سانول یار 😍❤. (COMPLETE)

Bởi MaheenShahzad1

42K 3K 89

Hate to love🏵💕💜 Xem Thêm

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17
Episode 18
Episode 19
Episode 21
Last episode
EPILOGUE

Episode 20

1.6K 120 3
Bởi MaheenShahzad1

ایک ہفتہ بیت چکا تھا نا اس نے عمر سے کوئی بات کی تھی نا عمر نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دن والی تلخ کلامی کے بعد سے بریرہ سے بھی اس کا بول چال بند تھا۔۔ بریرہ اب اسے خاموشی کی مار مار رہی تھی۔۔ اس کی ہر بات کہ جواب میں اب وہ خاموش ہوجایا کرتی تھی۔۔ اب وہ اس رشتے کو نبھاتے نبھاتے تھک چکی تھی۔۔ اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی اس رشتے کو نبھانے کی لیکن مصطفی نا جانے اسے کس بات کی سزا دے رہا تھا کہ اب اس نے مصطفی سے گلہ کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔ اس دن کہ بعد سے وہ اتنی دلبرداشتہ ہوئی تھی کہ بالکل خاموش ہی ہوگئی تھی۔ مصطفی نے اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس کی کوئی بھی بات سننے کے حق میں نہیں تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عمر کہاں غائب ہے آج کل؟ بڑے دنوں سے نظر ہی نہیں آ رہا۔۔ "
ناشتے کی میز پر سب موجود تھے جب دادا جان نے مصطفی سے سوال کیا۔۔
"شاید جاب میں مصروف ہے۔۔۔ "
عمر کے ذکر پر اس کہ ماتھے کی رگیں تن گئیں۔۔ غصے کی ایک تیز لہر اس کہ اندر دوڑی جسے بمشکل اس نے دبایا۔۔
"کیا تم دونوں کے درمیان کوئی بات ہوئی ہے؟ پہلے تو کبھی تم دونوں کو اتنے اتنے دن بغیر ملے نہیں دیکھا۔۔ "
انہوں نے پھر سے سوال کیا تو وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔۔
"ایسی کوئی بات نہیں ہے ابا مجھے دیر ہورہی ہے میں چلتا ہوں۔۔ "
اکتاہٹ سے کہتے وہ اپنی جان چھڑوا کر کمرے میں آگیا۔۔
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بریرہ۔۔ "
کمرے میں آتے ہی معمول کی طرح اس نے بریرہ کو آواز دی اور وہ تھوڑی دیر بعد ہی کمرے میں آگئی۔۔
"میرے نوٹس نہیں مل رہے۔۔ "
بریرہ کے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر وہ بولا۔۔۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا روزانہ ہی مصطفی کو جانے سے پہلے کوئی نا کوئی چیز مل نہیں رہی ہوتی تھی اور وہ اسی طرح بریرہ کو آوازیں دیتا تھا۔۔ سب کچھ ویسا ہی تھا آج بھی اگر کچھ بدلا تھا تو وہ بریرہ کا رویہ تھا۔ وہ پہلے اس کہ اس طرح بلانے پر اسے کھری کھری سنایا کرتی تھی لیکن اب وہ جو بھی کہتا وہ آگے سے خاموش ہوجایا کرتی تھی لیکن اب مصطفی کو اس کی خاموشی اچھی نہیں لگتی تھی۔۔ وہ روز اس سے لڑنے جھگڑنے کا عادی ہوگیا تھا۔۔ اس سے لڑے بغیر مصطفی کو اپنا دن نامکمل سا لگتا تھا۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب بریرہ نے اس کہ آگے نوٹس کیے اور اسے پکڑا کر واپس مڑنے لگی لیکن مصطفی نے اس سے پہلے ہی اس کی کلائی تھام لی۔۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے بریرہ۔۔ "
"بولو۔۔ "
"ہمیں اب اپنی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ لے لینا چاہیے۔۔ آخر ایسے کس طرح سے زندگی گزرے گی؟ ہمیں دونوں کو بیٹھ کر طے کر لینا چاہیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور آگے کیا کرنا ہے۔۔ یوں خاموش رہ کر کب تک زندگی گزرے گی؟ "
وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"میری سب چاہتیں اور خواہشیں اسی دن مر گئیں تھیں جب میری تم سے شادی ہوئی تھی۔۔ اس کہ بعد سے میری زندگی میں صرف گزارا ہی ہورہا ہے جو میں کر رہی ہوں۔۔ جہاں تک ہے میرے فیصلہ لینے کی بات تو میں اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ نہیں لینا چاہتی۔۔۔ جیسی زندگی گزر رہی ہے میرے لیے ٹھیک ہے ۔۔۔ ہاں لیکن اگر تم اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ لینا چاہتے ہو تو تمہیں پورا اختیار ہے۔۔ میں کبھی تمہارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنوں گی۔۔۔ "
آہستگی سے کہتی وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ وہ اپنی سوچوں میں گم کھڑا رہ گیا۔۔ 
وہ اپنی زندگی کا کیا فیصلہ لیتا جب وہ خود کو ہی سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ آخر اس کا دل کیا چاہتا ہے؟ وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ وہ بریرہ کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے یا اس کہ بغیر۔۔  وہ فیصلہ ہی نہیں کر پارہا تھا کہ وہ بریرہ کو چھوڑ کر خوش رہے گا یا اس کہ ساتھ رہ کر۔۔۔ وہ کیا کوئی فیصلہ کرتا جب وہ اپنے جذبات سے خود ہی آگاہ نہیں تھا۔۔ اپنی زندگی کا کوئی بھی اہم فیصلہ لینے سے پہلے وہ اپنے آپ کو اچھے سے پرکھ لینا چاہتا تھا۔۔ اب وہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جس پر بعد میں پچھتاوا ہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوجھل دل کے ساتھ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اس کی نظر عمر پر پڑی جو اسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا جہاں وہ دونوں بیٹھا کرتے تھے۔۔
اسی لمحے عمر کی نظر اس پر پڑی۔۔۔ دونوں کی نظروں میں بہت سے سوالات تھے۔۔ مان ٹوٹنے کا درد تھا لیکن دونوں ہی نے ایک دوسرے سے نظریں پھیر لیں کیونکہ دونوں ہی کہ پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔۔ کہنے کو تو شاید بہت کچھ تھا لیکن وہ کچھ بھی کہنا نہیں چاہتے تھے۔۔ دونوں طرف اعتبار ٹوٹنے کا غم تھا۔۔۔۔
کلاس میں بیٹھتے ہوئے بھی ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے مخصوص بینچ کی طرف جہاں پر بیٹھ کر وہ شرارتیں کیا کرتے تھے لیکن دونوں ہی وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ بیٹھ گئے۔۔ ان دونوں کے درمیان کچھاؤ سب ہی محسوس کرسکتے تھے کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اتنے سالوں میں وہ دونوں ایک ساتھ نظر نہیں آرہے تھے۔۔ ہر کوئی انہیں الگ دیکھ کر حیران تھا۔۔
لیکچر ختم ہونے کے بعد عمر باہر جارہا تھا جب اس کہ سیل پر کال آنے لگی۔۔۔
"کیا ہوا ہے امی آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔؟
کیا ہوا ابو کو؟ "
وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔۔ دور کھڑا مصطفی اس کہ چہرے سے اس کی پریشانی بھانپ سکتا تھا۔۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔۔میں بس ابھی آرہا ہوں۔۔  "
جلدی سے کہتے اس نے فون بند کیا اور باہر کی طرف دوڑا۔۔ مصطفی کا دل چاہا کہ وہ بھی اس کہ ساتھ جائے اس سے اس کی پریشانی شئیر کرے مشکل وقت میں اس کہ ساتھ کھڑا ہو لیکن پھر وہی انا نے اس کہ قدم ایک بار پھر روک لیے جو پہلے بھی اسے کئی بار روک چکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس سے آنے کے بعد وہ یونہی سڑکوں پر پھرتا رہا۔۔ جب گھر داخل ہوا تو معلوم ہوا عمر کہ والد طبیعت زیادہ خراب ہونے کے باعث ہسپتال میں داخل ہیں۔۔۔ یہ سنتے ہی مصطفی فوراََ سے ہسپتال کی طرف دوڑا۔۔ عمر سے اس کہ لاکھ اختلاف سہی لیکن اس کہ والد سے اس کا دلی رشتہ تھا۔۔ وہ اسے بہت عزیز تھے۔۔۔۔
جب وہ ہسپتال داخل ہوا تو اسے عمر ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتا نظر آیا جو کبھی کوئی ٹیسٹ کروا رہا تھا کبھی کوئی دوا لینے بھاگتا تھا۔۔ اس کہ چہرے سے اس کی پریشانی صاف ظاہر ہورہی تھی۔۔
وہ اندر گیا تو سامنے بینچ پر اسے عمر کی والدہ بیٹھی نظر آئیں جو بے تحاشہ رو رہی تھی۔۔ ان کہ ساتھ ہی مصطفی کی والدہ بیٹھی انہیں تسلیاں دے رہی تھیں۔۔ انہیں روتا دیکھ کر مصطفی کے دل کو کچھ ہوا۔۔
وہ آہستگی سے چلتا ہوا ان کہ سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔
"آپ پریشان نہ ہوں آنٹی۔۔ انکل بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔۔ آپ بس ان کے لیے دعا کریں۔۔ "
وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں تسلی دینے لگا۔۔
ایسی ہی تسلی وہ عمر کو بھی دینا چاہتا تھا اس کہ گلے لگ کر اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔۔ مصطفی اس کے ساتھ ہے مگر پھر بھی وہ یہ سب نہیں کر پارہا تھا۔۔ بہت ہمت مجمع کرکہ وہ عمر کی طرف بڑھا اور ابھی اسے پکارنے ہی والا تھا جب ڈاکٹر وہاں آیا۔۔
"سوری۔۔ ہی از نو مور۔۔ "
پروفیشنل انداز میں کہتا وہ ایک دل دہلا دینے والی خبر سنا کر وہاں سے جاچکا تھا جبکہ اس کہ جانے کے بعد سب ساکن بیٹھے تھے۔۔ کسی کو بھی اس خبر پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔ اس کی والدہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھیں جبکہ عمر بے یقین سا اسی دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھتا چلا گیا جس سے وہ پہلے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔۔ کچھ دیر وہ بے یقن بیٹھا رہا۔۔۔ پھر ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا ۔۔۔ پھر بہت سے آنسو اس کا چہرہ بھگوتے رہے ۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ سے سسکنے لگا۔۔۔ اسے لگا جیسے اس کی ساری دنیا ختم ہوگئی ہو۔۔۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کہ پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔۔۔ اس کہ جینے کی وجوہات میں سے ایک وجہ آج اس کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔ اس نے نظر اٹھا کر اپنے جینے کی دوسری وجہ کو دیکھا۔۔  اپنی ماں کو جو ہچکیوں کے ساتھ رو رہیں تھیں۔۔ وہ آہستگی سے اٹھا۔۔ اپنی سسکیوں کو اپنے اندر ہی دبا لیا۔۔ ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے اور آہستہ سے اپنی ماں کی طرف بڑھا۔۔
"عمر دیکھو تمہارے ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔۔  تم ان سے کہو وہ واپس آجائیں ہمیں چھوڑ کر نا جائیں۔۔ وہ تمہاری ساری باتیں مانتے ہیں عمر دوا بھی تمہارے ہاتھ سے ہی کھاتے ہیں وہ تمہارے کہنے پر واپس ضرور آجائیں گے۔۔ تمہیں انہیں کہہ کر تو دیکھو ہم سے دور نا جائیں۔۔ "
وہ بالکل اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھیں۔۔ عمر کی شرٹ اپنی مٹھیوں میں دبوچے وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔۔
عمر نے انہیں کچھ کہنے کی بجائے انہیں اپنے گلے سے لگا لیا تو وہ خاموش ہوکر سسکنے لگیں۔۔ عمر کی آنکھیں بھی ایک بار پھر بھیگ گئیں تھیں۔۔ وہاں کھڑے ہر شخص کی آنکھیں ان ماں بیٹے کی حالت دیکھ کر اشک بار ہورہی تھیں۔۔

"ایسے کیسے چھوڑ گئے تمہارے ابو ہمیں۔۔ ابھی تو ہم نے زندگی کی خوشیاں دیکھنی تھیں۔۔ اب تو حالات بہتر ہونے جا رہے تھے جب وہ ہمیں یوں تنہا کر گئے۔۔ "
وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے درمیان بول رہی تھیں جبکہ عمر بالکل خاموش کھڑا تھا۔۔ اس کہ پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔ کوئی تسلی کوئی دلیل کچھ بھی نہیں تھا اس کہ پاس کہنے کو۔۔ اسے بس چپ سی لگ گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی وفات کو دو دن بیت بھی چکے تھے۔۔ عمر کی والدہ عدت میں بیٹھیں تھیں جبکہ عمر اب تک چپ سادھے بیٹھا تھا۔۔ کوئی اس سے تعزیت کرتا اسے تسلی دیتا وہ کچھ نہیں بول رہا تھا۔۔ نا وہ رو رہا تھا نا ماتم کر رہا تھا بس ایک چپ سادھ کر بیٹھا تھا۔۔ مصطفی اسے دیکھ دیکھ کر پریشان ہورہا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا عمر کچھ بولے کوئی بات کرے بے شک رو لے لیکن وہ بالکل خاموش تھا۔۔ مصطفی نے ایک دو بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی خاموشی دیکھ کر وہ بھی خاموش ہوگیا۔۔
آہستہ آہستہ گھر پر آئے تعزیت کرنے والے سب مہمان رخصت ہوگئے۔۔ عمر نے ن دوبارہ سے یونیورسٹی اور آفس جوائن کرلی۔۔ زندگی پھر سے معمول پر آگئی سب اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے لیکن عمر کی زندگی میں ایک خلا آ گیا تھا۔۔ وہ اب کی بار مکمل اکیلا ہوگیا تھا۔۔ اس کا باپ۔۔ اس کا سہارا ۔۔ اس کہ جینے کی وجہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے تو اس کہ پاس اب کچھ نہیں بچا تھا۔۔ وہ اپنی ماں کو دیکھتا تو دل اور دکھی ہوتا تھا۔۔ وہ بھی اسی کی طرح بالکل خاموش ہوگئیں تھیں۔۔ کبھی چھپکے سے رو لیتیں لیکن عمر کے سامنے نہیں روتی تھیں لیکن عمر ان کی آنکھوں کی سوجن اور بوڑھی آنکھوں میں موجود قرب اچھے سے محسوس کرسکتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی سونے کے لیے لیٹ ہی رہا تھا جب بریرہ کی آواز آئی۔۔
"ویسے انسان میں تھوڑی سی شرم ہونی چاہیے۔۔ عمر تمہارا اتنا قریبی دوست ہے اور اس کہ مشکل وقت میں تم بجائے اس کا ساتھ دینے کہ یوں منہ پھلا کر بیٹھے ہوئے ہو۔۔ "
مصطفی اور عمر کے درمیان کھنچاؤ سب ہی محسوس کر رکھ تھے۔۔ بریرہ بہت دنوں سے مصطفی کا عمر کی طرف رویہ نوٹ کر رہی تھی اس لیے آج مصطفی سے بات کرنے کا سوچا۔۔ بڑے عرصے بعد وہ مصطفی سے خود مخاطب ہوئی تھی۔۔
"تمہیں اصل بات کا نہیں معمول اس لیے اس معاملے سے دور رہو۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔ عمر کی باتیں یاد کر کہ غصے کی شدید لہر اس کہ اندر دوڑ گئی تھی۔۔
"ایسی کیا بات ہوگئی ہے جو تم اس موقع پر بھی ایسا رویہ رکھے ہوئے ہو؟ "
بریرہ کے پوچھنے پر مصطفی نے ایک لمحے کو بریرہ کی طرف دیکھا۔۔ وہ واقعی یہ بات کسی سے شئیر کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ خود کو نہیں پرکھ پا رہا تھا کہ وہ سہی ہے یا غلط۔۔ اسے کوئی چاہیے تھا جو اسے بتاتا کہ وہ کہاں سہی ہے اور کہاں غلط۔۔۔
"میری اس سے کچھ لڑائی ہوگئی تھی۔۔ "
مصطفی نے بات شروع کی۔۔
"وجہ؟ "
"وہ زینب کو پسند کرتا ہے۔۔۔ جس دن میری تم سے لڑائی ہوئی تھی میں عمر کہ گھر چلا گیا تھا اور وہاں سب سنا میں نے۔۔ وہ آنٹی سے زینب کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔ "
مصطفی اسے ساری بات بتاتا گیا۔۔
"تو اس میں کیا غلط ہے مصطفی؟ عمر اچھا لڑکا ہے ۔۔ اس میں لڑنے والی کیا بات ہے۔۔ "
بریرہ ساری بات سننے کے بعد بولی
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ تمہیں یہ سب سہی لگ رہا ہے؟ میرا دوست ہوتے ہوئے وہ میری بہن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ "
بریرہ کی بات پر مصطفی غصے سے بولا
"دماغ میرا نہیں تمہارا خراب ہے۔۔ اس میں نظر رکھنے والی بات کہاں سے آگئی؟ عمر سے زیادہ تم اس کو جانتے ہو مصطفی اور ہم سب اس بات کہ گواہ ہیں کہ اس نے آج تک نظر اٹھا کر زینب کی طرف نہیں دیکھا۔۔ تمہارا دماغ اتنا خراب کیوں ہے ہر چیز کو نیگیٹو کیوں لے جاتے ہو؟ "
وہ اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بولی
"لیکن مجھے اچھا نہیں لگا کہ وہ یوں میری بہن کا ذکر کر رہا تھا۔۔ "
"تو وہ کون سا غیر مناسب الفاظ میں اس کا ذکر کع رہا تھا یا باہر کسی محفل میں اس کی بات کر رہا تھا۔۔ گھر کی چار دیواری میں اپنی ماں سے ہی تو کہہ رہا تھا۔۔۔ "
بریرہ کے بولنے پر عمر کے الفاظ یاد کرتے ہوئے وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
"ابھی بھی موقع ہے تمہارے پاس مصطفی۔۔ عمر سے بات کرو اور آپس کے سارے معاملات درست کرو۔۔اسے تمہاری ضرورت ہے۔۔ "
اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولی
"نہیں ہو سکتے معاملات درست۔۔ مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔۔ "
وہ نظریں چراتے ہوئے بولا
"اب کیا کر دیا تم نے؟
"میں نے غصے میں عمر کو تھپڑ مار دیا تھا۔۔ "
وہ آہستگی سے بولا
"واٹ؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ غصے میں تم اتنے پاگل ہو گئے تھے۔۔ "
وہ غصے سے بولی
"تو کیا کروں اب۔۔آ گیا تھا غصہ نہیں ہوا برداشت مجھ سے اٹھ گیا ہاتھ۔۔ "
وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا
"واہ ۔۔۔ تمہارے لیے یہ معمولی سی بات ہے۔۔ بہت اچھے۔۔ تمہیں پتا ہے مصطفی تمہارے آدھے معاملات تمہارے اس غصے کی وجہ سے خراب ہیں۔۔ "
وہ اسے شرمندہ کرتے ہوئے بولی اور مڑ کر جانے لگی۔۔
"میں جانتا ہوں اور اسی لیے تو اب اپنے سارے معاملات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ "
مصطفی اسے روکتے ہوئے بولا تو وہ خاموشی سے رک گئی۔۔
"دیکھو بریرہ تم ایک بار ہمارے بارے میں بھی تسلی سے میری کوئی بات سن لو۔۔ "
وہ منت کرتے ہوئے بولا
"ہمارے تعلق میں اب میں کہنے سننے کو کچھ نہیں بچا۔۔ اب بس گزارا ہی ہے جو ہم کر رہے ہیں۔۔ "
سنجیدگی سے کہتی وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Đọc tiếp

Bạn Cũng Sẽ Thích

5.5K 472 25
شرارتوں اور الجھنوں بھری اک کہانی❤۔۔۔دوستی کے سنگ جینے کی، ماضی کے دریچوں میں جکڑے لوگوں کی، کسی کی محرومیوں کی، کسی کے شرارتوں کی، اور کسی کی محبت ک...
68.5K 4.9K 20
𝐏𝐚𝐚𝐤 - پاک /pure/ 𝙎𝙖𝙧𝙩𝙖𝙖𝙟 𝙎𝙖𝙡𝙖𝙪𝙙𝙙𝙞𝙣 𝘼𝙡𝙖𝙢 : 𝘛𝘩𝘦 𝘧𝘶𝘵𝘶𝘳𝘦 𝘩𝘦𝘪𝘳 𝘰𝘧 𝘈𝘭𝘢𝘮 𝘬𝘰𝘩𝘴𝘢𝘢𝘳, 𝘈 𝘳𝘶𝘵𝘩𝘭𝘦𝘴𝘴 𝘭...
27.4K 1.5K 10
"مشغلۂ عشق" اصل میں "داستانِ عشق" ہے۔ اور پھر، جب بات آئے عشق کی تو عشق میں کوئی منطق نہیں ڈھونڈی جاتی بلکہ اُس کے سحر میں کھویا جاتا ہے۔ یہ بھی ساری...
127K 4.7K 16
A story written by heart❤