مسلسل روازہ بجنے کی آواز سے اس نے جھنجلا کر پوچھا کون ہے
یار میں ہوں ھادی دروازہ کھول جلدی
یار کیا ہوگیا چھٹی کے دن تو سونے دو نیند میں ہی اس نے بڑبڑاتے دروازہ کھولا سامنے ھادی سوٹ بوٹ میں تیار کھڑا تھا
اس ٹائم کیوں تیار ہوئے ہو چھٹی والے دن بھی آفس یاد آرہا ہے کیا افان نے آنکھوں کو ملتے ہوئے پوچھا
یاد کیا خاک آنا ہے بلاوا آیا ہے آفس سے تم بھی تیار ہوجاؤ
بلاوا کیوں افان کچھ حیران ہوا
یار پاکستان سے کچھ کلائنٹس آئیں جنہیں تمہیں اور مجھے ہی ہینڈل کرنا ہوگا باس کا فون آیا ہے وہ لوگ پھنچ گئے ہوں گے جلدی کرو ھادی نے کہا
کیا مصیبت ہے یار میں آرہا ہوں 5 منٹ میں تیار ہوکے افان نے کہا
ہاں جلدی کرو میں باہر ہی ہوں
15 منٹ بعد افان فل سوٹڈ بوٹڈ ہوکے کمرے سے نکلا ھادی وہیں لاونچ میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
جب وہ اپنا کام نپٹا کے آفس سے نکل کے اپنی گاڑی میں بیٹھے تو افان نے بات شروع کی
ھادی کیوں جارہا ہے یار تو پاکستان افان نے جھجلا کر پوچھا
افان ھادی بچپن کے دوست تھے اسکول سے لیکے لندن آکس فرڈ یونیورسٹی (Oxford Universty) تک دونوں نے ساتھ تعلیم حاصل کی اور اب یہاں دبئی میں بھی وہ دونوں ساتھ ہی بینک میں کام کر رہے تھے دونوں کی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی کہ اچانک ھادی کہ پاکستان جانے کی بات نے بدمزگی کردی
یار بہت سال ہوگئے یوں پرائے ملکوں میں بھٹکتے اب اپنی زمین پہ چلتے ہیں ھادی نے کہا
نہیں یار یہ کیا بات کر رہا ہے تو یہ زمین بھی ہمیں وہی سب دے رہی ہے جو وہاں ملے گا بلکے اس سے زیادہ مل رہا ہے ہمیں یہاں، دونوں ابھی اسی بات پہ بحث کر رہے تھے جب افان کا موبائل بجا فوں کی اسکرین پہ شھریار کا نام چمک رہا تھا
کس کا فون ہے افان، شھریار کا ہے
ہیلو
ہاں ہیلو کہاں ہو تم دونوں فون رسیو ہوتے ہی شھریار بولا
کہیں نہیں ابھی آفس سے نکلے ہیں افان گاڑی پارکنگ سے باہر نکالتا ہوا بولا
آفس سے کیوں شھریار حیران ہوتا ہوا بولا افان نے مختصر بات بتائی اچھا ٹھیک ہے پھر تم لوگ آرہے ہو نا
ہم کہاں افان نے الجھتے ہوئے ھادی کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
یار ہم لوگوں نے ساتھ میں لنچ نہیں کرنا تھا آج
شھریار کی بات پے ھادی نے اپنے سر پر ھاتھ پھیرا ہاں یار ہمارے تو ذھن سے ہی نکل گیا تھا
واہ بہت ہی اچھے دوست ہو تم لوگ شھروز نے بھی بات میں حصہ لیا جو شھریار کے ساتھ کب سے بیٹھا ان کی باتیں ہی سن رھا تھا
یار بھول گئے تھے ہم آفس جانے کے چکر میں ھادی نے کہا
چلو کوئی نہیں ہم آجاتے ہیں ٹائم نکل تھوڑی گیا ہے کہاں ہو تم لوگ افان نے بات کو سنبھالا
ہم وہی جہاں ہمیشہ ہوتے ہیں شھروز ہنستے ہوئے بولا
اچھا چلو ہم بھی پھنچ تے ہیں وہاں چلو ٹھیک ہے بائے
اور 15 منٹ بعد سب ساتھ بیٹھے ہوئے دبئی کے مشھور ترین اور ان کے فیورٹ ریسٹورنٹ میں لنچ سے اور باتوں سے لطف اٹھا رہے تھے چھٹی کا دن وہ سب ہی ساتھ بتاتے تھے شھروز شھریار بھی پاکستان سے ہی ان کے دوست تھے پر کام الگ الگ کرتے تھے لنچ کے باد وہ لوگ ہونہی باتیں کر رہے تھے اور ھادی کے پاکستان جانے کا موضوع کھلا تو افان اٹھ کے سامنے چلنے لگا وہ لوگ ریسٹورنٹ کی چھت پہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں سے آدھا شھر نظر آتا تھا اور اور روڈ کے اس پار پارک جہاں مصنوعی پانی کا چشمہ بنایا ہوا تھا وہاں سے پانی نیچے سمندر میں جارہا ہوتا بہت ہی خوبصورت پارک تھا وہ یہ چاروں دوست اکثر پارک میں بھی جایا کرتے تھے وہیں کھڑے ریلنگ پہ ھاتھ رکھے افان نیچے سڑک پہ دیکھ رہا تھا جب اس کی اس بس پر پڑی اس بس میں سے بہت سی لڑکیاں اتر رہی تھی وہ یونہی سر سری سی نظر گھماتا ہوا سب دیکھ رہا تھا جب اسکی نظر بس سے اترتی اس لڑکی پر پڑی جو بس کی سیڑھیاں آرام سے اترتی ایک ھاتھ سے اپنا بیگ اٹھائے دوسرے ھاتھ سے اپنے بال سنبھالتی اتر رہی تھی دبئی کی شرارتی ہوائیں اس کے بالوں کو چھو جاتی اور وہ پھر سے اڑ جاتے یوں وہ اپنے بالوں کو سنبھالتی آہستہ آہستی بس سے اتری اور سائیڈ پے کھڑے ہوکر اپنے بالوں کو کیچر سے جکڑا اور تب ھی اس لڑکی کی نظر سڑک پہ دوڑتی اس بچی پہ پڑی جو اپنے غبارے ہوا سے بچاتی سڑک پر دوڑ رہی تھی اس کے سامنے ہی ایک گاڑی اسپیڈ سے آرہی تھی جب اس لڑکی نے اسے برق رفتاری سے گود میں اٹھالیا اور پھر وہ اس چھوٹی سی بچی کو کچھ سمجھاتے ہوئے اس کے گالوں پہ پیار کرکے ایک سائیڈ پہ کسی عورت کو دے آئی جو شاید اس کی ماں تھی پھر وہ بہت سی لڑکیوں کے ساتھ پارک کے دروازے کے پیچھے غائب ہوگئی اور تب میں افان اپنے حواسوں میں واپس لوٹا
کیا تھا یہ یار میں کب سے یہاں کھڑا ہوں افان خود سے ہی سوال کرنے لگا جب ھادی نے آکے پاس بولا
کیا ہوا یار کب سے یہیں کھڑا ہے
ک کچھ نہیں افان نے کہا
پھر کھو کہاں گیا تو ھادی نے پوچھا
کہیں نہیں چل پھر افان آکے وہیں سب کے ساتھ بیٹھ گیا پر تب بھی بار بار وہی منظر یاد آرہا تھا
ہم لوگ پارک چلیں افان نے کہا
شام کو آئیں گے نا ابھی چل کے کیا کرنا شھروز نے کہا
نہیں ابھی چلتے ہیں نا موسم بھی اچھا ہے ( شام تک وہ وہیں ہو نا ہو) افان نے سوچا
ہاں ہاں چلتے شام کو کون آئے گا پھر ھادی نے بھی بولا
ہاں چلو ،جب وہ پارک میں داخل ہوئے افان کی حالت کچھ اور ہی تھی وہ صرف یہی سوچ رہا تھا ، پتا نہیں وہ کہاں ہوگی ، چلی تو نہیں ہوگی
چلو اس طرف بیٹھتے ہیں ھادی نے کہا
نہیں تم لوگ جاؤ میں واک کرکے آتا ہوں افان نے انہیں ٹالا
اور پھر وہ ڈھونڈتا رہا لیکن وہ نا ملی پورا ٹائم وہ اسی کی تلاش میں پھرتا رہا مگر اس کا کوئی پتا نہ چلا تھک کر وہ آکر ایک بڑے سے پتھر پہ بیٹھ گیا سمندر اس کے پیچھے تھا وہ سامنے سے آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا جب اسے اذان کی آواز آئی وہ حیراں ہوا کیوں کہ اذان کی آواز اس کے پاس سے ہی کہیں آرہی تھی اور وہ یہاں کا رہنے والا تھا جانتا تھا کہ مسجد یہاں سے بہت دور تھی اور یہاں تک آواز نہ آتی تھی وہ اٹھا اور کچھ آگے آیا جہاں اسے اپنی تلاش ختم ہوتی محسوس ہوئی مگر اسے کیا پتا اس کی تلاش شروع ہی اب ہونی تھی۔
وہ کچھ آگے آیا جب اس کی نظر لڑکیوں کے ایک گروپ پر پڑی جس میں وہ بھی شامل تھی وہ ایک ٹیبل کے گرد رکھی کرسیوں پہ بیٹھی15 14لڑکیوں کا گروپ تھا وہ بھی ان کے ساتھ باتوں میں مگن تھی اور اب وہ ان سے معذرت کرتی ہوئی وہاں سے اٹھ رہی تھی وہ وہاں سے اٹھ کے سمندر کنارے ایک بڑے سے پتھر کے پاس جاکے کھڑی ہوگئی اور وہاں اپنا بیگ رکھا اور گلے سے کارڈ اتار کے بیگ پے رکھا پھر وہ مصنوعی بنے چشمے کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی وہ کیا کر رہی تھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیوں کہ میں تو صرف اسے ہی دیکھ رہا تھا کیوں کہ اور کچھ مجھے دکھ ہی نہیں رہا تھا
وہ بہت خوبصورت تھی مگر ایسا نہیں تھا کہ افان نے پہلے کبھی کوئی خوبصورت لڑکی نہ دیکھی ہو اس کی بہت خوبصورت لڑکیوں سے دوسری رہ چکی تھی پاکستان سے لے کر لندن دبئی میں لاکھوں خوبصورت چھرے دیکھ چکا تھا مگر یے چھرہ کچھ الگ ہی تھا اسکی آنکھیں اس کی ذھانت کی گواہی دے رہی تھی وہ آنکھیں اپنے اندر بہت سی باتیں بہت سے راز لیے ہوئی تھی میں ان آنکھوں کے راز جاننا چاہتا تھا مگر کیسے اور کیوں ایسا تو نہ تھا میں کہ کسی کو ایک بار دیکھتا تو دل ہار بیٹھتا میں نے تو کبھی کسی لڑکی سے زیادہ فری تک ہونے کی کوشش نہ کی پر اب یہ کیا ہورہا تھا میرے ساتھ میں اس کے پاس جانا چاہتا تھا کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا سمندر کی شرارتی لہروں نے پانی کے کچھ کترے مار کر مجھے ہوش دلایا تب میں سمجھا وہ اس چشمے کے پانی سے وضو کر رہی تھی
وہ اذان بھی اس کے ہی فون میں سے کسی ایپ سے آرہی تھی اب وہ اپنے پیر دھو کے سیدھی ہورہی تھی تب میں نے اسے ٹھیک سے دیکھا گیلے چھرے کے ساتھ وہ اب اس پتھر کے پاس آرہی تھی جہاں وہ اپنا بیگ چھوڑ گئی تھی وائٹ ایمبرائڈی شرٹ کے ساتھ بلیک کلر کی پینٹ اور بلیک ہی نیٹ کا دوپٹا پہنے وہ سادگی سے تیار ہوئے بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی بیگ سے اس نے فولڈنگ جائے نماز اور دوپٹا نکالا اور وہیں پاس ہی زمین پے اس نے نماز پڑھی اور میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا جب وہ نماز پڑھ چکی تو جائے نماز دوپٹا بیگ میں رکھ کر اسی پتھر پہ بیٹھ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگی
*تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا*
*زندگی دھوپ تم گھنا سایا*
افان کو لگا یہ شعر اس کے لیے لکھا گیا ہے
سامنے سمندر کے اوپر سورج چمک رہا تھا وہ آفتاب غروب کا منظر تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے سورج سمندر میں اترنا چاہ رہا تھا مگر جیسے میں بھی جانا چاہ رہا تھا اس کہ پاس بات کرنا چاہ رہا تھا اس سے مگر میں ایک قدم بھی نہ اٹھا پایا جانے کیوں تھا ایسا میں وہیں کھڑا رہا اسے دیکھتا رہا جب اس نے اپنے بیگ سے کیمرا نکال کر سامنے کے خوبصورت منظر کو قید کرلیا میں بھی کرنا چاہتا تھا مگر میں وہ بھی نہ کر پایا آفتاب غروب کا منظر میرا فیورٹ تھا اور شاید اس کا بھی جس طرح وہ اس منظر میں کھوئی ہوئی تھی بلکل اسی طرح میں بھی کھویا ہوا تھا میں ہوش کی دنیا سے بہت دور تھا جب میرے کندھا جھنجھوڑ کر ھادی مجھے ہوش کی دنیا میں واپس لیا
کہاں گم ہے یار کب سے ہم اندر تمہارا انتظار کر رہے تھے اور جب تجھے میں اتنی آوازیں دے رہا ہوں تو جواب کیوں نہیں دے رہا
جواب کیسے دیتا میں کچھ سن ہی نہیں رہا تھا میں صرف یہی دیکھ رہا تھا سامنے وہ نہیں تھی کہاں گئی وہ ابھی تو میں نے اس سے بات تک نہ کی تھی کہاں چلی گئی وہ
ارے بھائی کہاں گم ہو ھادی نے میرا کندھا ھلایا
ھادی وہ کہاں گئی
ھادی مجھے ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک میں کس کی بات کر رہا ہوں
ھادی تو جانتا ہے وہ کہاں گئی
میں نے ایک بار پھر سوال دھرایا
افان تو کس کی بات کر رہا ہے کون کہاں گئی
ھادی وہ لڑکی جو یہاں بیٹھی تھی
بھائی میں نے تو یہاں کوئی لڑکی نہیں دیکھی تو کس کی بات کر رہا ہے ھادی الجھا
ھادی تھی وہ یہیں تھی
اچھا اچھا ٹھیک ہے بتا کون تھی وہ ھادی افان کو اس طرح دیکھ کر الجھا وہ بچپن سے جانتا تھا افان کبھی کسی لڑکی کے پیچھے یوں پاگل نہیں ہوا بہت لڑکیوں سے دوستی تھی ان کی جو ان کے ساتھ پڑھی جن کے ساتھ وہ کام کرتے تھے مگر ان کی صرف دوستی ہی تھی اور آج یوں اسے اس طرح دیکھ کر ھادی کچھ بھی اندازہ نہیں کر پا رہا تھا
میں نہیں جانتا کہ کون تھی وہ افان نے کہا
تو اس کا نام کیا تھا ھادی نے پوچھا
نہیں نام نہیں معلوم مجھے
نام بھی نہیں معلوم پھر ملا کیسے اسے کہاں رہتی ہے وہ ھادی الجھا
نہیں جانتا میں کچھ بھی ھادی نہ میں اس سے ملا نہ نام معلوم ہے نہ ہی کوئی اتا پتا
ھادی کو اس کے دماغی توازن پہ کچھ شک ہوا
یار کیا کہہ رہا ہے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ھادی اکتایا
دیکھ بھائی میں تجھے سب بتاتا ہوں لیکن رک میں دیکھوں وہ کہاں گئی یہ کہتا ہوا وہ آگے بڑھا ھادی بھی اس کہ ساتھ چلنے لگا دونوں پوری پارک کا چکر لگا چکے تب بھی وہ نہ ملی تب وہ دونوں اسی پتھر کے پاس آکر کھڑے ہوگئے
اب بتا کیا معاملہ ہے ھادی نے سوال کیا
افان نے تھک کر پتھر پہ بیٹھتے ہوئے اسے پورا قصہ مختصر بتایا
یار تو جس کو جانتا نہیں جس کا نام تک تجھے نہیں معلوم جس کو تو نے دیکھا ہی کچھ دیر پھلے ہے اس کے پیچھے اس طرح کیوں بھاگ رہا ہے
ھادی مجھے ایسا نہیں لگا افان نے ھادی کی بات کاٹی
مجھے ایسا نہیں لگا کہ میں اسے نہیں جانتا مجھے بلکل وہ اجنبی نہیں لگی
تو مذاق کر رہا ہے کوئی پرینک کر رہا ہے میرے ساتھ اس بات پہ افان کا چھرہ سرخ پڑ گیا اور اس نے ھادی کا ھاتھ اپنے کندھے سے جھٹک دیا
تجھے لگ رہا ہے میں مذاق کر رہا ہوں بول تجھے ایسا لگ رہا ہے تو جا پھر میں خود ڈھونڈ لوں گا اس سے افان اٹھ کہ پھر چل پڑا
ارے بھائی رک اب ھادی کو سمجھ آیا کہ کیا معاملہ ہے
بھائی رک بات تو سن اور افان رک گیا
سوری لیکن میں کچھ سمجھ ہی نہیں رہا تھا لیکن اب سمجھ گیا ہوں ھادی نے کہا
افان کو اپنا رویہ یاد آیا سوری ھادی میں غصہ کر گیا
نہیں یار ہمارے بیچھ میں یہ سب کہاں افان ھادی کہ گلے لگ گیا
یار وہ مجھے نہیں معلوم کون تھی لیکن میں معلوم کرنا چاھتا ہوں مجھے اسے یہاں نماز پڑھتے دیکھ کہ یوں لگا جیسے یہی لمحہ میری زندگی کا حاصل ہے۔
افان یہ بات دل کی گہرائیوں سے کر رہا تھا اور ھادی جانتا تھا
ہاں یار چل دیکھتے ہیں تو نے دیکھا تھا وہ یہاں آئی کیسے تھی کس کہ ساتھ آئی تھی ھادی نے پوچھا
ہاں یہاں وہ اپنی دوستوں کہ ساتھ آئی تھی شاید اور وہ بس میں اور یاد آنے کی دیر تھی افان بھاگتا ہوا پارک کے گیٹ کی جانب دوڑنے لگا اور ھادی اس کے پیچھے جب ھادی باہر پھنچا تو افان وہیں کھڑا تھا، ھادی وہ بس میں آئی تھی بہت سی لڑکیوں کہ ساتھ اور بس وہاں نہیں تھی ھادی نے پھلے روڈ پہ دیکھا اور پھر افان کو جس کے چھرے پہ واضح پریشانی تھی
خیر ہے یار آ پتا کرتے ہیں ،پر افان تو وہیں کھڑا رہا ھادی گیٹ پہ موجود گارڈ سے پوچھنے لگا
افان ھادی نے پکارا
ھاں ، افان وہ بس کسی ٹرپ کی تھی
کہاں سے آئی تھی وہ ٹرپ افان نے ایک دم پوچھا
یہ لوگ بتا رہے ہیں کسی ایک کہ نہیں بلکہ بہت سے ملکوں سے آئی تھی اس ٹرپ پہ لڑکیاں اور جو کچھ دیر پھلے افان کہ چھرے پہ چمک اٹھی وہ ختم ہوگئی ھادی نے دیکھا
اچھا چل ابھی چلتے ہیں شیری والے چلے گئے ہیں میں نے انہیں کہہ دیا تھا ہم کہیں باہر نکل آئے ہیں ھادی نے کہا
نہیں تھوڑی دیر رک جاتے ہیں شاید کچھ پتا چل جائے افان نے کہا
کس سے پتا چلے گا پارک خالی ہورہا ہے اب کل آئے گے ہم چل ابھی ھادی نے کہا
ہاں افان نے صرف ایک لفظ نکالا منہ سے پھر وہ دونوں اپنی گاڑی کہ پاس آگئے ڈرائونگ ھادی نے کی کھانا بھی باہر سے ہی پیک کروالیا ورنہ وہ باہر ہی کھا کہ جاتے تھے۔

جاری ہے۔۔
Thats my first Story
First Episode
Keep supportinG

Ahsas Muhabbat❤ (Complete Novel)Where stories live. Discover now