جگ ہاری

Autorstwa nimraisrar

99.5K 4.9K 1.2K

کہانی ایک گمنام لڑکی کی۔۔۔۔۔جسے دنیا کی بھیڑ میں لاوارث چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔محبّتوں اور رشتوں سے محروم۔۔۔۔دنیا حو... Więcej

چند جھلکیں
دوستی ایک نعمت
نیا سفر
نیا سفر پارٹ 2
تکرار
نئی چاہتیں نئی نفراتیں
مقابل
دل پے وار
وہ ہوا سنگدل
جُدا ہوئے راستے
جُدا ہوئے راستے 2
محبّت کےمختلف رنگ
اظہارِ محبّت
وہ ملے
ڈھائی سال بعد
جو سوچا نا تھا
مجھے کیا ہوا
سکوں دل
عہد
اپنا بنایا ہے
ایک نیا امتحان
الجھانیں میری
مجھے کیا ہوا (زینب 1 )
مجھے کیا ہوا 2(زینب)
جگ ہاری
جگ ہاری (آخری قسط)
ختم شد

ملاقات

2.7K 121 13
Autorstwa nimraisrar


حیدر عباس پاکستان کے سب سے بڑے بزنس مین عباس عالَم کا بیٹا تھا اور حیدر عباس کی والدہ سوشل ورک کرتیں تھیں۔ عباس عالَم کے دو بیٹے(سعید عباس اور حیدر عباس)تھے اور ایک بیٹی(صفا عباس) تھی جو ان کے گھر کی رونق تھی۔ عباس عالَم کا بڑا بیٹا سعید عباس تھا اس کے بعد صفا عباس تھی اور حیدر عباس ان سب سے چھوٹا تھا۔

سعید عباس کی شادی ان کی پھپو(زہرہ وقار) کی بیٹی ثانیا وقار سے ہوئی تھی جو کہ احمر وقار(جو حیدر عباس کا بہترین دوست بھی تھا) کی بہن بھی تھی اور سعید عباس،عباس عالَم کا بزنس سنبھالتے تھے۔

صفا عباس کی منگنی کچھ ہی مہینوں پہلے اس کی پھپو(آلیہ مرتضیٰ) کے بیٹے ہاشم مرتضیٰ سے ہوئی تھی اور شادی صفا عباس کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد طے پائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت گزرتا جا رہا تھا اور اب زینب اور رانیہ کو یونیورسٹی میں دو سیمسٹز ہو گئے تھے اور ان دونوں ہی سیمسٹز میں ان دونوں نے بہترین نتائج حاصل کئے تھے اور زینب کی ذہانت کی خبر جنگل میں آگ لگنے کے مانند پوری یونیورسٹی میں پھیل چکی تھی۔

اس یونیورسٹی میں ہر سیمسٹر ایک کمپنی کے ممبرز وِزیٹ کرنے آتے تھے اور یونیورسٹی کے بیسٹ سٹوڈنٹس ان کے ساتھ اپنے مختلف آئیڈیاز شیئر کرتے تھے اور جو آئیڈیاز انھیں پسند آتے تھے وہ ان کے لیے طالبعلموں کو معاوضہ دیتے تھے اور انھیں اپنی کمپنی کے لیے استعمال کرتے تھے اور بعض دفع وہ کمپنیز ان طالبعلموں کو جاب کی آفر بھی کرتے تھے اور پچھلے دو سیمسٹز سے صرف ایک شخص کے آ ئیڈیاز نا تو صرف فروخت ہو رہے تھے بلکہ اس شخص کو کمپنی سے آفر بھی آئی تھی جسے اس نے بڑی خوش دلی سے قبول کر لیا تھا اور وہ کوئی اور نہیں تھی وہ۔۔۔۔۔ زینب والیواللہ تھی جو اپنا آپ بنانا جانتی تھی۔

اس سب کے دوران اگر کسی شخص کو فرق پڑ رہا تھا تو وہ تھا حیدر عباس ایسا نہیں تھا کہ وہ اب یونیورسٹی کا "bright" سٹوڈنٹ نہیں تھا لیکن یونیورسٹی میں اب کے "brightest" سٹوڈنٹ کا اضافہ ہو گیا تھا اور یہ اضافہ حیدر عباس کو بے حد کھل رہا تھا۔ وہ تمام استاذہ جن کی زبان پر ہر وقت صرف حیدر عباس کا نام ہوتا تھا اب کسی اور کا بھی رہنے لگا تھا اور جب سے وہ آئی تھی اس کا کوئی ایک آیڈیا بھی کسی کمپنی کو متاثر نہیں کر سکا تھا۔ حیدر عباس کی حالت اس وقت اس بادشاہ کی طرح تھی جس نے سالوں راج کیا ہو اور ایک ہی پل میں اس کا تختہ پلٹ دیا گیا ہو۔

وہ اس وقت حسد ،جلن اور غصّے کے ملے جلے تاثرات میں تھا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا اسے اس کی ذہانت میں بھی کوئی مات دے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور اسے مات ہوئی بھی تھی تو ایک لڑکی سے۔۔۔۔۔اس نے کبھی کسی لڑکی کے طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا لیکن یہ لڑکی اس کے حواسوں پر سوار ہو رہی تھی اور اس کی وجہ محبّت ہر گز نہیں تھی وہ اس سے بے حد نفرت کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل سر نے سب سٹوڈنٹس کو کارپوریٹ سوشل ریسپونسبلٹی کی ایکٹیویٹی کرنے کا ٹاسک دیا اور یہ سب اب یہاں بیٹھے اس مرحلے کو حل کرنے کے لیے جگہ منتخب کر رہے تھے۔

"یار ہم لوگ جائیں گے کہاں؟" حاشر نے پوچھا۔

"کسی بھی ادارے میں چلے جائیں گے" علی نے کہا۔

" مثلاً۔۔۔آپ بتانا پسند کریں گے؟" حاشر نے علی سے طنز کر کے پوچھا۔

"حیدر ہمیں کسی یتیم خانے جانا چاہیے کیوں کہ ابھی تک کسی گروپ نے بھی وہاں کا رخ نہیں کیا" احمر نے حیدر سے کہا جو بےدھیانی سے علی اور حاشر کی باتیں سن رہا تھا۔

"یتیم خانے؟" حیدر نے عجیب سے تاثرات کے ساتھ کہا۔

"کیوں تمھیں کوئی مسُلہ ہے؟" احمر نے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔۔۔میں سوچ رہا تھا ہمیں کسی این۔جی۔او جانا چاہیے" حیدر نے اپنا انتخاب ان سب کے سامنے رکھا۔

"میں نے یہ جگہ اس لیے تجویز کی کیوں کہ یہ مختلف آیڈیا ہے اور بہت سے گروپس پہلے ہی این۔جی۔اوز کا انتخاب کر چکے ہیں۔۔۔۔" احمر نے وجہ بیان کی۔

"احمر ٹھیک کہہ رہا ہے حیدر ہمیں کچھ نیا کرنا چاہیے" علی نے احمر کی بات سے متفق ہوتے ہوئے کہا۔

"وہاں بہت سے ضرورت مند بچے ہوں گے جن کی حقیقتاً مدد ہو جائے گی" حاشر نے کہا۔

"اور ویسے بھی حیدر وہ سب ہماری مدد کے سب سے زیادہ مستحق ہیں" احمر نے ایک بار پھر کہا۔

"ٹھیک ہے ہم چلیں گے" حیدر نے بھی اپنی حامی بھر لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وو چاروں اس وقت"اینجلز اورفینج "کے اندر موجود تھے اور بھرپور جائزہ لے رہے تھے۔ اس یتیم خانے میں بچوں کو صرف تعلیم اور کھانا پینا ہی میسر نہیں تھا یہاں ان کو سلائ، کڑھائی ،پینٹنگ ،کمپیوٹر کلاسز اور بہت سی سہولیات بھی فراہم کی جا رہیں تھیں۔

وہ چاروں اس یتیم خانے کے نظام سے کافی متاثر ہوئے تھا۔

حیدر عباس ایک لمبی راہداری سے گزر رہا تھا جب اس کی نظر ایک کمرے میں پڑی وہاں ایک پانچ سالہ بچی بڑی مہارت سے کینوس پر رنگ بکھیر رہی تھی اگر حیدر عباس خود اس بچی کو پینٹ کرتے نہ دیکھتا تو وہ کبھی یقین نہ کرتا کہ یہ پینٹنگ ایک چھوٹی سی بچی کے ہاتھ سے بنی ہے اس پینٹنگ میں سورج کی کرنیں چاروں اُور پھیلی ہوئیں تھیں اور ایک لڑکی گھٹنوں کے بل بیٹھے سورج کو بغور دیکھ رہی تھی۔ حیدر عباس کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس لڑکی کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ طلوع آفتاب کی ہر کرن اپنے ساتھ امید کی ایک نئی کرن لے کے آتی ہے۔

"اسلام و علیکم" حیدر نے دعا کو مخاطب کیا۔

"وعلیکم السلام" دعا نے پیچھے مڑ کے دیکھا اور ستائشگی سے جواب دیا۔

دعا کو اپنی والدہ سے معلوم ہوا تھا کہ آج کچھ لوگ یتیم خانے میں بچوں کی مدد کرنے آنے والے تھے۔

"دِس پینٹنگ اس پرائس لیس۔۔۔۔۔اٹس بیوٹیفل"

حیدر نے کھولے دل سے تعریف کی۔

"تھنک یو سو مچ"

دعا نے حیدر کی تعریف پر پرخوش ہو کر کہا۔

"کیا میں یہ لے سکتا ہوں؟" حیدر نے پینٹنگ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

"نہیں" دعا نے معصومیت سے کہا۔

"کیوں" حیدر نے ایک بار پھر پوچھا۔

"یہ میں نے زینی اپپی کے لیے بنائی ہے۔۔۔۔میں آپ کو اور بنا دوں گی" دعا نے بتایا اور ساتھ میں اپنی خدمات بھی فراہم کیں۔

"ٹھیک ہے" حیدر نے جواب دیا اور پھر اچانک حیدر کی نظر کمرے میں دیوار پر بنے ایک شیلف پر پڑی جہاں مختلف میڈلس ،سرٹیفکیٹس اور ٹرافیز رکھیں تھیں جو حاصل کرنے والے کی قبلیت بتا رہیں تھیں اور ایک فریم میں ایک حجابی لڑکی ایک بزرگ شخص کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہی تھی۔

"یہ کون ہیں؟" حیدر نے دعا سے پوچھا۔

"یہی تو میری زینی اپپی ہیں" دعا نے خوش دلی سے مسکرا کے بتایا۔

"کتنی بار تمہیں کہا ہے یہ تمہاری زینی اپپی نہیں ہیں۔۔۔۔سمجھ نہیں آتی تمہیں۔۔۔اب جاؤ یہاں سے" آسیہ بیگم نے قدرے غصّے سے کہا وہ دعا کی تمام گفتگو سن چکیں تھیں۔

"یہ کون ہیں" حیدر نے اب کی بار آسیہ بیگم سے پوچھا۔

"مجھے کیا معلوم بیٹا۔۔۔۔نجانے والیواللہ صاحب کو کیا سوجھی تھی کے اس گندگی کے ڈھیر کو یہاں اٹھا لائے۔۔۔۔اتنے سالوں سے پتا نہیں کس کا گناہ سینے سے لگاۓ بیٹھے ہیں۔ ہم سب نے تو" آسیہ بیگم ابھی بتا ہی رہیں تھیں کہ والیواللہ صاحب کی گرج دار آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"آسیہ بیگم میں آپ کو ہر گز اجازت نہیں دوں گا کہ آپ میری بیٹی کے متعلق اس طرح کے الفاظ استمعال کریں۔۔۔آپ کو مجھ سے یا بیٹی سے کوئی بھی مسلہ ہے تو آپ باخوشی یہ نوکری چھوڑ سکتی ہیں"

"آپ کے دوست آپ کا انتظار کر رہے ہیں باہر" والیواللہ نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے اس بار حیدر سے کہا۔

وہ حیدر کو ہی ڈھونڈ رہے تھے جب دعا نے انھیں حیدر کے ان کے کمرے میں ہونے کا بتایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"السلام عليكم بابا" زینب اس وقت آفس میں تھی جب اس نے والیواللہ کو کال کی۔

"وعلیکم السلام بیٹا" دوسری طرف سے بڑی ہی شاہستگی سے جواب دیا گیا۔

"بابا کیسے ہیں آپ؟" زینب نے پوچھا۔

"میں ٹھیک ہوں زینی لیکن تم اب تک نہیں آئیں۔۔۔۔سب ٹھیک تو ہے؟" والیواللہ نے اپنی خیریت سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی فکرمندی سے سوال کیا۔

"جی بابا سب ٹھیک ہے میں نے آپ کو یہی بتانے کے لیے کال کی ہے آج آفس میں کام کچھ زیادہ ہے اس لیے میں آ نہیں پاؤں گیں۔۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں اس لیے میں نے آپ کو بتانا بہتر سمجھا" زینب نے تفصیلی جواب دیا۔

"اچھا کیا جو بتا دیا میں پریشان ہو گیا تھا" والیواللہ نے کہا۔

زینب نے کچھ یاد آنے پر لیپ ٹاپ پے تیزی سے چلتا اپنا ہاتھ روکا اور پوچھا۔

"آج کچھ لوگ آنے والے تھے نہ بابا کسی یونیورسٹی سے۔۔۔۔سب کچھ کیسا رہا"

"اور نام کیا بتایا تھا آپ نے یونیورسٹی کا؟" زینب نے اپنے دماغ پر زور دے کر وہ نام یاد کرنے کی کوشش کی جو والیواللہ نے اسے بتایا ہی نہیں تھا۔

"سب ٹھیک رہا۔۔۔۔تم آؤ گی کل تو بات کریں گے" والیواللہ صاحب کے ذہن میں آج کا سارا واقعیہ گھوم گیا لیکن کہا صرف اتنا ہی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔اللہ حافظ" زینب نے فرمابرداری سے کہا۔

"اللہ حافظ۔۔۔خوش رہو" والیواللہ نے دعا دے کر فون بند کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر واپسی میں بلکل خاموش تھا اس کے دماغ میں اب تک آسیہ بیگم کی باتیں گردش کر رہیں تھیں جن پر یقین کرنا حیدر کے لیے مشکل تھا مگر پھر والیواللہ کا زینب کے حق میں بولنا اسے یقین کرنے پر اُکسا رہا تھا۔

اس یتیم خانے میں آنے سے پہلے وہ یہاں کی تمام تر معلومات اکھٹا کر چکے تھے اور وہ جانتا تھا کہ آسیہ بیگم کافی بڑے عرصے سے اس یتیم خانے میں کام کر رہیں تھیں اور اگر وہ کچھ کہہ رہیں تھیں تو بغیر کسی بات کے تو نہیں کہا ہو گا ضرور کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے یا پھر یہی سچ ہے جو وہ بتا رہیں تھیں اور زینب والیواللہ وہ کیوں اتنی چُپ چُپ رہتی ہے کیا اس سب کی وجہ یہی ہے اور حیدر عبّاس تم۔۔۔۔تم کون ہو تمھیں ایک ایسی لڑکی تمہارے ہی میدان میں تمہیں پیچھے چھوڑ رہی ہے جس کا نہ کل صاف ہے اور نہ ہی آج کوئی نہیں جانتا وہ کون ہے کہاں سے آئی ہے اور حیدر عبّاس اس لڑکی سے باآسانی ہار رہا ہے۔۔۔نہیں اب ایسا نہیں ہو گا کم از کم حیدر کسی ایسی لڑکی سے ہر گز نہیں ہارے گا۔

پہلے حیدر عبّاس کو زینب والیواللہ میں تجسّس ہوا اور پھر اس کی جگہ ایک بار پھر حسد، جلن اور نفرت نے لے لی۔ حیدر سے یہ بات برداشت نہیں ہو رہی تھی کہ زینب والیواللہ جس کے بارے میں معاشرہ نہ قبلِ تسلیم باتیں کر رہا تھا وہ لڑکی حیدر عبّاس کا مقابلہ کر رہی تھی جس کے خاندان کا شمار پاکستان کے عزت دار خاندانوں میں ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ لو" علی نے تینوں کی طرف کین بڑھائے۔

یہ چاروں اس وقت فٹ بال اسٹیڈیم کی بنچیس پر بیٹھے تھے۔

"تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ" حاشر نے علی کی "شا خرچی"پر چوٹ کر کے کہا۔

"ہاں ٹھیک ہے" علی حاشر کا طنز اچھے سے سمجھ گیا تھا۔

"تو پھر اتنی مہربانیاں کیوں ہو رہی ہیں" حاشر نے کہا۔

"کنجوسِ زمانہ لوگ شاخرچی کر رہے ہیں" احمر نے حیدر کی طرف دیکھ کے کہا جس پے حیدر مسکرا دیا۔

"میں نے سوچا آخری سال ہے کیوں نہ جاتے جاتے تم غریبوں کی جھولیاں ہی بھر دی جائیں" علی کہاں سدھرنے والا تھا شاہانہ انداز سے کہا۔

"آپ کے اس ایک جوس کے کین سے ہماری جھولیاں واقعی بھر گئیں ہیں"حاشر نے فرضی دامن پھیلا کے طنز کیا۔

"حیدر عباس آپ کو سر رضا اپنے آفس میں بولا رہے ہیں" آفس کے ملازم نے حیدر کو بتایا۔

"آپ چلے میں آ رہا ہوں" حیدر نے جواب دیا۔

حیدر کافی خوش لگ رہا تھا اور اس کی وجہ سر رضا کا بولاوا تھا وہ جب بھی بلاتے تھے کسی بڑے پروجیکٹ کے سلسلے میں ہی بلاتے تھے اور حیدر یہ سوچ رہا تھا کہ آخرکار اس کو ایک بار پھر سے پروجیکٹ ملنا شروع ہو گئے ہیں اور اب وہ یونیورسٹی میں بنائی اپنی جگہ پر واپس پہنچ سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رانیہ اور نور ابھی آئ۔ٹی لیب سے پاور پوائنٹ بنا کر باہر نکلی تھیں نور بھی انہی کی کلاس میں تھی اور زینب اور رانیہ دونوں کی ہی اچھی دوست بن گئی تھی۔ گول چہرہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں لمبی ناک گوری رنگت اور ہنستے ہوئے گالوں پے پڑتے گڑہے اس کو مزید خوبصورت بناتے تھے۔

ان دونوں کا ارادہ کینٹین جانے کا تھا پر جیسے ہی رانیہ کی نظر سر عمیر پر پڑی تو وہ جھٹ سے پِلر کے پیچھے چھپ گئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سر عمیر سے جب بھی ٹکراؤ ہوتا وہ کوئی نہ کوئی کام سٹوڈنٹس کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔

"مس نور" سر نے نور کو دیکھا تو اسے اپنی طرف مخاطب کیا۔

"یس سر" نور نے احترام سے جواب دیا۔

"آپ اکیلی ہیں۔۔۔۔مس رانیہ اور مس زینب آئیں نہیں آج" سر عمیر نے نور کو اکیلا دیکھ پوچھ لیا۔

سر کے لفظ "اکیلی" کہنے پر نور نے گردن گھوما کے دیکھا اور سمجھ گئی کے رانیہ منظر سے غائب کیوں ہو گئی تھی۔

"سر رانیہ تو یہیں کہیں ہوں گی اور زینب بھی آئیں ہیں" نور نے "یہیں کہیں" پر زور دے کے کہا۔

پِلر کے پیچھے چھپی رانیہ نے اپنے ہونٹھ کانٹنے شروع کر دیے تھے۔

"اچھا۔۔۔۔اگر آپ کو زحمت نہیں ہو تو آپ میرا ایک کام کر دیں گیں؟" سر عمیر اپنی پے آ چکے تھے۔

سر عمیر کا سوال سن کر رانیہ نے اپنا ہاتھ منہ پر رکھ کر اپنی اُمڈنے والی ہنسی کو روکا۔

"جی سر کہیے" نور نے تعبیداری سے کہا۔

"یہ پارسل سر احمد کو دے آئیں" سر عمیر نے پارسل نور کی طرف بڑھا کے کہا۔

"اوکے سر" نور نے پارسل تھام کے کہا۔

نور نے پیچھے موڑ کے دیکھا تو رانیہ وہاں سے پہلے ہی بھاگ چکی تھی اب یہ کام اس نے ہی کرنا تھا۔وہ ایک گہری سانس لے کے آگے بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زینی چلو نہ" رانیہ نے کہا۔

رانیہ پچھلے آدھے گھنٹے سے زینب کے سر پر سوار تھی اور کینٹین چلنے کے لیے منّتیں کر رہی تھی اور زینب بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی اور سر جھکائے اپنی کتاب کا مطالع کر رہی تھی۔

"نور کہاں ہے؟" زینب نے موضوع بدلنے کے لیے نور کا ذکر کیا۔

"وہ سر عمیر کے کام سے گئی ہے۔۔۔۔۔چلو نہ زینی پلیز مجھے بھوک لگ رہی ہے" رانیہ کہاں موضوع بدلنے والی تھی۔

"رانی تمہیں کب بھوک نہیں لگتی" زینب نے طنز کیا تھا۔

"زینی میں اتنی ہی بھوکی ہوں تم میرے ساتھ چلو ورنہ میں نے اب تمہیں کھا جانا ہے" رانیہ نے غصّے سے کہا۔

"اس میں کوئی شک بھی نہیں یقیناً تم کھا جاؤ گی اتنی دیر سے میرا دماغ تو کھا ہی رہی ہو" زینب  نے اپنی کتاب بند کر کے بڑے تحمل سے کہا۔

زینب کی بات پر رانیہ کا تو منہ کھلا رہ گیا۔

"مس زینب والیواللہ آپ کو سر رضا اپنے آفس میں بلا رہے ہیں" ایک لڑکا اپنے مخصوص یونیفارم میں موجود زینب سے مخاطب تھا اور سر رضا کا پیغام دے رہا تھا۔

"ٹھیک ہے آپ جائیں میں آ رہی ہوں" زینب نے جواب دیا۔

رانیہ جو یہ سب دیکھ رہی تھی زینب سے پوچھ بیٹھی۔

"سر رضا تمہیں کیوں بلا رہے ہیں؟"

"اب یہ تو جا کے ہی پتا چلے گا" زینب نے اطمینان سے کہا۔

"اور میری بھوک" رانیہ نے رونی صورت بنا کے کہا۔

"جہاں اتنی دیر ماری ہے تھوڑی دیر اور مار لو" زینب نے مسکرا کے کہا۔

"کتنا ٹائم لگ جائے گا؟" رانیہ نے زینب کی مسکراہٹ پر گھورا اور پھر پوچھا۔

"پتا نہیں" زینب نے کندھے اچکا دیے۔

"پھر میں لائبریری جا رہی ہوں تم وہیں آ جانا" رانیہ نے بیگ کندھے پے ڈالتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے" زینب نے سر اثبات میں ہلا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لائبریری کا یہ کونہ کافی سنسان تھا۔ لائبریری کے کونے میں وہ بیٹھی تھی میز پے چند کتابیں موجود تھیں اور وہ ان میں نجانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔

یک دم اس نے کتابیں بن کیں اور کرسی سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی اور اپنی عادت کے مطابق خود کلامی شروع کردی تھی۔

"یہ کتابیں کس نے بنائیں ہیں۔۔۔۔۔اور چلو بنانے والے نے بنائی تو بنائی یہ مس ثناء نے ہمیں کیوں اسائنمنٹ بنانے کے لیے دے دیا۔۔۔۔۔اور یہ سٹوڈنٹس سے اسائنمنٹ بنوانے کی خرافات کس کے دماغ کی ایجاد ہے اللہ‎ پوچھے گا ان سب کو ہم معصوم بچوں پر ظلم کر رہے ہیں" رانیہ کا بھوک کی وجہ سے دماغ کام کرنا تو بن ہو گیا تھا لیکن زبان کے بریک فیل ہو گئے تھے۔ تبھی ایک آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"میں نے تو سنا تھا آپ پڑھائی میں بہت اچھی ہیں۔۔۔ لیکن اب لگتا ہے غلط سنا تھا آپ تو کافی بیزار لگتیں ہیں پڑھائی سے" احمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ لائبریری میں اپنی مطلوبہ کتاب کی تلاش میں تھا جب رانیہ کی آواز اسے سنائی دی وہ اسے پہچان گیا تھا اور اب اپنا حساب برابر کر رہا تھا۔

اس شخص کو دیکھ کر رانیہ کا دل زور سے دھڑکا اور وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔ احمر کی بات کا جواب دیے بغیر اس نے اپنا بیگ اور کتاب اٹھائی اور وہاں سے اندھا دھن باہر نکلی جب اس کا تصادم کسی وجود کے ساتھ ہوا اور ان دونوں کی ہی تمام کتابیں زمین بوز ہو گیئں۔

"کیا ہوا رانی کیا بھوت دیکھ لیا ہے" نور نے غصّے سے کہا اور کتابیں سمیٹ کے کھڑی ہوئی۔

"بھوت نہیں جن دیکھا ہے میں نے جن۔۔۔" رانیہ نے اپنی آنکھیں بڑی کر کے کہا۔

"کیا" نور نے بے یقینی سے پوچھا۔

"بس تم دعا کرو اللہ‎ مجھے اس جن کے سائے سے بھی دور رکھے" رانیہ نے کہا تبھی اسے وہی آواز سنائی دی۔

"آمین" احمر نے مسکراتے ہوئے کہا اور رانیہ کا لائبریری کارڈ اس کے آگے بڑھایا جو وہ جلدی جلدی میں وہیں چھوڑ آئ تھی اور وہاں سے چلا گیا۔

رانیہ کی زبان کو ایک بار پھر بریک لگ گئے تھے اس کے دل میں احمر کو لے کے انجانا سا خوف تھا کہ کہیں وہ پہلی ملاقات کی وجہ سے کوئی انتیقامی کروائی نہ کرے۔ نور کو رانیہ احمر سے پہلی ملاقات کے بارے میں بتا چکی تھی لیکن اس شخص کو نور نے دیکھا نہیں تھا اس لیے پوچھا۔

"یہ کون تھا"

"یہ وہی پرینک والا تھا" رانیہ نے کھوۓ ہوئے انداز میں بتایا۔

"اچھا چلو تم نے کینٹین چلنا تھا نہ" نور نے رانیہ کی توجہ اپنی طرف ملبوز کروائی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی۔

"ہاں چلو" رانیہ فوراً راضی ہو گئی۔

(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

HOPE you like keep reading because in next episode zainab's life goes in a new track.

Czytaj Dalej

To Też Polubisz

2 0 2
A Pakistani novel where you will see love between two cousins. The love between both of them was unimaginable. 💖
292 68 24
letters to Allah, for Allah, about Allah. all the pieces of writings are non fiction and my own. no copyright infringemented.
6 1 1
real life story , love story
0 0 1
پاگل خانے کی یادداشت