Episode 3

217 18 9
                                    

جعفری ہاؤس میں خوشی کی نئی لہر دوڑ چلی تھی۔ اسکے لوٹ آنے سے جیسے مرجھائی کلی کھل اٹھی ہو۔ وہ مسکراہٹیں بکھیرتا، ٹانگ کھینچتا اس گھر اور گھر واسیوں کی جان تھا۔ جہاں طلحہ اپنے عزیز از چاچو کے آنے پر چمک اٹھا تھا، وہی آبش کی صبح سے بجی ہوئی تھی۔ حارث کے ہوتے اسے سکون کہاں میسر آنا تھا۔ اسکا فرمائیشی پروگرام جو شروع ہوا تو ختم ہونے کا نام نہ لے۔ نجانے اسے ستا کر اسکی روح کو کس طرح کی تسکین پہنچتی تھی۔ کبھی انکاری ہوجانے پر اسکے آگے پیچھے پھرتا تو کبھی آتے جاتے اسکے بال کھینچ کر "ہیلو آبشار" کہتا نکل لیتا۔ خود کو مہذب کہنے والا یہ شخص شیطانیت بھی بڑے مہذبانہ انداز میں کیا کرتا تھا۔
مگر قابل بیاں تو اسکی آبشار کے دل کی داستاں تھی۔ وہ جو اوپر سے روٹھی مگر اندر سے راضی تھی۔ دل کی دنیا باغ ہونا کیا تھا کوئی اس سے پوچھتا۔ اسکی فرمائش پر روٹھتی نخرے دکھاتی پھر پورے دل سے اسکی مطلوبہ چیز تیار کرتی۔سارے اجزا دل بن جاتے۔ سرو کرتی تو ایسے جیسے پلیٹ میں بھی اپنا دل ہی رکھا ہوکہ لو چٹ کر لو تمھارا ہی تو ہے۔ اور وہ چٹورے بھرتا،چٹ چٹ کھاتا پھر عیب نکالتا اور اسکی تپ جاتی۔ خود سے وعدہ کرتی کہ اب کچھ نہیں بنائے گی لیکن ہائے محبت۔
مگر آج وہ صبح سے روٹھی سی تھی۔ ایک تو گرمی اوپر سے اسکی بدمعاشیاں۔ اسکا دماغ پک رہا تھا۔ اور تو اور اب تک وہ چاکلیٹ بھی دینے نہیں آیا تھا۔ دے کر اسے منا ہی جاتا۔ خیر وہ جانتی تھی وہ آئے گا۔
تو وہ آگیا تھا۔ بڑے سے سوٹ کیس کو گھسیٹتا لاؤنج کی جانب۔ جہاں سب بیٹھے تھے۔ ارباز صاحب اور عباس صاحب آدھا گھنٹا قبل ہی آفس سے لوٹے تھے اور اب چائے کا دور چلا تھا۔ اسنے چہرہ موڑے اسے دیکھا۔ وہ اسی کو نظروں میں بھرے مسکرا رہا تھا۔ اسنے روٹھ کر چہرہ پھیرلیا۔
"ارے حارث اب تو دکھاؤ کیا لائے ہو۔ اب تو سب حاضر ہیں"۔ ہانیہ نے کہا۔اسنے سوٹ کیس لاؤنج کے وسط میں رکھا اور آبش کے برابر ہی صوفے پر براجمان ہوا۔
"بھائی جان کہاں ہیں"۔ زایان کو عدم موجود پا کر بولا۔
"وہ آفس میں ہے۔ کچھ ضروری کام سے رک گیا تھا"۔ ارباز صاحب نے جواب دیا۔ وہ سر ہلا گیا۔ تبھی کچن کی جانب سے اپنے ننھے پیروں پر بھاگا بھاگا طلحٰہ چلا آیا۔ اسکے ہاتھ پھیلے تھے جیسے آتے ہی فوراً چاچو کو سینے میں بھینچ لے گا۔ مگر اتنے بڑے چاچو اس ننھے سینے میں کہاں سمانے تھے۔
"چاچو جان چاچو جان پہلے میرا گفٹ۔ آپ میرے لیے کیا لائے ہیں"۔ اسکے سینے سے لگے اسکی معصومیت حدوں کے پار تھی۔ "اینڈ سوری چاچو جان مما کو پتا لگ گیا کہ فیک لزرڈ آپ نے مجھے دی تھی"۔ اسکی سرگوشی پر اسنے اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔
"کیا یار ہیرو۔ چاچو کا ایک سیکریٹ بھی نہیں رکھ پایا اب بھول جا اپنا گفٹ"۔
"اچھا سوری ناں۔ پلیز بتائیں ناں کیا لائے ہیں"۔ وہ اسکی گود سے اچھل کر باہر آیا۔پھر بھاگتا اس سوٹ کیس کی جانب بڑھا اور اسے کھولنے کی تگ ودو میں لگ گیا۔ وہ بھی اٹھ کر اسکے قریب چلا آیا۔ اسے اٹھا کر سائیڈ میں کیا اور خود کھولنے لگا۔
"تحمل رکھ لالچی کیڑے"۔ بیگ کھل چکا تھا۔ وہ زمین پر دوزانو بیٹھا تھا۔
"ٹرپ کیسا رہا حارث"۔ چائے کی چسکیاں بھرتے عباس صاحب نے کہا۔ وہ بیگ سے ایک ایک چیز نکال کر سامنے رکھ رہا تھا۔
"شاندار چاچو جان۔ شوگران اور سیف الملوک کا سفر بہترین رہا۔ دونوں کے راستوں پر بڑا انجوائے کیامیں نے"۔ طلحٰہ اسکے ہاتھ آتی ہر ہر چیز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ کبھی خواتین کے لیے لائے گئے سوئیٹرز پر منہ بناتا تو کبھی مردوں کی جیکٹس اور گھڑیوں پر۔ اسکے مطلب کی چیز آکر ہی نہیں دے رہی تھی۔
"بس تم سے یہی امید تھی۔ Dare devil بنے کا برا شوق ہے تمھیں"۔
"چاچو جان میرے لیے کیا لائے ہیں"۔ اسکا صبر جواب دے گیا تھا۔ جھلائی آواز میں بولا تھا۔
"ابے پگلے۔ اپنی خالہ پر گیا ہے بلکل۔ صبر نام کی چیز ہی نہیں ہے"۔ اپنے تبصرے پر اسنے فوراً اس جانب دیکھا تھا۔ وہ مسکراہٹ دبائے اسے دیکھ رہا تھا پھر گھوری سے نوازہ گیا۔
"یہ لے تیرے لیے یہ لائے ہیں تیرے چاچو"۔ اسنے بیگ سے جو نکالا تھا اسے دیکھ اسکی تو آنکھیں ہی نکل آئی تھیں۔ کبھی اسے دیکھتا تو کبھی اسکے ہاتھ میں تھمے اس پلے اسٹیشن کو جیسے حقیقت کا یقین کرنا چاہا ہو۔
اسے یقین کیا ہوا پورا لاؤنج ہی اسکی خوشگوار چیخوں سے گونج اٹھا۔ وہ فوراً اس سے لپٹ گیا تھا۔
"اوہ چاچو۔ آئی لو یو سو مچ"۔ وہ اسکے گلے سے لگا کہہ رہا تھا۔ اسنے اسے فوراً خود سے جدا کیا۔
"ابے ہٹ۔ بھتیجا بن، دوست بن، محبوبہ نہ بن"۔ اسنے ایک پل کو منہ بنایا پھر فوراً ہی اسکے ہاتھ سے پی ایس فور لینے لگا۔ لیکن تھام نہ پایا کہ وہ بھاری تھا۔ حارث نے جب اسے لاؤنج میں بچھے کارپیٹ پر رکھا تو وہ اسکے سرہانے ہی بیٹھے اسے تکنے لگا۔ انداز ایسا تھا کہ سامنے محبوبہ ہو اور وہ مجنو بنے دن رات بس اسے ہی تکتے رہنا چاہتا ہو۔
وہ تو اپنی مطلوبہ چیز پا کر خاموش ہو لیا تھا۔ جبکہ وہ ہر ایک ایک چیز نکالے انہیں دکھانے و بانٹنے میں محو تھا۔
گاہے بگاہے ایک نظر اس روٹھی حسینہ پر ڈالتا، مسکراتا اور پھیر لیتا۔ اسکی ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔
ارباز صاحب و عباس صاحب کو پنڈی پوائنٹ کے راستے سے خریدی گئی گھڑیاں اور مال روڈ سے خریدی گئی جیکٹس جبکہ ہانیہ کو ایک خوبصورت سا سوئیٹر، ساتھ میں چوڑیاں اور چند مزید زیورات۔
آمنہ بیگم و زاہدہ بیگم کے لیے نفیس سی شال جبکہ زایان کے لیے وہ اپنی طرح کی چیزیں اٹھا لایا تھا۔ شوخ رنگوں پر مبنی جیکٹ اور اسمارٹ واچ، کچھ ٹی شرٹس جس پر عجیب و غریب تصاویر بنی تھیں۔ چند ایک ہائی نیک۔ اور ڈھیر ساری چاکلیٹ جسے دیکھ صوفے پر بیٹھی آبش کا دل للچا اٹھا تھا مگر کمال ضبط کا مظاہرہ کرتی وہ خاموش رہی تھی۔ اب کہ جب سب اپنی اپنی چیزوں کو دیکھتے تعریفیں تاکنے میں سرگرداں تھے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ایک نظر اس پر ڈالتا وہ لاؤنج سے باہر نکلتا چلا گیا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں غایب ہوا پھر چند لمحوں میں واپس نمودار ہوا۔ سیڑھیاں پھلانگتا لمبے لمبے قدم اٹھاتا پھر لاؤنج میں داخل ہوا۔ اب کہ اسکے ہاتھ میں رفیلو کا ڈبا تھا جس میں چاکلیٹ ریپر سے پاک برہنہ پڑی تھیں۔ ساتھ میں آئی پیڈ پرو کا باکس۔ وہ آتے ہی اسکے قریب رک کر اسے دیکھنے لگا۔ مگر اسنے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اب بھی خفا ہے۔ وہ دھیما و نرم سا مسکرایا۔ اسکا ہر انداز وار تھا دل پر، قاتل تیر سا۔
وہ جھکا تھا۔ تھوڑا سا اسکی جانب۔ ڈبے اسکی گود میں رکھے۔ اسکی سایہ گیر پلکوں کو تکنے لگا...۔
جھکے سر سے کیچر میں قید ہالف بالوں کی ایک شرارتی لٹ نے اچانک ہی رخسار کا احاطہ کیا۔
اسکی آنکھیں موندی اور منہ سے ایک پھونک سی آزاد ہوئی۔
لٹ پھڑپھڑائی، دھڑکنیں ایک لمحے کو ساکت ہوئی تو اسنے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ پیچھے ہٹا اور مسکراہٹ اچھالتا آگے بڑھ دیا۔ نظر جب اپنی گود کی جانب اٹھی تو لب بتدریج مسکراہٹ میں پھیلتے چلے گئے۔ ناراضگی چھٹی تھی۔ محبت نغمے گانے لگی تھی۔
لاؤنج کے دروازے میں چڑچڑھاہٹ سی پیدا ہوئی تو سب نے سر اٹھایا۔ زایان کو ہاتھ میں ایک لفافہ تھامے اندر داخل ہوتا پایا۔
"ارے اسلام علیکم برو۔ طبیعت نہیں پوچھونگا کہ فٹ فاٹ لگ رہے ہو۔ بھابی نے بہت کھلایا ہے لگتا ہے"۔ وہ فوراً اسکے بغل گیر ہوا تھا۔
"وعلیکم اسلام! آگیا میرا نالائق ہیرو شوخیاں مار کر"۔پیٹھ تھپتھپائے کہا گیا۔
"کیا بھیا۔ یہ کامپلیمینٹ کے ساتھ تھپڑ والی باتیں مت کیا کرو"۔ اس سے دور ہوتا وہ بدمزہ ہوا۔
"تمھارے پیچھے بھی کافی تھپڑ پڑتے رہے ہیں تمھیں"۔ ہانیہ کے کہنے پر نا سمجھی سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔ تھکا ہارا زایان اپنی سانس بحال کرنے کی خاطر صوفے پر براجمان ہوا تھا۔
"مگر اب مجھے لگتا ہے کہ بابا کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ یہ نوٹس غازی انڈسٹری کی طرف سے آیا ہے۔ ذرا غور فرمائیں بابا"۔ اپنے ہاتھ میں تھما لفافہ ارباز صاحب کی جانب بڑھاتا وہ بولا تھا۔ ارباز صاحب وہ لفافہ تھامے اسے کھولنے لگے تھے۔ حارث لاؤنج کے وسط میں کھڑا صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ صوفے پر بیٹھی آبش کے کان غازی انڈسٹری کے ذکر پر کھڑے ہوئے تھے۔
لفافہ کھولے اسے پڑھنا شروع کیا تو ہر ہر لفظ پر انکی آنکھیں خوشی کی ایک نوید سناتی تھی۔آبش کے تجسس کو بے چینی کی ہوا لگ چکی تھی۔
"یہ کیسے ہوگیا زایان۔ مطلب سر پر منڈلاتا رسک اتنی آسانی سے چھٹ جائے گا میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا"۔ وہ پر جوش سے دکھائی دے رہے تھے۔
"میرے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا بابا کہ سب اتنا آسان ہوجائے گا۔ چچا جان ذرا آپ بھی آنکھیں ٹھنڈی کر لیں"۔ نوٹس اب عباس صاحب کے ہاتھ تھا۔ خوشی کے جلترنگ انکی آنکھوں میں بھی جلتے دکھائی دے رہے تھے۔
"کیا ہو رہا ہے ادھر کوئی مجھے بتائے گا"۔ حارث کا تجسس جواب دے گیا۔ وہ جھنجھلایا سا تھا۔
"نہال پارٹنر شپ کرنا چاہتا ہے۔یہ تو بہت اچھا ہوگیا بھائی جان۔ اور دیکھا جائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ڈیل کافی بڑی ہے کہ اگر بٹوارا ہو بھی جائے تو منافع پھر کافی زیادہ ہے"۔
"نہال غازی پارٹنر شپ کرنا چاہتا ہے؟"۔آبش کی آنکھیں نکل آئی تھیں۔
"اسے میں اسکی حماقت سمجھوں یا عقل مندی کا مظاہرہ؟"۔حارث جو اس گفتگو کو کاروباری بک بک قرار دے کر اپنے موبائل کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔ آبش کی مداخلت پر اسکا ماتھا ٹھنکا تھا۔
"عقل مندی سمجھو۔ ڈیل اسکے ہاتھ نہ آتی تو اسکی کمپنی کو بہت نقصان پہنچتا۔اور کایا پلٹ میں ہمارے ساتھ ایسا ہوتا۔ تو میرے خیال میں بہترین فیصلہ کیا ہے اس نے"۔ زایان اسکی حمایت کیے نہیں تھک رہا تھا۔
"صرف بہترین نہیں بہت دانشمند اور شاطرانہ فیصلہ کیا ہے اس نے۔ ایم امپریس"۔ کیسے پھول چھڑ رہے تھے۔ آبش بد مزہ ہوئی تھی۔
"تو مطلب اب اس ڈیل میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہوگا کیا"۔ آبش نے سوال کیا تھا۔ ارباز صاحب نفی میں سر ہلا گئے۔
"یہ پراجیکٹ اب بھی تمھارے اور حارث کے ذمے ہی ہے۔ اب جلد از جلد ایک بہترین سی پریزنٹیشن تیار کر کہ ہمیں ان کے سامنے رکھ دینی چاہیے"۔ ارباز صاحب کی بات پر وہ ذرا پر سکون ہوئی مگر وہی دوسری جانب حارث کا سکون غارت ہوتا دکھائی دیا۔
"کون سا پراجیکٹ؟؟....کون سی ڈیل آبش؟۔ یہ سب کب ہوا مجھے کوئی سمجھائے گا"۔ بے یقینی اسکے لہجے سے عیاں تھی۔
"تمھارے پیچھے یہی سب ہوتا رہا ہے"۔ ہانیہ نے گزشتہ منظر سامنے رکھا۔ وہ مزید بوکھلایا۔
"لیکن بابا۔ اتنی جلدی۔ وہ بھی اتنا بڑا پراجیکٹ........ مگر کیسے۔ ابھی تو میری پڑھائی اختتام کو پہنچی ہے۔ ابھی تو فیرویل تک نہیں ہوا۔ اسکی تیاریاں پھر ہماری پرفارمینس آبش۔ اس سب کا کیا ہوگا"۔ وہ ہراساں سا تھا۔
"فیرویل کی تمام تیاریاں تمھارے پیچھے ہو چکی ہیں حارث ہمیں صرف گانے کی پریکٹس کرنی ہے۔ دھن ہمیں ازبر ہے بس ووکلز پر تھوڑا دھیان دینا ہے۔ اتنا مشکل کام نہیں ہے یہ۔ پریزنٹیشن کے ساتھ ہوتا رہے گا یہ بھی"۔ اسکے اتنے پرسکون لہجے پر اسے حیرتوں نے آ گھیرا تھا۔
"پریزنٹیشن کب سامنے رکھنی ہے؟"۔ اب کہ اسنے ارباز صاحب سے سوال کیا تھا۔
"تقریباً ایک ہفتے بعد"۔
"ٹھیک ہے پھر۔ فیرویل ہمارا پرسو ہے۔ ہوجائے گا حارث"۔ اس نے اسے پر سکون کرنا چاہا۔
"مگر یاد رکھنا۔ نہال کے معیار پر اترنا ہے تم دونوں نے۔ ایسے پلانز سامنے رکھنے ہیں کہ وہ متاثر ہوئے بنا رہ نہ سکے"۔ عباس صاحب نے کہا تھا۔ اب کہ حارث کی بھنویں بھینچ سی گئی تھی۔ کچھ پر سوچ سے انداز میں وہ گویا ہوا۔
"مجھے ڈیل کی تمام تفصیل چاہیے بابا"۔
"وہ میں تمھیں ای میل کر دونگا"۔ زایان کا جواب آیا۔
"ٹھیک ہے پھر۔ پہلی پریزنٹیشن ایک ہفتے میں آپ کے سامنے ہوگی۔ آپ مجھے نہال غازی کے معیار سے کافی اونچا پائینگے"۔ لہجہ ایسا تھا جیسے چیلنج قبول کیا ہو۔ وہ اپنی بات کہہ کر لاؤنج سے باہر چل دیا۔ لاؤنج میں گہرا سکوت چھایا تھا۔ اسکا ڈیل کو چیلنج لینا عام بات نہ تھی۔ جانتے تھے وہاں بیٹھے نفوس کہ اب اس چیلنج پر پورا اترنے کی خاطر وہ دن رات ایک کرے گا اور بہترین سے بہترین کام انکے سامنے رکھے گا کہ حارث جعفری کے لیے چیلنج محض ہار جیت کی بازی نہ تھا۔ زندگی و موت کا کھیل تھا کہ ہار اسکے اندر کو موت کے گھاٹ اتار دیتی جبکہ جیت کو وہ زندگی کی اول ترجیع گردانتا تھا۔
......(۰٭۰)......
بیڈ پر رکھے لیپ ٹاپ کی روشنی اسکے چہرے پر چاندنی بکھیر رہی تھی۔ اسکے حسین نقش پر چشمہ ٹکا تھا جسے وہ لمحہ بہ لمحہ انگلی کی پور سے پیچھے کھسکاتی، تو کبھی بھورے بالوں کے میسی جوڑے سے نکلی ان آوارہ لٹوں کو سنبھالتی۔
ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس وہ ایک پیر بیڈ پر پالتی کے انداز میں ٹکائے جب کہ دوسرا پیرا کھڑا کیے ذرا جھک کر بیٹھی تھی کہ اسکی گردن سے ذرا نیچے کالر بونز صاف نمایا ہوتی تھیں۔
ماتھے پر شکنوں کا جال تھا اور بھنویں بھینچی تھی۔ سامنے کھلے اس فیس بک کے سرچ بار پر اس نے ایک نام ٹائپ کیا تھا۔ نتیجے میں ڈھیر سارے پیچ اسکے سامنے آتے چلے گئے۔ ایک نام پر مختلف پروفائل فوٹوز۔ اسکی بھنویں مزید بھینچ گئیں۔ غور ہر ایک پروفائل پر کیا جانے لگا۔ ٹج پیڈ پر چلتا ہاتھ دھیرے دھیرے اسکرول ڈاؤن کیے جاتا تھا کہ وہ اچانک ہی ایک پروفائل پر آکر تھم سی گئی۔ ایک کلک پر پیج اسکے سامنے کھلتا چلا گیا۔ تنی بھنویں سیدھی ہوئیں۔ آنکھیں چمک اٹھیں اور لب مسکراہٹ میں پھیلتے چلے گئے۔ اسنے پروفائل فوٹو پر کلک کیا تو وہ مسکراہٹ بکھیرتی تصویر اسکے دل میں اپنا گھر کر گئی۔
"حارث جعفری....... یہ نام ہی میرے دل پر اپنی چھاپ چھوڑ گیا"۔ بایو ڈیٹا میں اسکا نام پڑھے اسکے لبوں نے دھیمی سی سرگوشی کی تھی۔
"عمر پچیس سال۔ ناٹ بیڈ"۔ اب کہ اسکی نظر ہر ہر تصویر کو بغور دیکھ رہی تھی۔ کبھی کچھ تلاشتی تو کبھی جملے کستی۔ کبھی مسحور کن انداز میں تکے رکھتی تو کبھی موبائل کے ذریعے تصویر اتارتی کے بعد میں پرنٹ آؤٹ کروا سکے۔ اسکا ہر انداز اسکے دل میں اترتا جاتا تھا۔
اب کہ وہ دوبارہ ایک تصویر پر تھم سی گئی تھی کہ جیسے کوئی کام کی چیز ہاتھ لگی ہو۔ اسنے بغور اس تصویر کو دیکھا۔
جاندار مسکراہٹ نے تصویر میں موجود اس نقش کے لبوں کا احاطہ کر رکھا تھا۔ ایک ہاتھ پھیلا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ اپنے برابر کھڑے اس لڑکے کے شانے پر ٹکا تھا۔ انکے مشابہت رکھتے چہروں سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ اسکے ساتھ کھڑا وہ اسکا بھائی تھا۔
مگر اسکی توجہ کا مرکز اس تصویر میں موجود نفوس نہ تھے۔ پیچھے کچھ دھندلائے بیگ گراؤنڈ کو وہ آنکھیں چھنڈائے بغور دیکھ رہی تھی۔ دیوار پر بڑا سا لوگو بنا تھا۔ جسکے نیچے لکھا نام پڑھنا مشکل تھا مگر نا ممکنات میں سے نہیں۔ اسنے اپنا چشمہ ناک پر ذرا پیچھے کھسکایا۔ چہرہ لیپ ٹاپ کی اسکرین میں تقریباً گھسنے کو تھا۔ آنکھیں مزید چھوٹی ہونے لگی۔ کچھ تگ ودو کی گئی اور اسکی آنکھیں یکا یک چمک اٹھی۔
"اے زیڈ جعفری انڈسٹریز"۔ اِرحا انصاری کے لبوں سے سرگوشی آزاد ہوئی تھی۔
......(۰٭۰)......
وہ دروازہ کھول کر گاڑی سے اترا۔ صبح کے بنے بال اب بکھر چکے تھے۔ کوٹ بازو پر تھا اور ٹائی ڈھیلی پڑی تھی۔ اسنے دروازہ بند کیا۔ قدم اٹھائے اندر کی جانب بڑھنے لگا جہاں عبدل اسکے انتظار میں کھڑا تھا۔ عبدل کے سلام پر جواب دیتا وہ آگے بڑھ دیا۔ وہ اسکے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ لاؤنج میں قدم رکھا وہ خلافِ معمول خالی تھا۔ اسکے قدم تھم گئے۔ عبدل کے بھی قدم تھم گئے۔
"بابا کہاں ہیں؟" اسنے مڑے بغیر سوال کیا۔
"جی آپ کی واپسی میں دیری پر وہ دوبارہ اپنے روم میں چل دیے تھے۔ آپ فریش ہو کر آجائیں بابا میں انہیں اطلاع دے دیتا ہوں"۔ اسکے تابعدرانہ انداز پر سر اثبات میں ہلاتا ہنکارہ بھر گیا۔ قدم پھر سے چل دیے۔ وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ سیڑھیوں کے کنارے پر پہنچتے ہی اسکا کمرہ سامنے تھا۔ اس نے اندر قدم رکھا تو اندھیرے نے استقبال کیا۔ اسنے سویچ بورڈ پر ہاتھ مارے لائٹ آن کر دی۔ قدم بیڈ کی جانب بڑھایا۔ کوٹ کو بیڈ پر پٹخا اور ٹائی گلے سے آزاد کی۔ پھر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھے اس میں غائب ہوا۔ واپسی ہوئی تو ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔ بال گیلے تھے اور چہرہ دھلا دھلایا تھا۔ گرمی کی شدد تھی کہ اسنے بال بھی پونچھنا گوارا نہ کیا۔ قدم ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھا دیے۔ قریب پہنچ کر خود کو آئینے میں دیکھنے لگا۔ گیلے بال ماتھے کو بوسہ دے رہے تھے۔ اس نے برش اٹھایا۔ اسے بالوں میں پھیرے وہ کب انہیں صبح والا اسٹائل دے گیا اسے اندازہ ہی نہ ہوا۔ نظریں اب بھی اپنے چہرے پر جمی تھی۔ دوسروں کی تو خبر نہیں۔ مگر شاید اسنے کبھی اپنے لبوں کو مسکراتا نہ دیکھا تھا۔ وہ جانتا ہی نہ تھا کہ وہ ہنستے وقت کیسا دکھتا تھا۔ ہمیشہ اسی طرح بھینچے لب اور تنی بھنویں۔
بہر حال اسنے برش دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل پر دھرا۔ ذرا ہاتھ بڑھائے پرفیوم کی بوتل اٹھائے خود پر چڑھکاؤ کرنے لگا۔ پورا کمرہ پوائزن کی خوشبو میں مہک اٹھا۔ پرفیوم دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ قدم پھر روم کے دروازے کی جانب اٹھا تھا کہ فون کی رنگ اسکے قدموں کو منجمد کر گئی۔ وہ پلٹا سائڈ پر رکھے فون کی جانب بڑھنے لگا۔ قریب پہنچا تو پیغامی اطلاع منتظر تھی۔ اسنے فون اٹھایا۔ کھولا اور اطلاعی پینل سے ہی ای میل میں جا لیا۔ ای میل ایڈریس میں زایان جعفری کا نام جگمگا رہا تھا۔ اسنے پڑھنا شروع کیا۔
"آپ کے ساتھ شراکت داری ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوگی۔ جلد ہی پریزنٹیشن کے ساتھ آپ کے در پر حاضری لگائی جائے گی۔ بہت شکریہ۔
جعفریز کی طرف سے سلام آپ کے پیشِ خدمت ہے"۔
لفظوں کا چناؤ تھا یا خوش اخلاقی سے متاثرت۔ اسکے لب مسکراہٹ میں پھیل گئے تھے۔ جوابی سلام پیش کیے اسنے موبائل دوبارہ اپنی جگہ پر دھرا۔ پھر قدم دوبارہ کمرے کے دروازے کی جانب بڑھا دیے۔ باہر نکلا اور سیڑھیاں پھلانگتا نیچے پہنچا۔ لاؤنج سے ہوتا ڈائننگ روم میں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچا تو حسب توقع عدیل صاحب کو سربراہی کرسی پر براجمان پایا۔ وہ بھی قریب پہنچ کر کرسی کھینچتا براجمان ہو چکا تھا۔
"اسلام علیکم بابا"۔ اسنے سلام پیش کیا۔
"وعلیکم اسلام بیٹا"۔گمبھیر و ٹہرے لہجے میں جواب آیا۔ "آج کا دن کیسا گزرا؟"۔ ہمیشہ والا سوال وہ بھی داغ گئے تھے۔
"جیسا گزرتا ہے ویسا ہی بابا۔ مگر وہ دبئی والی ڈیل سمجھیں ہمارے ہاتھ لگ ہی گئی۔ میں نے جعفریز کے ساتھ شراکت داری کر کہ کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کیا ناں بابا؟" وہ کسی بچے کی طرح مشورہ مانگ رہا تھا۔ عمر چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ اولاد ہمیشہ اولاد ہی رہتی ہے۔ سب کچھ خود سنبھال لینے کے بڑے دعوے پر بھی مشورہ لینے کے لیے رخ والدین کے در کا ہی کیا جاتا ہے۔
"میری نظر میں بہترین فیصلہ ہے یہ۔ ورنہ ڈیل ہاتھ سے جانے کا خطرہ سر پر منڈلاتا ہی رہتا اور اگر قسمت ان کے حق میں فیصلہ کر جاتی تو ہماری کمپنی کو بہت نقصان پہنچتا"۔ ان کی بات پر اثبات میں سر ہلاتے اسنے ہاتھ آگے بڑھائے ایک پلیٹ اٹھائی تھی۔ عدیل صاحب کی طبیعت کے مدنظر انکا کھانا پرہیزی کا تھا۔ پلیٹ بھرے ان کے سامنے رکھی، پھر ہاتھ بڑھائے چمچ اور کانٹا اٹھا کر انکی پلیٹ کے سرہانے رکھا۔ اتنے میں عدیل صاحب اپنی گود پر سفید نیپ کن پچھا چکے تھے۔
"ٹھیک کہا آپ نے۔ اب پہلی پریزنٹیشن انہیں کی جانب سے پیش کی جائے گی۔ شاید ایک ہفتے بعد"۔ اسنے ایک اور پلیٹ اٹھائی تھی۔ اب کہ اپنے لیے بنایا گیا کھانا وہ اس میں بھرنے لگا۔
"ہوں...... تمھاری جانب سے کون پیش کرے گا؟" انہوں نے نوالہ نگلے پوچھا۔
"میں، فیاض اور مس فبیہا۔ تینوں مل کر ہی کام کرینگے"۔ اسنے کہہ کر ایک نوالہ بھرا تھا۔
"ہوں......"۔ انہوں نے ہنکارہ بھرا۔ کمرے سکوت چھا گیا۔ چمچوں کی آواز ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
"کیا آج بھی قبرستان گئے تھے نہال"۔ انکے دھیمے لہجے پر اسکا نوالہ بھرتا ہاتھ تھم سا گیا۔
"میرے معمول میں ایک یہ معمول بھی شامل ہے بابا۔ پھر سوال کرنے کا مقصد؟"۔ اب کہ اسکے نوالے بھرتے ہاتھ سست پڑنے لگے تھے۔
"تم شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ کیا فائدہ ہے اس تنہائی کا۔ مجھے ڈر ہے تمھیں یہ تنہائی کھا نہ جائے نہال"۔
"فلحال تو کچھ سوالات ہیں بابا جو میرا اندر کاٹتے جاتے ہیں"۔ اسنے کہہ کر نوالہ بھرا۔ عدیل صاحب کے لب بھینچ سے گئے۔ یہی آکر انکی قوتِ گویائی اکثر چھن جایا کرتی تھی۔
"میں"۔ اسنے کچھ لمحوں کا توقف بھرا۔
"میں غازی ہاؤس جانا چاہتا ہوں بابا"۔ انکا جھکا سر جھٹکے سے اٹھا۔ ہاتھ میں پکڑا چمچ کھٹاک سے پلیٹ میں گرا۔ انہیں اپنی سماعتوں پر دھوکے کا گمان ہوا۔ بیک وقت حیرت و غصے نے انکی آنکھوں کا بسیرا کیا۔
"کیا کہا تم نے؟"۔ انہوں نے بھینچی آواز میں کہا۔
"کیا مجھے دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے بابا؟"۔ وہ بلا خوف انکی آنکھوں میں دیکھے کہہ رہا تھا۔
"تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے نہال"۔ وہ دھاڑے تھے۔
"میرا دماغ بلکل ٹھیک ہے بابا۔ میں بس کچھ سوالات کے جوابات چاہتا ہوں"۔ لہجہ دھیما تھا۔ انکے سامنے آواز اونچی کرنے کی جرت وہ کبھی نہیں کر سکتا تھا۔
"پوچھو مجھ سے۔ کیسے سوالات ہیں؟ میں دونگا تمھیں جوابات۔ مجھ سے سوال کرو نہال۔ وہاں جاؤ گے تو دروازے سے ہی واپس پلٹا دیے جاؤ گے"۔
"وجہ بابا؟..... یہی تو وجہ جاننا چاہتا ہوں۔ جب میرا پورا خاندان وہاں بسا ہے تو میں کیوں نہیں؟ آپ کیوں نہیں؟ اتنی حقارت، اتنی دھتکار، اتنی نفرت میرے لیے کیوں بابا؟"۔نوالہ منہ میں بھی نہ لیا گیا۔ چمچ پلیٹ میں ہی پڑا رہ گیا۔ کھانے میں ماضی کی تلخیاں گھل گئی تھیں۔ بدمزہ کھانا کون کھانا پسند کرے؟۔
"اسکا جواب میں بہت پہلے ہی تمھیں دے چکا ہوں نہال۔ تمھاری ماں اور میں نے خاندان کے خلاف جا کر بھاگ کر شادی کی تھی۔ انکی ساکھ پر لگا داغ وہ برداشت نہیں کر پائے اور..........."۔
"کاش بابا۔ کاش آپ کے یہ جوابات مجھے مطمئن کر پاتے۔ کاش ماما کی قبر پر لگاوہ تخت........اس پر واضح لفظوں میں لکھا نتاشہ عباسی آپ کی سچائی پر شکوک و شبہات کی چھاپ نہ چھوڑتا تو آج آپ اپنے بیٹے کو اپنے سامنے سر جھکائے کھڑا پاتے"۔ لہجہ اس قدر بھاری و بوجھل تھا کہ آخر میں کہے گئے لفظ دھیمے پڑ چکے تھے۔ وہ کرسی چھوڑتا اٹھا اور روم سے باہر نکل دیا۔ کھانا ادھورا رہ گیا۔ بھوک دم توڑ گئی۔ پیچھے سکوت چھا گیا۔
گہرا...... وحشت ناک سکوت۔
وہ لاؤنج پار کرتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ شکستہ قدموں سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر پہنچا۔ روم کا دروازہ نیم وا تھا۔ وہ اندر داخل ہوا اور دروازہ اپنے پیچھے زور سے بند کیا کہ گھر کی بنیادیں بھی کانپ اٹھیں۔
وہ بیڈ کی طرف بڑھا۔ بیڈ کے سرہانے زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ بیڈ سے ٹیک لگائے کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے وہ اپنا سر ہتیلیوں میں تھام گیا تھا۔ دانت ایک دوسرے پر سختی سے جمے تھے۔ بھنویں بھینچی تھیں۔ چہرے پر اذیت رقم تھی۔ مگر کچھ نہ تھے تو آنسوں۔
آنکھیں بھیگتی نہ تھیں۔
نجانے کیسا دل تھا کہ ٹوٹتا تھا، بکھرتا تھا، مگر روتا نہ تھا۔ شاید بچپن میں وہ اتنے آنسو بہا چکا تھا کہ اب گوشے بھیگنے کو انکاری تھے۔ آنکھوں میں سرخی تھی مگر نمی غائب تھی۔
وقت کئی سال پیچھے چلا گیا۔ منظر بدلا اور خشک گوشوں نے نمی اختیار کر لی۔ عمر گھٹی تو اٹھائیس سالہ نہال غازی کی جگہ آٹھ سالہ نہال غازی نے لے لی۔ بیڈ روم کی جگہ سامنے اس محل کا داخلی دروازہ تھا۔ جہاں ایک اڈھیر عمر عورت کے چہرے پر حقارت کے آثار تھے۔ ناک چڑھی سی تھی اور لہجہ نخوت بھرا۔ وہ باپ کے پیچھے دبکا سہما سا تھا۔ آنکھیں اشک بہائے جاتی تھیں۔ معصوم نقش پر وحشتوں کا گہراؤ تھا۔ کانچ سی سیاہ سہمی آنکھیں سامنے اس عورت کو دیکھے جارہی تھیں۔
"یہ دہلیز تیرے لیے کھلی ہے غازی۔ لیکن اس غلاظت کو لے جا یہاں سے"۔ نفرت ہر ہر لفظ سے ٹپکتی تھی۔ اس ننھی جان کے ڈھیر سارے آنسوں ٹوٹ کر رخسار پر بہتے چلے گئے۔
"یہ غلاظت نہیں ہے ماں۔ ہمارا خون ہے"۔ بے بسی کا عالم تھا۔ لہجہ کمزور سا تھا جو اسے آج بھی ازبر تھا۔ وہ تو احتجاج بھی ٹھیک سے نہ کر پاتے تھے۔
"خبردار جو اسے ہمارا خون گردان دینے کی کوشش کی تو۔ ہمارا خون اتنا گندہ نہیں جو اس غلیظ کو یہاں پناہ دی جائے۔ لے جا اسے اور کہیں پھینک آ کہ اس دنیا میں بھی اسکی کوئی جگہ نہیں ہے"۔ لفظ کے زہریلے تیر تھے جو لہولہان کرتے تھے۔
"ماں پلیز"۔ اذیت بھری آواز میں کمزور سا احتجاج کیا گیا۔ پھر اچانک ہی اسے اپنے باپ کے ہاتھ میں تھما اپنا ہاتھ خالی سا محسوس ہوا۔ اسنے انہیں دروازے کے قریب جاتے دیکھا۔ اور اگلے ہی لمحے...... اسکا باپ سجدہ زیر تھا۔ سامنے اس عورت کے پیر سے لپٹا تھا۔ انکے وجود نے ایک ہچکی بھری تھی اور شاید آنسوں اس دہلیز پر ٹوٹ کر گرے تھے۔ حیرت تھی کہ اس عورت کے دل پر نہ گرے تھے۔ کیسا سخت دل تھا کہ پگھلنا تو دور نرم بھی نہ پڑا تھا۔
"میں آپکے پیر پڑتا ہوں ماں۔ مجھے معاف کر دو۔ اس معصوم کا پچپن برباد مت کرو۔ یہ کہاں کو جائے گا۔ یہ ننھا پیٹ گنا چنا کھائے گا۔ آپ کی اس سلطنت میں ایک روٹی کا بھی فرق نہیں آئے گا۔ اسے ضرورت ہے محبتوں کی۔ اسکا ننھا دل پھولوں سے سینچا ہے رب نے۔اس پر کانٹوں سے وار کیے اسے لہولہان مت کرو۔ میری غلطیوں کی سزا اسے مت دو ماں۔ میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں"۔ انہوں نے سر اٹھایا تھا اب کہ گھٹنے زمین پر ٹیکے ہاتھ جوڑ لیے گئے تھے۔ سر ندامت سے جھکا تھا۔ جسم ہچکولے رہا تھا۔
"محبتیں دلوں میں پیدا ہوتی ہیں غازی۔ انسان اس معاملے میں خود مختار نہیں ہوتا۔ اور پھر اسے دیکھ کر ساری نرم دلی پس پشت چلی جاتی ہے۔ نفرت اپنی تمام تر گہرایوں سمیت اتنی شدد سے امڈ آتی ہے کہ قتل کی خواہش جاگتے لمحے نہیں لگتے۔ سن لے غازی......اس سے قبل کہ میں اپنے حواسوں پر تمام اختیارات کھو دوں اور میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوجائے اسے لے جا یہاں سے اور کبھی واپس مت لانا"۔ وہ پھنکاری تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ دل سے عاری پیدا ہوئی ہیں۔ انسانیت کا جذبہ دور دور تک دکھائی نہ دیتا تھا۔ غصہ ایسا تھا کہ ضبط کے مارے انکی رگیں نمودار ہونے لگی تھیں۔ ماتھے پر شکنیں واضح تھیں۔اسکی موجودگی ان پر سخت گراں گزر رہی تھی۔ وہ ننھا دل تو باپ کو انکے پیر پڑا دیکھ ہی مسوس کر رہ گیا تھا اور رہی سہی کثر انکی پھنکار نے پوری کی تھی کہ اسکے حواس ساتھ چھوڑنے لگے۔ اوسان خطا ہوئے تھے اور وہ دھپ کی آواز پیدا کرتا زمین بوس ہوا تھا۔
......(۰٭۰)......
لاؤنج میں نیم اندھیرے کا راج تھا۔ لیپ ٹاپ سے نکلی شعاعیں انکے چہروں پر روشنی بکھیر رہی تھیں۔
"آبش کی بچی۔ یہ کیا مصیبت میرے سر ڈال گئی ہو تم"۔ وہ جھنجھلایا۔ صوفے پر بیٹھا تھا۔ نظر رانوں پر رکھے لیپ ٹاپ میں تھی۔ برابر میں بیٹھی آبش نے ایک نظر اٹھائے اسکے چہرے کو دیکھا۔
"میں نے کیا کیا۔ وہاں زایان بھائی تمھاری ذات میں قصیدے پڑھتے نہیں تھک رہے تھے۔ مجھے غصہ آیا اور........."۔ اسکا خراب موڈ اسکی زبان کو بریک لگا گیا تھا۔
"غصہ آیا اور بن گئی ہیرو۔ پھنسا تو میں ناں۔ ارے آفس میں تو قدم رکھنے دیا ہوتا۔ تم نے تو سیدھا ڈیل کو ہی پھانسی کے پھندے کی طرح میرے گلے میں ڈال دیا ہے"۔ وہ مکمل جھلایا تھا۔ ایسا نہ تھا کہ ڈیل کی اسے سمجھ نہ تھی یا پریزنٹیشن تیار کرنا اسکے بس کی بات نہ تھی۔ بس اسکے عیاشی کے دنوں کو آفس کی ہوا لگنے والی تھی جو اسے ہراساں کر گئی تھی۔
"لاؤنج میں تو تم خود ہیرو بنے تھے۔ نہال غازی کے معیار سے اونچا پائینگے۔ وغیرہ وغیرہ"۔ اس نے اپنی آواز کو بھاری بنائے اسکی نقالی کرنا چاہی۔ "خود منع کر کے جانا تھا ناں"۔ اسنے ایک خونخوار نگاہ اس پر ڈالی۔
"کہنا ہی تھا ورنہ بابا مجھے انڈریسٹیمیٹ کرتے۔ تم جو پہلے ہی بم تیار کیے بیٹھی تھیں۔ پھٹا بھی تو نہال کے قصیدوں کے ساتھ"۔ اسکے کہنے پر اسکی آنکھیں مصنوعی سی پھٹیں۔
"ہااا..! تم جیلیس ہو رہے ہو"۔ اسنے اسے دیکھے کہا۔ وہ ہڑبڑایا سا تھا۔
"م..... میں کیوں جیلیس ہونے لگا۔ اس میں ایسا کیا ہے جیلیس ہونے والا"۔ خود کو سنبھال کر کہا۔ مگر مسکراہٹ نے اسکے لبوں پر بسیرا کیا تھا۔
"ہے تو بہت کچھ۔ وہ واقعی ہیرو ٹائپس ہے"۔ اسنے مسکراہٹ دبائے کیا۔ اسکا سر چونک کر اٹھا۔ گردن اسکی جانب مڑی۔
"تم نے کہا ں دیکھا؟"۔
"فیس بک پر"۔ یک لفظی جواب اسے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھنے پر مجبور کر گیا۔ وہ آنکھوں میں چمک لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آئی ڈی کیا ہے؟"۔ وہ پھر لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوا۔ گوگل پر سرچ بار میں فیس بک ٹائپ کیے اسکا منتظر رہا۔
"غازی نہال"۔ کچھ لمحوں بعد اسکی پروفائل سامنے کھلی تھی۔ اسنے اسکی پروفائل پک پر کلک کیا۔ غازی انڈرسٹریس کے نام کے آگے وہ کھڑا تھا۔ پینٹ کوٹ میں ملبوس۔ جاذب نظر لگ رہا تھا۔ اسکے دل میں ستائش ابھری۔ اب کہ وہ اسکی پروفائل چیک کرنے لگا۔ کچھ خاص مواد نہ تھا۔ گنتی بھر تصویریں وہ بھی سالوں پرانی۔ واضح تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر کچھ خاص سرگرم نہ تھا۔
اسنے ایک تصویر کھولی۔ منظر نظریں موہ لینے والا تھا۔ وہ اونی جیکٹ میں ملبوس تھا۔ سیاہ جینز و سیاہ جاگرز۔ گردن پر اسکارف لپٹا تھا۔ آنکھیں کچھ چنڈھائی سی تھیں۔ بال ہمیشہ کی طرح پیشانی کو بوسہ دے رہے تھے۔ چہرے پر ازلی سنجیدگی جیسے زبردستی کھڑا کیا گیا ہو۔ مگر الگ بات تھی کہ اس سنجیدگی کے ساتھ بھی وہ غضب ڈھاتا تھا۔ پیچھے برہنہ درختوں کے ساتھ برف کے چھوٹے پہاڑ سے کھڑے تھے۔ سفیدی ہر طرف چھائی تھی۔ برف کے کچھ گالے اسکے بالوں پر بکھرے تھے تو کچھ شانوں پر بسیرا کیے "چیز"کہہ رہے تھے۔ منظر ایسا تھا کہ فریم کرائے دیوار پر نصب کرنے کا من چاہے۔
اسنے ہاتھ بڑھا کر صوفے کے ساتھ لگی ٹیبل پر پڑا آبش کا آئی پیڈ اٹھایا۔ دوبارہ اسکی پروفائل کھولے یہی تصویر سامنے کی۔ اسکی آنکھوں میں اچنبھا ابھرتا چلا گیا۔ اس نے اس تصویر کا اسکرین شاٹ لیا۔
"کیا کر رہے ہو؟"۔ اس نے اسکی جانب دیکھے دریافت کیا۔ وہ ہنوز آئی پیڈ کی جانب متوجہ تھا۔
"پہلے بتاؤ ساتھ دوگی؟۔ چڑی تو تم بھی لگ رہی تھی نہال سے"۔ آئی پیڈ پر اسکی تصویر ایڈٹ ایپ میں سامنے تھی۔ اسنے اسکے چہرے پر زوم اِن کیا۔ تیکھے نقوش مزید واضح ہوئے۔
"کیا تم واقعی اسکا فیس ایڈٹ کرنے والے ہو"۔ حیرانگی بجا تھی کہ سامنے بیٹھے اس شخص سے کچھ بعید نہ تھا۔
"کوئی شک"۔ وہ شریر سا مسکرایا۔ شروعات اسکی پر اسرار آنکھوں سے کی گئی تھی۔
"پھر کیا کرو گے؟"۔
"سوشل میڈیا پر وائرل"۔ سرسری سا جواب آیا۔
"اس سے کیا فائدہ ہوگا؟"۔ وہ بھی اب اسکرین میں دیکھنے لگی تھی۔
"فائدے کے لیے سب کرنے لگا تو تفریح کا کیا؟"۔ وہ ٹچ پینسل سے اسکی آنکھوں پر عجیب انداز میں رنگ بکھیرنے لگا تھا۔ کہ تصویر بگڑتی کیا بھدی ہی ہوجاتی۔
"پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ۔ ارے ایسے نہیں کرتے ادھر دکھاؤ"۔ اسنے اسکے ہاتھ سے آئی پیڈ لیا اور خود ماہر انداز میں اسکے چہرے کو الگ نقش دینے لگی۔
"تم تو کمال ہو یار"۔ تعریف کسی۔ وہ واقعی ماہر تھی۔ کچھ رنگ بکھیرے، کچھ شکلیں دی گئیں۔ وقت لگا۔ مگر تصویر بہر حال تیار تھی۔
بڑے نوکیلے کان۔ ستواں ناک کھینچ کر آخر میں نوکیلی کر دی گئی تھی۔ہونٹوں کے زاویے بھی بگڑے تھے۔ آنکھیں تو جلد میں چھپنے کو تھیں۔ سب اتنا عجیب تھا کہ تصویر کو نام دینا محال تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ آنکھیں چمکی تھیں اور لب پھیلتے چلے گئے۔ اور پھر پورے لاؤنج میں قہقوں کے جلترنگ سے جل اٹھے۔ دونوں اس تصویر کو دیکھتے لوٹھ پھوٹ ہورہے تھے کہ اچانک ہی لاؤنج کی بتی جل اٹھی۔ انکے قہقوں کو بریک لگا۔ نظر اٹھا کر سویچ بورڈ کی جانب دیکھا تو ارباز صاحب آنکھوں میں حیرت لیے انہیں دیکھ رہے تھے۔
"کیا ہورہا ہے یہاں"۔ انکی سنجیدہ آواز پر انکی نگاہیں پھر ایک دوسرے کی جانب اٹھی۔ پھر واپس پھیر لی گئیں۔
"پریزنٹیشن کی تیاری بابا"۔ اسنے انہیں دیکھتے کہا۔ آبش کی نظریں جھک گئی تھی۔
"اس وقت؟ رات کے ایک بجے؟.... چلو دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب۔ کل سے کوئی ڈھنگ کا وقت چننا۔ اٹھو جلدی اور سمیٹو سامان"۔ آبش فوراً اٹھی تھی۔ ٹیبل پر بکھرا سامان اور اپنا آئی پیڈ اٹھاتی سیڑھیاں پار کرنے لگی۔ جب کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کانوں میں ہیڈ فونز چڑھائے اور ٹانگیں ٹیبل پر ٹکائی۔ صوفے سے ٹیک لگایا اور لیپ ٹاپ رانوں پر رکھا۔
"تم نے سنا نہیں حارث؟"۔لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔
"مجھے نیند نہیں آرہی بابا۔ میں بعد میں سوجاؤنگا"۔ مصروف سے انداز میں جواب دیا۔ انگلیاں ٹچ پیڈ پر چل رہی تھیں۔ وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئے۔
......(۰٭۰)......
اسکے بھاری پیوٹوں میں ارتعاش سا پیدا ہوا۔ پلکوں نے رقص کیا۔ جامد حسیں کام کرنے لگی۔ سیاہی چھٹتی چلی گئی۔ سیاہ پتلیوں سے سایہ چھٹا۔ بصارت نے کام کیا۔ وہ دائیں جانب کروٹ لیے لیٹا تھا۔ آنکھیں کھلی اور سامنے کا منظر واضح ہوا۔ بڑی سی گلاس ونڈو تھی جس کے دائیں اور بائیں جانب پردے گرے تھے۔ برابر میں وارڈروب کھڑی تھی۔ سفید دیواروں سے مزین کمرے میں جدید طرز کا فرنیچر موجود تھا۔ جگہ انجانی تھی۔
اس نے سیدھا ہونا چاہا۔ مگر سر میں ایک ٹینس سی اٹھی۔ اسکے منہ سے کراہ آزاد ہوئی۔ مگر ہمت متجمع کرتا وہ سیدھا ہو لیٹا۔ اب کہ پورے کمرے کا منظر واضح ہوا۔ نظر جب اپنے دائیں جانب لگی راکنگ چئیر پر بیٹھے اس نفوس پر اٹھی تو وہ کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھا۔ آنکھوں سے چھنگارتی نفرت۔ لب بھینچے تھے جیسے ضبط کا امتحان لیا جارہا ہو۔ حقارت ہر نقش سے ٹپکتی تھی۔ اس نے حلق میں پھنسی گلٹی نگلی۔ معصوم آنکھوں میں خوف ڈورے ڈالنے لگا۔
"دادی جان"۔ معصوم آواز میں بھی خوف رقم تھا۔
"اے خبردار جو اپنی گندی زبان سے مجھے دادی جان کہا تو۔ تجھ جیسی غلاظت کے منہ سے یہ لفظ زیب نہیں دیتا۔ تیرے جیسی پیداوار رشتوں سے خالی پیدا ہوتی ہے"۔ لفظوں کا زہر میں ڈوبنا کیا تھا یہ ننھی جان آج اندازہ لگا رہی تھی۔ اسکی کانچ سی آنکھیں فوراً بھر آئیں۔
"تو قدم رکھ ہی دیا تو نے یہاں۔ تیری ماں کی سالوں پرانی سازش کامیاب رہی۔ خود تو چلی گئی اور اپنی گندگی کو میرے بیٹے کے سر ڈال گئی۔ اسے تو اللہ ہی پوچھے گا"۔ آنکھیں خوف ناک انداز میں اسے گھور رہی تھیں۔ لہجہ پھنکارتا تھا۔ اسکے آنسوں ٹوٹ کر ٹپ ٹپ بہنے لگے۔ خوف تھا کہ کپکپانے پر مجبور کر گیا۔
اچانک ہی راکنگ چیئر تھم گئی۔ وہ ایک جھٹکے سے آگے کو ہوئیں۔ وہ بیڈ پر ہی پیچھے کی جانب کو بدکا۔ آنسو تھم سے گئے۔ خوف رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ انکی سیاہ آنکھیں اسکی کانچ سی سیاہ آنکھوں میں جھانکنے لگیں۔ وہ بھی تھم کر انکی آنکھوں میں تکتا چلا گیا۔
"تم جانتے ہو تم کون ہو"۔
"میں کون ہوں"۔ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں کہا تھا۔
"تم ناجائز ہو۔ تم پر دھتکار ہے۔ تم غلاظت سے بھرپور حرام عشق کی پیداوار ہو"۔ بھینچی آواز تھی۔
"تمھاری اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں، کوئی کام نہیں۔ تمھارا بسیرا جہنم ہے۔ ارے تمھاری تو پیدا ہوتے ہی گردن دبوچ کر سانسیں تھام دینی چاہیے تھیں۔ اسی دن تمھاری ماں کے ساتھ ہی تمھیں دفنا دیا ہوتا تو کم از کم آج میرا بیٹا مجھ سے اختلاف نہ کرتا"۔ وہ دھاڑی تھیں۔
"وقت اب بھی گیا نہیں۔ سامنے تو تم اب بھی ہو۔ سانسیں تو اب بھی برقرار ہی ہیں۔ گردن اب بھی نازک ہے۔ میرا ایک ہاتھ اور تیری سانسوں کے راستے مسدود"۔ اسے سنبھلنے کا وقت ملتا اس سے پہلے ہی وہ اسکی گردن مضبوطی سے دبوچ چکی تھیں۔ اسکی آنکھیں باہر کو آنکلیں۔ رنگت سرخ پڑنے لگی۔ آواز حلق میں ہی جا دبی۔
"بابا"۔ اسکے لبوں نے بے آواز ادا کیا۔ وہ انکی گرفت میں مچلنے لگا۔ آنسوؤں نے روانی اختیار کی۔
"کوئی بات نہیں۔ اگر میری ساری عمر قید میں بھی کٹے تو۔ کوئی بات نہیں اگر ایک لاشا اس گھر سے بھی اٹھے تو۔ کوئی بات نہیں اگر خون کا ایک چھینٹا میری ساکھ کو داغدار بھی کرے تو۔ تم تو نہیں رہو گے ناں۔ تمھاری سانسیں میرے گلے کا پھندا نہیں بنینگی۔ تمھاری شکل تو دیکھنے کو نہیں ملے گی ناں"۔ ہیجان کی سی کیفیت تھی انکی۔ حواس جیسے ساتھ چھوڑنے لگے ہوں۔ نفرت سر چڑھ کر بول رہی ہو۔ کچھ اور لمحے لگتے اسے اپنی سانسوں کا تسلسل توڑنے میں۔ لیکن شاید پتے ابھی نہ جھڑے تھے۔ شاید اسکی قسمت کی کتاب کے پنے کورے نہیں پڑے تھے۔ دروازے سے عدیل نمودار ہوئے تھے۔ اندر کا منظر ہلا دینے والا تھا لیکن انکے حواس مضبوط تھے کہ وہ فوراً اپنی ماں کو دور ہٹانے کی تگ ودو میں لگ گئے۔
"چھوڑیں اسے۔ یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔ مر جائے گا وہ"۔ اپنی ہٹی کٹی ماں کو دور ہٹانا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا کہ اپنے بڑے بھائی جو شور سن کر ہی یہاں پہنچے تھے کا ساتھ پا کر ہی انہیں دور کرنے میں کامیاب ہوئے اور فوراً ہی اپنے جگر کے ٹکڑے کو سینے میں بھینچ گئے۔
بڑی عمر اور جوانی کی توانائی ہوتی تو وہ کھانس کھانس کر دوہرا ہوجاتا مگر اس ننھی جان کی حالت اس قدر ناتواں ہوچکی تھی کہ کھانسنے کا بھی موقع نہ ملا اور وہ اپنے اوسان خطا کرتا انکے سینے میں ہی جھول گیا۔
......(۰٭۰)......
اسکا جھریوں بھرا چہرا متفکر تھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر پہنچا تھا۔ سامنے راہداری کے اختتام پر لگی گھڑی پر نظر پڑی تو وہ صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔ سیڑھیوں کے کنارے پر بنا وہ کمرا سامنے تھا۔ اس نے دروازہ کھول کر دھڑلے سے اندر داخل ہونے کے بجائے دروازہ کھٹکھٹانا زیادہ مناسب سمجھا تھا۔ کچھ لمحے گزرے مگر مکمل خاموشی چھائی رہی۔ اسنے ایک بار پھر کھٹکھٹایا۔ جواب ہنوز ندارد۔
اب کہ اسنے ہینڈل پر ہاتھ رکھے اسے گھمایا۔ کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ وہ ہاتھ کے دھکے سے کھولتا اندر کو بڑھا مگر ٹھٹک کر رکا۔ دل حلق کو آن پہنچا تھا۔ سامنے اسکے جان سے عزیز بابا زمین پر بیٹھے دنیا جہاں سے بیگانہ تھے۔ سر بائیں جانب کو لڑکا تھا۔وہ سرعت سے اسکی طرف بڑھا۔
"نہال بابا"۔ وہ اسکے قریب پہنچے اسکے گال تھپتھپا نے لگا۔ اسے کسمساتا پا کر اسکا اٹکا سانس بہال ہوا تھا۔اندازہ ہوا کہ وہ بے ہوش نہیں تھا۔ شاید رات یہی بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا۔
وہ گردن اٹھائے آنکھیں مسلتا سیدھا ہو بیٹھا۔ پھر سامنے فکر مند سے عبدل کو دیکھ کر مسکرایا۔
"فکر مند ہونے کی بات نہیں ہے عبدل۔ میں ٹھیک ہوں"۔ چہرے پر خمار اور بکھرے بال۔ وہ سیدھا دل میں اترتا تھا۔
"آپ نے میری جان نکال دی تھی بابا۔ آپ یہاں کیوں سوئے تھے؟"۔
"بس کل رات یوں ہی کچھ سوچ رہا تھا۔ کب آنکھ لگی پتا ہی نہیں چلا"۔
"اپنا خیال رکھا کریں بابا"۔ اسنے اسکا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگایا تھا۔ وہ اسکی خالص محبت پر خلوص دل سے مسکرایا۔
"میرے لیے پین کلرز اور کافی لے آؤ عبدل۔ میرے سر میں ذرا درد ہے۔ دیر کافی ہوگئی ناں"۔ اب کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ساتھ میں وہ بھی کھڑا ہوا تھا۔ پین کلرز کا مطالبہ مطلب وہ پھر ساری رات جاگا تھا۔ مگر اسکی متورم آنکھیں کام کی نہیں کوئی اور ہی داستاں سناتی تھیں۔
وہ وارڈ روب کی طرف بڑھ دیا۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر روم سے باہر نکل دیا۔ اسکے جاتے ہی اسکے ہاتھ سست پڑنے لگے۔ ماضی کی کچھ جھلکیاں پھر دماغ میں جھکڑ سے چلا گئیں۔ اس نے لب بھینچے۔ سر جھٹکا اور پینٹ کوٹ اٹھاتا باتھ روم کی جانب چل دیا۔ باہر آیا تو کافی اور پین کلرز سامنے تھیں مگر عبدل غائب تھا۔ وہ بالوں کو خشک کرتا ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھا۔تولیے کو بیڈ پر اچھالے پرفیوم اٹھایا۔ خود پر چھڑکاؤ کیا۔
ٹائی باندھی.....کوٹ پہنا اور پین کلرز منہ میں بھری۔ کافی کا ایک گھونٹ لیا اور کپ اٹھاتا روم سے باہر نکل دیا۔
سیڑھیاں پار کیے نیچے اترا۔ لاؤنج کو پہنچا۔ گھونٹ وہ لمحہ بہ لمحہ بھرتا جاتا تھا۔ مگرخلافِ معمول قدم آج باپ کے کمرے کی جانب اٹھے تھے۔ رات کی ان بھن اسکے دماغ میں گھومتی چلی گئی۔ اسکا باپ دل کا مریض تھا،رات کی تکلیف و اذیت اس خیال پر بازی لے گئی تھی۔ اب ضمیر نے کچوکے لگائے تھے اور دل بوجھل ہوا تھا کہ قدم خود بخود ان کے کمرے کا رخ کر گئے۔
وہ ہینڈل گھما کر اندر کو پہنچا۔ اے سی کی خنکی میں خوابناک ماحول نے اسکا استقبال کیا۔ وہ بیڈ کی جانب بڑھا۔ بالکونی کے گلاس ڈور سے جھانکتی نیم سی روشنی میں انکا پرسکون میٹھی نیند سوتا چہرہ واضح تھا۔ وہ بیڈ کے سرہانے کھڑا انکے چہرے کو تکنے لگا۔
"ایم سوری بابا"۔ دھیمی آواز میں سرگوشی کی گئی۔ کچھ پل ان کے چہرے کو تکتے خاموشی کی نذر ہوئے۔ پھر وہ انکے چہرے کی جانب جھکا۔ ماتھے پر بوسہ لیا اور اٹھا۔ پھر روم سے باہر نکل دیا۔ کمرہ خالی ہوگیا۔
وہ بیڈ پر سوتے میٹھی نیند کی وادیوں کی سیر کرتے رہے۔
......(۰٭۰)......
فیرویل کی تیاریاں زور و شور سے جاری و ساری تھیں۔ دن میں یونی کے تمام انتظامات نپٹائے وہ شام گئے گھر کو واپش لوٹے تھے۔ مگر رات کو پھر یونی کا رخ کرنا تھا کہ فیرویل کا آغاز آٹھ بجے ہونا تھا۔
انکی تیاری تھی کہ گھر اتھل پتھل ہوا تھا۔ آمنہ بیگم تو چیزیں سمیٹے نہیں تھک رہی تھیں۔ حارث نے ماحول ایسا بنا دیا تھا کہ کوئی شادی کی تقریب ہو۔ اسکی تمام چیزیں ادھر ادھر بکھری تھیں۔ کمرہ منہ کو آرہا تھا۔ ایسے میں وہ ہر چیز سے بے نیاز آئینے کے سامنے کھڑا اپنے بال سنوار رہا تھا۔ ازلی شریر مسکراہٹ خود کو آئینے میں دیکھتے ہی نجانے کیوں امڈ آتی تھی۔ کوئی تعریف کرے نہ کرے اسکی ستائیش بھری نگاہیں خود ہی خود کو سراہ دیا کرتی تھیں۔ جب خود ہی اپنی وجاہت و تیاری سے مطمئن تھا تو دوسرے کیا ہانکتے ہیں اس پر کیوں کان لگانا۔
اسی طرح اسکے کمرے سے ذرا فاصلے پر ایک اورکمرے کے بند دروازے کے پیچھے وہ بھی آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ مسکارا لگاتی آنکھوں کو آخری ٹچ دے رہی تھی۔ اسی طرح کی ایک مغرور سی مسکراہٹ نے اسکے لبوں پر بھی بسیرا کر رکھا تھا۔ صراحی دار گردن کو ذرا خم دیے اس ملکہ ایران عرف آبش نے خود ہی خود کو سلام پیش کیا تھا۔ بالوں کے میسی جوڑے سے نکلتی چند آوارہ لٹیں، نفاست سے کیا ہلکا میک اپ۔ باریک و نازک سی جیورلی اور مخملین سیاہ سنہری کڑاہی سے مزین قمیض۔ عمدہ لباس اور اعلٰی اداؤں کا امتزاج۔ وہ اسپرا تھی۔
صبح سویر اپنے آئی پیڈ پر نظر پڑتے ہی اسے اپنا رات کا کارنامہ یاد آیا تھا۔ تصویروں میں جب اس عجیب تصویر کو دیکھا تو لب خودبخود دھیمی مسکراہٹ میں پھیل گئے۔ ہاتھ اسے وائرل کرنے کے لیے بڑھے ہی تھے کہ دل نے نفی کی۔ اسنے دل کی صدا پر لبیک کہہ کر آئی پیڈ ایسے ہی واپس رکھا دیا تھا۔
اب کہ یونی کی طرف روانگی اختیار کر لی گئی تھی۔ گیٹ پر پہنچتے ہی دھیمی آواز میں راک میوزک نے انکا استقبال کیا تھا۔ ایک ہی کلر میں ملبوس ایک ساتھ چلتے وہ مکمل دکھائی دے رہے تھے۔ اندر پہنچتے ہی انکی منتظر ٹولیوں نے انکا گہراؤ کیا تھا۔ دونوں اپنے اپنے گروہ کی طرف بڑھتے منتشر ہوئے تھے۔ اسٹیج پرمختلف پرفارمینس جاری تھیں۔ اب کہ انکی باری چند گھنٹوں بعد آنی تھی.....۔
......(۰٭۰)......

Will be waiting for the review guys🙌🏻
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
Don't forget to vote and comment🤗

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now