صبح کا آغاز تھا،ٹریفک کا شور اور بھاگتا وقت۔ روڈ پر اکادکا گاڑیاں اور فٹ پاتھ پر بیگ تھامے مستقبل کو سنوارنے اپنی منزل کو بھاگتے کچھ طالبِ علم دکھائی دے رہے تھے۔۔ ایسے میں سیاہ مرسیڈیس کی پچھلی سیٹ پر وہ بیٹھا چہرے پر گاگلز چڑھائے کھڑکی سے باہر ان اسٹوڈینٹس کو بھاگتا دیکھ رہا تھا۔ کچھ دن قبل اختتام پذیر ہوئے یونی کا ہر ہر لمحہ جیسے سیاہ گاگلز پر فلم کی طرح روشن تھا۔ لب مسکراہٹ میں پھیلے تھے تو آنکھیں اداس سی تھیں۔ اعتراف ہوا تھا دل میں کہ طالبِ علمی زندگی کا کوئی متبادل نہیں۔ اب کہ جب عملی زندگی کی ابتدا تھی تو دل مرجھا سا گیا تھا،ذمہ داری کا احساس تھکا سا گیا تھا۔ آج منزل کچھ اور تھی مگر وہ تیار تھا۔
گاڑی اس عالیشان عمارت کے عین سامنے رکی تو پچھلا دروازہ کھول کر ایک قدم باہر رکھا گیا۔ کسی ہیرو کی طرح گاگلز ٹھیک کئے گئے،کوٹ کا بٹن بند کرتا جب وہ باہر نکلا تو تابعدار سا گارڈ بھاگا بھاگا قریب چلا آیا کہ کل کی جھڑک وہ اب تک نہ بھولا تھا۔ کل جب اسی طرح کوٹ کے بٹن بند کرتا وہ گاڑی سے اترا تھا اور گارڈ کی طرف سے سلام نہ پانے پر وہ ازلی مغرور شہزادہ اپنی شان میں گستاخی محسوس کرتا اسے بری طرح جھڑک گیا تھا۔ ویسے تو اسکا یہاں آنا جانا عام تھا کہ باپ کا آفس تھا مگر کل جب دوسری بار کوٹ پینٹ میں ملبوس وہ یہاں کام کی خاطر موجود تھا تو تھوڑی تواضع تو بنتی تھی۔ احساس کیسے ہوتا کہ اس عالیشان آفس کے مالک کا بیٹا ہے۔
اپنی پہلی اور کامیاب پریزنٹیشن تو اسنے گھر پر ہی تیار کی تھی اور ارباز صاحب کو دوبدو کہا تھا کہ پہلی حاضری وہ نہال کے آفس میں ہی لگائے گا اس لیے فلحال اسکے آفس آنے کی امید نہ رکھی جائے۔ یہ کوشش دانستہ طور پر آفس کی شکل نہ دیکھنے کے لیے کی گئی تھی اور اب وقت نکلنے پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں حاضر تھا۔
بہرحال گارڈ میں یہ تبدیلی محسوس کیے وہ ذرا مسکرایا تھا۔ پھر خود اس سے ہاتھ ملاتا، اسکا شانہ تھپکتا اندر کی جانب بڑھ دیا تھا۔
لفٹ سے باہر نکل کر وہ ایک کیبن کے باہر کھڑا تھا جس کے دروازے پر ارباز جعفری کی نیم پلیٹ لگی تھی۔کھٹکھٹانے کا تکلف کیے بغیر اس نے دھڑلے سے اندر داخل ہونا زیادہ بہتر سمجھا۔
”سلام بابا!“۔  ہشاش بشاش سی آواز پر انہوں نے سر اٹھایا تھا۔ وہ باپ کے سامنے والی سیٹ کھینچ کر بیٹھنے لگا تھا۔
”وعلیکم اسلام!“۔ جواب دیتے ہی انکی نظر اپنی کلائی پر ٹکی اس گھڑی پر گئی تھی۔ پھر نظروں کے ارتکاز میں وہ گھیر لیا گیا تھاجو ٹیبل پر ترتیب سے رکھی ان فائیلوں کو کھولتا پھر بند کرتا کھیلنے میں مصروف تھا۔اسے دیکھتی انکی آنکھیں مسکرا اٹھی تھیں۔ لب بے اختیار نامعلوم سی مسکراہٹ میں پھیلنے لگے تھے جسے انہوں بروقت ہی سمیٹ لیا تھا۔
”اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت تھی بیٹا... ذرا دو تین گھنٹے اور لگاتے،آرام سے اٹھتے، تھوڑی آوارہ گردیاں کرتے پھر جب دل کرتا آجاتے یہاں۔ کیونکہ کمانے کی تو ذرا کوئی فکر ہی نہیں، ماشاء اللہ باپ کا بزنز ہے باپ ہے سنبھالنے کو تو پھر ہمیں کیوں پڑی ہے ذرا ہاتھ بٹانے کی“۔ طنز کا تیر چھوڑا گیا تھا مگر شاید چوک گیا تھا کہ سامنے والا ذرا گھایل نہ ہوا، بلکہ مزید پھیل کر بیٹھ گیا۔
”اوہ تو مطلب آج غلطی ہوگئی۔ مگر کل سے ضرور آپکی بات پر غوروفکر کرونگا۔ آج دس بجے آیا ہوں،کل سے بارہ بجے آیا کرونگا“۔ بے نیاز سے انداز میں کہہ کر ایک اور فائل اٹھا لی گئی تھی۔جبکہ انکا سر تاسف کے مارے نفی میں ہلا تھا۔اعتراف ہوا تھا کہ انکا یہ لاابالی سا بیٹا کبھی سدھرنے والا نہ تھا۔
انہوں نے سر جھٹکا، پھر اسکے ہاتھ میں تھمی اس فائل کو دیکھنے لگے جسکے کاغذ الٹ پلٹ کیے وہ نجانے کیا کھنگالنے میں جٹا تھا۔
”شاباش!۔ اب یہی فائل لے کر اٹھو اور آدھے گھنٹے میں تمام کام فارغ کیے ہی یہاں تشریف لانا“۔  اسنے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ انکا اسپاٹ لہجہ اسے چونکا گیا تھا مگر لب نہ ہلے تھے بس خاموش نظروں نے سوال داغا تھا جسے وہ فوراً بوجھ گئے تھے۔
”یہ ورکنگ پلیس ہے۔ یہاں نو باپ بیٹا، میں اپنے تمام ورکرز سے یہاں تک کہ شئر ہولڈرز سے بھی اسی ٹون میں بات کرتا ہوں۔ چاہو تو زایان سے پوچھ لو“۔ کہہ کر وہ سامنے رکھے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوئے تھے، وجہ یہی تھی کہ اسکے چہرے پر پھیلتی اس مسکراہٹ کو نہ دیکھ پائے تھے۔ وہ فائل تھامے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ابھی قدم دروازے کی جانب بڑھے ہی تھے کہ پیچھے سے اٹھی پکار پر ساکت ہوگئے۔
 ”آج انٹر ویو کے لیے جو لوگ آئینگے انہیں تم ہی ہینڈل کرو گے، بلکہ اب انٹرویو کے لیے جتنے بھی لوگ آئینگے انکی ذمہ داری میں تمھیں سونپتا ہوں۔ امید ہے اپنے باپ کا بھرم رکھتے ہوئے شکایت کا موقع نہیں دو گے“۔ لہجہ اب بھی وہی تھا۔ بے اختیار سی مسکراہٹ لبوں پر روکی گئی۔
”آپ کا حکم سر آنکھوں پر مسٹر جعفری“۔ شریر لہجے میں کہتے باہر کا راستہ ناپا گیا تھا جبکہ اس شرارت پر انکے لب مسکرا اٹھے تھے۔
                                   ……(۰٭۰)……

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now