چھنکار مکمل✅

By Aimeykhan

34.3K 1.7K 1.5K

کہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی ج... More

آغاز آشنائی
پہلی ملاقات
یار من
رنگ و بو کا جہاں
بکھرتی چاندنی
بہتا پانی
انجانے راہی
راز الفت
جھیل میں بہتا عشق
آتشِ غم
فراقِ یار
جان کے بھی انجانا
رُخ موڑتی زندگی
انجام کے بعد

تقدیر کے کھیل نرالے

2K 97 72
By Aimeykhan

باب نمبر 3
سارا بچپن بتا دیا اس کو اپنا کہتے
انجان ہوگیا وہ کچھ اس طرح

غرور سے مہر لگائی تھی اس کے وجود پر
نکلے تقدیر کے بھی کھیل ہی نرالے

وہ باسی تھا کسی اور ڈال کا
واپس اڑ گیا اپنی ہی بستی میں

میں انتظار کرتی رہ گئی
میری صبح و شام کٹ گئی
ایمن خان
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کھولے کھڑی تھی۔ لال حویلی کے پچھلی جانب بنے اس کے کمرے کی بڑی سی سلائیڈنگ ونڈو تھی جسے کھولے وہ کھڑی آسمان پر چمکتے گہرے چاند کی ٹھنڈی میٹھی روشنی اپنے اندر اتار رہی تھی۔ پورا وجود عجیب سے سناٹوں کی زد میں تھا۔ سفید دوپٹہ بستر پر ایک جانب کو رکھا ہوا تھا پشت پر بورے بال بکھرے ہوئے تھے گہری سیاہ آنکھوں میں عجیب سی بے چینی ہلکورے لے رہی تھی۔
" میری بے تابی، میری بے چینی اسے کیوں دیکھائی نہیں دیتی میری ذات سے وہ اتنا بے پرواہ ہے یا بنتا ہے؟"
عجیب سے سوال تھے جو اس لمہے اس کے اندر سر اٹھا رہے تھے اس کی بیگانگی دیکھتے دیکھتے وہ تنگ آگئی تھی۔
" ساری بیگانگی، ساری پے پرواہی لڑکیوں کے ہی مقدر میں کیوں ہوتی ہے کیا ان کے نصیب میں محبوب کے ہاتھوں تڑپ ہی لکھی ہوتی ہے؟"
جب دل بغاوت پر اترا ہوا ہو تو نا چاہتے ہوئے بھی ایسے سوالات سر اٹھا لیتے ہیں جنہیں کبھی سوچنے کا بھی تصور نہیں کیا ہوتا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے سفید چہرے کو فرحت بخش رہے تھے آنکھیں بند کرکے اس نے اس چلتی ہوئی بے پرواہ ہوا کی ٹھنڈک کو گہرائی سے محسوس کیا تھا دروازہ کھٹکنے کی آواز پر جیسے اس کی محویت ٹوٹی تھی آبیان بخت کی ذات کے سحر سے وہ یک مشت نکلی تھی رکھی ہاتھ باندھے کھڑی تھی اس کے رخ موڑنے پر وہ گویا ہوئی۔
" افروز جان! بی بی سرکار یاد فرماتی ہیں۔"
اپنے ازلی مودب لہجے میں رکھی نے اسے بی بی سرکار کا پیغام دیا تھا۔ پیغام سن کر ہی اسے اپنی بے ساختگی یاد آئی تھی۔
" جانتے بوجتے ہوئے بھی جو غلطیاں بے ساختگی میں ہو جائیں ان کی پوچھ گچھ کے لیے تیار رہنا چائیے۔"
اس نے سر جھٹکتے ہوئے سوچا تھا اور دوپٹہ اوڑھ کر باہر آئی تھی اس کا رخ اب بی بی سرکار کے کمرے کی جانب تھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کوئی مجرم ہو جسے دربار میں اعتراف جرم کرنے کے لیے یاد کیا جارہا ہو بی بی سرکار کے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور دروازہ کھٹکایا۔ جواب کا انتظار کیے بغیر ہی وہ دروازہ دھکیل کر اندر چلی گئی سامنے بی بی سرکار نماز والی چوکی پر بیٹھی عشاہ پڑھ رہی تھیں وہ بیڈ کے ساتھ رکھے ہوئے صوفے پر ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی دل کی دھڑکن یک لخت ہی تیز ہوئی تھی اور وجہ وہ باز پرس تھی جو کچھ دیر بعد اس سے ہونے والی تھی بے ساختہ اس نے دل میں اپنے آپ کو کوسا تھا۔
وہ مسلسل گود میں رکھے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔ بی بی سرکار سلام پھیر چکی تھیں انہوں نے ایک نظر صوفے پر بیٹھی مہالہ پر ڈالی تھی اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے انتہائی تسلی سے دعا مانگنے کے بعد وہ جانماز کا کونہ موڑ کر چوکی سے نیچے اتر کر اپنے بستر تک آئی تھیں۔ وہ ابھی تک مسلسل منہ میں کچھ پڑھ رہی تھیں شاہد کوئی دعا یا پھر وظیفہ اسے سمجھ نہیں آیا تھا۔
" اپنی محویت کے ہاتھوں انسان نے بڑی مار کھائی ہے چاہے پھر وہ جنگ کا میدان ہو یا گھروں کے آنگن!"
ان کے جملے پر اس نے سر اٹھا کر ان کی جانب دیکھا جو کسی بھی تاثر کے بغیر تھیں مہالہ ان سے برہمی کی امید کررہی تھی مگر ان کے سپاٹ تاثرات ہمشہ ان کے غصے سے زیادہ اثر انداز ہوتے تھے۔
" محبت کرنا گناہ نہیں ہے مگر اس کا اشتیار لگانا گناہ ہے اگر محبت خاموش ہو تو نہ بھی ملے تو جگ ہنسائی نہیں ہوتی مگر اگر محبت بدنام ہو تو نا ملنے پر ہنستے اور مذاق اڑاتے چہروں کا سامنا کرنا زندگی کا سب سے مشکل کام لگتا ہے۔"
اب سپاٹ چہرے پر نرمی کا تاثر ابھرا تھا۔ مہالہ کے چہرے کی الجھن مزید گہری ہوئی تھی۔
" میں نے کب اشتیار لگایا بی بی سرکار!"
اس کے سوال پر حیرانی تھی بے حد حیرانی جس نے بی بی سرکار کو مسکرانے پر مجبور کیا تھا۔
" بھری محفل میں محبوب کو حاضرین کو یکسر فراموش کرکے ایسے دیکھو کہ لگے اس محفل میں آپ کے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جبکہ کتنی ہی آنکھیں آپ کی اس محویت کا تماشہ دیکھ رہی ہوں تو اشتیار تو لگ گیا پتر!"
ہاتھ میں تھامی ہوئی تسبح انہوں نے سائیڈ میز پر رکھی تھی۔ وہ خاموش ہوگئی تھی جیسے اپنی صفائی میں کہنے کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔
" نامحرم سے محبت دیکھائی نہیں جاتی اسے تو ایسے سینت کر دل کے کونے میں دفن کیا جاتا ہے کہ اس کی بڑھتی ہوئی تاثیر صرف آپ کے وجود کے ناہہ خانوں کو ہی جھلسائے اس کی تپش وجود سے باہر جائے گئ تو آپ کے مجبوب رشتوں کے چہروں کو بھی جلا دے گی۔"
بی بی سرکار کے الفاظ نہیں تھے بلکہ وہ کوئی دہکتے ہوئے انگارے تھے جو مہالہ افروز کے پورے وجود کو جلا رہے تھے۔
" بی بی سرکار! محویت پر آپ کا اختیار ہی کہاں ہوتا ہے آپ نے مجھے کہا ہے ہمشہ کہ افروز جان! آبیان بخت اس دستار کا وارث ہے راجن پور کا گدی نشین ہے اور وہ تمہارا ہے اسے یہ گدی اسی صورت میں ملے گی جب وہ تمہارا ہاتھ تھامے گا کیونکہ میں اس کے حالیہ گدی نشین کی صاحب زادی ہوں ان کی اکلوتی وارث میرے دل میں ہوش سمبھالتے ہی اس کے ساتھ کی خواہش نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں پھر میں کیسے اس کی ذات میں خود کو محو ہونے سے روکوں؟ مجھے خوف آتا ہے کہیں وہ میری حد بندی سے نکل نہ جائے۔"
اس کے چہرے کے خوف کو بی بی سرکار نے پڑھ لیا تھا اس کی سیاہ آنکھوں میں ہلکی سی نمی چمکی تھی بی بی سرکار نے گہرا ہنکارا بھرا اور پھر اپنے بستر سے اٹھ کر صوفے پر اس کے مقابل آگئیں۔
" ہم انسان صرف وہ منصوبے بناتے ہیں جو ہمیں فائدہ مند نظر آتے ہیں پتر! ان کی معیاد کتنی ہوگی نہ ہم جانتے ہیں نہ کبھی جان سکتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر ہم اپنے منصوبے بنانے میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ یہ یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ ایک منصوبے بنانے والا اوپر بھی بیٹھا ہوا ہے جس نے ہم سب کی زندگیوں کی ایک ڈگر مقرر کی ہے ہم اس کی مقرر کی گئی ڈگر کو اس کی بتائی گئی سیدھ میں لے کر جائیں گئے تو خوش رہیں گئے مگر جہاں ہم نے اس کے راستے سے ہٹ کر اس کی ڈگر اپنے راستے پر ڈالی وہی سے ہماری زندگیوں میں بوچھال کی شرواعت ہوجائے گئی انتظار کرو جب تک وقت نہیں کہتا کہ کر گزرو تب تک انتظار کرو۔"
وہ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
" محبت کو اپنی کمزوری نہیں طاقت بنائیں افروز جان! کمزور چیزیں ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں جبکہ طاقت ور کی گرفت ہمشہ مضبوط ہوتی ہے جائیں آرام کرئیں شاباش!"
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور خود واشروم کی جانب بڑھ گئی۔
اس کا دل بیک وقت دو طرح کی کیفیات کا شکار تھا مثبت اور منفی مثبت اس لیے کہ محبت کو دل کے خانوں میں قید کرنے کی راہ سجھائی دے گئی تھی اور منفی اس لیے کہ جو راہ سجھائی دی تھی وہ اس قدر کٹھن تھی کہ اس پر چلتے ہوئے اس کے پاوں لہو لہان ہوسکتے تھے۔ نتیجے پر پہنچنے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔
" سود مند راستے ہمشہ کٹھن ہی ہوتے ہیں پلیٹ میں رکھ کر تو کوئی پانی بھی پیش نہیں کرتا۔"
بستر پر لیٹ کر آنکھیں موندنے سے پہلے یہ آخری بات تھی جو اس نے سوچی تھی اس کے بعد نئی صبح اور نیا سفر شروع ہونا تھا۔

تونے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ لگتے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں لاعلم
چھوڑ جائیں گئے کسی روز نگر شام کے بعد
میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفان میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد
شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ غصے سے بھری ہوئی اس کے کمرے میں آئی تھی نیلا آسمان اس لمہے سیاہ گھور لگ رہا تھا جہاں کچھ فاصلے سے تارے چمک رہے تھے دور کہیں ان تاروں کی اوٹ میں چاند بھی چھپا ہوا تھا جو بڑی دکتوں کے بعد آسمان پر اپنی جھلک دیکھا رہا تھا راجن پور کی خاموش فضا میں عجیب سا سناٹہ تھا پتہ نہیں یہ سناٹہ فضا میں تھا یا لوگوں کے دلوں کا درناب نے ایک گہرا سانس فضا کے سپرد کیا تھا اور کمرے میں ادھر ادھر نگاہیں دوڑائی تھیں جو بالکل خالی تھا البتہ واشروم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی وہ مطمعن ہوکر اس کے بستر پر بیٹھ گئی تھی سامنے ہی کاوچ پر سیاہ سوٹ کیس رکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر درناب کی آنکھیں چمکی تھیں مگر وہ اس کی اجازت کے بغیر سوٹ کیس کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی ایک پل میں اداسی اس پر غالب آئی تھی ساتھ ہی واشروم کا دروازہ کھولتا وہ تولیے سے بال رگڑتا باہر نکلا تھا گرے ٹراوز پر بلیک ٹی شرٹ پہنے وہ تازہ دم لگ رہا تھا۔
" آپ یہاں کیا کررہی ہیں درناب؟"
اس نے تولیہ بستر پر پھینکتے ہوئے اس سے پوچھا تھا جو مسلسل سیاہ سوٹ کیس کو گھور رہی تھی۔
" اب کیا میرے سوٹ کیس کو نظر لگائیں گی؟"
وہ بالوں میں برش چلاتا اس کی جانب گھوما تھا۔
" بھا صاحب! شہر سے میرے لیے کیا لائے ہیں؟"
وہ ابرو اچکا کر خاصی سنجیدگی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
" ابھی کچھ عرصہ پہلے تو آپ کے لیے اتنی چیزیں لے کر آئے تھے اب کیا ہر بار شہر سے آئیں تو آپ کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آئیں؟"
وہ برش واپس ڈریسنگ میز پر رکھتا اس سے کہہ رہا تھا۔
" آئیں اپنی چھوٹی پیاری بہن کے لیے کچھ نہ کچھ ہاں تو اور کیا آپ کا فرض بنتا ہے جب بھی شہر سےلے کر آئیں۔"
وہ اپنی بات پر خاصہ زور دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری چھوٹی پیاری بہن کس قدر بھوکی ہے۔"
اس نے ناک چڑھا کر مسکراہٹ دبا کر کہا تو درناب کا صدمے کے مارے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
" بھا صاحب! بھوکی کس کو بولا ہے آپ نے جلدی نکالیں کیا لے کر آئیں ہیں کب سے حسرت بھری نگاہیں آپ کے سوٹ کیس پر جما کر بیٹھی ہوں میں۔"
وہ اب خاصی تنگ آچکی تھی۔ اس کی بات پر آبیان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ بغیر لیے تو یہ جان چھوڑنے والی ہے نہیں اس لیے ٹھنڈی سانس بھرتا ہوا سیاہ سوٹ کیس کی جانب بڑھ گیا سوٹ کیس کی چھوٹی اندرونی جیب سے اس نے ایک ہری مخملی ڈبیہ نکالی تھی ڈبیہ دیکھ کر درناب کی حیرت کے مارے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔
" یہ۔۔یہ میرے لیے ہے؟"
اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا بھائی اس کے لیے انگھوٹی جیسی کوئی چیز لا سکتا ہے۔
" پہلے ڈبیہ کھول کے دیکھ لیں منہ بعد میں کھول لیجیے گا۔"
اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا تو درناب نے خفگی سے اسے گھورتے ہوئے ڈبیہ اس کے ہاتھ سے لے لی۔
درناب نے اشتیاق بھرے انداز میں ہری مخملی ڈبیہ کھولی تھی اندر موجود چیز کو دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا تھا۔
" یہ کیا بھا صاحب! فیروزے کی لونگ؟"
درناب کی شکل اس لمہے دیکھنے لائق تھی آبیان نے اسے گھورا تھا۔
" اتنی خوبصورت لونگ ہے درناب! مجھے تو دیکھ کر ہی بہت پسند آئی تھی سوچا آپ پہنیں گی تو کتنی حسین لگے گی۔"
اس نے تصور میں بینچ پر بیٹھی ہوئی اس حسین لڑکی کو سوچا تھا جس کا چہرہ اس فیروزے کی لونگ سے دمک رہا تھا۔
" بھا صاحب! پیاری تو بہت ہے پر میں کہاں پہنو اس کو میرا ناک ہی نہیں بنا ہوا۔"
اس نے اپنے ناک کی جانب اشارہ کرکے اسے بتایا تھا۔ اس کی بات پر آبیان کو بے ساختہ اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ اسے تو وہ لونگ اس لڑکی کی ناک پر اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے درناب کے لیے بھی ویسی ہی ڈھونڈ کر لی تھی پر لیتے ہوئے اسے یہ تو بالکل بھی یاد نہیں تھا کہ درناب کا ناک ہی نہیں بنا ہوا۔
" تو ناک بنوانے میں کونسا وقت لگتا کل صبح ہی بنوا لینا حویلی بلوا کر کسی کو۔"
اپنی خفت مٹانے کو اس نے فوری مشورہ دیا تھا۔
" اچھا اگر اب آپ لے ہی آئیں ہیں تو پہن لوں گی تھینک یو۔"
وہ اس کے ساتھ لگتی ہوئی مسکرا کر بولی تھی۔
" خوش رہیے۔"
اس نے اس کے دوپٹے پر اپنے لب رکھے تھے۔
" شب خیر بھا صاحب آپ بہت اچھے ہیں۔"
وہ ہاتھ ہلاتی ہوئی اس کے کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ وہ گرنے کے سے انداز میں بستر پر لیٹ گیا۔
" کبھی کبھی بے اختیاریاں بھی کیا کچھ کروا لیتی ہیں بندے سے۔"
اس نے یونہی سوچا تھا جبکہ سیاہ گھور آسمان اس کی سوچ پر مسکرا رہا تھا تارے بھی کہیں آسمان کے ساتھ اس کی آنے والی آزمائش پر مسکرا اٹھے تھے۔ آبیان بخت کے لیے زندگی کبھی بھی اتنی سیدھی نہیں تھی جتنی وہ تصور کرتا تھا کچھ پا لینے کا عزم رکھنے والوں کے لیے مشکلات کا ایک جہان آباد ہوتا ہے اور اسے بھی ابھی اس جہان میں داخل ہونا تھا جہاں بہت سے امتحان اس کا انتظار کررہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
نیلم کی وادی میں سردی اپنے عروج پر تھی روئی کے گالوں جیسے پہاڑ اپنی پوری تکمنت سے وادیے نیلم پر راج کررہے تھے چھوٹے چھوٹے گاوں میں موجود لوگ سردی کی وجہ سے اپنے اپنے بستروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ فضا میں دھند کا راج تھا لکڑی کے کوٹیجوں کے دروازوں پر برف کی موٹی تحیں جم چکی تھیں ایسے میں وہ اپنے مسلسل بجتے فون سے نگاہیں چرا رہی تھی جینز پر ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہنے پیروں کو موذوں میں قید کیے وہ مسلسل اپنے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑ رہی تھی کمرے کی کھڑکیوں کے پردے برابر تھے لحاف اوڑے وہ ایک بار پھر سے بجتے ہوئے فون کو بے بسی سے دیکھ رہی تھی اس نے گہرا سانس بھر کر بجتے ہوئے فون کو اٹھا کر کان سے لگایا تھا۔
" ہیلو!"
آواز بے حد دھیمی تھی۔
" یار کدھر تھی تم اور فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی میرا؟"
دوسری جانب سے انتہائی خفگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
" موڈ نہیں تھا میرا۔"
آنکھوں کو بند کرتے ہوئے وہ یہ جملہ بامشکل ہی کہہ پائی تھی مقابل کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔
" آر یو اوکے ریحا!؟"
اس کے لہجے میں بلا کی بے قراری بول رہی تھی۔
" یس میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں پلیز!"
اس نے کہہ کر اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر کال کاٹ دی تھی اپنے دکھتے سر کو تھام کر اس نے دونوں طرف سے دبایا اور آنکھیں موند کر سر بیڈ کراون سے ٹکا گئی۔
" کبھی کبھی جان سے پیارے لوگوں کو نظر انداز کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام لگتا۔"
وہ عجیب سا سوچ رہی تھی جو اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔
ریحا اور راغیص کی زندگیوں کو امتحان کا مرکز بنانے والا کوئی اور نہیں ان کا اپنا باپ تھا دونوں کی زندگیاں ایک عجیب سی ڈگر پر چل رہی تھی ہونے نا ہونے کے درمیان کے احساسات زندگی کو بے انتہا مشکل بنا دیتے ہیں کسی ان دیکھی ڈگر پر چلتے ہوئے پاوں ہمشہ تھک جاتے ہیں کیونکہ وہاں مسافت کے لمہات کتنے ہونگے یہ اندازہ لگانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی ایک راستے پر چل رہی تھی جس کی منزل کی چاہ بہت تھی مگر امکان کم تھے اور جب امکان کم ہو تو چاہ مانند پر جاتی ہے کیونکہ اندر عجیب ڈگمگاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہورہا تھا وہ گزشتہ لمہات میں اتنی بے چین ہوچکی تھی کہ اس کا اندر عجیب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا تھا اور یہی بات اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی اپنے دکھتے سر کو سہلاتے ہوئے وہ بیڈ پر ہی ڈھیر ہوگئی تھی اسے معلوم بھی نہیں ہوا اور وہ دھیرے دھیرے نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
لاہور شہر کے اوپر خوبصورت صبح اتری تھی مرغے کی بانگ کے ساتھ نمازی فجر ادا کرکے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ایسے میں کچھ لوگ غفلت کی نیند بھی سوئے ہوئے تھے مگر حیرت انگیز طور پر وہ آج صبح صبح ہی نک سک سا تیار اپنے کار پورچ میں کھڑا تھا جہاں سفید رنگ کی لینڈ کروزر اپنے پورے وقار کے ساتھ کھڑی تھی انگلی میں چابی گھماتے ہوئے اس نے چوکیدار کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا جو گیٹ کے قریب کرسی رکھے اونگ رہا تھا۔
" تمہیں کیا سونے کی تنخواہ ملتی ہے؟"
اس نے گھور کر چوکیدار کو دیکھا تو وہ ہڑبڑا کر اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
" نہ۔۔نہیں صاحب! معافی وہ بس ابھی آنکھ لگی تھی۔"
چوکیدار نے گھبرا کر اسے صفائی دی تو اس نے اچھا خاصہ چوکیدار کو گھورا۔
" آئیندہ سوئے ہوئے نظر مت آو ورنہ تمہیں فارغ کردوں گا گیٹ کھولو اب۔"
اس نے سخت لہجے میں کہا تو چوکیدار نے تیزی سے گیٹ کھول دیا تب تک وہ سفید لینڈ کروزر سٹارٹ کرچکا تھا چوکیدار کے گیٹ کھولتے ہی گاڑی زن سے نکال کر لے گیا۔ مین شاہراہ پر پہنچتے ہی ہلکی ہلکی دھوپ نے اس کا استقبال کیا تھا ڈیش بورڈ پر رکھے ہوئے شیاہ شیڈز اٹھا کر اس نے اپنی آنکھوں پر لگائے اور کان میں لگائے ہوئے بلو توتھ کا بٹن پریس کیا دوسری جانب بیل جارہی تھی۔
" ہاں آپ پہنچ گئے ہیں؟"
اس نے دوسری جانب موجود شخص سے پوچھا تو اس نے سر ہلا کر بٹن بند کردیا اس کے پاوں کا دباو ایکسلیٹر پر بڑھا تھا اس کا رخ اب علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی جانب تھا۔
وہ ائیرپورٹ کے اندرونی حصے میں ڈیپارشن ائیریا کے باہر کھڑا تھا کلائی میں پہنی ہوئی گھڑی پر بار بار نگاہیں ڈالتا وہ خاصا بے چین دکھ رہا تھا۔ ابھی وہ فون نکال کر دوبارہ کال ملانے ہی والا تھا جب اسے دور سے اس کا مطلوبہ شخص آتا دیکھائی دیا۔ گرے پینٹ پر ڈارک گرین ٹی شرٹ پہنے وہ شفاف رنگت اور مناسب نقوش والا پرکشیش نوجوان تھا جو اپنے ایک بازو پر کوٹ ڈالے جبکہ دوسرے بازو سے سوٹ کیس گھسیٹے انتہائی بیزار دیکھائی دے رہا تھا۔ وہ شاہد دور سے دمیر کو اپنا منتظر دیکھ چکا تھا اس لیے بغیر ادھر ادھر دیکھے سیدھا اس تک آیا تھا۔
" ہیلو بھا صاحب! "
وہ اس سے بغل گیر ہوا تھا انداز سے ہی گرمجوشی جھلک رہی تھی۔
" کیسے ہو برو؟"
ارغن کی کچھ دیر قبل والی بیزاری اڑن چھو ہوئی تھی۔۔
" گڈ ایز آلویز۔"
دمیر نے اپنی باہیں پھیلا کر گویا اسے اپنے فٹ ہونے کا یقین دلایا تھا۔ باتیں کرتے دونوں پارکنگ تک آگئے تھے جہاں دمیر کی گاڑی کھڑی تھی۔ ارغن فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا جبکہ خود اس نے فوری ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی اور گاڑی سٹارٹ کرکے تیزی سے ائیرپورٹ کی حدود سے باہر لے آیا۔
" ویسے مجھے حیرت ہورہی ہے کہ تم مجھے لینے کے لیے آج اتنی صبح اٹھ گئے ہو؟"
ارغن نے آنکھوں پر شیڈز لگاتے ہوئے دمیر پر چوٹ کی تھی۔
" کہاں سوتا ہوں اب میں بھا صاحب! اچھے بیٹوں کی طرح بابا کے ساتھ آفس جاتا ہوں اس لیے جلدی اٹھتا ہوں اور آپ تو ایسے حیران ہورہے ہیں جیسے ایک مہینے کے بزنس ٹرپ پر نہیں بلکہ ہمشہ ہمشہ کے لیے ہی وہاں گئے تھے۔"
اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے منہ پھلا کر کہا تو گاڑی میں ارغن کا قہقہ گونجا۔
" اماں سچ کہتی ہیں تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔"
اس نے سر ادھر ادھر مارتے ہوئے کہا تو دمیر بے ساختہ مسکرا دیا۔ سفید لینڈ کروزر ڈیفینس فیز فائیو میں داخل ہوچکی تھی خوبصورت بنگلے کے باہر گاڑی روک کر اس نے ہارن بجایا تھا چوکیدار نے فوری گیٹ کھول دیا تھا جیسے کب سے اس کی واپسی کا ہی منتظر ہو۔ ضرار ہاوس میں ایک اور نفس کا اضافہ ہوچکا تھا جو اپنے باپ کے بقول ان کا بازو تھا۔ زندگی اور سوچ کسی کی بھی کبھی ایک سی نہیں رہتی وقت اور حالات انسان کو بدلتے رہتے ہیں اور اس کا نمونہ ہر فرد دیکھنے والا تھا۔
*********************
میراج کوٹھی میں رات کے فنکشن کے بعد ہر سو سناٹا چھایا ہوا تھا شاہد میراج کوٹھی کے مکین ابھی تک نیند میں تھے راتوں کے بعد کچھ لوگوں اپنی صبح کے لمہے بھی رنگین کررہے تھے ایسے میں وہ دو نفوس ہمشہ خود سے لڑنے والی جنگ میں اس قدر محو ہوتے کہ ان کے وجود ان کی روحوں سمیت جھلس جاتے تھے مگر اذیت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ سر پر کس کر دوپٹہ باندھے وہ کراہ رہی تھیں پیروں کے تلوے سرخ انگارے ہورہے تھے جن میں جگہ جگہ چھالے پڑے ہوئے تھے اور کئی چھالوں میں سے پیپ رس رہی تھی ہونٹ باہم پینچ کر وہ جسم میں سے اٹھنے والے درد کو دبا رہی تھیں ایک نظر انہوں نے سائیڈ میز پر ڈالی تھی جہاں گھنگروں کا جوڑا رکھا ہوا تھا۔ ایک وقت تھا جب انہیں ان گھنگروں کی چھنکار سے وحشت محسوس ہوتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ وہ انہیں پیروں کے پہن کر تب تک ناچتی ہیں جب تک پیروں میں چھالے نہیں پڑ جاتے ان کے لبوں سے ایک گھٹی گھٹی سی سسکی آزاد ہوئی تھی بے حد تکلیف کے باوجود سائیڈ میز کے پہلے دراز میں رکھی ہوئی سرخ جلد کی وہ ڈائیری انہوں نے نکال کر اپنی گود میں رکھی تھی اور پین شفاف صفحے پر گھسیٹنا شروع کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا وہ اس میں کیا لکھتی ہیں تحریر ختم کرکے انہوں نے بقیہ بچے ہوئے صفحات پر ایک نظر ڈالی تھی اور ڈائیری بند کرکے واپس دارز میں ڈال دی تھی سر میں ایک بار پھر سے شدید ٹیس اٹھی تھی دروازے پر کھڑی ہوئی انجم اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی جس کے پیچھے ایک لڑکی بھاپ اڑاتے پانی کا ٹب لیے کھڑی تھی۔ ان کی اجازت پاتے ہی وہ دونوں اندر آگئی تھیں۔
" آپ کے پیر کا تو بہت برا حال ہے جی!"
وہ پریشانی سے بولتی ہوئی بستر کی پائنتی پر بیٹھی تھی۔
" مجھے کوئی سر درد کی دوا دے دو انجم!"
انہوں نے بامشکل ہی اس سے کہا تھا ورنہ یوں محسوس ہورہا تھا آج ان کے حلق سے کوئی بھی آواز نہیں نکلے گی۔ انجم نے سر ہلاتے ہوئے ایک سر درد کی دوا ان کی ہتھیلی پر رکھی تھی جو وہ ایک ہی سانس میں پانی کے ساتھ نگل گئی تھیں۔
" باہمین بی بی کو کیوں نہیں بتاتی آپ کہ کتنی بیمار ہیں جی کیسی بیٹی ہیں وہ جنہیں ماں سے کبھی کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا۔"
انجم باہمین کے لیے خفگی کا بھرپور اظہار کررہی تھی ساتھ میں اس نے سلسبیل بائی کے دونوں پاوں بھاپ اڑاتے ٹب میں ڈبو دیے تھے جس کے باعث ان کے چہرے پر تکلیف کے شدید تاثرات تھے۔
"گند کے پاس لوگ اس لیے نہیں جانتے انجم! کہ کہیں گندے نہ ہوجائے میرے پاس بھی وہ اس لیے نہیں آتی کہ کہیں میری غلاظت کا کوئی چھینٹا اس کے دامن کو نہ داغدار کردے۔"
وہ آنکھیں موندے ہوئے انتہائی تلخی سے کہہ گئی جبکہ انجم نے ان کی بات سن کر شدید اضطراب کا اظہار کیا تھا۔
" نہ بائی! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ تو اتنی نیک ہیں جی آپ کے پاس جب بھی بیٹھو ایک عجیب سے سکون کا احساس ہوتا ہے۔"
انجم نے تڑپ کر ان سے کہا تو وہ بے اختیار مسکرائیں۔
" طوائفیں کبھی نیک نہیں ہوتی انجم! کیونکہ بہت سے نامحرم ان کے بستروں کو رونق بخش دیتے ہیں اور جب وجود ہی داغدار ہو تو کیسی نیکی۔"
وہ ہنوز آنکھیں موندے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" نہ جی اللہ کی ذات بڑی مہربان ہوتی ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اسے کس طوائف کی کونسی ادا پسند آجائے۔"
وہ ان کے پیروں پر پٹی باندھ کر کھڑی ہوگئی تھی اس کی بات پر بے ساختہ سلسبیل بائی مسکرائی تھیں۔ وہ بھی مسکرا کر باہر نکل گئی جبکہ ان کے لیے نیکی اور بدی کے در وا ہوگئے تھے جسے خود بھی وہ سمجھنے سے قاصر تھیں تکلیف کی شدید لہر انہیں اپنے پورے وجود سے اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

زخم گھنگرو پہن کے بیٹھے ہیں
پھر بھی تیری یادوں کا رقص جاری ہے

□□□□□□□□□□□□□□□□□□□□□
صبح راجن پور پر اس طرح اتری تھی جیسے سیاہی کے بعد ہر چیز دھل کر نکھر گئی ہو۔ گاوں کے باسی اپنے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے بزرگ سیاست پر تبصرے کے ساتھ ساتھ قریبی کھوکھے سے چائے پراٹھے سے بھی انصاف کرتے دیکھائی دے رہے تھے ایسے میں وہ سیاہ ٹریک سوٹ پہنے کھیتوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی سڑک پر بڑی تیزی سے دوڑ رہا تھا پسینے کے قطرے اس کے صبیح چہرے پر چمک رہے تھے وہ اپنا آخری چکر لگا رہا تھا اس نے آج حویلی میں ورزش کرنے کی بجائے گاوں میں جاگنگ کرنے کو ترجیح دی تھی وہ دیکھنا چاہتا تھا گاوں میں کیا حالات ہیں اور اسے دیکھ کر اچھا لگا تھا کہ لوگ بہت خوش و خرم بیٹھے ہوئے ہیں۔
برگد کے درخت کے قریب پہنچ کر اس نے سانس لیا تھا جہاں اس کا خاص ملازم راحت علی کھڑا اس کا منتظر تھا اس کے رکتے ہی راحت علی نے سفید تولیہ اس کی جانب بڑھایا تھا جسے تھام کر اس نے اپنا چہرہ اور گردن صاف کی تھی پھر پانی کی بوتل سے منہ لگا کر دو تین گھونٹ پانی پیا تھا اب وہ قدرے ریلیکس ہوچکا تھا۔ گاوں کے بزرگ اس کی جانب ہی متوجہ تھے اور بڑے ہی اشتیاق سے اسے دیکھ رہے تھے آپس میں چہم گوئیوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل رہا تھا اتوار کو تو ویسے ہی راجن پور گاوں کی رونقیں دیکھنے والی ہوتی تھیں۔
" ارے سرکار! آپ صبح صبح آج یہاں؟"
ان میں سے ایک بزرگ نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس سے کہا تھا۔
" جی چچا! میں جوگنگ کررہا تھا یہاں۔"
بدلے میں وہ بھی مسکرایا تھا اس کی مسکراہٹ راجن پور کے باسیوں کے لیے حیران کن تھی کیونکہ لال حویلی کے مکین جتنے مرضی کشادہ دل کیوں نہ تھے مگر وہ گاوں کے لوگوں سے ایک فاصلہ بنا کر رکھتے تھے۔
" سرکار! ناشتہ کریں گئے؟"
ڈھابے کے مالک نے اشتیاق سے اس سے پوچھا تو اس نے لحظہ بھر کو اس کے امید سے دمکتے چہرے کو دیکھا اور پھر مسکرا کر گہرا سانس بھرا۔
" چچا لائیے پھر پراٹھا اور چائے آج ہم بھی برگد کے درخت کے سائے میں چائے پراٹھہ کھا کر دیکھتے ہیں کہ کیسا محسوس ہوتا ہے۔"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہتا ہوا تولیہ راحت علی کو تھما کر خود برگد کے درخت تلے بیٹھ گیا تھا۔
" سرکار! بی بی سرکار کو معلوم ہوگیا تو سخت غصہ کریں گی۔"
راحت علی نے اسے بی بی سرکار کے غصے سے ڈرانے کی بھرپور کوشیش کی تھی۔
" کچھ نہیں کہتی وہ تم بھی آو ہمارے ساتھ ناشتہ کرو۔"
اس نے راحت علی کو بھی گھسیٹ لیا تھا گاوں کے لوگ شدید پریشان دیکھائی دے رہے تھے مگر وہ چائے پراٹھے سے انصاف کرنے میں مگن تھا۔ یہ تھا آبیان بخت جو سنتا سب کی تھا مگر کرتا صرف اپنی تھا۔ دنیا کو تسخیر کرنے کا نشہ اس کی بلوری آنکھوں میں ہلکورے کھاتا تھا وہ خود کو ایک مقام پر دیکھنا چاہتا تھا جھکنا اس کی فہرست میں نہیں تھا جھکانا اسے بخوبی آتا تھا نہ کا لفظ اسے پسند نہیں تھا ہاں کرانے کا ہنر اس کے پاس تھا وہ بلا کا پر اعتماد اور زمانہ شناس تھا۔ ناشتہ کرکے وہ اپنے ساتھ لائی ہوئی گاڑی میں بیٹھا تھا جس کا رخ سیدھا لال حویلی کی جانب تھا۔ وہ ابھی گاڑی سے اتر کر اندر بڑھ ہی رہا تھا جب لان میں اسے مہالہ ٹہلتی ہوئی نظر آئی تھی وہ نظر انداز کرکے اندر چلا گیا تھا اور وہ وہی دروازے پر دیکھتی رہ گئی تھی جہاں سے گزر کر وہ ابھی اندر گیا تھا وہ جانتی تھی کچھ دیر میں وہ واپس شہر کے لیے نکل جائے گا اس لمہے اسے اپنے دل سے ایک عجیب سی ہوک اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ مرض تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا اور طبیب تھا کہ مرہم رکھنے کو تیار نہیں تھا۔
میرے ہمسفر تیری بے رخی
دل مبتلا کی شکست ہے
وہ منہ میں گنگنائی تھی اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اتوار کے روز میراج کوٹھی پر عجیب سا رش رہتا تھا سویرے سے لوگوں کا تانتا بندھ جاتا اور پھر رات گئے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ میراج کوٹھی اس کا گھر تھا جہاں اس نے پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے آنکھ کھولی تھی پھر نجانے کیوں اسے اپنا یہ گھر گھر نہیں لگتا تھا اسے لگتا جیسے وہ کسی سرائے یا بازار میں رہ رہی ہو جہاں انسان نہیں چیزیں بستی ہوں جس چیز کا جو بھی پرکشش خریددار آئے اسے بیچ کر ہرے اور نیلے نوٹوں کی گڈیوں سے اپنا صندوقچہ بھر لو اور پھر طویل عرصے تک ان حرام کے لقموں سے لطف اٹھاتے جاو کتنی آسان زندگی تھی جہاں محنت کے نام پر صرف خود کو برہنہ ہی دیکھانا تھا،جہاں محنت کے نام پر رقص کرکے کمزور دل افراد کو اداوں کے گہرے خوبصورت جال میں پھنسانا تھا جس کی جتنی قاتل ادائیں اس پر اتنے ہی رنگین نوٹوں کی بارش کیا خوب زندگی تھی وہ اپنی خواب گاہ سے ملحقہ ٹریس پر رکھے تخت پر چت لیٹی ہلکے نیلے آسمان کو گھور رہی تھی دوپٹہ گاو تکیے پر ایک جانب کو پڑا ہوا تھا پیروں کی پازیبیں اس کی طرح خاموش تھیں سیاہ لمبے بالوں کا آبشار تخت سے نیچے کو لٹک رہا تھا سوچوں کا محور اس کی اپنی یہ عجیب سی زندگی تھی جو وہ اکیس سال سے گزار رہی تھی۔ اس کی مخروطی انگلیوں نے ناک کو چھوا تھا فیروزے کی لونگ محسوس ہوئی تھی ذہن کی روح بھٹک کر اس شاندار انسان کی طرف گئی تھی جسے اس کی ناک میں یہ فیروزے کی لونگ بہت پسند آئی تھی۔
" نجانے کون تھا وہ جو اتنی سنجیدگی سے تعریف کررہا تھا۔"
دماغ کی سکرین پر بے ساختہ سوال ابھرا تھا مگر جھٹک کر وہ واپس اپنے سابقہ مشغلے میں محو ہوگئی ٹیرس کے دروازے پر کھڑی انجیل بائی نے اس کے قیامت خیز حسن سے بے ساختہ نگاہیں چرائی تھیں اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی تخت کے قریب آئی تھیں جہاں وہ چت لیٹی آسمان کو گھور رہی تھی۔
" کبھی کبھی بے خبری میں انسان مارا جاتا ہے اور جب خبر ہوتی ہے تب تک چیزیں ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہیں۔"
انہوں نے اس کے قریب ہی تخت پر اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ بناتے ہوئے کہا تھا اس نے چونک کر ان کی جانب دیکھا تھا خوبصورت چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
" مطلب کیا ہے آپ کا؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی ناسمجھی سے کہہ رہی تھی۔
" اپنی ماں کی کچھ خبر لی ہے پتہ ہے وہ کتنی بیمار ہے رات سے؟"
انہوں نے پیار سے اس کے بکھرے بال سمیٹتے ہوئے پوچھا تھا۔
" وہ میری ماں نہیں ہیں۔"
چہرہ یک مشت سپاٹ ہوگیا تھا۔
" ماننے یا نہ ماننے سے کیا ہوگا حقیقت بدل نہیں جائے گی کہ وہ تمہاری ماں ہی ہے۔"
انہوں نے اپنی بات پر زور دیا تھا۔
" مائیں ایسی نہیں ہوتی وہ میری ماں سے زیادہ لوگوں کے دل بہلانے کا سامان ہیں جو نہ صرف محفل میں بلکہ اپنے بیڈ روم میں بھی لوگوں کے دل بہلانے کا سامان کرتی ہیں۔"
اس کے الفاظ مکمل ہوئے ہی تھے کہ انجیل بائی کی غصے سے چنگاڑتی ہوئی آواز نے اسے اپنی جگہ سن کردیا تھا۔
" اگر وہ لوگوں کے دل بہلانے کا سامان نہ کرے تو اس کی جگہ یقیننا تمہیں کرنا پڑے اس جیسی ماں شاہد ہی کوئی ہو جو بیٹی کی عصمت کی حفاظت کے لیے روز مرتی ہو اور روز جیتی ہو۔"
وہ کہہ کر رکی نہیں تھی بلکہ تیزی سے نکل گئی تھیں جبکہ ملال کی کیفیت نے اس کے اندر جنم لیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ سوچ بھی ابھری تھی۔
" بیٹی پیدا کرنے سے پہلے کیوں سلسبیل بائی نے اپنی عصمت کی حفاظت نہیں کی اگر کی ہوتی تو میرے جیسا غلاظت کا ڈھیر وجود میں آنے سے بچ جاتا۔"
آنسوں کی ایک لڑی اس کی خوبصورت آنکھوں سے بہہ کر اس کی کن پٹی میں جذب ہوئی تھی۔ وہ کھلے آسمان تلے آنکھیں موند گئی تھی۔

یہ جو تکلیف ہوتی ہے
وہ مجھے یوں چیر دیتی ہے
قطرہ قطرہ کرکے زہر دیتی ہے
مجھے رہائی چائیے اس قید اذیت سے
میری روح کو یہ جام موت دیتی ہے
ایمن
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
وہ حویلی میں داخل ہوتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں گیا تھا شاور لے کر فریش ہوکر جب نیچے آیا تو حسب معمول بی بی سرکار کو تخت پر بیٹھے ہوئے پایا ان کے سامنے ہی موڑے پر سدیس فائلوں کا ڈھیڑ لگائے بیٹھا ہوا تھا۔
" صبح باخیر بی بی سرکار!"
وہ سدیس کے نزدیک ہی موڑے پر بیٹھ گیا اس کے بیٹھتے ہی میتھن کافی کا بھرا ہوا مگ لیے حاضر ہوئی تھی اس نے اس کے ہاتھ سے کپ تھام کر تخت کے ایک طرف رکھا تھا اور سدیس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
" کیسے ہو تم یار اور زمینوں کا کام کیسا چل رہا؟"
اس نے مگ سے ایک گھونٹ بھرتے ہوئے اس سے پوچھا جو کھاتے والے رجسٹر پر حساب کررہا تھا۔
"میں تو بالکل ٹھیک ہو آپ کن ہواوں میں ہیں آج کل؟"
اس نے بی بی سرکار کی موجودگی یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سیدھا ہی تیر مارا تھا۔ آبیان نے اسے اچھا خاصا گھورا تھا مگر اس پر آبیان کی کسی گھوری کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
" سدیس پتر! اس کالج کے پاس والے زمیندار نے ٹھیکہ دیا کہ نہیں۔"
بی بی سرکار کو اپنا سابقہ ٹھیکہ پھر سے یاد آیا تھا۔
" دے دیا تھا بی بی سرکار وہی لے کر حاضر ہوا ہوں۔"
سدیس نے کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور خاکی لفافہ بی بی سرکار کے سامنے رکھ دیا جسے انہوں نے مسکرا کر تھام لیا۔
" گھی جب سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو پتر! انگلی ٹیری تو کرنی پڑتی ہی ہے۔"
وہ اپنے سابقہ سنجیدہ لہجے میں کہہ رہی تھیں جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
" بالکل! اب مجھے اجازت دیجیے میں نکلتا ہوں۔"
اس نے کہہ کر جلدی سے اپنا کھاتے والا رجسٹر بند کیا تھا اور باہر کی راہ لی تھی آبیان نے کافی کا آخری گھونٹ بھر کر کپ تخت پر رکھا اور جلدی سے اس کے پیچھے لپکا۔
" اوئے کیا بکواس کررہا تھا تو ہمارے بارے میں بی بی سرکار سے؟"
اس نے سدیس کو پیچھے گردن سے ہی دپوچا تھا جو مسلسل مسکرا رہا تھا۔
" سرکار ! آپ کی آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی لال حویلی سے کیا بیر ہے آخر آپ کا یہاں کیوں نہیں ٹکتے؟"
وہ برہمی سے اس سے سوال کررہا تھا آبیان نے اسے اچھا خاصا گھورا تھا۔
" ہم تمہارے سرکار کب سے ہوئے ہیں زرا یہ تو بتاو؟"
اس کی گھوری میں ابھی بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
" بڑے لوگ سرکار ہی ہوتے ہیں ان کو سرکار کہنے کے لیے کسی پرمٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔"
وہ نگاہیں چراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
" بی بی سرکار نے کچھ کہا ہے؟"
آبیان نے نرمی سے اس کا کندھا سہلایا تھا۔
" کہا بھی ہے تو کیا غلط ہے آپ بڑے لوگ ہیں وارث ہیں اس پورے راجن پور کے خیر چھوڑیے چلتا ہوں اجازت دیجیے۔"
وہ کہہ کر تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ آبیان پیچھے حیرت کا شکار ہوگیا تھا کم از کم اسے بی بی سرکار سے اس حرکت کی امید نہیں تھی سدیس ملک اس کا بچپن کا دوست تھا اس کا واحد اکلوتا دوست جو اس کے بے حد قریب تھا۔ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی درناب نے یہ مناظر باخوبی دیکھے تھے اس کے اندر کچھ کرچیوں کی مانند ٹوٹ کر بکھرا تھا یوں لگ رہا تھا یک طرفہ دیکھے ہوئے خوابوں کی ساری ریت دھیرے دھیرے ہاتھوں سے پھسل رہی ہو اور خالی ہاتھوں کا خوف درناب کے پرخچے اڑانے کے لیے کافی تھا اسے پہلی بار احساس ہوا تھا وہ کس اندیکھی آگ میں کود چکی ہے جہاں صرف جلنے کا حکم ہوگا بخشش کی کوئی صورت نہیں درناب وہاں یوں کھڑی تھی جیسے کسی نے ہلایا تو ابھی زمین بوس ہوجائے گی درناب کی محبت لال حویلی پر ایک قیامت بن کر ٹوٹنے والی تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ جارہا تھا پھر سے واپس آکر دوبارہ جا رہا تھا ہر بار جب وہ لال حویلی سے جاتا مہالہ افروز کا پورا وجود بے چینی کی ذد میں آجاتا اور اب بھی ایسا ہورہا تھا وہ دیکھ رہی تھی اسے وہ بی بی سرکار سے مل کر باہر کی جانب بڑھا تھا وہ اس کی پشت کو دیکھ کر نگاہیں جھکا گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی اشتیار لگے اس کی نظر بے ساختہ اپبے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر گئی تھی جہاں خوبصورت انگھوٹی اپنی پوری شان کے ساتھ براجمان تھی خوبصورت ننھا ہیرا پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اس کے ارد گرد دائرے کی صورت میں نکتے کے برابر ہیرے جڑے ہوئے تھے استحاق ہونے کے باوجود بے بس تھی وہ سارے خواب ساری امیدیں وہ شخص لمہوں میں نظر انداز کرکے چکنا چور کردیتا تھا۔ وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا گہرا سانس بھر کر وہ تخت پر بیٹھی تھی۔
چل اک ایسی نظم کہوں
جو لفظ کہوں وہ ہوجائے
بس اشک کہو تو اک آنسو
تیرے گورے گال کو دھو جائے
میں "آ" کہوں
تو آجائے
میں بیٹھ لکھوں
تو آ بیٹھے۔
سیاہ اوڈی راجن پور کی حدود سے باہر نکل کر شہر جانے والی سڑک پر بھاگ رہی تھی کریم کلر کی شلوار قمیض پر ڈارک براون کوٹ پہنے کلائی میں قیمتی گھڑی پہنے وہ فون کان سے لگائے کسی سے محو گفتگو تھا۔
" ہم بس ایک گھنٹے میں یونی ورسٹی پہنچ جائیں گئے تب تک آپ میٹنگ ہینڈل کرلیں۔"
مختصر جملوں کےتبادلے کے بعد کال بند ہوگئی۔
" راحت علی جلدی کرو ہم میٹنگ کے لیے لیٹ ہورہے ہیں۔"
اس نے راحت علی کو گاڑی جلدی چلانے کا کہا تھا جس پر اس نے سپیڈ بڑھائی تھی۔ تقریبا ایک گھنٹے کے بعد وہ یونی ورسٹی کے گیٹ پر تھا اس کی سیاہ اوڈی کو دیکھ کر چوکیدار نے گیٹ کھول دیا تھا راحت علی گاڑی پوری سپیڈ سے بھگاتا ہوا اپنی مطلوبہ جگہ پر لایا تھا اس سیمنٹ کے بینچ کے پاس گاڑی کھڑی کی تھی آبیان آنکھوں پر گلاسس چڑھاتا گاڑی سے باہر نکلا تھا ایک ہاتھ میں سیاہ بریف کیس تھامے دوسرے ہاتھ میں ایلیون پرو پکڑے وہ سیدھ میں چلتا ہوا ٹھٹھک کر رکا تھا سیمیٹ کا بینچ خالی نہیں تھا وہ لڑکی آج پھر وہاں پر بیٹھی ہوئی تھی بری طرح مطالعے میں غرق آج اس نے آبیان کے آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا وہ لیٹ ہورہا تھا اسے میٹنگ میں پہنچنا تھا مگر وہ پھر بھی اندر جانے کی بجائے سیمنٹ کے بینچ کے نزدیک آگیا اس پورے ویک اینڈ پر جب جب اس نے درناب کی ناک میں اپنی لائی ہوئی وہ لونگ دیکھی تھی تب تب اسے وہ لڑکی یاد آئی تھی وہ غیر فطری طور پر اسے دوبارہ دیکھنے کا خواہاں تھا اور اس کی اس خواہش کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا دو دن بعد ہی وہ اس کے سامنے تھی آج وہ اس سے پوچھے بغیر اس کے ساتھ سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ گیا تھا باہمین نے چونک کر اسے دیکھا تھا جس کے چہرے پر وہی سنجیدہ تاثرات تھے راحت علی قریب نگاہیں جھکائے کھڑا تھا اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کو بولا تھا باہمین کے چہرے کی حیرت اس سے چھپی ہوئی بالکل نہیں تھی۔
" مجھے اندازہ نہیں تھا ہم اتنی جلدی دوبارہ ملیں گئے۔"
اس نے سامنے دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا۔ باہمین نے الجھن بھری نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکائی تھیں۔
" ہم نے دوبارہ کیوں ملنا تھا؟"
وہ اس سارے عرصے میں پہلی بار کچھ بولی تھی اس کے خوبصورت چہرے کی طرح آواز میں بھی ایک خوبصورتی تھی ایک وقار تھا۔
" یہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم کہ ہم نے دوبارہ کیوں ملنا تھا ہمارے ذہن میں بس ایک سوال تھا کہ آپ اتنا تنہا کیوں رہتی ہے ہر وقت کسی نہ کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف کیا آپ کا کوئی دوست نہیں ہے؟"
باہمین کو اس کے چہرے پر ڈھونڈنے سے بھی کوئی نرم تاثر نہیں ملا تھا لیکن یہ سچ تھا کہ اسے اپنی اکیس سالہ زندگی میں پہلی بار کسی مرد سے بات کرنا برا نہیں لگا تھا باہمین کو اس کی آنکھوں میں کوئی مطلب کوئی ہوس نہیں دکھی تھی وہ ذہین چمک دار آنکھیں کچھ پالینے کی خواہاں تھیں ان میں ایک الوہی سی چمک تھی۔
" میں کبھی عارضی تعلقات نہیں بناتی میرے خیال کے مطابق وہ تعلق جو زندگی بھر ساتھ نہ بنھا سکے انہیں کبھی قائم نہیں کرنا چائیے۔"
اس کا جواب سن کر وہ حیران ہوا تھا۔
" اگر ہم آپ سے کہیں کہ ہم ایک گھنٹے بعد واپس یہی پر آئیں گئے تو کیا آپ یہاں ہمارا انتظار کریں گی؟"
وہ نجانے کیوں اس سے پوچھ بیٹھا تھا بدلے میں وہ خاموش رہی تھی آبیان بینچ سے اٹھ گیا تھا وہ جانتا تھا جب ایک گھنٹے بعد وہ میٹنگ سے واپس آئے گا تو وہ وہی پر ہوگی اس لیے اس کا جواب سنے بغیر وہ تیزی سے عمارت کے اندر چلا گیا تھا باہمین اس کی پشت کو دیکھتی ہوئی یہ سوچ رہی تھی اس یونی ورسٹی میں یہ کون تھا وہ کندھے اچکا کر واپس مطالعے میں مصروف ہوئی تھی اسے اگلا ایک گھنٹہ اسی سیمنٹ کے بینچ پر انتظار کرنا تھا کیوں یہ وہ بھی نہیں جانتی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام کے سائے آسمان پر گہرے ہورہے تھے ضرار ہاوس میں روشنی جگمگا رہی تھی اس وقت ڈائینگ ٹیبل پر ضرار بخت کی ساری فیملی موجود تھی ڈنر میں ارغن کی پسند کے کھانے موجود تھے جنہیں وہ رغبت سے کھا رہا تھا۔
" کیسا رہا ٹور؟"
ضرار بخت نے کانٹے سے کباب توڑ کر منہ میں رکھتے ہوئے ارغن سے پوچھا تھا۔
" سکسیس فل بابا! ٹینڈر ہمیں مل گیا ہے۔"
اس نے چاولوں کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تو ضرار بخت کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
" ڈیکھ لو دمیر! تمہارے بھا صاحب نے ہمیں ٹینڈر دلوا دیا اب میری یہی توقعات تم سے بھی وابستہ ہیں۔"
انہوں نے ٹشو سے منہ تھپتھپاتے ہوئے دمیر سے کہا تھا جس کا نوالہ حلق میں اٹک گیا تھا اور وہ میراب کو ہاتھ مار کر پانی دینے کا اشارہ کررہا تھا میراب نے جلدی سے پانی کا بھرا ہوا گلاس دمیر کے آگے کیا تھا جسے وہ ایک ہی سانس میں خالی کرگیا تھا۔ ماہ وین بیگم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کی جانب دیکھا تھا۔
" شیور بابا! آپ دیکھتے جائیے گا بس میں کیسے ظرار انڈسٹریز کو کامیانی کی بلندیوں پر پہنچاتا ہوں۔"
آنکھوں اور لہجے میں عجیب سا اعتماد اور غرور بول رہا تھا۔
" بس بیٹا! نیچے سے نہ کامیانی کی بلندیوں پر پہنچا دینا۔"
وہ کرسی چھوڑ کر کھڑے ہوئے تھے۔
" بابا!!! "
اس کے لہجے میں خفگی تھی ضرار بخت اس کا کندھا تھپتھپا کر ڈائینگ ہال سے باہر نکل گئے تھے۔
" اب کچھ کر بھی لینا دمیر! اپنے بابا کے سامنے میری ناک نہ کٹوا دینا۔"
ماہ وین بیگم نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا تھا اور ساتھ میں قریب کھڑی ملازمہ کو کیچن میں لے جانے کا اشارہ بھی کیا تھا۔
" ڈونٹ وری اماں! اس بار نہیں۔"
وہ بھی اپنا فون اٹھا کر باہر نکل گیا تھا جہاں پر مسلسل مصطفی کی کال آرہی تھی۔
" ہاں کیا مسئلہ ہے کیوں فون پر فون کررہا ہے؟"
اس نے فون کان سے لگا کر مصطفی کو لتاڑا تھا۔
" چیتے! تیرا نیا شکار پھس چکا ہے۔"
مصطفی نے تو گویا اسے نوید زندگی سنادی تھی۔
" کیسے وہ تو بڑی سر پھری لڑکی تھی یار! مجھے لگ رہا تھا اس کو ٹریک پر لانے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑے گی پھر یہ گنگا الٹی کیسے بہہ گئی۔"
اس کا انداز ایک دم ہلکا پھلکا ہوگیا تھا جیسے سر سے ایک بھاری بوجھ سرک گیا ہو۔
" وہی تیری ایک ملاقات اور ادا جتنا تو لڑکیوں سے دور بھاگتا ہے وہ تڑپتی ہوئی اتنا ہی تیری قربت کی خواہاں بن کر آجاتی ہیں اسے بھی لگتا وہ آخری ملاقات ضرب لگا گئی۔"
مصطفی نے ہنستے ہوئے اسے بتایا تھا بدلے میں دمیر کا قہقہ جاندار تھا۔
" اوکے دین فیکس دا ڈیٹ آئی ول میٹ ہر۔"
اس نے اپنا اگلا حکم سنایا تھا۔
" وہ آج ہی ملنا چاہتی ہے۔"
مصطفی کی بات پر اس کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا تھا۔
" لیکن میں آج نہیں مل سکتا آج پورے ایک مہینے بعد بھا صاحب گھر آئے ہیں مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔"
اس نے دو ٹوک بات کرکے کال بند کردی تھی وہ پیچھے مڑا تو ارغن کافی کے دو مگ لیے کھڑا تھا۔
" کس سے نہیں مل سکتے آج؟"
ارغن کا لہجہ سرسری سا تھا وہ مسکرایا ۔
" کچھ نہیں ایک دوست تھا چھوڑیں آپ چلیں وہاں بیٹھتے ہیں۔"
وہ اسے لیے لان چئیرز پر بیٹھ گیا۔
" سو اب تو آپ ایک کامیاب ترین بزنس ٹور بھی کر آئے ہیں تو کیا خیال ہے اب آپ کی شادی نہ کردیں۔"
دمیر نے مسکرا کر اس سے پوچھا تھا لیکن اس کے سوال نے ارغن کے چہرے سے ایک پل میں مسکراہٹ غائب کی تھی سنجیدہ اور سپاٹ تاثرات حاوی ہوئے تھے۔
" کیا بات ہے بھا صاحب! آپ خاموش کیوں ہوگئے؟"
اس نے ارغن کا ہاتھ ہلایا تھا جو نجانے کونسے خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔
" آہاں کچھ نہیں بس ایسے ہی تم لڑکی ڈھونڈو کوئی اچھی سی پھر کرلیں گئے شادی بھی۔"
اس نے لہجے کو حتی المکان بشاش بنانے کی کوشیش کی تھی۔
" میری ڈھونڈی ہوئی لڑکی سے آپ سچ میں شادی کرلیں گئے؟"
وہ نجانے کیا کرید رہا تھا۔
" ہاں بالکل ہنڈرڈ پرسنٹ۔"
اس نے مگ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا تھا دمیر یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ مگ کے اندر ارغن کے ہونٹ مسکرا رہے ہیں یا پینچے ہوئے ہیں۔
" تو ٹھیک ہے پھر راغیص بھابھی کے ہاں چلتے ہیں آپ کی بات پکی کرنے۔"
بدلے میں وہ بالکل سنجیدہ دیکھائی دے رہا تھا ارغن کی مسکراہٹ لمہوں میں سمٹی تھی وہاں سرد اور پتھریلے تاثرات براجمان ہوگئے تھے۔
" وہ تمہاری بھابھی نہیں ہے دمیر!"
لہجے میں سختی نمایاں تھی۔
" لیکن سات سال سے وہ آپ کی منگیتر ہیں بھا صاحب!"
اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔
" یہ منگنی اسی دن ختم ہوگئی تھی جب بابا اور حزیمہ بختیار کا تعلق ختم ہوا تھا پھر کیسی اور کہاں کی منگنی؟"
وہ طنز سے پر تھا آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔
" منگنی تو تعلق ختم ہونے کے ساتھ ختم ہوگئی تو کیا آپ کی محبت بھی اس تعلق کے ساتھ دم توڑ گئی؟"
وہ نجانے آج کن باتوں میں پڑ گیا تھا۔
" جسے خود محبت پر یقین نہ ہو اس کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی دمیر بخت! اور میں ایسے کسی انسان کی بیٹی سے شادی نہیں کرسکتا جو میرے بابا کی تکلیف کا سبب بنا ہو چاہے اس کے لیے مجھے اپنی محبت ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے پانچ سال لگے ہیں دمیر! خود کو مارتے مارتے اب کہیں جاکر میرا وجود ریزہ ریزہ ہونا شروع ہوا ہے اب کہیں جاکر بے حسی پیدا ہورہی ہے تم پھر سے وہی سب باتیں مت دھراو۔"
وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوا تھا اس کا رخ اندر کی جانب تھا۔
" اور ان کا کیا بھا صاحب!"
دمیر کے سوال نے اس کے قدم جکڑے تھے وہ وہی پر رک گیا تھا۔
" جب دو جانب سے محبت یک طرفہ رہ جائے تو وہ محبت اپنی موت آپ ہی مار جاتی ہے۔"
وہ کہہ کر تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گیا فضا میں عجیب سا بوجھل پن پیدا ہوا تھا دمیر بخت نے ایک ٹھنڈی ٹھار سانس فضا کے سپرد کی تھی اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائیٹر نکال کر سلگایا تھا فضا میں دھویں کے مرغولے اس کے انتشار کے گواہ تھے۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
وہ عجیب سی صورتحال سے دوچار تھی پچھلے ایک گھنٹے میں کئی بار وہ اس بینچ سے اٹھنے کی کوشیش کرچکی تھی لیکن عجیب بات تھی وہ جب اٹھ کر جانے کا سوچتی اسے ایک گھنٹہ قبل اس کی کہی بات یاد آجاتی اور وہ پھر سے وہی بیٹھ جاتی اس کا پورا وجود ایک عجیب سی بے چینی کی لپیٹ میں تھا جس کی خود بھی اسے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی ساتھ رکھا ہوا اپنا گرے بیگ اٹھا کر اس نے اپنی گود میں رکھا تھا اور بے مقصد اس کے سٹیپ کو مڑوڑ رہی تھی اندرونی عمارت کی سیڑھیوں پر کھڑے آبیان بخت نے اس کی بے چینی بہت ہی تحمل سے ملاحظہ کی تھی وہ گہرا سانس بھر کر قدم ودم چلتا ہوا اس سیمنٹ کے بینچ کی جانب آیا تھا شاہد اس نے بھی اپنے آپ کو بے بس پہلی بار محسوس کیا تھا۔
کیا رشتہ تھا وہ نہ دوستی کا نہ دل کا حتی کہ جان پہچان بھی نہیں تھی عجیب بات تھی ایک اجنبی پورا ایک گھنٹہ اپنے سارے کام چھوڑ کر دوسرے اجنبی کا انتظار کرتا ہے اور دوسرا اجنبی اتنی اہم میٹنگ میں ہونے کے باوجود ایک گھنٹے کے لمہات گن گن کر گزارتا ہے کیونکہ اسے پہلے اجنبی کو دیے وقت پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔
وہ خاموشی سے اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔
" ہاں تو آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ عارضی تعلقات بنانے پر یقین نہیں رکھتی۔"
اس نے ایک گھنٹہ قبل کہی ہوئی اسی کی بات اسے لوٹائی تھی۔
" جی!"
وہ بس اتنا ہی بولی تھی۔
" آپ کا نام جان سکتے ہیں؟"
آبیان نے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا باہمین نے اسے الجھن بھری نگاہوں سے دیکھا۔
" آپ! ہیں کون؟"
باہمین نے پچھلے ایک گھنٹے سے دل میں مچلتا ہوا سوال آخر پوچھ ہی ڈالا۔
" سوال پہلے ہم نے کیا تھا۔"
وہ کندھے اچکا کر ہلکا سا مسکرایا تھا۔
" آپ جواب دے دیں گئے پہلے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔"
اب کی بار وہ بھی ہلکا سا مسکرائی تھی اس کی مسکراہٹ بہت خوبصورت اور شفاف تھی دو منٹ تک تو آبیان اس کے چہرے سے نگاہ نہیں ہٹا پایا تھا۔
" اگر ہم نے آپ کو بتا دیا کہ ہم کون ہیں تو کیا گارئنٹی ہیں آپ یہاں سے بوکھلا کر اٹھ کر نہیں جائیں گی؟"
وہ اس کی شفاف کانچ سی بوری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اس کے اس طرح سے دیکھنے پر بے ساختہ باہمین نگاہیں جھکا گئی تھی دل کی دھڑکن یک مشت تیز ہوئی تھی۔
" نہیں جاوں گی آپ پلیز بتائیں کہ آپ کون ہیں؟"
اس نے نگاہیں جھکاتے ہوئے اپنا سوال دہرایا تھا۔
" اس یونی ورسٹی کا فورتھ بورڈ آف ڈائیرکٹر پیر سید آبیان بخت۔"
آبیان کی آواز کے بعد فضا میں خاموشی چھا گئی تھی صرف سٹوڈنٹس کے شور کی آواز تھی وہ بے یقینی سے اس کے چہرے کی جانب دیکھ رہی تھی ارگرد کے سٹوڈنٹس شاہد ابھی تک ان دونوں کی جانب متوجہ نہیں ہوئے تھے باہمین کو اس کی بات مذاق لگی تھی۔
" آپ مذاق کررہے ہیں؟"
اس نے مسکرانے کی کوشیش کرتے ہوئے کہا بدلے میں وہ کھل کر مسکرایا۔
" نو آئی ایم ڈیم سیریس۔"
وہ ابھی تک مسکرا رہا تھا خوبصورت ہوا کے جھونکوں سے باہمین کا دوپٹہ مسلسل سر سے پھسل رہا تھا جسے وہ بار بار سر پر درست کررہی تھی اسے واقعی ہی اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا دوپٹہ تھامے ہوئے ہاتھ ایک دم اس نے گود میں رکھے تھے دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھوں پر آگیا تھا آبیان نے بے ساختہ اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا جوڑے میں مقید بالوں کی لٹیں ہوا سے چہرے پر آئی ہوئی تھی خوبصورت کانچ سی بوری آنکھیں حیرت سے مکمل وا تھیں دو آتشا لب حیرت سے بھڑپھڑا رہے تھے اس کی نظر باہمین کی صراحی دار گردن پر ٹکی تھی ہنسلی کی ہڈی کے عین اوپر وہ سیاہ تل کسی کی بھی توجہ اپنی جانب کھینچ سکتا تھا وہ بہکنا نہیں چاہتا تھا مگر وہ بہک رہا تھا اس سے چند انچ پر بیٹھی ہوئی لڑکی چلتی پھرتی قیامت تھی بے انتہا خوبصورت۔
" ہم چلتے ہیں پھر ملے گئے آئی ہوپ تب تک آپ کو ہماری بات پر یقین آجائے۔"
وہ بینچ سے گلاسس آنکھوں پر چڑھاتا ہوا اٹھ گیا تھا اس کے اٹھتے ہی راحت علی نے فوری سے بیشتر سیاہ اوڈی کا پچھلا دروازہ کھولا تھا صرف چند لمہوں پہلے اس کے برابر میں بیٹھا ہوا شخص اب وہاں نہیں تھا منظر ہوا میں تحلیل ہوا تھا اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پر گیا تھا جو اتنی تیز دھڑک رہا تھا کہ باہمین زاہرہ کو اس کی دھڑکن سے نظریں چرانا پڑی تھیں۔
" یہ جو ہوا تھا یہ ٹھیک نہیں تھا۔"
اس کا دل کہہ رہا تھا مگر اس شخص کے دیکھنے کا انداز اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ چکی تھیں۔ اس نے گہرا سانس بھر کر ٹھنڈی ہوا کو اپنے اندر اتارا تھا اس کی زندگی کا ایک نیا باب کھلنے والا تھا جو کسی اور کے نہیں بلکہ آبیان بخت کے سنگ تھا دیکھنا یہ تھا کہ دونوں کی حقیقتوں کو ان کے مابین محبت قبول کرتی ہے یا پھر اس محبت کا انجام بھی ادھورا رہتا ہے فرض اور محبت میں سے جیت کس کی ہوتی ہے دونوں کو جلد پتا چلنے والا تھا۔ وہ بیگ کندھے پر پہن کر گیٹ کی طرف بڑھی تھی جس کے پار میراج کوٹھی کی گاڑی اسے لینے کھڑی تھی گاڑی دیکھ کر اسے لمہوں میں اپنی حقیقت یاد آئی تھی دو تین بے رحم آنسو بالکل چپکے سے اس کی آنکھوں کے گوشوں میں آئے تھے جن کا خود باہمین زاہرہ کو بھی پتہ نہیں چلا تھا۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
رات دھیرے دھیرے آسمان پر گہری ہورہی تھی پہاڑوں کی اوٹ میں چھپا چاند پورے پہاڑوں پر روشنی کی کوششوں میں ہلکان ہورہا تھا سردی اپنے پورے جوبن پر تھی وہ اپنے کمرے میں اوندھی لیٹی ہوئی تھی دو دن سے اسی سویٹر اور جینز میں ملبوس وہ جیسے سب سے ناراض تھی پچھلے پندرہ منٹ سے راغیص اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی مگر وہ کان لپیٹ کر پڑی ہوئی تھی۔
" بس کردو ریحا اگر اب بھی تم نے دروازہ نہ کھولا تو میں تم سے کبھی بھی بات نہیں کروں گی۔"
اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی وہ تیزی سے اٹھی اور دروازہ کھول دیا آگے وہ ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے لیے کھڑی تھی۔
" کیا مسئلہ ہے؟ تمہاری ناراضگی بابا سے ہے کھانے سے کیوں منہ موڑا ہوا ہے؟"
وہ اس کے بکھرے بال سمیٹتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" مجھے بھوک نہیں ہے بجو!"
وہ واپس اپنی سابقہ حالت میں بیٹھ گئی۔
" کیا مسئلہ ہے ریحا! کیوں مجھے اور بابا کو تنگ کررہی ہو؟"
اس نے ٹرے بیڈ کی پائنتی پر رکھی اور غور سے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
" بجو! مجھے لگتا ہے اگر مجھے میرے سارے سوالوں کے جواب نہ ملے تو میرا دل پھٹ جائے گا مجھے حد سے زیادہ بے سکونی ہے بجو! ہر وقت عجیب و غریب قسم کے سوالات میرے اندر مچلتے رہتے ہیں اور کتنی عجین بات ہے کہ میں ان سوالات کا جواب بھی نہیں لے سکتی۔."
راغیص کو وہ اس لمہے حد سے زیادہ بے بس لگی تھی۔
" میری بات سنو یہاں ادھر دیکھو میری طرف۔"
راغیص نے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا ریحا نے سرخ آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔
" اللہ تعالی نے اس دنیا میں کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے جو کچھ ہوتا ہے اس کی رضا سے ہوتا ہے ہر راز پوشیدہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اس کے افشاں ہونے کا ابھی وقت نہیں ہوتا ہر راز اپنے مقرر کردہ وقت پر کھلتا ہے اور وہ اس لیے کھلتا ہے کیونکہ اس کی پوشیدگی کے پیچھے چھپی مصلحت حل ہوچکی ہوتی ہے اور جب مصلحت حل ہوجاتی ہے تو راز کھل جاتا ہے تم صبر رکھ کر اس راز کے پیچھے چھپی مصلحت کے حل ہونے کا انتظار کرو جب وہ حل ہوجائے گی تو ہماری زندگی کا یہ راز تم پر کھل جائے گا۔"
وہ کہہ کر خاموش ہوئی تھی راغیص کے الفاظ کی تاثیر تھی کہ سچائی ریحا بہت غور سے سن رہی تھی۔
" چلو شاباش اب کھانا کھاو اور پرسکون ہوجاو۔"
اس نے کھانے کی ٹرے اس کے آگے رکھی تھی ریحا نے کھانا شروع کیا تو راغیص نے بے ساختہ گہرا سانس بھرا واقعی ہی کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مقرر وقت پر ہی کھلنے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا بھی یہ راز جلد عیاں ہونے والا تھا کبھی کبھی قسمت چلتی ہوئی آپ کو ان دروازوں پر لے جاتی ہے جہاں پر آپ کی زندگی کے درگور واقعات باہر آنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں ایسا ہی وقت ان کا بھی منتظر تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آج موسم نے عجیب سی کروٹ لی تھی آسمان پر یک مشت سیاہ گھور بادلوں کا سایہ منڈلانا شروع ہوا تو میراج کوٹھی کی لڑکیاں جیسے خوشی سے دیوانی ہوگئی دلوں کو خیرہ کردینے والی ہوا چلی تو منوں گرد اپنے ساتھ اڑا لے گئی موسم کی اس تبدیلی کو دیکھتے ہوئے میراج کوٹھی کی خدماوں نے چولہے پر بڑی سی کڑاہی چڑھا دیا جس میں وہ پکوڑے تلنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ زرک برگ انچل میراج کوٹھی کے لان میں پھیل گئے جیسے رنگ برنگی تتلیاں ہوں اس لمہے وہ سب اپنی زندگی کی تاریکیوں کو بھلا کر صرف بارش کے شفاف قطروں کو محسوس کرنا چاہتی تھیں وہ اپنے کمرے سے ملاحقہ ٹیرس میں کھڑی نیچے لان میں مگن ان تتلیوں کو دیکھ رہی تھی۔
" کتنی خوش لگ رہی ہیں سب۔"
وہ مسکرائی تھی شاہد بہت عرصے بعد اس کے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ رقص کی تھی۔ منڈیر پر رکھے ہوئے چائے کا مگ لبوں سے لگا کر اس نے ایک گھونٹ بھرا اور آنکھیں موند کر ایک گہرا سانس لیا۔
" انسان کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اس نے ایک دن مٹی ہوجانا ہے پھر عارضی زندگی کے غم کیوں دل میں پل کر درد دیتے ہیں؟"
سوال تو اٹھا تھا پر جواب اس کے پاس فلحال نہیں تھا۔ کچھ سوال بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جواب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے اگر مل جائیں تو جن غموں کے دل میں پل کر درد بڑھانے کا شکوہ کرتے ہیں وہ غم اپنا مدعا خود ہی لے کر آئیں۔
کیا سوچ رہی تھی وہ اس وقت اسے اپنی سوچ کا ایک بھی در سمجھ میں نہیں آیا تھا ساری باتیں مختلف گوشوں سے اکھٹی ہوکر ایک سوال بنا رہی تھیں۔
" باہمین! تم بھی چلو نہ نیچے دیکھو سب کتنا انجوائے کررہے ہیں۔"
دلسوز کی آواز اسے حال میں واپس لائی تھی اس نے خالی نظروں سے دلسوز کی جانب دیکھا تھا جو خوش ہوتے ہوئے اسے اپنے ساتھ چلنے کو بول رہی تھی۔
" تم تو ساری بھیگ چکی ہو آو نہ؟"
وہ اس کا بازو کھینچتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے کر جارہی تھی اور وہ کسی مومی گڑیا کی طرح اس کے ساتھ کھچتی چلی جارہی تھی۔ بارش تیز ہورہی تھی لان میں لکڑی کے شیڈ کے نیچے پکوڑوں کی ٹرے کے ساتھ وہ سب موجود تھیں ان میں سے کچھ آگے بھاگ رہی تھیں اور کچھ ان کے پیچھے انہیں پکڑنے کو بیتاب نظر آرہی تھیں پورے لان میں نسوانی قہقے گونج رہے تھے زندگی سے بھرپور قہقے وہ چپ چاپ خاموشی سے شیڈ کے نیچے بیٹھ گئی۔
" کیا کوئی کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی خوش رہ سکتا ہے؟"
اس نے ایک طائرانہ نگاہ پورے لان میں ڈالتے ہوئے سوچا تھا۔
" ان کے پاس کیا نہیں تھا؟"
پہلے سوال کو ہٹاتے جھٹ سے دوسرے سوال نے اپنی جگہ بنائی تھی۔
" ان کے پاس عزت نہیں تھی۔"
اس کے ذہن نے ایک لمہے کی تاخیر کیے بغیر جواب دیا تھا۔
" تم کسی کی عزت کا فیصلہ کرنے والی کون ہوتی ہو؟"
اس نے جھٹ سے ادھر ادھر دیکھا تھا مگر اطراف میں کوئی نہیں تھا پھر آواز کہاں سے آئی تھی۔
" کیا ہوا چونک گئی نہ عزت اور ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"
وہ کوئی اور نہیں ضمیر بول رہا تھا جس کی آواز کو کچھ دیر قبل وہ نظر انداز کرکے اپنے اندر عزتوں پر عدالت لگا کر بیٹھی تھی۔
" کسی کے پاس عزت ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے اور کسی کے پاس عزت نہ ہوتے ہوئے بھی وہ معتبر ہے۔"
یہ کیسی بات تھی اسے کیوں کچھ سمجھ نہیں آیا تھا وہ گھبرا کر اٹھ گئی اور بغیر کہیں دیکھے اندر کی جانب بڑھ گئی۔ جب جب حقیقت آئینہ دیکھاتی تھی تب تب دل کو کچھ ہوتا تھا اس لمہے بھی باہمین زاہرہ کے دل نے اسے ایک عجیب سی کشمکش میں ڈالا تھا۔
کبھی یو تو آ میری آنکھ میں
کہ میری نظر کو خبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے
مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
وہ بڑا رحیم و کریم ہے
مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دعا کروں
اور میری دعا میں اثر نہ ہو
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
موسم کی تبدیلی نے اس کے دل پر بھی بڑا خوبصورت اثر ڈالا تھا وہ گھر پہنچا تو بارش تیز ہوچکی تھی پوٹیکو میں راحت علی نے گاڑی کھڑی کی اور فوری نیچے اترا تب تک دوسرا ملازم اندر سے چھتری لاچکا تھا راحت علی نے پچھلا دروازہ کھول کر چھتری آبیان کے اوپر کی تھی جسے تھام کر وہ تیزی سے اندر بڑھ گیا تھا۔ لاونج میں داخل ہوتے ہی جمال بی نے جلدی سے اسے تولیہ تھمایا تھا۔
" شکریہ جمال بی! ایک کپ کافی کا ہمارے کمرے میں بیجھوا دیں ہم فریش ہوکر کھانا کھائیں گئے۔"
وہ کہہ کر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
کمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے اس نے گلاس ونڈو سرکائی تھی کھڑکی کھولتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تو ایک دم خوبصورت احساس نے اس کا گہراو کیا کچھ دیر قبل کی جانے والی ملاقات کے لمہے آنکھوں کے پردوں پر ابھی بھی تازہ تھے۔
" ہر بار اس سے مل کر ایسا لگتا ہے جیسے اگلی بار پھر سے ملنا چائیے۔"
اس نے کوٹ اتار کر کاوچ پر رکھتے ہوئے سوچا تھا چہرہ مسکراہٹ سے منور تھا شفاف خوبصورت مسکراہٹ جو گہرائی لیے ہوئے تھی یہ کونسا جذبہ تھا یہ اس کی سمجھ سے بالا تر تھا مگر کچھ تھا جو تیزی سے اس کے وجود میں تبدیلی پیدا کررہا تھا کوئی تھا جو اس کے اندر بغاوت کے جراثیم پیدا کررہا تھا۔
اسے معلوم ہی نہیں ہوا کب ملازم کافی کا مگ رکھ کر چلا گیا۔ وہ گہرا سانس بھر کر کاوچ پر بیٹھ گیا اور گرم کافی کے گھونٹ اپنے اندر انڈیلنے لگا۔ کافی ختم کرکے وہ شاور لینے کی غرض سے واشروم کی جانب بڑھ گیا اسے سکون کی ضرورت تھی شاور لے کر وہ فریش ہوکر سیدھا نیچے ڈائینگ ٹیبل پر آیا تھا جہاں جمال بی پہلے سے کھانا لگا چکی تھیں بارش اب تھم چکی تھی ٹھنڈی ہوا ہنوز قائم تھی۔
" جمال بی ساری ونڈوز کھول دیں باہر بہت خوبصورت موسم ہے۔"
اس نے پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے قریب کھڑی جمال بی سے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لاونج کی ساری کھڑکیاں کھول دیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے پورے ماحول کو فرحت بخش بنا دیا کھانے سے فارغ ہوکر وہ لاونج میں ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا۔ قریب میز پر رکھا ہوا فون مسلسل بج رہا تھا حویلی کے نمبر سے فون آرہا تھا اس نے ٹی وی کی آواز بند کی اور گہرا سانس بھر کر فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
" ہیلو!"
دوسری جانب سے خاموشی چھائی ہوئی تھی صرف دھیرے دھیرے سانسوں کی آواز آرہی تھی۔
" ہیلو کون بول رہا ہے؟"
اس نے فون کان سے ہٹا کر سکرین دیکھی تھی جہاں کال ہنوز چل رہی تھی مگر دوسری جانب سے ہنوز خاموشی چھائی ہوئی تھی وہ ابھی مزید کچھ بولنے ہی والا تھا جب دوسری جانب سے کال بند ہوگئی تھی۔ وہ از حد حیران تھا کہ حویلی سے آخر کال کی کس نے عجیب بات تھی جس نے بھی کی وہ آگے سے خاموش کیوں رہا بولا کیوں نہیں۔ آبیان بخت کے لیے تفکر کے نئے در وا ہوئے تھے جن کی منزل کہاں تھی اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ وہ صوفے پر آنکھیں موند کر بیٹھ گیا تھا ٹھنڈی ہوا میں باہمین زاہرہ چھپک سے پھر اس کے سامنے آئی تھی نگاہیں جھکاتی لب کاٹتی وہ لڑکی نجانے اس کے ساتھ کیا مسئلہ تھا ورنہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ ایک انسان کا کوئی دوست ہی نہ ہو۔ آبیان بخت کو وہ لڑکی ڈسٹرب کررہی تھی اور وہ ہو بھی رہا تھا یہ سوچے بغیر کہ اس کی نسبت مہالہ افروز کے ساتھ بہت عرصے سے تحہ ہے۔
■■■■■■■■■■■■■■■■■■■
" کیا ہوا بات کیوں نہیں کی آپ نے بھا صاحب سے؟"
درناب اسے گھورتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" پاگل ہو کیا ایک تو تم نے زبردستی فون ملا کر میرے کان کو لگا دیا اوپر سے کہہ رہی ہو بات بھی کروں میرا کیا دماغ خراب ہے؟"
مہالہ نے اچھا خاصا چڑ کر کہا تھا۔
" اگر آپ بھا صاحب کی جانب پیش رفت نہیں کریں گی تو انہیں کیسے پتہ چلے گا کہ آپ ان کے ساتھ کی متمنی ہیں۔"
درناب اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" پاگل مت بنو درناب! تم کیا چاہتی ہو اپنی خواہشات اور محبت کا اشتیار لگا کر جو بھرم اور عزت تمہارے بھا صاحب کی نظروں میں میری ہے وہ بھی گنوا دوں تاکہ کل کو اگر بحالت مجبوری انہیں مجھ سے شادی کرنی پڑ بھی جائے تو ساری عمر اپنی بےوقوفیوں کی وجہ سے ان سے نظر بھی نہ ملا سکوں۔"
مہالہ کے جملوں نے درناب کو چونکا دیا تھا۔
" کیا مطلب ہے افروز جان!"
وہ حیرت سے پوچھ رہی تھی۔
" محبت پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا درناب! لیکن اسے پوشیدہ رکھنے پر ہم خود قادر ہوتے ہیں بی بی سرکار کہتی ہیں محبتیں اگر دیواروں پر چسپا کرنے والے اشتیار بن جائیں تو اپنی وقعت کھو دیتی ہیں اگر دل کے نہا خانوں میں خوفیہ رکھی جائیں تو محبوب رشتوں کے سامنے معتبر کردیتی ہیں۔"
درناب کے لیے وہ صرف ایک جملہ نہیں تھا بلکہ پوری داستان تھی۔
" افروز جان! سدیس بھی تو نہیں جانتے میری محبت کے بارے میں تو کیا میں اسے دل کے خانے میں دفنا کر پوشیدہ رکھوں؟"
وہ کسی معصوم بچی کی طرح اس سے سوال کررہی تھی۔
" تمہیں معلوم ہے درناب! اشتیار بننے والی محبتیں ہمشہ تباہی لاتی ہیں جبکہ پوشیدہ محبتیں انسان کو حالات سے لڑنا سیکھا دیتی ہیں سارا وقت کسی دکھ کو سینے میں لےکر گھومنا کیسا لگتا ہے اس خیال سے روشنائی کرادیتی ہیں۔"
مہالہ نے اس کا چہرہ تھام کر کہا تھا جس میں گزشتہ دنوں کا کرب پھر سے ہرا ہوا تھا۔
" میں اپنی محبت کو لال حویلی کے کونوں میں نہیں دفنا سکتی افروز جان! اگر میں نے اپنی محبت لال حویلی کے درودیوار کو سونپ دی تو یہ مجھے بھی نگل لے گی۔"
وہ صرف یہ سوچ پائی تھی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ یہ لفظ مہالہ کو کہہ پاتی امتحانوں کا ناتمام سلسلہ تو ابھی شروع ہوا تھا آسانی کسی کے حصے نہیں آئی تھی۔
چل آ تجھے داستان غم سناوں
کیسے روئی تھی وہ پل بتاوں
میری ذات پر طاری ہونے والے
لرزے کی آ تجھے تکلیف گنواوں
تجھے بار بار کھونے کا خوف دیکھاوں
اپنی آنکھوں سے ٹپکنے والی اس
وحشت کی داستان پڑھاوں
چل آ تجھے داستان غم سناوں
کیسے روئی تھی وہ پل بتاوں
ایمن خان
¤¤¤¤¤¤《¤¤¤¤¤¤¤¤¤》¤¤¤《¤¤¤¤¤¤

Continue Reading

You'll Also Like

66.4K 3.3K 26
ایسی لڑکی جو اپنے باپ کے ماضی میں کیے گئے ظلم وستم سے ڈرتی... مکافات عمل سے ڈرتی.. نئے رشتے کے بننے سے ڈرتی... کیا زندگی بھر خوف اس کے ساتھ سائے کی ط...
34.3K 1.7K 15
کہانی ہے ایک سید زادے کی جسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے جو اس کے حسب نصب میں کسی طور بھی پوری نہیں آسکتی جس کو چھوڑنے کی صورت میں ہی وہ اپنی دستار...
2.6K 147 5
❤️❤️
19.5K 1.5K 29
Highest rankings:- [#17 in brokenheart ] [#6 in spirituality ] [#3 in romanurdu ] [#30 in ishq ] ●●●●●□●●●●●□●●●●● "Intezaar toh mn bhi kar raha hoon...