میرا عشق تم ہو (مکمل)

By Naaz322

126K 5.4K 3.1K

یہ کہانی ہے محبت اور عشق کی.. باقی کہانی جاننے کے لیے کہانی پڑھیں... ❤️ میرا عشق تم ہو ❤️ یہ میری پہلی کہانی... More

پہلی قسط ١
دوسری قسط ٢
تیسری قسط ٣
قسط نمبر چار
پانچویں قسط
چھٹی قسط
قسط نمبر سات
قسط نمبر آٹھ ٨
نویں قسط ٩
دسویں قسط ١٠
گیارہویں قسط ١١
بارہویں قسط
تیرہویں قسط
چودھویں قسط
قسط نمبر پندرہ
سولہویں قسط
قسط نمبر سترہ
قسط نمبر اٹھارہ
انیسویں قسط
بیسویں قسط
اکیسویں قسط
بائیسویں قسط
تئیسویں قسط ( حصہ اوّل)
تئیسویں قسط (حصہ دوم)
چوبیسویں قسط
پچیسویں قسط
قسط نمبر چھبیس
قسط نمبر ستائیس
قسط نمبر اٹھائیس
قسط نمبر انتیس
قسط نمبر تیس
قسط نمبر اکتیس
قسط نمبر بتیس
قسط نمبر تینتیس
قسط نمبر چونتیس
قسط نمبر پینتیس
قسط نمبر چھتیس
قسط نمبر سینتیس
قسط نمبر اڑتیس
قسط نمبر انتالیس
قسط نمبر چالیس
قسط نمبر اکتالیس
قسط نمبر بیالیس
قسط نمبر تینتالیس
قسط نمبر چوالیس
قسط نمبر پینتالیس
قسط نمبر چھیالیس
قسط نمبر سینتالیس
آخری قسط
Mera Ishq Tum Ho

قسط نمبر اڑتالیس

1.5K 97 39
By Naaz322


اسے میں کیوں بتاؤں
میں نے اس کو کتنا چاہا ہے
بتایا جھوٹ جاتا ہے
کہ سچی بات کی خوشبو
تو خود محسوس ہوتی ہے
میری باتیں، میری سوچیں
اسے خود جان جانے دو
ابھی کچھ دن مجھے
میری محبت آزمانے دو

_____________________________________________

وہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا وہ وہیں کرسی پر بیٹھ کر اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی تھی... اسے لگا تھا کہ وہ سو رہا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اسے نظر انداز کیے لیٹا تھا... اصل میں وہ جاگ رہا تھا... وہ تو اس کی آہٹ محسوس کر کے ہی آنکھیں بند کر گیا تھا... وہ اس سے ناراض تھا-

***
سمرہ دانین سے بات کرنے کے بعد باہر جا رہی تھی... آنکھوں میں نمی تھی... یہ سب اس کے لیے بھی آسان نہیں تھا مگر وہ خوش تھی کہ وہ اس کی خوشی اسے لوٹا کر آئی ہے...اور محبت میں تو محبوب کی خوشی اہم ہوتی ہے... چلتے چلتے وہ دانش سے ٹکرائی تھی کیونکہ آنکھوں میں نمی کی وجہ سے اسے سامنے دکھائی نہیں دیا تھا -

کیا ہوا سمرہ... دانش نے پریشانی سے پوچھا اور وہ جس کے آنسو باہر نکلنے کو بے تاب تھے اس کے پوچھنے پر وہ اس کے بازو سے ٹک کر رونے لگی تھی -

کیا تم اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہو... دانش نے اس کو بولنے کے لیے اکسایا تھا -

نہیں.... مگر میں سہہ نہیں پا رہی بہت تکلیف ہو رہی ہے... کیا وہ میرا نہیں ہو سکتا تھا...؟ کیا اس کے دل میں میرے لیے محبت نہیں پنپ سکتی تھی... کیا وہ میری قسمت میں نہیں ہو سکتا تھا...؟ وہ روتے ہوئے بولی تھی-

کس کا نصیب کس کے ساتھ جڑا ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے کیونکہ ہماری تقدیر کا مالک وہ ہی ہے...اور ہماری قسمت اسی سے جڑتی ہے جسے اس رب نے ہماری تقدیر میں لکھا ہوتا ہے... ہمارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا... ہوتا وہ ہی ہے جو وہ چاہتا ہے... دانش نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا -

امید ہے تمہیں تمہارے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں گے...اب تم یہ سب سوچنا چھوڑ دو... میری بہن بہت سمجھدار ہے... میں جانتا ہوں کہ تھوڑا مشکل ہے مگر صبر کرو وہ رب تمہیں اس سے بہترین شخص کا ساتھ تمہارے نصیب میں لکھے گا... دانش نے پیار سے کہا تھا تو اس نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا تھا اور اس کی آخری بات پر مسکرا دی تھی-

اچھا میں ہادی سے مل کر آتا ہوں پھر ہم ساتھ چلیں گے اور آج میں تمہیں تمہارے فیورٹ ریسٹورنٹ لے کر چلوں گا... وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا -

اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچے گی...کیونکہ زندگی میں ہر خواہش پوری ہو یہ ضروری تو نہیں اور جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا ہو یہ بھی ضروری نہیں-

***

کافی دیر تک وہ اس کے اٹھنے کا انتظار کرتی رہی تھی... وہ اسے اٹھانا چاہتی تھی مگر اسے تکلیف نہ ہو اور اس کے آرام کا سوچ کر وہ یوں ہی اس کی دوائیاں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی تھی... ہادی نے آنکھ کھول کر اسے دیکھا تھا اسی لمحے دانش اندر آیا تھا... دانین فوراً اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی اور اس نے اپنی نظروں کا زاویہ سرعت سے بدلہ تھا-

اب کیسی طبیعت ہے تمہاری...؟ دانش نے اس کے پاس آ کر پوچھا-

ٹھیک ہوں... اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے وہ کراہ کے رہ گیا تھا-

تم رکو یار میں مدد کرتا ہوں... دانش نے آگے بڑھ کر اسے اٹھنے میں مدد کی تھی اور اس کی پست پر تکیے درست کر کے اسے بیٹھنے میں مدد کی تھی -

دانین اندر ہی اندر کٹ کے رہ گئی تھی کہ اس سب کے درمیان اس نے ایک نظر بھی اسے نہیں دیکھا تھا...اسے پیاس لگی تھی اس لیے وہ پانی کی طرف دیکھ رہا تھا جو کہ دانین کی طرف رکھا تھا مگر وہ اس سے کہنا نہیں چاہتا تھا -

کچھ چاہیے تھا آپ کو... اس کی نظروں کو ٹیبل کی طرف دیکھ اس نے پوچھا تو وہ کچھ نہیں بولا -

پانی پلا دو یار... اس نے دانش سے کہا... دانش نے حیرت سے اسے دیکھا جو اتنی دیر سے مسلسل دانین کو نظرانداز کر رہا تھا -

اس کے کہنے پر دانین نے گلاس میں پانی بھر کر اس کی طرف بڑھایا تھا جسے اس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا... دانش نے دانین کے ہاتھ سے پانی لے کر اسے پلایا تھا... دانین نے اس کے گریز، اس کے نظرانداز کرنے کو بری طرح محسوس کیا تھا -

میں سمرہ کو چھوڑنے گھر جا رہا ہوں... رات تک تمہارے پاس آؤں گا... ابھی میں چلتا ہوں...دانش کہہ کر اٹھ گیا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ وہ آپس میں بات کر لیں اور اس کی ناراضگی دور ہو... اس لیے وہ چلا گیا تھا-

***

دانش نے جانے کیا کہہ کر ابراہیم حیات شاہ اور ان کی بیگم کو راضی کیا تھا گھر جانے کے لیے... جو وہ اس کے ساتھ ہی واپس چلے گئے جب کہ وہ دونوں اسے ہاسپٹل میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے مگر دانش کے کہنے پر واپس چلے گئے تھے -

***

دانش کے جانے کے بعد وہ تھوڑی دیر ویسے ہی بیٹھا رہا تھا پھر ایک ہاتھ سے تکیا درست کر کے لیٹنے لگا تھا جب اس کے ہاتھ کے زخم پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے درد ہوا تھا... وہ اس کے قریب آئی تھی -

میں مدد کر دوں... کہتے ہوئے وہ اسے لیٹنے میں مدد کرنے لگی تھی-

مجھے آپ کی مدد یا آپ کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے... آپ جائیں یہاں سے...بے رخی سے کہا گیا تھا جو اس کے دل پر تیر کی طرح لگا تھا... اس نے اس کی محبت دیکھی تھی...اس کا غصہ نہیں دیکھا تھا اور یہ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا لیکن اس سب کی وجہ بھی وہ ہی تھی تو اب برداشت تو کرنا تھا اس کے مان جانے تک-

***

رات تک وہ ایسے ہی بیٹھی رہی تھی... اس نے بات کرنے کی کوشش کی مگر دوسری طرف سے نو لفٹ کا بورڈ لگا ہوا تھا اور وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی کہ وہ اس سے کوئی بات کر سکے... تب ہی ڈاکٹر اور نرس کمرے میں داخل ہوئے تھے... انھوں نے اس کا چیک اپ کیا اور کھانے اور دوائیوں کی ہدایت دیتا ہوا چلا گیا-

تھوڑی ہی دیر میں نرس ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لے کر آئی تھی جسے اس نے رکھ کر جانے کا اشارہ کیا تھا تو اسے رکھ کر باہر چلی گئی تھی-

سوپ کا باؤل لیے اس نے چمچ اس کے آگے کیا تھا جسے اس نے ہاتھ سے ہٹا دیا تھا تو چمچ سے سوپ نیچے گرا تھا-

میں نے کہا تھا نا کہ مجھے آپ کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے پھر یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں آپ کہ آپ کو میرا بہت خیال ہے... وہ غصے سے بولا-

دانین کچھ نہیں بولی تھی اور دوسرا چمچ بھر کر پھر اس کے آگے کیا تھا مگر اس نے پھر سے جھٹک کر اسے گرا دیا تھا...اسی طرح وہ دوسری، تیسری ، چوتھی بار بھی اس نے یہی کیا تھا جب وہ بول پڑی تھی -

آپ کی میرے ساتھ ناراضگی ہے تو مجھ سے ناراض رہیں مگر کھانے سے آپ کی کیا ناراضگی اسے اس طرح سے برباد نہیں کرتے اللہ تعالٰی ناراض ہوتے ہیں...اس کے کہنے پر اس نے اس کے ہاتھ سے سوپ لے کر خود پینا شروع کر دیا تھا... جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے اور وہ جو کبھی ان آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس کے آنسو دیکھ کر بے چین ہوا تھا-

اللہ تعالٰی تو شوہر کا دل دکھانے پر بھی ناراض ہوتے ہیں مگر اس کی تو آپ کو فکر ہی نہیں ہے... آپ تو بس اپنے من کی کرنا چاہتی ہیں...اب اگر ایک بھی آنسو نکلا نہ تو میں ابھی اور اسی وقت یہاں سے چلا جاؤں گا...اس نے اپنی بے چینی کو غصے سے دبانے کی کوشش کی تھی...یہ لڑکی اسے کمزور کر رہی تھی -

اس کے غصے کی وجہ سے وہ آنسو صاف کرتی ہوئی باہر نکل گئی تھی جب اس کا سامنا دانش سے ہوا تھا اور پھر وہ کمرے کے باہر پڑے صوفے پر بیٹھ گئی تھی...آنسو روکنے کے بعد بھی بار بار نکل رہے تھے-

اسے اس طرح سے جاتا دیکھ کر اس نے سوپ کا باؤل ٹیبل پر پٹکا تھا...ہر چیز سے دل بھر گیا تھا-

یہ کیا چل رہا ہے تم دونوں کے بیچ...تم تو کہتے تھے اس کے بغیر مر جاؤ گے... اس کے آنسوؤں سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے پھر اب یہ سب کیا ہے اب تم اسے کیسے تکلیف دے سکتے ہو...خود سے دور کر رہے ہو...دانش نے اسے احساس دلانا چاہا تھا -

ایسا وہ چاہتی ہے اور میں اب بھی کہتا ہوں کہ میں اس کے بغیر مر جاؤں گا... اور آج اس نے خود میری جان لینے کی کوشش کی ہے...مجھے لگتا ہے جیسے میرا جسم سانس لے رہا ہے مگر میرا دل مر گیا ہے...روح پر بہت بوجھ ہے... اس نے مجھ پر اعتبار نہ کر کے مجھے مار دیا ہے...میری محبت کو بے مول کر دیا ہے...اس نے ایک بار مجھ پر یقین تو کیا ہوتا...وہ ٹوٹے لہجے میں بولا تھا آنکھوں میں نمی آئی تھی... دانش نے اسے دیکھا تھا اس میں بہت صبر تھا... ہر کسی سے نرمی سے بات کرتا تھا اور بات کو درگزر کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر اب یہ بھی سچ تھا کہ دانین نے اس پر اعتبار نہ کر کے اس کا مان توڑا تھا جس طرح ایک لڑکی محبت سے پہلے عزت کو ترجیح دیتی ہے اسی طرح ایک مرد بھی محبت کے ساتھ ساتھ اعتبار اور مان چاہتا ہے اور ہادی کو ایسا لگتا تھا کہ اس معاملے میں دانین نے اس پر بھروسہ نہیں کیا اور اس کے گھر سے چلی گئی اور پھر سمرہ سے شادی والی بات اسے بہت غصہ تھا اس پر-

باہر بیٹھی دانین نے اس کا ایک ایک لفظ سنا تھا...اس نے اس کا دل بہت دکھایا تھا...اس نے طے کیا تھا کہ وہ اس سے بات کرے گی وہ اس پر غصہ کرے گا تو سہہ لے گی-

اب میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تم کوئی دوسری بات کرو...ہادی نے بے زاری سے کہا -

تھوڑی دیر بعد وہ اندر آئی تھی تو وہ دونوں اپنی باتوں میں مگن تھے... ہادی نے اس کی طرف نہیں دیکھا تھا اور ایسا اس نے جان بوجھ کر کیا تھا کہ وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا... وہ جا کر وہاں پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی تھی اور اس کے چہرے کو دیکھے گئی تھی...وہ اس کی نظریں خود پر محسوس کر سکتا تھا مگر اس نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا تھا اور بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی تھی -

اچھا اب تم آرام کرو اور میں باہر ہی ہوں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے آواز دے دینا... کہہ کر دانش باہر چلا گیا تھا-

اس نے صوفے پر سوئی ہوئی دانین کو دیکھا تھا اور پھر احتیاط سے اٹھ کر اس کے قریب آیا تھا اور جھک کر اس کے چہرے کو دیکھا تھا-

میں چاہ کر بھی آپ سے ناراض نہیں رہ سکتا مگر میں کیا کروں آپ نے میرا اعتبار نہیں کیا اور یہ بات مجھے تکلیف دے رہی ہے... میں ان آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھنا چاہتا تھا مگر آج میری وجہ سے ان میں آنسو آئے ہیں... پھر باری باری اس کی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھے تھے اور واپس اپنے بیڈ کی طرف مڑ گیا تھا-

اور ایسی حالت میں ادھر سے ادھر ہونے میں وہ کافی ہلکان ہوا تھا اور وہ جیسے ہی بیڈ بیٹھا تھا اس کا ہاتھ لگنے سے پانی کا گلاس نیچے فرش پر گرا تھا تو آواز پر وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی تھی...دو دن سے وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی جب ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی... وہ اٹھ کر اس کے قریب آئی -

کیا ہوا کچھ چاہیے تھا... اس نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلایا-

کہیں درد ہو رہا ہے...؟ اس نے پریشانی سے پوچھا -

ہاں یہاں ہو رہا اور یہ درد آپ کا دیا ہوا ہے... اس نے اپنے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے کہا تھا -

آپ پلیز مجھے معاف کر دیں... اس نے معافی مانگی تھی-

مجھے نیند آ رہی ہے اور میں اب سونا چاہتا ہوں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا... آپ بھی جا کر سو جائیں... اس نے بے زاری سے کہا اور منھ پر بازو رکھ کر لیٹ گیا تو وہ کھڑی کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اداس سی صوفے پر جا کر بیٹھ گئی تھی-

ہادی نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھا تھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی... نظر سے نظر ملی تھی...ایک کی آنکھوں میں شکوہ شکایت تھی تو دوسرے کی آنکھوں میں معافی کی گزارش اور آنسو ...اس نے نظر پھیر کر واپس آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا -

خود پہ بیتی ہے تو روتے ہو سسکتے ہو
وہ جو ہم نے کیا تھا وہ عشق نہیں تھا

***

اگلے دن صبح ہی سب اس سے ملنے آئے تھے اور ہادی کی امی سارا دن اس کے پاس ہی رہی تھی اس لیے اسے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا.... اور رات میں اس کے آرام کی خاطر ابراہیم حیات شاہ نے اسے گھر بھیج دیا تھا اور وہ اور دانش ہاسپٹل میں رک گئے تھے.... تیسرے دن ڈاکٹر نے اسے ڈسچارچ دے دیا تھا اور اسے روزانہ ڈریسنگ کروانے کی ہدایت دی تھی-

ڈسچارج ہو کر شام تک وہ گھر آئے تو ابراہیم صاحب کے ملنے والوں کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا...آنے جانے والوں رشتے داروں میں جس کی بھی نظر اس پر پڑی تھی سب نے ہی اس کے بارے میں پوچھا تھا تو انھوں نے اسے اپنی بہو بتایا تھا...کچھ کو تجسس تھا کہ ایسی کیا کہانی ہے کہ ابراہیم حیات شاہ کے بیٹے کی شادی بھی ہو گئی اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی... اور کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ خود چاہے لاکھ برائیوں میں گھرے ہوں مگر دوسروں کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے اس کی خوج بین کرنے سے باز نہیں آتے-

وہ وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آیا تو وہ سو رہی تھی..وہ اس کی جانب  کی کروٹ لے کر لیٹ گیا تھا...جب ہی دانین نے آنکھیں کھولی تھی اور اس نے فوراً اس جانب سے کروٹ بدلنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے اس کا بازو تھام لیا تھا-

مجھے آپ سے بات کرنی ہے...اس نے کہا -

دانین مجھے کوئی فضول بات نہیں سننی آپ کی...اس نے تیز لہجے میں کہتے ہوئے اسے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے -

اس نے کچھ کہنے پھر سے منھ کھولا ہی تھا کہ بولا -

اپنی کسی بات سے میرا دماغ خراب کرنے کی کوشش مت کریں... میں بہت تھک گیا ہوں اور سونا چاہتا ہوں... اور آپ بھی آنکھیں بند کر کے سو جائیں ورنہ مجھے اپنا کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈنا پڑے گا...اس نے اس کی طرف پلٹ کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو اس کی بات سن کر اس نے آنکھیں بند کر لی تھی اور وہ اس کے اس طرح جلدی سے آنکھیں بند کرنے پر وہ مسکرایا تھا-

دوسری طرف دانین آنکھیں بند کیے سوچ رہی تھی کہ وہ اس سے بہت زیادہ ناراض ہے اور اسے منانے میں وقت لگے گا... اس نے سوچا کہ ابھی بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس نے اس کی ایک بھی نہیں سننی... اگر کچھ بولے گی تو وہ پھر غصہ کرے گا اس لیے کل بات کرنے کی سوچ کر اس نے چپ رہنا ضروری سمجھا تھا-

***

اگلی صبح وہ فریش ہو کر باہر نکلا اور الماری سے شرٹ نکال کر پہننے کی کوشش کرنے لگا تھا... اس کے سینے کے اور سر کے زخم بھر گئے تھے مگر ہاتھ کے زخم میں ابھی بھی درد تھا... اس نے شرٹ پہننے کی کوشش کی جب وہ اس کے ہاتھ سے شرٹ لے کر اسے پہنانے لگی تھی -

میں کر لوں گا چھوڑیں... وہ شرٹ پہنا کر اب اس کے بٹن لگا رہی تھی جب وہ بولا -

میں کر رہی ہوں نہ ہر وقت غصہ مت کیا کریں مجھ پر... اب اتنی بھی بری نہیں ہوں میں... وہ بٹن لگاتے ہوئے تنک کر بولی تھی -

آپ بری کیسے ہو سکتی ہیں آپ تو بہت اچھی ہیں...میری دوسری شادی کروا رہیں ہیں... مجھے تو خوش ہونا چاہیے... اور میں نے اب سوچ لیا ہے کہ میں آپ کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گا...اس نے تنز کیا تھا-

آئ ایم سوری... معاف کر دیں مجھے پلیز... میرے ساتھ ایسا مت کریں... پلیز ایک بار میری بات سن لیں... دانین نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تھا-

ہٹیں سامنے سے مجھے جانا ہے... اس نے اسے سامنے سے ہٹانا چاہا تھا -

میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور آپ بہت زیادہ ہرٹ ہوئے ہیں...پلیز میری بات سن لیں... میں آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں... وہ اس کے قریب آتے ہوئے بولی-

آپ کو احساس ہے اچھی بات ہے اور کیا بتائیں گی آپ سچ تو یہ ہے کہ آپ نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا... سچ تو یہ ہے کہ آپ نے میرا دل توڑا ہے... میری جان لینے کی کوشش کی ہے اور اگر اس دن وہ حادثہ نہیں ہوا تو آپ واپس بھی نہیں آتی اور اپنی ضد پر اڑی رہتی ...ہادی نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا دانین نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں درد رقم تھا-

میں آپ کو چھوڑ کر نہیں گئی تھی اور پھر بابا کی بیماری کا سن کر میں یہاں آ گئی تھی...میں آپ کے ساتھ بہت برا کر چکی ہوں مگر مجھے ڈر لگتا ہے کسی کے آنسوؤں سے... مجھے ڈر لگتا ہے کسی کی بددعا سے... میں نہیں چاہتی کہ کسی کی آنکھ سے نکلنے والے آنسو، کسی کے دل سے نکلی بددعا کہیں مجھے آپ سے دور نہ کر دے...میں آپ کو کھونا نہیں چاہتی تھی... کبھی بھی نہیں... میں نہیں چاہتی کسی کی آہ کی وجہ سے ہماری زندگی خوشیوں کی بجائے دکھوں سے بھر جائے... اگر آپ ہرٹ ہوئے ہیں تو تکلیف سے میں بھی گزری ہوں... آپ کو کیا لگتا ہے کہ میرے لیے آسان تھا اپنی محبت کو بانٹنے کا فیصلہ کرنا مجھے تکلیف نہیں ہوتی ... وہ ان کے سینے میں منھ چھپا کر رونے لگی تھی-

کچھ بھی تھا آپ کو مجھ سے شئر کرنا چاہیے تھا...میاں بیوی کا رشتہ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے بنا جھجک سب کچھ شئر کر سکے...ہم مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کر لیتے مگر آپ نے خود کو زیادہ عقلمند سمجھا اور میرے سامنے دو آپشن رکھے تھے اور میں نے سوچ لیا ہے کہ میں دوسری شادی کر لیتا ہوں... آپ کو میں چھوڑ نہیں سکتا یہ میری مجبوری ہے... وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا اور اسے ایک طرف کرتا ہوا باہر نکل گیا اور وہ وہیں بیٹھ کر پھر سے رونے لگی تھی-

میں روٹھ تو سکتا ہوں پر چھوڑ نہیں سکتا
میرے کانوں میں اذان کے بعد وفا پھونکی گئی ہے

***
***

جاری ہے...

Must Share Your Reviews ♥️🤗
Ye Bhi last Epi nhi h thodi si kahani aur h abhi... 😊
If you like it then vote nd share 🌠

Continue Reading

You'll Also Like

58.6K 1.6K 41
وهل بضع كلمات ستصف حبي لكِ ؟! وهل لهفتي لسماع صوتكِ سيكفي؟! وهل خافقي الذي يشن الحروب لرؤياك سيكون دليل محبتي؟! القاسي احبكِ فتحملي جحيم قسوته..
39.6K 1.6K 12
السلام عليكم ! بے مول محبت ناول یک طرفہ محبت پر مبنی ایک کہانی ہے ۔ محبت سیکریفائزز منگتی ہے مگر یک طرفہ محبت میں سیکریفائزز تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں ۔...
1.6K 350 7
ئالیسنت بۆ ئەوەی میراتەکەی باوکی وەربگرێ و ببێ بە سەرۆکی کۆمپانیای ڕیچارد دەبێ کۆتا وەسیەتی باوکی بەدی بھێنێ وەسیەتەکەی باوکی چیە ؟ ئایا دەتوانێ می...
169K 9.7K 9
Hamdaani Heirs #3 The story of Furqaan and Aamaal. How fate brings them together in bleak circumstances. The storms they brave. How a lover's wait i...