چھنکار مکمل✅

By Aimeykhan

34.3K 1.7K 1.5K

کہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی ج... More

آغاز آشنائی
پہلی ملاقات
تقدیر کے کھیل نرالے
یار من
رنگ و بو کا جہاں
بکھرتی چاندنی
بہتا پانی
انجانے راہی
راز الفت
آتشِ غم
فراقِ یار
جان کے بھی انجانا
رُخ موڑتی زندگی
انجام کے بعد

جھیل میں بہتا عشق

1.9K 116 117
By Aimeykhan

باب نمبر 10

میرا ہر گلا صدا کا ہے
اسے چھوڑنے کا گمان نہیں

وہ جو پاس تھا تو بے قدرا
دور ہے تو انجان نہیں

ہم ملے تو اسی رو میں تھے
پچھڑنے پر بھی حیران نہیں

وہ کل بھی ویسا شریر تھا
اب بھی کہیں گمنام نہیں

وہ جو قدم قدم پر ساتھ تھا
اب کہیں اس کے نشان نہیں

جھیل میں بہتے اس عشق کے
اب کہیں بھی احسان نہیں

ایمن خان
وہ ڈائیری ہاتھوں میں تھامے اس کا پہلا صفحہ کھولے حیرت سے اس پر لکھے نام کو دیکھ رہی تھی۔ نام کی سطح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اس میں پوشیدہ لمس کو اپنے دل کی اتہا گہرائیوں میں محسوس کرنا چاہتی تھی اس سے پہلے کہ وہ اگلا صفحہ پلٹتی ماہ جبین کی آواز پر اس نے ڈائیری فوری سے بیشتر بند کی تھی۔
"بی بی کھانا!"
ماہ جبین نے کھانے کی ٹرے اس کے سامنے رکھے میز پر رکھی تھی باہمین نے ڈائیری واپس اپنے پاس رکھ لی تھی اور کھانے کی جانب متوجہ ہوئی تھی مگر یہ سچ تھا کہ اس کے بعد اسے سرخ جیلد والی ڈائیری کو لے کر عجیب سا تجسس ہوا تھا نجانے اس میں کس نوعیت کی حقیقت پوشیدہ تھی دل میں بے تحاشہ خیالات لے کر وہ کھانے کی جانب متوجہ ہوئی تھی تین دن کے بعد شاید باہمین زاہرہ پیٹ بھر کر کھانا کھا رہی تھی۔
*********************
صبح ہوتے ہی وہ لوگ شہر سے لال حویلی آنے کے لیے نکل آئے تھے فضا میں ابھی بھی اندھیرے کا راج تھا گاڑی میں بیٹھے تیزی سے گزرتے راستے اس کے دل کی بے چینی کو بڑھا رہے تھے کل واپس آنے کے بعد آبیان نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا اور نہ ہی مہالہ میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اس کے روبرو جاکر اسے اس کی ہار کی خبر سناتی مگر جاتے جاتے وہ آبیان کو اس مایوسی سے نکالنا نہیں بُھولی تھی ۔ دھیرے دھیرے صبح کا اجالا پھیل رہا تھا پُو پھوٹ رہی تھی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہی تھی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی درناب شاید گہری نیند میں تھی۔
" تو مہالہ افروز! طے یہ پایا کہ ساری عمر ایک ایسے مرد کے ساتھ گزارنی ہے جو دل میں کسی اور کو بسائے اس کے نہ ملنے کا غم ہی کرتا رہے۔"
اس کے لبوں کی تراش میں دھیمی سی مسکراہٹ چمکی تھی اپنا غم تو سمبھالنا تھا ہی اب ساتھ میں پیر سید آبیان بخت کے غم کو بھی سینے سے لگا کر رکھنا تھا۔ سوچوں کے بھنور میں بہتے وقت تیزی سے بیت گیا تھا وہ جو صبح دھیرے دھیرے روئے زمین پر اتر رہی تھی اب مکمل طور پر اچھا خاصا دن چڑھ آیا تھا کھڑکی سے باہر دیکھنے پر اسے اندازہ ہوا تھا کہ دوپہر ہونے کو ہے گاڑی راجن پور گاوں کی حدود میں داخل ہورہی تھی گاوں کی پکی سڑک پر چلتی ہوئی گاڑی پورا راجن پور تیزی سے پار کررہی تھی جس کے آخری کونے میں واقع لال حویلی اپنی پوری شان و تمکنت سے کھڑی تھی۔
سفید گاڑی نے حویلی کے باہر ہارن بجایا تھا چوکیدار نے فوری سے بیشتر گیٹ کھول دیا تھا گاڑی تیزی سے روش پر چلتی ہوئی پچھلی جانب بنے لکڑی کے پورچ تلے جا رکی تھی۔
"درناب!"
مہالہ نے کندھے سے جھنجھوڑ کر اسے جگایا تھا۔
"آ۔۔۔ہاں۔۔کیا۔۔ہوا؟"
وہ بڑبڑا کر جاگی تھی۔
" ہم گھر پہنچ گئے ہیں۔"
اس نے بتایا تو وہ فوری سے بیشتر حواس میں لوٹی تھی۔ اپنی چادر درست کرتی ہوئی مہالہ نیچے اتری تھی دوسری جانب سے درناب بھی اتر کر اس کے ہم قدم ہوئی تھی۔ ملازم کو سامان اندر لانے کا کہہ کر دونوں لال حویلی کے صدر دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ مختصر کاریڈور سے داخل ہوتے ہی سامنے صحن میں تخت پر بی بی سرکار بیٹھی ہوئی دیکھائی دی تھیں۔
"اسلام علیکم بی بی سرکار!"
دونوں نے بیک وقت انہیں سلام کیا تھا وہ جو حقہ گڑگڑا رہی تھیں آواز پر ان کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
"وعلیکم اسلام! آگئی آپ دونوں حویلی کو تو جیسے سُونا کرگئی تھیں۔"
وہ اپنی بانہیں پھیلائے جیسے خوشی سے جی اٹھی تھیں۔
"یہ آخری بار تھا بس اس کے بعد ہم آپ کی ایسی کوئی ضد نہیں ماننے والے۔"
اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیے ان دونوں کو بی بی سرکار مصنوعی ناراضگی سے کہہ رہی تھیں۔
"آپ فکر مت کریں ہم آپ کو چھوڑ کر اب کہیں جانے بھی نہیں والے۔"
درناب نے ان کا گال چومتے ہوئے کہا تو ان کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
"کاش ضرار کے بیٹے بھی یہاں ہوتے ہم ہمشہ درناب کو بھی اپنے پاس ہی رکھ لیتے۔"
بی بی سرکار نے نجانے آج کتنے عرصے بعد دانستگی میں ان کا نام لیا تھا ورنہ وہ یہ نام کتنے برسوں پہلے ہی اپنی زندگی کی سلیٹ سے مٹا چکی تھیں ان کی بات پر درناب اور مہالہ دونوں کی مسکراہٹیں سمٹی تھیں۔
"ضرار کون بی بی سرکار!"
مہالہ نے سب سے پہلے ہوش میں آکر ان سے یہ سوال کیا تھا۔ جب ضرار بخت حویلی سے گئے تھے تب مہالہ صرف ایک سال کی تھی جبکہ درناب کی تو پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔
"آہ۔۔کوئی نہیں جاو اپنی ماؤں سے مل لو باورچی خانے میں ہیں وہ۔"
آنکھوں میں چمکتی ہوئی کرب کی نمی کو انہوں نے بڑی رسانیت سے خود میں انڈیلا تھا۔ مہالہ اور درناب دلوں میں کئی سوالات لے کر وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر باورچی خانے میں آگئی تھیں۔
"شکر ہے آپ دونوں آگئیں شاپنگ مکمل ہوگئی نہ؟"
بارینہ بیگم نے مہالہ اور درناب دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"جی تائی سرکار! ایسی شاپنگ کی ہے نہ کہ بس سب دیکھتے رہ جائیں گئے۔"
درناب ماحول کا اثر زائل کرنے کے لیے اپنے ازلی موڈ میں واپس لوٹی تھی۔
"یہ تو بہت اچھا ہوا ہے چلو دکھاؤ تو کہ کیا لے کر آئیں ہیں آپ لوگ؟"
ممتہیم بیگم نے ملازمہ کو کھانا دیکھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ان دونوں کو کہا اور باورچی خانے سے باہر آگئیں۔ تخت پر بی بی سرکار کے نزدیک بیٹھتے ہوئے دونوں نے سامان کھولا تھا واقعی ہی میں وہ قابلِ ستائش خریداری کرکے آئی تھیں۔ شادی کے دن تیزی سے نزدیک آرہے تھے۔
************************
وہ دونوں واپس گاوں چلی گئی بخت ہاوس پھر سے اپنی سابقہ حالت میں لوٹ آیا ویرانیوں نے وہاں پھر سے اپنے ڈیرے جما لیے تھے۔ وہ آج یونیورسٹی جانے کی بجائے یونہی لان کی سیڑھیوں میں بیٹھا ہوا تھا نجانے سارے شکوے کہاں جا کر سوگئے تھے۔ آہ کاش کوئی ایسا دوست کوئی ایسا ہمراز ہوتا جس سے ساری باتیں کرکے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا جاتا کاش دل پھر سے اسی ان کِھلی کلی کی مانند ہوجائے جس کو ابھی زمانے کے سرد و گرم کی ہوا بھی نہیں چھوتی۔
"آہ محبت!"
سارے کے سارے فساد کی ایک ہی اکلوتی جڑ۔ سیاہ ٹراوزر کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی سفید بے داغ ٹی شرٹ پہنے وہ پس مردہ دیکھائی دے رہا تھا وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا جب جمال بی اندر سے اس کا بجتا ہوا فون لائی تھیں ۔
"کون ہے؟"
اس نے اشارے سے ان سے پوچھا تو انہوں نے منہ میں چھوٹے پیر بول کر فون انہیں تھما دیا۔
" اسلام علیکم بابا سرکار!"
لہجے میں زمانے بھر کا احترام سمٹ آیا تھا۔
"وعلیکم اسلام کیسے ہیں آپ؟"
دوسری جانب سے بڑی فرصت سے اس کا احوال پوچھا گیا تھا۔
"اللہ کا شکر ہے اس کے کرم سے ٹھیک ہیں۔"
نہ چاہتے ہوئے بھی آبیان کا لہجہ دھیما پڑ گیا تھا۔
" آپ کو معلوم ہے نہ کہ اس جمعے سے آپ کی شادی کی تقریبات شروع ہوجائیں گی؟"
وہ اس سے ایسے پوچھ رہے تھے گویا جیسے اس کے علم میں زمانے بھر کا اضافہ فرما رہے ہوں بدلے میں اس نے ایک گہری سانس فضا کے سپرد کی تھی۔
"جی معلوم ہے۔"
اب کی بار جیسے کوئی آنسوؤں کا گولا اس کے حلق میں اٹک گیا تھا آواز بے حد دھیمی تھی۔
"تو جب آپ کو معلوم ہے تو آپ کو درناب اور افروز جان کے ساتھ نہیں آنا چاہئیے تھا؟"
وہ طنز بھی انتہائی خوبصورت لہجے میں فرما رہے تھے آبیان بغیر کچھ بولے یک ٹک لان میں لگی گھاس کو گھور رہا تھا۔
"جواب ہے کوئی یا ہمشہ کی طرح لاجواب ہیں؟"
ایک بار پھر سے میٹھا سا طنز فرمایا گیا تو وہ چونک کر اپنے حال میں واپس لوٹا۔
"ایک دو دن میں آجائیں گئے۔"
اپنی جانب سے اس نے جیسے بات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔
"ایک دو دن نہیں صبح ہی لال حویلی پہنچیں اور یہ ہمارا حکم ہے۔"
حکم جاری کرکے مزید اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر کھٹاک سے فون بند کردیا گیا تھا۔ فون ہنوز اس کے کان کو لگا ہوا تھا مگر اب اس میں سے آواز آنا بند ہوگئی تھی آبیان نے اپنی آنکھیں بند کرکے بالوں میں ہاتھ چلایا تھا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر گھٹنوں میں سر دیا تھا تو آخر وہ لمہات آ ہی گئے تھے جن کے نہ آنے کی دعا نجانے وہ کب سے کرتا آرہا تھا آبیان بخت سوچوں کے گہرے جال میں تھا آخر کو محبت کو ہروا کر دستار جو بچائی تھی تو اسے صیح سے تو بچانا تھا اس کو بچانے کا حق ادا کرنا ابھی باقی تھا اور آنے والے چار دنوں میں یہ حق باخوبی ادا ہونے والا تھا۔

آو کسی شب مجھے ٹوٹ کے بکھرتا دیکھو
میری رگوں میں زہر جدائی کا اترتا دیکھو

کس کس ادا سے تجھے مانگا ہے خدا سے
آو کبھی مجھے سجدوں میں سسکتا دیکھو

************************

اسے صبح نیلم کے لیے نکلنا تھا۔ یونیورسٹی میں وہ پہلے ہی چھٹیوں کے لیے اپلائی کرچکی تھی راغیص اسے بہت بار فون کرکے نیلم آنے کا کہہ چکی تھی ریحا کا بالکل بھی دل نہیں تھا مگر اسے اپنی بہن کے لیے وہاں جانا ہی تھا سارا سامان پیک کرکے وہ ابھی فارغ ہوکر بستر پر لیٹی تھی چھت کو گھورتے ہوئے نجانے وہ کیا سوچ رہی تھی۔
"آہ تو آخر کوئی بھی صبر ازل نہیں رہتا ایک وقت آتا جب اس کی جڑیں جسم میں سے ٹوٹ کر دھیرے دھیرے ختم ہوکر انسان کو بھی ختم کردیتی ہیں پھر گزشتہ چیز پر آیا ہوا صبر ایسا ٹوٹتا کہ بقیہ آنے والی ہر چیز کے لیے تا ازل بن جاتا شاید راغیص بختیار کے صبر کا بھی یہی پیمانہ تھا جو لبریز ہونے کی راہ کی جانب بڑھ گیا تھا۔ سائیڈ میز پر رکھے ہوئے اس کے فون نے ریحا کی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی انجانے نمبر کو دیکھ کر بھی اس نے فون اٹھا لیا تھا۔
"ہیلو!"
دوسری جانب سے کوئی مردانہ آواز ابھری تھی ریحا بختیار کے لیے وہ آواز پہنچاننا نا ممکن سی بات تھی۔
"جی کون؟"
اپنے لہجے کو حتی المکان نارمل بناتے ہوئے وہ بڑے ہی اعتماد سے مخاطب ہوئی تھی۔
"ریحا بختیار!"
اس کا پورا نام پکارا گیا تھا ریحا کے ماتھے پر سوچ کا جال گہرا ہوا تھا۔
"جی! پر آپ کون؟"
وہ خود کو متجسس ہونے سے کسی طور بھی روک نہیں پائی تھی۔
"ریحا ! میں ارغن بخت بات کررہا ہوں۔"
کتنی ہی ساعتیں ریحا فون کان سے لگائے خاموش جیسے اس کے بولنے کا انتظار کررہی تھی یا اپنے یقین کرنے کا۔
"او تو آپ کو آخر آج پانچ سال بعد خیال آہی گیا کافی حیرت کی بات نہیں ہے یہ ویسے؟"
اس کے چہرے پر خود بخود ہی طنزیہ مسکراہٹ چمکی تھی۔
"ہاں حیرت کی بات تو واقعی ہی ہے یہ کہ پانچ سال بعد آخر ایک بزدل ارغن بخت میں ہمت پیدا ہو ہی گئی۔"
وہ خود پر طنز کررہا تھا یا ریحا کو اس کے کیے گئے طنز کا جواب دے رہا تھا ریحا کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
"بہت دیر کردی ہے آپ نے بہادر بننے میں اب۔"
وہ بے حد دھیرے سے بولی تھی کہ فون کے دوسری پار ارغن بامشکل ہی سن پایا تھا۔
"یوں دیر نہیں ہوتی ریحا! ابھی بھی اس کے نام کے ساتھ میرا نام ہی ہے مجھے یقین ہے میری پہنائی گئی انگوٹھی ابھی بھی اس کی انگلی میں ہوگی۔"
دوسری جانب کا یقین دیکھ کر ریحا بختیار عش عش کر اٹھی تھی کیونکہ یہ حقیقت تھی کہ راغیص کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی ابھی بھی موجود تھی۔
"اچھے سے سوچ لیں آپ اتوار میں ابھی چار دن باقی ہیں یوں نہ ہو جائے کہ جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ تاعمر آپ کو بچھتانے پر مجبور کرتا رہے اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ۔"
اپنی بات مکمل کرکے اس نے دوسری جانب کی بات بھی سننے کی زحمت نہیں کی تھی جھٹ سے فون بند کردیا تھا مگر ایک مسکراہٹ تھی جو اس لمہے ریحا بختیار کے چہرے کی زینت بنی ہوئی تھی۔

فون رکھنے کے بعد ارغن بہت دیر تک پرسوچ دیکھائی دے رہا تھا شاید اس لمہے تمام تر سوچیں دماغ میں گڈمڈ ہوگئی تھیں راغیص کا چہرہ اس کی نگاہوں کے پردے پر ابھی بھی پہلے روز کی طرح تازہ تھا مگر اب وہ کیسی دکھتی ہوگی ارغن بخت کے اندر یہ جاننے کا احساس شدت سے سر اٹھا گیا تھا۔ جو فیصلہ اس سے اس کے گزشتہ پانچ برس نہیں کروا پائے وہ فیصلہ راغیص کے کسی اور کے ہونے کے خیال نے ہی کروا لیا تھا۔
"پھر کیا سوچا ہے ؟"
قریب بیٹھے دمیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے متوجہ کیا تھا۔
"سوچ تو بہت کچھ لیا ہے مگر ڈرتا ہوں ضرار بخت سے بغاوت کہیں میری زندگی نہ تباہ کردے۔"
دمیر کو اتنے عرصے میں پہلی بار اس کے لہجے میں تھوڑا سا خوف محسوس ہوا تھا۔
"بھا صاحب! ضرار بخت ہمارے باپ ہیں کوئی دشمن تو ہیں نہیں جو ہماری خوشیوں کو دیکھ کر حسد محسوس کریں گئے اور اس حسد کی آگ میں جل کر ہمیں تباہ کردیں گئے۔ "
وہ بات تو بہت صیح کررہا تھا مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ ضرار بخت نے اپنی انا کی خاطر پانچ سال قبل بے دردی سے ارغن کے دل کے ٹکرے کردیے تھے مگر اس وقت یہ سب اس قدر رازداری سے کیا گیا تھا کہ دمیر یا میراب کو آج تک اصل بات معلوم نہیں ہوئی تھی انہیں صرف اتنا پتہ تھا کہ حزیمہ بختیار اور ضرار بخت کے درمیان قائم شدہ دوستی اب مزید نہیں رہی ہے اس لیے ان دونوں کے توسط سے جو رشتے ان کے بچوں کے درمیان قائم ہوا ہے وہ بھی مزید نہیں رہا۔
دونوں بھائیوں کے ماضی کی زور آور جنگ کسی فلم کی مانند چل رہی تھی۔
"میں سنڈے کو نیلم جاوں گا۔"
خاموش فضا میں اس لمہے صرف ارغن کی آواز گونجی تھی۔دمیر نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
"اور اگر راغیص بھابھی نہ مانی پھر؟"
اب کی بار دمیر کے کیے گئے سوال نے ارغن کو بھی ساخت کردیا تھا۔ اس نے خالی نظروں سے دمیر کی جانب دیکھا تھا جو اس کی جانب ہی متوجہ تھا۔
"وہ میرے ساتھ ایسے نہیں کرسکتی۔"
اس کی جانب سے ایک کمزور سی دلیل دی گئی تھی۔
"ہاں یقیناً پانچ سال قبل انہیں بھی آپ پر ایسا ہی مان ہوگا جس کو بابا کی انا کی تسکین کے لیے آپ نے مٹی میں ملا دیا۔"
وہ اپنی بات کہہ کر مزید ارغن کے کسی بھی ردعمل کے لیے ٹھہرا نہیں تھا بلکہ تیزی سے اس کے کمرے سے باہر نکل گیا تھا آج اسے باہمین کی خبر گیری بھی کرنی تھی ایک ہفتے سے وہ اس کی طرف بھی نہیں گیا تھا شاید اسے اب حسن کی یاد ستا رہی تھی۔

**********************
میراج کوٹھی میں رونقیں ہنوز جاری و ساری تھیں باہمین کے کمرے سے ملحقہ ٹیرس کے تخت پر دلسوز لیٹی شفاف کھلے آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ آج اسے باہمین زاہرہ شدت سے یاد آرہی تھی وہ اچھے سے جانتی تھی کہ جس جگہ باہمین کو بھیجا گیا ہے وہ اس کے لیے کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوگی بلکہ کانٹوں کی ایک ڈگر ہوگی بالکل ویسی ہی ڈگر جس پر وہ روز اپنی عزت نفس مجروح کرکے چلتی تھی جس پر چلنے میں کوتاہی پر ہی اسے سزا سنائی جاتی تھی اگر اس کا گاہک اس سے خوش نہیں گیا تو قصور کے طور پر اسے باتوں کے ساتھ ڈبل کام کروایا جاتا کتنا مجبور تھی نہ وہ جس نے دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے اندر کی عورت کو مار دیا تھا ہاں یہ سچ تھا کہ اس کے اندر کی عورت مر چکی تھی۔
"کیا بات ہے یوں کیوں لیٹی ہوئی ہو؟"
انجیل بی نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا دلسوز نے چہرے کا رخ موڑ کر ان کی جانب دیکھا اور پھر سر ان کی گود میں رکھا لیا۔
"ماں کیا ہوتی ہے انجیل بی! ویسی نہ جیسی سلسبیل بائی تھیں مضبوط ایک ڈھال کے جیسی؟"
انجیل بی کی چادر کے کونے کو اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے وہ بڑے ہی عجیب انداز میں کہہ رہی تھی۔سلسبیل بائی کے نام پر ان کی آنکھوں میں چند آنسوؤں کے قطرے چمکے تھے مگر چہرے پر مسکراہٹ رقصاں تھی۔
"شیر عورت تھی وہ تو مجھے ابھی بھی یاد ہے جس دن باہمین پیدا ہوئی تھی بہت چھوٹی تھی سلسبیل یہی کوئی سترہ سال کی ۔ ننھے وجود کو اپنی بانہوں میں بھرے وہ آنسو بھری آنکھوں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ حالات نے میری بہن کو سترہ سال کی عمر میں ہی اتنا بڑا اور سمجھدار کردیا تھا کہ باہمین کو گود میں اٹھائے کہنے لگی۔
"آپا!میری بیٹی کے ساتھ کبھی وہ نہیں ہوگا جو میرے ساتھ ہوا ہے جو آپ کے ساتھ ہوا ہم تو حق کی تلاش میں گھر سے نکلے تھے۔ میری بیٹی ایک کوٹھے پر پیدا ضرور ہوئی ہے مگر یہ کبھی بھی ایک طوائف نہیں بنے گی میں جب تک زندہ رہوں گی اس کی حفاظت کروں گی۔"
انجیل بی سلسبیل کے جملے یاد کرتے ہوئے اشک بار نگاہوں سے دلسوز کو بتا رہی تھیں۔
"سلسبیل بائی نے اپنا کیا ہوا ہر وعدہ پورا کیا انجیل بی انہوں نے اپنی آخری سانس تک اپنی بیٹی کی حفاظت کی اور ایک میری ماں تھی جس نے پیدا ہوتے ہی مجھے پھینک دیا۔"
کہتے کہتے دلسوز کے لہجے میں تلخی سمٹ آئی تھی۔
"شیش!! بس خاموش تم میری بیٹی ہو ایسی باتیں نہیں کرتے چلو اٹھو شاباش چائے بناو اپنے لیے بھی اور میرے لیے بھی پھر دونوں ماں بیٹی مل کر پیتے ہیں۔"
اسے تسلی دینے کے ساتھ انہوں نے حکم بھی جاری کیا تھا دلسوز مسکرا کر چائے بنانے چلی گئی تھی جبکہ وہ خود ماضی کی بوسیدگی میں کہیں کھو گئی تھیں جہاں سب کچھ بوسیدہ تھا مگر پھر بھی ماضی ہمشہ خوبصورت ہوا کرتے ہیں حال سے بہت بہتر۔
"آہ! دلسوز کیسی ماں ہوں میں تمہیں اپنی بیٹی بول تو دیا مگر حفاظت نہیں کرسکتی تمہاری۔ باہمین میری آنکھوں کے سامنے سے کوئی خرید کر لے گیا اور میں صرف کھڑے ہوکر تماشہ ہی دیکھ سکی تھی میرے اندر اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ اس کے آگے ڈھال بن کر کھڑی ہوسکتی۔"
لہجہ پس مردہ سا تھا وہ بُری طرح اپنے آپ کو قصور وار سمجھ رہی تھیں مگر وہ انجان تھیں اس بات سے کہ قصور تو کسی کا بھی نہیں ہوتا یہ تو قسمت ہی ہوتی ہے جو آپ کو جب جی چاہتا ہے اپنی من پسند جگہ پر لے جاتی ہے۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں مگر انہوں نے پلکیں جھپک کر آنکھوں میں اُمڈنے والی نمی کو خود میں ہی اتارا تھا جیسے وہ برسوں سے کرتی آرہی تھیں۔ بڑی سی سفید گاڑی ان کی نگاہوں کے پردے پر آج برسوں بعد پھر ابھری تھی سارے مناظر دھندلا گئے تھے۔

---------------------------------------
لال حویلی میں پیر سید آبیان بخت کی شادی کی تیاریاں اپنے پورے جوبن پر تھیں آج شام کو مہالہ کا مایوں تھا پوری لال حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا بڑی بڑی سرخ اینٹوں سے بنی اس حویلی کی اونچی عمارت پر پیلی بتیوں کی لڑیوں کا پورا ڈھیر لگا ہوا تھا پوری لال عمارت پیلی بتیوں سے ڈھکی ہوئی تھی اسی طرح گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی شفاف اینٹوں کی روش کے اطراف میں بھی بتیاں لگائی گئی تھیں لال حویلی میں ایک چہل پہل کا ساماں تھا دوپہر کے وقت ہی گاوں کے مختلف گھروں کی عورتیں حویلی کے کام نمٹانے کے لیے حاضرِ خدمت تھیں اس وقت حال کمرے میں بیٹھیں تمام عورتیں مختلف دوپٹوں پر گوٹے کناریاں لگا رہی تھیں جبکہ بی بی سرکار ان کے سر پر بیٹھی انہیں روک ٹوک کرتی دکھائی دے رہی تھیں بارینہ اور ممتہیم بیگم بھی قریب بیٹھی شام کی تقریب کے بارے میں باتیں کررہی تھیں۔
"بخت پتر آئے نہیں اب تک؟"
بی بی سرکار نے زرہ کی دیر دھیان ہٹا کر ممتہیم بیگم سے پوچھا تھا جو ایک دم سے جیسے خاموش ہوگئی تھیں۔
"پیر شاہ نے فون کیا تھا بی بی سرکار! اور انہیں حکم بھی دیا تھا کہ پہنچیں ہمارا خیال ہے تھوڑی دیر میں آنے ہی والے ہونگے۔"
ممتہیم بیگم نے زرہ شرمندہ ہوتے ہوئے ہی انہیں آبیان کی بابت بتایا تھا۔
"ہوں!! اچھا ہے وقت پر آجائیں ورنہ سارے گاوں میں ہماری تھو تھو ہو جائے گی گدی نشین ہوکر ایسی لاپرواہیاں کرتے ہیں مستقبل میں گدی کیا خاک سمبھالیں گئے۔"
وہ بھی لگتا تھا آج خوب تپی ہوئی تھیں آبیان پر اسی لیے ان دونوں کے آگے اپنے جلتے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔ اس سے پہلے کے وہ اس کی شان میں مزید قیاس آرائی کرتیں لال حویلی کا مغلیہ دروازہ کھل چکا تھا اور سیاہ اوڈی رسانیت سے اندر داخل ہورہی تھی اس کے پیچھے ہی ایک اور گاڑی بھی موجود تھی۔
"لیں بی بی سرکار! بخت آ چکے ہیں ہم آپ سے کہہ رہے تھے نہ اب ہمارا بیٹا اتنا بھی لاپرواہ نہیں ہے۔"
ممتہیم بیگم فوری سے بیشتر بیٹے کی حمایت میں میدان میں کودی تھیں۔ بی بی سرکار کے چہرے کی مسکراہٹ بھی بڑی بے ساختہ تھی۔
"شکر ہے مالک کا جس نے بخت پتر کو نیک ہدایت دی کہ وہ وقت پر پہنچ گئے۔"
بی بی سرکار چہرہ اوپر کرکے کہہ رہی تھیں تب تک وہ حال کمرے میں داخل ہوچکا تھا۔
"اسلام علیکم بی بی سرکار!"
سلام کرتے وہ ان کے سامنے جھکا تھا ان کے ہاتھوں کی پشت پر بوسہ لیا تو انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا۔
"شکر ہے آپ آگئے ورنہ ہم تو سوچے بیٹھے تھے کہ شادی اس بار دلہے کے بغیر ہوگی۔"
بی بی سرکار شریر لہجے میں اس کے زخموں پر نمک پاشی کرگئی تھیں اس نے لب پینچ کر خود کو قابو میں کیا تھا ممتہیم بیگم سے اس کی یہ حالت کسی طور بھی پوشیدہ نہیں تھی۔ اپنی ماں اور تائی سے مل کر وہ کچھ دیر وہی قریب بیٹھ گیا۔۔
"اماں سرکار! بابا سرکار اور تایا سرکار کہاں ہیں؟"
اس نے چھوٹتے ہی اپنے بابا اور تایا کے متعلق پوچھا تھا۔
"بیٹا بیٹھک میں ہیں وہ لوگ گاوں کے کچھ بزرگ آئے ہوئے ہیں ان کے ساتھ بیٹھے ہیں جائیں آپ بھی ان سے سے وہی مل لیں۔"
ان کی بات پر وہ سر ہلا کر بیٹھک کی جانب چل دیا جبکہ وہ دونوں واپس اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔
"کیا بات ہے ایسے کیوں بیٹھی ہوئی ہیں؟"
وہ دونوں اس وقت مہالہ کے کمرے میں موجود تھیں جس کے بستر پر مایوں کا زرد جوڑا رکھا ہوا تھا اور خود وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موندے بیٹھی ہوئی تھی۔۔"
"سوچ رہی ہوں کسی کی زندگی میں زبردستی شامل ہونا بھی کتنے حوصلے کی بات ہوتی ہے نہ کہ آپ جانتے ہو کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے پھر بھی اسے اپنے نکاح میں قبول کرکے اس کی زندگی میں شامل ہوجاتے ہو۔"
وہ دھیرے سے آنکھیں موندے کہہ رہی تھی۔
"یوں نہ کہیں افروز جان! آپ کی ایسی باتوں سے میرا دل دُکھتا ہے۔"
درناب نے تڑپ کر اس کے گھٹنوں کے گرد پھیلے ہوئے بازوں پر ہاتھ رکھا تھا۔
"یہ وہ حقیقت ہوتی ہے درناب جس سے ہم جانتے بوجتے ہوئے بھی نگاہیں چُرا لیتے ہیں مگر سچ تو یہی ہوتا ہے کہ یہ کسی اٹل حقیقت کی طرح ہر لمہہ پن پھیلائے آپ کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔"
مہالہ کے لہجے میں کچھ تو ضرور تھا جس نے اپنے کمرے میں جاتے آبیان کو ٹھٹکا دیا تھا وہ جو ابھی ابھی اوپر آکر اپنے کمرے میں جارہا تھا مہالہ کے کمرے سے آنے والی اس کی آواز پر ٹھہر گیا تھا۔
"جانتی ہو تم نہ کہ اپنے بچپن سے لے کر آج تک میں نے صرف یہی سُنا ہے کہ مہالہ افروز بخت سرکار کی ہے میرے ننھے ذہن میں اگر بار بار کوئی یہی بات ڈالے کہ میں بخت سرکار کی ہوں تو میرے ذہن نے اس حقیقت کو دل و جان سے قبول کرلیا ہے تب سے ان سے محبت کی ہے جب شاید محبت کے م سے بھی میری آشنائی نہیں تھی مگر جب اس محبت کے ثمر کا وقت آیا تب مجھے پتا چلا وہ تو کسی اور سے محبت کرتے ہیں ان کی زندگی میں میری تو کوئی جگہ کبھی بنتی ہی نہیں تھی۔
"پلیز افروز جان!"
درناب کے لہجے میں التجا تھی مگر مہالہ اس لمہے اسے سن ہی کہا رہی تھی۔
"باہمین زاہرہ سے التجا میں نے یونہی نہیں کی تھی درناب!"
باہمین کے نام پر آبیان کی تمام حسیں مزید بیدار ہوئی تھیں وہ جیسے دم سادے کھڑا تھا۔
"میں نہیں چاہتی تھی کہ ساری عمر بخت سرکار میرے وجود میں باہمین زاہرہ کو ڈھونڈتے رہیں جب بھی وہ میرے نزدیک آئیں وہ میرے بجائے اس کی خوشبو کے متمنی ہوں۔"
اس کا لہجہ بکھرا ہوا تھا آبیان گہرا سانس بھر کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا اس کے دل پر بوجھ مزید بڑھ گیا تھا وہ صرف باہمین زاہرہ کا قصور وار ہی نہیں تھا بلکہ مہالہ افروز کا بھی مجرم تھا۔

-----------------------------------

وہ صبح فجر کے وقت نیلم جانے والی بس میں سوار ہوئی تھی اور تقریباً رات کو وہ نیلم پہنچی تھی۔ سرد رات کے خاموش پہاڑ اکثر و بیشتر اسے خوفزدہ کردیا کرتے تھے مگر پھر بھی ریحا بختیار کو پہاڑوں سے عشق تھا کیونکہ ان پہاڑوں میں بستی زندگی ریحا بختیار کو بہت شفاف محسوس ہوتی تھی بے غرض سی۔ بس سٹاپ سے اس نے اپنے لیے کوئی جیپ تلاش کی تھی کوئی لوکل جیپ جو اسے رات کے اس وقت اوپر اونچائی پر موجود اپنے گھر کی طرف لے جاتی تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے گھر کے باہر تھی لکڑی کے بنے برف سے آدھ ڈھکے دروازے کے سامنے کھڑے اسے شدت سے سردی کا احساس ہوا تھا نیلم کی حدود میں داخل ہوتے ہی اس نے گرم شال اپنے شانوں پر ڈالی تھی اب اس وقت اپنے گھر کے باہر کھڑے سردی سے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سی سنسناہٹ پیدا ہورہی تھی۔ تقریباً دو منٹ کے بعد ہی دروازہ کھل گیا تھا دروازہ کھولنے والی راغیص تھی ریحا کو دیکھ کر خوشی سے اس کی حالت غیر ہورہی تھی۔
اندر آکر اسے گرمائش کا احساس ہوا تھا وہ سیدھی آتش دان کے قریب بیٹھی تھی۔
"اف مجھے لگ رہا تھا باہر کھڑے کھڑے میری قلفی جم جائے گی اتنی ٹھنڈ تھی توبہ۔"
اپنے ہاتھوں کو آپس میں باہم رگڑتے ہوئے وہ ٹھٹھرتے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"ہاں سردی تو واقعی ہی بہت ہے تم رکو میں تمہارے لیے ہاٹ چاکلیٹ بنا کر لاتی ہوں۔"
راغیص کہہ کر کچن کی جانب بڑھنے لگی تھی۔
"بجو! بابا کہاں ہیں؟"
کچن میں جاتی راغیص نے اچانک سے حزیمہ بختیار کے بارے میں پوچھا تھا۔
"وہ آج ریسٹ ہاوس میں ہی رکیں گئے کوئی اہم اور بڑی پارٹی سٹے کے لیے آئی ہے۔"
کچن کی دہلیز پر کھڑے اس نے ہانک لگانے والے لہجے میں کہا تھا ریحا نے گہری سانس بھری تھی اب وہ قدرے گرم اور آرام دہ محسوس کررہی تھی شانوں پر چادر درست کرکے وہ سیدھا کچن میں راغیص کے پاس ہی آگئی تھی۔
"تیاری ہوگئی تمہاری؟"
فروٹ باسکٹ سے سیب اٹھا کر کاٹتے ہوئے وہ شیلف پر چڑھ کر بیٹھتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی لہجہ بے حد سرسری سا تھا۔
"کس بات کی تیاری؟"
راغیص نے مگ میں گرم چاکلیٹ ڈالتے ہوئے کہا تو ریحا شیلف سے اتر کر سیدھا اس کے پیچھے آکھڑی ہوئی۔
"تم انجان بن رہی ہو یا جان بوجھ کر کررہی ہو۔"
وہ ابرو اچکاتے ہوئے قدرے حیرت سے گویا ہوئی تھی۔
"نہ تو میں انجان بن رہی ہوں اور نہ ہی جان بوجھ کر کررہی ہوں مجھے کچھ تیاری کرنی ہی نہیں ہے سارا کچھ لڑکے والوں کے گھر سے ہی آنا ہے ایسی کوئی ان کی رسم ہے اس لیے میں ریلیکس ہوں۔"
مگ میں اب کی بار گرم دودھ انڈیلتے ہوئے وہ خاصی لاپرواہی سے بولی تھی۔
"ہمم! یعنی کہ بابا اپنی بیٹی کو یہاں سے خالی ہاتھ رخصت کرنے والے ہیں۔"
ریحا بختیار خاصی پُرسوچ دیکھائی دے رہی تھی۔
"نہیں بابا کیش دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔"
مگ میں چمچ ہلا کر اس نے ریحا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا۔
"او!آئی سی۔"
ہاٹ چاکلیٹ کا سپ لیتے ہوئے اس نے آنکھیں حیرت سے کھولی تھیں۔
"تم خوش ہو نہ؟"
اب کی بار اس کی جانب سے سنجیدگی سے سوال کیا گیا تھا راغیص کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی حلق میں آنسوؤں کا ایک پورا ریلہ پھنسا تھا وہ چاہتی تھی کہ اس کا کوئی ایک قطرہ بھی آنکھوں کے گوشوں سے عیاں نہ ہو مگر ضبط کی بھی شاید ایک حد ہوتی ہے گوشے بھیگے تھے تو قطرے ٹپک کر رخساروں پر لڑکھ آئے تھے ریحا نے خاموشی سے بغیر کچھ بھی بولے اس کے رخساروں پر چمکتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا تھا۔
"اتنا مشکل تو اس کے مڑ کر نہ دیکھنے پر بھی نہیں لگا تھا جتنا اب لگ رہا ہے یوں محسوس ہورہا جیسے دھیرے دھیرے کوئی میرا دل چیر رہا ہو۔"
بھیگے ہوئے لہجے میں وہ اپنی اذیت بیان کررہی تھی۔
"تو انکار کیوں نہیں کرتی ہو؟"
ریحا اب کی بات عاجر آچکی تھی۔
"اگر یہ یقین ہوتا کہ اپنے انکار کے بعد میں اسے معاف کرپاوں گی تو یقیناً انکار کرکے اس کو معاف کردیتی مگر میرے اذیت میں گزارے ہوئے لمہات کا حساب دینے سے وہ قاصر ہے۔"
رندھی ہوئی آواز میں بولتے بولتے لہجے میں ایک دم سختی آگئی تھی کہ قریب کھڑی ریحا حیرت سے گنگ رہ گئی اسے واقعی ہی ارغن پر غصہ اور رحم بیک وقت آیا تھا مشکل تھا کہ راغیص اسے معاف کرتی دیکھنا یہ تھا کہ قسمت دونوں کو کہاں لا کر مارنے والی تھی۔

تم نے سمجھا ہی نہیں
اور نہ ہی سمجھنا چاہا

ہم چاہتے ہی کیا تھے
تم سے صرف تمہارے سوا

--------------------------------------------

شام کے سائے دھیرے دھیرے فضا میں گہرے ہورہے تھے وہ تن تنہا اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی اپنے پسندیدہ مشغلے میں محو تھی خلا میں لمہوں گھورنا اسے بے تحاشہ پسند تھا۔ اپنی محویت میں وہ دروازہ کھول کر اندر آنے والی ہستی کو قطعاً نہیں دیکھ پائی تھی باہمین زاہرہ کا دل آج بے حد پریشان تھا اس کے پیچھے چھپی ہوئی وجہ جاننے سے فل وقت وہ قاصر تھی وہ تب چونکی جب اسے اپنی کمر اور پیٹ پر دباو کا احساس ہوا اسے اپنی گردن کے نزدیک کسی کے سانس لینے کی آواز باخوبی سنائی دے رہی تھی گرم سانسیں گردن پر کسی تپتی ہوئی ریت کی مانند محسوس ہورہی تھی وہ لمس اسے اپنے وجود پر کسی دہکتے ہوئے لاوے کی مانند لگ رہا تھا وہ اپنی جگہ پر جامد ہوگئی تھی اسے شدید گِھن کا احساس ہوا تھا۔ باہمین کے منہ کے زاویے لمہوں میں بگڑے تھے اس نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ کر اسے خود سے دور دھکیلنے کی کوشیش کی تھی۔
"چھوڑو مجھے!"
اس کی گرفت سے نکلنے کے لیے وہ مچلی تھی مگر مقابل کی گرفت سخت تھی۔
"چھوڑنے کے لیے تھوڑی نہ پکڑا ہے فی الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ہاں اپنی اس بات پر میں کتنا عرصہ قائم رہتا ہوں اندازہ لگانا تھوڑا مشکل ہے۔"
اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے دمیر کچھ فاصلے پر ہوا تھا۔
"تم انتہائی گھٹیا انسان ہو تمہیں اللہ کا کوئی خوف ہے بھی کہ نہیں ۔"
رخ اس کی جانب موڑتے ہوئے باہمین نے حقارت سے کہا تھا۔
"او پلیز ایسی باتیں کرکے میرا موڈ خراب نہیں کرو تم پریٹی لیڈی! جاو اور جلدی سے یہ ڈریسز ٹرائے کرو۔"
اس کے بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے اڑسا کر دمیر نے چند شاپنگ بیگز اس کی جانب بڑھائے تھے باہمین نے غصے سے پہلے اسے اور پھر اس کے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگ کو گھورا تھا شاپنگ بیگ اس کے ہاتھ سے تھام کر اس نے دور دروازے کی طرف پھینکا تھا۔
"تمہاری ان بے ہودہ عنایات کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے سمجھے!"
لال بھبھوکا چہرہ لیے وہ شعلہ جوار بنی اسے گھور رہی تھی۔
اس کی اس بے ساختہ حرکت پر دمیر کا چہرہ خفت کی زیادتی سے سرخ پڑا تھا غصے میں پھولتے اپنے تنفس کو قدرے قابو میں کرکے وہ دروازے میں گرے ہوئے اس شاپنگ بیگ کی جانب بڑھا تھا۔ بغیر کچھ بولے انہیں اٹھا کر وہ واپس عین باہمین زاہرہ کے سامنے آیا تھا۔
"پکڑو انہیں!"
سپاٹ چہرے کے ساتھ ہاتھ اس کے سامنے کیے وہ از حد سنجیدہ دیکھائی دے رہا تھا۔
"کہا نہ نہیں پکڑوں گی۔"
دانت پیستے ہوئے وہ بولی تو دمیر نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود سے نزدیک کرلیا۔
"اگر تم یہ نہیں چاہتی کہ تمہارے ساتھ پھر سے وہی سب ہو جو اس روز ہوا تھا تو جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو آج تمہیں تفصیل سے دیکھنے کو جی چارہا ہے آج ہم صرف باتیں کریں گئے تمہارے اس بے لوث حسن کو خراج پیش کرنے کے لیے تو ابھی بہت وقت ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں تم سے جلدی بیزار آجاوں ابھی تمہیں اور اپنے پاس رکھنا ہے۔"
اس کے جملے باہمین کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا رہے تھے اس کی گرم سانسوں کی تپش باہمین زاہرہ کا چہرہ جھلسا رہی تھی اس نے کہاں سوچا تھا کبھی کہ کوئی نامحرم یوں اس کے اتنا نزدیک آ کھڑا ہوگا۔
"پکڑو اور اس میں موجود گرین ساڑھی پہن کر آو۔"
شاپنگ بیگ اس کی جانب بڑھا کر ساتھ میں حکم بھی جاری کیا گیا تھا ساڑھی کے نام پر باہمین کی آنکھیں پوری کی پوری پھیلی تھیں اس بیچاری نے کبھی اپنی زندگی میں ساڑھی نامی بلا کی شکل تک نہیں دیکھی تھی مگر دمیر کا خوف اس لمہے اس قدر غالب تھا کہ کانپتے ہاتھوں سے اس نے شاپنگ بیگ تھام لیا۔
"مجھے تم سے نفرت ہے یاد رکھو تم۔"
اس کے ہاتھ سے شاپنگ بیگ جھپٹے ہوئے وہ زہر خندہ لہجے میں گویا ہوئی تھی بدلے میں دمیر کا قہقہہ کمرے کے خاموش ماحول میں پوری طرح سے گونجا تھا۔
"میں کب چاہتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہو یہ نفرت اور طلب کی تکرار ہی بہت ہے اس سے زیادہ کا تعلق بناو تو بچھڑنا مشکل ہوتا ہے۔"
واشروم کی جانب جاتے ہوئے اسے اپنے پیچھے دمیر کی آواز سنائی دی تھی مگر وہ مزید کچھ بھی بولے بغیر واشروم میں بند ہوگئی تھی۔ دروازہ لاک کرکے اس نے گہرا سانس بھرا تھا خاموش آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر آنکھوں کے راستے گالوں پر بہے تھے چہرہ اوپر کو اٹھا کر اس نے ایک اور شکوہ داغا تھا جب سے وہ یہاں آئی تھی دو ہفتوں سے اس نے کوئی نماز نہیں پڑھی تھی۔
بوٹل گرین رنگ کی ساڑھی کے ساتھ گولڈن مختصر سا سلیو لیس بلوز تھا اس بلوز کو دیکھ کر باہمین کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پھیلی تھیں۔ وہ کبھی ساڑھی کو دیکھ رہی تھی تو کبھی واشروم کے بند دروازے کو عجیب صورتحال تھی یہ لباس پہن کر وہ اس کے سامنے کیسے جاتی مگر دوسری جانب اس کی دی گئی دھمکی نے جیسے اس کی پوری انا پر اُوس گرا دی۔ واقعی ہی کبھی کبھی انسان خود کے وقار کو بچانے کے لیے اپنی انا کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور یہی باہمین زاہرہ بھی کررہی تھی اس نے تیزی سے جیسے تیسے ہوا ساڑھی باندھی تھی اپنی ماں کو پہنے دیکھنے کا شاید اسے آج فائدہ ہوا تھا۔
گولڈن پلین مختصر سلیو لیس بلوز کے ساتھ باٹل گرین شیفون کی وہ ساڑھی جس کے کناروں پر گولڈن موتیوں سے نفیس اور خوبصورت کام کیا گیا تھا بہت خوبصورت تھی باہمین زاہرہ کے خوبصورت دودھیہ متناسب بازو بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے لمبے سیاہ سلکی بالوں کو ہاف کیچر میں باندھ کر وہ بغیر میک اپ کے واشروم سے باہر نکلی تھی آگے کی جانب سے ساڑھی کو بار بار کھینچ کر آگے کرتی وہ بے حد شرمندہ دکھائی دے رہی تھی فون پر بات کرتے دمیر کے الفاظ اسے دیکھ کر کہیں منہ میں ہی رہ گئے تھے وہ یک ٹک اس کی جانب دیکھ رہا تھا جو شرمندگی سے نگاہیں جھکائے ایسے کھڑی تھی جیسے ابھی کے ابھی زمین پھٹے گی اور اس میں سما جائے گی۔

-----------------------------------

لال حویلی کی رونقیں اپنے پورے عروج پر تھیں راجن پور کے گاوں کی آج دعوتِ عام تھی پورے گاوں کی دعوت لال حویلی میں تھی کیونکہ آج کوئی عام دن نہیں تھا آج سے لال حویلی کے اکلوتے وارث کی شادی کی تقریبات شروع ہوچکی تھیں۔لال حویلی کے لان میں راجن پور گاوں کے لوگ دعوت سے لطف اٹھا رہے تھے پورچ کے ایک جانب تازہ دیگیں تیار ہورہی تھیں مرد حضرات سارے لان میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے پیر زرگل بخت اور پیر زرشاہ دونوں ایک ساتھ لکڑی کے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ساتھ میں گاوں کے معزز بزرگان بھی موجود تھے۔ آبیان ابھی وہاں موجود نہیں تھا۔
"پیر شاہ! بخت آئے نہیں ابھی تک؟"
پیر زرگل بخت نے دھیرے سے پیر زرشاہ کے کان کے قریب آکر کہا تھا۔
"بس آنے ہی والے ہونگے اور کچھ ہی دیر میں بی بی سرکار بھی آنے والی ہیں یہاں۔"
انہوں نے اسی لہجے میں جواب دیا تو وہ سر ہلا کر دوبارہ گرد و نواں میں مشغول ہوگئے۔ کچھ ہی دیر میں وہ اندرونی دروازے سے باہر آتا ہوا دکھائی دیا۔
سیاہ شلوار قمیض پر ہلکے گرے رنگ کی شال اُوڑے سیاہ پشاوری چپل سے پیروں کو قید کیے اس کے چہرے میں سنجیدگی اور چال میں وقار تھا۔
"اسلام علیکم!"
قریب پہنچ کر اس کی جانب سے مشترکہ سلام کیا گیا تھا سب حضرات اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"وعلیکم اسلام! یہاں آئیے بخت!"
پیر زرگل نے اسے اپنے ساتھ پڑے خالی صوفے کی جانب اشارہ کرکے آنے کو کہا تھا وہ سر ہلا کر ان کے نزدیکی صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے کی دیر تھی کھانا لگا دیا گیا تھا سب لوگ کھانے کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"خیر ہے تایا سرکار! اس سب کی کیا ضرورت تھی ابھی آج کونسا نکاح تھا جو پورے گاوں کو بُلا لیا۔"
دل میں مچلتے ہوئے سوال کو آخر زبان پر عیاں کر ہی دیا گیا تھا۔
"یہ ضروری تھا راجن پور کی دستار کے اکلوتے وارث کی شادی ہے گاوں کے لوگوں کی دعوت تو بنتی ہی تھی۔"
ان کے لہجے میں خوشی اور فخر بیک وقت چمکا تھا۔ اس کی اتنی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ کچھ بول ہی دے وہ بس خاموشی سے لوگوں کو کھانا کھاتے دیکھتا رہا سچ تو یہ تھا کہ اس کی ساری بھوک مر چکی تھی۔

حویلی کا اندرونی منظر دیکھنے لائق تھا ہال کمرہ پورا پیلے اور سرخ پھولوں سے سجایا گیا تھا کارپیٹ پر پیلی چادروں کے ساتھ ہم رنگ تکیے رکھ کر ڈھولک بجانے کی جگہ بنائی گئی تھی جبکہ سامنے رکھے صوفوں کے پیچھے ہر جانب کو پیلے اور سرخ پھول لگا کر خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ گاوں کی لڑکیاں ادھر اُدھر گھوم پھر رہی تھیں خوشی ہر چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔ بارینہ اور ممتہیم بیگم گاوں کی بزرگ عورتوں کے ساتھ صحن میں مصروف دکھائی دے رہی تھیں جبکہ بی بی سرکار تخت پر اپنے ازلی سیاہ لباس میں حقہ گڑگڑا رہی تھیں۔
"جائیے بڑی بیگم! افروز جان کو بلوا لیجیے پھر رسم کرکے ہمیں مردوں میں بھی جانا ہے۔"
بی بی سرکار کے حکم پر انہوں نے باورچی خانے کی جانب جاتی ہوئی رکھی کو آواز لگائی تھی۔
"جا دیکھ افروز جان تیار ہوئی کہ نہیں انہیں بول کہ بی بی سرکار بُلا رہی ہیں جلدی نیچے آجائیں۔"
اسے حکم نامہ جاری کرکے خود وہ کچن کی جانب بڑھ گئی تھیں جہاں بہت سے پھیلے ہوئے کام ان کی توجہ کے منتظر تھے۔
مہالہ کے کمرے میں درناب اور اس کی خاص ملازمہ چندہ موجود تھی جو مہالہ کی تیار ہونے میں مدد کررہی تھی اسے تیار کیا ہونا تھا صرف کپڑے پہن کر بال ہی تو بنانے تھے۔ وہ پلم اور پیلے امتزاج کے فراک میں ملبوس تھی خوبصورت پلم سادہ باڈی پر گوٹے سے کام کیا گیا تھا جبکہ نیچے پیلا کلیوں والا گھیر دار فراک تھا جس پر جگہ جگہ گوٹے کی بُوٹیاں بنی ہوئی تھیں فراک کے نیچے پلم چوڑی دار پجامہ پہنے سر پر پیلا دوپٹہ اوڑے جس کے سارے کناروں پر بھرواں گوٹے کا کام موجود تھا بے حد حسین لگ رہی تھی بالوں کو ڈھیلی چوٹی میں باندھ کر ایک جانب کو ڈال رکھا تھا ہاتھوں میں گجرے کانوں میں گلاب کے بُندے ماتھے پر گلاب کے پھولوں کی بندیا لگائے وہ واقعی ہی سادگی میں بھی قیامت ڈھا رہی تھی۔
"ماشاءاللہ افروز جان! بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ اللہ آپ کو ہر بُری نظر سے محفوظ رکھے۔"
درناب کی دعا پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ دھیرے سے مسکرائی تھی۔ دروازہ کھولتی رکھی عجلت میں اندر داخل ہوئی تھی۔
"افروز جان! کو بی بی سرکار بُلا رہی ہیں نیچے جلدی کریں درناب بی بی!"
بارینہ بیگم کا پیغام پہنچا کر وہ واپس کو پلٹ گئی تھی مگر بی بی سرکار کا پیغام سن کر مہالہ نے جلدی سے اپنے پیروں میں کھسا پہنا تھا اور درناب اور چندہ کی میت میں سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی اسے درناب اور چندہ کی ہمراہی میں نیچے اترتا دیکھ کر صحن میں موجود تمام خواتین متوجہ ہوئی تھیں مختلف چہم گوئیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا وہ ہال کمرے میں لے جائی گئی تھی سرخ اور پیلے پھولوں سے سجی دیوار کے ساتھ لگے ایک صوفے پر اسے بیٹھایا گیا تھا۔ سب سے پہلے بی بی سرکار آئی تھیں سر پر سیاہ دوپٹہ اُوڑے کندھوں پر سیاہ ہی چادر ڈالنے وہ اپنے ازلی روب و دبدے سمیت لگ رہی تھیں۔
اس کے گال پر ابٹن اور ہاتھ میں دھرے پتے پر مہندی لگا کر بی بی سرکار نے اس کی رسم سب سے پہلے پوری کی تھی۔
"خوش رہیے اللہ آپ کا سہاگ صدا سلامت رکھے۔"
بی بی سرکار نے رسم سے فارغ ہوکر اس کا ماتھا چومتے ہوئے اسے دعا دی تھی اور پھر اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئیں۔ ان کے جانے کے بعد بارینہ اور ممتہیم بیگم نے اس کی رسم کی تھی اس کی آنکھیں نجانے کیوں بار بار چھلکنے کو بیتاب دکھائی دے رہی تھیں آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔ دھیرے دھیرے سب عورتیں رسم کے لیے آ اور جا رہی تھیں درناب گاوں کی لڑکیوں کے ساتھ نیچے بیٹھی ڈھولک پر گیت گانے میں مصروف تھیں وہ تھک کر چُور ہوچکی تھی۔
"اماں جان!"
اس نے اپنے قریب بیٹھی ہوئی بارینہ بیگم کے قریب ہوکر کہا تھا۔
جی بیٹا!"
وہ فوری سے بیشتر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
"میں بہت تھک گئی ہوں پلیز کمرے میں بھیجوا دیں۔"
اس کے چہرے سے ہی شدید تھکن کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے سر ہلا کر رکھی سے کہا تھا جو مہالہ کی خاص ملازمہ تھی وہ اسے احتیاط سے اٹھا کر اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئی کل اس کا نکاح تھا اور اس سے پہلے اسے سکون چاہئیے تھا جو فل الوقت کہیں میسر نہیں تھا۔ وہ اپنے کمرے میں آکر بستر پر بیٹھی تھی فضا میں گہرا سانس خارج کرتے ہی دل جیسے یک گونہ سکون سے بھرا تھا بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندے وہ نجانے خیالات کی کونسی بستی میں سیر کررہی تھی بند نگاہوں کے پردے پر پہلے آبیان بخت اور پھر اس کے بعد باہمین زاہرہ نمودار ہوئی تھی دونوں ساتھ کھڑے زندگی کا ایک مکمل خاکہ پیش کررہے تھے اس پورے خاکے میں ایسی کوئی بھی جگہ نہیں تھی جہاں مہالہ افروز فٹ آسکتی۔ بند آنکھوں کے گوشے پوری طرح سے بھیگے تھے پلکوں کی جھالر لرز رہی تھی نم پلکوں سے آنسوں کی باڑ سب کچھ توڑ کر باہر کو آئی تھی سفید بے داغ گال نم پانی کے قطروں سے بھیگ گئے تھے ستواں ناک پر سرخی ابھری تھی خاموش فضا میں مہالہ افروز کی ایک شکستہ سسکی برآمد ہوئی تھی۔
کتنی بے رحم ہوتی ہے یہ تقدیر شفاف انسان کو مکمل وجود بھی نہیں دے پاتی اس لمہے مہالہ افروز کے ذہن میں ابھرنے والا یہی شکوہ تھا جو ناچاہتے ہوئے بھی اس کے دل میں جگہ بنا گیا تھا۔
"کل ایک ایسے انسان کی زندگی میں شامل ہوجاوں گی جو پہلے سے ہی کسی اور سے محبت کرتا ہے میں نے اسے کسی اور کے لیے تڑپتے دیکھا ہے اس کے لیے آبیان بخت کو لال حویلی کی روایات سے ٹکرانے پر مضر دیکھا ہے اگر باہمین زاہرہ اسے معاف کردیتی تو یقیناً میری جگہ وہ کب کی اس کے نکاح میں ہوتی۔"
مہالہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے خود سے کہہ رہی تھی اذیت کی ایک گہری لہر اس کے پورے وجود میں سرایت کی تھی آسمان پر رات دھیرے دھیرے گہری ہورہی تھی گزرتی ہوئی رات کے ساتھ اس کے دل کی بے چینی بھی بڑھ رہی تھی کل وہ مہالہ افروز سے بیگم بخت بنے والی تھی مہالہ آبیان بخت۔

سنو! مجھ سے نہیں ہوتا
دلیلیں دوں مثالیں دوں

میری آنکھوں میں ہے
مجھے تم سے محبت ہے

سنو! مجھے نہیں آتا
کہ چھپایا کیسے جاتا ہے

مجھے کہنا نہیں آتا
مجھے تم سے محبت ہے

سنو یہ جسے تم راز کہتے ہو
وہ میری آنکھوں سے عیاں ہے

اسے تم بھی پڑھ لو نہ کہ
مجھے تم سے محبت ہے

خفا جو تم ہوتے ہو کہ
میں اظہار نہیں کرتی

لو پھر آج کہتی ہوں
مجھے تم سے محبت ہے

ایمن خان

------------------------------------------------

وہ یک ٹک اس کی جانب دیکھ رہا تھا دودھیہ بازو بوٹل گرین رنگ اس پر بے تحاشہ کِھل رہا تھا وہ آگے ہی اس کے حسن سے بری طرح متاثر تھا ایک بات تو دمیر بخت کو سمجھ میں آگئی تھی کہ وہ لڑکی اتنی جلدی اس کے دل سے نہیں اترنے والی وہ عام لڑکیوں جیسی بالکل نہیں تھی جن کے ساتھ ایک رات گزار کر دوبارہ کبھی انہیں ہاتھ لگانے کو دل ہی نہ چاہے وہ خاص تھی بے حد خاص شاید اس لیے اب تک ان چھوہی تھی اسے پہلی بار چھونے والا وہ خود تھا۔ فون بند کرکے جیب میں رکھ کر وہ سرایت سے چلتا ہوا اس کی جانب آیا تھا وہ نروس سی ساڑھی کے پلو کو بار بار کھینچ کر اپنا وجود ڈھانپنے کی کوشش کررہی تھی نگاہیں جھکائے وہ جیسے خود کو اس کی بے باک نگاہوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ چلتا ہوا بالکل اس کے نزدیک آیا تھا کیچر میں جکڑے اس کے بالوں کو ایک جھٹکے میں دمیر نے آزاد کیا تھا سیاہ بالوں کا لمبا گھنا آبشار اس کی پشت پر بکھرا تھا اس نے اپنی غزالی نگاہیں اٹھا کر غصے سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
دمیر نے اس کے لبوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھی تھی وہ کچھ بولتے بولتے خاموش ہوئی تھی۔
" تم بہت خوبصورت ہو بہت زیادہ!"
اس کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھے وہ سرگوشی میں کہہ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے خاموش کروایا تھا۔
"صاحب! کھانا لگا دیا ہے۔"
ماہ جبین نے ایک طائرانہ نگاہ دونوں پر ڈالی اور پھر پل میں نگاہیں جھکا کر کھڑی ہوگئی۔
"ٹھیک ہے تم چلو ہم آرہے ہیں۔"
دمیر نے اسے کہا تو وہ سر ہلا کر واپس مڑ گئی۔
"چلو باقی باتیں کھانے کے بعد۔"
اسے دروازے کی جانب اشارہ کرکے وہ خود آگے کو ہوا تھا۔
"میں ایسے باہر نہیں جاوں گی۔"
اس کے بڑھتے ہوئے قدم لمہوں میں تھمے تھے اور اس نے حیرت و ناسمجھی سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔
"کیا مطلب ایسے باہر نہیں جاو گی؟"
وہ ایک ابرو اچکا کر قدرے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"مطلب سیدھا اور صاف ہے ایسے بے ہودہ لباس میں تمہارے ملازموں کے سامنے میں ہرگز نہیں جاوں گی۔"
اس کے لہجے کی کاٹ ہنوز برقرار تھی۔
"ان کپڑوں میں کیا مسئلہ ہے؟"
اپنے لائے گئے لباس کے بارے میں سامنے کھڑی لڑکی کے خیالات جان کر یقیناً اسے گہرا جھٹکا لگا تھا۔
"اسے تم لباس کہتے ہو؟ دیکھو یہاں جسم کو ڈھانپنے کے لیے بھی یہ ناکافی ہے تمہاری نظروں میں تو میری کوئی عزت نہیں ہے کم از کم ان لوگوں کے سامنے تو رہنے دو جن کے ساتھ مجھے چوبیس گھنٹے اس چار دیواری میں گزارنے ہیں۔"
لہجے کو حتی المکان نارمل بنا کر وہ دھیرے سے بولی تھی دمیر بخت کو شاید پہلی بار اس کے لہجے میں بے بسی دکھی تھی مگر وہ خاموش تھا وہ خاموشی سے اس کے جھکے ہوئے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"تم نے پہلی بار کہا تھا کہ تم سید زادے ہو سید دمیر بخت! ہے نہ؟"
وہ اس کے اور اپنے درمیان کا فاصلہ عبور کرکے بالکل اس کے قریب آئی تھی وہ حیرت سے اس کے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس کے سوال پر دمیر کا سر دھیرے سے اثبات میں ہلا تھا۔
"سنا تھا سید زادے عزت کے معاملے میں بڑے غیرت مند ہوتے ہیں اپنے نصب کے باہر شادی نہیں کرتے غیر لڑکی کو دیکھتے بھی ہیں تو نگاہوں میں احترام کا سمندر ہوتا ہے مگر تم؟ تم تو ایسے نہیں ہو؟"
اس کی سفید بے داغ شرٹ پر اپنی شہادت کی انگلی پھیر کر وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے کہہ رہی تھی جبکہ دمیر صرف اس کے چہرے پر حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
"تم سید زادوں کے بارے میں اتنا کیسے جانتی ہو کتنوں کو بھگتا چکی ہو؟"
اس کے سوال کا اثر لمہوں میں زائل کرکے وہ اپنی ازلی شخصیت میں واپس لوٹا تھا۔ اس کے سوال پر باہمین ہنسی تھی۔
"آہ! کاش کہ بھگتا لیتی تو آج یہاں تمہارے رحم و کرم پر نہ ہوتی کاش کہ اس کی آخری پکار پر لبیک کہہ دہتی اور آج اس کی بیوی ہوتی تمہاری قیدی نہیں۔"
ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ حسرت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"کون تھا وہ؟"
نجانے کیوں مگر دمیر کو دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔
"تھا ایک تمہارے جیسا سید زادہ دستار پر محبت قربان کرنے والا نسب کی خاطر مجھ جیسے گندے خون کو ٹھکرا کر چلے جانے والا اور پھر غلطی کا احساس ہونے پر لوٹ آ کر معافی مانگنے والا۔"
اس کے ہونٹوں پر ابھی بھی ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
"پھر تم اس کے ساتھ کیوں نہیں گئی عزت چھوڑ کر تم نے ذلت و رسوائی کو کیوں چُنا؟"
اپنی زندگی میں پہلی بار شاید وہ کسی سے عزت و ذلت پر یوں محو گفتگو تھا۔
"انسان اپنی زندگی میں صرف ایک ہی بار خواب بُنتا ہے ایک ہی بار امید لگاتا ہے ایک ہی بار بھروسہ کرتا ہے اور شاید ایک ہی بار بیوقوف بنتا ہے۔"
کندھے اچکاتے ہوئے اس نے جیسے بات ختم کی تھی۔
"میں باہر کھانا کھانے جارہا ہوں تمہارا کھانا یہی بھیجوا دیتا ہوں۔"
وہ آہستگی سے کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا جبکہ باہمین گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئی۔

-----------------------------------------

نیلم کے پہاڑوں پر حسب معمول رات گہری تھی۔ آج کی رات بہت لمبی تھی کم از کم راغیص بختیار کے لیے تو آج کی رات گہری اور لمبی تھی وہ دونوں بہنیں اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں کمفٹر اپنی ٹانگوں پر ڈالے وہ بالکل ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں۔
"بجو! معما کے ساتھ کتنا مزہ آتا تھا نہ ان کے ساتھ باتیں کرنا بہت سارا وقت گزارنا مجھے آج معما کی بہت یاد آرہی ہے۔"
راغیص کے کندھے پر سر رکھے وہ آنکھیں موندے کہہ رہی تھی۔
"ہاں مجھے تو ہر وقت یاد آتی ہیں ان کے ہونے سے ہمارا گھر کتنا مکمل تھا نہ شہر کے پُر رونق علاقے میں جیسے زندگی بھی دوڑتی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور اب تو ان بلند و بالا ہیبت ناک پہاڑوں میں تو جیسے سناٹوں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں میں تو شاید اب ان سناٹوں میں بھی زندگی تلاش کرتے کرتے تھک گئی ہوں۔"
اس کے سر کے اوپر اپنا سر رکھتے راغیص نے بھی آہستگی سے کہا تھا۔
"ارے تم دونوں یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو؟"
حزیمہ بختیار دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے۔
"کوئی ہلہ گلُہ کرو لگ ہی نہیں رہا کل اس گھر میں شادی ہے۔"
ان کے بستر کے قریب بیٹھتے ہوئے انہوں نے مسکرا کر کہا تو وہ دونوں پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بس اپنے باپ کو دیکھتی رہ گئی۔
"نہیں بابا! رہنے دیں پلیز دل ہی نہیں ہے اور ویسے بھی دو لوگوں سے کیا رونق لگنی ہے۔"
ریحا نے منہ بناتے ہوئے کہا تو حزیمہ بختیار نے اسے خفگی سے گھورا۔
"ایسے کیوں بول رہی ہو تم اپنے دوستوں کو بُلا لیتی راغیص کی ڈھولکی رکھتے آج مزہ کرنا چاہئیے تھا بیٹا تم لوگوں کو۔"
وہ پیار سے دونوں کو کہہ رہے تھے۔
"چھوڑیں بابا ایک رات کی تو بات ہے کل تو پھر شادی ہو ہی جانی ہے۔"
راغیص نے جیسے اپنی طرف سے بات ختم کی تھی۔
"دیکھو بیٹا! یہ مت سمجھنا کہ تم دونوں کی ماں نہیں ہے تو مجھے تم لوگوں کا خیال نہیں ہے کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھ سے کہہ دینا۔"
وہ کہتے ہوئے واپس دروازے کی جانب مڑے تھے۔
"بابا!" راغیص نے انہیں پیچھے سے مخاطب کیا تھا ان کا دروازہ کھولتا ہاتھ فضا میں ہی ساکن ہوا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر ان کی جانب بڑھی تھی اور خاموشی سے بنا کچھ کہے ان کے سینے سے لگی تھی۔
"کبھی کبھی چیزیں ہی سب کچھ نہیں ہوتی بابا! مان، پیار،محبت ہی سب کچھ ہوتا ہے چیزیں زندگی کے خلا کو کبھی نہیں بھر سکتیں."
ان کے سینے سے لگے اس نے نرم لہجے میں کہا تھا مگر اس کا یہ حد سے زیادہ نرم لہجہ حزیمہ بختیار کے سینے پر کسی سانپ کے لوٹنے کی مانند لگا تھا۔ وہ کچھ دیر یونہی رہنے کے بعد ان سے الگ ہوئی تھی چہرے پر ایک شکستہ مسکراہٹ تھی جیسے اس لمبی گھنی رات میں اپنی زندگی کا ایک آخری داو اس کی جانب سے کھیل لیا گیا ہو۔
"امید کرتی ہوں اللہ آپ کو معاف کردے گا۔"
انہیں ہق دق چھوڑ کر وہ ایک لمہے میں واشروم میں بند ہوگئی تھی شاید اسے بہت سارا رونا تھا اپنے وہ سارے غم تنہائی میں بہانے تھے جنہیں وہ کسی سے بانٹ نہیں سکتی تھی۔ ریحا نے حیرت سے اپنے باپ اور نظروں سے اوجھل ہوتی اپنی بہن کو دیکھا تھا اس کا ذہن ہمشہ کی طرح بے حد الجھ گیا تھا۔

وہ جو کبھی ہم چھپاتے تھے
آج یوں عیاں کرتے ہیں

دکھوں کی جھالر کو بھی
کچھ یوں بیان کرتے ہیں

کھو چکے تھے وہ جو
بھی گمنام کرتے ہیں

تمہیں چھوڑنے کا آج
ہم بھی اعلان کرتے ہیں

ایمن خان

------------------------------------

صبح نے ہر جانب کو اپنے پر پھیلائے تھے آج شام کو مغرب کے بعد آبیان اور مہالہ کا نکاح تھا جو اعلان کل بی بی سرکار مردانے میں کرنے والی تھیں وہ انہوں نے آج نکاح تک ملتوی کردیا تھا۔ لال حویلی میں صبح سے ہی تیاریاں اپنے پورے جوبن پر تھیں نکاح کا سارا انتظام لان میں ہی کیا گیا تھا کیونکہ آج موسم قدرے خوشگوار تھا اس لیے موسم کو مدِنظر رکھتے ہوئے مردوں کے لیے لان جبکہ خواتین کا انتظام ہال کمرے میں ہی کیا گیا تھا۔ وہ آج صبح سے ہی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا نہ تو آج اس نے جم خانے میں ورزش کی تھی اور نہ ہی وہ کسی کام کو دیکھنے نیچے اترا تھا بلکہ سر درد کا بہانہ بنا کر سارا دن کمرے میں ہی بند رہا تھا۔ باہر عصر کی اذان کی آواز آرہی تھی اور وہ بیڈ پر نیم دراز آڑا ترچھا لیٹا ہوا تھا۔ کسی نے اس کے بند کمرے کے دروازے کو آہستگی سے بجایا تھا وہ جو آگے ہی بیزار تھا ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
"آجائیں دروازہ کھلا ہے۔"
اپنے بکھرے ہوئے بالوں میں ہاتھ چلا کر انہیں ترتیب سے ایک جانب کو کرتے ہوئے اس نے دروازہ بجانے والے کو اندر آنے کی دعوت دی تھی۔ دروازہ دھکیل کر اندر آنے والی شخصیت اور کوئی نہیں بلکہ اس کی اپنی ماں تھیں۔
"کیا بات ہے طبعیت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں۔"
ممتہیم بیگم نے اس کے نزدیک بستر پر بیٹھ کر اس کا ماتھا چھوا تھا جو انہیں ہلکا سا گرم محسوس ہوا تھا۔
"ہمیں لگ رہا ہے بیٹا! آپ کو ہلکا سا بخار ہے۔"
اس کا چہرہ چھوتے ہوئے وہ تفکر سے گویا ہوئی تو وہ ان کی فکر پر مسکرا اٹھا۔
"کچھ نہیں ہوا اماں جان! ہم بالکل ٹھیک ہیں آپ پریشان مت ہوں۔"
ان کے ہاتھ پر اپنا پُر حدت ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے ان کی تسلی کرانا چاہی تھی۔
"پریشان ہیں نہ؟" وہ دھیرے سے مسکرا کر بولیں تو وہ رسانیت سے لب پینچ کر رخ موڑ گیا۔
"پریشانی سے اب کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ہماری پریشانی ہماری قسمت کو نہیں بدل سکتی۔"
خود کو سمبھال کر وہ گہری سانس بھر کر بولا تھا۔
"ہمشہ وہ نہیں ملتا بخت! جو ہم چاہتے ہیں کبھی اس سے بھی ہمارا سامنا کروایا جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہم اس کی چاہت کو اپنی چاہت بنانے کا ہنر رکھتے ہیں یا پھر خود غرضی سے صرف اپنی چاہت کے دائرے میں ہی قید ہیں۔"
ممتہیم بیگم نے بڑے ہی پُر تکلف اور دھیمے لہجے میں اس کا نقطہ اچک لیا تھا۔
"اماں جان! ہماری چاہت بھی تو ہمارے دلوں میں وہی ڈالتا ہے نہ تو پھر وہ کیوں چاہتا ہے کہ ہم اپنی چاہت کو اس کی چاہت کے متبادل کے طور پر قبول کرلیں۔"
زندگی میں پہلی بار شاید پیر سید آبیان بخت اتنا الجھا ہوا محسوس ہوا تھا۔
"کیونکہ بیٹا! اللہ اپنے بندے کو دے کر بھی آزماتا ہے اور اس سے چھین کر بھی آزماتا ہے اور اس کی دی گئی آزمائش پر پورا اترنے کے لیے اپنی چاہت کو اس کی چاہت میں بدلنا ضروری ہے۔"
اس کا کندھا تھپک کر انہوں نے اس کا بوجھ بانٹنے کی کوشش کی تھی۔ دروازہ ایک بار پھر سے بجایا گیا تھا۔
"آجائیں!" اب کی بار اندر سے ممتہیم بیگم نے کہا تو جمال بی اندر داخل ہوئیں۔
"چھوٹی بیگم! وہ بی بی سرکار کہہ رہی ہیں کہ بخت سرکار کا کمرہ سجانے والے آئیں ہیں انہیں اوپر لے آوں؟"
جمال بی نے ممتہیم بیگم سے کہا تو آبیان کے چہرے پر بیزاری واضح ہوئی۔
"اماں جان! ان سارے خرافات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔" وہ اپنے منہ کے زاویے بگاڑ کر گویا ہوا تو ممتہیم بیگم نے اسے گھورا۔
"بی بی سرکار کا حکم ہے ماننا تو پڑے گا۔" اس کو تنبیہ کرتے ہوئے وہ باہر نکل گئی تھیں جبکہ ان کے باہر جاتے ہی آبیان نے مدد طلب نظروں سے جمال بی کی جانب دیکھا تھا۔
"فکر مت کریں سرکار! آپ کی آنے والی زندگی بہت حسین ہونے والی ہے اللہ پر یقین رکھیں۔"
نرم لہجے میں اسے حوصلہ دیتے ہوئے وہ باہر نکل گئی تھیں جبکہ ان کے جاتے ہی اس نے ایک زور دار مُکا بنا کر کشن پر مارا تھا۔ وہ ابھی اپنی حالت پر سمبھل بھی نہیں پایا تھا جب سامان سے لیس کچھ بندے اس کے کمرے کا دروازہ بجا کر اندر آئے تھے اسے ان سب چیزوں سے سخت وحشت ہورہی تھی اس لیے بغیر ان سے کوئی بھی بات کیے وہ باہر صحن میں نکل آیا ایک نظر مہالہ کے کمرے کے بند دروازے پر ڈال کر وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا صحن میں آگیا جہاں بی بی سرکار حسب عادت بیٹھیں اپنا حُکہ گڑگڑا رہی تھیں وہ انہیں نظر انداز کرکے باہر کی جانب بڑھ رہا تھا جب ان کی پکار پر اس کے بڑھتے قدم رک گئے۔
"ارے رکیں! اتنی عجلت میں کہاں جارہے ہیں کچھ وقت ہمارے پاس بھی بیٹھ جائیں۔"
بی بی سرکار نے حُکے کی نالی لالی کو تھماتے ہوئے کہا تو وہ گہرا سانس بھر کر ان کے نزدیکی موڑے پر بیٹھ گیا۔
"کہاں جارہے تھے؟"
فرصت سے اسے نگاہوں کے فوکس میں لیے بی بی سرکار سوالات کررہی تھیں۔
"ایسے ہی دل گھبرا رہا تھا کچھ دیر کے لیے باہر جارہے تھے۔"
لہجے کو حتی المکان نارمل بناتے ہوئے اس نے انہیں جواب دیا تھا۔
"کیوں دل کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟"
وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
"گستاخی معاف بی بی سرکار! مگر آپ ہمارے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں چلتا ہوں۔"
مزید ان کے قریب بیٹھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے وہ تیزی سے اٹھ کر باہر نکل گیا تھا جبکہ بی بی سرکار اس کے تیور دیکھ کر دنگ رہ گئی تھیں ان کا اتنا فرمانبردار پوتا اتنا ناراض کیوں دکھائی دے رہا تھا وہ تو ابھی اس کی فون پر کی گئی گفتگو کا ہی مفہوم نہیں سمجھ پائی تھیں کہ وہ پھر سے ان کے سامنے اپنی واضح ناراضگی کا اظہار کر گیا تھا۔
"لالی!" انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی ملازمہ لالی کو پکارا تھا جو ان کی پکار پر کسی بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی۔
"حکم بی بی سرکار!" وہ سر جھکائے انتہائی مودب لہجے میں کھڑی ان کے حکم کی منتظر تھی۔
"جا زرہ جاکر چھوٹی بیگم کو تو بُلا لا۔"
اسے حکم جاری کرکے وہ گہری سوچ میں گم ہوگئی جس کا محور واضح آبیان کی ذات تھی تقریباً پانچ منٹ بعد ہی ممتہیم بیگم صحن میں آتی ہوئی دکھائی دی تھیں۔
"جی بی بی سرکار! انہوں نے آتے ہی سوالیہ نگاہیں بی بی سرکار کے چہرے پر مرکوز کی تھیں۔
"چھوٹی بیگم! یہ بخت پتر کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟"
وہ چہرے سے ہی خاصی الجھی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں ممتہیم بیگم نے تاسف سے ان کی جانب دیکھا تھا۔
"کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ کو کیوں ایسا محسوس ہوا؟"
وہ بے چینی سے قریب رکھا موڑا نزدیک کرکے بیٹھی تھیں۔
"ان کا رویہ بہت عجیب ہے اس دن فون پر بھی کہہ رہے تھے کہ مہالہ کی خواہش کا آپ کو بڑا احساس ہے اور ہماری تو آپ کو زرا بھی پروا نہیں ہے۔"
وہ پریشان دیکھائی دے رہی تھیں۔
"ارے نہیں بی بی سرکار! ایسی کوئی بات نہیں ہے بس یوں اچانک شادی پر تھوڑا چڑچڑے ہوگئے ہیں ٹھیک ہوجائیں گئے آپ فکر مت کریں۔"
ممتہیم بیگم نے بی بی سرکار کی تسلی کرانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
"وہ اس شادی سے خوش ہیں کیا؟"
سب سے اہم سوال بی بی سرکار اب پوچھ رہی تھیں  نجانے کیوں مگر ممتہیم بیگم کو اس بار ہنسی آئی تھی۔
"خوش ہیں وہ آپ فکر مت کریں اور جاکر تیار ہوجائیں مہمان آنے والے ہیں۔"
بغیر مزید ان کی جانب دیکھے وہ اٹھ کر چلی گئی تھیں مگر دل بہت اداس ہورہا تھا جب باتوں کا وقت ہوتا ہے تب انہیں فراموش کردیا جاتا ہے اور بعد میں رسم نبھا کر سائیڈ پر ہوجاؤ۔
عصر کی نماز کے بعد ہر جانب تیاری زور پکڑ چکی تھی درناب اپنے کمرے میں تیار ہورہی تھی جبکہ مہالہ کو بیوٹشن اس کے کمرے میں ہی تیار کررہی تھی وہ ابھی تک گاوں میں چچا پراٹھے والے کے ڈھابے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا جبکہ گاوں کے باقی لوگ اپنی دکانیں بند کرکے صاحب بہادر کی شادی کی تقریب کے لیے تیاری کررہے تھے اور وہ خود ہر چیز سے بےنیاز بیٹھا چائے پی رہا تھا جبکہ چچا پراٹھوں والا اس کی جانب تعجب سے دیکھ رہا تھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟"
ان کی نظریں مسلسل اپنے چہرے پر محسوس کرکے آخر کو اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔
"سرکار! سوچ رہا ہوں کہ پورا گاوں آپ کی شادی میں جانے کے لیے تیاری کررہا ہے دیکھیں ساری دکانیں بند ہوچکی ہیں اور آپ یہاں میرے ڈھابے پر بیٹھے چائے پی رہے ہیں؟"
وہ اپنے ڈھابے سے باہر نکل کر لگے ہوئے بینچوں کی جانب آگئے جن میں سے ایک پر بیٹھا وہ چائے پی رہا تھا۔ ان کی بات سن کر بے اختیار اس کے لب مسکرائے تھے نجانے کتنے دن بعد وہ مسکرایا تھا۔
"تو اس کا کیا مطلب تھا کہ ہم باہر نہیں نکل سکتے آپ کے پاس آکر چائے نہیں پی سکتے اور ویسے یہ سارا گاوں ہماری شادی پر آرہا ہے تو ابھی تک آپ کا ڈھابہ کیوں بند نہیں ہوا ہے کیا آپ نہیں آرہے؟"
چائے کے کپ سے آخری گھونٹ بھر کر اس نے اپنے سامنے کھڑے چچا کو دیکھا تھا جو کندھے پر ڈالے ہوئے صافے سے چہرہ پونچھ رہے تھے۔
"لے کیوں نہیں آنا تھا بس میں دکان بند کرنے ہی والا تھا کہ آپ آگئے اور پھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ آپ بیٹھے ہوں اور میں کہہ دوں اٹھو بھئی مجھے دکان بند کرکے تمہاری شادی پر جانا ہے۔"
پراٹھوں والے چچا کا لہجہ پرُمزاح تھا ان کی بات پر بے اختیار آبیان کو ہنسی آئی تھی۔
"لیں بھئی اپنا کپ اور یہ پیسے بھی ہم جارہے ہیں اب اور آپ بھی فوری سے ڈھابہ بند کرکے حویلی پہنچیں۔"
کپ اور پیسے ان کی جانب بڑھاتے ہوئے آبیان نے کہا تو چچا نے اسے خفگی سے گھورا۔
"کیسی باتیں کررہے ہیں آج آپ کی شادی ہے اور آپ مجھے پیسے دے رہے ہیں یہ چائے سمجھیں خوشی سے پلائی ہے میں نے۔"
چچا کے خفگی سے کہنے پر آبیان مسکراتا ہوا بینچ سے اٹھ گیا اور خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا کچھ ہی دیر میں اس کا نکاح تھا۔

---------------------------------------------
نیلم کی وادی میں حزیمہ بختیار کے گھر آج خوب ہل چل تھی اگر لال حویلی میں آبیان کا نکاح تھا تو نیلم کی وادی آج راغیص بختیار کو بھی رخصت کرنے والی تھی ساری تیاریاں مکمل تھیں راغیص اپنے کمرے میں تیار ہورہی تھی سپاٹ چہرے اور ویران آنکھوں میں زندگی اور خوشی کی ایک بھی رمق باقی نہیں تھی۔
اوف وائٹ اور سوکھے مہندی رنگ کا فراک پہنے وہ آئینے کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی فراک کی لمبائی اس کے ٹخنوں تک تھی سارا گھیر سوکھے مہندی رنگ کا تھا مگر فراک کا اوپری حصہ اوف وائٹ رنگ کے کام سے بنا ہوا تھا بالوں کو درمیانی مانگ کے ساتھ جُوڑے میں قید کیے مانگ میں خوبصورت بندیا سجائے سر پر اوف وائٹ دوپٹہ ڈالا ہوا تھا جس کے چاروں کناروں پر سوکھے مہندی رنگ کی چوڑی پٹی لگا کر اس پر خوبصورت موتیوں کا کام کیا گیا تھا نفاست سے کیے گئے میک میں وہ صاف رنگ پر دلکش نقوش لیے انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی۔
ریحا ابھی ابھی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی۔ شاکنگ پنک شلوار سوٹ میں ریحا بختیار پہلی بار مشرقی لباس میں خوبصورت دکھ رہی تھی۔
"بجو! تم تیار ہوگئی ہو باہر بس مہمان آنے ہی والے ہیں۔"
بالوں کو ہاتھ سے درست کرتے اس نے راغیص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا جو شیشے میں سپاٹ تاثرات سے اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔
"بجو!" اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ریحا نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
"آہ۔۔ہاں!" وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
"میں پوچھ رہی تھی کہ تم تیار ہو نہ؟"
اس کے دوپٹے پر پن لگاتے ہوئے ریحا نے مصروف انداز میں اپنا سوال دہرایا تھا۔
"ہوں۔" وہ بولی کچھ نہیں تھی بس سر اثبات میں ہلا کر ہوں کہنے پر ہی اکتفا کیا۔ ریحا ساتھ ساتھ اپنے فون پر کچھ ٹائپ بھی کررہی تھی۔
"یہ اب تم کسے مسیج کررہی ہو؟"
راغیص نے اپنی کرسی چھوڑتے ہوئے بیزاریت سے اس سے پوچھا تو ریحا کی ہنسی نکل گئی۔
"جس طرح کا تم نے منہ بنایا ہوا نہ بجو! قسم سے بے تحاشہ ہنسی آرہی ہے مجھے۔"
اپنے ہی ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ریحا نے جیسے اپنی ہی بات کا مزہ لیا تھا۔
"ہاں یہاں بہن کی محبت کا جنازہ نکل رہا ہے اور تمہارے ہیں کہ دانت ہی اندر نہیں جارہے۔"
دوپٹے کو آگے کی جانب کرتے ہوئے وہ غصے سے گویا ہوئی تو ریحا نے حیرت سے مسکراہٹ دبا کر اس کی جانب دیکھا۔
"کیا پتہ جنازے سے پہلے ہی کوئی طبیب مل جائے جو تمہاری ڈوبتی کشتی کو پار لگا دے۔"
دو بار ابرو اچکاتے ہوئے وہ یک مشت سنجیدہ ہوئی تھی راغیص کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات واضح دیکھے جاسکتے تھے۔
"بس فضول بکواس کرالو تم سے کام کی کبھی کوئی بات نہ کرنا۔"
اسے گھورتے ہوئے وہ واپس آئینے کی جانب متوجہ ہوئی تھی کچھ دیر کے لیے ریحا کی آمد نے اس کا موڈ بجال کردیا تھا ورنہ یوں محسوس ہورہا تھا دل ابھی پھٹ جائے گا۔ باہر سے آتی شور کی آواز اس بات کی تصدیق کررہی تھی کہ راغیص بختیار کی بارات آچکی ہے۔
"او بجو! لگتا ہے تمہارے وہ سہرا سجا کر آچکے ہیں۔"
اسے چھیڑتی ہوئی وہ دروازہ کھول کر باہر آگئی جہاں حزیمہ بختیار دروازے میں مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ایک سفید رنگ کی گاڑی میں صرف چند لوگ ہی آئے تھے جس میں سے ایک سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا اور باقی کے شاہد اس کے بھائی تھے دوسری گاڑی میں سے دو ادھیڑ عمر مگر ترو تازہ اور چست مرد اور عورت باہر نکلے تھے۔ حزیمہ بختیار انہیں دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے آگے بڑھے تھے دونوں جانب سے خاصی گرم جوشی سے مصافحہ کیا گیا تھا۔ اندر لاونج میں تمام لوگ بیٹھے ہوئے تھے قاضی صاحب بھی تشریف لا چکے تھے حزیمہ بختیار کھانے کا انتظام دیکھنے کیچن کی جانب گئے تھے جب موقع دیکھتے ہی ریحا لاونج میں آئی تھی۔۔
"اسلام علیکم انکل! کیسے ہیں آپ؟"
ریحا نے اپنا لہجہ بے حد دھیما رکھا تھا تاکہ حزیمہ بختیار تک اس کی آواز نہ جاسکے۔
"وعلیکم اسلام بیٹا! آپ کون؟"
حزیمہ بختیار کے دوست کچھ الجھ کر اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"چھوڑیں انکل آپ مجھے نہیں جانتے میں ان کی دور کی رشتہ دار ہوں میں تو بس آپ کو ایک بہت اہم معلومات پہنچانے آئی ہوں۔"
ریحا نے خاصی پھاپھے کٹنیوں والا انداز اپنایا تھا سامنے بیٹھے ہوئے لوگ اس کی جانب دیکھتے ہوئے متجسس دیکھائی دے رہے تھے۔
"کیا بیٹا؟"
لڑکے کی ماں ان میں سب سے متجسس دکھائی دے رہی تھی۔
"انٹی اس لڑکی کی پہلے بھی منگنی ہوکر ٹوٹ چکی ہے کیا آپ کو یہ بات حزیمہ انکل نے بتائی ہے؟"
وہ چہرے سے ہی خاصی حیرت ذدہ دیکھائی دے رہی تھی۔
"پلیز میرا نام مت لیجیے گا ورنہ رشتہ داری کھٹائی میں پڑسکتی ہے۔"
وہ کہتی ہوئی ان سب کو پُرسوچ چھوڑ کر واپس راغیص کے کمرے میں آگئی چہرے پر ایک فاتح مسکراہٹ تھی۔ حزیمہ بختیار کیچن سے جونہی نکل کر لاونج میں آئے مہمانوں میں عجیب چہم گوئیاں دیکھنے کو ملی۔
"حزیمہ صاحب اتنی بڑی بات آپ نے ہم سے کیوں چھپائی؟"
اصغر صاحب اپنی جگہ چھوڑ کر عین حزیمہ بختیار کے سامنے کھڑے ہوئے تھے جو حیرت سے ان کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔
"کیا مطلب ہے اصغر صاحب!"
حزیمہ بختیار نے ناسمجھی سے ان کی جانب دیکھا۔
"آپ نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ آپ کی بیٹی کا پہلے بھی کہیں رشتہ ہوا تھا۔"
حزیمہ بختیار کو لگا جیسے آسمان ان کے سر پر آگرا ہو۔
"اس میں بتانے والا کیا تھا اصغر صاحب! جہاں پر بیٹیاں ہوتی ہیں وہاں رشتے تو آتے ہی ہیں۔"
حزیمہ بختیار نے اپنی طرف سے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی۔
"بالکل آتے ہیں مگر اچھی لڑکیوں سے یوں کوئی رشتہ توڑ کر نہیں جاتا ۔"
اصغر صاحب کی بیگم کھڑے ہوتے ہوئے نخوت سے بولی تھیں۔
"دیکھیں بھابھی! آپ اس طرح میری بیٹی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرسکتیں۔"
حزیمہ بختیار بھی اب کی بار طعیش میں آئے تھے راغیص اور ریحا بھی اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی نیچے ہونے والا تماشہ دیکھ رہی تھیں۔
"اس کا مطلب ہے ضرور کوئی بات ہوگی جو آپ یوں بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔"
مسز اصغر ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھیں۔ راغیص کی آنکھیں بے اختیار چھلکی تھیں۔
"آپ جیسے لوگوں سے اور کوئی امید بھی نہیں تھی۔"
حزیمہ بختیار کی نظر آنے والی آواز کی جانب اٹھی تھی مین کھلے ہوئے دروازے پر ارغن، دمیر اور میراب کھڑے تھے۔ بولنے والا دمیر تھا۔
"اچھا! تو تم ہو اس کے عاشق جس کی وجہ سے پہلی منگنی ٹوٹی تھی۔''
مسز اصغر مسلسل زہر اُگلنے میں مصروف تھیں۔ ارغن نے اپنی مٹھیاں پینچی تھیں جبکہ دمیر کی برداشت بس ختم ہونے کو تھی۔

-------------------------------------------
لال حویلی میں عصر کے بعد سے تیاریاں زور پکڑ چکی تھیں اس کی سیاہ اوڈی لال حویلی کے گیٹ سے روش پر داخل ہوئی تو کام کرواتے سدیس نے نگاہیں اٹھا کر گاڑی چلاتے آبیان کو دیکھا تھا پورچ میں گاڑی روک کر آبیان لاک کرکے باہر نکلا تھا۔
"کدھر رہ گئے تھے آپ پتہ بھی ہے کہ یہاں کتنا کام ہے اور وقت تھوڑا سا رہ گیا ہے مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں۔"
سدیس اپنی رو میں تیز تیز بولتا آبیان کو حیران کرگیا تھا اس کے انداز پر آبیان کے چہرے پر مسکراہٹ چمکی تھی۔ سدیس نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
"آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔"
خفگی سے اس کی جانب دیکھتا وہ کنفیوز نظر آرہا تھا۔
"اتنے سالوں میں پہلی بار لگا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو۔"
چابی اپنی انگلی میں گھماتے اس نے ایک ہاتھ سدیس کے شانے پر پھیلایا تھا۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"
اس کے ساتھ چلتا سدیس حیرت زدہ ہوا تھا۔
"بھئی تمہیں سرکار یہ تو سرکار وہ سے ہی کبھی فرصت نہیں ملتی اور تمہارے چکر میں ہم نے کبھی کوئی دوست نہیں بنایا کہ چلو ہے کبھی تو اس کو احساس ہوگا۔"
مصنوعی آہیں بھرتے آبیان نے سدیس کو مسکرانے پر مجبور کیا تھا ورنہ بی بی سرکار کے خوف سے وہ کم ہی اب آبیان سے فری ہوتا تھا۔
"باتیں کروا لو بس تم سے."
آبیان کے پیٹ میں کوہنی مارتے ہوئے سدیس نے کہا تو آبیان نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھائے۔
"یااللہ! تیرا شکر ہے اس انسان نے ہمیں آپ سے تم کہا کچھ اپنائیت کا احساس تو ہوا۔''
مسلسل مسکراتے ہوئے وہ یقیناً اسے ایسے دیکھ کر خوش ہوا تھا۔
"چلو آو اندر چلتے ہیں۔"
اسے شانوں سے تھام کر آبیان نے اندر چلنے کو کہا تو سدیس نے نفی میں سر ہلایا۔
"یہاں اتنے کام کون دیکھے گا مہمان آرہے ہیں۔"
لان میں مختلف کام کرتے لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا تو آبیان نے منہ بنایا۔
"راحت علی! یہاں پر باقی کا کام تم دیکھ لو زرا۔"
راحت علی کو حکم جاری کرکے وہ سدیس کو لے کر حویلی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا بغیر کہیں بھی رکے اس کا رخ سیدھا اپنے کمرے کی جانب تھا۔
درناب تیار ہوکر مہالہ کے کمرے کی طرف جارہی تھی نیوی بلو گھٹنوں سے نیچے تک آتا فراک پہنے جس کے اوپری حصے پر گولڈن کلر سے ایمبرائیڈری کی گئی تھی۔ ایمبرائیڈری کے سائیڈ پر قطار کی صورت میں گولڈن چمکیلے چھوٹے چھوٹے بٹن لگے ہوئے تھے اپنے لمبے بالوں کے اطراف میں پنیں لگا کر کھلا چھوڑے چہرے پر نفاست سے کیے گئے ہلکے میک اپ میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ آبیان اور سدیس آخری سیڑھی عبور کرکے اوپر آئے تھے تب ہی درناب اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی آبیان کے ساتھ آتے سدیس کو دیکھ کر اس نے جلدی سے کندھوں پر جھولتے ہوئے اپنے نیوی بلو دوپٹے کو سر پر اوڑھا تھا سدیس نے ایک سرسری نگاہ درناب کے سراپے پر ڈالی تھی اس کے بعد وہ حسبِ عادت نگاہیں جھکا گیا تھا۔
"بھا صاحب! یہ کیا آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے؟" درناب نے سدیس کو نگاہوں کے فوکس میں لیتے ہوئے آبیان سے کہا۔
"جارہا ہوں بس۔" اسے کہہ کر سدیس کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا جبکہ درناب نے اپنے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر اس کی حالت کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی اور خود مہالے کے کمرے میں داخل ہوگئی جہاں بیوٹیشن تقریباً اسے تیار کر چکی تھی۔
مہالہ افروز پیازی اور گولڈن رنگ کے لہنگے میں ملبوس تھی پورے پیازی رنگ کے لہنگے پر گولڈن باریک خوبصورت کُندن کا کام ہوا ہوا تھا ہم رنگ چولی کے دامن پر بھی ویسا ہی خوبصورت کام تھا جبکہ ساتھ میں گہرا سرخ ٹشو کا دوپٹہ تھا جس کے کناروں پر گولڈن موتیوں اور کُندن کی پٹی تھی۔ بالوں کی سائیڈ مانگ نکال کر بیچ میں سے بندیا لگائی گئی تھی ہاتھوں میں مہندی بندیا کے اطراف میں اسی ڈیزائن کا جھومر گلو بند اور آویزے بھی اسی طرز کے تھے نفاست سے کیا گیا میک اپ ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک مہالہ افروز شاید ہی اپنی زندگی میں اتنا تیار ہوئی تھی اس پر دلہناپے کا روپ ٹوٹ کر آیا تھا اطراف میں کرل کی ہوئی لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہی تھیں ناک میں بندیا کی طرح کی ہی درمیانے سائز کی نتھ تھی۔
"اف افروز جان! بھا صاحب تو گئے۔"
درناب نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر مصنوعی گرنے کی ایکٹنگ کی تھی سنجیدگی سے آئینے میں اپنا عکس دیکھتی مہالہ کو ناچاہتے ہوئے بھی اس کے ڈرامے پر ہنسی آئی تھی۔ بیوٹیش باہر نکل چکی تھی جبکہ وہ مہالہ کی کرسی کے پیچھے آکھڑی ہوئی۔
"میں نے سچ میں آج سے پہلے اتنی حسین دلہن نہیں دیکھی۔"
اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے درناب نے دھیرے سے کہا تھا مہالہ کی آنکھوں کے گوشے نا جانے کیوں لمہوں میں بھیگے تھے۔
"ایسے حسن کا کیا فائدہ درناب!" نگاہیں جھکاتے اس نے پلکیں جھپکی تھیں۔
"ایسا نہیں سوچیں پلیز! باہمین زاہرہ بھا صاحب کا ماضی تھی مگر مہالہ افروز ان کا حال ہے اور حال ہمشہ ماضی سے سبقت لے جاتا۔"
اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے درناب نے مہالہ کو تسلی دینا چاہی تھی۔
"کبھی کبھی ماضی کے دھندلکے اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ حال کی شفافیت بھی متاثر نہیں کرپاتی۔"
مہالہ کا لہجہ مدہم تھا اس سے پہلے کہ درناب مزید کچھ بولتی دروازہ کھول کر بارینہ بیگم اندر داخل ہوئی تھیں۔
"افروز جان! تیار ہوگئی ہیں؟"
قریب آتے ہوئے انہوں نے کہا تو مہالہ کو دیکھ کر وہی کی وہی رک گئیں۔
"ماشاءاللہ! ہم صدقے جائیں ہماری بیٹی تو دلہن بن کر بہت خوبصورت لگ رہی ہیں اللہ آپ کو ہر بُری نظر سے بچائے آمین ۔"
اس کے سر پر بوسہ لیتے ہوئے وہ مسکرائی تھیں۔
"اماں! بابا سرکار کدھر ہیں؟"
مہالہ نے چھوٹتے ہی پیر زرگل بخت کی بابت پوچھا تھا۔
"وہ لان میں ہیں بیٹا! مولوی صاحب آگئے ہیں نکاح کے پیپرز بھر وا رہے ہیں۔"
بارینہ بیگم نے لان میں ہونے والی کاروائی کے متعلق بتایا تو اس کا دل بے اختیار دھڑکا۔
وہ سر ہلا کر خاموش ہوگئی باپ سے چند باتیں کرنے کی خواہش اس کے دل میں ہی رہ گئی تھی۔ گہرا سانس بھر کر اس نے خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔

کریم کلر کی واشنگ وئیر کی شلوار قمیض پر سادی سیاہ واسکٹ پہنے پیروں کو سیاہ پشاوری چپل میں قید کیے وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔
"لو آج اس دستار کو جیتوا دو جس کی خاطر تم نے اپنی محبت کو ہروا دیا تھا۔"
بالوں میں کنگی کرتے ہاتھ ابھرنے والی آواز سے ٹھٹھک کر رک گئے تھے۔
"وہ بہت معصوم ہے آبیان بخت! خدارا اس کا معصوم دل مت کچلنا باہمین زاہرہ کے پچھڑنے پر مہالہ افروز کا کوئی قصور نہیں تھا اسے سزا نہیں دے سکتے تم۔"
اس کے اندر جیسے کوئی مسلسل بول رہا تھا سر جھٹک کر اس نے خود پر اسپرے کیا تھا ڈریسنگ ٹیبل پر باہمین کی دی ہوئی گھڑی پڑی ہوئی تھی اس نے گہرا سانس بھر کر وہ گھڑی اٹھائی اور کلائی میں باندھ لی خود کو آئینے میں ایک بار دیکھ کر وہ دروازہ کھول کر باہر آگیا جہاں کھڑا سدیس اس کا منتظر تھا۔
لان میں صوفہ سیٹ پر ایک طرف کو مولوی صاحب اور دوسری جانب بی بی سرکار بیٹھی ہوئی تھیں آمنے سامنے والے سنگل صوفوں پر پیر زرگل اور پیر زرشاہ بخت بیٹھے ہوئے تھے باقی کے مرد لان میں لگی ہوئی اردگرد کی میزوں پر براجمان تھے۔ صدر دروازے سے آبیان کو سدیس کے ہمراہ آتے دیکھ کر مولوی صاحب اور بی بی سرکار کے درمیان اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی تھی۔ اس کے بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے باقیا خانے اس سے پوچھ کر بھرے تھے۔
"لڑکی سے اجازت لے لیں۔"
مولوی صاحب کے کہنے پر پیر زرگل بخت زرشاہ اور بی بی سرکار مولوی صاحب کے ہمراہ نکاح کے کاغذات لے کر مہالہ کے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔ ان کے آنے کی اطلاع سے ہی مہالہ کے اوپر چادر اوڑائی جاچکی تھی پھر بھی مولوی صاحب دروازے میں ہی کھڑے ہوئے تھے جبکہ پیر زرگل بخت اور بی بی سرکار مہالہ کے بستر پر بیٹھے تھے۔
"بسم اللہ کریں مولوی صاحب!"
بی بی سرکار کے اشارے پر مولوی صاحب شروع ہوئے تھے مہالہ کا دل تیز رفتاری سے دھڑک رہا تھا۔
"مہالہ افروز بخت ولد پیر زرگل بخت آپ کا نکاح سکہ ریج الوقت 10 لاکھ روپے شرعی حق مہر پیر سید آبیان بخت ولد پیر سید زرشاہ بخت سے کیا جاتا کیا آپ کو قبول ہے؟"
پہلی بار مولوی صاحب ان کلمات کو دوہرا کر خاموش ہوئے تھے۔ مہالہ کے لب پھڑپھڑا رہے تھے۔
"میرا دل تو کسی اور کی خواہش میں جل رہا ہے۔"
آبیان کا کہا گیا جملہ اس کی سماعتوں میں گونجا تھا۔ لب پھڑپھڑا رہے تھے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پیر زرگل بخت نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اس نے آنکھیں بند کرکے کھولی تھیں اور پھر جب بولی تو آواز حلق سے بامشکل ہی نکلی تھی۔
"قبول ہے۔"
"کیا آپ نے قبول کیا؟"
مولوی صاحب پھر سے بولے تھے۔
"قبول ہے۔"
اس نے سابقہ لہجے میں ہی کہا تھا۔
"کیا آپ نے قبول کیا؟"
"قبول ہے۔"
رکا ہوا سانس بحال ہوا تھا پلکوں پر ٹھہرے ہوئے آنسو اپنا راستہ بنا کر بہہ نکلے تھے وہ بری طرح ٹوٹ گئی تھی۔ کانپتے ہاتھوں سے بامشکل اس نے نکاح نامہ سائن کیا تھا اور اس کے بعد جو وہ پیر زرگل بخت کے ساتھ لگ کر روئی تو اس کی حالت قابو سے باہر ہورہی تھی۔ مولوی صاحب کے ساتھ  بی بی سرکار بھی باہر نکل گئی تھیں۔
"کیا ہوگیا افروز بیٹے! بس خاموش۔"
پیر زرگل بخت نے اس کی پیشانی چومی تو اس کے وجود میں یک گونہ سکون کی لہر سرایت کی۔
"آپ آرام کریں ہم زرا اب باہر دیکھ لیں۔"
اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے وہ باہر نکل گئے تھے جبکہ وہ گرنے کے سے انداز میں بستر پر بیٹھی تھی۔
لان میں مولوی صاحب آبیان کے برابر میں بیٹھے تھے گلاب کے پھولوں کا ایک ہار آبیان کے گلے میں تھا۔
"پیر سید آبیان بخت ولد پیر سید زرشاہ بخت آپ کا نکاح سیکہ ریج الوقت دس لاکھ شرعی حق مہر مہالہ افروز بخت ولد پیر زرگل بخت سے کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"
مولوی صاحب اپنے کلمات مکمل کرچکے تھے مگر وہ کسی خاموش تماشائی کی طرح بیٹھا ہوا تھا لب پینچے ہوئے تھے اس کا وجود مکمل طور پر ساکن تھا جیسے اردگرد کی آوازیں اس پر کوئی اثر نہ کررہی ہوں۔

------------------------------------

Continue Reading

You'll Also Like

8.7K 695 19
از بشریٰ قریشی۔۔۔۔ اسلام وعلیکم!!!! امید ہے آپ سب بخیر و عافیت ہونگے۔۔۔ یاراں نال بہاراں میرا پہلا ناول ہے ۔ اس ناول میں آپ دوستوں کے الگ الگ پہلوؤں...
24.5K 1.2K 34
ایک ایسی کہانی جس میں مل کر بچھڑنا اور قسمت کا لکھا ''ایک بات بار پھر ملنا "لیکن کیا پھر ملنا بھی زندگی کو آسان بنائے گا یا "مل کر" زندگی کی مشکلات ک...
23.4K 1.5K 17
it is a story about a girl who faces many difficulties in her life her past was unpleasant present is unhappy but she makes or show herself brave the...
2 0 1
تتكلم الروايه عن شاه طويل جميل عريض موز يعني مرير لشركه هنديه ومعمار حاد قاسي لا يعرف الحنان وقتاه في كليه السن مجنونه شقيه هل يمكن لهذا القلبين والش...