چھنکار مکمل✅

By Aimeykhan

34.3K 1.7K 1.5K

کہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی ج... More

آغاز آشنائی
پہلی ملاقات
تقدیر کے کھیل نرالے
یار من
رنگ و بو کا جہاں
بکھرتی چاندنی
بہتا پانی
انجانے راہی
راز الفت
جھیل میں بہتا عشق
آتشِ غم
فراقِ یار
جان کے بھی انجانا
انجام کے بعد

رُخ موڑتی زندگی

1.8K 124 110
By Aimeykhan

باب نمبر 14

پل پل بدلتے موسموں کی رنگینی سے
سکون کے لمحات مانگتی ہوں

کروٹ بدلتی رت کے پُر کیف سماں سے
ہنستی کھیلتی فضائیں مانگتی ہوں

اپنے من پسند نظاروں کے حسن سے
قدرت کی رعنائی مانگتی ہوں

پچھڑنے والوں کے تلخ رویوں سے
پناہ کی ایک لڑی مانگتی ہوں

رخ موڑتی زندگی کے سحر سے
باخدا ہمشہ نجات مانگتی ہوں

ایمن خان

رات آسمان پر گہری ہورہی تھی۔ گہری سیاہ رات میں اس لمحے وہ اپنے کمرے میں تنہا بستر پر چت لیٹی تھی۔ کتنے دنوں سے اس کمرے کا شریک اس کے ساتھ موجود ہوتا تھا مگر اب وہ جب یہاں نہیں تھا ایک عجیب سی ویرانی تھی۔ پورا کمرا جیسے سناٹوں کی زد میں لپٹا ہوا تھا۔ دل کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے وہ بستر سے اٹھی تھی۔ تکیے کے اطراف میں رکھے ہوئے اپنے دوپٹے کو سلیقے سے اوڑھ کر پیروں میں چپل اڑسا کر وہ انتہائی آہستگی سے باہر نکلی تھی۔ سیڑھیاں پھلانگ کر ہال کمرے میں آتے ہی اس کی نگاہوں نے کونے میں لگے ہوئے فون اسٹینڈ کو تلاشا تھا۔ جلد ہی اس کی تلاش مکمل ہوئی تو وہ احتیاط سے قدم اٹھاتی فون اسٹینڈ کے نزدیک آگئی۔ دماغ پر زور ڈال کر فون نمبر کے ان ہندسوں کو ایک بار دہرایا اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ نمبر پریس کیے۔ عجیب بات تھی اپنے محرم کو فون کررہی تھی مگر دل یوں دھڑک رہا تھا جیسے کسی نامحرم سے رات کی تنہائی میں چھپ کر گفتگو کرنی ہو۔ اس نے سر جھٹکا اور نمبر پریس کیا۔ دوسری جانب سے بیل جارہی تھی۔
"ہیلو!"
اس کی آواز ترو تازہ تھی۔ مہالہ کو حوصلہ ہوا تھا کہ رات کی تنہائی میں اس نے کم از کم آبیان کو ڈسٹرب نہیں کیا۔
"ہیلو۔۔۔"
مہالہ نے فون اسٹینڈ کے نزدیک صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تو دوسری جانب کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
"کیسی ہیں آپ؟"
اس کا لہجہ ہمشہ کی طرح بے حد نرم تھا۔
"کیسے ہیں آپ؟ جا کر فون تو کردیتے کم از کم۔۔"
ناچاہتے ہوئے بھی زبان سے شکوہ پھسلا تھا۔
"آئی ایم رئیلی سوری مہالہ! اصل میں آکر ایک بہت امپورٹنٹ کام میں پھنس گئے تھے اس لیے وقت نہیں مل پایا۔"
دوسری جانب سے آبیان مجرمانہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
"آپ کو ایک اہم بات بتانی تھی۔"
وہ ذرا سا ہچکچائی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ بات کیا رخ اختیار کر جائے گی۔
"جی بولیں ہم سن رہے ہیں۔"
آبیان مکمل طور پر اس لمحے صرف اس کی ہی جانب متوجہ تھا۔ اسے تجسس ہوا تھا کہ نجانے مہالہ نے اس سے کیا بات کرنی ہے۔
"آج خالہ بی آئی تھیں اور وہ بی بی سرکار کی رضا مندی سے درناب کو انگوٹھی پہنا کر گئی ہیں۔"
وہ اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوئی تو آبیان کو لگا جیسے اس نے سننے میں کوئی غلطی کی ہو۔
"کیا کہا آپ نے؟"
وہ تائید چاہ رہا تھا مگر مہالہ ایک دم پریشان ہوئی تھی۔
"جی آپ نے ٹھیک سنا ہے بخت سرکار! خالہ بی درناب کو آپ کے منع کرنے کے باوجود انگوٹھی پہنا گئی ہیں اس نے صبح سے رو رو کر اپنی بُری حالت کی ہوئی ہے۔"
مہالہ نے پریشان ہوکر کہا تو دوسری جانب آبیان خاموش ہوگیا۔
"آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے؟"
مہالہ نے کچھ دیر اس کی خاموشی محسوس کی تو آخر کو بول اٹھی۔
"ہم صبح واپس آتے ہیں پھر دیکھتے کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالنا آپ فکر مت کریں اور جاکر سکون سے سوجائیں یہ ہمارا مسئلہ ہے ہم خود دیکھ لیں گئے۔"
اس نے کہہ کر چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد فون بند کردیا۔ مہالہ نے ایک پُرسکون سانس فضا میں خارج کی تھی مگر یہ پُرسکون سانس کتنے لمحوں کے لیے تھی یہ مہالہ سمیت کوئی نہیں جانتا تھا۔
-----------------------------------
وہ آج اپنی چارپائی پر موجود نہیں تھا۔ آج وہ صحن میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ بار بار اس کی نگاہوں کے سامنے سجی سنوری درناب گھوم رہی تھی۔ اتنے عرصے میں پہلی بار اس کا دل درناب بخت کے لیے دھڑک کر ٹوٹا تھا۔ بار بار وہ لڑکی ہوکر بے باکی سے اس کے سامنے آئی۔۔ بے باکی سے اس نے سدیس ملک کے سامنے اظہارِ محبت کیا۔ اسے احساس دلایا کہ درناب بخت صرف اور صرف سدیس ملک کی ہے۔ درناب بخت کے وجود پر صرف اس کا حق ہے مگر ساری عمر لال حویلی کا نمک کھا کر وہ اسی کی عزت اپنا کر لال حویلی سے نمک حرامی نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اب جبکہ وہ اپنی آنکھوں سے درناب بخت کو کسی اور کی دلہن بنے دیکھ آیا تھا تو اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا چہرہ مرجھا گیا ہو،دل تیز تیز دھڑک کر تھک گیا ہو۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے اندر شدید بے بسی محسوس کی تھی۔ وہ تو انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ ایک بے حد مضبوط مرد جو یہ سوچتا تھا کہ اس کی زندگی میں اپنے باپ کی برسوں سے کمائی گئی عزت کو محفوظ رکھنا ہی اوالین فریضہ ہے۔ مگر یہ عزت محفوظ کرتے کرتے کب وہ اس درو دیوار کی عزت پر آنکھ رکھ بیٹھا اسے احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ اپنا آپ جھٹلاتا رہا،وہ کہتا رہا کہ وہ اس لائق نہیں ہے کہ درناب بخت اس سے محبت کرے مگر جھٹلاتے جھٹلاتے کب وہ خود اس محبت کی گہری نیلگیوں میں اتر گیا کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا۔ ساری رات اس نے یونہی جاگنا تھا کیونکہ چاہ کر بھی وہ سو نہیں پا رہا تھا۔ نیند اس کی آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی۔

وہ اپنے کمرے کے گداز قالین پر بستر پر سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔ دل اور آنکھیں دونوں ویران تھیں۔
"کیا تم اتنی آسانی سے ہار مان جاؤ گی درناب بخت!"
اس کے اطراف سے آواز ابھری تو اس نے سر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
"نہیں درناب بخت تم ہار ماننے کے لیے پیدا نہیں ہوئی ہو تم تو جیتنے کے لیے آئی ہو یوں ہار کر جاؤ گی تو خود سے کیسے نظریں ملاؤ گی۔"
اطراف سے ابھرتی ہوئی آواز میں تیزی آئی تھی۔ درناب نے اپنی خشک آنکھوں کو بند کرکے کھولا تو اطراف بالکل خاموش تھا۔ دیوار گیر گھڑی کی ٹک ٹک پورے کمرے میں عحیب سا ارتعاش پیدا کررہی تھی۔ وقت صبح پونے چار کے ہندسے کو چھو رہا تھا۔
"لال حویلی میری خوشیاں نہیں نگل سکتی۔ میں اپنا آپ لال حویلی کی روایتوں کی نذر نہیں کرؤں گی۔ میں اپنی محبت پر فاتحہ خوانی نہیں کرؤں گی۔ درناب بخت کبھی بھی ہارنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی ہے۔"
اس نے کہتے ہوئے ایک نظر اپنے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں چمکتی انگوٹھی پر ڈالی اور پھر نفرت سے اس انگوٹھی کو اپنی انگلی سے اتار کر دور قالین پر اچھال دیا۔
"میں کسی حسنات شاہ کی امانت نہیں ہوں۔ میں درناب بخت صرف اور صرف سدیس ملک کی ہوں۔۔صرف اور صرف سدیس ملک کی۔"
بار بار امڈتے ہوئے آنسوؤں کو اس نے بے دردی سے رگڑا اور الماری کی جانب بڑھی۔ الماری کے نچلے خانے سے سیاہ بیگ نکال کر اس نے تیزی سے اپنے کپڑے اس بیگ میں بھرے تھے۔ وہ بے تحاشہ سرکش اور باغی ہورہی تھی۔ اس لمحے نہ تو اسے یہ خیال آرہا تھا کہ وہ کس خاندان،کس نصب سے تعلق رکھتی ہے اور نہ تو یہ خیال تھا کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی وہ ایک پیرزادی تھی اور پیر زادیوں کو یہ حرکات زیب نہیں دیتی ہیں۔
باہر فجر کی اذان شروع ہوچکی تھی۔ بیگ میں ضرورت کا سمان بھر کر اس نے بیگ بستر پر رکھا اور الماری سے اپنی بڑی سی سفید چادر نکال کر اچھے سے خود پر اوڑھ لی ایسے کہ اس کا تمام سراپا چھپ گیا۔ ایک کونا چہرے پر ڈال کر اس نے سیاہ بیگ کو اپنے کندھے پر ڈالا اور کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھول کر باہر نکل آئی۔ اطراف میں نگاہ دوڑائی ہر طرف سناٹوں کا راج تھا۔ ایک نظر اپنے سامنے مہالہ کے کمرے کے بند دروازے پر ڈالی شاید اب دوبارہ کبھی وہ مہالہ اور لال حویلی کو نہ دیکھ پائے۔ دل میں درد اٹھا تھا مگر دل میں اٹھتے درد کو دبا کر وہ لان میں اترتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی۔ پورا سبز لان ویران تھا۔ سبز گھاس پر ہلکا سیاہ سایہ پڑرہا تھا۔ ایک نظر مرکزی گیٹ پر ڈالی تو دل میں ڈھیروں اطمینان اتر آیا۔ چوکیدار اپنے ننھے سے ہجرے میں تھا جو گیٹ کے بالکل ساتھ بنایا گیا تھا۔ وہ دبے پاؤں گیٹ کی جانب بڑھی تھی۔ ایک آخری نگاہ اس نے سرخ اینٹوں کی اس مغرور عمارت پر ڈالی اور انتہائی آہستگی سے گیٹ کھول کر قدم باہر نکال لیا۔ وہ قدم باہر نکالتے ہوئے یہ فراموش کرگئی تھی کہ اس کا اٹھنے والا یہ قدم اسے ذلت کی پستیوں میں بھی دھکیل سکتا ہے مگر درناب بخت پر اس لمحے جنون سوار تھا۔ حویلی کے گیٹ کو آہستگی سے ساتھ لگا کر وہ اندھا دھند بھاگی تھی۔ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی کہ گویا کوئی اس کے پیچھے تو نہیں آرہا مگر راستے کو صاف دیکھ کر اس نے اپنے تیزی سے چلتے ہوئے قدموں کو سست کیا تھا۔ گاؤں میں ابھی چھایا اندھیرا آہستہ آہستہ روشنی میں ڈھل رہا تھا۔
خوف سے اس کے پورے جسم میں عجیب سی جھرجھری پیدا ہورہی تھی مگر اس نے اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ضروری نہیں سمجھا تھا وہ چل رہی تھی اور بس چلتی ہی جارہی تھی اس منزل کی طرف جہاں کا راستہ شاید کہیں اسے بچپن میں بتایا گیا تھا۔ جہاں شاید وہ کبھی بچپن میں گئی تھی۔ گاؤں کی ان گلیوں کی دھندلی دھندلی یاد اس کے دماغ کے خانوں میں ابھر کر غائب ہورہی تھی۔ اس کا تنفس پھول چکا تھا مگر وہ دوڑ رہی تھی۔ فجر کی اذان اپنے اختتام کو پہنچی تو وہ بھی اپنی منزل پر پہنچ گئی اس کے سامنے سیاہ گیٹ موجود تھا جو شاید اس کا آخری مسکد تھا اس کی آخری پناہ گاہ تھی۔

وہ صحن میں موجود چارپائی پر پوری رات تن تنہا جاگتا رہا تھا۔ جونہی باہر فجر کی اذان کی آواز آئی تو اس نے چارپائی چھوڑ کر صحن کے کونے میں بنے واشروم کی راہ لی۔ کچھ دیر بعد باہر نکلا تو چہرہ تر تھا۔ کف کہنیوں تک مُڑے ہوئے تھے۔ اس نے صحن میں ایک جانب کو کھڑے ہوکر اپنے مُڑے ہوئے کف دھیرے دھیرے نیچے کرنا شروع کیے۔ ابھی وہ ایک بازو نیچے کرکے بٹن بند کرتا فارغ ہوا ہی تھا کہ سیاہ گیٹ زور زور سے دھڑ دھڑایا گیا۔ اس کے کف نیچے کرتے ہاتھ فضا میں ہی کہیں ساکن ہوئے تھے۔ دل نجانے کیوں ایک دم دھڑکا تھا۔
"اتنی صبح اللہ جانے کون آگیا۔۔"
وہ خود سے کہتا صحن عبور کرتا گیٹ کی جانب بڑھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ آنے والے کی پہچان پوچھ لے مگر گھر والوں کے اٹھنے کے خیال سے ہی بغیر پوچھے اس نے دھیرے سے کُنڈی کھول کر گیٹ کھول دیا۔ دروازے میں سفید چادر سے ڈھکے چہرے اور وجود کو دیکھ کر وہ خاصا حیرت میں مبتلا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ آنے والی سے اس کی پہچان پوچھتا سفید چادر سے کیا گیا نقاب ڈھیلا ہوکر چہرے سے ہٹا دیا گیا۔ سدیس ملک وہی پتھر کا مجسمہ ہوگیا۔ اپنے سامنے کھڑی درناب بخت کو دیکھ کر وہ مکمل طور پر سن ہوچکا تھا۔ اس کے پورے وجود میں ذرا ریت برابر بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سے کوئی سوال کرتا۔
"آپ۔۔آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟"
دروازے کو مکمل طور پر ڈھانپ کر وہ کچھ سنجیدگی اور گھبرائٹ سے گویا ہوا تو درناب نے ایک نظر اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کی جانب دیکھا۔
"سب چھوڑ کر آگئی ہوں۔"
اس کے جملے نے سدیس کو ساکن کردیا تھا۔ وہ بس ٹک ٹکی باندھے درناب بخت کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی جرات کا یقین سدیس ملک کو اب تک نہیں آیا تھا۔

*************************
فجر کی اذان کے کچھ وقت بعد سیاہ اوڈی لال حویلی میں داخل ہوئی تھی۔ چوکیدار جب گیٹ کھولنے گیٹ کی جانب بڑھا تو اسے پہلے سے کھلا دیکھ کر حیرت کے ساتھ اسے خوف بھی محسوس ہوا۔
"میں تو بند کرکے سویا تھا۔یہ دروازہ پتہ نہیں کیسے کھلا رہ گیا۔"
وہ خاصا حیران ہوا مگر سر جھٹک کر اس نے سیاہ اوڈی کے لیے گیٹ کھول دیا۔
اوڈی اپنی جگہ پر رکی تو آبیان دروازہ کھول کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔حویلی کی بتیاں آہستہ آہستہ بُجھ رہی تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے پیر زرگل بخت اور زرشاہ دکھائی دے گئے جو شاید مسجد نماز پڑھنے ہی جارہے تھے۔ اس سے رسمی سلام دعا کے بعد وہ باہر نکل گئے جبکہ وہ سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو مہالہ فجر کی نماز پڑھتی ہوئی دکھائی دی۔ اپنا کوٹ اتار کر اس نے صوفے پر ایک جانب کو رکھا اور بیڈ کی پائینتی پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارنے لگا۔ تب تک مہالہ سلام اور دعا سے فارغ ہوچکی تھی۔
"کچھ لاؤں آپ کے لیے؟"
صوفے سے اس کا کوٹ اٹھا کر الماری میں ہینگ کرتے اس نے پوچھا تو آبیان نے اپنا سر مسلتے ہوئے نفی میں ہلایا۔ وہ کوٹ رکھ کر ابھی پلٹی ہی تھی کہ اس کے کمرے کا دروازہ زور زور سے دھڑدھڑایا۔ آبیان نے بامشکل آنکھیں کھول کر اپنی کونی کے بل بیٹھ کر بجتے ہوئے دروازے کو دیکھا تھا۔ مہالہ تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی۔ دروازہ کھولا تو سامنے چندہ پریشان شکل لیے کھڑی تھی۔
"کیا ہوا تو ایسے کیوں کھڑی ہے؟"
مہالہ نے عجیب تشویش سے پوچھا تو چندہ کا تیزی سے چلتا ہوا تنفس قدرے بحال ہوا۔
"وہ۔۔۔وہ درناب۔۔بی بی۔۔پوری حویلی میں کہیں نہیں مل رہی افروز جان۔۔ ان کے۔۔۔کپڑے بھی۔۔ان کی الماری میں نہیں ہیں۔"
اس کے جملہ مکمل ہوتے ہی مہالہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیروں سے جان نکل گئی ہو وہ ایک دم لڑکھڑائی تھی۔ آبیان تیزی سے بستر سے اٹھ کر دروازے میں آیا تھا۔
"کیا بکواس کررہی ہیں آپ؟"
وہ قدرے چِلا کر بولا تو چندہ ڈر کر پیچھے کو ہوئی۔
"سچ کہہ رہی ہوں بخت سرکار! سب ہال کمرے میں جمع ہیں۔"
اس نے آبیان کے غصے سے خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا تو وہ تیزی سے ننگے پاؤں ہی سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ پیچھے مہالہ لڑکھڑاتے قدموں سے باہر آئی تھی۔
"آہ! درناب یہ کیا کردیا تم نے؟ کیا کردیا یہ؟"
وہ تصور میں درناب کے سراپے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
ہال کمرے میں بی بی سرکار غیض و غضب کی تصویر بنی ادھر اُدھر چکر کاٹ رہی تھیں جبکہ ممتہیم بیگم مسلسل رونے میں مصروف تھیں۔زرشاہ اور زرگل بخت جب نماز پڑھ کر آئے تو اتنی سنگین صورتحال کو دیکھتے دونوں ہی اپنی جگہ ڈھے گئے۔ آخر کو وہ پورے راجن پور کو کیا منہ دکھائیں گئے یہ ان کی سمجھ سے باہر تھا۔
"آخر کو درناب کہاں جاسکتی ہیں؟"
آبیان نے کمر پر ہاتھ رکھ کر پُرسوچ انداز میں کہا تو مہالہ اپنے آنسو ضبط کرکے اس کے قریب آئی۔
"میں جانتی ہوں وہ کہاں گئی ہوگی۔"
فضا میں ایک سسکی بھرتے اس نے کہا تو آبیان جلال سے اس کی جانب بڑھا۔
"جلدی بتائیں کہاں گئی ہیں وہ؟"
اس کے چہرے کی جانب دیکھتے آبیان نے درشتگی سے کہا تو مہالہ ڈر کر ایک دم پیچھے کو ہوئی۔
"سہ۔۔سدیس۔۔کے گھر۔۔"
آبیان کو لگا اس نے سننے میں غلطی کی ہے۔ بی بی سرکار کے چہرے پر حیرت کے تاثرات واضح تھے۔ جبکہ ممتہیم بیگم تو شرم سے زمین میں ہی گڑ گئی تھیں۔
"وہاں کیوں گئی ہیں وہ؟"
وہ ایک بار پھر چیخ کر اس سے پوچھ رہا تھا۔
"مہ۔۔محبت۔۔کرتی ہے وہ اس سے۔"
آبیان کو لگا جیسے لال حویلی کی پوری چھت اس کے سر پر آگری ہو۔ اردگرد کے سارے مناظر جیسے دھندلا رہے ہوں۔ فضا میں حبس ہی حبس بڑھ گیا ہو۔ وہ بغیر کچھ کہے پیروں میں عام سی قینچی چپل اڑسا کر باہر کی جانب بڑھا تھا۔
"راحت علی! گاڑی نکالو۔"
اس کا لہجہ اور تاثرات سرد ترین تھے۔ راحت علی نے سر تسلیمِ خم کرکے فوری سے بیشتر گاڑی نکالی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سیاہ اوڈی گاؤں کی کچی سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ آبیان کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہو۔

------------------------------------
وہ یک ٹک سدیس کے چہرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔
"مگر کیوں۔۔۔ آپ ایسا کیسے کرسکتی ہیں؟"
اس نے حیرت سے پوچھا تو درناب نے ایک شکوہ کناں نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی۔
"کہا تھا محبت کرتی ہوں۔۔ نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر پھر بھی آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیوں آئی ہو؟"
گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو بے دردی سے رگڑتے اس نے دھیرے سے کہا تو سدیس کے وجود میں گہری تکلیف کا احساس ابھرا مگر اس لمحے وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
"مگر میں آپ سے محبت نہیں کرتا درناب بی بی! کتنی بار آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آپ کا مقام بہت اعلیٰ ہے میرا اور آپ کا کبھی بھی کوئی جوڑ نہیں بن سکتا برائے مہربانی آپ واپس لال حویلی چلی جائیے۔"
وہ کہہ کر نگاہیں جھکا کر رخ موڑ گیا تھا مگر درناب نے ہاتھ میں تھاما ہوا سیاہ بیگ ایک جھٹکے سے زمین پر پھینکا اور قدم قدم چلتی ہوئی اس کے عین سامنے آگئی۔
"کیسے واپس چلی جاؤں بچپن سے لے کر آج تک آپ کے ساتھ ساتھ ہوں۔ ہوش سنبھالتے ہی آپ سے محبت کے گہرے کنویں میں کُودی ہوں اور اب جب بغاوت کا عَلم لال حویلی کی چھت پر لہرا کر سب چھوڑ چھاڑ کر آپ کے در پر آپ کے ساتھ کی بھیک مانگ رہی ہوں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا چلی جاؤ۔۔۔"
اس کا گریبان اپنی مٹھیوں میں جکڑے وہ ہذیانی انداز میں چیخی تھی۔
"شیش! کیا سارے گاؤں کو اٹھا کر مجھے مار پڑوائیں گی جو اتنا چیخ رہی ہیں۔"
اس کے منہ پر انگلی رکھ کر سدیس نے جیسے عاجز آکر اسے خاموش کروایا تھا۔
"بولوں گی چیخوں گی سارے گاؤں کو بتاؤں گی۔"
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتی سیاہ اوڈی اس کے نزدیک رکی تھی اور آبیان سرد تاثرات سمیت باہر نکلا تھا۔ دونوں نے بیک وقت آبیان کے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

*********************
صبح کا اجالا جونہی لاہور کی سڑکوں پر پھیلا وہ خلافِ توقع صبح صبح اٹھ کر نیچے آگیا۔ ماہ وین بیگم کچن میں موجود ملازمہ کو کچھ ہدایات دے رہی تھیں جبکہ وہ سیدھا لاونج میں جانے کی بجائے کچن میں ہی آگیا۔
"گڈمارننگ اماں!"
ان کا ماتھا چومتے ہوئے اس نے کہا تو وہ حیرت سے اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔
"ارے کیا بات ہے دمیر صاحب! آج آپ اتنی صبح صبح اٹھ گئے۔ یہ سورج کہاں سے نکلا ہے آج؟"
وہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
"پلیز اماں! اب آپ مجھے یوں طعنے دیں گی؟"
وہ مصنوعی گھوری سے بولا تو ماہ وین بیگم ہلکا سا مسکرائیں۔
"نہیں میں کوئی طعنہ نہیں دے رہی میں تو خوش ہورہی ہوں میرے بچے! کہ تم زندگی کو سنجیدگی سے لے رہے ہو۔"
اس کا بازو تھامے وہ اسے لاونج میں لے آئی تھیں۔
"اماں! آپ سے ایک انتہائی ضروری بات کرنی ہے۔"
وہ اب سنجیدگی سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"ہمم کیا بات ہے؟"
وہ اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوچھ رہی تھیں۔
"کل آبیان بخت آفس آیا تھا بابا کو ملنے۔۔ مگر بابا تھے نہیں تو اتفاقاً میں مل گیا اسے۔"
اس کے جملہ مکمل کرنے کی دیر تھی ماہ وین بیگم کا چہرہ حیرت سے پر تھا۔
"آبیان۔۔زرشاہ کا بیٹا؟"
ان کا جملہ بامشکل ہی مکمل ہوا تھا۔ دمیر نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"جی زرشاہ چچا کا بیٹا لال حویلی کا اکلوتا وارث اور راجن پور دستار کا گدی نشین۔"
وہ لہجے میں محبت سمیٹے کہہ رہا تھا۔ سچ تھا کہ دمیر کو آبیان سے مل کر بہت اچھا لگا تھا۔ آخر کو خون کی کشش تو ہوتی ہی ہے۔ دمیر اور آبیان کی رگوں میں ایک ہی خون دوڑ رہا تھا۔اس لیے انہیں ایک دوسرے سے مل کر عجیب سی اپنائیت کا احساس ہوا تھا۔
"کیا کہہ رہا تھا وہ؟"
ماہ وین بیگم کے لہجے کی بے چینی قابلِ دید تھی۔
"وہ چاہتا کہ بابا جان لال حویلی جاکر بی بی سرکار سے ملیں اور اپنی جو بھی کدورتیں ہیں انہیں سلجھا لیں۔"
اس نے ٹھہر ٹھہر کر اپنا جملہ مکمل کیا تھا۔
"یہ ناممکن ہے تمہارے بابا تو لال حویلی کا ذکر بھی پسند نہیں کرتے۔"
انہوں نے جیسے ناامید ہوتے ہوئے کہا تو دمیر نے گہرا سانس بھرا۔
"جانتا ہوں اماں مگر آخر کب تک بابا کی انا ہمیں ہمارے خون اور رشتوں سے دور رکھے گی۔ سالوں بیت گئے ہمیں اپنے اصل سے بچھڑے ہوئے اس الگ شہر میں الگ تھلگ رہتے ہوئے اب تو میں بھی چاہتا ہوں کہ جو بھی رنجشیں اور کدورتیں ہیں وہ سب دور ہوجائیں تاکہ ہم پھر سے اپنے اصل سے جڑ جائیں۔ میں بابا سے اپنے طریقے سے بات کرؤں گا پھر دیکھتے کیا ہوتا۔"
وہ پُرسوچ دکھائی دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ماہ وین بیگم نے آج بہت عرصے بعد اپنے بیٹے میں واضح تبدیلی محسوس کی تھی۔ وہ بالکل الگ دکھ رہا تھا۔ ہمشہ والے دمیر سے الگ رشتوں کی حساسیت لیئے خاندان کو جوڑنے کے پیچھے سرگرم۔ انہوں نے اس کے مکمل سدھرنے کی دل سے دعا مانگی تھی۔
"ناشتہ کروائیں اماں پھر مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے اس کے بعد ہی آفس جاؤں گا۔"
کہہ کر وہ فریش ہونے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ ماہ وین بیگم نے تب تک اس کی پشت دیکھی جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔

***********************
وہ صبح بستر سے اٹھی تو سستی سے فریش ہوکر باہر آگئی۔ آج اسے اٹھنے میں دیر ہوئی تھی۔ وہ باہر آئی تو ماہ جبین جھاڑ پونچھ کرتی ہوئی نظر آئی۔
"سلام بی بی! خیریت آج آپ بہت دیر تک سوتی رہی؟"
کپڑے کو شیشے کی میز پر مارتے اس نے پوچھا تو باہمین نے صوفے پر بیٹھتے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا۔
"ہاں بس رات آنکھ دیر سے لگی تھی۔ صاحب تو نہیں آئے دوبارہ؟"
ٹی وی چلاتے اس نے پوچھا تو ماہ جبین نے قدرے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
"نہیں آئے جی۔"
اس نے یک لفظی جواب دیا اور کارپیٹ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
"ناشتہ بناؤں آپ کے لیے؟"
ماہ جبین نے باورچی خانے کی جانب کہتے ہوئے کہا تو باہمین نے سرسری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔
"نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا بس مجھے جوس کا ایک گلاس دے دو اور جاؤ تم اپنے کام کرؤ۔"
اسے کہہ کر اس نے نگاہیں ٹی وی سکرین کی جانب جمائیں۔ ٹی وی پر کچھ بھی خاص نہ دیکھ کر اس نے بیزاری سے ٹی وی بند کیا اور اٹھ کر ایک بار پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ کچھ دیر میں باہر نکلی تو ہاتھ میں وہی سرخ جیلد والی ڈائیری تھی۔
اس نے ڈائیری کھول کر اپنا مطلوبہ صفحہ کھولا اور انتہائی دلچسپی سے آگے پڑھنا شروع کیا۔

رات تقریباً فجر سے کچھ وقت پہلے وہ دونوں واپس لوٹی تھیں۔دلوں میں اطمینان تو تھا ہی مگر زندگی میں بے چینی کی عجیب لہریں ابھری تھیں۔
دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر اپنی اپنی چارپائیوں پر لیٹتے دونوں کے دلوں میں لاتعداد گرہیں موجود تھیں۔ صبح معمول کے مطابق ہوئی۔ وہی باپو کی چائے،بے بے کا ناشتہ،ارمیندر کی فرمائشیں ایسے میں سارے کام نمٹا کر وہ شام کو فارغ ہوئیں تو چھت پر آگئیں۔ ساتھ والی چھت پر ان کی اکلوتی سہیلی بیٹھی انہی کا انتظار کررہی تھی۔ اپنے آگے چارپائی پر جامنوں والی ٹوکری رکھے وہ بے چین دکھائی دے رہی تھی۔
"کب سے انتظار کررہی ہوں۔اب تو یہ جامن بھی اپنے آپ کو بوسیدہ محسوس کررہے ہونگے مگر تم لوگوں کے ہیں کہ کام ہی ختم نہیں ہورہے تھے۔"
وہ غصے سے اٹھ کر ان کی جانب آئی تھی۔
"اچھا معافی دے بہن بے بے کے ساتھ کپڑے دھلوا رہے تھے۔"
جسنیت نے منہ بنا کر کہا تو آصمہ ہنس پڑی۔
"ایک تو تم لوگوں کی بے بے قسمیں کولہوں کے بیل کی طرح کام کراتی ہیں۔"
وہ اچھا خاصا مذاق بناتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"چل بس کر تو ہماری بے بے کی شان میں اتنے حسین قصیدے مت پڑھ انہیں تو آگے ہی تجھ سے ہماری دوستی پسند نہیں ہے اوپر سے تو اتنا گلا پھاڑ پھاڑ کر ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہی ہے۔"
اب کی بار امرت نے اسے آئینہ دکھانا لازم سمجھا تھا۔
"سن آصمہ! تجھ سے ایک کام تھا۔"
جسنیت ٹوکری میں سے ایک جامن اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے بولی تو آصمہ نے بھی سنجیدہ ہوتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے بھنویں چڑھائیں۔
"وہ۔۔اصل میں مجھے نا تم لوگوں کی دینی کتاب چاہئیے جس میں اُردو ترجمہ بھی ہو تاکہ میں سمجھ سکوں اسے۔"
وہ جھجھک کر بولی تو امرت نے چونک کر اس کی جانب دیکھا مگر وہ خاموش رہی گزشتہ روز قاری صاحب کی باتیں ابھی بھی کہیں اس کے دماغ میں گردش کررہی تھیں۔
"پر قرآن سے تیرا کیا کام ہے جسی!"
آصمہ نے حیرت سے کہا تو جسنیت نے نگاہیں پھیر کر بامشکل خود کو اس کے سوال کے جواب کے لیے تیار کیا۔
"بس کچھ الجھنیں ہیں زندگی کی جو صرف تم لوگوں کی کتاب ہی سلجھا سکتی ہے ایسا مجھے کسی نے کہا تھا۔ خیر تو زیادہ سوال مت کر اور لا کر دے مجھے۔"
وہ فوری سے بیشتر اپنی بار سمیٹ کر سنجیدہ ہوئی تھی۔ چہرے پر جھنجھلاہٹ واضح محسوس کی جاسکتی تھی۔
"اچھا دیتی ہوں مگر پہلے جاکر ہاتھ دھو کر آ گندے ہاتھوں سے تو اس کتاب کو چھوئے گی تو گناہ ملے گا۔"
وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھتے ہوئے گویا ہوئی تو جسنیت نے امرت کی جانب دیکھا۔
"ظاہر ہے کوئی بھی مقدس کتاب گندے ہاتھوں سے نہیں چھو سکتے۔"
امرت نے کندھے اچکا کر گویا اسے حوصلہ دیا تھا۔
اس کی بات سن کر وہ چھت پر ایک جانب کو لگے نلکے کی جانب بڑھی تھی اور آرام سے ہاتھ دھوئے تھے تب تک آصمہ ہلکے نیلے غلاف میں لپٹی وہ کتاب اوپر لاچکی تھی۔
"یہ لے دھیان سے رکھنا اور کل مجھے واپس کردینا۔ اماں کو پتہ چل گیا تو بہت غصہ کریں گی۔"
اس نے کتاب دیتے ساتھ ساتھ تنبیہہ بھی کی تھی جسے جسنیت نے بڑے تحمل اور غور سے سنا تھا۔
"ہاں دے دوں گی۔"
کہتے ہوئے وہ چھت کے آخر میں بنے سٹور میں گئی اور اسے احتیاط سے ایک پیٹی پر رکھ دیا۔ کافی دیر آصمہ سے گپ شپ کے بعد وہ باپو کے آتے ہی نیچے آگئیں۔ ان کی بے بے تب تک اینٹوں کے درمیان لکڑی کا چولہا جلا چکی تھی۔
"چیھتی نال روٹی پادو تاڈے باپو نوں پھوک لگی اے(جلدی سے روٹی ڈال دو تمہارے ابا کو بھوک لگی ہے)"
ان کی بے بے جو شروع ہوئیں تو دونوں بہنوں نے تیزی سے ہاتھ چلانے شروع کئیے۔ اب انہیں ایک بار پھر سے رات کا انتظار تھا۔

*************************
وہ ایک بار پھر سے اسی جگہ پر کھڑا تھا جہاں سے خود آگاہی کا سفر شروع ہوا تھا مگر آج وہ بھری محفل میں نہیں بیٹھنے والا تھا آج وہ استاد کو خصوصی طور پر تنہا ملنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ یہاں اس وقت موجود ہونگے بھی یا نہیں مگر خود کے اندر چلتی ہوئی جنگ کو جیتنے کے لیے اسے آج یہاں آنا ہی تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے اندر کوئی سرد سی جنگ چل رہی ہو جس سے دھیرے دھیرے وہ ہار رہا ہو۔ اب کی بار اس نے جوتے پہن کر جانے والی غلطی نہیں کی تھی۔وہ جوتے اتار کر ننگے پاؤں اندر کی حانب بڑھا تھا۔ وہی پہلے والا راستہ اسے ازبر تھا۔ ایک بھی نقش اس کے ذہن کی سکرین سے مٹا نہیں تھا۔ تقریباً پانچ منٹ میں وہ اسلامک سینٹر کے صحن میں تھا۔ آج صحن خالی تھا۔شاید وہ صبح بھرا ہوتا تھا۔اس وقت دن کے پونے گیارہ ہورہے تھے۔ اس نے ہلکی ہلکی دھوپ میں نگاہیں صحن کے اطراف میں دوڑائی تھیں۔ وہ جیسے یہاں آکر سب کچھ بھول گیا تھا۔ وہ کون تھا،اس کی ذات گناہوں کے کس درجے سے منسلک تھی،اس کا کوئی رہبر،کوئی رہنما تھا بھی یا سب یونہی سیدھ میں چلتا جارہا تھا۔
ذہن میں چلتی ساری سوچیں آپس میں گڈمڈ ہوگئی تھیں۔
"مجھے معلوم تھا تم یہاں دوبارہ ضرور آؤ گئے۔"
اس کے کندھے پر دباؤ بڑھا تو وہ چونک کر پیچھے کو مُڑا۔ وہی سفید کلف زدہ شلوار قمیض،وہی سفید بے داغ جالی دار ٹوپی اور وہی چہرے پر رقصاں پُرسکون مسکراہٹ۔
"تم۔۔تم ہی ہمشہ کیوں مل جاتے ہو مجھے؟"
انگلیوں کی پوروں سے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے وہ ناسمجھی اور الجھن سے گویا ہوا تو مقابل جاندار انداز میں مسکرایا۔
"معلوم نہیں تم مجھے ہر بار دکھائی دیتے ہو اور میں کسی مکھنا تیس کی طرح تمہاری جانب کھنچا چلا آتا ہوں۔ نجانے کیوں مگر میں گزشتہ ایک ہفتے سے تمہارا انتظار کررہا تھا کہ کبھی تو تمہارے سوال تمہیں ستائیں گئے اور کبھی تو تم ان کے جوابات کی تلاش میں نکلو گئے۔"
وہ نرم اور پُرسوچ مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہہ رہا تھا۔
"تمہارے استاد ہیں۔۔کیا؟"
دمیر نے جھجھکتے ہوئے پوچھا تو وہ ایک بار پھر سر جھٹک کر مسکرایا۔
"یہ تم بار بار میری باتوں پر مسکراؤ مت یوں محسوس ہورہا جیسے تم میری بے عزتی کررہے ہو۔"
دمیر نے چہرے کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا تو سامنے کھڑا انسان ایک بار پھر مسکرایا۔
"تم نہیں سمجھو گے۔ وہ سامنے درخت کے سائے میں بیٹھے تسبح کررہے ہیں مل لو۔"
اس کا کندھا تھپکتے ہوئے وہ آگے کو بڑھ گیا جبکہ دمیر نے ایک نظر درخت کے سائے میں بیٹھے اس درمیانی سے ذرا بڑی عمر کے مرد کو دیکھا اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کی جانب بڑھ گیا۔ جو ہلکے سفید کاٹن کے بے داغ شلوار سوٹ میں ملبوس سر پر پگڑی پہنے آنکھیں بند کیے مسلسل کچھ پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کے نزدیک پہنچ کر وہ خاموشی سے بغیر کچھ کہے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
"اوہوں۔۔۔گناہوں کی بدبو آرہی ہے لڑکے تم زانی ہو نا؟"
انہوں نے آنکھیں کھول کر اس کے چہرے کی جانب دیکھا تو دمیر نے حیرت سے چونک کر سر اٹھایا۔ ذلت کا ایک گہرا جھونکا اس کے وجود میں سرایت کیا تھا۔
"جہ۔۔جی!"
اس نے ہکلا کر پوچھا تو وہ ایک پل میں معدوم سا مسکرائے۔
"زانی تو ہو مگر اب تھک گئے ہو راہِ فرار کی تلاش میں ہو مگر تمہارا نفس تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔"
تسبح کے دانے گرانے میں یک لخت ہی تیزی آئی تھی۔
"بے چین ہوں بس۔۔۔ نیند میری آنکھوں سے روٹھ چکی ہے۔۔ احساسِ جرم بڑھ رہا ہے وہ الفاظ۔۔۔ میرے کان کے پردے پھاڑتے ہیں مگر۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرپاتا،کچھ بھی نہیں۔۔"
وہ شدید بے بسی سے کہہ رہا تھا۔
"کیسے الفاظ؟"
انہوں نے غور سے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"جب تم اپنے بیس کڑور وصول کرلو تو میرا گلا دبا کر مجھے مار دینا کیونکہ میں بہت خودغرض اور ڈرپھوک ہوں خودکشی نہیں کرسکتی۔ یہ میری ماں کا سب سے ناپسندیدہ عمل تھا۔"
وہ نگاہیں جھکائے انتہائی دھیرے سے کہہ رہا تھا۔
"اس کے پاس جانے کو کتنی بار دل کرتا؟"
تسبح ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کرتے انہوں نے پوچھا تو اس نے آنکھوں کو بند کرکے کھولا۔
"ہر وقت،ہر لمحہ وہ۔۔مجھے کسی نشے کی طرح لگ چکی ہے۔۔ ہر بار قریب جاکر زیادہ سُرور دیتی ہے۔"
اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو اپنے بالوں میں پھنسا کر اس نے کہا تو انہوں نے گہرا سانس بھرا۔
"آخری بار اس کے بہت قریب کب گئے تھے؟"
ایک بار پھر سے انہوں نے اس کی ذات کو ٹٹولا تھا۔
"ایک ہفتے پہلے کوشش کی تھی وہ بہت نزدیک تھی،مگر میں اس کے نزدیک نہیں جا پایا کچھ تھا جو میری راہ میں حائل ہوگیا اور میں گہرے ضبط اور گہری تکلیف سے گزرا میرا جسم وہ نشہ مجھ سے طلب کررہا تھا مگر نجانے کیوں میں اسے دے نہیں پایا۔"
آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ دونوں ہاتھ بالوں میں پھنسے ہوئے تھے۔
"تم لوامہ کے مقام کی طرف بڑھ رہے ہو مگر تمہارا ضمیر تمہیں اجازت نہیں دینا چاہتا لڑو خود سے اور کوشش کرو اس حرام نشے کو حلال کرلو۔"
اس کے ہاتھوں سے اس کے بالوں کو آزاد کرتے انہوں نے کہا تو دمیر نے آنکھیں کھول کر ان کی جانب دیکھا۔
"حلال۔۔ کیسے؟"
سوال اچانک اور بے ساختہ آیا تھا۔
"نشے سے نکاح کرلو اللہ رسول کی گواہی میں اسے حلال کرلو جب وہ تم پر حلال ہوجائے گی تو گناہ کا ارتکاز اور تمہارا جبر ختم ہوجائے گا۔"
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے انہوں نے کہا تو دمیر نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں ہوسکتا یہ۔۔ وہ کبھی نہیں کرئے گی پہلی بار وہ میرے پیروں میں گڑگڑائی تھی بھیک مانگی تھی اس نے مگر میں نے حلال چھوڑ کر حرام کو اپنایا۔ اب وہ حرام کی عادی ہوگئی ہے چاہے مجبوراً ہی سہی مگر وہ حلال قبول نہیں کرئے گی میری ذات سے جُڑے حلال کو تو کبھی نہیں۔"
وہ دھیرے دھیرے پیچھے کو ہوا تھا۔
"پھر خود کو مار دو مگر تمہاری بے چینی اسی صورت کم ہوگی جب تمہاری ذات سے اسے تکلیف کم ملے گی۔ یہ یاد رکھو لوامہ کی حدود میں داخل ہونا آسان نہیں ہے تم قریب آؤ گے تو جلنے کا خطرہ بھی ہوگا اس جلن اور آگ سے بچ کر کیسے نکلنا ہے سوچ لو۔۔ یہ سارا کھیل محض اپنی ذات تک ہی محدود رہتا ہر وار سے خود ہی لڑنا پڑتا۔ اب جاؤ تمہارا امتحان شروع ہوچکا اگر کامیاب ٹھہرے تو لوامہ کی حدود میں داخل ہوکر ملھمہ تک جاؤ گئے اور پھر مطمئنہ تک کا راستہ ہوگا مگر یہ تب ہی ہوگا جب تم یہاں کامیاب ہوگے۔ نفس سے لڑو بے شک نفس ہی انسان کو گناہوں کی دلدل میں دھکیلتا اور گناہ آپ کو اس وقت تک گناہ نہیں لگتا جب تک آپ گناہ کو گناہ سمجھو نہ۔"
وہ کہتے ہوئے درخت کے سائے سے اٹھ کر اندر مسجد کی جانب بڑھ گئے جبکہ کچھ دیر وہی بیٹھنے کے بعد وہ دھیرے اور شکستہ قدموں سے واپسی کے لیے مڑ گیا۔
ایک راہ سجھائی دی تھی منہ زور نفس کی لگامیں کَس کر انہیں راہِ راست پر لانے کی مگر وہ کمزور تھا بے تحاشہ کمزور اور الجھا ہوا مرد جس کا اپنے وجود کی خواہشات پر اختیار نہیں تھا۔
وہ آفس کی جانب بڑھ گیا مگر یہ سچ تھا کہ لفظ زانی اس کے ذہن پر چپک کر رہ گیا تھا۔

---------------------------------------
سیاہ اوڈی کے رکنے اور پھر آبیان کے قریب آنے پر ان دونوں کے حلق خشک ہوچکے تھے۔ درناب کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے حلق میں کانٹے اُگ آئے ہوں۔ وہ خاموشی سے ان دونوں کے قریب رکا تھا۔
"بھا صاحب! وہ۔۔"
درناب کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ آبیان نے اس کی کلائی پکڑی اور تقریباً بنا کچھ کہے گھسیٹتے ہوئے گاڑی کی جانب لے آیا۔ وہ اس کے پیچھے یوں گھسیٹی چلی آرہی تھی جیسے کوئی روبوٹ ہو۔ وہ سدیس پکار رہی تھی۔ آبیان سے چھوڑنے کی منتیں کررہی تھی مگر وہ بنا کوئی جواب دیے اسے لیے گاڑی میں بیٹھا اور راحت علی کو گاڑی سٹارٹ کرکے حویلی کی جانب لیجانے کو کہا۔ تقریباً دس منٹ میں وہ حویلی میں تھے۔ گاڑی سے اتر کر اس نے درناب کی جانب کا دروازہ کھولا اور اسے ہاتھ پکاڑ کر نیچے اتار کر گزشتہ طریقے سے ہی صدر دروازے سے اندر کی جانب بڑھا۔ ہال کمرے میں سب موجود تھے۔ اسے آبیان کے پیچھے اندر آتا دیکھ کر سب سے پہلے ممتہیم بیگم اس کی جانب بڑھی تھیں۔ زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر لگانے کے لیے انہوں نے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ آبیان نے فضا میں ہی ان کا ہاتھ تھام لیا۔
"آپ کو کچھ خیال نہیں آیا لال حویلی کی عزت مٹی میں ملا آئیں ہیں آپ؟"
اس کے نزدیک جاکر بی بی سرکار بولیں تو اس نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے بی بی سرکار کے چہرے کی جانب دیکھا۔ دوسری نظر نگاہیں جھکا کر بیٹھے اس نے اپنے باپ اور تایا پر ڈالی تھی۔
"راحت علی!"
سرد لہجے میں اس نے ہال کمرے کے باہر کھڑے راحت علی کو پکارا تھا۔ جو فوری سے بیشتر بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا تھا۔
"سدیس کو پیغام بھیجواؤ کہ آکر ہم سے ملے۔"
کہہ کر وہ ہال کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ مہالہ درناب کو لیئے اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بے تحاشہ رو رہی تھی مگر مہالہ خاموش تماشائی کی طرح اس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
"یہ کیا کردیا تم نے درناب! تم نے۔۔۔اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔ تم کیسے بھول گئی کہ تم کیا ہو۔۔تمہارا خاندان اور نسب کیا ہے۔ تم کس گھرانے سے تعلق رکھتی ہو۔۔ سارے بخت خاندان کو تم نے مٹی میں روندھ ڈالا درناب! کیا تم نے سوچا شاہ حویلی میں جب یہ خبر جائے گی تو کیا ہوگا؟"
اسے کندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے مہالہ نے کہا جو سن ساکن بیٹھی ہوئی تھی۔ آنسوؤں بھری نگاہوں سے درناب نے مہالہ کے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔
"میں کچھ نہیں جانتی افروز جان! بس مجھے لگا کہ میں نے اگر اب کوئی قدم نہ اٹھایا تو میں مر جاؤں گی۔
مردہ آواز میں کہتے اس نے چہرہ ہاتھوں میں چھپایا تھا۔
"اٹھا لیا نا قدم تم نے؟ سکون ہوگیا ہے اب تمہیں اب انجام بھگتنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔۔ غیر رشتے اگر چھوٹ بھی جائیں نا درناب تو اتنی تکلیف نہیں دیتے جتنی اپنے خونی رشتے دسترس میں ہوتے ہوئے دور رہ کر دیتے ہیں۔اگر تم یہ بات سمجھ لیتی نا تو آج تمہارے ماتھے پر یہ بدنامی کا ٹیگ لگنے کا خطرہ نہ ہوتا۔"
اسے تنہا سوچتے چھوڑ کر وہ سامنے اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی جس کا دروازہ نیم وا تھا۔ کمرہ مکمل طور پر خالی تھا مگر اس سے ملحقہ لائبریری کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا۔ وہ دروازہ آہستگی سے کھول کر لائیبریری میں داخل ہوئی سامنے وہ آنکھیں موندے ایزی چئیر سے پشت ٹکائے بیٹھا ہوا تھا۔ مہالہ خاموشی سے دھیرے دھیرے ہلتی چئیر کے قریب نیچے فرش پر پیروں کے بل بیٹھ گئی۔ قرہب ہی آبیان کے پاؤں تھے۔ اس نے ایک ہاتھ آبیان کے گھٹنے پر رکھا تھا۔ چئیر کے ہلنے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
"بخت سرکار!"
انتہائی دھیرے سے اسے پکارا تو آبیان نے ہلکی سی آنکھیں نیم وا کی۔
"ہممم۔۔۔۔"
آنکھیں دوبارہ بند کرتے اس نے فقط اتنا کہا تھا۔
"پریشان ہیں نا آپ؟ تکلیف ہورہی ہے کیا؟"
اس کے گھٹنے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے وہ انتہائی نرمی سے کہہ رہی تھی۔ آبیان کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر مہالہ کے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا۔
"ہم اپنی ذات کا کوئی ٹکرا نہیں بچا پائے مہالہ! سب دھیرے دھیرے بکھر گیا۔"
آنکھوں کو ذرا سا کھول کر اس نے کہا تو مہالہ کے وجود میں گہری اذیت کا احساس اجاگر ہوا۔
"آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آپ تو بہت اچھے ہیں سب کو جوڑ کر رکھنے والے۔"
مہالہ نے اس کے گھٹنوں پر اپنا سر ٹکاتے ہوئے کہا تو آبیان نے گہرا سانس بھرا۔
"کبھی کبھی ہم مسلسل چیزوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں مگر اردگرد سے آتی تیز ہوا ہماری اکھٹی کی ہوئی چیزوں کو اپنے سنگ اُڑا اُڑا کرلے جاتی ہے اور ہم محض فضا میں انہیں بس اپنی دسترس سے دور جاتا ہوا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔"
اس کے سر کے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے آبیان نے کہا تو مہالہ دھیرے سے آنکھیں موند گئی۔
"آج احساس ہوا ہے کہ عزت جانے کا خوف کیا ہوتا ہے۔۔۔ ہم نے اپنے نسب کی خاطر ایک عام عورت کو ٹھکرا دیا تھا دیکھیے مہالہ! آج ہماری بہن نے ایک عام مرد کے لیے اپنا نسب ٹکھرا دیا۔ بالکل قدرت نے ٹھیک ویسا ہی پماچہ ہمارے چہرے کی زینت بنایا ہے جیسا تماچہ ہم نے باہمین "پریشان ہیں نا آپ؟ تکلیف ہورہی ہے کیا؟"
اس کے گھٹنے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے وہ انتہائی نرمی سے کہہ رہی تھی۔ آبیان کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر مہالہ کے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا۔
"ہم اپنی ذات کا کوئی ٹکرا نہیں بچا پائے مہالہ! سب دھیرے دھیرے بکھر گیا۔"
آنکھوں کو ذرا سا کھول کر اس نے کہا تو مہالہ کے وجود میں گہری اذیت کا احساس اجاگر ہوا۔
"آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں آپ تو بہت اچھے ہیں سب کو جوڑ کر رکھنے والے۔"
مہالہ نے اس کے گھٹنوں پر اپنا سر ٹکاتے ہوئے کہا تو آبیان نے گہرا سانس بھرا۔
"کبھی کبھی ہم مسلسل چیزوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں مگر اردگرد سے آتی تیز ہوا ہماری اکھٹی کی ہوئی چیزوں کو اپنے سنگ اُڑا اُڑا کرلے جاتی ہے اور ہم محض فضا میں انہیں بس اپنی دسترس سے دور جاتا ہوا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔"
اس کے سر کے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے آبیان نے کہا تو مہالہ دھیرے سے آنکھیں موند گئی۔
"آج احساس ہوا ہے کہ عزت جانے کا خوف کیا ہوتا ہے۔۔۔ ہم نے اپنے نسب کی خاطر ایک عام عورت کو ٹھکرا دیا تھا دیکھیے مہالہ! آج ہماری بہن نے ایک عام مرد کے لیے اپنا نسب ٹھکرا دیا۔ بالکل قدرت نے ٹھیک ویسا ہی طمانچہ ہمارے چہرے کی زینت بنایا ہے جیسا طمانچہ ہم نے باہمین زاہرہ کا مقدر کیا تھا۔"
لہجہ انتہا سے زیادہ شکستہ تھا۔
"سرکار!"
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتا باہر سے راحت علی کی آواز ابھری تھی۔
"سدیس باؤ آگئے ہیں جی۔۔۔"
"آپ جائیے ہمیں سدیس سے کچھ بات کرنی ہے۔"
آبیان نے اسے کہا تو وہ آنکھیں پونچھتی ہوئی لائیبریری سے باہر نکل گئی۔
"راحت علی!اسے اندر بھیج دو۔"
کرسی پر ہنوز بیٹھے اس نے کہا تو کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک دے کر سدیس اندر داخل ہوا۔آبیان نے خاموشی سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔ پریشان چہرہ،سرخ آنکھیں رات بھر نہ سونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔
"سرکار!"
وہ بولنا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے ہی آبیان نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کرکے اسے بولنے سے روک دیا تھا۔
"ہم سرکار نہیں آج تمہارے دوست بن کر تم سے مل رہے ہیں اور دوست سے زیادہ شاید ایک محبور بھائی بن کر۔ وہ مجبور بھائی جس کے کندھے بدنامی کے خوف سے جھکے ہوئے ہیں۔ تمہیں ہمارے جُڑے ہوئے ہاتھوں کا واسطہ ہماری بہن سے نکاح کرلو۔"
اپنی کرسی سے اٹھ کر وہ ہاتھ جوڑے سدیس کے سامنے کھڑا تھا۔ جو تڑپ کر اس کی جانب بڑھا تھا۔
"نہ سرکار! یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ میں کیا اور میری اوقات کیا۔۔۔ درناب بی بی میرے لیے بہت محترم ہستی ہیں۔۔ لال حویلی کی عزت ہیں۔۔پیر زادی ہیں میں تو ایک عام سا مزارعہ ہوں۔ میں کیسے ان سے۔۔۔"
جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ آبیان کی جانب بڑھا تھا۔
" ہم کچھ نہیں جانتے سدیس! تمہیں یہ کرنا ہی ہوگا ورنہ بدنامی کا ایک ایسا بد نما داغ لال حویلی کے ماتھے پر لگ جائے گا کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس داغ کو نہیں دھو پائیں گی۔"
شکستہ لہجے میں بولتا آج وہ مکمل طور پر ہار چکا تھا۔سب کچھ ہار گیا تھا وہ۔ ساری عزت،وقار،غرور۔"
سدیس نے اس کے جُڑے ہوئے ہاتھ تھامے تھے اور ان پر تھپکی دی تھی۔
"راحت علی! نکاح کے انتظامات کرواؤ۔"
قریب ہی دروازے میں کھڑے راحت علی کو بول کر وہ نیچے ہال کمرے کی جانب بڑھا تھا جہاں پوری حویلی کے مکین یوں بیٹھے ہوئے تھے جیسے سن کر سانپ سونگھ گیا ہو۔
"تیاری کیجئے ظہر کی نماز کے بعد درناب اور سدیس کا نکاح ہے۔"
اس کے جملے نے سب کو چونکا دیا تھا۔سب نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا جو بے نیاز بنا اپنی بات کہہ گیا تھا۔
"آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟"
سب سے پہلے ہوش بی بی سرکار کو آیا تھا۔
وہ بے یقینی سے اس کی جانب بڑھی تھیں۔
"آپ پاگل ہوچکے ہیں لال حویلی کی پیرزادی کسی مزارعے کے گھر جائے گی اب۔"
وہ آنکھیں پھیلائے حیرت و بے یقینی سے کہہ رہی تھیں۔
"ہم نے اپنی مرضی سے دستار نہیں لی تھی بی بی سرکار! وہ آپ ہی تھیں جنہوں نے ہمیں اس منصب پر بٹھایا تھا۔ لال حویلی کے فیصلوں کا اختیار دیا تھا نا آپ نے ہمیں تو پھر آج ہم لال حویلی کے گدی نشین کی حیثیت سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ درناب کا نکاح سدیس ملک کے ساتھ آج ہی ہوگا چاہے کچھ بھی ہوجائے کوئی بھی روایت ٹوٹ جائے۔ بدنامی کا دھبہ لال حویلی کے ماتھے پر سجانے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ ہم عزت کے ساتھ انہیں یہاں سے رخصت کردیں۔ تیاری کریں آپ سب۔"
ہاتھ میں پکڑی ہوئی اپنی دستار کو سر پر سجا کر وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔ ظہر کے وقت وہ اپنے کمرے میں کسی بے جان گڑیا کی طرح پڑی ہوئی تھی جب مہالہ اندر داخل ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک سرخ دوپٹہ تھا۔
"بہت ارمان تھا مجھے کہ تمہیں دلہن کی طرح سجتا ہوا دیکھوں گی درناب مگر تم نے وہ نوبت ہی نہیں آنے دی خیر یہ دوپٹہ اوڑھ لو مولوی صاحب نکاح کے لیے اندر آرہے ہیں۔"
مہالہ نے اس کے بے جان وجود پر سرخ دوپٹہ اوڑھا تھا اور باہر کی جانب بڑھنے لگی تھی جب درناب نے اس کی کلائی تھام کر اسے روکا تھا۔
"کیا میرے حصے میں کوئی معافی نہیں ہے افروز جان!"
اس کا ہاتھ تھامے وہ بکھرے ہوئے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
"میں نہیں جانتی درناب! بس دعا کرتی ہوں کہ تمہارے لیے معافی کی کوئی صورت نکل آئے۔"
اس کا سر تھپکتے ہوئے وہ باہر کی جانب بڑھ گئی جبکہ لاتعداد آنسو اس کے رخساروں پر بہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں وہ درناب بخت سے درناب سدیس ملک بنا دی گئی تھی۔ اسے کوئی خوشی کیوں نہیں ہورہی تھی،اس نے تو اپنے لیے خود یہ راہ منتخب کی تھی مگر اب جب اس کی جیت ہوچکی تھی تو یہ جیت اسے دلی مسرت کیوں نہیں دے رہی تھی۔کیوں دل بوجھل تھا۔
"چلو درناب! رخصتی کے لیے بُلا رہے ہیں۔"
مہالہ نے اسے کہا تو اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔مہالہ نے اسے اٹھایا تو وہ بے جان وجود کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی۔ ہال کمرے میں لال حویلی کے سب ہی مکین موجود تھے۔ ایک صوفے پر سدیس اور اس کا باپ براجمان تھے۔ سدیس کے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک سنجیدہ تھے۔ درناب کو آتا دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔
اس کا باپ ہال کمرے سے باہر نکلا تو سدیس بھی ان کے پیچھے ہی ہال کمرے کے باہر کھڑا ہوگیا۔ وہ ہال کمرے میں کھڑی اپنے سب رشتوں کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
"میں ماں ہوں اس لیے منہ نہیں موڑ سکتی اللہ آپ کو خوش رکھے۔"
اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ماتھا چومتے ممتہیم بیگم نے کہا تو درناب کی اذیت ناک سسکی برآمد ہوئی۔
"تمہاری خوشیوں کے لیے ہمشہ دعا گو ہوں اللہ تمہیں سارے جہان کی خوشیاں دے۔"
مہالہ اس کے گلے لگی تھی۔ دونوں کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
"اللہ آپ کے نصیب خوبصورت کرئے بیٹا!"
اس کا کندھا تھپکتے بارینہ بیگم نے کہا تھا باقی کوئی نفس بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔آبیان سفید دستار پہنے ساکن و جامن اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ نے ساختہ درناب آبیان کی جانب بڑھی تھی۔ مگر آبیان نے فضا میں ہی ہاتھ بلند کرکے اسے اپنے نزدیک آنے سے روکا تھا۔
"سدیس! یہ تمہارے حوالے ہیں۔ ان کا لال حویلی سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیجائیں انہیں یہاں سے۔"
یہ آبیان کی سرد آواز تھی جس نے درناب کو پتھر کردیا تھا۔ اس نے آنکھیں کرب سے میچی تھیں۔ سدیس نے واپس آکر درناب کا ہاتھ تھاما اور دونوں دیکھتے ہی دیکھتے لمحوں میں لال حویلی سے غائب ہوگئے۔ ابھی انہیں گئے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ سیاہ گاڑی لال حویلی میں داخل ہوئی۔وہ سیاہ گاڑی ہر کسی کے دل پر اس لمحے کسی کاری ضرب کی طرح لگی تھی۔ بی بی سرکار نے اپنا سر تھاما تھا کیونکہ اب ہونے والی رسوائی کو کوئی نہیں روک سکتا تھا۔

*********************
اگلی صبح وہ راجن پور سے واپس لاہور آگیا۔ یونیورسٹی میں اپنی کلاس لینے کے بعد اس نے ریحا کو فون ملایا تھا۔
"ہاں براق بولو!"
دوسری جانب سے ریحا کی مصروف آواز ابھری تھی۔
"کہاں ہو تم؟"
براق نے کیفے کی جانب جاتے ہوئے کہا تو ریحا نے گہرا سانس بھرا۔
"اس وقت کہاں ہوسکتی ہوں سوائے یونیورسٹی ہونے کے۔"
وہ خاصی بیزار لگ رہی تھی۔۔
"کیفے آجاؤ تمہارا انتظار کررہا ہوں۔"
اسے کہہ کر اس نے فون بند کیا اور وہ بس ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گئی۔ وہ حیران ہوئی تھی کل تک گاؤں میں ہونے والا آج واپس کیسے آگیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ اپنی کتابیں سمیٹ کر کیفے میں موجود تھی۔وہ اندر داخل ہوئی تو اسے ایک کونے والی میز پر وہ بیٹھا نظر آگیا۔ وہ کندھے پر پہنے ہوئے اپنے بیگ کے سٹریپ کو درست کرتی ہوئی میز کی جانب بڑھی تھی۔
"تم واپس بھی آگئے اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں؟"
وہ کتابیں میز پر پٹختی ہوئی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
"بتا دیتا تو تمہارا یہ سڑا ہوا ریکشن مس ہوجاتا نا۔"
مسکراہٹ دبا کر اس نے کہا تو ریحا کا دل کیا اس کے منہ پر ایک زور کی لگائے۔
"خیر بتاؤ کیسی ہو تم؟"
وہ دونوں آج کوئی تقریباً تین ہفتوں بعد مل رہے تھے۔
"تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو تمہارے ہجر میں کوئی مری نہیں جارہی تھی میں۔"
کھلے ہوئے شولڈر کٹ بال جھٹکتے اس نے کہا تو براق دلفریب انداز میں مسکرایا۔
"ہائے ہماری تو حسرت ہی رہ گئی کہ کبھی آپ ہمارے ہجر میں بیتاب ہوجائیں۔"
دل پر ہاتھ رکھے وہ آنکھیں موندے مسکرا کر کہہ رہا تھا۔
"بہت بڑے فلٹ ہو تم۔"
کتاب اس کے کندھے پر مارتے ریحا نے کہا تو وہ ہولے سے مسکرایا۔
"یہ فلٹ ہی واحد وہ انسان ہے جو اس پوری یونیورسٹی میں تمہارا دوست ہے ورنہ تم جیسی خشک انسان کو کوئی منہ بھی لگانا پسند نہ کرئے۔"
اپنے سامنے رکھی بوتل سے گھونٹ بھرتے براق نے کہا تو ریحا نے ایک کتاب اٹھا کر اس کے کندھے پر ماری۔
"شرم کرلو اتنی ہی خشک ہوتی تو تمہارے سامنے یہاں نہ بیٹھی ہوتی۔"
اپنا بیگ کندھے پر لٹکا کر وہ کہتے ہوئے کرسی چھوڑ کر اٹھی تھی۔
"ارے۔۔ یار بیٹھو تو سہی میں تو بس مذاق کررہا تھا۔"
وہ اسے اٹھتے دیکھ کر ایک لمحے میں گڑبڑایا تھا۔
"میری کلاس ہے تمہاری طرح ویلی نہیں ہوں جو ہر وقت کیفے میں بیٹھ کر کھاتی پیتی رہوں۔"
کرسی سائیڈ پر کرتے ہوئے وہ کیفے سے باہر نکل گئی تھی پیچھے بیٹھا براق بس اس کی پشت کو ہی دیکھتا رہ گیا۔
عصر کے وقت وہ دونوں اس سیاہ گیٹ والے مکان کے باہر کھڑے تھے۔ سدیس نے گیٹ کھولا اور درناب کو اندر بڑھنے کا اشارہ کیا۔ وہ اس لمحے ہلکے فیروزی کُرتے کے نیچے سفید پجامہ پہنے ہوئے تھی۔ سر پر سرخ دوپٹہ ابھی تک موجود تھا جو نکاح کے وقت اس کے سر پر تھا۔ وہ اندر داخل ہوئے تو اس کی ماں مسکراتے ہوئے صحن میں آکھڑی ہوئی۔
"بسم اللہ کرجاں! آؤ جی آجاؤ۔۔"
اس کے نزدیک آتے ہوئے انہوں نے درناب کا ماتھا چوما تھا۔
"خوش رہو بی بی!اللہ آپ کا سہاگ سلامت رکھے۔"
اس کی بلائیں لیتے ہوئے سدیس کی اماں کہہ رہی تھیں۔
"ماسی! مجھے بی بی مت بولیں میں آپ کی بیٹی ہوں یوں شرمندہ مت کریں۔"
ان کا ہاتھ تھامتے درناب نے کہا تو وہ اس کے سر پر پیار دیتی اسے اندر لے گئیں۔ پیچھے ہی سدیس اور اس کا باپ بھی اندر آگئے۔ اپنے حساب سے تھوڑی بہت رسمیں کرکے انہوں نے درناب کو سدیس کے کمرے میں پہنچا دیا اور خود عشاہ کی نماز کے لیے چلی گئیں۔ کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔ اس کے استقبال کے لیے کسی بھی قسم کے پھول موجود نہیں تھے۔
"آہ۔۔ میں نے ایسا کب سوچا تھا کہ یوں آناً فانناً کسی کی زندگی کا حصہ بن جاؤں گی۔ سارے ارمان،سارے خواب محض مٹی کا ڈھیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ دو،تین آنسو ٹوٹ کر اس کے رخساروں پر بہے تھے۔ وہ مزید روتی اس سے پہلے ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا وہ اس کے قریب بستر پر بیٹھا تھا۔ کمرے میں درناب کی سسکیاں بدستور گونج رہی تھیں۔
"یہ زندگی آپ کی اپنی منتخب کردہ ہے درناب! پھر اب یہ آنسو کیوں؟"
اس کے قریب بیٹھا وہ اذیت زدہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
"سچ کہہ رہے ہیں آپ یہ زندگی میری اپنی ہی منتخب کردہ ہے مگر یوں اپنوں کی بے اعتنائی برداشت کرنا میرے لیے بہت مشکل ہورہا ہے۔"
اس کے ہاتھوں پر اپنا سر رکھے وہ پوری طرح سے بکھر گئی تھی۔
"یہ سب وقتی ہے درناب! انشاءاللہ دھیرے دھیرے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ کے تمام رشتے وقتی طور پر آپ سے دور ضرور ہوئے ہیں مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا غصہ بھی کم ہوجائے گا پھر آپ ان سے معافی مانگ لیجیئے گا۔"
اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اس نے کہا تو درناب کی سسکیاں تھمی۔
"آپ کبھی مجھے چھوڑیں گئے تو نہیں نا؟"
سر اس کے ہاتھ سے اٹھا کر آنکھوں میں الجھن اور پریشانی لیے اس نے پوچھا تو وہ بے اختیار مسکرایا۔
"مشکل سے ملی ہوئی چیزوں کو کوئی نہیں چھوڑتا اور یوں مشکل سے ملے ہوئے لال حویلی کے چاند کو تو کبھی کوئی بھی نہیں چھوڑ سکتا۔"
اس کی ٹھوڑی اوپر کیے سدیس نے کہا تو وہ جھینپ کر نگاہیں جھکا گئی۔
ان دونوں کی زندگی کی یہ مشکلات شاید وقتی تھیں۔ بالکل ٹھیک کہا جاتا کہ وقت بہترین مرہم ہوتا گزرنے کے ساتھ ساتھ زخموں کی لہریں بھی بھرتا جاتا۔

*********************
وہ ڈائیری کھولے بیٹھی ہوئی تھی۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھی۔ ماحول خاموش اور پُرسکون تھا۔ ایک صفحہ مزید پلٹا اور دھیرے دھیرے پڑھنا شروع کیا۔
حسبِ معمول ہر دن کے بعد رات آتی ہے اس دن بھی آصمہ سے قرآن پاک لینے کے بعد رات آئی تو وہ دونوں چھت کی سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے صحن میں آگئیں۔ اس گھر کے تین نفوس ہنوز سوئے ہوئے تھے۔ دروازہ آہستگی سے کھولتی وہ گلی میں نکل آئیں۔ قرآن پاک جسنیت کے ہاتھ میں تھا۔ قاری صاحب کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ایک بار پھر سے سفید پردے کے پار کھڑی تھیں۔
"قاری صاحب! اجازت ہے؟"
بولنے والی امرت تھی۔ کچھ دیر اندر سے اجازت ملنے کا انتظار کیا اور پھر اجازت ملتے ہی اندر کی جانب بڑھ گئیں۔ قاری صاحب حسبِ توقع جانماز پر بیٹھے ہوئے ملے تھے۔
"آجاؤ میری بچیوں! تمہارا ہی انتظار کررہا تھا میں۔"
انہوں نے جانماز کا کونا موڑا اور رخ ان دونوں کی جانب کیا۔
"قاری صاحب! فطری تجسس سے مجبور ہوکر میں نے یہ کتاب اپنی پڑوسن آصمہ سے لی اور شام میں اسے کھول کر تھوڑا سا پڑھا بھی تھا۔ مجھے سمجھ تو کچھ نہیں آئی مگر اتنا معلوم ہے بلکہ یقین ہے کہ آپ کی اس کتاب میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سارا سچ ہے۔"
وہ بولی تو قاری صاحب بے ساختہ مسکرائے۔
"میری بیٹی! تم اس کو جھوٹ کہہ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کتاب میں لکھی ہوئی تحریر کے سچے ہونے کی گواہی تو دل سے کافر اور مشرک بھی دیتے تھے پھر تم تو نہ کافر ہو اور نہ مشرک بلکہ ایک معصوم دل کی مالک حق اور سچ کی تلاش میں سرگرم ایک بشر ہو جس کے اندر اچھے اور بُرے،صیح اور غلط کی پہچان ہے۔ جو کچھ غلط محسوس کرتا ہے تو سوچتا ہے، یا ناقابلِ فہم دیکھتا ہے تو اس پر تکلیف ہوتی ہے۔ پھر تم کیسے نا اس کے سچے ہونے کا یقین کرتی۔ اس میں انسان اپنا عکس دیکھ سکتا ہے وہ کیا تھا کیا ہے اور مستقبل میں کیا ہوگا اس ایک کتاب میں اس کی ذات کے سارے پوشیدہ پہلو عیاں ہوجاتے ہیں۔ اس کو پڑھنا تو سکھایا جاسکتا ہے مگر سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے اس کو سمجھا تب ہی جاتا ہے جب آپ سمجھنے کے لیے اپنے دل کو راضی کرو۔ ضروری نہیں ہوتا لفظوں کو سمجھنے کے لیے کوئی ذریعہ ہو بعض اوقات لکھے گئے لفظ اپنے وجود میں پورا معنی اور مفہوم رکھتے ہیں۔"
کس قدر میٹھا اور خوبصورت لہجہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہر بات دل کے نہا خانوں میں اتر کر گھر کر گئی ہو۔
"جب نبی صلی علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو جبرئیل علیہ سلام غارِ حرا میں تشریف لائے کہنے لگے اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ آپ پڑھیں۔
"
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ °خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ° اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ° الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ °عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ °"
جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ:
"پڑھ اپنے رب کے حکم سے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ کہ تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اورانسان کو وہ باتیں بتائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔"
نی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جبرئیل! میں پڑھنا نہیں جانتا تو جبرئیل علیہ سلام نے پھر فرمایا:
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ °خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ° اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ° الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ °عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ °
اور پھر آپ نے ان کے پیچھے پیچھے دھیرے دھیرے دہرایا۔ آپ کے دل پر بھاری بوجھ آن پڑا تھا۔ پہلی وحی کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ آپ کی طبعیت ناشاز ہوئی دل بھاری ہوا تو آپ نے اپنی زوجہ محترمہ سے بات کی۔ انہوں نے آپ کو ثابت قدمی کی تلقین کی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ علم کا راستہ ہمشہ کٹھن ہوتا ہے جس چیز کو زندگی میں حاصل کرنے کا عہد کرلیا جائے تو میری بیٹیوں! اس پر سوچا نہیں کرتے صرف اللہ کا نام لے کر قدم دھر دیتے ہیں اور جو راہ اللہ کے نام سے شروع کی جائے اس میں مشکلات نہیں ہوتی آسانیاں انسان کا مقدر بنا دی جاتی ہیں۔ شرط یہ ہوتی ہے کہ اللہ پر سچے دل سے توکل کیا جائے اس کے راستے میں ثابت قدمی سے چلا جائے پھر دیکھو کیسا ازلی سکون تمہارا مقدر بنا دیا جاتا ہے۔"
وہ کہہ کر خاموش ہوئے تھے مگر ان کے لفظوں کی شیرینی دونوں کے اندر تک اتر گئی تھی۔ اسی رات محض قرآن کی وہ آیات سن کر ترجمے کی تاثیر ان کے دلوں میں دین کو جاننے اور نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چلنے ان کے جیسے صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا تھا۔ دونوں بہنوں نے سکھ مت چھوڑ کر مسلمان ہونے کو ترجیح دی تھی۔ محض دین کی خاطر،اپنے دل کی رضا اور سکون کے لیے اپنے پورے خاندان کو پسِ پشت ڈال کر ان دونوں نے سچائی اور نیکی کی راہ چننی تھی۔ قاری صاحب سے کلمہ پڑھنے کے بعد وہ دونوں واپس گھر آئی تھیں وہ جانتی تھیں اب وہ دونوں مزید اپنے خاندان کے ساتھ نہیں رہ سکتیں مگر اتنے بڑے فیصلے کے لیے انہیں کچھ وقت درکار تھا۔ اس رات وہ اپنی زندگی کی سب سے پُرسکون نیند سوئی تھیں۔ دلوں میں ایمان کے نور کو سمو کر اپنے نئے ناموں کے ساتھ "سلسبیل جبین جسنیت کو دیا جانے والا نام تھا جس کے معنی سیدھے راستے کے مسافر کے تھے۔ جبکہ امرت کو انجیل کا نام دیا گیا تھا جو حضرت عیسیٰ پر اتاری جانے والی کارآمد کتاب تھی جس میں ہدایت کے بہت سے ورقے موجود تھے۔
ڈائیری کے صفحے پر آنسوؤں کے سوکھے ہوئے نشانات تھے۔ باہمین نے ڈائیری بند کرکے سینے سے لگائی تھی۔ ایک درد ناک سسکی اس کے ہونٹوں سے برآمد ہوئی تھی۔
"حق کی راہ میں ہدایت کے لیے اتنا کچھ کرنے والی وہ دو لڑکیاں میراج کوٹھی تک کیسے پہنچیں ان کے ساتھ کیا ہوا۔ باہمین میں یہ پڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ فی الحال کے لیے ڈائیری اپنی نگاہوں کے سامنے سے کہیں اوجھل کردینا چاہتی تھی۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ڈائیری اس کی تکلیف کی سب سے بڑی وجہ ہے،اس کے گناہوں پر سب سے بڑا تماچہ ہے۔ اپنے پورے بچپن سے لے کر آج تک وہ صرف اپنی ماں کو ایک بدکردار،گناہوان میں لتھڑی ہوئی عورت سمجھتی رہی تھی مگر حقیقت اس سے کتنی برعکس تھی۔ ڈائیری کے ہر صفحے پر اس کے لفظوں سے اس کی ماں کی زندگی میں پیدا ہونے والی اذیت رقم تھی۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کیونکر شکوہ کرتی۔ جو اس نے کیا تھا وہی تو بھگت رہی تھی وہ۔ سچ کہتے ہیں جو انسان بوتا ہے اس کا بدلہ اسے زندگی میں ہی کاٹنا پڑتا ہے چاہے دانستگی میں یا نادانستہ۔
اذیت زندگی کا حصہ ان لوگوں کے بنتی ہے جو کبھی ناچاہتے ہوئے بھی اذیت اپنا مقدر کرلیتے ہیں۔
ڈائیری بند کرکے اس نے سائیڈ میز کے سب سے نچلے دراز میں رکھی تھی اور وہی بیڈ کراون سے سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی تھی۔ ابھی اسے لیٹے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کوئی دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تو دمیر کو اپنے سامنے عجیب سی حالت میں کھڑے پایا۔ وہ کچھ دیر اس کی جانب دیکھتا رہا پھر دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے نزدیک آگیا۔ ٹھوڑی سے اس کا چہرہ اپنے چہرے کے برابر کیا تو باہمین کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔
"یہ۔۔تم کیا کررہے ہو؟"
اس کے چہرے سے اپنا چہرہ فاصلے پر کرتے ہوئے وہ بولی مگر دمیر ہنوز خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
"اپنی برداشت کو آزما رہا ہوں۔"
چہرہ مزید اس کے نزدیک کرتے دمیر نے کہا تو باہمین نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا۔
"ہونہہ۔۔برداشت تم میں نہیں ہے دمیر بخت! تم تو نفس کے وہ منہ زور غلام ہو جو ایک دن بھونکتے ہوئے کو کھانا نہ دے تو وہ تمہاری ہی جان کا دشمن ہوجائے گا۔"
اس سے دور کھڑے ہوتے ہوئے اس نے کہا تو دمیر کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے زور دار تھپڑ سے اس کا گال سرخ کردیا ہو۔
"دو نا کھانا اپنے نفس کو اس کی تسکین کا سامان۔۔تمہاری خریدی ہوئی رکھیل یہاں چوبیس گھنٹے تمہیں بہلانے کے لیے موجود تو ہے تو آؤ اور آکر بہلا لو اپنے نفس کو پوری کرو اس کی تسکین ٹھنڈی کرلو اس کی بھڑکتی ہوئی آگ۔"
اس نے شانے پر پھیلے ہوئے اپنے دوپٹے کو اتار کر اس کی جانب اچھالا تھا۔ دمیر بس حیرت سے کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا۔
"بزدل تو تم ہو نہیں معلوم ہے مجھے گزشتہ دس ماہ سے اس چار دیواری سے باہر نہیں نکلی ہوں میں پل پل تمہارے دیے گئے زخموں کی اذیت لے کر اپنے وجود میں جی رہی ہوں اور تم میرے نزدیک کھڑے ہوکر مجھے کہہ رہے ہو کہ تم اپنی برداشت آزما رہے ہو۔ واہ دمیر بخت! واہ برداشت کا یہ کونسا پیمانہ ہے جس میں تم نے اپنے نفس کی طلب کو تولا ہے؟"
وہ بول رہی تھی مگر وہ غائب دماغی سے کھڑا بس اس کے ہلتے ہوئے لبوں کو دیکھ رہا تھا۔ نفس مانگ رہا تھا اور وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا۔۔
"تمہیں نہیں معلوم مگر درد کو الٹا لکھو یا سیدھا درد،درد ہی رہتا ہے۔ اس کا پہلا د نکال دیں تو رد بن جاتا ہے اور دوسرا د نکال دیں تو در بنتا ہے۔ تم یہ جان لو کہ جب انسان کسی کے در سے رد کردیا جاتا ہے تو درد ملتا ہے اور یہی وہ درد ہوتا ہے جو انسان کو کسی الگ در پر لے جاتا ہے مگر تم شاید درد کے معنی سے بھی واقف نہیں ہو کیونکہ تم نے کبھی درد کو محسوس ہی نہیں کیا ہے۔"
وہ مسلسل بول رہی تھی مگر وہ صوفے پر نیم دراز ہوچکا تھا۔
"وہاں بستر پر سوجاؤ باہمین! پوری رات اس صوفے پر لیٹ کر میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ جب تمہارا وجود مجھ سے کچھ فاصلے پر موجود میری دسترس میں ہوگا تو میں اپنی برداشت کو آزما پاؤں گا کہ نہیں اور میرا یقین کرو آج میں اپنی برداشت آزمانا چاہتا ہوں۔"
وہ خاموش ہوتے ہوئے آنکھیں موند گیا تھا جبکہ وہ سن حیرت زدہ کھڑی اسے پاگل سمجھ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ خود ہی تھک کر بستر پر لیٹ گئی۔ وہ شخص آج اس کے بستر پر اس کے بستر کا حصہ دار نہیں تھا وہ اس کے سامنے اس سے فاصلے پر موجود تھا۔ باہمین زاہرہ کو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اس کا وجود خاموش تھا کیونکہ خاموشی اس وجود کا خاصا بن چکی تھی۔

--------------------------------------

عنزلہ شاہ ہلکے آسمانی رنگ کے شلوار سوٹ پر اوف وائٹ چادر کندھوں پر اوڑھے اپنی پوری شان اور تمکنت سے چلتی ہوئی لال حویلی کے ہال کمرے میں آئی تھیں۔
"کیا بات ہے آپ کی بٹو!آپ کی پوتی نے بھاگ کر شادی کرلی اور آپ نے شاہ حویلی خبر بھیجوانے کا بھی تردد نہیں کیا؟"
دونوں ہاتھ باندھے وہ خاصے درشت لہجے میں کہہ رہی تھیں جبکہ بی بی سرکار کے پاس بدلے میں کہنے کے لیے شاید کوئی الفاظ نہیں تھے۔سارے الفاظ جیسے کہیں کھو گئے تھے۔
"آپ کی خاموشی آپ کے ماتھے پر لگے ہوئے داغ کو مٹا نہیں سکتی آخر کار کو بھتیجی نے اپنے تایا کی روایت کا پاس رکھا ہے۔ برسوں پہلے تایا نے عشق فرما کر شادی شدہ ہونے کے باوجود بغاوت کی تو آج بھتیجی نے کسی کی امانت ہوتے ہوئے بھی بھاگ کر شادی کرلی۔ راجن پور کی پوری دستار پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا۔"
وہ بول رہی تھیں۔ ان کے لہجے میں اس قدر کاٹ تھی کہ سب دم سادھے صرف انہیں سن رہے تھے۔ پیر زرگل بخت اور زرشاہ تو کسی سے نظر ملانے کے قابل تک نہیں رہے تھے۔
"برسوں پہلے آپ نے اپنے بیٹے کو حویلی سے بے دخل کیا تھا اور آج اپنی پوتی کو بھی کردیا۔۔ شاہ حویلی کی عزت خاک میں ملا دی۔ آج سے لال حویلی کا شاہ حویلی سے کوئی تعلق نہیں ہے اس بات کو اچھے سے سمجھ لیں آپ۔"
انگلی ان کی جانب کو اٹھا کر وہ زہر خندہ لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ ان کی انگلی ابھی فضا میں ہی تھی جب آبیان نے ان کی اٹھی ہوئی انگلی کو نیچے کیا تھا۔
"ضرار تایا تو لال حویلی واپس آہی جائیں گئے انشاءاللہ کیونکہ انہیں ہم واپس لائیں گئے اور جہاں تک بات رہی ہماری بہن درناب کی تو انہیں ہم نے خود سب کے سامنے رخصت کیا ہے۔ اور تیسری اور سب سے اہم بات شاہ حویلی خود کیا کرئے گی ہمیں اور ہماری دستار کو خود ہی شاہ حویلی سے تعلق نہیں رکھنا۔ یہ اپنے پوتے کی امانت لیتے ہوئے جائیے گا خالہ بی!"
ان کی ہتھیلی کھول کر اس میں انگوٹھی رکھ کر اس نے سرد لہجے اور تاثرات کے ساتھ انہیں باہر کا راستہ دکھایا تھا۔
ان کے جانے کے بعد بی بی سرکار دھاڑی تھیں۔
"لالی،چندہ،میتھن،رکھی،شیرا! کہاں مرگئے ہو سب کے سب۔"
ان کے گرجنے کی دیر تھی سب لائن حاضر ہوئے تھے۔
"کس نے شاہ حویلی خبر دی تھی۔۔ بتاو ہمیں کس کی حرکت ہے یہ۔۔۔"
ان سب کو نشانے پر لئیے وہ دھاڑ رہی تھیں جبکہ سب سہمے ہوئے کھڑے تھے۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتی ایک دم سے سینے میں درد اٹھا تھا اور وہ پیچھے کی پیچھے ہی لڑکھڑائی تھیں۔
"بی بی سرکار!"
آبیان نے انہیں فوری سے بیشتر تھاما تھا۔ ان کی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہورہی تھیں۔ لب آہستگی سے حرکت کررہے تھے۔
"مہ۔۔میرے۔۔ضرار کو۔۔۔مہ۔۔میرے۔۔۔پا۔۔پاس۔۔لے،آؤ۔۔ میں۔۔ نہیں رہ سکتی اس کے بغیر۔۔"
بولتے بولتے وہ آنکھیں موند رہی تھیں۔
"میں لے کر آؤں گا آپ بے فکر ہوجائیں۔ انہیں اٹھا کر کمرے میں لیجاتے اس نے کہا تو وہ بے فکری سے آنکھیں موند گئیں۔ آبیان نے ضبط سے لب بھینجے تھے۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے صبر کا پیمانہ چھلک رہا ہو۔

*************************

نیلم میں موجود اس گھر کا منظر کچھ دنوں سے عجیب و غریب تھا۔ خاموشی جیسے اس گھر کا حصہ بن چکی تھی۔ حزیمہ بختیار گزشتہ ایک ہفتے سے سخت بیمار تھے۔ وجہ ان کے اپنے سامنے موجود ان کی بیٹی کی بے اعتنائی اور بے رخی تھی۔ وہ سارا سارا دن کمرے میں تنہا پڑے رہتے۔ ریسٹ ہاؤس بھی راغیص خود ہی جارہی تھی۔ وہ صرف ان کے کمرے میں کھانا دینے آتی۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتی مگر اس نے ان کے پاس بیٹھنا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے ایک ہی گھر میں دو اجنبی رہ رہے ہوں۔ اب بھی وہ ان کے کمرے میں ناشتہ لے کر آئی تھی۔ اس سے کچھ دیر قبل وہ باہر رکھے پودوں کی ترتیب درست کرکے آئی تھی۔
"ناشتہ کرلیں۔"
ان کے آگے ٹرے رکھ کر وہ پلٹی تھی جب ان کی آواز پر اس کے قدم ٹھہر گئے تھے۔
"آخر کب تک تم مجھ سے یونہی منہ موڑو گی؟"
اپنے بستر پر سیدھے ہوکر بیٹھتے انہوں نے دھیرے سے کہا تھا۔
"آپ جس قدر خود غرض ہیں نا بابا! شکر کریں میں آپ کے ساتھ اس گھر میں رہ رہی ہوں ورنہ میرا تو جی چاہتا آپ کو تنہا چھوڑ کر چلی جاؤں۔"
اپنی انگلیوں سے اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے اس نے کہا تو حزیمہ بختیار نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا۔
"اتنی بڑی سزا نہ دو میرے قصور کی۔۔"
انہوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو راغیص طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"میں بھولی نہیں ہوں بابا! کہ کس طرح میری ماں نے آپ کی وجہ سے خودکشی کی تھی۔ ذریعہ ضرار انکل ضرور بنے تھے مگر وجہ آپ ہی تھے۔ اگر اس روز آپ وہ غلطی نہ کرتے تو ہماری ماں کبھی بھی ہم سے دور نہ جاتی۔"
ان کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے زہر خندہ لہجے میں کہا تھا۔
"غلطی ہوگئی نا بہک گیا تھا میں۔شیطان مجھ پر غالب آگیا تھا۔"
اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے انہوں نے کہا تو وہ استزایہ انداز میں مسکرا دی۔
"شیطان تو یونہی کھلے عام شکار کی تلاش میں گھوما کرتے ہیں مگر نفس کے مضبوط لوگ ان شیطانوں کے ہتھے نہیں چڑھا کرتے بابا!مگر افسوس ہوا تھا مجھے کہ آپ بھی ان عام نفس کے غلاموں جیسے بے ضمیر نکلے جس نے بیچ سڑک میں۔۔۔۔ گھن آتی ہے۔"
منہ موڑتے ہوئے وہ بولی تو حزیمہ بختیار ڈھے گئے جبکہ دروازے پر کھڑی ریحا کو یوں محسوس ہوا جیسے پیروں تلے زمین سرک گئی ہو اور سر پر آسمان آگرا ہو۔
"بجہ۔۔بجو! یہ کیا کہہ رہی ہو تم کیا،کیا تھا بابا نے؟"
آنکھیں حیرت سے پھیلائے وہ ناگہانی انداز میں چیختے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
"تہ۔۔۔تم کب آئی ہو؟"
اس کی آواز کے تعاقب میں حیرت سے دیکھتے راغیص نے کہا تو ریحا چلتی ہوئی ان دونوں کے نزدیک آگئی۔
"بس مجھ سے کچھ چھپانا مت ورنہ رازوں کی اس گتھی کو اپنے دل میں لئیے ہی میری جان نکل جائے گی۔ پھر تم اور بابا بیٹھ کر پچھتاتے رہنا۔"
انگلی اٹھا کر باری باری دونوں کی جانب کیے وہ عجیب سے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"ریحا! میری جان دیکھو۔۔"
راغیص نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تو اس نے بیچ راہ میں ہی اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"بجو! صرف سچ سننا ہے مجھے ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں۔ ننھی بچی نہیں ہوں میں جسے تم لوگ گزشتہ پانچ سالوں سے بہلاتے آرہے ہو۔"
وہ کچھ بھی سننے کی حالت میں نہیں تھی۔ راغیص نے ایک ملامتی نگاہ اپنے باپ پر ڈالی اور پھر ریحا کی جانب متوجہ ہوئی۔
"برسوں پہلے بابا نے روڈ پر ضرار انکل کے اکسانے پر ایک ریپ کیا تھا۔ اور بابا اور ضرار انکل کا بعد میں اس بات کو لے کر جھگڑا ہوا تو ضرار انکل نے ماما کو بابا کے اس گناہ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور پھر ماما نے۔۔۔۔۔۔۔ برداشت نہیں کیا یہ سب۔۔"
وہ سر تھام کر گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھی تھی۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر روانی سے بہے تھے۔ حزیمہ بختار بستر پر سر تھام کر بیٹھے ہوئے تھے۔ چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ اس سے بڑی اور سزا کیا تھی کہ وہ آج برسوں بعد اپنی بیٹیوں کے سامنے برہنہ ہوگئے تھے۔ راغیص کے سامنے تو وہ ہمشہ ہی شرمندہ رہا کرتے تھے مگر وہ چاہ کر بھی باپ سے منہ نہ موڑ پائی تھی۔ مگر ارغن کے واپس آنے اور دھمکی دینے کے بعد راغیص کے سارے زخم پھر سے ہرے ہوئے تھے۔ باپ کے گناہ نے اسے شرمندگی کی اتہا گہرائیوں میں دھیکل دیا تھا۔
ریحا بس سن کھڑی تھی۔ بالکل بے حس و حرکت ایسے جیسے اسے برہنہ کرکے بیچ بازار میں لا کھڑا کیا ہو۔
"ریحا بیٹا! میری بات سنو۔"
انہوں نے سن و ساکن کھڑی ریحا کو پکارا تو اس نے خالی نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا۔ آنکھوں کے سارے رنگ لمحوں میں ویران ہوئے تھے۔ وہ الٹے قدموں سے پیچھے ہوئی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے ہی راغیص بھی بھاگی تھی مگر وہ پہلے ہی دروازہ دھاڑ سے بند کرچکی تھی۔ اس کا سوٹ کیس ابھی بھی باہر لاونج میں پڑا ہوا تھا۔
"ریحا! دروازہ کھولو پلیز۔۔"
اس نے دروازہ زور سے کھٹکھٹایا تھا مگر اندر سے کوئی بھی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ وہ کتنی دیر باہر کھڑی دروازہ بجاتی رہی مگر نہ اسے دروازہ کھولنا تھا اور نہ ہی اس نے کھولا تھا۔ تھک ہار کر راغیص واپس مڑ گئی تھی مگر اس ایک دن میں تمام کے تمام راز عیاں ہوچکے تھے۔ کوئی ایک بھی ایسا راز باقی نہیں رہا تھا جس کا تجسس ریحا بختیار کے اندر بچا تھا۔ جو راز اس کے سامنے عیاں ہوا تھا وہ اس کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔ اس کے چہرے پر آنسو نہیں تھے اور نہ ہی اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے وہجیسے ایک ہی لمحے میں گر کر سنبھل چکی تھی۔ اس کے سارے سوالات اس ایک انکشاف کے بعد ختم ہوچکے تھے۔ وہ پتھر کے مجسمے کی مانند آکر اپنے بستر پر بیٹھی تھی۔ دروازہ ایک بار پھر اپنی پوری قوت سے دھڑ دھڑایا جارہا تھا مگر ریحا بختیار کی سماعتیں جواب دے چکی تھیں اس کی قوتِ گویائی سلب ہوچکی تھی اس کا باپ اس کی نگاہوں کے سامنے ایک ہی جھٹکے میں پارہ پارہ ہوچکا تھا۔

میری ذات کے ٹکروں کو تو سمیٹ کچھ اس طرح
خانم
کہ میرا ٹوٹا ہوا مان بھی پھر سے جڑ جائے

ایمن خان

*********************

سردیوں کا وسط شروع ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے۔ سردی بڑھی تو ہوا میں خنکی بھی بڑھ گئی۔ سورج ان دنوں اکثر و بیشتر چھپ جاتا تھا۔ لوگ دھوپ کے لیے ترسے ہوئے تھے۔ آج صبح خوبصورت اور روشن ہوئی تھی بستر پر بے سدھ لیٹے اس کے وجود پر گنجی کانی دھوپ پڑی تو اس نے چندیائی ہوئی آنکھوں سے کھڑکی کی جانب دیکھا جہاں سے پردہ ذرا سا سرکا ہوا تھا۔ وہ بامشکل اٹھ کر بیڈ کراون سے ٹیک لگانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ دوسری نظر اس کی صوفے پر بے ترتیب حالت میں لیٹے دمیر بخت پر پڑی تو وہ حیرت سے گنگ رہ گئی۔ وہ واقعی ہی پوری رات صوفے پر اس کے سامنے سوتا رہا تھا۔ واقعی ہی پوری رات اس نے اپنی برداشت آزمائی تھی،اپنے بھڑکتے ہوئے نفس کو نجانے کتنی بار ڈپٹ کر سلایا تھا۔ وہ شاید ان دس ماہ میں پہلی بار اسے اتنی غور سے دیکھ رہی تھی۔اس لمحے اس کا دل بالکل خاموش اور ویران تھا کم از کم دمیر بخت کے لیے تو باہمین زاہرہ کا دل ہمشہ ہی خاموش رہا کرتا تھا اور شاید خاموش رہنے والا تھا۔ اس کے بے ترتیب بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں بند تھیں۔ چہرے پر برداشت کے تاثرات رقم تھے خود اذیتی کی ایک ایسی داستان اس کے گندمی چہرے سے جھلک رہی تھی جس نے باہمین زاہرہ کو حیران کردیا تھا۔ وہ کیوں اپنے اوپر اتنا ظلم اور جبر کررہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔ اپنی ہی زرخرید راکھیل کے قریب وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں آیا تھا یہ نقطہ جیسے اس کا ذہن سمجھ نہیں پایا تھا۔ وہ اپنے لمبے سیاہ بالوں کو جُوڑے میں باندھ کر بستر سے اٹھ کر واشروم کی جانب بڑھی تھی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ تازہ دم ہوکر باہر نکلی تو صوفہ خالی تھا۔ باہر سے گاڑی سٹارٹ ہونے اور کسی کے بولنے کی آواز آرہی تھی اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر کھڑکی کے پردے ہٹا کر باہر جھانکا تو اس کی سفید لینڈ کروزر کو گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس کی حیرانی میں گزشتہ رات سے یہ تیسرا اضافہ تھا۔ وہ پردے برابر کرکے کمرے سے باہر نکل آئی۔ سامنے باورچی خانے میں ماہ جبین حسبِ معمول مصروف دکھائی دی۔
"صاحب چلے گئے؟"
اس نے چہرے کو حتی المکان نارمل بناتے ہوئے پوچھا تو ماہ جبین نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اسے ڈھونڈنے سے بھی باہمین کے چہرے پر کوئی نرم تاثر نہیں ملا تھا۔
"جی ابھی گئے ہیں اور کہہ گئے تھے کہ آج پھر آئیں گئے آپ کو بتا دوں۔"
وہ کہہ کر واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگئی جبکہ باہمین زاہرہ ان دس ماہ میں پہلی بار دمیر بخت میں الجھی تھی۔

وہ گاڑی سڑک پر تیزی سے بھگا رہا تھا۔ بکھرا الجھا حولیہ کل والی سفید ڈریس شرٹ ابھی بھی اس کے وجود کا حصہ بنی ہوئی تھی۔ بالوں میں ہاتھ پھیر کر اس نے انہیں سرسری سا سلجھایا اور گاڑی اپنی مطلوبہ جگہ پر روک دی۔ وہ دو دفعہ یہاں آچکا تھا اسے اب یہ جگہ اور اس کے راستے از بر ہوچکے تھے۔ صبح ساڑھے آٹھ کا وقت تھا جب اس کی سفید لینڈ کروزر داتا دربار سے کچھ فاصلے پر رکی تھی۔ وہ بغیر ادھر اُدھر دیکھے سیدھا اسلامک سینٹر کی سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔ عجیب بات تھی وہ دو دفعہ یہاں آیا اور ایک بھی بار اس نے مزار پر کھڑے ہوکر نہ تو حاضری دی اور نہ ہی دعا مانگی۔ وہ سیدھا آتا اسلامک سینٹر کی سیڑھیوں کی جانب بڑھ جاتا وہاں اپنا وقت گزار کر وہ دوبارہ سے گزر کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلا جاتا۔ صحن ہمشہ کی طرح ویران اور پرسکون تھا۔ اکا دُکا لوگ برآمدے کی چٹائیوں پر بیٹھے نظر آئے مگر اس نے نظر گھما کر اپنے مطلوبہ شخص کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی کوشش ناکام نہیں ٹھہری تھی اسے سامنے ہی برآمدے کے کونے میں بنے ہوئے کمرے میں ایک سفید ہیولہ دکھائی دیا تو وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ اس کا مطلوبہ شخص وہی موجود تھا۔ وہ جانماز پر بیٹھا دعا مانگ رہا تھا شاید۔ دمیر نے کلائی میں باندھی ہوئی گھڑی پر ایک نظر ڈال کر وقت دیکھا تھا۔ وہ کسی بھی نماز کا وقت ہرگز نہیں تھا۔ وہ الجھا ہوا ہنوز کھڑا تھا جب اسحاق صاحب نے اس کی جانب دیکھا۔ اس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر وہ بے ساختہ مسکرائے تھے۔
"لگتا ہے محاز بہت مشکل ثابت ہوا۔"
جانماز کا کونا موڑ کر انہوں نے ہاتھ میں تسبح تھامتے ہوئے کہا تو دمیر گرنے کے سے انداز میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
"وہ میرے قریب تھی۔ بہت قریب ہم دونوں کے درمیان صرف چند انچ کا فاصلہ تھا میرا جی چاہ رہا تھا میں اپنے اور اس کے درمیان کا وہ چند انچ کا فاصلہ بھی مٹا دوں اس کے قریب جاکر اسے محسوس کروں وہ ایسی ہی ہے عجیب لڑکی ہے وہ ہر بار الگ ذائقہ دینے والی۔ میں جو مختلف پھل چکھنے کا عادی تھا مجھے اس ایک پھل نے ہر بار مختلف ذائقہ فراہم کیا ہے۔ وہ بند ہو تو بے بسی کا سرور دیتی ہے اور اگر عیاں ہو تو تشنگی بڑھا دیتی ہے۔ مجھے لگ رہا اس کی نفرت مجھے پاگل کردے گی۔"
اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر وہ عجیب بے بسی سے کہہ رہا تھا۔
"جو رات تم نے کل گزاری ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے دوست! کہ تمہارا نفس تم ہر اتنا حاوی بھی نہیں ہے کہ تمہیں اس کے آگے کچھ دکھائی نہ دے جس طرح تم نے پوری رات جاگ کر اپنے آپ سے لڑ کر گزاری ہے جانتے ہو اس کا مطلب کیا ہے؟"
انہوں نے تسبح کے دانے دھیرے دھیرے گرا کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تو دمیر نے کسی ننھے معصوم بچے کی طرح نفی میں سر ہلایا۔
"اس کا مطلب ہے کہ اس لڑکی سے تمہیں محبت ہے۔اس کے لیے تمہارے دل میں کسی نرم گوشے نے جگہ بنا لی ہے اور جانتے ہو جو محبت گناہوں سے دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو وہ نفسِ لوامہ کے دائرے میں داخل ہونے میں مدد کرتی ہے۔ یہ لڑکی تمہیں نفسِ لوامہ میں داخل کرئے گی۔"
انہوں نے اپنی بات ختم کرکے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا جہاں عجیب سے تاثرات تھے۔
"مح۔۔محت!"
جب وہ بولا بھی تو فقط اتنا اسحاق صاحب نے اثبات میں سر ہلایا کچھ دن قبل باہمین زاہرہ کا لان میں بیٹھنا اس کے ذہن کی سکرین پر تازہ ہوا تو دل ایک بار پھر زور سے دھڑکا۔
"سیڑھیاں قدم با قدم اترنا پھر ہی گہرا اور صیح انتخاب کرپاؤ گئے ورنہ لوامہ کی طرف بڑھتے ہوئے تمہارے قدم پیچھے کی جانب ہوکر پھر سے تمہیں امارہ کی غلاظت میں لا پھینکے گے۔ اب تم جاؤ اور جاتے ہوئے دربار سے دعا کرکے لنگر کھا لینا برکت ہوگی۔"
اسے کہتے وہ اٹھ کر اندر اپنے دفتر میں غائب ہوئے تھے جبکہ وہ کتنی دیر بیٹھا ان کے لفظوں کو ہی سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ جیب میں رکھا اس کا موبائل مسلسل وائیبرٹ کررہا تھا۔ اس نے خیالوں میں گھومتے ہی اپنا موبائل نکال کر سکرین دیکھی تو آبیان کا نام جگمگا رہا تھا دمیر نے گہرا ہنکارا بھر کر فون کان سے لگایا تھا۔
"ہیلو آبیان! کیسے ہو؟"
اسلامک سینٹر کی سیڑھیوں کی جانب بڑھتے ہوئے اس نے پوچھا تو دوسری جانب سے آبیان نے خوش اخلاقی سے اس کا احوال پوچھا۔
"کیسے ہو تم دمیر؟"
وہ دوسری جانب سے بہت نرمی سے گویا ہوا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ۔"
سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اس نے کہا تو آبیان ہولے سے مسکرا دیا۔
"دمیر! بی بی سرکار ضرار تایا کو بہت یاد کررہی ہیں۔ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ وہ کافی بیمار بھی ہیں۔"
نرمی و پریشانی سے بولتے اس نے کہا تو دمیر نے گہرا سانس بھرا۔
"بابا کچھ بھی بھولنے کو تیار نہیں ہیں آبیان! وہ تو لال حویلی کا ذکر بھی سننا نہیں چاہتے۔"
وہ شدید مایوسی سے بولا تو آبیان نے گہرا ہنکارا بھرا۔
"کیا تم نے ضرار تایا سے بات کی تھی؟"
وہ فوری سے بیشتر بولا تو دمیر نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ سیڑھیوں سے اتر کر احاطے میں داخل ہوا تھا۔ نظر اس کی دربار کے اندرونی حصے پر پڑی تھی۔
"نہیں میں نے انہیں اماں سے بات کرتے سنا تھا تب سے ہی میں نے بات کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔"
دربار کے باہر کھڑے ہوکر اس نے کہا تو آبیان کو سخت مایوسی ہوئی۔
"تم اپنی کوشش جاری رکھو ہم جلد ہی تم سے ملنے شہر آئیں گئے۔"
اسے کہہ کر چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد اس نے فون بند کردیا۔ دمیر دربار کے اندرونی حصے میں داخل ہوا تھا۔ بہت سارے لوگ کھڑے دعا مانگ رہے تھے۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا دعا مانگے پھر بھی اس کے ہاتھ اٹھے تھے۔
"یااللہ یہ جو بھی ہستی یہاں پر آرام فرما رہی ہے میں اس کے بارے میں زیارہ نہیں جانتا مگر سنا ہے یہ آپ کے بہت نیک بندے تھے ان کے وسیلے سے میرے دل کو سکون دے میری ہمت و طاقت بڑھا دے میں اپنے نفس سے لڑ کر جیت سکوں میری مدد فرما۔"
دعا مانگ کر ہاتھ چہرے پر پھیر کر وہ واپس مڑ گیا۔ مزار کے باہر ہی اس کے ہاتھ میں ایک نان تھمایا گیا جس کے اوپر دال لگی ہوئی تھی۔ وہ منع کرنا چاہتا تھا، وہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ یہ سب نہیں کھاتا مگر اس کے لفظ جیسے زبان پر ہی ٹھہر گئے تھے۔ اس کے حلق سے آواز نہیں نکل پائی تھی۔ وہ یک ٹک اپنے ہاتھ میں دھرے نان کو دیکھ رہا تھا اس کے ذہن میں کچھ لفظ گردش کررہے تھے۔
"حضور کا لنگر ہے۔ کھا لو برکت ہوتی ہے۔"
پہلے روز والے آدمی کے کہے گئے جملے اس کے کانوں میں گونجے تو اس نے بے اختیار ایک لقمہ توڑ کر دال سے لگایا اور پھر منہ میں ڈال لیا۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں آج سے پہلے اتنی لذیذ دال نہیں کھائی تھی۔ وہ لمحوں میں پورا نان کھا چکا تھا۔ دعا بھی مانگی تھی اور لنگر بھی کھایا تھا۔ اب صرف اس کے بعد آنے والے نتائج کا انتظار تھا۔ دل یک گونا یقین سے لبالب بھر چکا تھا جیسے اب اس کی مراد پوری ہوگی ہی۔
"اسے اپنی دسترس سے آزاد کردے سکون کی پہلی سیڑھی ہوگی۔"
وہ باہر کی جانب جارہا تھا جب اچانک سے آواز آئی تھی۔ اس نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا تھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے محسوس ہوا تھا جیسے کوئی اردگرد سے بولا ہو مگر جب وہاں کوئی نہیں ملا تو اسے لگا یہ آواز اس کے اندر کی تھی جیسے اس کے اندر نفسِ لوامہ کی جانب بڑھتے ہوئے گوشے میں سے آواز ابھری ہو۔ وہ تیزی سے داتا دربار کے احاطے سے باہر نکلا اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ بار بار ذہن ان لفظوں میں ہی الجھ رہا تھا۔ بار بار اس ایک سمت کی جانب اشارہ کیا جارہا تھا۔ عہ یہ سب کیوں کررہا تھا یہ اس کی سمجھ سے بالا تر تھا مگر بس وہ یہ سب کرتا جارہا تھا۔ وہ شاید اپنے نفس کی منہ زور خواہشات سے تنگ آچکا تھا شاید وہ باہمین زاہرہ کو اذیت نہیں دینا چاہتا تھا،شاید اس کا ملامتی خانہ اس کے طالب خانے پر حاوی ہورہا تھا۔وہ لمحوں میں ایک فیصلہ کرگیا تھا اب جلد ہی اسے اس پر عمل درآمد ہونا تھا۔
جون ایلیا کہتے ہیں:
بنت حوا کے نرم لہجے نے
ابنِ آدم بگاڑ رکھے ہیں

جس کے جواب میں مکس آصف نے کہا:

ابنِ آدم نے اپنے سارے جرم
بنتِ حوا پر ڈال رکھے ہیں

ان دونوں کی نفی کرنے والی نیہا میمن تھیں کہتی ہیں:

نہ قصور ہے بنتِ آدم کا نہ غلطی ہے بنتِ حوا کی
یہ سارے جھمیلے تو حوس نے پال رکھے ہیں

***********************

Continue Reading

You'll Also Like

11 0 1
Family Based Ramzaan Special Mini Novel
111 13 15
هذه مجموعة من النكت المتنوعة بين جزائريةوأخرى ارجو لكم اوقات ممتعة 🙂😉
34.3K 1.7K 15
کہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی جس کو چھوڑنے کی صورت میں ہی وہ اپنی دستار...
3.9K 285 7
"رشتوں میں محبت بھی دکھے گی تو کہیں خود غرضی کہیں ایک لڑکی کا مضبوط کردار تو کہیں کوئی مجبور حال،کوئی چاہت میں دیوانہ اور اپنی چاہت کو اپنا دیوانہ بن...