میری ذات۔ از عمارہ عمران

By amm_thewriter

2K 118 37

ریپ، زیادتی، عصمت دری۔ شرم ناک بات ہے مگر یہ آج کل معاشرے میں بتدریج پروان چڑھ رہی ہے۔ ایک ایسا حساس موضوع جس... More

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5

Episode 6

65 7 2
By amm_thewriter

خلافِ معمول اس کیبن سے اٹھتے قہقوں پر آفس کا تمام اسٹاف حیرت میں مبتلا تھا۔ آواز کو وہ بخوبی پہچان سکتے تھے کہ انکے باس کی آواز تھی جو ہنستے بھی ہیں انہیں آج اندازہ ہو رہا تھا۔ یہ عید کا چاند اس آفس میں تین چار دن سے حاضری لگاتی اس خوش طبع شخصیت کی بدولت نمودار ہوا تھا۔ وہی مغرور شہزادہ جو زیادہ تر امیر کی باپ کی بگڑی اولاد کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ہاں وہی جو جہاں جاتا مرغوب و مقبول ہوجاتا۔ اسکی دوستوں کی فہرست میں ایک اور شخصیت کا اضافہ ہو چلا تھاکہ آفس آورز کے بعد اب وہ اکثر یہیں پایا جاتا تھا۔ آج بھی وہ یہیں موجود تھا مگر مقصد کے ساتھ کہ نہال آج جعفریز کی طرف ایک چھوٹی سی دعوت پر مدعو تھا۔ اور اسے گھر لانے کی ذمہ داری حارث جعفری کے کاندھوں پر تھی اسی لیے وہ آفس سے سیدھا یہی پہنچا تھا اور اب اسکے کیبن میں بیٹھا باتیں بگھارنے میں مصروف تھا۔ وہ اسکی شخصیت سے ازحد مرغوب اور اسکی باتوں سے لطف اندوز دکھائی دے رہاتھا۔
مگر اب گھڑی پر نگاہ پڑتے ہی گھر پہنچنے میں تاخیر کا اندازہ ہوا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
اب کہ اسکے ساتھ وہ دونوں بھی اسکے کیبن سے باہر نکلے تھے۔ نہال کہ لب اب بھی اسکی کسی بات پر ہنسی میں پھیلے تھے اور وہ اسکے ہم قدم راہداری پار کرتا ہاتھ ہلا ہلا کر ہنوز بولنے میں مصروف تھا۔ وہ دونوں ساتھ چلتے برابر دکھائی دے رہے تھے۔ وجاہت و قد کاٹھ جیسے متوازی و یکساں تھاکہ مقابلہ آرائی میں کون جیتے اندازہ لگانا مشکل تھا اور موازنہ دشوار.......
راہداری کے اختتام تک ابھی وہ دونوں پہنچے ہی تھے کہ قریباً چھتیس سالہ شخص فوراً ہی انکے سامنے چلا آیا۔ وہ دونوں ہی ٹھٹک کر رکے۔
”اسلام علیکم سر۔ میں ارحان عباسی۔ پچھلی بار بھی آیا تھا مگر آپ شاید کسی ضروری میٹنگ میں مصروف تھے اسی لیے آپ سے ملاقات نہیں ہوپائی تھی“۔ اسے سلام کا جواب دینے کا موقع دیے بغیر ہی وہ بولتا چلا گیا۔ حارث کے ہاتھ اسکی پینٹ کی جیب میں پہنچے تھے جبکہ نہال کی نگاہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر گئی تھی۔
”آں..... جی مس فبیہا نے مجھ سے آپ کا ذکر کیا تھا۔ در اصل آپ کل تشریف لاتے تو شاید میں کچھ وقت نکال پاتامگر آج کے لیے تو معذرت مجھے آج ضروری دعوت کے لیے جانا ہے۔ آپ کل دوبارہ آئیے میں آپ کی آمد کا منتظر رہونگا“۔ حارث ایک عام کارکن کے لیے اسکے اس قدر حسنِ اخلاق سے متاثر ہوا تھا۔ مزید کچھ علیک سلیک کے بعد وہ دونوں آگے چل دیے جبکہ وہ شخص وہی کھڑا انکی پشت کو گھورتا رہا۔
لفٹ سے اتر کر داخلی دروازہ پار کرتے وہ دونوں اسکی سیاہ مرسڈیس کی جانب چلے آئے۔ ڈرائیونگ سیٹ حارث نے سنبھالی جبکہ اسکے برابر نہال براجمان ہوا۔ اور کچھ ہی لمحوں بعد گاڑی کشادہ روڈ پر رواں دواں تھی۔
راستہ ادھر ادھر کی باتوں کی نذر ہوا۔
گاڑی رکی اور منزل سامنے تھے۔ وہ دونوں ساتھ ہی اترے۔ گارڈ کو گاڑی گیراج میں لگانے کا کہتا وہ اسی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
 لاؤنج میں سب منتظر سے بیٹھے تھے سوائے اسکے۔ ناجانے دل کے کس گوشے میں اسکے دیدار کی خواہش پنہاں تھی کہ لاشعوری طور پر نگاہیں اسی کی منتظر تھیں۔ مگر جانے وہ کہاں تھی۔ گزرتے ہر پہر کے ساتھ بڑھتی یہ کسک اسے پریشان کر رہی تھی کہ وہ اندر ہی اندر بے کل ہونے لگا تھا۔
لاؤنج میں کسی کی آمد کو محسوس کیے وہ سب لبوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ سجائے اسکے استقبال کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسنے بروقت خود کو سنبھالا۔ بچپن سے لے کر اب تک اس عمل میں وہ ماہر ہوچکا تھا۔ اپنے تاثرات چھپانے میں اسے کاملیت حاصل تھی۔
بہرحال انکی ہم نواحی میں چلتا وہ لاؤنج کے صوفے تک آپہنچا تھا۔ اسے بیٹھنے کی دعوت پیش کرتے وہ سب بھی صوفوں پر براجمان ہوچکے تھے۔
اس با اقتدار خاندان کے باسی اعتدال پسند و روایتی وضع دار تھے اسکا اندازہ وہ چند ملاقاتوں میں ہی لگا چکا تھا۔
ہانیہ اس صاحبِ خلق کی کم عمری اور اس قدر کامیابی سے واقعتا متاثر ہوئی تھی۔ طلحٰہ کی توخوشی دیدنی تھی کہ اتنے پیارے سے انکل کو اپنے گھر پاکر وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اور وجہ اس انکل سے تھیلا بھر چاکلیٹس ملنا تھیں۔ حارث نے چند ایک ملاقات میں اس سے اپنے ایک آدھ اور گھر کے لاڈلے بھتیجے کا ذکر کیا تھا۔ اور وہ اس لاڈلے سے ملنے کا واقعتا خواہاں تھا کہ اسکے لیے ڈھیر ساری چاکلیٹس لینا نہیں بھولا تھا۔ اسے دیکھتے اسکی شرارت سے چمکی، ذہانت سے بھرپور آنکھیں دیکھ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ اپنے لفنگے چاچو پر گیا تھا۔ اور وہ وہی ازلی (اپنے چاچو سے ورثے میں ملی) شریر سی مسکان لبوں پر سجائے چاچو اور انکل (جو کہ آج سے اسکے فیوریٹ انکل بن چکے تھے) کے درمیان صوفے پر بیٹھا، پیر جھلاتا، مفت کا مال تناول فرما رہا تھا۔
عباس و ارباز صاحب اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے جو زیادہ ترکاروباری معاملات پر مبنی تھیں۔ آمنہ بیگم کچھ روایتی سوالات کرتیں جس پر اسکے پر اعتماد سے جوابات حاضر ہوتے جبکہ زاہدہ بیگم وقفے وقفے سے چند مشروبات اور مختلف لوازمات پیش کرتیں۔ طلحٰہ کی شان میں زایان سے وہ ڈھیر سارے قصیدے سن چکا تھا۔ اسکے عجب کارناموں پر ایک نظر اپنے عقب میں بیٹھے اس شریر سے بچے کو دیکھتا جس نے چہرے پر مسکان سجائے معصومیت کے سابقہ تمام رکارڈ توڑے تھے۔ مگر ہانیہ سے معلوم ہوا کہ یہ اسکے چاچو کی دی شے ہے جو دونوں مل کر سب کا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔ اور حارث کی فطرت اس پر چند ملاقات میں ہی کافی حد تک آشکار ہوچکی تھی اس لیے وہ زیادہ متحیر نہیں ہوا تھا۔ اور رہی بات اسکی........تو وہ ماہ جبین نجانے اب تک کہاں غائب تھی۔ اسکی متلاشی نگاہیں گھر میں اٹھتے معمولی کھٹکے پر بھی چونک جاتی کہ شاید ا ب وہ کسی گوشے سے نمودار ہوجائے۔ مگر ادھر ادھر جاتے ملازمین کو پا کر دل سرد آہ بھرکر رہ جاتا۔ محبت کسی کے لیے بہار میں کھلے پھول کی مانند ہوتی ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ مہک اٹھتا ہے۔  مگر اسنے اب تک محبت کو بے کل کر دینے والا پایا تھا.........دیوانہ و فریفتہ کر دینے والا......کسک سے بھرپور اور درد بھرا۔
ناجانے کتنی ساعتیں مزید گزری کہ دروازے کی معمولی چرچڑاہٹ پر سب کا سر سیڑھیوں سے اوپر بنے اس کمرے کی جانب اٹھا۔ وہ تھی۔ وہ تھم سا گیا۔ ہاں وہی تھی ایک لمبے دوپٹے کی آڑ لیے سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ہالف بال ہمیشہ کی طرح کیچر میں قید اور رخسار پر جھولتی وہ لٹ۔ پیروں میں پہنے سلیپرز اور سفید رنگ کا وہ سادہ مگر نفیس لباس۔ وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں کچھ خمار سا تھا۔ شاید وہ سو کر اٹھی تھی۔
 وہ اسے تکے گیا۔ محویت سے.......
کیا وہ اسے کبھی بتا پائے گا اس سفید رنگ میں وہ بہار میں کھلے چنبیلی کے پھول کی مانند لگتی ہے۔ وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ سفید اسی کا رنگ ہے مگر وہ نہ پہنا کرے کہ گرتی بجلیوں کو سہنے کی سکت اس میں نہ تھی۔۔
”ملکہ“۔ اسکے لبوں نے بے اختیار ہی سرگوشی سی کی........ ہاں اسی خطاب کی اہل تھی وہ...... اسکے قلب کی ملکہ....... ملکہ ایران....... آبش.....
اگر ذرا جو ہوش سنبھلے ہوتے تو اپنے برابر میں دیکھتا کہ کسی اور کا بھی کچھ اسی طرح کا حال تھا۔ اسکی نگاہیں بھی اسی طرح اس پری رخ پر جمی تھیں۔ بس فرق اتنا تھا کہ شہزادے کے لب مسکراہٹ میں پھیلے تھے جبکہ دیوانہ نیم وا لبوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
ایک حارث شہزادہ سا......
ایک نہال دیوانہ سا.......
ایک آبش آبشار سی........آبشار یا ملکہ؟.....!
ناجانے اس تکوں نے کون سی راہ اختیار کرنی تھی۔
راہِ یار...یا........تقدیر کی راہ؟....!
                                  ……(۰٭۰)……

لکڑی کے تخت پر وہ چت لیٹی تھی۔ چادر سینے تک اوڑھ رکھی تھی جو اکثر اسکے تن سے کھینچ لی جاتی تھی۔ ایک ہاتھ پیٹ پر جبکہ دوسرا بازو پیشانی پر ٹکا تھا۔ چھت کو گھورتا کچھ پر سوچ سا انداز تھا۔ چہرہ ہر طرح کے میک اپ سے عاری تھا مگر زیادہ دیر تک نہیں۔ وہ جانتی تھی کچھ ہی دیر بعد اسے پکارا جانا تھا۔ عموماً شیر چھپ کر، درست موقع پر شکار کرتا ہے۔ مگر یہاں ہر شکار پر پکارا جاتا تھا۔ شکاری کھلے عام،سرِبازار اپنا شکار منتخب کرتا تھا۔اور آج پھر اسے کسی کے ہتھے چڑھ جانا تھا۔
اسکا غیر معمولی حسن لاکھوں کے دام بکتا تھا۔ عام لوگ اسکے حسن کے دیدار کے شرف سے ہی خالی تھے۔ اسے بڑے بڑے امرا کے سامنے ہی پیش کیا جاتا تھا جن میں سے اکثر و بیشتر کوٹ پینٹ میں ملبوس ہوا کرتے تھے۔
اسنے جب سے ہوش سنبھالا تھا خود کو یہی پایا تھا۔ اسی کوٹھے میں۔ کہا جاتا تھا جب وہ یہاں لائی گئی تھی،جو اسے یہاں چھوڑ گیا تھا اسنے اسکا نام مَناہل بتایا تھا۔ محض مناہل۔ آگے پیچھے کیا تھا وہ کبھی جان ہی نہ پائی۔ مگر بڑھتی عمر کے ساتھ اسکا یہ نام بھی ماند پڑنے لگا۔ اسے یہاں کوہِ نور پکارا جانے لگا۔ اسکے غیر معمولی حسن نے اسے ہیرا بنا ڈالا مگر وہ خود اندر سے خاک ہوتی چلی گئی۔ اپنی ذات سے کراہت محسوس کرنے لگی۔ اپنے اس حسن سے نفرت کا آغاز کب ہوا معلوم ہی نہ تھا۔
باہر کی دنیا کیا تھی،کیسی تھی وہ انجان تھی۔ اس قید میں اسے کتنا عرصہ ہوا، اسکی عمر کیا تھی، تاریخ پیدائش سب پوشیدہ تھا......راز تھا۔
کبھی سوچتی کہ اسے جنم دینے والے کون تھے؟ کہاں تھے؟یہاں کیوں چھوڑ گئے؟......یا پھر...... وہ بھی ایک ایسی ہی پیداوار تھی؟ جسے یہ دنیا ناجائز قرار دیتی تھی۔ اور یہ خیال آتے ہی ایک بے حد سرد سا تاثر اسکی نگاہوں میں آجاتا۔ آنکھوں سے بیگانگیت جھلکنے لگتی تھی۔
اب بھی کچھ یہی حال تھا۔ تیز میوزک کی آواز اسکے کانوں میں پڑ رہی تھی مگر وہ ذرا بھی جنبش پیدا کیے ایسے لیٹی تھی جیسے یہی لیٹے لیٹے ابدی نیند سو جانا چاہتی ہو۔ لب سختی سے ایک دوسرے میں بھینچ رکھے تھے۔ آنکھوں میں سرخی ڈورے ڈال رہی تھی کہ اسے اس چھوٹے سے کمرے کے آہنی دروازے کی جانب سے پکارا گیا۔ وہ ہنوز اسی طرح لیٹی رہی جیسے سنا ہی نہ ہو۔ اب کہ پکار قریب سے سنائی دی اور اسی کے ساتھ کھوئی دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔ مگر اس میں جنبش تک پیدا نہ ہوئی۔ وہ نفوس اسکے قریب چلا آیا۔ اسے شانے سے تھام کر ہلایا۔ وہ دھیرے دھیرے گردن موڑے اپنی سرخ آنکھیں اس پر جما گئی۔ مقابل کے لب مسکراہٹ میں پھیلے اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کچھ بھی کہے بنا باتھ روم میں چلدی۔ جبکہ وہ نفوس اسی طرح لبوں پر مسکراہٹ سجائے سنگھار میز کی جانب چلی آئی۔ چھوٹی سی میز پر ڈھیر سارا میک اپ بکھرا تھا۔ وہ میز کے کنارے پر انگلی پھیرتی آئینے کے بلکل سامنے آکھڑی ہوئی۔ اسکا چہرہ بھی مکمل طور پر میک اپ سے سجا تھا۔ گندمی رنگت پر نقوش متناسب تھے۔ سیاہ آنکھیں کاجل سے مزید سیاہ کی گئی تھیں اور پیشانی پر بھنوں کے بلکل وسط میں سیاہ رنگ کا گول ٹیکا سا لگا تھا۔ اسنے اپنی گھنگھریلی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا۔ مسکراہٹ گہری کیے اپنے چہرے کو طائرانہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
کچھ ہی لمحوں بعد باتھ روم کا دروازہ کھلا اور وہ آستین سے مبرا کاسنی رنگ کی سنہری کڑھائی سے لیس میکسی میں ملبوس برآمد ہوئی۔ محض لباس نے ہی اسکے اجلے رنگ کو مزید اجلا کر دیا تھا۔
سنگھار میز کے سامنے کھڑی وہ پلٹی اور اسے دیکھ ہی اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
وہ خود ہی قدم اٹھاتی میز کی جانب چلی آئی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اب اس بھری، میک اپ سے لیس عورت نے اسکا بھی میک اپ کرنا تھا۔
چند ساعتوں کے بعد مسکارہ لگا کر وہ ہٹی اور اسے دیکھا۔ اب کہ حسن آسمان کو اٹھا تھا۔ وہ لب بھینچے آئینے میں خود کو دیکھے گئی۔
وہ عورت مسکارہ واپس جگہ پر رکھتی اسکے پیچھے کرسی کی پشت کی جانب چلی آئی اور اسے دیکھنے لگی۔
”بسیار زیبا ھستید“۔
(تم بہت خوبصورت ہو)۔
فارسی میں کہتے اسنے اسکی پیشانی پر ٹیکا ٹکایا تھا۔ وہ ہنوز خاموش رہی۔
”کہیں ہماری ہی نظر نہ لگ جائے تمھیں“۔ وہ اسکے سر سے ہاتھ پھیرتی اسکی بلائیں لینے لگی۔
”کوہِ نور ہو تم۔ کوہِ نور۔جب پہلی بار تم ہمارے پاس لائی گئی تھی....تبھی سمجھ گئے تھے“۔ وہ کہہ رہی تھی۔ وہ کاٹ دار نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
”نہ نہ۔ ایسے نہ دیکھو۔ ارے تمھیں تو اپنی قسمت پر رشک کرنا چاہیے۔ تمھارا یہ حسن محفوظ ہے....ہم نے تمھیں بچایا ہے۔ دنیا کی بری نظر سے۔ اپنے پاس چھپا کر رکھ لیا ہے“۔ اب کہ وہ اسکے سامنے چلی آئی۔ تھوڑی سے اسکا چہرہ تھام کر ذرا اونچا کیا۔
”سوچ کر سہم جاتے ہیں ہم۔ کہ لوگ تمھارے ساتھ کیا کیا کر سکتے تھے۔ تم یہاں لائی گئیں اور۔ تمھاری زندگی اور قسمت دونوں ہی بدل گئے۔باہر کی دنیا بہت گندی ہے نور۔ اور ہم نے.... اپنے پاس رکھ کر تمھیں اس گندی دنیا سے بچا لیا“۔ اسکی نگاہیں مزید سرخ پڑنے لگی تھیں۔ چہرے پر کرب کے آثار نمایا ہونے لگے تھے۔
”ہمیں ایک اصلی ہیرا جو مل گیا تھا۔ ہم نے سوچا تم تھیں ہی ہماری۔ تبھی یہاں لائی گئیں تھی۔ ہمارے بہت کام کی ہو تم۔ہمارا کوہِ نور“۔ اسنے اسکا چہرہ مزید اوپر کیا۔
”ہنس کے دکھاؤ.....ہنس کے دکھاؤ“۔ وہ بلکل دھیما سا مسکرائی....کرب سے.....اذیت سے۔
”ہاں......ایسے......ایسے“۔ اس عورت کی مسکراہٹ گہری تر گہری ہوتی چلی گئی۔
                                   ……(۰٭۰)……

حارث کی جانب سے دیا گیا چیلینج تھا اور اب وہ دونوں اس عالیشان گھر کے بیسمنٹ میں موجود تھے جہاں جم کا اعلٰی سے اعلٰی سازوسامان موجود تھا۔ انکے پیچھے ہی زایان اور طلحٰہ بھی داخل ہوئے تھے۔ اور اب کھیل جمنے کا انتظار کر رہے تھے۔ طلحہ کا جوش عروج پر تھا۔ نہال آگے بڑھ کر پیک ڈیک مشین پر ہاتھ پھیرتا متحیر سا تھا۔ اس روم میں تقریباً تمام سازو سامان موجود تھا جو ایک اچھی جسامت کے لیے ضروری ہوسکتا تھا اور کمرے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہ تھا سامنے کھڑا یہ شخص فٹنیس کا جنون رکھتا تھا۔
”کتنا وقت لگا ان سب کو یہاں لانے میں؟“۔ وہ ستائش بھری نظروں سے دیکھتا کہہ رہا تھا۔ پیسہ اسکے پاس بھی کم نہ تھا۔ چاہتا تو خود بھی ایسا کمرہ تیار کر سکتا تھا مگر اس کے شوق اس قدر جنونی نہ تھے۔
”تقریباً تین سال“۔ وہ خود بھی ادھر ادھر نگاہیں گھمائے دیکھ رہا تھا۔ اسکا سر اثبات میں ہلا۔
”میری امیدیں تمھارے ساتھ ہیں غازی صاحب“۔ زایان سے فوراً سائڈ چن لی تھی۔
”بھائی جان“۔ حارث نے شاکی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اسنے شانے اچکائے۔ نہال ہنس دیا۔ اب کہ اسکی ملتجی نگاہیں طلحہ کی جانب اٹھی۔ اسکی نگاہیں اپنے ہاتھ میں تھمی اس چاکلیٹ کی جانب اٹھی۔ پھر انکل کی جانب اور پھر انکے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ کی جانب۔ اسے لمحہ لگا فیصلہ کرنے میں اور وہ حارث کے پاس آکھڑا ہوا۔ زایان اور نہال نے تحیر سے اسے دیکھا۔
”سوری انکل۔ مگر چاچو نے مجھے پی ایس فور دیا تھا“۔ اور اسی کے ساتھ حارث نے جھک کے اسے اپنی باہوں میں بھینچ لیا۔
”دور ہٹیں چاچو جا ن“۔ وہ جھلایا سا اسے خود سے دور ہٹانے لگا۔
”دوست بنیں، چاچو بنیں، محبوبہ نہ بنیں“۔ اور یہیں نہال اور زایان کی نگاہیں پھٹیں جبکہ حارث نے زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔ وہ کیسے بھول گیا کہ اسکا بھتیجا ہر معمولی چیز کو کیچ کرکہ اسے دماغ میں نقش کر نے کا قائل تھا۔
زایان کی تیوارئی نگاہ اپنے نالائق بھائی پر اٹھی تھی۔
”بگاڑ دو تم میرے سیدھے سادھے بیٹے کو۔ کتنی بار کہا ہے اسکے سامنے اپنی یہ زبان مت استعمال کیا کرو“۔ وہ اسے ڈپٹ رہا تھا اور نہال اس شرارتی بچے کو دیکھ کر نہال ہورہا تھا۔ حارث خجالت سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔
پہلا مقابلہ پش اپس  (pushups)  پر طے پایا گیا۔ ساٹھ کا ٹارگیٹ تھا اور زایان نے دیا تھا۔ حارث پر جوش دکھائی دے رہا تھا جبکہ نہال مطمئن۔ دونوں نے شرٹس اتار کر سائڈ پر دھری تھیں اور اب بنیان میں ان کے کسرتی بازو نمایا تھے۔
زمین پر جھک کر مقابلہ ٹکر کا تھا۔ طلحہ کھلکھلاتا اپنے چاچو کا نام پکارتا اسکا حوصلہ بڑھانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا جبکہ زایان مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھ رہا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد دونوں کے سانس پھولنے لگے مگر ہمت برقرار تھی۔ پسینہ انکے شانوں پر چمکنے لگا تھا۔
مزید کچھ ساعتوں کے بعد مقابلہ اختتام کی طرف گامزن تھا۔ دس پش اپس رہتے تھے اور گنتی شروع ہوئی تھی۔ طلحہ پوری جوش کے ساتھ گنتی گنتا اچھل رہا تھا۔ برابر مقابلہ زایان کو حیران کر گیا تھا۔ اور کچھ ہی لمحوں بعد دونوں زمین پر کمر کے بل ڈھے سے گئے۔ دونوں کے لب مسکراہٹ میں پھیلے تھے۔ آج وہ خوش تھا۔ بے تحاشہ..... زندگی میں پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔ یہ نوخیز سی خوشی اسے اچھی لگی تھی۔ وہ اسی طرح جینا چاہتا تھا۔ دل میں اچانک ہی یہ خوشحال زندگی جینے کی خواہش جاگی تھی۔ یہی مکمل زندگی....... ایک پرفیکٹ فیملی کے ساتھ۔ ہاں ویسی ہی زندگی جیسی حارث کی تھی۔ اس جیسی جوانی...... طلحہ جیسا بچپن۔ جہاں ڈھیر ساری محبت تھی...... اپنوں کا ساتھ و مان تھا۔جہاں امن تھا اور خوشیاں تھیں۔ اچانک ہی اسے یہ دوستی عزیز سی لگنے لگی۔ اچانک ہی حارث اسکے عزیز تر دوستوں میں شامل ہوگیا۔ اچانک ہی یہ چھوٹا طلحہ اسکے بھی جگر کا ٹکڑا بن گیا۔ اچانک ہی جعفریز اسے اپنے لگنے لگے۔
وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک کا چہرہ مسکراہٹ میں پھیلا دوسرے کا چہرہ طمانیت سے دمک اٹھا۔ دونوں کے ہاتھ باہم ملے۔ عام انداز نہ تھا۔ بڈی ہیلو تھا۔ جگری دوستوں کا سا انداز......
”ون ہینڈ پش اپس؟“۔ حارث نے دریافت کیا۔ زایان کا سر نفی میں ہلا۔
”بینچ پریس  (Bench press) “۔
اور پھر پہلی باری نہال کی تھی۔ ہر ویٹ پلیٹ کے ساتھ دو دو لگانے تھے۔ ہمت پر مبنی تھا۔ ہمت ٹوٹی اور ہار مقدر بنی۔ مگر دونوں کو دیکھ لگتا تھا ہارسے سخت دشمنی تھی۔
وہ تیار سا بینچ پریس پر لیٹ چکا تھا۔ پہلی باری پانچ ایل بیز  LBS  کی پلیٹ کی تھی۔ اسنے دو ہی جھٹکوں میں اٹھا کر رکھے۔
اب کہ دس ایل بیز اسی کے ساتھ رکھے گئے یوں پندرہ ایل بیز ہوئے۔ وہ بھی جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
اسنے اسی کے ساتھ پچیس ایل بیز کی پلیٹ رکھی۔ مکمل چالیس ایل بیز ہوئے۔ اسنے جوش میں ہاتھ مسلے اور اٹھایا۔ ذرا مشکل پیش آئی۔ سانس پھولنے لگا مگر وہ کامیاب ہوا۔ حارث مسکرایا۔ اب کہ اسنے تمام پلیٹس نکالیں۔ پینتالیس ایل بیز کی پلیٹ کو نظر انداز کیے سو ایل بیز کی پلیٹ اٹھائی۔ ایک پلیٹ اٹھانا اتنا مشکل نہ تھا جتنا دو کو ایک ساتھ اٹھانا تھا۔ نہال اسے دیکھ مسکرایا۔
”صرف پانچ اوپر تھا۔ چالیس کا تم پہلے ہی لگا چکے ہو“۔ اسنے شانے اچکائے۔ اسکا سر اثبات میں ہلا۔ اسنے پلیٹ لگائی اور اسکے سامنے آکھڑا تھا۔ وہ کچھ دیر لیٹا رہا۔ گہرا سانس لیا۔ شانوں کو جنبش دی اور بار بیل کو مٹھیوں سے تھاما۔ پوری جان لگا کر اٹھایا۔ ہاتھ لڑکھڑائے۔ لبوں سے کر اہ آزاد ہوتے ہوتے رہی۔ جسم کا جوش ہاتھوں میں آیا اور اسنے اٹھایا۔طلحہ اچھل پڑا۔ مگر دوسری بار میں ہمت چکنا چور ہوئی۔ وہ ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ حارث نے فوراً تھاما اور بار بیل اسکی مخصوص جگہ پر ٹکائی۔
وہ وہی لیٹے گہرے سانس لینے لگا۔ حارث نے اسکا شانہ تھپتھپایا۔ وہ ہنسنے لگا۔
”گڈ جاب برو۔ لگتا ہے باقاعدگی سے جم جاتے ہو“۔ وہ گردن اثبات میں ہلا گیا۔ بولنے کی سکت نہ رہی تھی۔ پسینے میں شرابور اٹھا اور اسی روم سے اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا۔ واپس آیا تو چہرہ دھلا دھلایا تھا۔ اب کہ کچھ سانس بحال ہوا تھا۔
اب اسکی باری تھی۔ وہ مکمل پر جوش تھا۔ اسی کی طرح چالیس تک اٹھانا خاصا مشکل نہ تھا۔ وہ بھی کامیاب رہا۔ اب کہ سو کی باری آئی۔ نہال بغور دیکھنے لگا۔ کچھ تگ ودو.......تھوڑا جوش۔ ہاتھ بھی لڑکھڑائے مگر وہ کامیاب رہا۔ وہ مسکرا اٹھا۔ طلحہ کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ تو پھولے نہیں سما رہا تھا۔ خوب شور مچایا۔
آخر وہ فٹنیس کو لے کر جنونی تھا۔ کامیاب تو ہونا تھا۔ نہال نے اسے داد دیتے گلے لگایا۔
ملازم ٹیبل پر کچھ مشروبات رکھ گیا تھا۔ دونوں سانس بحال کرنے کی خاطر وہ پینے لگے کہ اوپر سے کھانے کے لیے پکارا گیا۔ وہ شرٹس پہنتے سیڑھیوں کی جانب چل دیے۔
اب کہ ڈائننگ روم میں نشست لگی تھی۔ چمچوں کی کھٹک میں حارث کی شوخیاں۔ ماحول خوش گوار تھا۔ اسے قہقوں کی آواز کچن تک سنائی دے رہی تھی۔ کیک پر مزید کچھ ڈیکوریشن کی خاطر وہ یہاں موجود تھی۔ یوٹیوب سے مختلف ٹیوٹورئیلز کی مدد حاصل تھی کہ وہ فروسٹنگ میں کافی حد تک بہتر ہوچکی تھی۔
کیک کو آخری ٹچ دیتے اسنے پائپنگ بیگ سلیب پر رکھا۔ اسے کانچ کی پلیٹ میں سجا کر کچن سے باہر نکلی اور قدم ڈائننگ روم کی جانب بڑھائے۔
”آنی رکیں۔ میری ہیلپ کر دیں۔ یہ اٹھوالیں میرے ساتھ“۔ ڈائننگ روم کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ اوپر سیڑھیوں کی جانب سے طلحہ آواز پر وہ رک کر پلٹی۔ وہ ہاتھ میں اپنی اسکیچ بک، اسکیچ پینسلز، پینٹ کلرز، پینٹ برشز اور نجانے کیا کیا تھامے جس سے اکثر وہ ڈرائینگ کیا کرتا تھا سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ اتنے سب سامان میں وہ ننھی جان پیچھے کہیں چھپ کر رہ گئی تھی۔
”ارے طلحہ میرے ہاتھ میں کیک ہے۔ یہ سب ابھی کیوں نکال کر بیٹھے ہو“۔ وہ وہی کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔
”مجھے نہال چاچو کو دکھانے ہیں آنی۔ پلیز ہیلپ کریں ناں“۔ اس نے التجاء کی۔ تو نہال بڑی تیری سے انکل سے چاچو پر فائز کر دیا گیا تھا..... وہ واقعی اپنے چاچو کا بھتیجا تھا یک دم فاسٹ فارورڈ۔
 اسنے ناچار کیک کو واپس کچن میں رکھا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
”ابھی تو وہ کھانا کھا رہیں ہیں ناں۔ کھانے کے بعد لے کر آتے یہ سب“۔ سیڑھیاں کچھ فاصلے پر ہی تھیں۔
اسنے اسکیچ بک کی آڑ سے جھانک کر سیڑھیوں کے قریب آتی اپنی آنی کو دیکھا۔ پھر سیڑھیوں کی جانب دیکھا۔ ناجانے اسکے دماغ میں کیا سمائی کہ ایک قدم خود آگے بڑھ کر نیچے اسٹیپ پر قدم رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسکا توازن بگڑا، قدم لڑکھڑائے اور اگلے ہی لمحے وہ مرمرین سیڑھیوں پر لڑکتا چلا گیا۔ سامان ہاتھ سے چھوٹ کر ادھر ادھر بکھرتا چلا گیا۔
وہ وہی ساکت سی ہوگئی۔ قدم منجمد ہوئے تھے ساتھ دماغ بھی۔
کچھ ہی لمحوں بعد وہ فرش پر بے سدھ گرا پڑا تھا۔ پیشانی زمین پر لگی تھی اور قریب ہی زمین پر خون پھیلنے لگا۔ خون کو دیکھ اسکا جیسے سکتا ٹوٹا اور وہ بھاگی اسکے قریب چلی آئی۔
”بابا...حارث،زایان بھائی...“۔ اسکی چیخ سے گھر کی بنیادیں ہلی تھیں۔ آنسو ٹوٹ کر رخسار پر بہنے لگے۔ چوٹ کسی کی تھی اور درد کسی کو ہوا تھا۔ وہ اسے گود میں لیے ہتیلی سے اسکی پیشانی سے بہتے خون کو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔
کھانا ادھورا رہ گیا تھا۔ سب کرسیاں چھوڑ کر تقریباً بھاگے اور باہر چلے آئے۔ ہانیہ کے قدم دروازے پر ہی لڑکھڑائے تھے۔ کہی اندر کچھ ٹوٹ سا گیا تھا۔ سانس حلق میں ہی دبنے لگا تھا۔
لمحوں میں ہی خوش گوار ماحول پر خون بہہ گیا تھا۔ قیامت خیز منظر تھا اور سانسیں بس تھمنے کو تھیں۔
اسے کیسے اسکی گود سے اٹھایا گیا، کون کون گھر سے باہر کی جانب بھاگا کس نے گاڑی نکالی اورکون اسے اپنے ساتھ لیے بیٹھا سب بڑی رفتار سے ہوا تھا۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ وہ لان میں کھڑی رہ گئی تھی۔ گاڑی کو گھر سے باہر نکلتا دیکھ وہ وہاں کرسی پر ڈھے سی گئی۔ آنسو اب بھی روانی سے بہہ رہے تھے۔ اپنے ماں باپ کی اگر وہ جان تھا تو چاچو اور آنی کا جگر تھا۔ تو کیسے نہ ہوتا کہ اسکی تکلیف پر انکے جگر نہ کٹتے۔
داخلی دروازے سے گاڑی کو رخصت کرتے ہی وہ عباس صاحب کے ساتھ ہی لان میں داخل ہوا تھا۔ ارباز صاحب اور حارث کے ساتھ زایان اور ہانیہ بھی اسے لیے گئے تھے جبکہ آمنہ و زاہدہ بیگم، عباس صاحب اور وہ یہی ٹہرے تھے۔
لان میں قدم رکھتے ہی ایک بار پھر اسکے آنسوؤں نے اسے منجمد کیا تھا۔ آہ وہ کیسے اسے روکے......وہ کیسے اسے بتائے کہ یہ آنسو اسکے دل پر گر رہے ہیں۔
عباس صاحب اپنی دھی رانی کے سر پر کتنی ہی دیر ہاتھ رکھے اسے دلاسا دیتے رہے تھے۔اسے سمجھاتے رہے کہ وہ بچا ہے۔ اس عمر میں چوٹ لگنا اور گرنا عام ہے لہٰذا حوصلہ رکھے۔ وہ کتنی ہی دیر اپنے باپ کے سینے سے لگی آنسو بہاتی رہی جبکہ وہ وہی کھڑا رہا۔ یکایک ہی طلحہ کی قسمت پر اسے رشک آ نے لگا۔ کتنی بے لوث محبتیں پائی تھیں اسنے۔ اسکی ایک تکلیف پر آنسو بہانے والے بہت تھے۔ اسکا خاندان سائے کی طرح اسکا کاندھا بنے کھڑا تھا۔ اسکی چوٹ پر تڑپ جانے والے بہت تھے۔ تپتی دھوپ میں اسکی چھاؤں بننے والے بہت تھے۔اسکی آزمائش اپنے سر لینے والے بہت تھے۔کیا کسی نے اسے اب تک بتایا تھا کہ وہ کتنا خوش قسمت تھا۔ اگر نہیں تو نہال غازی آج بتانے والا تھا۔ آج وہ اسے سمجھانے والا تھا کہ رشتوں کی اہمیت کیا ہوتی ہے، انکی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ اس سے بہتر کون جان سکتا تھا ان رشتوں کی اہمیت۔
چیزوں کی اہمیت صرف وہی جان سکتا ہے جو ان چیزوں سے محروم رہا ہو۔ اور نہال غازی رہا تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک وہ ان رشتوں کے لیے تڑپتا رہا تھا۔ ایک عرصے تک انکی تلاش میں وہ مارا مارا پھرا تھا۔ نہال غازی ان انمول رشتوں کی اہمیت بہت اچھے سے جانتا تھا۔
                               ……(۰٭۰)……

”ارے ارم تم سمجھ نہیں رہیں۔ وہ ہاتھ میں آنے والی لڑکی نہیں ہے۔ اسے چلانا اسکے باپ کے بس کی بات نہیں تم مجھ سے کس طرح کی توقع رکھتی ہو؟۔ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے کسی کی نہیں سنتی“۔ انہوں نے کافی کا ایک گھونٹ بھر ا اور کپ دوبارہ ٹیبل پر رکھا۔ پھر پیر پر پیر ٹکائے بیٹھ گئیں۔ دائیں کان پر ٹکے فون میں پھر ایک جھلائی آواز سنائی دی تھی۔
”تمھیں کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی۔ ایک بار کہہ دیا کافی تھا۔ سجاد نے بھی سمجھایا وہ نہیں مانی۔ اپنے باپ کا بزنز چھوڑ کر جاب کرنا چاہتی ہیں میڈم۔ مجھے تو لگتا ہے کسی لڑکے کا ہی معاملہ ہے۔ ورنہ کون ایسی عالیشان زندگی کو چھوڑ کر دھوپ میں مسافت کی خواہش کرے“۔ اپنی بات کہہ کر وہ مقابل کی بات سننے لگیں۔ پھر کسی بات کی تردید پر نفی میں سر ہلایا۔
”جانتی ہوں تمھارے حالات میں۔ اس رشتے کا فائدہ امان کے لیے بہترین پوسٹ کی شکل میں ہوسکتاتھا لیکن یقین کرو تم ارحا کو ایک فیصد بھی نہیں جانتیں۔ انتہائی ہٹ دھرم اور سرکش قسم کی لڑکی ہے وہ۔ اور سجاد....... اسکے ایک بار کہنے پر اسے جاب کی اجازت دے دی۔ مجھے تو سجاد کی عقل پر ماتم کرنے کا دل کر رہا ہے“۔ انہوں نے کنپٹی مسل کر سر جھٹکا۔ وہ ہراساں دکھائی سے رہی تھیں۔
”امان خود محنت کیوں نہیں کرتا۔ اتنا پڑھا لکھا لڑکا ہے۔ اتنا ہینڈسم اسے تو کوئی بھی مل جائے گی۔ کیوں ارحا جیسی لڑکی کے ساتھ باندھ کر اسکی زندگی برباد کرنا چاہتی ہو“۔ دوسری جانب سے پھر کچھ کہا گیا۔ وہ اثبات میں سر ہلانے لگیں۔
”ہاں ہاں میں جانتی ہوں۔ مگر کیا کروں ارحا کو چلانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ امان کا فائدہ میں اچھے سے جانتی ہوں۔ اسے سجاد کے آفس بھیجو میں کچھ کرتی ہوں“۔
”ٹھیک ہے پھر کل بات ہوتی ہے۔ بائے“۔ انہوں نے کہہ کر فون کان سے ہٹائے سر جھٹکا۔ کپ اٹھائے ایک گھونٹ بھرنے لگیں۔ ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ اچانک ہی انہیں اپنی کچھ ساعتوں قبل کی گئی گفتگو سنائی دینے لگی۔ وہ بری طرح چونکی۔ دل حلق میں آن پہچا۔ ہاتھ پیر پھولنے لگے۔ آنکھوں میں تحیر و خوف پھیلتا چلا گیا۔ وہ کرنٹ کھا کر پلٹیں۔ سامنے وہی تھی۔ ہاتھ میں فون پکڑے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ کے سجائے۔ فون میں انکی چند لمحوں قبل والی رکارڈ شدہ گفتگو چل رہی تھی۔ آواز مکمل صاف تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگیں۔
”دیکھا۔ میرا اندازہ ٹھیک تھا۔ آپکی رگ رگ سے واقف ہوں میں۔ کیسے جھٹ سے اندازہ لگایا تھا اس دن کہ آپ میرا سودا کرنے چلیں ہیں۔ دیکھا ناں۔ ارحا انصاری کا اندازہ غلط ہو ایسا ممکن ہی نہیں“۔ وہ انکے بلکل قریب والی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔ ریکارڈنگ اب رک چکی تھی۔ وہ نگاہوں میں شرارت لیے انہیں دیکھ رہی تھی۔ انکی آنکھیں اب بھی خوف سے پھیلی تھیں۔
”مان گئے۔ مان گئے سیکڑیٹری صاحبہ۔ آپ کا سحر ہی نرالہ ہے۔ کیسے میرے باپ کو یوں چٹکیوں میں اپنی طرف کر لیتی ہیں آپ“۔ اب کہ اسنے ٹیبل پر دھرا کپ اٹھایا اور اپنے ہونٹوں سے لگایا۔ ایک گھونٹ بھرا اور واپس رکھا۔
”لیکن.......کیا ہوگا اگر میں یہ بابا کو دکھا دوں۔ سوچیں ناں...... کیسا لگے گا انہیں یہ جان کر کہ انکی چہیتی بیوی انکی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کا سودا کرنے چلی تھی“۔ وہ تھوڑی پر انگلی رکھے مصنوعی سا سوچنے لگی تھی۔
”ک کچھ نہیں ہوگا۔ میں مکر جاؤنگی۔ صرف آواز ہی تو ہے۔ ویسے ہی ایڈیٹنگ کا زمانہ ہے۔ عدالت میں ریکارڈنگز نہیں چلا کرتیں“۔ کمزور سا احتجاج تھا انکا۔ وہ کھل کر مسکرائی۔
”آں آں......... گھر کی عدالت میں سب چلتا ہے۔ یقین کریں آپ کے شانے چت کرنے کے لیے کافی ہے یہ“۔ اٹھلا کر بولی۔ لبوں پر مسکراہٹ انہیں ایک آنکھ نہ بھائی۔ زہر لگ رہی تھی۔ مگر ہائے بے بسی......
”کیا چاہتی ہو؟“۔ دانت کچکچا کر کہا گیا۔
”کچھ نہیں بس چھوٹا سا فیور.... آپ کو برا لگے گا۔ لیکن ہو کیرز (who cares) “۔ اسنے لا پرواہی سے شانے اچکائے۔
”کم ٹو دی پوائنٹ ارحا“۔ وہ بیزار تھیں۔
”بابا کو کیسے پھنسایا تھا؟“۔ عام و اسپاٹ سا انداز تھا۔ مگر وہ اچھل پڑیں۔
”واٹ!“۔
”اوہ کم آن۔ عام سا سوال ہے۔ لیکن اگر جواب نہ دیا توخمیازہ طلاق کی صورت بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے“۔ اسکا لہجہ بلکل عام تھا۔ دھمکی کا شبہ تک نہ تھا۔ وہ اسے الجھی نگاہوں سے دیکھے گئیں۔ انہیں اسکی دماغی کیفیت پر شک ہوا تھا۔ بہت جلد اس شک نے حقیقت اختیار کرجانی تھی۔
                                  ……(۰٭۰)……


وہ روم میں داخل ہوا تھا۔ کوٹ کو بیڈ پر پٹخے، ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا وہ بیڈ کی جانب بڑھا اور جوتوں سمیت تھکے انداز میں ڈھے سا گیا۔ چہرے کا رخ چھت کی جانب تھا جبکہ پاوں زمین پر لٹکے تھے۔ ہتیلی ماتھے سے ہوتی کنپٹی کو مسلنے لگی تھی۔ لب بھینچے تھے۔ آنکھوں نے سرخی اختیار کی تھی۔ضبط کی آثار چہرے پر نمایاں ہونے لگے تھے۔ اب کہ نچھلا لب دانتوں کو پہنچا تھا۔
ایک ہاتھ سے کنپٹی کو مسلتے جبکہ دوسرا پینٹ کی جیب سے موبائل نکال چکا تھا۔کچھ نمبر ڈائل کیے اسنے فون کان سے لگایا۔
”کچھ پتا چلا اس گھر کے بارے میں؟“۔ فون اٹھتے ہی اسنے پوچھا۔ آواز ضبط سے بھاری ہونے لگیتھی۔  

”وہ گھرپہلے کو محض خالی تھا اورثوبان عباسی کے ہی نام تھا۔ مگر اب وہ گھر بک چکا ہے اور.............“
”ایک منٹ......کیا کہا تم نے۔ وہ گھر بک چکا ہے؟“۔ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تھا۔ انداز مضطرب تھا۔
”لیکن....لیکن کب، کیسے، کیوں؟۔ تم کہاں تھے؟۔ تم نے کسی کو تو دیکھا ہوگا ناں وہاں آتے؟۔ کوئی تو آیا ہوگا گھر بیچنے؟۔ میرے نانا......میرے ماموں.....کوئی تو......کوئی تو ہوگاناں“۔کیسی آس تھی۔ کیسی لگن تھی۔ امید اور مان تھا۔ کہیں تو ہوگا ناں کوئی اس سے محبت کرنے والا۔ کوئی تو ہوگا ناں جو اپنے خون کو اپنی آگوش میں بھینچنے کا دردسینے میں لیے اسکا منتظر ہو۔ کوئی تو اسکی دید کا درد لیے جاگ رہا ہوگا۔
”نہال میں ملک سے باہر تھا۔ پیچھے کیا ہوا میں نہیں جانتا۔اور تم نے بھی تو میرے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ اگر سب کچھ خود تک رکھنے کی تمھاری ضد نہ ہوتی تو میں کسی اور کو یہ کام سونپ دیتا۔مجھے لگا تھا ایک ماہ کی بات ہے۔ جس گھر کی سالوں سے خبر نہ ملی ایک ماہ میں اسکا کیا بگڑ جائے گا۔ میں تو خود حیران ہوں کہ سالوں کاکھیل یوں لمحوں میں کیسے بکھر گیا........“ آگے اسکے الفاظ فون کی چھنکار میں دب چکے تھے۔ پوری قوت سے فون وہ دیوار پر مار چکا تھا کہ کچھ باقی تھا تو محض کرچیاں۔
اب کہ ماتھا ہاتھ میں تھما تھا۔ وہ بیڈ سے اتر کر زمین پر بیٹھتا چلا جارہا تھا۔ وہ مرد تھا۔ ایک مضبوط اور تواناں مرد مگر انسان تھا۔ جذبات سے بھرپور ایک جیتا جاگتا انسان۔ جو ٹوٹتا بھی تھا بکھرتا بھی تھا اور ازخود مندمل بھی ہوتا تھا۔
نجانے جب سے محبت نے پنجے گاڑے تھے تب سے اپنے نسب کا ادھورا پن اسے کیوں کھٹکنے لگا تھا۔ اس ظالم سماج کے سفاک رواج اسے اپنی محبت کی مسافت میں ایک مضبوط دیوار کی طرح حائل ہوتے محسوس ہوتے تھے۔
کیوں نہ ہوگا ایسا کہ وہ اس پری رخ کا ہاتھ مانگنے جائے اورنسب کو سوالیہ نشان بنا کر اسکے سامنے نہ رکھا جائے۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ اسکی ذات تحقیق و تدقیق کا نشان نہ بنے۔جواب کیا ہوگا؟۔ یہاں تو جواب خود ایک سوالیہ نشان تھا۔ دلیل.....سچ.....ثبوت..... کچھ بھی تو نہ تھا اسکے پاس پیش کرنے کو۔محض پوری لہہ پر دوڑتے محبت سے بھرے اس شفاف قلب کے علاوہ۔
وہ سر بیڈ سے ٹکا کر آنکھیں موند گیا تھا۔نیند کوسوں دور تھی اور درد کی شدت زور پکڑنے لگی تھی۔ ضبط کا دامن اب بھی تھام رکھا تھا۔ آنکھیں ہنوز خشک تھیں۔ ذہن بھٹکا تھا۔ عمر گھٹنے لگی تھی اور ایک بار پھر اٹھائس سالہ نہال غازی کی جگہ آٹھ سالہ نہال غازی نے لی تھی۔
وہ لاؤنج کے کارپیٹ پر التی پالتی مارے زمین پر رکھی اسکیچ بک پر نقشہ کھینچنے میں مصروف تھا۔کلر پینسل سے اسکے ہاتھ ایک عورت کے چہرے پر رنگ بھر رہے تھے۔تصویر کا منظر واضح تھا۔ نہال غازی کی ایک چھوٹی سی دنیا جو اکثر ان تین چہروں کے گرد گھوما کرتی تھی۔ ایک وہ خود اور دوسرا اسکے والدین۔ ایک مکمل فیملی جو اسکا مقدر نہ تھی۔
ہاتھ بڑی تیزی سے کام کر رہے تھے کہ دفعتاً ہی فون کی رنگ پر تھم سے گئے۔ اس سے ذرا فاصلے پر صوفے کی قریب سائڈ ٹیبل پر رکھا انٹرکام چیخ رہا تھا۔ وہ نظر انداز کیے کام میں مصروف رہا کہ جانتا تھا باپ کے روم میں موجود انٹرکام پر کال خود ہی اٹھا لی جائے گی۔ اندازہ ٹھیک تھا۔ چند ہی ساعتوں بعد سناٹا چھایا تھا۔
مگر نجانے اسکے دماغ میں کیا سمائی کہ وہ کلر پینسل کو اسکیچ بک پر پٹختا اٹھا اور ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور کان سے لگایا۔ دوسری جانب سے ابھرتی آواز اسکا حلق تک کڑوا کر گئی۔ نفرت کا ایک احساس اسکے رگ وپے میں سرایت کر گیا۔ یہ آواز اسے ازبر کیسے نہ ہوتی جو اسے اس دن غنودگی کے آخری لمحے تک سنائی دی تھی۔
اسنے اگلے ہی لمحے فون کریڈل پر پٹخ دینا جاہا مگر دوسری جانب سے ابھرتے الفاظ اسے تھمنے پر مجبور کرگئے۔
”نہیں ماں۔ نہال نہیں تو میں بھی نہیں۔ ایک بیٹے کو خیر آباد کہہ دیں آپ۔ آپ کا یہ بیٹا اپنی یہ زندگی اپنی اولاد کے لیے صرف کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔جب ایک پوتے کا دل چھلنی کیے آپ اپنے دوسرے پوتے کی سالگرہ کی خوشی میں دعوت رکھ سکتی ہیں تو بیٹے کا انکار سننے کی ہمت بھی متجمع کیجئے۔میں..... نہال کے بغیر....... کہیں.....نہیں..... جاؤنگا“۔ آخری الفاظ چبا چبا کر کہے گئے تھے۔
”اس غلیظ اور ناجائز خون کے لیے اپنی ماں سے بغاوت مت کر غازی۔تیری عمر ہی کیا ہے ہاں؟۔ ارے سو سامنے کھڑی ہونگی۔ تیری وجاہت تیری نسلوں میں چلے گی۔ اس جیسے بہت آئینگے۔ کیا رکھا ہے اس میں کہ اپنی زندگی اسکے پیچھے برباد کرنے چلے ہو؟“۔
”ناجائز“۔ کریڈل کو مضبوطی سے تھامے اسنے یہ لفظ زیرِ لب دہرایا تھا۔معصوم آنکھوں میں اضطراب اور اچنبھا رقم تھا۔
”ماں ماں کوڑا دان سے اٹھائی گئی کوئی بے مول شے نہیں ہے وہ۔ جیتا جاگتا خون ہے۔ غازی خاندان کی ایک نسل...... ہمارا خون ہے وہ“۔دھاڑ کی آواز جیسے کان کے پردوں کو چیرتی ہوئی اسکے پورے بدن میں سنسناہٹ سی دوڑا گئی۔سہمے ہاتھوں نے فون کریڈل پر پٹخ دیا۔قدموں نے سیڑھیوں کا رخ لیا۔ آخری داہنے پر بنے اس کمرے کے دروازے کے بند ہونے کی بھیانک آواز عدیل صاحب تک بخوبی پہنچی تھی کہ ان کے ہلتے لب یکایک ہی جامد سے ہوئے تھے۔ماحول پر چھاتی گہری خاموشی نے گھر کی درودیوار میں ویرانی سی بھر دی۔ کار پیٹ پر پڑی اسکیچ بک میں واضح ہوتے اس منظر کی طرح.... بے رنگ اور ویران.........
                                      ……(۰٭۰)……

 
AoA.
Heran hen?? Hona bh chaiyeh... Shyd adha saal nikal gaya is kitab k warqon ko palte.. h na?? Koi nhi.... kehte hen jitni purani kitab hoti h utna hi taza dm kr deti h... Yeh nhi kahungi k Purani Ammara ki tarah ek episode ek hafte me mile ga... Q k woh velli thi..😂 yeh Ammara shadi k baad zra zimedar hogayi h....
Mgr is Ammara ko bh agr ap waisey hi support krengey jaisey pehley kya krte the to mujhey khushi hogi... Jitni khushi utni motivation... Jitni motivation itne hi episodes... Entertainment apke liye or shok mera... H na?? To chlen shabash... Prh lya h to zra vote button pr click kr den... Or comment section zyada nhi to thora hi bhr den... Khorak ki tarah hote hen yeh reviews hm writers k liye...itni mehnat k baad agr hme pta hi na chle k hm ne kaisa likha or ap logon ko kaisa lga to dil to bura hoga na... H na???

املا کی اغلاط کی لیے معذرت۔ میں پروف ریڈ کے لیے وقت نہیں نکال پائی۔۔

Continue Reading

You'll Also Like

4.7K 406 48
this is a kind of fantasy . like imagine that the worldwide famous boy band BTS will be Desi ....what will happen 😂 I think this is amazing to just...
52 4 1
(سفرِ محبت) is a love story of Syed Romaan Meer and Hoor-e-Arsh, set-up in the backdrop of Pakistani bureaucratic culture It is a story of silent lo...
20K 1K 21
That's my first story ... hope u like it .... and if u like so don't forget to vote and place your precious comments 😊😊
5.5K 472 25
شرارتوں اور الجھنوں بھری اک کہانی❤۔۔۔دوستی کے سنگ جینے کی، ماضی کے دریچوں میں جکڑے لوگوں کی، کسی کی محرومیوں کی، کسی کے شرارتوں کی، اور کسی کی محبت ک...