"ہماری شادی میں ابھی باقی ہیں ہفتے چار۔۔ مہینے بیت گئے۔۔ ام آگے مجھے نہیں آتا یہ گانا بس اس سے ہی گزارا کریں۔۔ "
وہ لوگ ان کہ گھر سے نکلنے ہی والے تھے جب جنید کے موبائل پر اسامہ کی کال آئی۔۔
"آ گئی تمہیں ہماری بھی یاد۔۔؟ "
جنید بولا۔۔
"میں نے تو اس خیال سے فون نہیں کیا کہ سیکرٹ ملاقاتیں چل رہی ہوں گی۔۔ کہیں میری وجہ سے ڈسٹرب نا ہو جائیں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"بہت بدتمیز ہو تم۔۔"
جنید ہنس دیا۔۔
"اور آپ میسنے۔۔ توبہ توبہ حال دیکھو ذرا۔۔ شادی سے پہلا ہی لڑکا سسرال پہنچا ہوا ہے۔۔ لو بھلا بتاؤ ہمارے زمانے میں کوئی ایسے ہوتا تھا۔۔ شادی والے دن ہی اپنی دلہن کو دیکھتے تھے اور ایک ہفتہ تو ان کی شکل یاد کرنے میں ہی لگ جاتا تھا جبکہ یہاں تو دولہا دلہن بیٹھ کر اکٹھے ڈنر کر رہے ہیں۔۔ تونہ بھئی۔۔ کیسا زمانہ آگیا ہے۔۔ "
اسامہ بڑی محلے کی عورتوں کی طرح بولا تو جنید کے لیے اپنی ہنسی قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوگیا۔۔
"کیا چیز ہو تم اسامہ۔۔ کیسے آتی ہیں اتنی باتیں تمہارے دماغ میں۔  "
جنید ہنستے ہوئے بولا۔۔
"بس یہ ٹیلنٹ تو مجھ میں بچپن سے ہی تھا۔۔ مسخرہ بننا چاہتا تھا۔۔ ابا جی کے ڈر سے ڈاکٹر بنا بیٹھا ہوں۔۔ خیر بھابھی جان کہاں ہیں ہماری۔۔؟ ان سے تو بات کروائیں۔۔"
"بھابھی جان آپ کی اپنے کمرے میں جا چکی ہیں۔۔"
"او ہو۔۔ بڑا افسوس ہوا۔۔ چلیں پھر آپ بیٹھ کر آہیں بھریں۔۔ میں اب سو جاؤں۔۔ میری طرف سے سب کو مبارک باد کا پیغام دے دیں۔۔"
اسامہ بولا۔۔
"تم خود ہی کر لو سب سے بات۔۔"
جنید نے یہ کہہ کر والیم کھول دیا تو اسامہ سب سے بات کرنے لگا۔۔
"شکر ہے بھئی اب ان دونوں کی ندیا تو پار لگی۔۔ اب میری باری ۔۔ ہائے اللہ۔۔ مجھے تو ابھی سے شرم آ رہی ہے۔۔"
اسامہ کہ کہنے پر سب ہنس دیے۔۔ وہ واقعی اس گھر کی رونق تھا۔۔ وہ یہاں موجود نا ہو کر بھی سب کہ ساتھ رہتا تھا ہمیشہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ابھی سکول سے باہر نکلی تھی۔۔ سکول سے باہر بس سٹیشن تک اسے پیدل چلنا پڑتا تھا۔۔ وہ سر جھکائے اپنے راستے جا رہی تھی جب اپنے نام کی پکار پر رکی۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے اسامہ کھڑا تھا۔۔
"پلیز میری بات سن لیں مس اقراء۔۔"
اسامہ عاجزی سے بولا۔۔
"آپ کہ ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔؟ آپ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہیں۔۔؟ "
وہ غصے سے بولی۔۔
"مجھے بس آپ کی مدد کرنی ہے۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"اور میں کتنی دفعہ بتاؤں آپ کو کہ مجھے نہیں چاہیے آپ کی مدد۔۔ برائے مہربانی میرا پیچھا چھوڑ دیں مجھے سکون سے رہنے دیں۔۔"
وہ غصے سے بولی۔۔
"میں آپ کا پیچھا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ اپنی مدر کا علاج مجھ سے نہیں کروائیں گی۔۔"
وہ بھی ضدی لہجے میں بولا۔۔
"میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔۔ مجھے آپ خیراتی ہسپتال ہی جانے دیں۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"آپ پیسوں کی فکر مت کریں۔۔ مجھے بس ان کی مدد کرنی ہے۔۔"
"مجھے آپ کا کوئی احسان نہیں چاہیے۔۔"
"میرا دماغ خراب مت کریں مس۔۔ اگر آپ انہیں نا لے کر آئیں تو میں خود آپ کہ گھر پہنچ جاؤں گا اور آپ جانتی ہیں کہ میں ایسا کر بھی سکتا ہوں۔۔"
اسامہ کے سنجیدگی سے کہنے پر اقراء نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ اور پھر بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکاری ہسپتال کے علاج سے آمنہ بیگم کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آ رہی تھی البتہ ان کی طبیعت پہلے سے مزید خراب ہوگئی تھی۔۔ اقراء گھر پہنچی تو وہ نڈھال سی بیٹھی تھیں۔۔
"کیا ہوا ہے امی۔۔؟ "
اس نے پریشانی سے پوچھا۔۔
"کچھ نہیں بیٹا بس ویسے ہی طبیعت ڈھیلی ڈھیلی لگ رہی ہے ۔۔"
وہ آہستہ سے بولیں۔ 
"چلیں میں آپ کو ابھی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں۔۔"
اقراء فوراََ سے بولی۔۔
"نہیں بچے تم کھانا کھاؤ۔۔ میں نے ابھی دوائی کھائی ہے کچھ دیر تک ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔"
وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔
"دیکھ لیں امی۔۔ مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔"
وہ فکر مند ہوئی۔۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں اقراء۔۔ تم کھانا کھاؤ جا کر ۔۔"
ان کہ کہنے پر اس نے اٹھ کر کھانا گرم کیا اور کھانے لگی۔۔
ابھی وہ کھانا کھا ہی رہی تھی جب آمنہ بیگم زور زور سے سانس لینے لگیں۔۔ ان کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔۔ اقراء نے فوراََ اپنی چادر اٹھائی اور باہر سے رکشہ بلوایا۔۔ انہیں لے کر وہ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر ہسپتال پہنچی۔۔ اس بار وہ خیراتی ہسپتال نہیں آئی تھی۔۔ اس بار وہ اسی ہسپتال آئی تھی جہاں اسامہ ہوتا تھا۔۔ ایک ہفتے سے اسامہ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔۔ مگر وہ اب اپنی ماں کی صحت پر کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔۔  اب چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے وہ اپنی ماں کا علاج کسی اچھے ہسپتال سے ہی کروانا چاہتی تھی اور اب اس وقت اسے اسامہ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نظر نہیں آیا تو وہ انہیں لیے وہیں چلی آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ اقراء کو وہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ وہاں آئے گی۔۔ آمنہ بیگم کو چیک کرنے کے بعد اب وہ انہیں دوائیاں بتا رہا تھا جبکہ اقراء زیادہ تر خاموش رہی تھی۔۔
"بیٹا اتنے مہنگے علاج نا بتانا ہمیں جو ہماری استطاعت سے باہر ہوں۔۔"
آمنہ بیگم بولیں۔۔ پچھلی بار اپنی بے ہوشی کی حالت میں انہوں نے اسامہ کو نہیں دیکھا تھا اس لیے وہ اسے نہیں جانتی تھی۔۔ جبکہ آج ان کی طبیعت پہلے کی طرح نہیں بگڑی تھی اس لیے وہ خاموش بیٹھی تھیں۔۔
"آپ فکر مت کریں آنٹی۔۔ آپ کو کوئی بھی اخراجات برداشت نہیں کرنے ہوں گے۔۔ میں خود آپ کا علاج کروں گا۔۔"
اسامہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔
"اللہ تمہیں جزائے خیر دے بیٹا۔۔ "
وہ دل سے بولیں۔۔ اقراء بالکل خاموش تھی۔۔ اسی خاموشی کے ساتھ وہ وہاں سے اٹھی اور آمنہ بیگم کو لے کر واپس گھر آ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Место, где живут истории. Откройте их для себя