باب ٦ | بکھرے رنگوں میں

124 15 62
                                    

اب کے بچھڑے تو شاید خوابوں میں بھی نہ ملیں
وہ سوکھے پھول جو اب کتابوں میں بھی نہ ملیں

یہ ہر رنگ کی داستان ہے دل تھام کر سننا

کہ جس پر ٹہرے وہ اب ہزاروں میں بھی نہ ملیں

معراف ابراہیم کی ایک قابلیت مشہور زمانہ تھی! جو چہرہ ایک بار نظر سے گزر گیا وہ بھولتا نہیں۔ کمپیوٹر اسکین کی طرح!

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

معراف ابراہیم کی ایک قابلیت مشہور زمانہ تھی! جو چہرہ ایک بار نظر سے گزر گیا وہ بھولتا نہیں۔ کمپیوٹر اسکین کی طرح!

وہ بزرگ بار بار اسکا نام لے اسکو اٹھانے کی کوشش کر رہے پر وہ اس وقت ان سے بھی ڈر رہا تھا۔ واہ سب سے ڈر کے پیچھے ہوتا کانوں پہ ہاتھ رکھ رہا تھا۔ اُسکی آنکھیں بار بار چڑھ رہی تھیں ۔ میراف کو دو سیکنڈ لگے تھے سمجھنے میں کے وہ اسپیشل چائلڈ ہے۔ آٹزم کا مریض۔

"انکل۔ آپ اس سے مزید ڈرا رہے ہیں!"

"اے تم! ہمارے ساتھ پلے بڑے بچے ہیں مجھے نہیں سکھاؤ۔ اسکو..."

"آٹزم ہے اور وہ ڈر رہا ہے۔ تھورا سا فاصلہ کر لیں ۔"

"اسکے ساتھ کوئی نہیں ہے؟ اسکے گھر والے؟"

سب عارب کے گرد اکھٹے ہونےلگے اور ایک دو نے شور مچا کر اندر سے ایزل اور ڈالیا کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ پر وہ دونوں ہی شاید گھر پر نہیں تھیں۔ سلیمان صاحب کی آواز آئی تھی چھت سے مگر وہ جب تک نیچے آتے، عارب کا رو رو کر مزید سانس پھول چکا تھا۔

"شش عارب! عارب!" معراف نے اسکی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے تھامنے کی کوشش تھی۔ وہ پورا اکھٹا ہو کر اپنا دفاع کرنے لگا۔ آٹزم کے مریض پر اٹیک کی صورت میں اسکو بھینچ کر گلے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس کا ڈر اور کپکپاہٹ کم ہو سکے۔

"دوست؟ ہاتھ دو گے؟ پلیز!" معراف کی آواز دھیمی تھی مگر فاصلہ عبور کرتے ہوئے ہاتھ سے مکمل تھام لینے کی کوشش کر رہ تھا۔ عارب نڈھال ہونے لگا تھا جب معراف نے بغیر اگلے لمحے کا انتظار کیے اسے مضبوط مگر نرم گرفت میں اٹھا کر کسی ہلکے پھلکے کپڑے کی طرح اسکے گھر کی طرف بھاگا۔ سلیمان کا سیڑیوں سے اترتے سانس پھول گیا تھا۔ وہ عارب کو گھر کے اندر تک لے آ چکا تھا۔

سلیمان صاحب پریشانی میں اس کے پیچھے تھے۔ بزرگ بھی اندر آگئے اور بچوں کو جانے کا اشارہ کیا۔ ایزل اور ڈالیا سکول اور یونیورسٹی سے اکھٹے چلتے واپس آرہے تھیں جب بچوں کا پورا قافلہ ان کو رک کر روداد سنانے لگا تھا ۔ ایک لفظ عارب تھا اور ایزل کے پیروں تلے زمین نکلی تھی۔وہ بیگ سڑک کے بیچ گراتے والہانہ بھاگی تھی۔ ڈالیا اسکا بیگ اٹھاے پیچھے بھاگی۔ وہ لڑکھڑاتی کمرے تک آئی تھی جب عارب مسکرا رہا تھا۔

اع راف Where stories live. Discover now