یوں ہم ملے از نازش منیر(compl...

By Nazishmunir20

32K 1.5K 738

یہ کہانی ہے اپنوں کے سنگ خوشیوں سے بھرپور زندگی جینے والوں کی ۔یہ کہانی ہے ماضی کے غم سے نکل کر نٸ زندگی کا آ... More

Episode 1
Episode 2
Episode 18
Episode 19
Episode 20
Episode 3
2nd Last Episode
Last Episode
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17
Episode 17 (b)

Episode 7

1.1K 76 31
By Nazishmunir20

یوں ہم ملے
از
نازش منیر

************

باہر پڑتی ٹھنڈ میں اضافہ ہورہا تھا۔کمرے میں نیم اندھیرے پھیلا تھا۔ آٸرہ کمرے سے نکلی تھی اسائنمنٹ بنا کر وہ شام کو لیٹی تھی اب آنکھ کھلنے پر وہ لاونچ میں آئی مگر گھر میں غیر معمولی خاموشی کا راج تھا۔۔یہ بات حیران کن تھی۔ سب سے پہلا خیال بچوں کا آیا
"کہاں ہیں یہ لوگ ؟ "

خود سے ہم کلام ہوتی وہ باہر آٸی۔۔۔۔بڑے کسی قریبی کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ حسن نے آج لیٹ آنا تھا بزنس کے سلسلے میں باہر ڈنر پر جانا تھا۔ حیدر کسی کام سے نکلا تھا مگر بچے کہاں گئے تھے۔ ان کے ہوتے ہوٸے کبھی بھی گھر میں اتنا سناٹا نہیں ہوتا تھا۔ آٸرہ لاٶنج میں آٸی۔۔۔وہاں کوٸی نہ تھا۔

"بی جان مرحا لوگ کہاں ہیں؟"
آٸرہ نے بی جان کے کمرے میں جا کر ان سے پوچھا " میں نے بھی شام سے نہیں دیکھا ان کو
شاہد باہر لان میں ہونگے "

بی جان کو بھی گھر میں معمولی سناٹے کا احساس ہوا تھا۔ وہ ابھی نماز سے فارغ ہوٸی تھی۔
" دیکھو باہر ہی ہونگے ۔۔۔۔ بلاٶ زرہ حورعین کو میرے ناخن کاٹ دے۔" بی جان صوفے سے اٹھتی ہوئی آٸرہ سے کہہ رہی تھی۔

"جی بہتر آپ باہر آئے میں انھیں دیکھتی ہوں"
آئرہ نے لان میں جاکر دیکھنے کے بعد ہر کمرے میں، اوپر والے پورشن میں حتٰی کہ چھت پر بھی دیکھ لیا۔۔۔۔۔ گھر میں کوئی بھی نہ ملا ۔
"یا میرے اللّٰہ یہ بچے کہاں گئے۔"
آٸرہ گویا ہانپتی ہوئی نیچے آئی تھی۔
"باہر کہاں جاسکتے ہیں۔۔ ورنہ بتا کر نہ جاتے ۔۔؟"

ّ"بی جان اوپر بھی کوئی نہیں ہے۔"
"اندھیرا پھیل گیا ہے یہ لوگ باہر کہاں جا سکتے ہیں۔" بی جان بھی پریشان ہوگی۔۔۔۔بات تھی ہی پریشانی والی۔۔۔ آٸرہ ان کے پاس سے ہوتے ہوئے گیٹ کیپر کے سر پر پہنچی۔۔۔ پریشانی سے ہی برا حال ہو رہا تھا۔
کیا بچے باہر گئے ہیں "
"بی بی جی مرحا بیٹی کے ساتھ حورعین اور فہد گئے ہیں۔ "
"واٹ۔۔؟؟ اور آپ نے انہیں جانے دیا "
وہ صحیح معنوں میں پریشان ہوگئی تھی۔۔۔۔
"اس ٹائم باہر کیوں گئے ہیں" آٸرہ نے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔" میں نے منع بھی کیا تھا۔۔۔ڈرائیور گھر نہیں ہے۔وہ صاحب کے کام سے گیا ہوا تھا پر وہ با ضد تھے پیدل ہی نکل پڑے"
آٸرہ نے سر تھام لیا آسمان پر اندھیرہ چھا چکا تھا باہر سٹریٹ سنسان پڑی تھی۔اور بھلا اس ٹائم باہر یونہی جانے کی کیا تُک بنتی تھی۔

"کتنی دیر پہلے کی بات ہے۔"
"کچھ بتا کر نکلے کیا ،کہاں جارہے ہیں۔" آٸرہ نے خود کو ریلیکس کرتے دریافت کیا۔
"گھنٹے پہلے بس گلی میں واک کرنے کا کہہ کر نکلے تھے مگر اب تک ان کی واپسی نہیں ہوئی۔۔۔ میں بس اندر بتانے ہی آرہا تھا۔"
آٸرہ الٹے قدموں اندر بھاگی۔۔۔موبائل اٹھاتی حیدر کو فون کرنے لگی۔۔
"حیدر فون نہیں اٹھا رہا بی جان۔۔۔حسن کا فون یقینا سائلینٹ پر ہوگا میٹنگ کی وجہ سے"وہ جھنجھلاتے ہوئے بی جان سے کہہ رہی تھی۔
" اچھا مرحا کو فون کرو معلوم کرو کہاں ہے۔"
بی جان اور آٸرہ دونوں بے حد پریشان تھے۔
باہر گلی تک تو ٹھیک تھا مگر کبھی بھی یہ لوگ یوں بنا بتاۓ اتنی دیر کے اکیلے باہر نہیں گئے تھے۔

"تین بیلوں پر بھی فون نہیں اٹھایا۔۔۔تبھی تو حیدر کو کال کررہی ہوں۔"آٸرہ کو مرحا پر بے حد غصہ آ رہا تھا پریشانی الگ تھی یہ لڑکی سکون سے بیٹھ جائے ایسا ہو سکتا ہے بھلا آٸرہ نے خود کو بڑبڑاتے پایا۔

"زکوٹے جن کا زنانہ ورژن ہے مرحا سفیان کسی کی نہ سننے والی نڈر بےخوف آج گھر آئے ذرا بی جان یہ لڑکی اچھے سے اس کی کلاس لیتی ہوں۔"

"میری بچی پریشان نہ ہوں حیدر کا نمبر ملاؤ
یہ بہتر ہے ساری صورتحال اسے بتاؤ دیکھے انہیں باہر مارکیٹ تک ہی گئے ہیں یا کہیں اور۔۔"
اس صورت میں بھی انہی تحمل مزاجی سے حل نکالنا تھا چوتھی کال پر آخر حیدر نے فون اٹھایا۔
" واٹ۔؟؟ رات کو وہ لوگ اکیلے باہر نکل پڑھے" ساری بات سننے کے بعد وہ گویا چنیخا تھا۔
اسٹریٹ کراٸمز آئے دن پیش آتے تھے ایسے میں بچوں کا یوں اکیلے باہر جانا پریشانی کی بات تھی۔

"آپ فکر نہ کریں میں بھائی سے رابطہ کرتا ہوں اور خود فوراً نکلتا ہوں۔"
"دیکھتا ہوں یہی پاس میں ہی کہیں گئے ہوں گیں۔" "ہوں۔۔اچھا ٹھیک ہے۔" آئرہ فون رکھتی صوفے پر بی جان کے پاس ٹک گئی۔
پونا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا مگر ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
یہ یقینا کل والے واقعے کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔ہاں بس مارکیٹ تک گئے ہونگے پیزا لینے۔ اُف
آٸرہ کے ذہن میں کل کی بات آٸی۔ او مرحا!

ایک روز پہلے:
مرحا لاٶنچ کے صوفے پر بیٹھی تھی۔
ماحول بے حد کشیدہ تھا وہ سانس روکھے اپنے سامنے ہوتے اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ اچانک فضا میں اللّٰہ اکبر کی آواز بلند ہوئی یکدم نہ تھمنے والی تلواروں کی گرج نے فضا میں ارتعاش پیدا کردیا۔ مرحا کی روکی ہوئی سانس اب بحال ہوئی تھی۔اس سب میں وہ پہلی دفعہ مسکرائی
جب ارتغرل بابر اور روشان سے انکی العزیز کے قافلے کے پاس موجودگی کا سبب پوچھ رہا تھا۔
"میں نے منع کیا تھا میرے پیچھے آنے سے پھر تم لوگ یہاں کیسے۔؟"

"وہ بھائی ہم تو یہاں سے گزر رہے تھے شور سنا تو اس طرف آ گئے مگر سامنے آئے تو معلوم ہوا آپ کی آواز تھی۔" بابر نے معصومیت سے کہا
ان کا جوش دیکھ کر مرحا کھل کر ہنسی۔۔۔۔
فہد نے اس کا کندھا ہلایا۔

جب وہ لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے قاٸی قبيلے روانہ ہوئیں تھے۔۔۔۔واقع وہ لوگ اپنے بھائی اور بھابھی کو لے جانے میں کامیاب رہے تھے۔مرحا یونہی بیٹھی دیکھتی جارہی تھی۔ جوش سے۔۔۔۔خوشی سے۔۔۔

"آپی بس کرے شام سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہے حیدر بھائی نے بتا تو دیا ہے آگے کیا ہونا ہے۔"
فہد کے کہنے پر مرحا نے موبائل کی سکرین سے نظریں ہٹاٸی۔ واقع اس کی ٹانگیں تھکنے لگی تھی مگر سب بھلا کر وہ ارتغرل کی قسط دیکھنے میں مصروف تھی۔ حیدر اس سے آگے نکل گیا تھا۔
ان لوگوں نے اکٹھے ڈریلس ارتغرل دیکھنے کا آغاز کیا تھا۔
ارتغرل ایک ایسا نشہ تھا جو انہیں لگ چکا تھا۔۔۔۔۔
اب دن رات کام کے ساتھ اسے دیکھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

"اف اف کیا گریٹ آدمی ہے ارتغرل غازی۔۔۔۔The Real Hero "
مرحا نے فون سائیڈ پر رکھتے جوش سے کہا
"اور اس کے جانباز کتنے زبردست ہے ایک دم اپنی پارک آرمی جیسے بلند وار حوصلہ فولادی جسم نڈر بے خوف۔"
اسے نئے سرے سے اپنی پاک آرمی پر فخر ہوا۔
"آپی بس کرے آگیے آپ نے رونا ہی ہے ہسٹری دیکھ رہی ہیں دکھی تو ہوگی نا "
فہد نے اپنے نوٹس سمیٹتے ٹی وی آن کیا۔۔۔
"ہماری عظیم اسلاف شاندار کارناموں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔۔۔۔
ہمیں ان سے سبق حاصل کرکے کچھ سیکھنا چاہئے کہ ہمیں عالم اسلام کی خدمت کرنی ہے نہ کہ گھر میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر فضول بحث۔۔۔"

"سب چھوڑو بس دیکھو ارتغرل کی سمائل کتنی پیاری ہے۔۔۔"آٸرہ کا تبصرہ لاٶنج میں داخل ہوتے حسن نے بخوبی سنا تھا۔

"سیریسلی۔؟"
اپنی ہونے والی بیوی کے خیالات سنتے اس نے آبرو اچکاٸے۔۔۔۔ حسن سلام کرتا اندر داخل ہوا۔۔اس کے صوفے پر بیٹھنے کے بعد حور اندر کیچن سے پانی لینے بھاگی۔۔۔

"ہم نے آج پزا کھانا تھا نا۔۔۔؟"
"نہیں ہم نے بالکل بھی نہیں کھانا تھا۔۔۔۔" آٸرہ نے مرحا کے خیال کی فرراً تردید کی۔۔۔۔
"جبکہ ہم اب کھا سکتے ہیں۔۔۔" فہد نے چینل سرچنگ کرتے اپنی راۓ پیش کی۔

ّ"پیزا ویکنڈ کے لیے ڈن کر لیتے ہیں۔۔۔
حسن فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں۔"اس کی شکل سے ہی تھکاوٹ کے آثار واضح تھے۔ حسن نے انھیں ویک اینڈ پر پزا کھلانے کا سوچا تھا۔

آئرہ کے آفس کے بارے میں پوچھنے پر ریلیکس انداز میں بیٹھے حسن نے کہا
"بہت بہتر بس آج کل آفس میں کام زیادہ ہے۔" حسن فریش ہونے کے لئے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔مرحا موبائل کی طرف متوجہ ہوئی ۔

بھیو کی آٸی ڈی سے سامنے ہی میسج جگمگا رہا تھا۔۔"مرحا دادی میرا والٹ گھر رہ گیا ہے کوئی پزا وزا نہیں آنا۔۔۔اچھے بچوں کی طرح گھر میں بنے کدو گوشت کھاؤ۔"

"دیکھو حیدر اگر آج تم نے پیزا کھلا دیا تو تم سب سے ہینڈسم لڑکے ہوگے اس پوری دنیا میں۔۔۔۔"
"نہ نہیں " جواب ہنوز انکار ہی تھا۔
آج مرحا کا دن نہیں تھا اس نے مان لیا۔

ہر طرف سے انکار کے بعد مرحا نے یونہی ریحاب کو آن لائن دیکھتے اسے پیغام بھیجا

ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں گلاب
کھلاو مجھے پزا تمھیں ملے گا ثواب

"بھلا اس میں کیا پریشانی کی بات ہے باہر کسی بچے کو بول دو تمہیں گلی کے نکر سے پزا پکڑ دے۔" ریحاب نے مخلصانہ مشورہ دیا تھا۔

"ایں۔۔۔"
"گلی کے نکر پر کونسا پیزا ہٹ ایجاد ہوا ہے ۔۔جو مجھے پزا مل جاۓ گا۔۔۔۔۔ہاں؟"
باہر پوری سٹریٹ سنسان پڑی تھی۔۔۔مرحا کا ماتم بنتا تھا۔

"پھر تم میری لمبی زندگی کی دعا کرو اللّٰہ پاک مجھے اتنی عمر دے کہ میں پڑھائی کے بعد تمھیں پورا فراٸز چکس ہی کھول دوں گی۔"
بزنس کا بزنس مزے کے مزے "

"سلام ہے تمھاری سوچ کو ریحاب پزا کھانے کو میں تمہارے فراٸز چکس کھولنے کا انتظار کرو۔" مرحا کو اس کی عقل پر شبہ ہوا تھا۔

"چلو کوٸی بات نہیں ساتھ تمھاری گلی کی نکر پر سلش،فالودہ اور شوارمے کے بھی سٹالز لگاوا دوں گی۔۔"
"صدقے جاٶ اپنی دوست کے۔۔۔۔ عقل سے پیدل لڑکی اتنا پڑھنے کے بعد بھی یہ بزنس پلان ہے تمہارے۔۔واہ کیا بات ہے ریحاب بی بی۔۔"

"بس اللّٰہ پاک مجھے اتنے پیسے دے میں یہ سارے پلینز جو کہ ابھی ابھی تشکیل دیے ہیں
انھیں حقیت بنا سکوں۔۔۔۔"
" اُف ریحاب۔۔۔۔"مرحا نے بامشکل اپنی ہنسی دباتے مصنوعی آنسو پونچھے۔۔۔

اس نے موبائل پکڑے کمرے کا رخ کیا ابھی ارتغرل کی بہت سی قسطیں اِس کی منتظر تھیں۔

*-*-*-*-*-*

واپس حال میں آئیں سڑک کے پار وہ کھڑی تھی۔ بالوں کی پونی ٹیل بنائے سٹولر گلے میں مفلر کے انداز میں لیے پیروں میں جوگرز تھے۔۔۔ ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے ہاتھ میں سلش تھامے۔۔۔۔۔
خنکی میں اضافہ ہو رہا تھا ہر سو دھند چھاٸی تھی ایسے موسم میں اس لڑکی کے ہاتھ میں پکڑا ٹھنڈا سلش لوگوں کو جھرجھری لینے پر مجبور کردیتا۔۔

مرحا کی نظر سامنے سڑک پر چلتی گاڑیوں پر جمی تھی ساتھ اردگرد بھی سرسری نگاہ ڈال لیتی۔۔۔
فہد اور حورین بیکری سے پیزہ لے رہے تھے۔
وہ ان کا اںتظار کرتی باہر آگٸ تھی۔

مصروف گلی میں ہر سو بیکریز اور کھانے کی دکانیں تھی گلی کے اختتام پر ریسٹورنٹ اور مختلف شاپس کا سلسلہ شروع ہو جاتا وہ ہر لحاظ سے ایک مصروف شاہرہ تھی۔ مرحا پر سوچ نظروں سے سڑک پار ٹریفک سگنل کے مناظر دیکھ رہی تھی۔

گاڑیوں کے سگنل پر رکھنے پر آگے پیچھے ہر ایک سواری کے شیشوں سے اندر جھانکتے خواجہ سرا اور چیزے بیچنے والے چند لوگ تھے۔۔۔ جو آگے بھر کر ہر گاڑی کا شیشہ بجاتے۔

ساتھ ہی کچھ فاصلے پر بنے فٹ پاتھ پر دو بچوں کو لیے ایک عورت بیٹھی تھی۔۔جسم پر موسم کی مناسبت سے لباس نہ تھا۔۔۔ حتیٰ کہ چھوٹے بچے نے بھی قدرے باریک لباس پہنا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ مرحا کو اتنے گرم کوٹ میں بھی ٹھنڈ کا احساس جاگا مگر سامنے ایسی بے بسی تھی۔۔۔۔

مرحا نے جھرجھری لی۔۔فوراً سے ٹھنڈے سلش کا ذائقہ جیسے مرسا گیا۔۔کل رات کی پڑھی ہوٸی آیت اس کے ذہن میں آٸی۔۔۔۔

"تم فرماٶ: وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لیے کان اور آنکھ اور دل بنائے، کتنا کم حق بجا لاتے ہو (شکر بجا لاتے) ہو۔ تم فرماٶ: وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف اٹھاۓ جاٶگے۔" ( سورۃ المک )

یہ جو آلات علم ہیں لیکن تم نے ان قویٰ سے فاٸدہ نہ اٹھایا۔۔۔۔جو سنا وہ نہ مانا جو دیکھا اس سے عبرت حاصل نہ کی جو سمجھا اس میں غور نہ کیا۔۔۔کہ اللّٰه کے عطاۓ قویٰ اور آلات ادراک سے وہ کام نہیں لیتے جس کے لیے وہ عطا ہوٸے یہی سبب ہے کہ شرک و کفر میں مبتلا ہوتے ہو۔۔۔۔
روز قیامت حساب و جزا کے لیے اللّٰه ہی کی طرف اٹھاۓ جانا۔۔۔
مفہوم واضح تھا۔۔۔جو بتایا جارہا تھا وہ عملی طور پر سمجھایا بھی جا رہا تھا۔۔پھر بھی انسان ناشکرا کیوں ہے۔۔۔؟

انسان بہت بے فیض مخلوق ہے۔۔۔۔۔ دنیا کی بھاگ دوڑ میں اس قدر مصروف اور الجھے ہوا ہے۔
کہ انسان کے رویے تو دور اپنے پیدا کرنے والے کی باتیں بھی بھول گیا ہے۔

صبح جلدی میں آفس کے لیے نکلتے مرد، سکول و کالج جاتے ہوۓ وینوں میں بیٹھے بچے، گروسری
کے لیے گھر سے نکلتی خواتین ، ہر ایک ایسی ہی دوڑ کا حصہ ہے۔۔۔۔
دنیا کی بے جا مصروفیات میں گھڑے ۔۔۔۔ہر ایک کام
کی جلدی میں کبھی یہ غور نہیں کرتے آیاں ہمارے ساتھ والے نے کھانا کھایا یا نہیں۔۔۔۔۔۔رات میں گھر جاتے ہمیں یہ تو خیال ہوتا آج میرے فلاں دوست نے کینٹین سے میرے سے ذیادہ کی چیز خریدی۔۔۔میں نے سو کی لی تو اس نے ایک سو بیس کی۔ آخر کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔ باس نے آج اس کے کام کی تعریف کی میرے نہیں آج میں نے مارکیٹ میں نیا ڈریس دیکھا۔۔۔۔اگلی بار آٶگی تو ضرور لے کر جاٶ گی۔ میری اس میں کیا خرابی تھی آخر
ان سب جھمیلوں سے نکلے تو فیس بک اور انسٹاگرام پر active آنے کا وقت نہ گزر جاۓ کی جلدی پر جاتی ہے۔۔
ایک سے دو پوسٹ پھر تین اور یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔۔۔
ٹریفک سگنل پر رکھتے اچانک سے ہمیں بے چینی شروع ہوجاتی ہے آخر یہ اشارہ جلدی کیوں نہیں کھل رہا۔۔۔۔
یہ نظم و ضبط بس ہمارے ہی حصے میں آنا تھا کیا۔۔۔اس جلدی جلدی کی دوڑ میں ہم انسانی احساس سے دور ہوتے جارہے ہیں دوست نے بلاک کردیا کی ٹینش ہے لیکن گھر جاتے یہ احساس نہیں کرتے کے سڑک کنارے ریڑھی لیے جاتے شخص کے ٹھیلے پر پھل یونہی موجود ہے کیا آج وہ اتنی رقم گھر لے کر جاۓ گا کہ اپنے بچوں کو ایک ایک روٹی ہی کھلا سکے یا آج وہ بھوکے سوۓ گٸیں۔۔۔۔۔؟
شاپس کی قطار میں ایک ایسا کپڑے کا دکاندار جس نے آج ایک بھی کپڑا فروخت نہیں کیا۔۔۔۔وہ کس قدر پریشان ہوگا۔۔۔۔
سامنے سے نظر آتی گلی کے چودہ نمبر مکان کے سامنے سے اپنی باٸیک موڑتا وہ ڈلیوری بوائے جو ابھی ابھی ڈلیوری کرتا نکلا ہے ۔۔۔۔"مہینہ شروع ہوگیا بہن کی کالج کی فیس دینی ہے وہ سوچ رہا ہے۔۔۔۔ کس طرح ادا کروں گا۔۔۔۔یونی میں اگلے ہفتے سے پیپرز شروع ہورہے ہیں۔۔۔ کب اور کس وقت پڑھو گا۔۔۔؟"

بیگ کندھے پر لٹکاۓ بس کا انتظار کرتی کھڑی وہ لڑکی جو یونيورسٹی سے سیدھا جاب پر جاتی ہے۔۔۔۔رات کو گھر جاتی یہ سوچ رہی ہے "امی کی دواٸی ختم ہورہی ہے۔۔۔مہینے کا آخر چل رہا پے ابھی پے ملنے میں وقت ہے ۔۔۔کیا کروں گی؟ "جو اس مہینے اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا کر رکھے تھے انھیں استعمال میں لاٶں۔۔۔ آیاں امی کی دوائيں خریدوں تو جو اس ہفتے کے آخر میں دوست کی سالگرہ ہے اس کے لیے تحفہ خریدنے کا کیا۔۔۔۔اس کے علاوہ یونيورسٹی میں ہونے والے اگلے فنکشن کے لیے جو فنڈز سب سٹوڈنٹس نے جمع کروانے ہیں اس میں اپنا حصہ کیسے ڈالوں گی۔۔۔اتنے میں بس آجاتی ہے اور وہ احتیاط سے بس کے کرایہ کے لیے رقم بیگ سے نکالتی ہے ۔۔۔۔ سوچیں۔۔ سوچیں۔۔۔ جو ایک تلخ حقیقت کا روپ لیے ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوجاٸیں تو باہمت طریقے کا سامنا کرنا بےحد مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔۔
مرحا نے سرد سانس لیتے خود کو احساس کروایا وہ اس وقت کہاں موجود تھی۔۔۔اگر انسان کو معلوم ہوجاٸے اس کے اردگرد لوگ کس قدر مشکل اور ذہنی دباؤ سے زندگی بسر کررہے ہیں تو وہ اپنی رب کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا شکر کرتے نہ تھکے۔۔۔۔

جب ہی اس کی نظر سامنے پڑی جہاں کچھ لوگ ایک خواجہ سرا کو مار رہے تھے۔۔۔۔ افسوس کہ کوئی بھی اس سے بچانے کو آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ مرحا بے اختیار اس طرف بھاگی مگر سڑک پار کرتے جلد ہی اسے احساس ہوگیا اول تو اکیلی لڑکی کچھ کر نہیں سکتی تھی اور پھر مصروف سڑک پار کرنے کی غلطی وہ انجانے میں کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔وہاں پہنچ پاتی تو کچھ کرتی۔


اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتی بائیں جانب سے تیز رفتار سے آتی گاڑی پوری قوت سے اس سے ٹکرائی مگر کسی لڑکے نے بروقت پیچھے سے آتے مرحا کا بازو پکڑا اور اسے اپنی جانب کھینچا تھا۔

*_*_*_*_*

"لالہ کیا ہوا آپ رک کیوں گئے۔" آبی نے حدید سے پوچھا

وہ ریسٹورنٹ کے اندر جاتے یکدم ٹھہرا تھا۔
"شاید میرا والٹ گاڑی میں رہ گیا ہے" حدید نے اپنی جیبں ٹٹولتے جواب دیا
"آپ رکھیں میں لے کر آتا ہوں" دانی نے حدید کو جاتے دیکھ کر کہا
شام کے سات بج چکے تھے اور آسمان پر اندھیرہ پھیل چکا تھا۔۔۔سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس اور نیون سائنس بورڈ روشن تھے۔ سڑک پر بہت زیادہ ٹریفک
تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف مصروف شاپس کی قطار تھی۔ دانیال نے گاڑی کی طرف قدم بڑھا دیئے۔

"گاڑی کی چابی لے کر نہیں گیا شاباش ہے دانی۔" حدید آبی کو وہی سائیڈ پر رکھنے کا بول کر باہر کی طرف آیا تھا۔۔۔۔ سامنے روڈ پر نظر پڑتے ہی وہ فورا اس جانب بھاگا۔

اس سے پہلے گاڑی مرحا سے ٹکراتی کسی لڑکے نے بر وقت اسے کھینچا
"یا الله خیر۔۔۔۔۔" دو لمحوں کے لیے اسے لگا وہ زندہ نہیں بچے گی
مرحا لمبے لمبے سانس لیتی اپنے حواس بحال کررہی تھی۔۔۔ جب کے سامنے کھڑا شخص اس سے پوچھ رہا تھا۔"آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟"

مرحا نے اس کی جانب دیکھا وہ سولہ سترہ سالہ لڑکا فہد کا ہم عمر لگتا تھا۔۔۔۔ڈراک براٶن آنکھیں کالے بال جینز پر گول گلے والی ٹی شرٹ پر چیک ویسٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ شرٹ کے بٹن سامنے سے کھلے ہوٸے وہ اپنی آنکهوں میں تشویش لیے اس سے اس کی خیریت کا پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
"آپا آپ ٹھیک ہے۔۔۔۔؟" مرحا کو وہ اس کے انداز سے ایک بھلا لڑکا لگا تھا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"آپ کو اتنی مصروف روڈ پر یوں بھاگنے کی کیا ضرورت تھی اگر میں نہ دیکھتا تو آپ ابھی اللّٰہ تعالٰی کو پیاری ہو جاتی۔"

مرحا نے فورا پیچھے دیکھا جہاں پر ایک شخص اس خواجہ سرا کی مدر کو آیا تھا۔۔۔۔۔وہ ابھی ابھی منظر پر نمودار ہوا تھا۔۔۔ وہ صرف ایک سائیڈ جھلک ہی دیکھ سکی اتنی دور سے دیکھنا مشکل تھا اس نے شکر کیا کوئی تو مدد کے لئے آگے بڑھا تھا۔۔۔تماشاٸی بن کر نہیں کھڑا ہوا تھا۔
مرحا نے سرد سانس خارج کی۔۔

"بچے تمہارا شکریہ اگر تم نہ آتے تو میں واقع بھاری نقصان اٹھاتی جان کا۔۔۔"
مرحا کے کہنے پر دانیال نے سر کو خم دیا
"آپ کا نام کیا ہے۔۔۔"
"مجھے دانیال علی شاہ کہتے ہیں۔۔۔۔" دانی کے ڈرامیٹک اندازہ پر مرحا کو کوٸی یاد آیا تھا۔
ہونٹ خودبخود مسکراہٹ میں ڈھیلے تھے۔

فہد اورحورین بیکری سے باہر نکلتے نظر آٸیں۔۔۔
مرحا اپنا تعارف کرواتی کہ ان کو دیکھا۔۔۔ دانی کا دوبارہ شکریہ ادا کیا اور آگ بڑھ گٸی۔۔۔۔

*-*-*-*-*

"آج پکا پیٹے گے۔۔۔"
"نہیں ۔۔ہم جس طرح سکون سے آٸیں ۔۔۔ ویسے ہی واپس جاٸیں گے۔۔" مرحا نے فہد کی بات کی تردید کی۔۔۔
وہ لوگ اپنی سٹریٹ میں داخل ہوۓ تھے۔۔۔

"آپی سو رہی ہیں۔۔ بی جان اپنے کمرے میں ہیں ۔۔فکر کی بات نہیں ۔۔ ہم آرام سے گھر جاٸیں گے ۔۔پھر
ڈانٹ کا کوٸی چانس ہی نہیں ۔۔۔" مرحا نے چٹکیوں میں مسٸلہ حل کیا۔

"ڈانٹ کا چانس نہیں۔۔۔۔ بلکہ اب کنفرم ہے۔ میری نہ سننا دونوں۔۔۔" فہد نے موباٸل کی سکرین ان کے سامنے لہراٸی ۔۔ جہاں حیدر کی کٸی مسڈ کالز جگمگا رہی تھیں۔۔ مرحا کا فون حورین کے پاس تھا۔۔اس نے چیک کیا۔۔۔ موباٸل پر آپی کی بھی کالز تھیں۔۔۔ ورنہ وہ یہ سوچتے حیدر نے کسی اور وجہ سے کالز کی ہو۔۔۔ "وہ گھر نہیں تھا اسے کیسے معلوم ہوگا بھلا ۔۔۔۔"

"اُف۔ڈوب گیں ہم۔۔۔۔" مرحا نے لمبے لمبے سانس لیتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

"پاگل ہو کیا کس ٹائم ڈوبنے کا خیال آرہا ہے۔۔۔" فہد نے تنبہیا کی۔
مرحا کو پانی سے فوبیہ تھا۔۔فہد کی بات پر اس نے محض کندھے اچکاۓ ۔۔۔اب ٹینشن میں اتنا ریکٹ تو ہو ہی جاتا ہے۔۔۔

مرحا نے خود کو نارمل کرنے کے بعد معزرت والی نظروں سے انھیں دیکھا تھا۔۔۔
"اب کچھ نہیں سوچ رہی ۔۔۔۔۔" اس نے پریشانی پر قابو پاتے خود کو رلیکس کیا۔

"چلو میرے جوانوں حوصلہ رکھو۔بس آر یا پار۔۔۔۔" انھوں نے گھر کی طرف قدم بڑھاٸیں ۔۔۔
گیٹ سے اندر داخل ہونے کی دیر تھی ۔۔۔ آٸرہ کی ان
کو دیکھ کر جان میں جان آٸیں۔۔۔ مگر بظاہر غصے سے بولی تھی۔

"کہاں سے آرہے ہو ؟ "آٸرہ نے تیوری دکھاٸی۔۔
"پیزا لینے گٸے تھے۔۔۔"حورین نے بی جان کے پاس بیٹھتے ہولے سے سرگوشی کی۔۔۔

آٸرہ نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا تھا۔۔۔ ساتھ حیدر کو بھی انفارم کر دیا تھا۔۔۔

افلاطونوں کی شہنشاہ۔کرلیا ایڈونچر۔ مل گیا سکون۔۔۔۔۔ " آٸرہ اچھے سے اپنی بہن کو جانتی تھی۔
"اُف آپی کیا ہوگیا ہے۔۔۔اچھا سوری نیکسٹ ٹاٸم نہیں کرے گیں" مرحا نے اپنی غلطی مانتے ساتھ معزرت بھی کرلی ۔۔۔وہ ایسی ہی تھی اپنی دنیا میں مست بےپروا مگر رشتوں کو نبھانا وہ باخوبی جانتی تھی۔۔۔

جبکہ ان کی اس حرکت نے گھروالوں کو کس قدر پریشان کردیا تھا۔۔۔وہ اس سے انجان تھے۔۔۔ہم زندگی میں بہت سے کام محض انجواٸے کے لیے کرنے چل پڑتے ہیں اس چیز سے بےنیاز کہ ہمارا معمولی سا ایڈوینچر ہم سے جڑے ہمارے پیاروں کو کس قدر اذیت و پریشانی کا شکار کرسکتا ہے۔

مرحا سفیان وہ طوطا تھی۔جس میں ان سب کی جان تھی۔ اگر انھیں معلوم ہوجاۓ ۔۔۔زندگی ان کی جان کہاں نکالنے والی ہیں تو آٸرہ جو ابھی اسے ڈانٹ رہی تھی ۔۔۔۔اسے سکون بھی تھا وہ سہی سلامت سامنے موجود ہے۔۔۔۔۔تو وہ اپنی اس جان کو کہی چھپا لیتی۔۔۔۔اس کی سلامتی پر کوٸی انچ نہ آنے دیتی مگر قسمت !

مرحا نے آٸرہ کے گلے میں بانہیں حاٸل کرتے لاڈ سے اس کی گالوں کا بوسہ لیا تھا۔۔
کھڑکی سے جھانکتے اندھیرے پر چھاۓ چاند نے افسوس سے سر بادلوں کی اوٹ میں چھپایا تھا۔۔۔۔۔ہوا میں ہر طرف افسردگی چھاٸی تھی۔۔۔زندگی کہاں جان سے جانے والی تھی۔

*-*-*-*-*-*-*

Continue Reading

You'll Also Like

25.2K 1.1K 9
السلام عليكم احساس کہانی ہے رشتوں کے احساس کی محبت کے احساس کی خونی رشتوں سے بھڑ کر احساس کے رشتوں کی اس کہانی میں ہمیں اندازہ ہوتا ہے کے کس طرح...
64.1K 2.6K 32
one can't have everything "Business Tycoons " the SHAH Family...... Sikander Shah has a single son DAIM ALI SHAH (23)- Mr.arrogant fall in love wit...
8.3K 524 20
یہ اسٹوری ایک ایسی لڑکی کی ہے جو اپنی لاٸف میں بہت سے مساٸل سے گزری مگر اسنے صبر سےکام لیا۔۔اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوۓ ہررشتے کو نبھایا۔۔۔ یہ میرا پہل...
27 10 9
dasht-e-ulfat urdu novel by Shazain Zainab which is based on mafia, army, gangster and businessmen story with romance action suspense and fun. i hope...