میری ذات۔ از عمارہ عمران

By amm_thewriter

2K 118 37

ریپ، زیادتی، عصمت دری۔ شرم ناک بات ہے مگر یہ آج کل معاشرے میں بتدریج پروان چڑھ رہی ہے۔ ایک ایسا حساس موضوع جس... More

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 5
Episode 6

Episode 4

232 20 1
By amm_thewriter

گاڑی عدیل غازی کی نیم پلیٹ کے سامنے رکی تھی۔باوردی گارڈ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ وہ ٹرن لیتی اندر کو پہنچی۔ڈرائیونگ سیٹ پر وہی ماتھے پر بکھرے بالوں والا شہزادہ بیٹھا تھا جس کے چہرے پر بیزاریت کے آثار صاف نمایا ہو رہے تھے۔ جبکہ برابر کی سیٹ معید نے سنبھالی تھی۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر باہر کو نکل آئے۔ قدم گھر کے داخلی دروازے کی جانب اٹھے تھے۔
"یار یہی ڈریس ٹھیک تھا۔ فضول میں اتنی دور کو آئے۔ یونی قریب تھا میرے آفس سے"۔ بیزار سا لہجہ تھا۔ قدم اندر کی جانب بڑھ رہے تھے۔
"تم اپنی ذرا کم ہانکا کرو۔ کس طرح کے بندے ہو یار تم۔ زندگی سے اتنا بیزار کیوں رہتے ہو"۔ وہ دونوں لاؤنج میں پہنچے تھے۔ وہ حسب توقع خالی تھا۔ وہ آفس سے ہی عدیل صاحب کو اطلاعی کال کر چکا تھا کہ وہ رات گئے دیر تک گھر واپس آئے گا۔ اسکا ارادہ اسی کپڑوں (پینٹ کوٹ) میں فیرویل میں شرکت کا تھا مگر معید زبردستی ہی اسے گھر لے آیا کہ پارٹی میں اس طرح کے کپڑے زیب نہیں دیتے۔ اور اب وہ جھنجھلایا سا تھا۔
"بتاؤ۔ کیا خرابی ہے ان کپڑوں میں۔ ایک شکن تک نہیں ہے یار"۔ سیڑھیاں چڑھتا وہ یک دم ہی پلٹا تھا۔ اسکی توجہ ایک بار پھر اپنے کپڑوں کی جانب کرانی چاہی تھی۔ معید کا دل کیا اپنا سر ہی پیٹ لے۔
"خدایا نہال تم پارٹی میں جا رہے ہو۔ فیرویل پارٹی سمجھے۔ آفس پارٹی نہیں ہے یہ۔ اب میں ایک لفظ نہیں سن رہا۔ چلو اوپر"۔ اسے ناچار اوپر پہنچنا پڑا۔ اندر پہنچ کر وہ تو وارڈ روب کی طرف بڑھ دیا۔ جبکہ معید اسکے بیڈ پر گر سا گیا۔
"سرخ رنگ کی شرٹ نکالنا۔ اور نیچے سیاہ جینز۔ وللہ غضب ڈھاؤ گے"۔
اسنے مڑ کر ایک خونخوار نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ وہ ذرا متاثر نہ ہوا۔
چند لمحوں بعد جب کچھ سامنے کیا تو ایک عدد آسمانی رنگ کی شرٹ اور خاکی جینز۔ معید نے اب کہ واقعتا اپنا سر پیٹ لیا۔
"اٹھا لے خدا اٹھا لے۔ نہیں مجھے نہیں اس نہال کو۔ کیا کروں میں تیرا بھائی۔ ادھر دے۔ میں خود کچھ ڈھنگ کا نکالتا ہوں"۔ ماتم کیا گیا۔ پھر وہ خود اٹھا اور وارڈروب کی طرف بڑھ دیا۔ اسکی تیوری بس چڑھنے کو تھی۔
"اب اس میں کیا پرابلم ہے"۔وہ جھلایا۔
"اس میں نہیں تیری پسند میں پرابلم ہے"۔ وہ خود وارڈروب میں چھان پھٹک کرنے لگا تھا۔ وہ برا سا منہ بنائے اسے دیکھتا رہا۔
بل آخر اسکی مطلوبہ چیز اسکے ہاتھ لگ ہی گئی۔ چہرے پر ایک چمک کے ساتھ وہ پلٹا۔ ہاتھ میں سرخ تو نہیں مگر میرون رنگ کی شرٹ لگی تھی۔ سیاہ جینز جو عام تھی اور اسکے پاس موجود تھی۔ وہی نکالے وہ انہیں بیڈ پر بچھا چکا تھا۔ اب کہ داد طلب نظروں سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔مگر کوئی رد عمل نہ پا کر خود ہی منہ بنا گیا۔
وہ ہتیار ڈالتا بیڈ سے کپڑے اٹھاتا ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔ جبکہ وہ فرج کی طرف بڑھا۔ ایک کین نکالے صوفے پر براجمان ہوا۔
کچھ ہی لمحوں بعد ڈریسنگ روم کا دروازہ کلک ہوا۔ اسکی نظر اس جانب اٹھی۔ کسرتی جسامت پر مکمل برابر آتی وہ میرون شرٹ، سیاہ جینز۔ ماتھے پر بکھرے بال۔ ہلکی بڑھی شیو۔ سنجیدہ سی سیاہ آنکھیں۔ آخر وہ اپنی اس غیر معمولی وجاہت سے اتنا بے نیاز کیوں تھا؟۔ اسے گمان ہوا۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ بالوں کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ شاید کل رت جگے کا اثر تھا۔
وہ بھی صوفہ چھوڑتا اسی کی طرف چلا آیا۔ کمرے میں ایک بار پھر پوائزن کی مہک پھیلی تھی۔
"چلو تیار ہوں میں"۔ وہ پرفیوم رکھتا بولا۔
"اونہوں!۔ ابھی نہیں۔ ابھی کچھ باقی ہے"۔
"دلہن نہیں بننا مجھے۔ سہرا پہننا ہے نہ گھونگٹ۔ اب اس سے زیادہ کیا کروں"۔ وہ جھلایا۔
اسنے ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھایا۔ پھر متلاشی نگاہیں ٹیبل پر پھیرنے لگا۔
"ہیئر جیل کہاں ہے؟"۔ اسنے پوچھا۔
"میں نہیں رکھتا"۔ بے نیاز سا جواب آیا۔ وہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔
"اسے پکڑو۔ بال بناؤ"۔ ہیئر برش اسکی جانب بڑھایا۔ اسنے جھپٹا۔ بال بنانے لگا۔ صنف نازک ہوتی تو دل نکال کر قدموں میں رکھ دیتی۔ اسنے اپنی لیدر جیکٹ اٹھائی اور روم سے باہر نکل دیا۔
اب کہ گاڑی پھر یونی کی جانب روانہ تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ ہنوز اسی نے سنبھالی تھی۔ چہرے پر سنجیدگی رقم تھی۔
داخلی دروازہ سامنے تھا۔ کانوں میں پڑتی دھیمی میوزک کی آواز اور بڑے بڑے لفظوں میں لکھا یونی کا نام۔ اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔ اپنی طالبِ علمی زندگی کو وہ مکمل طور پر بھلا چکا تھا۔ آج شاید ڈھیر ساری یادیں تازہ ہونی تھیں۔
وہ دونوں گاڑی سے اتر آئے۔ اسکے قدموں نے سست روی اختیار کی تھی۔ اندر بڑھتا وہ ہر ہر چیز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔
دونوں گراؤنڈ پار کرتے اندر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اتفاق یہ تھا راک میوزک کی جگہ دھیما و لطیف سا میوزک تھا۔ شاید کسی کی پرفارمینس جاری تھی۔ پارٹی یونی کے گراؤنڈ کے بجائے ہال میں منعقد تھی۔
وہ ادھر ادھر دیکھتا آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ جتنا فاصلہ سمٹتا میوزک کی آواز اتنی ہی بلند ہوجاتی۔ اچانک ہی میوزک کی بیٹ تبدیل ہوئی۔ اب شاید کسی کے گانے کی باری تھی۔ ہال کا دروازہ ذرا فاصلے سے ہی دکھائی دینے لگا تھا۔ جلتی بھجتی روشنیاں ہال کے نیم وا دروازے سے جھانکتی تھیں۔ برابر میں معید اسکے ہم قدم تھا۔ وہ کچھ کھویا کھویا سا آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک نسوانی و دلکش آواز جسے لفظوں میں بیان کرنا محال تھا اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اور تبھی دفعتاً اسکے قدم اس ہری گھاس پر جم سے گئے۔فضا ساکت سی ہوگئی۔ ہال ذرا فاصلے پر ہی تھا جہاں سے مائک کے ذریعے وہ آواز اٹھ رہی تھی۔
دھیمے میوزک کے ساتھ وہ سُر۔ وہ لمحوں میں مسحور ہوا۔ دھڑکنوں کے اطوار بدلنے لگے۔
معید جو اسکی محویت سے بے خبر چند قدم آگے بڑھ چکا تھا۔ دوبارہ پلٹا۔ اسکے قریب چلا آیا۔
"نہال!"۔ ہال سے اٹھتی آواز میں اسکی آواز ذرا دب سی گئی تھی۔ مگر وہ یک دم چونکا تھا۔ جیسے سحر چھٹا ہو۔ کچھ لمحوں کو خالی الذہن سے اسے تکنے لگا۔
"کیا ہوا ہے۔ اندر چلنے کا ارادہ نہیں کیا"۔ وہ فوراً سنبھلا۔ اپنی بے خودی پر خود کو کوسنے لگا۔ بڑے بڑے سنگرز موجود ہیں، انکی آواز پر تو ایسے کبھی نہیں چونکا۔
"وہ نہیں ایم سوری۔ چلو اندر چلتے ہیں"۔ خود کو سنبھالتا آگے بڑھنے لگا۔ معید شانے اچکاتا اسکے پیچھے چل دیا۔
سحر چھٹا تھا مگر اثر برقرار تھا۔ وہ جیسے ہال کی طرف کھینچتا چلا جارہا ہو۔ کیا تھا ایسا کہ وہ آواز اسکے دل میں دیدار کی خواہش اجاگر کر گئی تھی۔ ہال کا دروازہ پار ہوا۔ وہ اندر کو پہنچا۔ بھیڑ کافی تھی۔ مگر اسٹیج پر کھڑے ان دو نفوس کو دیکھنا مشکل نہ تھا۔
لڑکے کے ہاتھ میں گٹار تھما تھا۔ جس پر دھن بجاتا وہ اپنے برابر کھڑی لڑکی کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
اسکی آنکھیں موندی تھی۔ مدہوش انداز تھا جیسے اپنی ہی آواز کے سحر کی لپیٹ میں ہوں۔ اسٹینڈ پر مائک ٹکا تھا۔ ذریعہ تھا وہ اسکی آواز اس تک پہنچانے کا۔
بھیڑ میں اسکے قدم اٹھ رہے تھے۔ اسٹیج کی جانب۔ ٹرانس کی سی کیفیت میں۔ اختیارات جیسے چھن گئے ہوں۔یا شاید اب اس آواز کو حاصل تھے۔ معید کہی پیچھے رہ گیا تھا۔

کچھ دھکّے لگے،چند ایک بار قدم لڑکھڑائے۔ مگر وہ اسٹیج کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
بند آنکھیں اور ہلتے لب۔ وہ اسے دیکھے گیا۔ محویت سے.....فریفتگی سے..... جیسے زندگی کا سب سے اہم کام یہی تو ہو۔ خواب کی سی کیفیت تھی۔ ایک پلک بھی جھپکی تو وہ جیسے تحلیل ہوجائے گی۔
بیٹ تبدیل ہوئی۔ ہلتے لب رک گئے۔ بند آنکھوں نے بصارت اختیار کی۔ صراحی دار گردن فخریہ اٹھی۔ ذرا خم دیا اور داد وصول کی۔ بالوں کی شریر سی لٹ سے لے کر پاؤں میں پہنی ہیل تک وہ پورا ایک جہاں ہی تو تھی ۔ لب مسکرا رہے تھے۔
اسکے لب بھی مسکرائے۔ شاید پہلی بار اس طرح مسکرائے تھے۔
شاید آخری مصرع تھا۔ جو اس لڑکے کے حصے میں آیا۔ اسنے کیا خوب گایا۔ آواز تو اسکی بھی غضب کی تھی۔ اور پھر میوزک تھما۔ ہال میں شور سا اٹھا۔ لوگ چیخ چیخ کر داد دے رہے تھے۔ اسنے انکے ہاتھوں کو دیکھا تھا۔ وہ ملے تھے۔ پھر دونوں کا ایک ساتھ سر خم ہوا تھا۔
وہ یک دم ہی چونکا۔ شاید اب ہی صحیح معنوں میں چونکا تھا۔ سحر مکمل تور پر چھٹا تھا۔ یکایک حیرتوں نے آگھیرا۔ اسنے اپنے ارد گرد دیکھا۔ بھیڑ آہستہ آہستہ چھٹ رہی تھی۔ جہاں لوگ پورے ہال کو چھوڑ کر اسٹیج کے قریب جمع ہوئے تھے اب پورے ہال میں پھیل رہے تھے۔
وہ کب اتنی بھیڑ کو چیرتا یہاں پہنچا۔کتنی دیر ہوئی وہ یہاں کھڑا تھا؟۔ کیوں کھڑا تھا...... بیک وقت کتنے ہی سوالوں نے سر اٹھایا۔ لیکن دل بڑا سرشار سا تھا کہ جواب دینے کو بھی انکاری ہوگیا۔
اسکی نظر پھر اس ماہ رخ پر اٹھی۔ لڑکیوں کی کچھ ٹولی کے ساتھ گپے لگانے میں مصروف تھی۔ اب کہ وہ لڑکا کہیں دکھائی نہ دیا۔ اسکی نگاہیں پھر ساکت سی ہونے لگی۔ اسکے مسکاتے چہرے پر جمنے لگیں۔دل کی دھڑکنوں سے سرگوشیاں سی اٹھنے لگی۔ مگر اسنے کان نہ لگائے۔ سر جھٹکا۔ نظر ہٹانی چاہی۔ مگر نظر نے بغاوت کی۔ دل نے مداخلت کی۔نگاہیں پھر اس پر ٹک گئیں۔
وہ ہاتھ ملاتی جانے لگی تھی۔ اسکی نظریں ادھر ادھر کسی کو تلاش رہی تھیں۔ شاید اسی لڑکے کو۔ مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ وہ متلاشی نگاہیں اردگرد گھماتی آگے بڑھنے لگی۔ بھیڑ میں اسے چھانتی۔ ہال سے باہر کی جانب۔ وہ اسے جاتا دیکھتا رہا۔
وہ ہال کے دروازے میں غائب ہوئی۔ سب غائب ہوا۔ سحر........محویت..... مخموریت۔ محفل جو جی اٹھی تھی...... دم توڑ گئی..... بے معنی ہوگئی۔
اسے لگا وہ کھو دے گا....... اپنی قیمتی متاع کو۔ قدم برق رفتاری سے دروازے کی جانب بڑھے۔ کچھ دھکے لگے، مگر وہ پہنچ گیا۔ دروازے پر کھڑا رہا۔ سامنے گراؤنڈ میں دیکھنے لگا۔ وہ سنسان تھا۔
اسکا دل پوری شدت سے دھڑکا۔ اس انداز میں کبھی نہ دھڑکا تھا۔ اپنی قیمتی چیز چھن جانے کا احساس ہوا۔ اسے لگا اسنے کھو دیا۔ سب کچھ.....خود کو........اسے......اپنی دھڑکنوں پر اختیار۔
اسنے باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ اسے اپنے قدم بوجھل سے محسوس ہوئے۔ وہ دائیں جانب بڑھنے لگا۔ بزنز ڈپارٹمنٹ کی جانب۔ وہاں نیم اندھیرا تھا۔ تمام لائٹس بھجی تھیں۔ چاند کی روشنی تھی جو بصارت کی ساتھی تھی۔ جگہ مکمل سنسان و خالی۔
وہ آگے بڑھنے لگا۔ کلاسس کی قطار شروع ہوئی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کیوں اس جانب جارہا تھا۔ وہ بس خالی الذہن سے چلتا چلا گیا۔ مگر پھر ہیل کی کھٹ کھٹ پر تھم سا گیا۔ کوئی بھاگا چلا آرہا تھا۔ شاید اسی جانب۔ سامنے سے ہی مگر اندھیرے میں دیکھنا ذرا محال تھا۔ وہ وہی کھڑا رہا۔ آواز قریب آنے لگی۔ الجھی و گہری سانوں کی آواز سماعتوں میں پڑنے لگی۔
پھر اسنے دیکھا۔ وہ بھاگی چلی آرہی تھی۔ ہاں وہی تھی۔ وہی ماہ رخ۔ مگر الجھی حالت میں۔ اسکا ڈوپٹہ جو اسٹیج پر اسکے شانے پر ٹکا تھا۔ اب غائب تھا۔ شاید پیچھے کوئی اور بھی تھا۔ شاید کوئی مرد۔ مگر اسکے قدموں کی آواز ہیل کی آواز میں دبنے لگی تھی۔ وہ قریب آنے لگی۔ اتنی گھبرائی تھی کہ سامنے کھڑے اسے بھی نہ دیکھ پائی۔ اچانک ہی تصادم سا ہوا۔ وہ ایک پل کو اسکے سینے سے ٹکرائی پھر فوراً دور ہٹی۔ اسے دیکھنے لگی۔نگاہیں سہمی سی تھیں۔ اس وقت وہ معصوم بلی سی معلوم ہوتی تھی جو شاید کسی کتے کے شکار سے بھاگ نکلی تھی۔
پیچھے آتے وہ قدم تھم سے گئے تھے۔ وہ اسے وہاں اسی حالت میں چھوڑتا اس نفوس کے پیچھے بھاگا۔ مگر کافی فاصلے پر ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی راہِ فرار حاصل کر چکا تھا۔ اسنے ہمت نہ ہاری۔ قطار کے آخر تک اسکے پیچھے بھاگا مگر قطار کے اختتام پر رکنا پڑا کہ اب دور دور تک صرف اندھیرا تھا۔ چاند کی روشنی یونی کی عمارت سے ٹکراتی یہاں نہ پڑتی تھی۔ اسے لوٹنا پڑا۔ اسکی وہ حالت ایک ہی کہانی بیان کرتی تھی۔ زیادتی کی کوشش۔ اس خیال پر ہی اسکے لب بھینچ سے گئے۔ بھنویں سمٹ گئی۔ مگر شاید وہ بھاگ نکلی تھی۔ تبھی وہ نا معلوم شخص اسکا پیچھا کرتا یہاں تک پہنچا تھا۔
وہ واپس اسی جگہ پر لوٹا جہاں اس پری رخ کی دھڑکنوں کو قریب سے محسوس کرنے کا اعزاز اسے بخشا گیا تھا۔ مگر وہ جگہ خالی تھی۔ وہ چونکا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سانسیں پھر سے تھمنے لگی۔ وہ ہال کی جانب بھاگا۔ بائیں جانب مڑا اور پھر تھم گیا۔ وہ وہاں تھی۔ اسی لڑکے کے سینے سے لگی سسک رہی تھی جو اسٹیج پر اسکے ساتھ تھا۔ وہ کچھ متفکر و بوکھلایا سا دکھ رہا تھا۔ اسکی مسلسل سسکیاں اسے پریشان کر رہی تھیں۔
"آبش آبش مجھے کچھ بتاؤ تو ہوا کیا ہے"۔
"حارث"۔ سسکی کے ساتھ اسکا نام اسکے لبوں سے آزاد ہوا تھا۔
تو اس کا نام آبش تھا۔ اسنے زیر لب دوہرایا۔پھر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اسکی جانب بڑھنے لگا۔
خود سے ذرا کچھ فاصلے پر کسی کی موجودگی کے احساس کے تحت اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اسے دیکھ اسکی آنکھوں میں ایک حیران کن اور شناسائی کا سا تاثر ابھرا تھا جسے وہ بوجھ نہ پایا۔ مگر اسکے قریب پہنچ کر گزشتہ لمحوں کی تمام کہانی اسکے غوش گزار کی۔ اسکی آنکھوں میں اذیت کو ابھرتا وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ اب بھی دوپٹے سے عاری اسکے سینے سے لگی تھی۔ اسنے اپنی جیکٹ اتاری اورحارث جعفری کی جانب بڑھا دی جو محض جینز و ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ اشارہ اسے پہنا دینے کا تھا۔
"تھینک یو"۔ اسنے کہا۔ وہ مسکرا بھی نہ پایا۔
وہ اسے شانوں سے تھامے یونی کے گیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ تنہا پڑنے لگا۔ انہیں جاتا دیکھنے لگا۔ وہ اسے لے جا رہا تھا۔ اسی نے اس کو لے جانا تھا۔ وہ انکی پشت کو تکتا رہ گیا....... اس نے اسی طرح بس تکتے ہی رہ جانا تھا۔
......(۰٭۰)......

گہرا سکوت تھا۔ تمام داستاں اسکے غوش گزار کرنے کے بعد وہ مکمل خاموش تھا۔ تبادلے کے لیے لفظ جیسے ختم ہوئے تھے۔ اذیت دونوں کے ہی چہروں پر رقم تھی۔
"اس نے کچھ بتایا"۔ ناجانے کتنے لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولی تھی۔
اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔
"وہ بولتی ہی نہیں آپ پوچھیں شاید آپ کو کچھ بتائے"۔
"میری بات سنو"۔ خلا میں گھورتی آواز تھی اسکی۔
"ہوں......"۔
"فلحال کسی کو کچھ مت بتانا۔ زایان کو بھی نہیں۔ سن رہے ہو ناں تم"۔ اسنے سر اٹھائے انہیں دیکھا تھا۔
"چچی جان کو بھی نہیں"۔
"کسی کو نہیں حارث۔ جب تک میں نہیں کہتی تب تک کسی کو نہیں۔ ماما کی صحت کے بارے میں تم جانتے ہو"۔
"اوکے ہانیہ آپی۔ لیکن آپ پلیز جا کر اس سے بات تو کریں۔ اس سے کہیں مجھے اس شخص کا نام بتا دے ایک بار۔میں اسے پھانسی پر لٹکا دونگا"۔ اسکی آنکھوں میں خون اترا تھا۔
"میں تمھارا ساتھ دونگی"۔ وہ عزم سے کہتی روم سے باہر نکل دی۔ سیڑھیاں چڑھے اوپر پہنچی۔ اسکے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ اندر سے گہری تاریکی جھانکتی تھی۔ اس نے دروازے کو پرے کیا اور اندر قدم رکھا۔ سویچ بورڈ پر ہاتھ مارا تو کمرہ روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔ سامنے کا منظر اسے ساکت کر گیا۔
زمین پر جائے نماز بچھی تھی۔ چادر نے اسکے تن کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اسکا سر سجدہ زیر تھا۔ جسم ہولے ہولے سسک رہا تھا۔ اسکے گوشے بھی یکایک بھیگتے چلے گئے۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اسکی طرف برھنے لگی۔
قریب پہنچ کر اسکے سرہانے دوزانوں بیٹھ گئی۔ اسکا جھکا،سسکتا سر دیکھنے لگی۔ آنسو اسکے رخسار کو بھی بھیگتے چلے گئے۔
دفعتاً اسکا سر اٹھا۔ چہرہ مکمل تر تھا۔ لب ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ ہچکی پر اسکی تسبی پڑھتی آواز بلند ہو جاتی۔ ہانیہ کے آنسوں بھی تواتر سے بہتے چلے گئے۔
کچھ لمحوں بعد اسنے سلام پھیرا۔ پھر ہتیلیاں آسمان کی جانب پیش کیں۔ آنسوؤں نے رفتار پکڑی۔ سسکیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہانیہ اسکے شانے سے اپنا سر ٹکا گئی۔
"اللہ......."۔ اس نے لرزتی آواز میں پکارا۔
"شکر ہے تیری رحمتوں پر... شکر ہے تیری نعمتوں پر.....تیری قدرت پرتیری عظمتوں پر۔
تو نوازنے میں کبھی دیری نہیں کرتا۔ مانگنے میں کوتاہی ہم کر جاتے ہیں۔ ابرِ رحمت برسانے میں تیرا کامل وقت،تشکر میں دیری ہم کر جاتے ہیں۔
آج بھی تیری رحمت کا وقت کامل تھا۔ لیکن دیکھ ناں مجھ نادان کے پاس لفظوں کی کمی پڑتی ہے تیرا شکر ادا کرنے کے لیے۔
میرے لفظ قابل الذکر نہیں تیری عظمت کے تذکرے کے۔
مگر آج میں تیرا شکر ادا کرنا چاہتی ہوں۔
تیرا شکر عین وقت پر اسے مسیحا بنا کر بھیجنے کے لیے۔
تیرا شکرمجھے آبرو ریزی سے بچانے کے لیے۔
تیرا شکر میری عزت رکھنے کے لیے۔
تیرا شکر ہر چیز کے لیے جو تو نے مجھے میری اب تک کی زندگی میں عطا کی اور میری آخری سانس تک کرے گا۔
آج میں تجھ سے کچھ مانگا بھی چاہتی ہوں۔ تہہ دل سے...کامل یقین کے ساتھ کہ تو سنتا ہے،قبول کرتا ہے اور بے تہاشا نوازتا ہے۔
میں اپنی...... اس کائنات کی تمام عورتوں کی آبرو کی حفاظت چاہتی ہوں۔
میں اس دنیا میں کھلے عام منڈلاتے درندوں کی ہلاکت چاہتی ہوں۔
میں ہمت چاہتی ہوں..... حوصلہ چاہتی ہوں.....ان سب عورتوں کی آواز میں طاقت چاہتی ہوں جو ازل سے لے کر آج تک زیادتی کا شکار ہوتی آئی ہیں۔
میں زیادتی کا شکار عورتوں کے لئے انصاف چاہتی ہوں۔
میں اس دنیا کو زیادتی سے پاک چاہتی ہوں"۔
ہانیہ اسکی ہر فریاد، ہر جملے پر آمین کہتی آنسو بہاتی جاتی۔ آنسو بتدریج ٹپکتے جاتے۔ اسکا سر ہنوز اسکے شانے سے ٹکا تھا۔ اسنے ہتیلیاں اپنے بھیگے چہرے پر پھیریں۔ اب کہ آنسو تھم چکے تھے۔ رگ وپے سکون سا سرایت کر گیا تھا۔ اس نے اسی طرح گردن پھیرے ہانیہ کی طرف دیکھا۔ اسکی نگاہیں جھکی تھی۔ چہرے کا ہر نقش طمانیت کا گواہ تھا۔ اسے شاید اپنے سوالوں کے جواب مل چکے تھے۔ اب کسی استفسار کی گنجائش نہ تھی۔
"کون تھا وہ، تم وہاں تک کیسے پہنچی؟۔ بس اس کے علاوہ کوئی سوال نہیں ہے آبش۔ مجھے تمام سوالوں کے جواب مل چکے ہیں"۔ اسکا جھکا سر اٹھا۔ اسکی متورم آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔
"حارث کی جیکٹ۔ وہ ویسی ہی جیکٹ تھی"۔ اسنے بتا نا شروع کیا۔ آواز پھر بھیگنے لگی تھی۔
"حارث....حارث۔ رکو یار۔ کہاں کو چل دئے۔ حارث"۔ اس کی جیکٹ کی پشت پر ارمانی کے نام کو دیکھتی وہ چلائی تھی۔ مگر جواب ندارد پا کر اسکے پیچھے چل دی۔ وہ بزنز ڈپارٹمنٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔
"حارث۔ کیا بہرے ہوگئے۔ کہاں جارہے ہو"۔ وہ ایک بار پھر چلائی تھی۔ اسکے لمبے قدموں سے ملنا اسکے لیے محال ہورہا تھا۔ مگر ذرا قریب پہنچ کر اسکے کانوں میں لگی ہینڈفری اسے دکھائی دی۔ ایک گہرا سانس اسکے منہ سے آزاد ہوا۔
"تم یقین نہیں کرو گے میں نے کسے دیکھا"۔ وہ تقریباً بھاگتی اسکے قدموں سے ملنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر ناکام تھی۔
"نہال غازی.... نہال غازی کو دیکھا میں نے یار۔ وہ ہمارے یونی میں کیا کر رہا تھا"۔ شاید اسے بولنے کی بیماری تھی۔ سامنے والے کا مکمل فون میں غرق ہونا بھی اسکی زبان کو بریک نہیں لگا پایا تھا۔
"کیا وہ بھی اسی یونی سے........."۔ ابھی وہ کچھ اور بھی بولتی کے آگے چلتا نفوس اچانک ہی پلٹا۔ وہ اس سے محض ایک قدم کے فاصلے پر تھمی۔ ممکن تھا کہ تصادم ہو ہی جاتا۔ کلاسس کی قطار کے وسط میں وہ دونوں کھڑے تھے۔ بیک وقت دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے ٹکرائی۔ وہ حارث نہیں تھا۔ چاند کی نیم روشنی میں اسکے نقش واضح تھے۔ وہ حارث ہر گز نہیں تھا۔ اسے اپنی غلط فہمی کا شدت سے احساس ہوا۔ خوف کی ایک شدید لہر وجود کو سنسنا گئی۔
سامنے اس چہرے کے لب یکایک مسکراہٹ میں پھیلے تھے۔ عام مسکراہٹ نہ تھی۔ خباثت سے بھر پور تھی۔ حلق میں ایک گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ سانس مدھم پڑتا محسوس ہوا۔ مزید وقت ضائع کرنا اسے حماقت لگنے لگا۔ وہ فوراً پلٹی۔ راہِ فرار حاصل کرنی چاہی مگر بازو پر مضبوط گرفت نے آگے نہ بڑھنے دیا۔
اسنے بازو کھینچ کر اسے ایک جھٹکے سے واپس پلٹایا۔ ایک قدم کا فاصلہ بھی اب سمٹ چکا تھا۔
"ارے رے۔ سویٹ ہارٹ۔ کہاں کو چل دی۔ بڑی مشکل سے ہاتھ لگی ہو"۔ خوف کے مارے اسکی آنکھیں یکایک پانیوں سے بھرنے لگیں۔
"چھ.......چھوڑو مجھے"۔ کمزور سا احتجاج کیا گیا۔ اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
"ایسے کیسے ہاں؟...... پتا ہے یونی کے پہلے سال سے کرش ہے تم پر۔ ارے تم نے تو محسوس بھی نہیں کیا ہوگا۔ کبھی نظر ثانی جو نہیں کی۔ تمھارا ہی ہم جماعت ہوں۔ مگر وہ حارث۔ وہ ہر وقت پہرے دار کی طرح تمھارے آگے پیچھے منڈلاتا ہے۔ کبھی موقع ہی نہیں ملا۔ مگر آج یہ ہاتھ آیا موقع کیسے جانے دوں۔ ہمیں بھی تو قریب سے محسوس کرنے دو خود کو"۔ معمولی سا فاصلہ بھی وہ سمیٹ گیا تھا۔ اسکی مزاحمت میں شدت آئی۔ کچھ اشک رخسار پر بہتے چلے گئے۔ دوپٹہ شانوں سے ڈھلک کر بازو پر آگرا تھا۔
"چھوڑو مجھے اعتزاز۔ مجھ پر ایک آنچ بھی آئی تو حارث چھوڑے گا نہیں تمھیں"۔ وہ چلائی تھی۔ اس ہولناک صورتحال میں بھی ہمت برقرار تھی اس کی۔
"اوہ واؤ۔ تو بے خبر نہیں ہو۔ نام تک معلوم ہے۔ بس بے نیاز بنی پھرتی ہو"۔ اسکی مسکراہٹ پھیلی تھی۔ ایک ہاتھ اٹھا تھا اور اسکے رخسار کو چھونا چاہا تھا۔ مگر اگر ہی لمحے........چٹاخ۔ وہ سنسان ماحول گونج اٹھا۔ اسکا ایک ہاتھ اپنے رخسار پر ٹکا تھا۔ آنکھوں میں اشتعال سا اترنے لگا۔ لب بھینچ گئے۔ اس تھپڑ میں بازو کی گرفت کب ہلکی پڑی تھی اسے محسوس ہی نہ ہوا۔ بس یہی موقع پایا اور وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے میں کامیاب ہوئی۔ اپنی دونوں ہتیلیاں اسکے سینے پر ٹکائے اسے دھکا دیا اور فوراً بھاگی۔ دوپٹہ جو بازو پر اٹکا تھا زمین پر جا گرا۔ وہ اندھا دھند بھاگی تھی۔ اپنے پیچھے اسکے بھاگتے قدموں کی دھمک وہ بخوبی سن سکتی تھی۔ ہیل میں اپنی تمام تر ہمتوں کو متجمع کیے وہ آج شاید پہلی بار اس رفتار سے بھاگی تھی۔ جیسے ہرنی شیر کے شکار سے بھاگتی ہے۔ جیسے بلی کتے کی دھاڑ سے بھاگتی ہے۔ آج وہ اپنی آبرو کی خاطر ایک درندے کی ٹپکتی رال سے بھاگی تھی۔
....................................
"مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ حارث آج جیکٹ پہن کر نہیں آیا تھا۔ میں بھاگ تو نکلی آپی۔ لیکن وہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ لیکن دیکھیں ناں۔ خدا کی رحمت کا وقت کس قدر کامل ہے۔ اسنے نہال کو ہی مسیحا بنا کر بھیجا تھا میرے لیے۔ ہاں آپی وہ نہال ہی تھا۔ نہال غازی۔ اگر........اگر وہ وقت پر وہاں نہ پہنچتا تو کیا ہوتا میں اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی۔ شاید....شاید آپ اپنی بہن کو اس وقت اپنے سامنے بھی بیٹھا نہ پاتی آپی۔ میں جنتا......جنتا میرے رب کا شکر ادا کروں اتنا کم ہے"۔ آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ ہانیہ نے ہاتھ اٹھا کر اسکے آنسو پونچھ دیے۔ اسکا چہرہ ہتیلیوں میں تھامے اسے دیکھنے لگی۔
"آج مجھے اندازہ ہوا کہ میری بہن کس قدر بہادر ہے۔ ایسے ہی تو تمھارے نام کا مطلب ملکہ ایران نہیں ناں۔ تم واقعی میں ایک نڈر اور بہادر ملکہ ہو۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید اسے تھپڑ مارنے کی جرت نہ کرتی۔ مجھے فخر ہے اپنی بہن پر"۔وہ تفاخر سے مسکرائی تھی۔ آنکھیں اب بھی نم تھیں۔
"گھبرائی تو میں بھی تھی آپی۔ سانس تو میرا بھی رکنے لگا تھا۔ لیکن ایک عورت کے لیے قیمتی متاع اسکی آبرو ہی ہوتی ہے۔اسے بچانے کے لیے پھر اسے ہرنی سے شیرنی اور شیرنی سے بنتِ حوا بنتے لمحہ نہیں لگتا"۔
"اور اس شیرنی کے ساتھ جب شیر، بنتِ حوا کے ساتھ جب ابن آدم مل جائے تو شیطانوں کے مقدر میں صرف ہلاکت آتی ہے"۔ دونوں کی آنکھوں نے دروازے کا رخ لیا تھا۔
"میں اس درندہ صفت انسان کو تمھارے قدموں میں لا کھڑا کرونگا آبش۔ میں اسے عبرت کا نشان بناؤنگا۔ زمانہ دیکھے گا، اسکی بربادی میرے ہاتھوں"۔ ایک عزم تھا اسکے لہجے میں۔ غصے پر قابو پانے کی حتی الوسع کوشش جاری تھی۔
......(۰٭۰)......

معمول کی طرح آفس کے لیے روانگی اختیار کی جا چکی تھی۔ سیاہ گاگلز نے سیاہ آنکھوں کو پوشیدہ کر رکھا تھا۔لبوں پر ازلی سنجیدگی کا بسیرا تھا۔ بھنویں آج کچھ بھینچی سی تھی۔ چہرے پر الجھن رقم تھی۔
وہ چہرہ......... بند آنکھیں اور ہلتے لب۔ سماعتوں میں پڑتی وہ آواز...... الجھی دھڑکنوں میں گہری سانسوں کی آمیزش۔
کام وجہ تھا رت جگوں کی،تب تک ٹھیک تھا۔ وجہ کسی کا چہرہ بن جائے یہ نامنظور تھا۔ کام کے علاوہ وہ لمبی تان کر سوتا تھا۔ ایسے کوئی آجائے اور نیند چرا کر لے جائے......
اپنی عام اور عملی زندگی جیسی بھی تھی۔ وہ مطمئن تھا۔ صبح اٹھنا، آفس جانا، واپس آنا اور سونا۔ نہال غازی کی عام زندگی کا یہی خاصا تھا۔ مگر جیسے اس ایک رات نے سب بدلا تھا۔ نیند پر لگائے اڑ چکی تھی۔ دھڑکنیں نئی لہہ پر دوڑنے لگی تھیں۔ خیالات کی رو نے نیا رخ لیا تھا۔ ماضی کی تلخیوں میں اسکی خوش الہانی گھلنے لگی تھی۔ وہ سوچتا ضرور تھا۔ مگر سوچ میں گھنٹوں ڈوب جانا، ارد گرد سے غافلیت....... یہ کب خاصا تھا اسکا۔ وہ تو حاضر دماغ تھا۔ ایک دھک پر چونک جانا، ملازمین کو ہدایت، کارکنوں پر کڑی نظر۔ کوئی چیز اس سے نہ چوکتی تھی۔ اب یوں تھا کہ فیرویل کو چار دن بیت چکے تھے۔ اور آفس کے عام سے عام کارکن سے بھی اسکی دماغی غیر حاضری مخفی نہ رہی تھی۔کتنی ہی چہ میگوئیاں اڑ اڑ کر اس تک پہنچی تھی۔ خیر اسنے تو کان نہ دھرے تھے۔ مگر اپنی سالوں پرانی دم دار ریپوٹیشن پر جو پوشیدہ داغ لگتا جارہا تھا وہ قابلِ نامنظور تھا۔
کیسا سحر تھا۔ کیسی ساحرہ تھی۔ شب وروز خود میں بھٹکائے رکھے تھے۔ یہ بے کلی، یہ خالی الذہنی..... اگر اسے ہی کیوپڈ کا وار کہتے ہیں تو اتنا سفاک وار اسنے اپنی تمام زندگی میں کبھی نہ سہا تھا۔ ساعتیں خلا میں ابھرتی اس تصویر کو تکتے نکلتی تھیں۔ دل دیدار کا خواہاں تھا۔ زہن تبادلے کا خواہش مند۔ ان چاہتوں کا طالب وہ کب رہا تھا۔ یہ قسمت کس طرح کی کڑی آزمائش کی تاک میں تھی۔ چند ساعتوں میں اس خوش الہان نے مخملین بستر سے تپتے صحرا میں لا کھڑا کیا تھا۔ اسکے تلوے اس تپش کی تاب نہیں لا پا رہے تھے۔
کیا سے کیا ہوا تھا........
ان سرکش جذبوں پر وہ کان نہیں دھرنا چاہتا تھا۔ اپنی ذات سے جڑے سوالات راستہ کاٹتے تھے۔ سوال سر اٹھاتے تھے کہ اگر سب سچ نکلا تو کیا وہ کسی نگاہ میں قابل قبول بھی ہوگا؟۔ وہ جسے سالوں پہلے غلاظت قرار دے کر دھتکار دیا گیا تھا، کیا یہ پاک اور عظیم محبت نامی جذبہ اس سے نتھی ہو کر بھی پاک رہ سکتا تھا؟۔اسکی کنیت....غازی..... جسے اسکے خاندان کی سربراہ نے ہی اسکے نام کے ساتھ جوڑنے کو انکار کیا تھا، کیا کوئی اسکے طفیل یہ کنیت خود سے منسوب کرنا پسند کرے گا؟۔ ذات کے ساتھ جڑا وہ معمہ اور نوخیز جذبے جیسے محاذ آرائی چاہتے تھے۔ درمیان میں وہ پستا تھا، اذیت کا شکار ہوتا تھا۔
کہ آج وہ شکستہ حال چہرے پر رقم اذیت لیے، ہلکی بڑھی شیو کے ساتھ ناچاہتے ہوئے بھی آفس کی جانب روانہ تھا۔ جعفریز کے ساتھ طے کردہ میٹنگ پیروں کی بیڑیاں ثابت ہوئی تھیں۔ اسکا دل ہر کام، ہر چیز سے اس قدر اچاٹ تھا کہ میٹنگ منسوخ کرتے کرتے نجانے کس احساس نے اسے روکا تھا۔ آج انکی جانب سے پہلی پریزنٹیشن پیش کی جانی تھی اور وہ بے کل تھا۔ شوریدہ جذبے اس قدر بپھر چکے تھے کہ دانستہ طور پر ان سے نظریں چرانا اسکے لیے محال ہوتا جارہا تھا۔ تقدیر سے بے خبر کہ آج کس اعزاز سے اسے بخشا جانا تھا۔قسمت سے لاعلم کے آج وہ کس قدر شفیق و مہربان تھی۔
......(۰٭۰)......

کوٹ پینٹ میں ملبوس وہ ٹائی کو آخری بل دیتا سیڑھیاں پھلانگتا نیچے کو پہنچا تھا۔ چہرے پر طمانیت کے آثار صاف نمایا تھے۔مسرور سی مسکراہٹ نے لبوں پر بسیرا کر رکھا تھا۔ آنکھوں میں فاتحانہ چمک تھی۔ بہت محنت ومشقت کے بعد وہ دونوں ایک بہترین پریزنٹیشن تیار کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اور تب سے انکی مسرت کا جیسے کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ وہ اس قدر شادمان تھے کہ باقاعدہ جشن کی خاطر گھنٹوں ساحل کنارے تو کبھی کسی کافی شاپ یا آئس کریم پارلر میں مٹر گشت کرتے پائے جاتے تھے۔ زایان کی ہتیلیاں ماتھے سے ہٹ کر نہیں دے رہی تھی۔ہانیہ انہیں داد دیتی نہیں تھک رہی تھی اور دونوں کے والدین انہیں سپرد خدا کر چکے تھے کہ اب وہ انکے بس سے باہر تھے۔ پریزنٹیشن نہ ہوئی جیسے کوئی معرکہ سر کر آئے تھے۔ ایک ہفتے کی اس تکن آمیز سعی میں جیسے یونی کا معاملہ اور اعتزاز پر تحقیقات پسِ پشت جا چکی تھی۔
ایسا نہ تھا کہ محض بڑے دعووں کے بعد اسے تلاشنے کی اسنے کوشش نہ کی تھی۔ کچھ روز تو اسکے مزاج اس قدر بپھرے و گرم رہے تھے کہ اسکی معلومات حاصل کرنے کی خاطر وہ مارا مارا پھرا تھا۔ کچھ تگ ودو کے بعد کچھ مواد ہاتھ لگنے پر معلوم ہوا کہ فیرویل کی ہی رات اسکی لنڈن کے لیے فلائٹ بک تھی۔
اور یہی اسکے بپھرے مزاج مزید گرم ہوا لگنے پر دہک اٹھے تھے۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا دنیا ہلا دے۔ اسے ٹھنڈا کرنے میں ہانیہ کا بڑا ہاتھ تھا کہ اسکا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر وہ پر سکون ہوجائے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اسکے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے بھی قاصر تھے کہ کسی طرح کا کوئی ثبوت و دلیل انکے پاس نہ تھی جس کی بنا پر وہ اسکی قانونی تحقیقات کروا سکتے۔ اور نہ ہی ایسا کوئی مجرمانہ عمل اس نے کیا تھا جسکی نشاندہی کی جاتی۔ اس بات سے وہ مکمل طور پر آگاہ تھے کہ اسے محض معمول کی harassment قرار دے کر کان پھیر لیے جاتے اور انہیں خالی داماں رہ جانا تھا۔
بہر حال پریزنٹیشن کی تیاری میں وہ بھی اس قدر سرگرداں ہوچکی تھی کہ اعتزاز عارضی طور پر ہی صحیح اسے بھول چکا تھا۔
وہ نیچے پہنچ کر سیدھا زایان اور ہانیہ کے مشترکہ روم کی جانب چل دیا تھا کہ رات گئے زایان صبح اسے یاد سے اٹھانے کی تاکید کر گیا تھا۔ کہ کل محض غازی انڈسٹری میں حاضری لگانی تھی تو وہ دیر سے اٹھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔مگر ایک چوک اس سے یہ ہوئی کہ وہ حارث کو ہدایت کر گیا تھا۔ اس حارث جعفری کو جو خود کو مصیبت گردانتا تھا۔ اسنے ابھی دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ بلند کیا ہی تھا کہ دروازہ اندر سے کھلا اور دوپٹہ سنبھالتی ہانیہ نمودار ہوئی۔
"بھائی جان اٹھ گئے؟۔ میں انہیں ہی اٹھانے آیا تھا"۔
"نہیں ابھی میں نے اٹھایا تو کہتے ہیں دس منٹ مزید سوئینگے۔ تم بتاؤ ناشتے میں کیا کھاؤ گے"۔
"ٹوسٹڈ بریڈ پر مکھن لگا دیں۔ اور ایک کپ کافی ود آؤٹ شوگر"۔ ہانیہ سر ہلا گئی جبکہ وہ کمرے کے اندر چلدیا۔ پرسکون و میٹھی نیند سوتے زایان کو دیکھ ازلی شریر مسکراہٹ نے اسکے لبوں پر بسیرا کیا تھا۔ دماغ نے بتی جلائی تھی اور وہ باتھ روم کی طرف چلدیا۔ کچھ لمحوں بعد کی واپسی پر ایک درمیانے سائز کی پانی بھر بالٹی اسکے ہاتھ میں تھی۔ نچھلا لب دانتوں میں دبا تھا۔ وہ دھیان سے قدم اٹھاتا اسکی جانب بڑھا۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر کچھ لمحے اسکے اونگتے چہرے کو دیکھنے لگا۔
"حارث سے امیدیں لگاؤ گے تو ہمیشہ پانی میں ڈبو دیے جاؤ گے۔ میں مصیبت ہوں، آزمائش بن کر برستا ہوں"۔
اور اگلے ہی لمحے بیڈ سمیٹ آدھا کمرہ پانی پانی ہوا تھا اور زایان کی درد ناک چیخوں سے پورا گھر گونج اٹھا تھا۔ایک بار پھر وہ اس شیطان کی شیطانیت کے ہتھے چڑھ چکا تھا۔
......(۰٭۰)......
بھورے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنی تھی۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ ہنوز ٹکا تھا۔ ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس وہ سیڑھیاں پھلانگتی نیچے کو اتری تھی۔ لاؤنج پار کرتی ڈائیننگ روم کو پہنچی جہاں پراٹھوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی تھی۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس باوقار سے سجاد صحاب ہمیشہ کی طرح سربراہی کرسی پر براجمان تھے۔
نفیس سی چمک دھمک رکھتی ساڑھی میں ملبوس تیکھے نقوش پر ہلکا سا میک اپ کیے صائمہ بیگم نے انکے برابر کی کرسی سنبھالی تھی۔ وہ انکے کے سامنے کی کرسی کھینچے اس پر براجمان ہو چکی تھی۔ اسکے انداز و اطوار کچھ بدلے سے تھے۔ ایک عجب لہک و چمک نے اسکے نقش کا احاطہ کر رکھا تھا۔ ویسے تو وہ دلدادہ ہی تھی۔ شریر سی مسکان ہمہ وقت ہی اسکے لبوں پر بسیرا کیے رکھتی تھی۔ مگر کچھ نوخیز سی دمک تھی جسے کچھ دنوں سے اسکے والد نے خوب محسوس کیا تھا۔ اور آج وہ شاید اس سے تفتیش کا ارادہ رکھتے تھے۔
وہ سجاد و تانیا کی اکلوتی بیٹی تھی۔ تانیا بیگم اسکی حقیقی ماں۔ جو اسکی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی ایک کار ایکسیڈینٹ میں اپنی سانسیں گنوا چکی تھی۔ اور سجاد صاحب اسکی پرورش کی خاطر اپنی ہی سیکرٹری کو اسکی دوسری ماں بنا لائے تھے۔ جو خیر سے ماں تو دور بقول اسکے ایک اچھی دوست بھی ثابت نہ ہو پائی تھیں کہ ان سے شادی کا مقصد محض دھن دولت اور جائداد کا حصول تھا۔ شادی سے پہلے ہی انہیں اس بات کا اندازہ تو تھا کہ انکی آدھی جائداد انکی اکلوتی بیٹی ارحا کے نام تھی مگر یہ تھوڑا کچھ نہ ہونے سے تو بہتر تھا۔
ارحا کے بعد انکی دوسری بیوی سے اولاد کی امید وہ کھو چکے تھے کہ ایک ہی ٹیسٹ پر ڈاکٹر ز نے Infertile کا لیبل لگا کر کیس ختم کیا تھا۔
اور اسی لیے اِرحا انصاری انکی اکلوتی بیٹی ٹہری تھی۔اپنے باپ کی کماؤ پونجی کی اکلوتی وارث۔ اور وجہ یہی تھی کہ والدکی لاڈلی ہونے کے ساتھ بغاوت، ہٹ دھرمی اور سرکشی کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔اسکی ہر خواہش کی تکمیل جیسے انکی زندگی کا سرمایہ تھی۔ اسکی ایک چاہ لمحوں میں اسکے قدموں میں ڈھیر کر دی جاتی۔ کسی چیز پر اسکی ایک نظر اور وہ چیز ارحا انصاری کی۔
اسنے ٹیبل سے نیپکن اٹھائے اسے اپنی گود میں رکھا اور ہاتھ آگے بڑھائے ٹرے سے ایک بریڈ اچک لی۔ پھر ادھر ادھر نظریں گھمائے مکھن تلاشنے لگی۔
"کیا خیال ہے بیگم صاحبہ۔ پھر ہاں کر دی جائے"۔ سجاد صاحب نے مکھن اسکی جانب بڑھاتے ہوئے صائمہ بیگم کو مخاطب کیا تھا۔
"میرے خیال سے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ارم میری قریبی دوست ہے اور امان سے بھی میری ایک دو بار ملاقات ہو چکی ہے۔ ہی از ویل میچور اینڈ مینٹینڈ۔ ایز ویل ایز ویری ہینڈسم"۔ صائمہ بیگم نے کہہ کر منہ میں نوالا بھرا تھا۔
"کیا آپ اپنے لیے لڑکا دیکھ رہی ہیں سیکرٹری صاحبہ؟"۔ موضوعِ گفتگو سے ازبر ہوکر بھی کیسی شانِ بے نیازی تھی۔ اکیلی ہو یا چاہے بھرا مجمع شاید جب سے ہوش سنبھالا تھا انہیں ماں کہنے کا کشٹ وہ کبھی نہیں کرتی تھی۔
"واٹ دی ہیل"۔ صائمہ بیگم کا رنگ لمحوں میں دہک اٹھا تھا۔
"ارحا۔ کیا بدتمیزی ہے یہ۔ شی از یور مام"۔ سجاد صاحب نے اسے ڈپٹا تھا۔
"کریکشن (تصحیح)!.... شی از یور وائف بابا۔ میری ماما سالوں پہلے مجھے چھوڑ کر جا چکی ہیں"۔ اسنے بریڈ کا ایک نوالہ توڑا تھا۔ ڈائننگ روم میں سکوت سا چھا گیا تھا۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد سجاد صاحب پھر گویا ہوئے۔
"صائمہ کی دوست ارم اپنے بیٹے کے لیے تمھیں تجویز کر گئی ہیں۔ اور میں نے جہاں تک غور کیا ہے یہ تمھارے لیے بہترین رشتہ ہے۔ ہمارے اسٹیٹس کے مطابق ایک اعلٰی........"۔
"واؤ سیکرٹری صاحبہ کی رفیق خاص ہیں۔ مطلب یہاں بھی سودا"۔ وہ فوراً انکی بات کاٹ گئی تھی۔"ایم سوری بابا میں کسی کے مفاد کے لیے چارہ نہیں بننا چاہتی"۔
"کیا کہنا کیا چاہتی ہو تم"۔ وہ فوراً مشتعل ہوئی تھیں۔ مگر نظر انداز کردی گئیں۔
"فلحال میرے کچھ پلانز ہیں بابا۔ میں کام کرنا چاہتی ہوں"۔ اسکی بات سن کر سجاد صاحب کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ لاڈلی تھی۔ اس سے اختلاف کرنا جیسے گستاخانہ عمل تھا انکے لیے۔ جبکہ صائمہ بیگم کے چہرے کے زاویے بگڑ چکے تھے۔
"ٹھیک ہے پھر۔ جیسا میری بیٹی چاہے۔ پھر کل سے آجاؤ آفس"۔
"آہاں!... نہیں بابا میں کہی اور کام کرنا چاہتی ہوں۔ شروعات سے ایک عام کارکن کی طرح۔ میں جاب کرنا چاہتی ہوں"۔ اسکا انداز بلکل عام و بے تاثر تھا جبکہ سجاد صاحب یہاں تک کہ صائمہ بیگم بھی بری طرح چونکی تھیں۔
"لیکن ارحا بیٹا یہ سب تمھارا ہی تو ہے۔ یہ گھر، پورا کاروبار۔ سب تمھارا ہی تو ہے۔ جب اتنا سب کچھ تمھارے پاس موجود ہے تو جنت چھوڑ کر تپتے صحرا کی خواہش کیوں؟"۔ ان کے استفسار پر اسکی پر سوچ سی نگاہیں انکی جانب اٹھی تھی۔
"میری دولت کچھ اور ہے بابا، میری زندگی کی ہر خوشی، ہر حاصل کا محور کوئی اور ہے۔ اسے پانے کے لیے پھر تلوں کا ہر چھالا نذرِ صحرا کرنے کو تیار ہوں"۔
......(۰٭۰)......

تمام کام سے فراغت حاصل ہوتے ہی وہ اپنے کیبن کو پہنچا تھا۔ کانفرس روم کے ساتھ ایک بہترین ڈنر کے انتظامات بھی وہ نپٹا چکا تھا۔ اسکے شراکت دار پہلی بار یہاں کا رخ کر رہے تھے تھوڑی تووضع داری بنتی تھی۔ آفس کے کارکنوں کی وہ دوڑ لگوا چکا تھا۔ایک کھلبلی سی مچی تھی مگر اب وہ پر سکون تھا کہ تمام انتظامات مکمل ہوئے تھے اور انکے آنے میں محض پندرہ منٹ تھے۔ اب کہ وہ کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ انکے آنے کی اطلاع اسکے کارندوں نے دے جانی تھی۔ کام کی مصروفیت میں کسی حد تک ہی صحیح مگر ذہن میں نقش اس منظر کو وہ بھٹکانے میں کامیاب رہا تھا کہ اب تنہائی میسر آتے ہی ایک بار پھر یہ انجانے و نامعلوم احساسات اسے اپنی لپیٹ میں لینے لگے تھے۔
اسنے سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے کنپٹی کو مسلا۔ آنکھیں زور سے مینچی اور سر جھٹکا۔ شاید دانستہ طور پر اس آواز کو جھٹکنا چاہا تھا کہ انٹرکام کی بجتی آواز مددگار ثابت ہوئی۔ اسنے ایک گہرا سانس بھرے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
"سر ایک کینڈیڈیٹ ہیں۔ مسٹر ارحان عباسی..........."
"انہیں مس فبیہا کے آفس بھیجیں۔ آج آنے والے تمام کینڈیڈیٹس کی فہرست تیار کر کہ میرے آفس بھجوائیں اور انہیں کل واپس تشریف لانے کا کہیں کہ آج نہال غازی کچھ مصروفیات کی وجہ سے ان سے نہیں مل سکتا"۔ وہ اسکی بات کاٹ کر گویا ہوا تھا۔
"لیکن سر وہ آپ سے ملنے کو بضد ہیں"۔
"مس انیتا۔ کیا آپ آج کی آفس میں کسی کی آمد سے با خبر نہیں ہیں؟۔ اسکے بعد میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ اس ملاقات کو فلحال کے لیے زیرِالتواء رکھئے"۔ دوسری جانب کی کچھ سنے بغیر ہی وہ فون کریڈل پر رکھ چکا تھا۔ ایک نظر رسٹ واچ پر ڈال کر وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔ اسنے ٹیبل کی جانب ہاتھ بڑھائے لیپ ٹاپ کھولنا ہی چاہا تھا کہ دروازے کی کلک پر نگاہیں اس جانب اٹھی۔ اسکا مینیجر فیاض نمودار ہوتا دکھائی دیا۔
"They have arrived Sir".
وہ فوراً اٹھا اور کیبن سے باہر نکل دیا۔ کوٹ کا درمیانی بٹن بند کرتا وہ راہداری میں مضبوط قدم اٹھاتا لفٹ کی جانب بڑھا۔ کچھ ہی لمحوں بعد وہ آفس کے داخلی دروازے پر کھڑا تھا۔ لبوں پر ایک مسکراہٹ سجائے وہ سامنے کھڑی ان دو سیاہ مرسڈیس کو دیکھ رہا تھا۔ آگے کھڑی اس گاڑی کا دروازہ کھلا تھا اور حسبِ توقع وہ تین معروف چہرے دکھائی دیے۔ اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔ وہ استقبال کے لیے انکی جانب بڑھا ہی تھا کہ پچھلی گاڑی کا دروازہ کھلا۔ وہ تھم سا گیا۔ داخلی دروازے سے پہلے بنی اس مرمرین سیڑھی پر اسکے قدم جم سے گئے۔ فضا ساکت سی ہوگئی۔ اس سیاہ گاڑی سے نکلتی سیاہ کپڑوں میں ملبوس وہ وہی تو تھی۔ ہاں وہی عشوہ طراز جس کی خوش الہانی نے اسکی شب تنہائی میں خلل پیدا کیا تھا۔ خلا میں جسکی بند آنکھیں نقش رہا کرتی تھیں۔ خاموشی میں جسکی آواز ارتعاش برپا کرتی تھی۔ وہ اسکے سامنے تھی۔ دوپٹہ سنبھالتی گاڑی سے اتری تھی۔ کیچر میں قید ہالف بالوں کی ایک شرارتی لٹ نے اسکے رخسار پر بوسہ دیا تھا۔ ایک ہاتھ اٹھا تھا اور اس لٹ کو پیچھے کرنا چاہا کہ اسکی نگاہ اٹھی اور اسکی بے قرار نگاہوں سے ٹکرائی۔ لمحے میں چند چنگاریاں اٹھی اور اسکے پہلے سے تار تار ہوئے دامن کو جلا کر خاکستر کر گئی۔ نجانے کتنی بے چینیاں، کسک اور بے کلی اس ایک نظر کے رشتے میں پنہاں تھیں۔
ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ بھی اترتا دکھائی دیا اور اسی کے ساتھ آکھڑا ہوا۔ اسے اسکے برابر کھڑا دیکھ وہ یک لخت چونکا۔ یکایک حیرانگی نے آگھیرا۔ یہ کیسی مدہوشی تھی۔ کیسی بے خودی تھی جو گزشتہ لمحے میں اس پر وارد ہوئی تھی۔ لمحوں میں جیسے صدیوں کی مسافتیں وہ تہہ کر آیا تھا۔
اپنے قریب پہنچتے ان جعفریز کا اسنے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا۔ ایک بار پھر وہ بزنز مین نہال غازی بن گیا۔ عواطفِ قلبی پر پیشے کا خول چڑھ چکا تھا۔
......(۰٭۰)......

A.o.A!
Kaisey hen Ap sb.. ek din ki deri k kiye mazrat chahti hu... yeh episode likhna thora muskil laga lekin Alhamdulillah likh hi lya...
To kaisa lga Episode? Reviews Zrur dijiye ga.. Nihal ka past janne k liye betab hen.. Kya lgta h kya hoga uska past🤔🤔 or us character k bare me kuch guesses jiski jhalkiyan mene 2nd episode me dikhayi thi.. kon hogi woh?? Or Etizaaz? Kya uska maamla yahi khtm hua?? Bohut se sawalat hen na... To phir jure rahiye is novel k saath. ... Ahista Ahista tamam jawabat mil jayengy..🙌🏻🙌🏻🙌🏻 Duaon me yaad rakhiye ga...
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
👇🏻or vote to dete jayen plzz😂 paisey nhi lgte pyaaron...

Continue Reading

You'll Also Like

4.7K 406 48
this is a kind of fantasy . like imagine that the worldwide famous boy band BTS will be Desi ....what will happen 😂 I think this is amazing to just...
64 13 4
This story revolves around Mohsin Hayat and Sehar Suleman. This is the Story of love,black magic, light and betrayal Read Now
0 1 2
Annie or seungmin ke ak mysterious love story lakin jin ke love story ko anna na bhot spoil karne ke kosis ke lakin wo na kar sakte
33.2K 1.3K 9
Assalam o Alikum frndz that's my first story i hope u like it plz don't forget to vote and also give ur feedbacks 😊 یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو...