راہِ حق ازقلم ندا فاطمہ

By Nidafatimaa

3.2K 364 540

نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں جو ہو یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں​ یہ کہانی ہے ان نوجوانوں کی جن... More

Ep 1
Ep 2
Ep 3
Ep 5
Ep 6
Ep 7
Ep 8
Ep 9
Ep 10

Ep 4

212 33 41
By Nidafatimaa

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہے

نوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور وقعات فرضی ہیں حقیقی زندگی میں انکا کوئی عمل دخل نہیں.

BUSMILLAH

کمرے میں ہر سو تاریکی چھائی تھی باہر دن ہے یا رات پتا لگانا بہت مشکل تھا. اسے اس جگہ پر آئے پورا ایک دن گزر گیا تھا اور  سارا وقت وہ بھوکا پیاسا تھا. اب تو اس میں خود کو آزاد کروانے کےلئے اتنی طاقت بھی نہیں بچی تھی کیونکہ اسے بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا. چہرے اور جسم پر ہر جگہ نیل پڑے ہوئے تھے اور کافی جگہوں پر خون جما ہوا تھا.
وہ غنودگی کی حالت میں اس کمرے کا جائزہ لے رہا تھا جہاں اسے قید کر کے رکھا ہوا تھا. جس میں صرف ایک کرسی موجود تھی جس پر اسے باندھا گیا تھا.
ابھی اس نے آنکھیں سکوڑ کے آگے پیچھے دیکھا تھا کے کہیں سے باہر نکلنے کا راستہ مل جائے کے اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھاڑ کی آواز سے کھلا اور دو آدمی اندر داخل ہوئے جنہوں نے چہرے پر ماسک چڑھا رکھے تھے.

"ہاں تو کیسی لگی آپکو ہماری خاطرداری؟...... کسی چیز کی کمی تو نہیں ہوئی آپکو؟" لہجہ طنزیہ تھا

"پانی...... پانی" بہت مشکل سے زبان سے چند الفاظ نکلے تھے.

"ارے ارے! یہ کیا شاہنواز صاحب کو پانی چاہیے" انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا
"جاو پانی لاو اسکے لئے" دوسرے آدمی کو کہا جو فورن باہر سے ایک جگ پانی کا لے کر آیا.
لیکن اس پانی سے بھاپ اڑ رہی تھی.

نقاب پوش نے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھولتا ہو پانی کا جگ شاہی کے چہرے پر انڈھیل دیا جس سے کمرے میں اسکی دردناک چیخ گونجی. اسکا چہرہ بری طرح جھلس گیا تھا

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم تمہیں یہاں تمہاری خدمت کرنے کےلئے لائے ہیں... بڑے ہی سخت چمڑی کے ہو تم اتنی مار کھانے کے بعد بھی زبان نہیں کھول رہے...."

" بتاو ہمیں کس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہو؟  تمہارے ان کالے دھندوں میں اور کون کون شامل ہے" نقاب پوش اسکی طرف جھکتے ہوئے سختی سے اسکے منہ کو دبوچ کر بولا

"مجھے چھوڑ دو.... جانے دو پلیز" بے بسی اسکے انداز سے جھلک رہی تھی

"اچھا تو تم ایسے نہیں مانو گے... جاو اسفی جاکر سامان لے کر آو" خضر نے ایک نظر پاس کھڑے اسفند کو کہا جو حکم کی تکمیل کرتا کمرے سے باہر گیا اور مطلوبہ سامان لے کر واپس کمرے میں داخل ہوا.
خضر نے اسکے ہاتھ سے پلاس لیا اور ایک ایک کر کے اسکے دائیں پاوں کے ناخن اکھاڑنے شروع کر دئیے. کمرے کی دیواریں شاہنواز کی دردناک چیخوں سے دہل رہی تھیں.

"کوبراااااا....کوبرا" اچانک ہی شاہنواز چینخنے لگا.

"بولو جلدی سے" خضر اس سے دور ہٹتے ہوئے کہا

"میں بتاتا ہوں... ممم میں اسے نہیں جانتا.... آج تک نہ تو کسی کو باس کا اصلی نام معلوم ہے اور نہ ہی انکا چہرہ آج تک کسی نے دیکھا ہے...بس سب اسے زی کے نام سے جانتے ہیں.... کوبرا زی کا ہی آدمی ہے جوکہ اسکے کہنے پر یونیورسٹییوں اور کالجوں میں ڈرگز سپلائے کرتا ہے اور بہت سے سٹوڈنٹس اس لت کی وجہ سے مارے جاچکے ہیں.. کوبرا ہی وہ آدمی ہے جو تم لوگوں کو زی کے خاص آدمی جیکب تک پہنچا سکتا ہے...اگر تم لوگ جیکب تک پہنچ گئے تو سمجھو زی کی جان تمہارے قبضے میں ہے.... میری کوبرا سے اسلحے کے سلسلے میں کافی بار ملاقات ہو چکی ہے.... یونیورسٹیز میں اگر کبھی کچھ گروپوں میں تصادم ہو جائے اور بات بڑھ جائے تو کوبرا انہیں خفیہ طور پر اسلحہ فراہم کرتا ہے.... میں اور کچھ نہیں جانتا کے زی کون ہے.... دیکھو اب مجھے جانے دو میں سب کچھ بتا چکا ہوں آخر کون ہو تم لوگ" وہ ساری بات انکو بتا گیا.
خضر نے سر ہلا کر اسفند کو اشارہ کیا.

"اسں دھرتی کے بیٹے اور اپنے ملک کے مخافظ..... جو تم جیسے غداروں کو انکے انجام تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہیں.. بس اتنا جان لو کے ہم تمہاری موت ہیں"
یہ کہتے ہی اسفند نے اپنی پستول نکالی اور اسکی ساری گولیاں اسکے سینے میں اتار دیں...تڑپتا ہوا اسکا وجود ساکت ہوگیا اور گردن ایک طرف ڈھلک چکی تھی ایک اور غدار اپنے انجام تک پہنچ چکا تھا.

وہ دونوں اسکی لاش کو یونہی چھوڑ کر باہر کی طرف بڑھ گئے

                     _______________

ٹھیک ایک گھنٹے کے اندر اندر اسد اپنا یونیفارم پہنے پارکنگ ایریا میں موجود تھا. ابھی وہ گاڑی سے نکلا ہی تھا کے سامنے سے  کیپٹن ہنال اسے اپنے مخصوص آرمی یونیفارم میں کالے بوٹس پہنے سر پر آرمی کیپ پہنے اپنی طرف آتی دکھائی دی.
اسکے پاس پہنچتے ہی اسد نے اسے سلیوٹ کیا.
"اسلام علیکم سر!"  اور سلامتی بھیجنا نہیں بھولا تھا

"وعلیکم السلام " کیپٹن نے بھی اسی انداز میں اسکے سلیوٹ اور سلام کا جواب دیا.

اسد نے سر خم کیا اور آگے بڑھ کر گاڑی کا فرنٹ ڈور اسکے لئے کھول دیا. ہنال نے وقت ضائع کئے بغیر اپنی سیٹ سنبھالی اور دروازہ بند کیا.
اسد کو کیپٹن ہنال سے ملنے کے بعد لڑکیوں کی ایک نئی قسم کے بارے میں معلوم ہوا تھا
ہر وقت ایک جیسا سنجیدہ بے تاثر چہرہ.....
لیکن اسکی اس سنجیدگی کی وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا
اسد پیچھے سے ہوتا ہوا گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر کے سٹیرنگ سنبھالا. اب وہ دونوں ہیڈ کوارٹر کی طرف اپنے سفر پر روانہ تھے.
              ____________________

یونیورسٹی میں اس وقت معمول کی گہما گہمی تھی. کچھ سٹوڈنٹس کیفے ٹیریا میں گپے ہانکنے میں مصروف تھے تو کچھ گروپس کی شکل میں جگہ جگہ ڈھیر تھے.

وہ نیلی پینٹ پر سفید شرٹ پہنے نیلے رنگ کا کوٹ پہنے ساتھ ہمرنگ ٹائی لگائے بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے ایک ہاتھ میں فولڈر پکڑے دوسرے ہاتھ سے کوٹ کا بٹن بند کرتا ایک نظر سب پر ڈالتا اپنی کلاس کی طرف بڑھا. اسے کلاس میں جاتا دیکھ کر کچھ سٹوڈنٹس اسکے پیچھے لپکے.

وہ شاہانہ چال چلتا، تیز تیز قدم اٹھاتا کلاس روم میں اینڑ ہوا.
سب سٹوڈنٹس نے اسے سلام کیا اور جو اسکے آنے سے پہلے تماشے کرنے میں مصروف تھے وہ ہڑبڑا کر اپنی جگہوں پر بیٹھے.

اسنے ایک نظر کلاس کی طرف ڈالی جو کہ اب واقعی ایک کلاس کا منظر پیش کر رہی تھی اور انکے سلام کا جواب دیتا روسٹرم کی طرف بڑھا.
جی تو گڈ مارننگ کلاس امید ہے کے سب بالکل ٹھیک ہوں گے"
لہجہ بلکل پروفیشنل تھا

"کچھ دیر پہلے تک تو ٹھیک ہی تھے آگے کا پتا نہیں" کلاس میں سی کسی نے سرگوشی کی جو اس تک بآسانی پہنچ گئی جس پر اس نے بمشکل ضبط کیا کلاس میں سٹوڈنٹس کی دبی دبی ہنسی گونجنے لگی

"Silence please!

چلیں تو پھر کلاس شروع کرتے ہیں جیسا کے میں کل آپ سب کو بتا چکا تھا تو آج میں آپکا سرپرائیز ٹیسٹ لوں گا
So arrange yourself quickly"
اب کی بار اس نے کلاس پر بم پھوڑا جس پر سب ہی کی شکلیں دیکھنے والی تھیں.

"لیکن سر...." ایک سٹوڈنٹ ہمت کر کے کھڑا ہوا لیکن اس نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا.

"No excuses"
اسنے بحث ختم کی

"اور ہاں ایک بات یاد رکھیں اس ٹیسٹ کو سیریسلی اٹیمپٹ کرئیے گا کیونکہ جو سٹوڈنٹس اس ٹیسٹ کو کلیئر نہیں کر پاتے...سزا کے طور پر فائینلز میں سے انکے 10 مارکس deduct کر دئیے جائیں گے."

وہ ایک کے بعد ایک بم پھوڑتا چلا جا رہا تھا اور اب اصل میں سٹوڈنٹس بیچاروں کو اسکے ساتھ مذاق بہت مہنگا پڑ گیا تھا. پچھلے ایک ہفتے سے وہ انکو جھٹکوں پے جھٹکے دے رہا تھا.

اپنی بات مکمل کرتے ساتھ ہی اسنے فولڈر میں سے ٹیسٹ شیٹس نکالیں اور باری باری سب میں تقسیم کیں.
کلاس نے پتا نہیں کیسے اس ٹیسٹ کو solve کرتے ہوئے آدھا گھنٹہ اپنا خون جلایا.
کلاس کا وقت ختم ہوتے ہی اسنے سب سٹوڈنٹس سے شیٹس واپس کلیکٹ کیں اور جاتے جاتے ان سے مخاطب ہوا

" مجھے امید ہے کہ آگے سے آپ سب اپنے کسی ٹیچر کی بات کو مذاق میں ٹالنے سے پہلے کم از کم دس بار سوچیں گے، کل کی کلاس میں آپ سب سے ملاقات ہو گی، اللہ خافظ."  چہرے پر مخصوص چڑانے والی مسکراہٹ لئے وہ کلاس سے باہر نکل گیا اور پیچھے سٹوڈنٹس دعاوں میں مشغول ہو گئے کے یا اللہ اس بار ٹیسٹ میں پاس ہو جائیں آگے سے کبھی سر سے پنگا نہیں لیں گے.
                   ____________________

زی اس وقت اپنے مخصوص جم نما کمرے میں موجود سامنے لٹکے 100 من کے پنچینگ بیگ پر مکے برسا کر اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا. اسکے زوردار مکوں کی وجہ سے وہ سو من کا بیگ کسی غبارے کی طرح سے ہل رہا تھا. زی کے ہاتھوں سے خون نکلنا شروع ہو گیا تھا لیکن وہ مسلسل باکسنگ کئے جا رہا تھا.

تبھی جیکب دروازہ ناک کرتا اندر داخل ہوا

"باس یہ وہ فوٹیج ہے جس میں اڈے پر حملہ ہوا تھا" جیکب نے زی کے ہاتھوں سے رستے خون کو دیکھ کر تھوک نگلا

"ہمممم" زکوان اب بیگ سے دور ہوا اور قدم بڑھاتا جیکب کے بالکل سامنے کھڑا ہوگیا.

"تم جانتے ہو نہ کہ تم میرے بہت خاص آدمی ہو. 'زی' جس نے کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں ہاتھ میں بندوق پکڑ لی تھی اور اب انڈرورلڈ کا بے تاج بادشاہ ہے. جسے ڈھونڈنے کے لئے مختلف ایجنسیز نے اپنے کتے چھوڑ رکھے ہیں ایسے میں تمہارا ایک غلط قدم میرے لئے موت کا پروانہ ثابت ہو گا" اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ اسے کچھ باور کروا رہا تھا

"جی باس! آگے سے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی. میں معذرت خواہ ہوں" سر جھکائے وہ واقعی ہی شرمندہ تھا

زی نے اسکے کندھے پر دباو ڈالتے ہوئی اسکے پیٹ میں ایک زوردار پنچ مارا جسکے نتیجے میں جیکب کے منہ سے خون کا فوارا چھوٹا

" میر زکوان کو انتظار کروانے کی یہ بہت معمولی سی سزا ہے" وہ فوٹیج اسکے ہاتھ سے لیتے اسکو وہیں کراہتا چھوڑ کر خود واک آوٹ کر گیا.

                         _____________

وہ ابھی فلیٹ میں داخل ہوئے ہی تھے کے دروازے کے سامنے فخر کو مسلسل چکر لگاتے پایا.
جیسے ہی وہ اندر آئے فخر ایک ہاتھ کمر پر ٹکائے، کڑے تیوروں سے انکی طرف بڑھا.
ان دونوں نے ایک دوسرے سے ہی اشارے میں پوچھا کے اب اسے کیا ہوا.

"نہیں تم لوگ آج مجھے بتا ہی دو کے آخر کب تک چلے گا یہ سب... کہاں دفع ہوئے تھے تم دونوں؟"  فخر نے وہیں دروازے میں کھڑے کھڑے ہی دونوں کو جھاڑ دیا

" یار خضر دیکھ رہے ہو تم...اس میں آجکل بیویوں والے گٹس نظر آنے لگے ہیں.... تو کہہ تو ایسے رہا ہے جیسے تو کوئی نئی نویلی دلہن ہے جسے شادی کی پہلی صبح ہی میں گھر میں اکیلا چھوڑ کر خود اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ بھاگ گیا ہوں." فخر کے سوالوں پر اسفند نے شرارت سے کہا

" بکواس نہ کر... وہ اسد بےغیرت اس ہٹلر کیپٹن کے ساتھ دفع ہو گیا، صبح سے تم لوگ بھی غائب تھے... تم لوگ تو مجھے یہاں ساتھ لا کر ایسے بھول گئے جیسے وہ لوڈ والی صبا لوڈ کروا کو واپس بھیجنا " اس کی بات پر خضر اور اسفند کے جاندار قہقہے گھر میں گونجے.

"ہی ہی ہی ہی..... چلو اب منہ پھاڑ کے ہنس لئے ہو تو بتا دو کے کدھر تھے اب تک؟" فخر نے طنزیہ کہا

جس پر دونوں نے شاہنواز سے ہونے والی ساری باتیں اسے الف سے لیکر ے تک بتا دیں

"اب اس کوبرا کا پتا بھی لگانا پڑے گا" فخر  پر سوچ انداز میں بولا

"ہاں اسد سے کال پر بات ہوئی تھی میری وہ راستے میں ہیں...... ہیڈ کوارٹرز سے جو آرڈرز آئیں گے انکے مطابق ہی اگلا پلین بنانا پڑے گا." خضر نے اسد سے کال پر بات ہونے کی خبر ان دونوں کو دی اور پھر وہ تینوں دروازے کے سامنے سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تاکہ کیپٹن ہنال اور اسد کے آنے پر ہی اگلا قدم ترتیب دے سکیں.

جاری ہے
اسلام علیکم!
امید ہے کہ آپ سب بخیر و عافیت ہوں گے!
ناول راہ حق کی چار اقساط پوری ہو گئی ہیں.
ابھی تک آپکو ناول کیسا لگا اور آپکا پسندیدہ کردار کون رہا؟
کمنٹ میں اپنے جوابات لازمی شئیر کریں تاکہ آپکے کے اچھے رسپانس سے میں موٹیویٹ ہوکر آپکو اور ابھی اچھی سی اقساط پیش کر سکوں.
آپکا ایک ایک ووٹ بہت اہم ہے.
اچھا سا رسپانس دیں تاکہ میں اچھی سی 5th episode  جلد اپلوڈ کروں

آپکی قیمتی رائے کا انتظار رہے گا.
دعاوں میں یاد رکھیے گا.
جزاک اللہ!

Also do vote and comments if you like this episode!
Waiting for your feedback

Continue Reading

You'll Also Like

12 0 2
راستے جب ایک ہی منزل پر آکر مل جائیں۔۔۔۔۔۔۔کیا اسے اتفاق کہیں یا قسمت؟
19 2 2
"آنِتٌيَ مًخِتٌلَفُهّ عٌنِ آلَبًشُر وٌهّذِآ مًآيَجّعٌلَنِيَ آقُعٌ بًحًبًکْ آفُلَيَنِ" "هّلَ حًقُآ خِآتٌمً سِيَغُيَر مًجّرﮯ حًيَآتٌيَ يَجّبً عٌلَيَ آ...
38 3 1
یہ کہانی ہے دو ایسے محبت کرنے والوں کی جو ایک دوسرے کی محبت سے انجان زندگی کے کئی سال اپنی محبت کے انتظار میں تڑپتے ہیں۔۔