک وقت تھا جب انہیں ان گھنگروں کی چھنکار سے وحشت محسوس ہوتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ وہ انہیں پیروں کے پہن کر تب تک ناچتی ہیں جب تک پیروں میں چھالے نہیں پڑ جاتے ان کے لبوں سے ایک گھٹی گھٹی سی سسکی آزاد ہوئی تھی بے حد تکلیف کے باوجود سائیڈ میز کے پہلے دراز میں رکھی ہوئی سرخ جلد کی وہ ڈائیری انہوں نے نکال کر اپنی گود میں رکھی تھی اور پین شفاف صفحے پر گھسیٹنا شروع کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا وہ اس میں کیا لکھتی ہیں تحریر ختم کرکے انہوں نے بقیہ بچے ہوئے صفحات پر ایک نظر ڈالی تھی اور ڈائیری بند کرکے واپس دارز میں ڈال دی تھی سر میں ایک بار پھر سے شدید ٹیس اٹھی تھی دروازے پر کھڑی ہوئی انجم اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی جس کے پیچھے ایک لڑکی بھاپ اڑاتے پانی کا ٹب لیے کھڑی تھی۔ ان کی اجازت پاتے ہی وہ دونوں اندر آگئی تھیں۔
" آپ کے پیر کا تو بہت برا حال ہے جی!"
وہ پریشانی سے بولتی ہوئی بستر کی پائنتی پر بیٹھی تھی۔
" مجھے کوئی سر درد کی دوا دے دو انجم!"
انہوں نے بامشکل ہی اس سے کہا تھا ورنہ یوں محسوس ہورہا تھا آج ان کے حلق سے کوئی بھی آواز نہیں نکلے گی۔ انجم نے سر ہلاتے ہوئے ایک سر درد کی دوا ان کی ہتھیلی پر رکھی تھی جو وہ ایک ہی سانس میں پانی کے ساتھ نگل گئی تھیں۔
" باہمین بی بی کو کیوں نہیں بتاتی آپ کہ کتنی بیمار ہیں جی کیسی بیٹی ہیں وہ جنہیں ماں سے کبھی کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا۔"
انجم باہمین کے لیے خفگی کا بھرپور اظہار کررہی تھی ساتھ میں اس نے سلسبیل بائی کے دونوں پاوں بھاپ اڑاتے ٹب میں ڈبو دیے تھے جس کے باعث ان کے چہرے پر تکلیف کے شدید تاثرات تھے۔
"گند کے پاس لوگ اس لیے نہیں جانتے انجم! کہ کہیں گندے نہ ہوجائے میرے پاس بھی وہ اس لیے نہیں آتی کہ کہیں میری غلاظت کا کوئی چھینٹا اس کے دامن کو نہ داغدار کردے۔"
وہ آنکھیں موندے ہوئے انتہائی تلخی سے کہہ گئی جبکہ انجم نے ان کی بات سن کر شدید اضطراب کا اظہار کیا تھا۔
" نہ بائی! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ تو اتنی نیک ہیں جی آپ کے پاس جب بھی بیٹھو ایک عجیب سے سکون کا احساس ہوتا ہے۔"
انجم نے تڑپ کر ان سے کہا تو وہ بے اختیار مسکرائیں۔
" طوائفیں کبھی نیک نہیں ہوتی انجم! کیونکہ بہت سے نامحرم ان کے بستروں کو رونق بخش دیتے ہیں اور جب وجود ہی داغدار ہو تو کیسی نیکی۔"
وہ ہنوز آنکھیں موندے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" نہ جی اللہ کی ذات بڑی مہربان ہوتی ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اسے کس طوائف کی کونسی ادا پسند آجائے۔"
وہ ان کے پیروں پر پٹی باندھ کر کھڑی ہوگئی تھی اس کی بات پر بے ساختہ سلسبیل بائی مسکرائی تھیں۔ وہ بھی مسکرا کر باہر نکل گئی جبکہ ان کے لیے نیکی اور بدی کے در وا ہوگئے تھے جسے خود بھی وہ سمجھنے سے قاصر تھیں تکلیف کی شدید لہر انہیں اپنے پورے وجود سے اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now