ملاقات

2.7K 121 13
                                    


حیدر عباس پاکستان کے سب سے بڑے بزنس مین عباس عالَم کا بیٹا تھا اور حیدر عباس کی والدہ سوشل ورک کرتیں تھیں۔ عباس عالَم کے دو بیٹے(سعید عباس اور حیدر عباس)تھے اور ایک بیٹی(صفا عباس) تھی جو ان کے گھر کی رونق تھی۔ عباس عالَم کا بڑا بیٹا سعید عباس تھا اس کے بعد صفا عباس تھی اور حیدر عباس ان سب سے چھوٹا تھا۔

سعید عباس کی شادی ان کی پھپو(زہرہ وقار) کی بیٹی ثانیا وقار سے ہوئی تھی جو کہ احمر وقار(جو حیدر عباس کا بہترین دوست بھی تھا) کی بہن بھی تھی اور سعید عباس،عباس عالَم کا بزنس سنبھالتے تھے۔

صفا عباس کی منگنی کچھ ہی مہینوں پہلے اس کی پھپو(آلیہ مرتضیٰ) کے بیٹے ہاشم مرتضیٰ سے ہوئی تھی اور شادی صفا عباس کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد طے پائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت گزرتا جا رہا تھا اور اب زینب اور رانیہ کو یونیورسٹی میں دو سیمسٹز ہو گئے تھے اور ان دونوں ہی سیمسٹز میں ان دونوں نے بہترین نتائج حاصل کئے تھے اور زینب کی ذہانت کی خبر جنگل میں آگ لگنے کے مانند پوری یونیورسٹی میں پھیل چکی تھی۔

اس یونیورسٹی میں ہر سیمسٹر ایک کمپنی کے ممبرز وِزیٹ کرنے آتے تھے اور یونیورسٹی کے بیسٹ سٹوڈنٹس ان کے ساتھ اپنے مختلف آئیڈیاز شیئر کرتے تھے اور جو آئیڈیاز انھیں پسند آتے تھے وہ ان کے لیے طالبعلموں کو معاوضہ دیتے تھے اور انھیں اپنی کمپنی کے لیے استعمال کرتے تھے اور بعض دفع وہ کمپنیز ان طالبعلموں کو جاب کی آفر بھی کرتے تھے اور پچھلے دو سیمسٹز سے صرف ایک شخص کے آ ئیڈیاز نا تو صرف فروخت ہو رہے تھے بلکہ اس شخص کو کمپنی سے آفر بھی آئی تھی جسے اس نے بڑی خوش دلی سے قبول کر لیا تھا اور وہ کوئی اور نہیں تھی وہ۔۔۔۔۔ زینب والیواللہ تھی جو اپنا آپ بنانا جانتی تھی۔

اس سب کے دوران اگر کسی شخص کو فرق پڑ رہا تھا تو وہ تھا حیدر عباس ایسا نہیں تھا کہ وہ اب یونیورسٹی کا "bright" سٹوڈنٹ نہیں تھا لیکن یونیورسٹی میں اب کے "brightest" سٹوڈنٹ کا اضافہ ہو گیا تھا اور یہ اضافہ حیدر عباس کو بے حد کھل رہا تھا۔ وہ تمام استاذہ جن کی زبان پر ہر وقت صرف حیدر عباس کا نام ہوتا تھا اب کسی اور کا بھی رہنے لگا تھا اور جب سے وہ آئی تھی اس کا کوئی ایک آیڈیا بھی کسی کمپنی کو متاثر نہیں کر سکا تھا۔ حیدر عباس کی حالت اس وقت اس بادشاہ کی طرح تھی جس نے سالوں راج کیا ہو اور ایک ہی پل میں اس کا تختہ پلٹ دیا گیا ہو۔

وہ اس وقت حسد ،جلن اور غصّے کے ملے جلے تاثرات میں تھا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا اسے اس کی ذہانت میں بھی کوئی مات دے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور اسے مات ہوئی بھی تھی تو ایک لڑکی سے۔۔۔۔۔اس نے کبھی کسی لڑکی کے طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا لیکن یہ لڑکی اس کے حواسوں پر سوار ہو رہی تھی اور اس کی وجہ محبّت ہر گز نہیں تھی وہ اس سے بے حد نفرت کرتا تھا۔

جگ ہاری Where stories live. Discover now