جداٸ عمر بھر کی ہو تو کیا چارا کرے کوٸ
کہ اک ملنے کی حسرت میں بھلا کب تک جیۓ کوٸ
میرے مولا کرم کر دے تو ایسا کر بھی سکتا ہے
میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ تو انہیں بھر بھی سکتا ہے
ولی دعا کے بعد اپنے سُست قدموں سے مسجد سے باہر آیا تھا اور گاڑی کی پُشت سے ٹیک لگاکر کھڑا ہو گیا ۔
"یامیرے مالک مجھ پر اپنا رحم کر دے ۔"ولی نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوۓ کہا۔
تبھی ولی کا فون بجا تھا۔ولی نے جلدی سے فون اٹینڈ کیا اور فون کان سےلگایا۔
"ٹھیک ہے میں آ جاٶ گا۔"ولی نے سامنے والے کی بات سُن کر کہا اورگاڑی میں بیٹھ کر گاڑی دوڑادی۔
کچھ ہی دیر میں ولی کی گاڑی اُس اشارے پر رُکی تھی جہاں وہ پہلے ایک بار نوراں کےساتھ آیاتھا۔آج پھر وہاں پر وہی بچہ چنبیلی اور گلاب کے گجرے لیۓکھڑا تھا لیکن وہ آج ولی کی گاڑی کی جانب نہیں آیا تھا ۔ولی نے کچھ لمحے دیکھنے کے بعد بچے کو اپنی جانب آنے کا کہا تھا ۔ولی کے بُلانے پر بچہ بھاگ کے اُسکی جانب آیا تھا۔
"سلام صاحب!"بچے نے کہا۔
"وسلام !پہچانا؟"ولی نے مسکرا کر پوچھا۔
"جی آپ کوکیسے نہیں پہچانوں گا۔"بچے نے بھی مسکرا کر کہا۔
"آج مجھے نہیں بیچو گے گجرے؟"ولی نے پوچھا۔
"نہیں۔"بچے نے سنجیدگی سے کہا۔
"کیوں؟"ولی نے حیرت سے بچے کی جانب دیکھ کر کہا۔
"سر جی!یہ گجرے محبت کی علامت ہوتے ہیں ۔۔۔۔یہ بے قدرےلوگوں کے لیے نہیں ہوتے۔"بچے نے کہا تھا اور بچے کی بات پر ولی کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
"مطلب میں !"ولی نے فقط اتنا کہا۔
"سر جی !اللہ بہتر جانتا ہے کہ آپ بے قدرے ہیں یا باجی ۔۔۔۔۔لیکن اُس دن والے گجروں کو باجی نے اپنی کلاٸ کی ذینت نہیں بنایا تھا ۔۔۔۔اور میں ایسے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے بنے گجرے نہیں بیچتا۔"بچے نے کہا اور وہاں سے چلاگیا جبکہ ولی کہی کھو سا گیا تھا۔
"ہاں ولی ہاں۔۔۔۔۔۔اُس دن واقعی نوراں نے وہ گجرے نہیں پہنے تھے۔"ولی نے اپنا سر سٹیرنگ پر رکھ کر اپنے آپ سے کہا تھا ۔
******
کچھ ہی دیر میں ولی ایک ریسٹورنٹ کے باہر کھڑا تھا۔
ولی نے گاڑی پارک کر کے کسی کو فون کیا تھا۔
"میں آ گیا ہوں ۔تم کہاں ہو؟"ولی نے پوچھا۔
"میں اندر آپکا انتظار کر رہا ہو۔"دوسری جانب والے نے کہا اور فون کاٹ دیا۔
ولی نے ایک گہرا سانس لیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا ۔اندر جاکر ولی نے اِدھر اُدھر نظر دوڑاٸ تھی داٸیں جانب ایک ٹیبل پر بیٹھے راشد نے ولی کو ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا تھا ۔راشد کو دیکھ کر ولی اُس کی جانب چل پڑا اور وہاں جا کر راشد کے سامنے کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
"خیریت ہے؟کیوں بُلایا مجھے یہاں؟"ولی نے تشویش سے پوچھا۔
"سب خیریت ہے الحَمْدُ ِلله۔۔۔۔آپ بتاۓ کیسے ہیں؟"راشد نے ولی کو پریشان ہوتا دیکھ کر کہا۔
"مجھے کیسا ہونا چاہیۓ ؟"راشد نے سرد آہ بھرتے ہوۓ کہا۔
"آپکو ہمت سے کام لینا ہے ولی۔"راشد نے اپنا ہاتھ ولی کے ہاتھ پر رکھ کر کہا ۔
"کہاں سے لاٶ اتنی ہمت یار کہاں سے ۔۔۔۔۔میں تو اُس مچھلی کی طرح ہوں جو پانی کے بغیر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دیتی ہے۔"
"اتنی مایوسی!"راشد نے ولی کی بات سُن کر کہا۔
"تھک گیاہو راشد یار ۔۔۔۔۔۔خود سے لڑتے لڑتے ۔۔۔۔میں اپنے ماں باپ کو ایسے نہیں دیکھ سکتا میں اپنی ہی بہن کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہوں ۔۔۔۔۔اور سب سے بڑا ستم یہ کہ مجھے شاہزیب کے وجود کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور پھر اِس سب میں نوراں کی غیر موجودگی مجھے اندر ہی اندر کھا رہی ہے۔"ولی نے نم آنکھوں سے کہا ۔
"آپ کو یوں مایوس ہو کر رونا زیب نہیں دیتا وہ بھی خاص کر تب جب سب کی آس امید صرف آپ ہوں۔اور ولی یقین رکھو ۔۔۔۔۔معجزوں کے دروازے صرف صبر کی چابی سے کھُلتے ہیں۔"راشد نے ولی کو تسلی دی تھی ۔
"بلکل!خیر یہ سب چھوڑو یہ بتاٶ گھر کیوں نہیں آۓاور یہاں کیوں بُلایا ملنے کے لیے۔"ولی نے پوچھا۔
"وہ گھر تب تک گھر نہیں ہے ۔۔۔جب تک نوراں وہاں نہیں ہے۔"راشد کہہ کر رُکا تھا۔
"اور ملنا ضروری تھا ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ شاید تمہارے رب کو تمہارا صبر اچھا لگا ہے اور وہ تمہیں اُس کے پھل سے نورازنا چاہتا ہے۔"راشد نے کچھ لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
"مطلب؟"ولی نے نا سمجھی سے پوچھا۔
"وہ نوراں!"راشد نے فقط اتنا ہی کہا تھا۔
"آہ راشد ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔میں جانتاتھا ضرور اِس ملاقات کا مقصد اُس کے بارے میں معالومات ہوں گی ۔کیاوہ تمہیں ملی؟کہاں ہے وہ؟کیسی ہے؟ٹھیک تو ہے وہ؟"ولی نے سوال پر سوال شروع کیۓ تھے ۔
"مجھے نہیں پتا کہ مجھے یہ بات عیاں کرنی چاہیۓ تھی یا نہیں۔۔۔۔۔میں نے وہ کیا جو مجھے بہتر لگا ۔"راشد نے کہا۔
"راشد پہیلیاں مت بُوجھواٶ جو بات ہے وہ کھُل کربتاٶمجھے۔"ولی نے پریشانی سے کہا۔
"نوراں مل گٸ ہے۔"راشد نے جلدی سے کہا۔راشد کے کہنے کے بعد وہاں چند منٹ کی خاموشی چھا گٸ تھی۔
"پچھلے تین ماہ سے راشد ۔۔۔۔پچھلے تین ماہ سے کان اِس جملے کے لیے ترس گۓ تھے ۔۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ ہے مجھے بتاٶ وہ کہاں ہے؟کس حال میں ہے؟کہاں ملی وہ تمہیں؟"ولی نے پھر سے سوال کیۓ۔
"آرام سے ولی ۔۔۔۔سب بتاتا ہوں۔"راشد نے کہا اور ولی کو بتانا شروع کیا تھا ۔
آج سے لگ بھگ کوٸ پندرہ دن پہلے میں اسلام آباد کسی کام سے آیا تھا ۔اور واپسی پر زوبیا اور گھر والوں کے لیے شاپنگ کے لیۓ بازار گیا تھا ۔
*****
بازار میں ہر طرف رش لگا تھا۔۔۔اور اسی رش میں سفید شرٹ اور بلیو جنینز پہنے راشد چوڑیوں کے ایک سٹال پر کھڑا تھا۔اُس نے کچھ چوڑیاں اُٹھا کر دوکاندار کو پیک کرنے کے لیۓدے دی تبھی وہاں کوٸ آیا تھا اُس نے دوکان والے کو مخاطب کر کے ایسی چوڑیاں دیکھانے کا کہا تھا جن کی چھنچھناہٹ تو کانچ ک چوڑیوں جیسی ہو لیکن وہ باذاتِ خود کانچ کی نہ ہوں۔لڑکی کی آواز پر راشد نے اُس کی طرف دیکھا تھا ۔صاف نیلے رنگ کی شلوار قمیص پہنے سر پر کالی چادر اُوڑھے وہ دوکاندار سے مخاطب تھی۔پل بھر کے لیے راشدکو لگا تھا وہ خواب دیکھ رہا ہے لیکن اُس لڑکی نے راشد کو جلد احساس دیلا دیا تھا کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہا ۔
"ارے بھاٸ آپ تویہاں سے ہٹے۔"نوراں نے نظریں چوڑیوں سے ہٹاۓ بغیر کہا تھا۔نوراں کے ایسا کہنے پر راشد مسکرایا اور ڈھیٹ بن کر وہی کھڑا رہا۔وہ چھ ماہ بعد نوراں کو دیکھ رہا تھا۔وہ بظاہر خوش اور مطمٸن نظر آ رہی تھی وہ ویسی ہی تھی چوڑیوں کے پیچھے پاگل لیکن اُسے ہمیشہ کانچ کی چوڑیاں اچھی لگتی تھیں تو پھر آج ۔۔۔۔۔۔راشد نے سوچا تھا۔
"ارے بھاٸ ہٹے یہاں سے مجھے وہ چوڑیاں دیکھنی ہے۔"نوراں نے اب کی بار راشد کی طرف دیکھاتھا۔
"نہ ہٹوں تو!"راشد نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا۔
"ویرے!"نوراں نے حیرانی سے کہا تھا۔
"نوراں !چل میرے ساتھ۔"راشد نے نوراں کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
"کہاں؟"نوراں نے ہاتھ پیچھے کر کے پوچھا۔
"علی پور اور کہاں؟"
"میں ابھی وہاں نہیں جا سکتی۔۔۔۔آپ جاۓ اور سواۓ اماں ابا کے کسی کو میرے بارے میں مت بتاۓ گا۔"نوراں نے کہا اور ایک جانب چل پڑی۔
"نوراں مجھے بات کرنی ہے؟"راشد نے نوراں کے پیچھے بھاگتےہوۓ کہا۔نوراں آگے جا کرایک خاتون کے پاس رُکی تھی ۔اور راشد بھی وہی آ پہنچا تھا۔
"کون ہے یہ نوراں اور یہ تمہارا پیچھا کیوں کر رہا ہے ۔"خاتون نے پوچھا۔
"میم بھاٸ ہیں یہ میرے۔"نوراں نے راشد کا تعارف کروایا۔
"اسلام علیکم!"راشد نے جلدی سے سامنے کھڑی خاتون کو سلام کیا تھا ۔
"وسلام!"خاتون نے جواب دیا۔
"نوراں!؟مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"راشد نے نوراں کو مخاطب کر کے کہا۔
"نوراں انہیں ایڈریس دے دو ۔۔۔۔۔آپ وہاں آ کر نوراں سے مل سکتے ہیں لیکن یہاں نہیں۔"خاتون نے نرمی سے کہا۔راشد نے ناسمجھی سے اُس خاتون کو دیکھا تھا۔
"حیران مت ہوں۔۔۔۔آپ آۓ گے تو آپ کو سب بتاٶ گی۔"نوراں نے ایک کارڈ راشد کی جانب بڑھایا اور وہاں سے چلی گٸ۔
******
راشد ہاتھ میں کارڈ پکڑے ایک فلاحی ادارے کے سامنے کھڑاتھا۔راشد نے کچھ دیر وہاں کھڑا رہنے کے بعد اندر کی جانب قدم بڑھاۓ تھے اور وہاں گیٹ پر بیٹھے چوکیدار کو اپنا کارڈ دیکھایا تھا۔چوکیدار نے کارڈ دیکھا اور راشد کو ایک آفس میں لے آیا۔جہاں وہ خاتون بیٹھی تھی جو نوراں کے ساتھ اُسے بازار میں ملی تھی۔
"آۓ بیٹھیں!"خاتون نے راشد کو اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔
"بہت شکریہ۔"راشد نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"نوراں نے آپ کے بارے میں بتایاہے۔"خاتون نے کہا۔
"نوراں آپ کے پاس یہاں کیا کر رہی ہے؟"راشدنے پوچھا۔
"بچے جن لوگوں کو لوگ بے سہارا کر دیتے ہیں وہ یہ بھول جاتےہیں کہ اللہ سے بڑھ کر کسی کے پاس کوٸ سہارا نہیں ہوتا ۔۔۔۔اُس رب نے مجھے اُس دن نوراں کا سہارا بنا کر بھیج دیا تھا۔"خاتون نے بتایا ۔
"یہ ادارہ ؟"راشد نے پوچھا۔
"جی یہ ادارہ میں چلاتی ہوں۔۔۔۔یہ ادارہ مجھ جیسی بہت سی بے سہارا ماٶں بہنوں اور بیٹیوں کا سہارا ہے۔"خاتون نے کہا۔تبھی نوراں وہاں آٸ تھی ۔نوراں کو دیکھ کر راشد اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔
"نوراں!تم بات کر لو میں ایک راٶنڈ لے کر آتی ہوں۔"خاتون نے کہا اور وہاں سے چلی گٸ۔راشد سوالیہ نظروں سے نوراں کو دیکھ رہاتھا۔نوراں نے راشد کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔
"اچھے لگ رہے ہو ویر جی۔"نوراں نے بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"لیکن مجھے اِس وقت تم بہت بُری لگ رہی ہو۔"راشد نے مصنوعی غصہ دیکھا کر کہا۔
"اتنا ہی غصہ تھا تو مت آتے۔"نوراں نے بھی راشد کے انداز میں کہا۔
"تم تو یہی چاہتی ہو کہ سب تکلیف میں رہیں۔"راشد نے نوراں کے سامنے بیٹھ کر کہا۔
"کوٸ کتنی ہی تکلیف میں ہو لیکن اُس نے مجھ سے زیادہ تکلیف نہیں سہی ہوگی۔"نوراں نے سنجیدگی سے کہا۔
"نوراں!نوراں! تو گھر کیوں نہیں آٸ اور یہاں کیسے پہنچی؟"راشد نے سوال کیا۔
"وہ جو رب ہے نہ ویرے وہ بہت مہربان ہے۔اگر آپ کو اُس پر یقین ہے تو وہ آپکو گرنے سے پہلے ہی تھام لیتا ہے۔اُس ذات نے مجھے تھام لیا۔جب مجھے گھر سے نکالا گیا تو ویر جی ایسے لگا جیسے کسی نے جسم میں سے روح نکال لی ہو۔۔۔ایسا لگا کہ کسی نے سر سے آسمان اور پیروں تلے سے زمین نکال لی ہواُس وقت سواۓ رب کی ذات کے میرے پاس کوٸ نہیں تھا ۔اُس نے مجھ پر اپنا کرم دیکھایا ویر جی اور مجھ تک نصرت میم کو پہنچا دیا ۔اُنہوں نے میری بات کو سُنا اور مجھے سمجھا۔اُنہوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھا ۔۔۔یہاں کام پر لگوایا۔"نوراں نے روتے ہوۓ کہا تھا۔
"میری نوراں اتنی کمزور نہیں ہے کہ رو پڑے ۔"راشد نے نوراں کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا۔
"آپ کی نوراں مجھ سے کھو گٸ ویرے۔۔۔۔آپ کی نوراں کھو گٸ۔"نوراں نے دبی دبی آواز میں کہا۔
"نہیں میری نوراں کبھی نہیں کھو سکتی۔"راشد نے پر اعتمادی سے کہا۔
"خیر میری چھوڑے۔۔۔۔۔اماں ،ابّا کیسے ہیں ؟مجھے یاد کرتے ہیں؟"نوراں نے بےچینی سے پوچھا۔
"اپنی اکلوتی اولاد کو کھو کر ماں باپ بھلا کس ہال میں ہونگے!"راشد نے سرد آہ بھری۔
"اُن سے کہیۓ گا ویرے کہ نوراں جلد آۓ گی ۔"نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"جلد آۓ گی کا کیا مطلب ہے ؟تم میرے ساتھ نہیں چل رہی۔"راشد نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"کس منہ سے جاٶ ویرے۔۔۔ کس منہ سے جا کر ابا کا سامنا کرو۔۔۔۔علی پور سے نکلتے ہوۓ خود سے اپنے ابّا سے وعدہ کیا تھا جب تک اُنکی بےگناہی ثابت نہیں کر دیتی تب تک گاٶں واپس نہیں آٶ گی۔"نوراں نے جزباتی ہو کر کہا۔
"اُس رب نے سب کر دیا نوراں۔۔۔۔چچا کی بے گناہی ثابت ہو گٸ ہے اور شاہزیب خان کو بھی اُس کے کیۓ کی سزا مل گٸ ہے۔"راشد نے دھیرے دھیرے کہا۔راشد کی بات پر نوراں نے حیرت سے راشد کو دیکھا تھا۔
"ہاں یہی سچ ہے۔۔۔۔صوفیہ نے ایک ایک بات واپس آکر ولی اور جلال خان کو بتاٸ تھی ۔"راشد نے نوراں کی حیرت کو دیکھ کر کہا۔
"اور شاہزیب خان ؟"نوراں نے فقط اتنا ہی کہا۔
"شاہزیب خان کو اللہ نے اُسکے کیۓ کی سزا دے دی ہے۔۔۔وہ اپنی زندگی کا ہردن ہرپل سِسک سِسک کے گزار رہا ہے۔"راشد نے بتایا۔
"وہ جیل میں ہے کیا؟"نوراں نے پوچھا۔
"جیل میں ہوتا تو شاید ہر روز نہیں مرتا۔"راشد نے کہا۔
"تو پھر؟"نوراں کی سوالیہ نظریں راشد پر جمی تھیں۔
"جس دن صوفیہ نے سب کو حقیقت بتاٸ تھی۔۔۔شاہزیب خان اُسی دن کراچی کے لیےفرار ہو گیا تھا۔۔۔۔لیکن اُس کی قسمت کہ وہ سفر اُس کے لیے اُسکے تمام گناہوں کی سزا بن جاۓ گا۔اُس دن شاہزیب کا اکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کہ نتیجے میں نہ تو وہ زندوں کی گنتی میں آتا ہے اور نہ ہی مُردوں کی ۔"
"لیکن اُس نے یہ سب کیا کیوں؟"نوراں کی جانب سے ایک اور سوال آیا تھا۔
"نوراں!دولت اور عورت کی ہوس انسان کی عقل کھا جاتیں۔۔۔۔جس انسان کو اِن دونوں کی لت لگ جاۓ وہ انسان پھر اپنی ہوس مٹانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا یہاں تک کہ اپنے بھاٸ کی جان بھی لے سکتا ہے ۔"راشدنے سنجیدگی سے کہا۔جس پر نوراں نے کوٸ ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔نوراں کہ کچھ نہ بولنے پر راشد پھر نوراں سے مخاطب ہوا تھا۔
"پھر چل رہی ہو ساتھ؟"راشد نے پوچھا۔
"آٶ گی ویرے ۔۔۔بہت جلد آٶ ۔۔۔سب سے ملنے ایک بار علی پور ضرور آٶ گی۔"نوراں نے کہا۔
"لیکن !"
"پلیز ویرے مجھے جانے کے لیے مجبور مت کیجیۓ گا۔"نوراں نے راشد کی بات میں کاٹ کر کہا۔
"نوراں !ولی اپنے کیۓ کی معافی مانگنا چاہتا ہے؟"راشد نے کہا۔
"میں وہ رات نہیں بھولی ابھی ۔۔۔۔۔جس دن بھول گٸ اُس دن اُسے معاف کر دوں گی۔اور ویسے بھی ویر جی وہ کسی اور کی قسمت کے ستارے ہیں۔"نوراں نے کہا۔
"لیکن نوراں !محبت۔۔"
"یک طرفہ محبت ہے ویر جی۔۔۔۔اور ویسے بھی ہم نہ تو کسی سے ذبردستی محبت کروا سکتے ہیں اور نہ ہی ذبردستی کسی کو اپنے ساتھ مخلص کر سکتے ہیں۔۔۔تو بہتری اسی میں ہے کہ محبت کو تھپکی دے کر سُلا دیا جاۓ۔"کہنے کے بعدنوراں ہلکا سا مسکراٸ تھی۔
"نوراں!"
"ارے بس کریں اب ۔۔۔۔آپ بتاۓ کیسی گزر رہی ہے آپ کی زندگی اور شادی وادی کا کوٸ ارادہ ہے یا نہیں؟"نوراں نے بات کا رُخ بدلتے ہوۓ کہا۔
"شادی ہو گٸ ہے میری؟"راشد نے کہا۔جس پر نوراں نے راشد کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا تھا۔
"ہیں؟ کب کس کے ساتھ؟بتایا کیوں نہیں؟کون ہے ؟کیسی ہے؟"نوراں نے دھڑ دھڑ سوال کرنا شرع کیۓ ۔
"احمد خان کی بیٹی زوبیا۔"راشد نے کہا۔
"زوبیا!بی بی سرکار کی بھانجی زوبیا؟"نوراں نے حیرانگی سے پوچھا۔
"ہاں میری ماں وہی۔"راشدنے کہا۔
"زوبیا سے شادی کب ؟کہاں ؟کیسے ہوٸ؟"نوراں نے پھر سوال کیۓ۔
"لمبی کہانی ہے پھر کبھی سُناٶں گا۔۔۔ابھی تم میرے ساتھ چلو۔"راشد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر کہا۔
"میں آٶ گی ویر جی۔۔۔میں ضرور آٶ گی لیکن ابھی نہیں۔"نوراں نے بھی کھڑے ہو کر کہا۔
"آہ نوراں تو بہت ضدی ہے۔"راشد نے سرد آہ بھرتے ہوۓ کہا۔
"سو تو ہوں۔۔۔آپ وعدہ کریں صرف اماں ابّا کے سوا کسی کو میرا نہیں بتاۓ گے۔"نوراں نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا۔
"ٹھیک ہے نہیں بتاٶ گا۔۔۔اگر تو بھی مجھ سے ایک وعدہ کرے تو!"راشد نے کہا۔
"کیا؟"
"اگر کوٸ انّاپرست شخص جو دنیا میں گردن اکڑا کر چلتا ہوں کبھی تمہارے سامنے جھک کر محبت کی بھیک مانگے تو اُسے کبھی خالی مت لوٹانا۔"راشد کی بات سُن کر نوراں نے اپنا آگے بڑھایا ہوا ہاتھ واپس لیا کھینچا تھااور کہا۔
"یہ میرا ذاتی مسلہ ہے۔"نوراں کی بات سُن کر راشد مسکرایا تھا ۔
"ہماری نوراں کے مسلے بھی اب ذاتی ہونے لگے ہیں بھٸ ۔"راشد نے مسکرا کر کہا جس پر نوراں مسکراٸ تھی۔
"جب آنا ہو مجھے اِس نمبر پر فون کرنا میں آ کے لے جاٶں گا۔"راشد نے وہاں میز پر پڑے کاغذ پر اپنا نمبر لکھا تھا۔اور نوراں کے سر پر پیار دے کر وہاں سے چلا گیا تھا۔راشد کے جاتے ہی نوراں تھکے تھکے انداز سے واپس کرسی پر بیٹھ گٸ تھی۔
یہ ہم نے ٹھان لی ہے اب
دعاٶں سے وفاٶں سے
اُسے اپنا نہیں کرنا
نہ کوٸ خط لکھنا ہے
نہ کوٸ لفظ کہنا ہے
نہ آنکھوں کے دریچوں میں
سُلگتی رات سے پہلے
گلابی شام رکھنی ہے
نہ ہی شام کا تارہ
کسی کے نام کی صورت
کسی کی یاد میں کھو کر
خیالوں میں سجانا ہے
نہ پھولوں کو بتانا ہے
نہ تتلی کو ستانا ہے
نہ ہی اَن کہی باتیں
نظم کر کے چھُپاٸ ہیں
ہاں ہم نے ٹھان لی ہے اب
کسی سے کچھ نہیں کہنا
محبت ذاتی مسلہ ہے
******
راشد نے اپنی اور نوراں کی کچھ دن پہلے کی ملاقات کا حال ولی کو سُنایا تھا۔راشد کی بات سُننے کے بعد ولی نے اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹیکا دیا تھا۔کچھ دیر خاموشی رہنے کے بعد ولی نے راشد سے سوال کیا تھا۔
"وہ مجھے معاف کر دے گی ؟"
"کر دے گی۔"راشد نے جواب دیا۔
"تمہیں اتنا یقین کیسے ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے گی؟"ولی نے راشد کی جانب دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
"کیونکہ مجھے آپکی آنکھوں میں اُس کے لیےجو محبت نظر آ رہی ہے وہ ضرور اِس بدگمانی کو ختم کر دے گی۔"راشد نے کہا۔اور اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
"تم بھی مجھے معاف کر دینا یار ۔۔۔۔ماضی میں!"
"اِس کی ضرورت نہیں ہے ولی۔"راشد نے ولی بات بیچ میں کاٹ کر کہا جس پر ولی ہلکا سا مسکرایا تھا اور راشد کے گلے لگ گیا تھا۔
"تمہارا شکریہ یار۔"ولی نے کہا۔
"شکریہ ایسے ادا نہیں کرنا سوکھا سوکھا۔۔۔۔شکریہ تو ایک بھر پور دعوت کے ساتھ ادا کرنا۔"راشد نےمزاح کے انداز میں کہا۔
"ضرور جی ضرور۔"ولی نے کہا اور پھر ایک ساتھ وہ دنوں ہوٹل سے باہرنکل گۓ۔
*******
صوفیہ خان حویلی کے لان میں بیٹھی تھی ۔سامنے میز پر چاۓ کا کپ رکھا تھا جس میں چاۓ بلکل ٹھنڈی ہو چُکی تھی۔تبھی ایک گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوٸ تھی ۔اسفی گاڑی سے باہر آیا تھا۔اُس کی نظر سامنے لان میں بیٹھی صوفیہ پر پڑی اور اُس نے اپنے قدم اُس کی جانب بڑھا دیۓ ۔صوفیہ اسفی کی آمد سے بلکل بےخبر تھی ۔اسفی نے سامنے پڑے ہوۓ چاۓ کا کپ دیکھا اور اُسے اُٹھا کر کہا۔
"مجھے چاۓ کی ناقدری کرنے والے بلکل پسند نہیں ہیں۔"
اسفی کی آواز پر صوفیہ چونکی تھی اُس نے دل پر ہاتھ رکھ کر اسفی کو گھورا تھا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے اسفی؟"صوفیہ نے کہا۔
"ارے میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔اور بدتمیزی میں میں کر رہا ہوں یا تم۔"اسفی نے صوفیہ کے سامنے پڑی کرسی بیٹھ کر کہا۔
"میں نےکب بدتمیزی کی؟"صوفیہ نے حیرانگی سے کہا۔
"ارے یہ بدتمیزی ہی ہوتی ہے کہ کوٸ آپ کے گھر پر آۓ اور آپ آگے کسی اور ہی دُنیا میں نکلے ہوں۔"اسفی نے چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔
"دراصل بن بُلاۓ لوگ کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔"صوفیہ نے میسنی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"توبہ جھوٹی ابھی کل تو تم نے مجھے آنے کا کہا۔"اسفی نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔
"استغفار۔۔۔۔میں نے کب تمہیں بُلایا؟"صوفیہ نے حیرت سے کہا۔
"جھوٹی رات تم نے مجھے کہا نہیں کہ اسفی پلیز آجاٶ میں بہت اُداس ہو رہی ہوں۔"اسفی نے سنجیدگی سے کہا۔جس پر صوفیہ کا منہ کھُلا کا کھُلا ہی رہ گیا تھا۔
"کیا کہا ۔۔۔۔میں ۔۔۔میں نے تم سے یہ سب کہا۔"
"ہاں تو تم نے ہی کہاں تبھی تو بھاگا چلا آیا۔"اسفی کی نظریں ہاتھ میں پکڑے کپ پر تھیں۔
"مسٹر ابھی اتنے بُرے دن نہیں آۓ میرے کہ میں مصیبت کو خود دعوت دوں۔"صوفیہ نے کرسی سے اُٹھ کر کہا۔
"تو پھر آٸندہ میری نیند خراب کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔"اسفی نے کہا اور اندر کی جانب قدم بڑھا دیۓ۔
"ڈاکٹر کو چیک کرواٶ تم پاگل انسان۔"صوفیہ نے اُونچی آواز میں کہا۔صوفیہ کی آواز پر اسفی پلٹا تھا اور اُس کی جانب بڑھا تھا ۔اسفی کے تاثرات حد سے زیادہ سنجیدہ تھے ۔صوفیہ کو وہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔اسفی نے صوفیہ کے قریب پہنچ کر کپ کو میز پر رکھا اور دوقدم اور صوفیہ کی جانب بڑھاۓ۔
"اسفی!"صوفیہ نے پریشانی سے کہا۔
اسفی اُس کے سامنے کھڑا تھا دونوں ایک دوسرے کے قریب تھے اسفی نے اپنے آپ کو اور آگے بڑھایا اور کہا۔
"قسم اُٹھاٶ تم نے خواب میں آکر مجھے یہ سب نہیں کہا۔"
اسفی کی بات کچھ لمحوں کے لیے تو صوفیہ کو سمجھ ہی نہیں آٸ اور پھر جیسے ہی سمجھ آٸ صوفیہ نے ہاتھ بڑھا کر میز پر سے اسفی کو مارنے کے لیےکپ اُٹھایا تھا۔اسی دوران اسفی نے دوڑ لگا دی تھی۔
"اِس میں اگر چاۓ ہوتی تو تمہارے منہ پر پرہوتی۔"صوفیہ نے تپے ہوۓ انداز میں کہا۔
"تمہارے انہیں نیک ارادوں کا سوچتے ہوۓ میں نے وہ چاۓ پی ۔"اسفی نے کہا اور اندر بڑھ گیا۔اسفی نے جانے کے بعد صوفیہ نے کپ میز پر پٹکا تھا اور پھر مسکرا دی تھی۔
اندر دروازے میں کھڑے اسفی نے صوفیہ کو مسکراتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔
"ہاۓۓ۔۔۔بس یہی چاہتا تھا میں ۔"
*******
ایک نٸ صبح کا آغاز ہوا تھا کچھ نٸ اُمیدوں کے ساتھ۔
ولی کے ساٸیڈ ٹیبل پر پڑی گھڑی نے چیخنا شروع کیا تھا۔ولی نے ہاتھ بڑھا کر گھڑی کو بند کیا اور بستر چھوڑ کر کھڑا ہو گیا اور آگے بڑھ کر اُس نے کھڑکی پر سے پردے ہٹاۓ تھے ۔سورج کی روشنی سے سارا کمرا روشن ہو گیا تھا ۔ولی نے ایک بھر پور نگاہ کمرے پر ڈالی تھی اور ہلکا سا مسکرا تھا۔
"یہ آپکے بیٹے کا کمرہ ہے۔"صوفیہ کا کہا جملہ ولی کو یاد آیا تھا۔ہاں ولی تب سے اسی کمرے میں رہ رہا تھا جب سے نوراں یہاں سے گٸ تھی۔اُسے یہاں رہنا اچھا لگنے لگا تھا۔ول نے کپڑوں والی الماری کھولی اوراُس میں سے ایک ڈبہ نکل کر پاس پڑے صوفے پر بیٹھ گیا ۔اُس ڈبے میں پلاسٹک پیپر میں پیک مرجھایا ہوا گلاب تھا۔ولی کا یہ معمول بن گیا تھا کہ وہ روزانہ صبح آفس جانے سے پہلے اِس پھول سے باتیں کرتا تھا۔لیکن آج ولی نے صرف اُسکو چند لمحے دیکھا تھا اور پھر واپس ڈبے میں ڈال کر الماری میں رکھ دیا ۔
"اُمید کرتا ہوں تم مجھے ایک موقعہ ضرور دو گی۔"ولی نے کہا اور کپڑے لے کر واش روم کی جانب بڑھ گیا۔
******
"ارےےےے۔۔۔۔راشد لالا زیادہ نکھرے مت کریں اب۔"صوفیہ پیچھلے آدھے گھنٹے سے راشد کے ساتھ فون پر سر کھپا رہی تھی ۔
"ارے میں تو کوٸ نکھرے نہیں کر رہا سالی صاحبہ ۔۔۔آپ ہی ضد کر رہی ہیں۔"راشد نے صوفیہ کو مذید چیڑاتے ہۓ کہا۔
"مت تنگ کریں نا۔"پاس بیٹھی زوبیا نے راشد سےکہا جس پر راشد نے گھور کر اُسے دیکھا تھا۔
"تو آپ بھی تو ضد ہی کر رہیں ہیں۔۔۔۔چھوڑ جاۓ زوبیا کو چند دنوں کے لیے یہاں۔"صوفیہ نے پھر سے مطالبہ کیا۔
" توبہ کرو میں چند منٹ نہ چھوڑوں اور تم دنوں کی بات کر رہی ہو!"راشد نے صوفیہ کو مذید تنگ کرتے ہوۓ کہا۔جس پر زوبیا نے بھی راشد کو گھوری دیکھاٸ تھی۔
"ٹھیک ہے میں بابا سرکار سے کہتی ہوں وہ آپ سے بات کر لیں گے۔"صوفیہ نے جھٹ پٹ کہا۔صوفیہ کی سُنتے ہی راشد جلدی سے کہنا شروع کیا تھا۔
"ارے ۔۔۔۔ارے۔۔۔سالی صاحبہ میں تو مذاق کر رہاتھاجب آپ کہیں گی چھوڑ جاٶ گا ۔۔۔۔خان صاحب کو کیوں تنگ کرتیں ہیں۔"راشد نے جھٹ سے کہا۔
"یہ ہوٸ نا جیجاجی والی بات تو یوں کریں آج ہی چھوڑ دیں۔"صوفیہ نے کہا۔
"جیسا آپکا حکم!"راشد نے کہا اور کال کاٹ دی۔
"تو پھر کب چلیں۔"زوبیا نے کپڑےالماری میں رکھتے ہوۓ کہا۔
"تمہیں بہت جلدی ہےجانے کی ؟"راشد نے مصنوعی ناراضگی ظاہر کرکے کہا۔
"تو اِس میں بُراٸ کیا ہے۔۔۔۔اپنے گھر جانے کی سب کو جلدی ہوتی ہے۔"زوبیا نے راشد کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"تو یہ گھر نہیں ہے کیا؟"راشد اب بھی سنجیدہ تھا۔
جس پر زوبیا ہلکا سا مسکراٸ تھی ۔
"ہاں ہاں۔۔۔۔۔اب ہنس لو مجھ پر۔"راشد نے منہ پھیر کر کہا۔
"آپ پر کون پاگل ہنس رہاہے؟"زوبیا نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
"تم !"راشد نے کہا۔جس پربس زوبیا نے اپنا سر جھٹکا تھا اور اپنی کرسی راشد کےپاس کھینچی اور کہا۔
"بچے بن کر آپ بہت کیوٹ لگتے ہیں۔"
"یہ مکھن مت لگاٶ مجھے ۔۔۔۔اور یہ بتاٶں کیوں جانا ہے۔"راشد نے منہ بیگاڑ کر پوچھا۔
"وہ اتنے پیار سے بُلا رہی ہے تو جانا تو پڑے گانا۔"زوبیا نے کہا۔
"اور جو میں اتنے پیار سے روک رہاہوں اُس کا کیا۔"راشد نے کہا۔
"ہاہاہاہا۔۔۔۔۔آپ جیلس ہو رہے ہیں؟"زوبیا نے قہقہ لگا کر کہا۔
"جلتے پر نمک مت چھڑکو۔"راشد نے کہا۔
"ارے ایک دو دن کی بات ہے ۔۔۔اور میں یہی ہوں علی پور میں خون سا کہیں دو جا رہی ہوں۔"زوبیا نے مسکرا کر کہا۔
"میں دور جانے بھی نہ دیتا۔"راشد نے کہا۔
" میں دور جاٶ گی ہی کیوں؟"زوبیا نے مسکرا کر کہا جس پر راشد نے مسکرا کر اُسکی جانب دیکھا تھا۔
"پھر کب چلیں؟"زوبیا نے پوچھا۔
"شام تک چلیں گے تیار رہنا۔"راشد نے مسکرا کر کہا۔
******
ولی کالے رنگ کے تھری پیس پہنے ہاتھ میں گھڑی باندھے اور بالوں کو پیچھے کی جانب سیٹ کیۓ ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ سجاۓ اپنے کمرے سے باہر آیا تھا اور کیچن کی جانب بڑھ گیا تھا ۔جہاں جمال ناشتہ تیار کر رہا تھا۔
"ہاں جی ناشتہ تیار ہو گیا؟"ولی نے اندر آ کر پوچھا۔
ولی کے انداز پر پہلے جمال نے بغور ولی کو دیکھا اور پھر کہا۔
"جی ہو گیا آپ چلیں میں لے کر آتا ہوں۔"جمال نے کہا اور جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا۔ولی باہر جاکر بیٹھ گیا ۔اور اپنے سامنے پڑی کرسی کو دیکھنے لگا ۔اُس کو بے ساختہ نوراں کا پہلی بار یہاں بیٹھ کر ولی کو جھاڑ پیلانا یاد آیا تھا۔
۔
"آپ نے بلایا؟"نوراں نے سوال کیا۔
"ہاں بیٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"ولی نے ہاتھ کے اشارے سے نوراں کو اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔نوراں نے کرسی پیچھے دھکیلی اور بیٹھ گٸ ۔
"دیکھو لڑکی میری بات غور سے سننااور سمجھناکیونکہ میں بار بار بات دھرانے کا عادی نہیں ہوں۔"ولی نےنہایت سنجیدہ انداز میں کہا ۔
"ایک منٹ ایک منٹ آپکی بات میں بعد میں سُنتی ہوں پہلے آپ میری ایک بات سُن لیں۔میں لڑکی ہوں لیکن میرا نام لڑکی نہیں ہےاور یہ میں آپ کو پہلی اور آخری بار بتا رہیں ہوں ۔آٸندہ مجھے نام سے بلاٸیں گے تو بات سُنوں گی ورنہ سمجھ لیجیۓ گا نوراں بہری ہو گٸ ہے۔"نوراں نے ولی کی بات بیچ میں کاٹتے ہوۓ کہا۔جس پر ولی نے سختی سے کہا۔"مجھے میری بات بیچ میں کاٹنے والے سخت ناپسند ہیں۔"
"میں تو پہلے ہی اُس لسٹ میں ٹاپ پر ہوں تو کوٸ فرق نہیں پڑتا۔"نوراں نے پر سکون انداز میں کہا۔
۔
سوچ کر ولی مسکرایا تھا ۔جمال کب وہاں ناشتہ رکھ گیا ولی کو کوٸ خبر نہیں ہوٸ تھی۔جمال چاۓ رکھنے آیا تو اُس نے ولی کو پُکارا۔
"چھوٹے خان!"
جمال کی آواز پر ولی حال میں واپس آیا تھا ۔
"ہاں کیا ہوا؟"ولی نے پوچھا۔
"خیریت ہے آج آپ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔"جمال نے پوچھا۔
"ہاں خوش تو ہوں لیکن ابھی بہت خوش نہیں ہوں۔"ولی نے سلاٸس پر بٹر لگاتے ہوۓ کہا۔
"وجہ پوچھ سکتا ہوں۔"جمال نے پوچھا۔
"ویسے تم پیٹ کے بہت ہلکے ہو جمال لیکن پھر بھی میں آج تمہیں یہ بات بتا دیتا ہوں لیکن جب تک میں نہ کہوں تم یہ بات کسی سے نہیں کرو گے۔"ولی نے کہا۔
"جمال جان پر کھیل جاۓ کا لیکن آپ کا یہ راز افشاں نہیں کرے گا۔"جمال نے ایک سپاہی کے انداز میں ولی سے کہا جس پر ولی مسکرایا تھا ۔
"نوراں سے معافی مانگنے جا رہا ہوں۔" ولی نے کہا۔
"کیا؟ مطلب !۔۔۔۔آپ کو وہ مل گٸ؟"جمال نے خوشی اور حیرانگی سے پوچھا۔
"کچھ ایسا ہی ہے ۔۔۔۔اب تم دعا کرو کہ وہ مجھے معاف کر دے ۔میں چلتا ہوں۔"ولی نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
"یا اللہ نوراں بی بی واپس آ جاۓ گی۔"راشد نے خوشی سے کہا اور برتن سمیٹنے لگا۔
******
"ارے۔۔۔۔۔امّاں جی کھانا تو کھا لیں پہلے۔۔۔۔۔ناراض آپ پھر ہو جاٸیں گا۔"لڑکی کب سے ایک ضعیف عورت کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اُس کی بات بلکل نہیں سُن رہی تھی اور ایک ساٸیڈ پر منہ کر کے بیٹھی تھی۔
"اماں جی کیوں غصہ دیلاتی ہیں؟"لڑکی نے تنگ آ کر کہا۔تبھی نوراں وہاں آٸ اور لڑکی کو پُکارا تھا۔
"کیا بات ہے ثوبیہ کیوں غصہ ہو رہی ہو؟"
"غصہ نا کرو تو کیا کرو تھک گٸ ہوں میں یار۔"ثوبیہ نے روہنسی ہو کر کہا۔
"پتا تو چلے ہوا کیا ہے؟"نوراں نے پھرسے پوچھا۔
"کب سے کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی ہوں اور یہ ہیں کہ ضد لے کر بیٹھی ہیں کہ مجھے غزل سُناٶ گی تو کھاٶ گی ورنہ نہیں۔"ثوبیہ نے وجہ بتاٸ تھی جس پر نوراں نے مسکرا کر کہا۔
"تو سُنا دو تم۔"
"تمہیں کیا لگتا ہے میں نے نہیں سُناٸ ایک سے ایک بڑھ کر سُناٸ ہے پر وہ کہہ رہی ہیں مزہ نہیں آیا۔۔۔۔جبکہ میرا شاعری کا سٹاک ختم ہو گیا ہے۔"ثوبیہ نے چیڑنےوالے انداز میں کہا۔
ثوبیہ کی بات سُن کر نوراں نے اُسے ساٸیڈ پر ہونے کے لیے کہا اور خودکھانے کی ڈیش لے کر اماں کےپلنگ پر پاٶں کی جانب بیٹھ گٸ۔
"مجھے بتاۓ آپ کو کیسی غزل سُننی ہے۔"نوراں نے اماں کے منہ کا رُخ اپنے جانب کرکے پوچھا۔
"نوراں پُتر تو اینوں چھڈ دے دیدا تا روز دا اے۔"ساتھ بیٹی ایک اور بزرگ خاتون نے کہا۔
"برکت بی بی آپ تو خاموش ہو جاۓ ۔"نوراں نے گھوری دیکھا کر کہا۔
"اچھا اماں جی مجھے بتاۓ کون سی غزل سُننی ہے مجھے آتی ہوٸ تو ضرور سناٶ گی۔"نوراں نے پیار سے ایک بار پھر پوچھا۔
"میں نے نا وہ غزل اِس کو بتاٸ تھی اب مجھے بھول گٸ ہے۔"اماں نے برکت بی بی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
"برکت بی بی !"نوراں نے پُکارا ۔وہاں موجود باقی سب بھی یہ سب دیکھنے میں مصروف تھے۔
"میں نٸ دسنا۔"برکت بی بی نے کہا۔
"کیوں؟"نوراں نے کہا۔
"دُکھی دُکھی غزلا سون دی اے ۔۔۔۔آپ تا روندی اے نالے سانو وی رواندی اے۔"برکت بی بی نے نہ بتانے کی وجہ بتاٸ۔
"ارے برکت بی بی تو اچھا ہے نہ سب رو لیں گےدل ہلکا ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔میں تو خود رونے کا بہانا ڈھونڈھ رہی ہوں ۔"نوراں نے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر کہا۔
"نی نسیم ۔۔۔۔آج میری مرضی دی غزل سُن لا میری سیلی(سہیلی)نہیں۔"برکت بی بی نے اماں سے کہا۔جس پر اماں نے ہاں میں گردن ہلا کر اجازت دی۔اور پھر برکت بی بی نے ایک کاغذ نوراں کی طرف بڑھایا۔نوراں نے کاغذ پر لکھی غزل دیکھی اور پھر اپنے سامنے کھڑی ثوبیہ کو دیکھا۔
"ویسے اِن سب کو یہ شوق کہا سے آیا؟"نوراں نے ثوبیہ سے پوچھا۔
"یہ شوق نصرت آپا اور اُن کے بیٹے سے یہاں منتقل ہوا ہے جب وہ یہاں ہوا کرتا تھا تو یہاں مشاعرے کی محفل لگتی تھی ،مقابلے ہوتے تھے،دل دُکھتے تھے ،آنسوٶں کی ندیاں بہتی تھیں۔"
"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔"نوراں نے صوفیہ کو مذید تفصیل بتانے سے روکا۔
"پُتر ہُن سُنا وی دے۔"اماں نے نوراں کا کاندھا ہلا کر کہا۔
"ٹھیک ہے سُناتی ہوں ۔۔۔۔۔اور یہ کوٸ جذباتی غزل نہیں ہے تو کسی کو رونا بھی نہیں آۓ گا۔"نوراں نے مسکرا کر کہا اور کاغذ سے دیکھ کر پڑھنا شروع کیا تھا۔
*****
ولی نے اپنی پُر وقار شخصیت کے ساتھ فلاحی ادارے کے آفس میں قدم رکھا تھا۔ولی کودیکھ کر نصرت میڈیم نے کھڑےہو کر اُنکا استقبال کیا تھا ۔
"اسلام علیکم!"ولی نے سلام میں پہل کی۔
"وسلام!آۓ تشریف رکھیں۔"نصرت میڈیم نے کہا۔ولی نے کرسی کھینچی اور بیٹھ گیا ۔
آپ کیا لیں گے سر؟"
"نہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔بس آپ سے جو کہا ہے وہ اگر آپ کر دیں تو میں آپ کا بہت مشکور ہونگا۔"ولی نے اپنے کام کی بات کی۔
"ولی سر !آپ نے یہاں موجود لوگوں کے لیے بہت کچھ کر دیا ہے اب یہ مجھ پر واجب ہے کہ میں آپ کی مدد کرو۔"نصرت میڈیم نے کہا اور اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑی ہوٸ۔ولی نے بھی اُنکی پیروی کی تھی ۔
"آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا سر یہ بہت بڑی بات ہے ۔اُمید کرتی ہوں کہ آپ جو کرنے جا رہے ہیں اُس میں کامیاب رہیں۔"نصرت میڈیم نے ولی کے برابر چلتے ہوۓ کہا۔
" ان شاء اللہ۔"ولی نے فقط اتنا ہی کہا۔ولی نصرت میڈیم کو ساری بات بتا چُکا تھا ۔اور نصرت میڈیم نے بھی ولی کی پوری مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
چند قدم چلنے کے بعد ایک واڈ نما کمرے سے ایک آواز آٸ تھی کوٸ نم آواز میں غزل پڑھ رہا تھا۔اور یہ آواز ولی لاکھوں کڑوڑوں آوازوں میں بھی پہچان سکتا تھا ۔
ولی کمرے کے دروازے میں کھڑا ہو گیا تھا نصرت میڈیم بھی ولی کے پیچھے تھیں۔نوراں سامنے ہی ایک سنگل بیڈ پر ایک اماں کے پاس بیٹھی تھی ۔بھورے سے رنگ کی صاف قمیض کے ساتھ سفید دوپٹہ لیۓ وہ کچھ پڑھنے میں مصروف تھی اور وہاں موجود ہر شخص نوراں کو سُن رہا تھا ۔نوراں کی ولی کی طرف ساٸیڈ تھی۔ ایسے کہ ولی نوراں کو دیکھ سکتا تھا لیکن نوراں نہیں۔نوراں کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ ولی کےدل کو زخمی کر رہا تھا۔نوراں کی نظریں ہاتھ میں پکڑے کاغذ پر تھیں اور اُس پر لکھے الفاظ جو نوراں ادا کر رہی تھی وہ یہ تھے۔
أنت تقرأ
میں لڑکی عام سی(مکمل)
خيال (فانتازيا)کہانی ہے۔۔۔۔ "علی پور گاٶں کی عام سی لڑکی کی ۔۔۔۔ہنستی مسکراتی چہکتی کلی کی۔۔۔خان حویلی میں گونجتی شہناٸیوں سے اچانک اُٹھتے جنازے کی۔۔۔ونی کی بھیڈ چڑھتی لڑکی کی۔۔۔کسی کی معصومیت کی تو کسی کی سفاکیت کی۔۔۔کسی کے صبر کی تو کسی کی بے حسی کی۔۔۔کسی کے حوص...
Last Episode (part B)
ابدأ من البداية
