4: ادھورےفیصلے

3.2K 200 37
                                    

موسم سرما کی سیاہ رات سکندر ہاؤس پر پھیل چکی تھی۔ فاطمہ بھابھی ملازموں کے ساتھ مل کر کھانے کی میز لگا رہی تھیں، عثمان سکندر سمیت سب ہی میز کے گرد موجود تھے،سواۓ ہانیہ کے ۔ عثمان سکندر کی نظر ہانیہ کی خالی کرسی پر پڑی جو اٌنکے ساتھ ہی دائیں طرف موجود تھی۔

" ہانیہ کہاں ہےوہ کھانا نہیں کھاۓ گی ؟ " وہ اپنے کمرے میں ہے ابو، میں نے بلایا تھا اٌسے پر اٌس نے کوئی جواب نہیں دیا۔" فاطمہ نے اطلاع دی ۔

"کیا مطلب جواب نہیں دیاتمہیں دوبارہ پوچھنا چاہيۓ تھاکہیں اسکی طبیعت نہ خراب ہو".عثمان سکندر فکرمند لہجے میں بولے۔

" میں نے دو ،تین بار دروازہ کھٹکھٹایا تھاپر اٌس نے دروازہ نہیں کھولا مجھے لگا کہ وہ سو رہی ہے اس لیۓ ڈسٹرب نہیں کیا". فاطمہ نے وضاحت دیتے ہوۓ کہا۔

"میں خودبٌلا کر لاتا ہوں اٌسے". عثمان صاحب اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولے۔

" آپ بیٹھے ابو میں بٌلا لاتا ہوں ہانیہ کو "۔ اٌنکے اٌٹھنے سے پہلے ہی فیضان بھائی نے اٌٹھتے ہوۓ کہا، تو وہ بیٹھ گئے۔

" ہانیہ ؟... ہانیہ دروازہ کھولو". فیضان مسلسل دستک دیتے ہوۓ اٌسے پکار رہا تھا، مگر اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ کچھ دیر تک اٌسے پکارتا رہا مگر جب دروازہ نہ کٌھلا تو آہستہ آہستہ اٌسکی تشویش بڑھنے لگی۔

کچھ ہی دیر میں عثمان صاحب سمیت سب لوگ ہانیہ کے کمرے کے سامنے موجود دروازہ کھولوانے کی کوششیں کر رہے تھے،

، ہانیہ کی والدہ نصرت بیگم خوف اور پریشانی سے نڈھال تھیں، فاطمہ بھابھی اٌنھيں تسلی دے رہی تھیں۔فیضان اور زید دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے اور عثمان صاحب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے حارث کا سہارا لیے کھڑے بے حد پریشان نظر آرہے تھے،ٌانکا دل رٌک رٌک کر چل رہا تھا ،ہر گزرتا لمحہ اٌنکے خوف اور خدشات میں اضافہ کر رہا تھا۔ بہت کوششوں کے بعد ایک زوردار آواز سے دروازہ کھٌلا اور سامنے دکھائی دینے والے منظر نے سب کو سکتے میں ڈال دیا ۔

ہانیہ بیڈ پر آڑھی تڑچھی بے حوش پڑی تھی،بیڈ کی چادر خون سے رنگی ہوئی تھی جو ہانیہ کی کلائی سے نکل رہا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ٹوٹے ہوۓ کانچ کا ٹکڑا تھا جس سے اٌس نے اپنی کلائی کاٹی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانیہ کو فوری طور پر آئی۔سی۔یو میں لے جایا گیا۔ نصرت بیگم کی رو رو کر بری حالت تھی ، عثمان صاحب کے لیۓ ہر لمحہ کسی عذاب کی صورت گزر رہا تھا۔

ایک گھنٹے کے جان لیواہ انتظار کے بعد جب ڈاکٹرز نے انھیں اطمینان کی خبر سنائی " اٌنکی حالت اب بہتر ہے انشاالّلہ صبح تک ہوش آجاۓ گا".

تو سب نے سکون کا سانس لیا۔

سب کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی عثمان صاحب گھر نہیں گئے وہ بضد تھے کہ ہانیہ کے بغیر گھر نہیں جائیں گے، آخر سب کو اٌنکی ضد ماننا پڑی۔

Mohabbat Sey Mohabbat Tak (محبت سے محبت تک!!)Where stories live. Discover now