Tum Meri Chahat Ho❤ (Ongoing)

By izzahOffical

37.1K 1.3K 938

تم میری چاہت ہو🖤 یہ کہانی ہے محبت کی محبت کے احساس کی.. حاطب کے جنونی محبت کی حاطب کے بے پناہ چاہت کی... More

*❤تم میری چاہت ہو❤
چاہت کی شروعات
چاہت کی باتیں
چاہت کا اثر
چاہت کا پاگل پن
چاہت کے رنگ
چاہت کی دیوانگی
چاہت کی خواہش
چاہت کی فرمائش
چاہت کا فیصلہ
چاہت کا انتظار
چاہت کا اقرار نامہ
چاہت کی دید
چاپت کی محبت
چاہت کی ملن خیزی

چاہت کا انکشاف

1.9K 72 20
By izzahOffical

...تم میری چاہت ہو...
چاہت کا انکشاف

چاہت, حاطب بڑبڑاتا ہوا باہر پارکنگ میں نکل آیا
نہیں نہیں, حاطب نے کہتے ہوئے زور سے گاڑی پر لات ماری
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا نہ اکرم کی بات نہ خود کے حالات وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا
کچھ دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد وہ کچھ سوچتا ہوا گاڑی کھول کر اس میں بیٹھ کر اسٹارٹ کرنے لگا
اس کی سانسیں پھول رہی تھیں گاڑی میں اس کا دم گھٹنے لگا ایک دم ہوا آنا بند ہوگئی اسے گاڑی میں گھٹن محسوس ہونے لگی
نہ جانے کتنی دیر چلنے کے بعد گاڑی ایک جھٹکے سے رکی
حاطب علی گاڑی کا دروازہ تیزی سے کھولتا ہوا باہر نکلا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا
اس دوپہر کے وقت میں دھوپ کے سوا کچھ نہ تھا
کچی سڑک پر سورج آگ برسانے میں مصروف تھا
دونوں طرف زمینیں تھی ہر طرف سبزہ تھا مگر حاطب علی کو بنجر کے سوا کچھ نہ لگا
اس وقت اس سڑک پر دور دور تک کوئی نہ تھا
حاطب علی کچی سڑک کے بیچھ و بیچھ کھڑا خود کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف رہا
یہ کیا کر رہا ہوں میں,حاطب نے سرگوشی کی
یہ اچانک کیا ہوگیا ہے مجھے, حاطب نے خود کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہی
چاہت کا اثر, اس کے دل نے سرگوشی کی,حاطب علی چونک سا گیا
نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے میں کیوں اس طرح سوچ رہا ہوں, حاطب خود سے الجھتا اپنے دل کو ٹالنے لگا
مجھے تو اس کی باتوں سے نفرت ہوئی تھی زہر لگی تھیں مجھے اس کی باتیں, حاطب اا کی باتی یاد کرتا ہوا بولا
اب تک مجھے اس کی باتیں نہیں بھولیں لیکن کیوں میں تو کسی کو یاد رکھنے والا نہیں پھر کیوں, حاطب اس اکیلی سنسان سڑک پر چیخ پڑا
اس کی آواز کی گونج اس خاموش فضا میں گونج اٹھی
شاید میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہا ہوں, حاطب نے خود کو بہلایا اور آگے چلتا ہوا اپنے گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بیٹھ گیا
اس کی نظر آسمان پر اٹھی مگر اسی وقت واپس لوٹ آئی سورج سوا نیزے پر آگ برسانے میں مصروف تھا
شاید یہ بھی میری طرح جھلس رہا ہے, حاطب نے بے اختیار ایک طنزیہ مسکراہٹ سے کہا
اور بات سمجھنے پر وہ اور الجھ گیا
دھوپ اس کے چہرے پر پڑنے لگی حاطب نے ھاتھ سے چھاتا بنا کر آنکھوں پر رکھا
حاطب کی نظروں میں ایک منظر کسی فلم کی طرح گھوم گیا
وہ دھوپ جو اس کے چہرے کا سایہ کیے ہوئے تھی کتنی خوبصورت لگ رہی تھی اور وہ دھوپ اس کے چہرے کہ ہر نقش پر چھائی ہوئی تھی
حاطب کے لب بے اختیار مسکراہٹ سے کھل اٹھے
حاطب کئی دیر اس کے خیالات میں کھویا رہا جب کوئی گاڑی اس کے پاس سے اسپیڈ میں گزری تو وہ خیالوں کی دنیا سے چونک کر نکلا
اور نا سمجھی سے خود کو گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا دیکھا
اچانک اسے سب باتیں یاد آئیں وہ گھر سے نکلا تھا اور کیوں نکلا تھا
ایک دم ہی حاطب جمپ مارتا ہوا گاڑی سے اترا
یہ کیا پاگل پن کر رہا ہوں میں, حاطب اپنی اصل بات پر آیا
حاطب علی ہوں میں حاطب علی چودھری, حاطب نے موچھوں کو تائو دیا
ان باتوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا, حاطب نے خود کو باور کرانا چاہا
کیا زندگی میں کبھی لڑکیاں نہیں دیکھیں میں نے, حاطب نے خود کلامی کی
اس کی نظروں کے سامنے چاہت کا وہ پھولوں سا چہرہ پھر دوڑ گیا
حاطب نے سر جھٹک دیا
جیسے کہ وہ سر جھٹکنے کے ساتھ اس کے خیالات بھی جھٹک سکتا تھا
سنسنی عجب ہے بہت یہ کیا ہوا ہے پہلی بار, حاطب نے بے بسی سے بالوں میں ھاتھ پھیرا
کیا ہوگیا ہے مجھے, حاطب نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دھیرے سے کہا
چاہت سے محبت, اس نے ایک سرگوشی سنی
اور وہ سرگوشی اس کے دل نے کی تھی
چاہت سے محبت, حاطب نے زیر لب دہرایا اور آنکھیں بند کرکے سر سیٹ سے ٹکادیا...

حاطب علی جب گھر پہنچا تو اسی وقت بدر شاہ اپنے بیٹے اکرم شاہ سمیت ان کے پارکنگ میں موجود تھے اور جانے کی تیاری میں تھے
چودھری شاہنواز بھی ان کے ساتھ وہاں کھڑے تھے انہیں الوداع کہنے کے لیے
حاطب کی گاڑی جونہی اندر داخل ہوئی سب کی نظریں اس کی گاڑی کی طرف اٹھیں
حاطب گاڑی سے اتر کر ادھر ہی کھڑا رہا
اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ ان لوگوں کے پاس جائے یہ اندر چلا جائے
اس کا دماخ اس وقت کام کرنے سے انکاری اس کے دل کا ساتھ دیے ہوئے تھا
حاطب علی ادھر آئو,چودھری شاہنواز نے اسے آواز لگائی تو وہ ان کی طرف چلا آیا اور ان کے سامنے کھڑا ہوگیا
کہاں چلے گئے تھے تم, چودھری شاہنواز نے سب کے سامنے سوال کیا
ابا جی میری طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے چلا گیا تھا, حاطب نے نظریں چراتے ہوئے کہا
کیوں کیا ہوا بیٹا, بدر شاہ نے دریافت کیا
پتا نہیں, آپ جارہے ہیں , حاطب نے بات کو ٹالا
ہاں بس بہت دیر بیٹھے آج تو ہمارے پرانے دوستی کے دن تازہ ہوگئے, بدر شاہ نے مسکرا کر چودھری شاہنواز کی طرف دیکھا انہوں نے بھی مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا
میں بہت دیر تمہارا انتظار کرتا رہا, اکرم شاہ آگے آیا
پھر تم نہیں آئے تو ابا والوں کے ساتھ بیٹھ گیا, اکرم نے مزید بتایا
اچھا کیا, حاطب بہت مشکل سے یہ دو لفظ بول پایا
چلو پھر ملتے ہیں, چودھری شاہنواز اور بدر شاہ آگے بڑھ گئے تو اکرم اس سے ملنے کے لیے پاس آیا
خدا حافظ, اکرم نے اس کے گلے لگنا چاہا جب حاطب علی نے اس کے سینے پر ھاتھ رکھ کر اس کو روک دیا
خدا حافظ, حاطب نے کہتے ہوئے اس کے سینے سے ھاتھ ہٹایا
اکرم شاہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا
مگر پرواہ کسے تھی حاطب لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر کے اندر بڑھ گیا...

اپنے کمرے میں پہنچ کر حاطب نے اپنی واسکٹ اتار کر بیڈ پر پھینکی
اور خود بیڈ کے ایک سائیڈ بیٹھ گیا
سائیڈ ٹیبل سے جگ اور گلاس اٹھا کر جگ سے پانی گلاس میں پانی بھرنے لگا
ایک گھونٹ میں پورا گلاس خالی کرکے حاطب نے گلاس واپس رکھا اور اٹھ کر آئینے کے سامنے آکھڑا ہوا
اسے یاد آیا صبح تیار ہوتے وقت وہ آئینے کے سامنے کھڑا کتنا خوش تھا
اسے رہ رہ کر چاہت کی باتیں یاد آرہی تھیں پہلے دن جب اسے ان باتوں پر غصہ آیا تھا اس وقت اسے ان باتوں سے کوئی غصہ محسوس نہیں ہورہا تھا
وہ خوش تھا بہت خوش تھا اور جب سے اس کی ماں نے اس کی بات کی تھی تعریفیں کی تھیں حاطب ہوائوں میں اڑنے لگا تھا
لیکن وہ بس اس بات کو ایک پسند ہی سمجھ رہا تھا
وہ خود اپنے خیالات سے اپنی دل کی باتوں سے ناواقف تھا
لیکن اب اچانک یہ انکشاف ہوا تھا جو بہت برے وقت پر ہوا تھا
چاہت سے محبت, حاطب شیشے میں دیکھتے ہوئے بڑبڑایا
یہ انکشاف اس موڑ پر بنتا تو نہ تھا, حاطب نے خود سے اپنے دل سے گلہ کیا
اس موڑ پر آکر مجھے احساس محبت ہونا ضروری تو نہ تھا, حاطب نے ایک اور شکوہ کیا

یوں اس طرح اچانک انکشاف,بنتا تو نہ تھا
اس موڑ پر آکر مجھے احساس محبت ہونا,
بنتا تو نہ تھا
یوں تو میں مانتا نہ تھ محبت تک کو بھی
اچانک میرے ساتھ یہ سانحہ ہونا,بنتا تو نہ تھا
رشتے,ناطے,محبت,چاہت سے تو میرا واسطہ نہ تھا
یوں اس طرح جو مجھے محبت کا پاگل پن چڑھا ہے
سچ کہوں, یہ میرے ساتھ ہونا بنتا تو نہ تھا
عزہ

حاطب خود سے اپنے دل سے ذہن و دماخ سے لڑتا ہوا تھک کر بیڈ پر گرا اور آنکھیں موند لیں
ان موندیں آنکھوں کے پیچھے بھی اسی کا چہرہ تھا
حاطب کے چہرے پر ایک تھکاہٹ بھری مسکان بکھر گئی..

بھابھی آپ نے بلایا, چاہت نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا
ہاں چاہت آئو, فائقہ نے ہانڈی میں چمچ ہلاتے ہوئے کہا
جی کچھ کام تھا میں بنادوں آج سالن, چاہت نے پاس آکر اس کے ھاتھ سے چمچ لینا چاہا
نہیں سالن رہنے دو بات کرنی تھی تم سے, فائقہ نے سنجیدگی سے کہا
جی بولیں, چاہت نے اثبات میں سر ہلایا
وہ میں یہ کہنا چاہ رہی تھی, فائقہ نے کچھ کہنا چاہا
تب ہی افضل باورچی خانے میں داخل ہوا
کیا باتیں ہورہی ہیں, افضل نے اندر داخل ہوتے کہا
کچھ نہیں آپ تو ولیمہ پر گئے ہوئے تھے نہ, چاہت نے بات ٹالتے ہوئے پوچھا
ہاں بس جلدی آگیا ہوں کھانے میں کیا بن رہا ہے, افضل نے وہیں دروازے پر کھڑے ہوکر پوچھا
کھانا بن چکا ہے کھائیں گے آپ, فائقہ نے پوچھا
ہاں میں نے کھانا نہیں کھایا ادھر کھانا لگائو ساتھ کھاتے ہیں, افضل نے کہا
جی لگاتے ہیں کھانا, فائقہ نے جلدی جلدی ھاتھ ہلاتے کہا
میں ھاتھ دھو کر آتا ہوں, افضل کہتا ہوا اندر بڑھ گیا
فائقہ جلدی جلدی کھانا بنانے لگی چاہت بھی جلدی سے اس کا ھاتھ بٹانے لگی
کھانا بہت مزیدار ہے, افضل نے کھانا کھاتے ہوئے کہا
بھابھی کے ھاتھ میں بہت ذائقہ ہے, چاہت مسکرائی اس کی بات پر فائقہ بھی مسکرادی
افضل نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا
ولیمہ کیسا تھا, چاہت نے پوچھا
اچھا تھا ولیمہ تو مگر کمپنی نہیں تھی میری خاص اس لیے جلدی آگیا, افضل نے بتایا
اچھا لیکن کل تو بہت مزہ تھا شادی کی تقریب میں, چاہت نے خوشی سے بتایا
حاطب پتا نہیں کیوں نہیں آیا, افضل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
کون کس کی بات کر رہے ہیں آپ, چاہت نے پوچھا
حاطب علی کی آج وہ نہیں آیا تھا جب کہ اس نے کل کہا تھا وہ آئے گا, افضل کو حاطب کی فکر ہونے لگی
حاطب علی کے ذکر پر چاہت کا منہ بن گیا
چاہت ہم ملے تھے نہ کل ان سے, فائقہ نے یاد کرتے ہوئے کہا
کن سے, چاہت نے یاد کرتے ہوئے پوچھا
جن کے ساتھ ہم بیٹھے ہوئے تھے چچی ناھید کے ساتھ چاہت, فائقہ نے اس کو یاد دلایا
ہاں ہاں بہت اچھی ہیں وہ تو کتنی پیار سے ملی تھیں کتنی ملنسار خاتون تھیں وہ, چاہت نے یاد کرتے ہوئے مسکرا کر بتایا
ان ہی کا تو بیٹا ہے حاطب علی, فائقہ نے بتایا
کیا ان کا بیٹا ہے وہ, چاہت کو عجب لگا اس نے شاک سے پوچھا
ہاں ہاں ان ہی کا بیٹا ہے, فائقہ نے کہا تو افضل نے بھی سر ہلایا
ان کی ماں تو بہت اچھی ہے خود کس پر گیا ہے, چاہت نے منہ بنا کر کہا
خود بھی بہت اچھا ہے ماں باپ بھی اس کے بہت اچھے ہیں, افضل نے مسکرا کر کہا
چاہت خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گئی
مجھے آپ لوگوں سے کچھ بات کرنی ہے, فائقہ نے بات کا آغاز کیا
ہاں کہو, افضل نے اس کی طرف دیکھا چاہت بھی متوجہ ہوئی
چاہت بیٹا, مائی سکینہ نے اسے مخاطب کیا
جی اماں, چاہت ان کی طرف متوجہ ہوئی
آپ کی دوست پارس آئی ہیں, مائی سکینہ نے اطلاع دی
اس وقت, چاہت نے گھڑی کی طرف دیکھا
کیوں کہ پارس کبھی رات کے وقت اس کے گھر نہیں آتی تھی یہ آتی تو بنا کر آتی
جی اماں آپ بٹھائیں پارس کو میں آرہی ہوں, بھابھی آتی ہوں میں, چاہت مائی سکینہ سے کہتی ہوئی فائقہ کی طرف متوجہ ہوئی
فائقہ نے سر ہلایا تو چاہت جلدی سے وہاں سے اٹھ گئی
کیا ہوا خیریت تم اس وقت, چاہت نے پارس سے ملنے کے بعد کہا
چاہت مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے,پارس نے ھاتھ مروڑتے ہوئے کہا
ہاں کہو, چاہت نے اس کو پریشان دیکھ کہا
یہاں نہیں کہیں اندر چلو, پارس نے آس پاس اشارہ کیا
جہاں سب ملازمائیں آتی جاتی کام کرتی دکھائی دے رہی تھیں
اچھا ٹھیک ہے میرے کمرے میں چلو, چاہت کہتی ہوئی اسے ساتھ لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھی..

تم کچھ کہنے والی تھی, افضل نے کھانا کھاتے ہوئے فائقہ سے پوچھا
ہاں وہ مجھے ایک ضروری بات کرنی تھی, فائقہ نے بھی کہا
بدر شاہ والوں کے یہاں سے شام میں کچھ عورتیں آئی تھیں, فائقہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کس لیے, افضل نے سرسری سے پوچھا
وہ بیگم خورشید کی طرف سے آئی تھیں انہوں نے پیغام بھیجا تھا, فائقہ نے مزید بتایا
کیا پیغام تھا ان کا, افضل نے کچھ سمجھتے ہوئے پوچھا
سردار چودھری والوں کی شادی میں ہم ان سے ملے تھے ان کا کہنا ہے کہ انہیں چاہت بہت پسند آئی ہے اپنے بیٹے اکرم شاہ کے لیے, فائقہ نے تفصیل سے بتایا
افضل خاموشی سے اسے دیکھتا کچھ سوچتا رہا
ان کی خاص عورتیں آئیں تھیں ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم سے رضامندی چاہتے ہیں پھر وہ باقاعدگی سے رشتہ لے کر آنا چاہتی ہیں, فائقہ نے ان کے آنے کی وجہ صاف لفظوں میں بتائی
تم نے انہیں کیا کہا, افضل نے بہت دیر کی خاموشی کے بعد کہا
میں نے ان سے یہ کہا کہ ہم سوچ سمجھ کر ہی کوئی جواب دیں گے, فائقہ نے بتایا
چاہت کو علم ہے ان سب باتوں کا,افضل نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا
نہیں ابھی بتانے والی تھی میں لیکن, فائقہ نے بات بیچھ میں چھوڑی اس کا اشارہ پارس کے آنے کی طرف تھا
اور جس وقت وہ آئی ہوئی تھیں چاہت فاطمہ باجی کی طرف تھی, فائقہ نے مزید بتایا
افضل خاموش رہا کھانے سے وہ ھاتھ پہلے ہی کھینچ چکا تھا
چاہت سے بات کرو دیکھو اس کا کیا رد عمل ہے اس کے بعد بات کرتے ہیں, افضل نے کہا اور کرسی دھکیلتا اٹھ کھڑا ہوا
فائقہ بھی خاموشی سے برتن اٹھانے لگی..

پارس بتائو کیا بات ہے, چاہت نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی تھی چاہت اس لیے صبح کا انتظار نہیں ہوا, پارس نے پریشانی سے کہا
ہاں کوئی بات نہیں لیکن تم کہو کیا بات ہے کیوں ہو اتنی پریشان, چاہت نے پھر پوچھا
چاہت تمہیں بختاور یاد ہے, پارس نے پوچھا
کون بختاور, چاہت نے یاد کرنے کی کوشش کی
چاہت بختاور جو پہلے تمہارے گھر میں کام کرتی تھی پھر شہر چلی گئی تھی کسی کے یہاں کام کرنے, پارس نے اسے یاد دلانا چاہا
ہاں ہاں یاد ہے مجھے ہم ساتھ کھیلے ہیں بچپن میں وہ ہمیشہ یہیں تو ہوتی تھی کچھ سال پہلے ہی تو گئی ہے, چاہت نے یاد کرتے ہوئے کہا
مجھے اس کے بارے میں تم سے ضروری بات کرنی ہے, پارس نے پریشانی سے کہا
ہاں کہو, چاہت نے کہا اور پارس نے ساری بات اس کے گوش گزاردی
کون ہے وہ, چاہت نے پارس کی طرف دیکھا
نام نہیں پتا مجھے لیکن وہی ہے تمہارے بھائی کا دوست جو اکثر یہاں آتا رہتا ہے, پارس نے یاد کرتے ہوئے بتایا
چاہت کی آنکھوں کے سامنے حاطب علی کا مغرور چہرہ لہرایا چاہت نے گہری سانس لی اور پارس کی طرف متوجہ ہوئی
تم کل ہی لے آئو اسے, چاہت نے فکرمندی سے کہا
ٹھیک ہے میں کہوں گی اسے, پارس نے اٹھتے ہوئے کہا چاہت نے سر ہلادیا
میں چلتی ہوں کوشش کروں گی کل اسے لے آئوں, پارس نے کہا
ٹھیک ہے, چاہت نے سر اثبات میں سر ہلایا....

چاہت, فائقہ نے پیچھے سے پکارا توچاہت نے دھیرے سے پیچھے مڑکر دیکھا
تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو, فائقہ نے رات کے اس وقت اس کو چھت پہ بیٹھے دیکھ کہا
میرا دم گھٹ رہا تھا اندر تو بس اس لیے اوپر چھت پر چلی آئی, چاہت نے سنجیدگی سے کہا
اس کی نظریں دور کہیں روشنیوں میں بھٹک رہی تھیں
چاہت کیا ہوا, فائقہ نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس کے کندھے پر ھاتھ رکھا
کچھ نہیں, چاہت نے نفی میں سر ہلایا
آپ اس وقت جاگ کیوں رہی ہیں, چاہت اس کی طرف مڑی
تمہارے کمرے میں گئی تھی تم نہیں تھی تو میں یہاں آگئی, فائقہ نے بتایا
کوئی کام تھا بھابھی, چاہت نے پوچھا
بات کرنی تھی تم سے, فائقہ نے تہمید باندھی
جی کہیں, چاہت نے سر ہلایا فائقہ اسے کچھ پریشان لگی
تمہارے لیے رشتہ آیا ہے, فائقہ نے کہا اور پوری بات اس کے گوش گزاردی
یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بھابھی, چاہت اس کی بات سن کر ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی
چاہت میں سہی کہہ رہی ہوں جو بات ہے میں نے تمہیں بتائی ہے, فائقہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی
نہیں بھابھی آپ منع کردیں انکار کردیں, چاہت ھتھے سے اکھڑ گئی
چاہت اس طرح منع نہیں کرتے سوچ سمجھ کر بیٹا, فائقہ نے اس کی جلد بازی پر ٹوکا
اکرم شاہ تمہارے بھائی کا بھی دوست ہے, فائقہ نے اسے یاد دلایا
ہاں جانتی ہوں بھابھی لیکن میں اس سے شادی نہیں کرسکتی ایک تو شادی اور وہ بھی اس سے نہیں, چاہت اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی
اس سے پہلے جو بھی رشتے آئے تھے چاہت ابھی بچی ہے کہہ کر وہ ٹالتے آئے تھے لیکن اب چاہت کے شادی کی عمر تھی اور رشتے بھی کافی مناسب آرہے تھے
اس طرح مت کرو اچھا تم رکو صبح بات کریں گے, فائقہ نے اس کو اتنا پریشان ہوتا دیکھ کر کہا
بھائی سے بات کی ہے آپ نے, چاہت نے اچانک پوچھا
ہاں ان سے بات کی ہے میں نے انہوں نے کہا ہے کے پہلے میں تم سے بات کروں پھر وہ اعظم بھائی سے بات کریں گے, فائقہ نے تفصیل سے بتایا
بھابھی میرا سردرد کرنے لگا ہے, چاہت نے سر دباتے ہوئے کہا
اچھا چھوڑو ابھی اس بات کو صبح کو بات کرتے ہیں ابھی جاکر تم سوجائو, فائقہ نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا
چاہت بنا کچھ کہے جلدی سے وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گئی...

نئے دن کا سورج نکل آیا تھا لیکن نہ وہ حاطب علی کے لیے خوشنودی والا دن تھا نہ چاہت کے لیے
ساری رات جاگنے کے باوجود حاطب علی صبح جلدی اٹھ گیا تھا
کمرے میں اسے گھٹن ہونے لگی تھی اس لیے وہ گھر سے باہر نکلتا پارکنگ ایریا کے بعد بنے لان میں رکھی کرسیوں پر آ بیٹھا تھا
صبح صبح کا وقت تھا سورج بھی ابھی پوری طرح نہ پھیلا تھا
حاطب کو اپنے اندر کی خاموشی باہر فضا میں بھی دکھنے لگی
وہ خاموش بیٹھا آسمان پر اڑتے پرندے دیکھتا رہا
چودھری صاحب, فضل دین کی آواز پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ حیران اس وقت حاطب کو یہاں بیٹھے دیکھ ہوا تھا کیوں کہ حاطب اکثر تو گھر میں نہیں پایا جاتا تھا
اگر گھر میں ہوتا تو بھی اپنے کمرے میں یہ اپنی بیٹھک میں جو اس نے گھر کی پچھلی طرف بنوایا ہوا تھا مگر خیر حاطب کو کب اس کی حیرانی کی کوئی پرواہ تھی
صاحب آپ کی طبعیت ٹھیک ہے, فضل دین نے دھیرے سے پوچھا
حاطب نے اس کی طرف دیکھے بغیر خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا
آپ مجھے اتنے اداس کیوں لگ رہے ہیں, فضل دین نے مزید کہا اس نے کبھی حاطب کو اس طرح نہ دیکھا تھا
حاطب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو فضل دین گھبرایا
معذرت صاحب, فضل دین اس کے دیکھنے سے گھبراتا جلدی سے ھاتھ جوڑتا وہاں سے آگے بڑھ گیا
حاطب چونک گیا تھا کہ کیا اب اس کے چہرے سے لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ اداس ہے
میں اداس ہوں, حاطب نے خود سے سوال کیا
ہاں شاید, اب کی بار بھی اس کے دل نے سرگوشی کی
کیا میرے چہرے سے بھی میری ادسی عیاں ہے, حاطب نے پریشانی سے دونوں ھاتھ چہرے پر پھیرے اور سر کرسی کی پشت سے ٹکادیا...

ساری رات جاگنے کے باوجود بھی چاہت فجر کی نماز کے ساتھ ہی اٹھ گئی تھی اور اس کے بعد بھی جاگتی رہی
اور اب باہر سے فائقہ اور مائی سکینہ کی باتوں کی آوازوں پر کمرے سے نکل آئی تھی
فائقہ نے اسے دیکھ کر مسکرایا وہ جواب میں مسکرا بھی نہ پائی
وہ خاموشی سے آکر فائقہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی
ناشتہ تیار ہورہا ہے تم جاکر بیٹھو میں لاتی ہوں, فائقہ نے عام سے انداز میں کام کرتے ہوئے کہا
بھابھی مجھ سے ناراض ہیں آپ, چاہت نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
ناراض نہیں تو میں نے کیوں ہونا ناراض, فائقہ نے نا سمجھی سے کہا
رات میں نے بہت تیز ہوکر بات کی تھی اور پھر یوں چلی گئی, چاہت نے شرمندگی سے کہا
نہیں تم نے تیز بات کہاں کی اور تمہیں جانے کا بھی میں نے ہی کہا تھا کہ صبح بات کریں گے, فائقہ نے بات کو ہوا میں اڑایا
بھابھی بھائی سے بات کی آپ نے, چاہت نے کافی دیر خاموشی کے بعد کہا
نہیں ان سے کوئی بات نہیں کی میں نے پہلے تم سوچ سمجھ لو پھر, فائقہ نے اس کی طرف دیکھا
بھابھی میں نہیں کرنا چاہتی شادی, چاہت نے منت بھرے لحجے میں کہا
کیوں چاہت کب سے ٹالتی آرہی ہو اس بات کو آخر کو کرنی ہے نہ, فائقہ نے بے زاری سے کہا
بھابھی مجھے نہیں کرنی مجھے ڈر لگتا ہے, چاہت نے دکھ سے کہا
کس بات کا ڈر, فائقہ حیرانی سے اس کی طرف مڑی
بھابھی میں ایسے قید میں نہیں جینا چاہتی میں گھٹ گھٹ کہ زندگی نہیں گزار سکتی, چاہت نے فائقہ کا ھاتھ پکڑا
چاہت یہ کیا سوچ رہی ہو تم ایسا کچھ نہیں ہوتا,  فائقہ کو اس کی بات پر حیرت ہوئی
بھابھی کیا شادی کے بعد انسان خوش نہیں رہ سکتا قید ہوجاتا ہے کہ بس دوسروں کے حکم پر چلے اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا انسان کا, چاہت نے جذباتیت سے کہا
فائقہ کی آنکھوں میں ڈھیروں پانی سمٹ آیا پر اس نے خود پر قابو کیا
ایسے ہی تھوڑی کردیں گے ہم تمہاری شادی پاگل سوچ سمجھ کر کروائیں گے, فائقہ نے اسے بہلانا چاہا
کب کسی کا پتا چلتا ہے اس کے ظاہر سے بھابھی, چاہت نے دکھ سے کہا
ایسا کیوں سوچتی ہو پاگل کوئی اچھا ہوگا تمہارے لیے دیکھنا, فائقہ نے اس کا ھتھ دبایا
اچھے تو بھائی بھی ہیں نہ بھابھی پھر, چاہت نے دکھ سے کہا فائقہ نے نظریں چرائیں
وہ اچھے ہیں جہاں تک وہ میرے بھائی ہیں کیا وہ ایک اچھے شوہر بھی ہیں, چاہت نے دکھ سے پوچھا اس کی آنکھیں بار بار نمکین پانی سے بھر رہی تھیں
بھابھی مجھے ڈر لگتا ہے اس طرح زندگی گزارنے سے میں آپ کی طرح اپنی ماں کی طرح میں پوری زندگی روتے ہوئے خود پر جبر کرتے ہوئے نہیں گزار پائوں گی
مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے نہ ہی مجھ میں اتنا حوصلہ کہ میں ان سب باتوں کے بیچھ زندہ رہ لوں, چاہت کی آنکھوں سے  آنسوں ٹوٹ کر گرنے لگے
فائقہ بھی چپ چاپ کھڑی آنسو بہاتی رہی
آپ محبت کرتی ہیں نہ بھائی سے تو کیا یہ صلہ ملتا ہے محبت کا کہ ان کو احساس تک نہیں, چاہت نے افسردگی سے کہا
فائقہ خاموش آنسو بہاتی اپنے پلو سے صاف کرتی کھڑی رہی
بھابھی مجھے بہت ڈر لگتا ہے ان باتوں سے میں بس شادی نہیں کرنا چاہتی نہ ہی میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر کہیں جانا چاہتی ہوں, چاہت نے منت بھرے لحجے میں کہا
آپ بھائی سے بات کریں کہ انکار کردیں, چاہت نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا
یہی اصل وجہ ہے نہ چاہت, فائقہ نے اس کی طرف کھوجتی نگاہوں سے دیکھ کہا
تم سمجھتی ہو تمہارے چلے جانے کے بعد میرا کیا ہوگا یہی سوچتی ہو نہ تم, فائقہ نے دکھ سے کہا
چاہت خاموش کھڑی اسے دیکھتی رہی
سب کا اپنا نصیب ہوتا ہے چاہت خدا تمہارے نصیب اچھے کرے تم ایسا کچھ نہ سوچو, فائقہ نے نرمی سے کہا
بہت کم لوگوں کا نصیب اچھا ہوتا ہے بھابھی اس معاملے میں ان لوگوں میں سے فاطمہ بھابھی بھی ہیں میں چاہتی ہوں آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائیں,چاہت نے محبت سے کہا
وہ فائقہ افضل دونوں سے بہت محبت کرتی تھی اور یہ بھی چاہتی تھی کہ افضل فائقہ کی محبت کی قدر کرے
بھابھی آپ کو پتا ہے میں دعا بھی یہی مانگتی ہوں کہ خدا کرے بھائی کو آپ کی محبت کی قدر ہوجائے پھر وہ خود آپ سے محبت کرنے لگ جائیں گے, چاہت نے نم آنکھوں سے مسکرا کر کہا
تم بہت اچھی ہو چاہت, فائقہ اس کے گلے لگی
خدا کرے تمہیں کوئی تم سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ملے جو تمہاری بہت قدر کرے تم سے بہت محبت کرے, فائقہ نے یہ دعا اسے دل سے دی تھی اور یہ دعا اس کے لبوں سے ادا نہیں ہوئی تھی
اس کے دل سے سیدھی عرش کی طرف گئی تھی
بھائی ناشتہ کریں گے, چاہت نے اس سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا
ہاں آرہے تھے وہ, فائقہ نے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
میں لے جاتی ہوں ناشتہ آپ چائے لے آئیں, چاہت نے ٹرے سجاتے ہوئے کہا
چاہت کوئی اور بات بھی ہے جس کی وجہ سے تم پریشان ہو, فائقہ نے اسے کھوجتے ہوئے کہا
جی ہے ایک بات لیکن وہ میں آپ کو وقت آنے پر بتائوں گی, چاہت نے ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا
ایسی کیا بات ہے, فائقہ پریشان ہوئی
مجھے خود نہیں پتا پوری بات اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی, چاہت نے سنجیدگی سے کہا
فائقہ نے خاموشی سے سر ہلادیا
چاہت ٹرے لیتی باہر کی طرف آئی جب اس کی نظر صحن عبور کرتے افضل پر پڑی جو اپنی بیٹھک کی طرف جارہا تھا
ارے یہ بھائی کہاں جارہے, چاہت نے افضل کو جاتے دیکھ سوچا
اماں بھائی کہاں گئے کچھ بتاکر گئے ہیں, چاہت مائی سکینہ کی طرف متوجہ ہوئی جو وہیں پاس تخت پر بیٹھی ہوئی تھی
نہیں مجھے تو نہیں بتایا میں سمجھی تم لوگوں کے ساتھ ہے تو تمہیں پتا ہوگا, مائی سکینہ نے تسبیح اٹھاتے ہوئے کہا
ہمارے ساتھ , چاہت نے نا سمجھی سے کہا
ہاں وہیں تو کھڑے تھے کافی دیر سے میں سمجھی تم لوگوں سے بات کر رہے ہیں, مائی سکینہ نے باورچی خانے کی طرف اشارہ کیا
چاہت خاموش کھڑی ہونٹ بھیچتی رہ گئی
کیا ہوا, فائقہ نے اس کے پاس آکر کہا
کچھ نہیں, چاہت نے ٹالا
تمہارے بھائی نہیں آئے, فائقہ نے چائے رکھتے ہوئے کہا
وہ باہر چلے گئے ہیں, چاہت نے اس کی طرف دیکھا
اچھا انہوں نے تو کہا تھا ناشتہ کروں گا خیر کوئی کام ہوگا, فائقہ کہتی ہوئی بیٹھی اور ناشتہ سیٹ کرنے لگی
چاہت بھی خاموشی سے بیٹھ گئی...

شام ہونے کو آئی ہے یہ پارس کیوں نہیں آئی, چاہت صحن میں ٹہلتی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
صبح آنے کا کہا تھا اس نے اور اب شام ہورہی ہے, چاہت کو پریشانی ہونے لگی تب ہی مائی سکینہ اس کی طرف آتی دکھائی دی
اماں پارس کی طرف بھیجا تھ نہ آپ نے کسی کو,چاہت ان کی طرف بڑھی
ہاں بیٹا ملازمہ کو بھیجا تھا میں نے وہ ملی تھی پارس سے, مائی سکینہ نے بتایا
کیا کہا پارس نے وہ کیوں نہیں آئی, چاہت نے اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے کہا
بیٹا اس نے کہا ہے کہ وہ آج نہیں آئے گی کل آئے گی شاید, مائی سکینہ نے بتایا
چاہت کی پریشانی مزید بڑھی لیکن وہ خاموشی سے سر ہلاتی اندر کی طرف بڑھی
تب ہی اس کی نظر گھر کے اندر داخل ہوتے افضل پر پڑی
اس نے چاہت کو نہیں دیکھا تھا وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا
چاہت بھی خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی...

فائقہ جو کہ دن کی تھکاوٹ اتارنے کو ابھی بیڈ پر لیٹی تھی افضل کو اندر داخل ہوتا دیکھ ایک دم سیدھی ہوئی
آپ کب آئے کہاں چلے گئے تھے آپ نے ناشتہ بھی نہیں کیا, فائقہ نے اسے دیکھتے ہی سوال کرنا شروع کردیے
افضل خاموشی سے آکر بیڈ پر سامنے پیر نیچے کیے بیٹھ گیا
آپ کہیں چلے گئے تھے, فائقہ نے اسے خاموش دیکھ پھر پوچھا
نہیں, افضل نے بس ایک الفاظ میں جواب دیا
شام ہورہی ہے اب تو آپ کے لیے کھانا لگائوں, فائقہ نے پوچھا اور اٹھ کھڑی ہوئی
فائقہ کی طرف افضل کی پشت تھی 
میں کھانا لگاتی ہوں, فائقہ اس کی چپ کو رضامندی سمجھ کر اس کے لیے کھانا لینے کا سوچ کر آگے بڑھی
جب اچانک دھیرے سے افضل نے اس کا ھاتھ پکڑا
فائقہ نے چونک کر پیچھے افضل کی طرف دیکھا
افضل جب کمرے میں داخل ہوا ایک پل کو فائقہ کو اس کا چہرہ بدلہ ہوا محسوس ہوا مگر اس نے اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا تھا
بیٹھو, افضل نے دھیرے سے کہہ کر تھوڑا ہٹ کر اس کے لیے جگہ چھوڑی
آپ کے لیے کھانا, فائقہ نے کمزور سے لحجے میں کہا
نہیں, بیٹھو تم, افضل نے نفی میں سرہلاکر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا فائقہ کا ھاتھ اب تک اس کے ھاتھ میں تھا
فائقہ کو حیرت ہوئی یہ سب کچھ بہت نیا تھا
اور شاید زندگی میں پہلی دفعہ افضل نے اسے اس طرح بیٹھنے کو کہا تھا
فائقہ خاموش سے اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی
افضل نے اس کا ھاتھ چھوڑدیا اور خاموشی سے آگے دیکھنے لگا
فائقہ بہت دیر اس کی خاموشی کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی مگر یہ اس کے لیے بہت مشکل تھا
مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کہوں, بہت دیر کی خاموشی کو افضل کی آواز نے توڑا
کیا کہنا چاہتے ہیں آپ, فائقہ کے دل میں عجب وسوسے اٹھے عجیب خیالات اور وہم در آئے
فائقہ کیا میں بہت برا شوہر ہوں ہاں میں بہت برا شوہر ہوں, افضل نے ایک سوال کیا تھا جسے سن کر فائقہ حیرت زدہ ہوئی تھی اور اس کے لب بھی نہ ہلے تھے کہ افضل نے خود ہی اپنی بات کا جواب دے دیا
نہیں آپ, فائقہ نے کچھ کہنا چاہا کہ افضل نے اپنی ھاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھا
نہیں فائقہ کچھ نہیں کہو آج مجھے احساس ہورہا ہے مجھے احساس ہونے دو,افضل نے کمزور سے لحجے میں کہا
فائقہ حیرت زدہ سی آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھتی رہی
میں نے سوچا ہی نہیں کبھی تمہارا میں نے سمجھا ہی نہیں کبھی تمہیں یہ بھی کہنا غلط نہیں کہ میں نے سمجھنا ہی نہیں چاہا, افضل نے ایک طنزیہ مسکراہٹ سے کہا جیسے کہ وہ خود پر طنز کر رہا ہو
میں بس یہ جانتا تھا کہ تم میری بیوی ہو یہ تو بھلا ہی بیٹھا تھا کہ ایک انسان بھی ہو, افضل آگے کسی کھلا میں گھورتا کہہ رہا تھا اور فائقہ نم آنکھیں لیے بس یک ٹک اسے دیکھتی رہی
میں فراموش کر گیا تھا کہ تم بھی احساس رکھتی ہو سب محسوس کرتی ہو تمہیں محبت کی عزت کی پیار کی ضرورت ہے, افضل نے اس کی طرف دیکھا
فائقہ کی آنکھوں سے رم جھم پانی کی برسات ہونے لگی
میں تم سے معافی چاہتا ہوں فائقہ اس ایک ایک آنسو کی جو تمہاری آنکھ سے میری وجہ سے گرا ہے, افضل نے اس کی طرف مڑ کر نظریں نیچے کیے شرمندگی سے ھاتھ جوڑتے ہوئے کہا
آپ کیا کر رہے ہیں, فائقہ نے روندھی ہوئی آواز میں مشکل سے کہا اور اس کے دونوں ھاتھوں کو تھام لیا
کیوں چپ رہی تم کیوں کبھی کچھ کہا نہیں میری باتوں سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے نہ تو تم نے کہا کیوں نہیں کبھی کچھ, افضل نے اس کے ھاتھ اپنے ھاتھوں میں لیے
کیوں کہ میں آپ کو کھونا نہیں چاہتی تھی, فائقہ نے بہتی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا
آپ میری خاموش دعائوں کے عوض ملے تھے مجھے میں آپ کو کبھی کھونا نہیں چاہتی تھی, فائقہ نے روتے ہوئے کہا
افضل پر آج ایک انکشاف ہوا تھا اس نے فائقہ کی آنکھوں میں دیکھا
جو اس کی محبت کی پیاسی تھیں ان آنکھوں میں ہمیشہ افضل کے لیے محبت چھائی رہتی اور کچھ بھی تھا جو افضل آج سمجھا تھا
میں نے تمہارا دل بہت دکھایا ہے, افضل نے اس کے ھاتھ اپنی آنکھوں سے لگائے
فائقہ کو اپنے ھاتھوں پر کچھ گرتا ہوا محسوس ہوا
شاید پانی, افضل کے آنسو, فائقہ کا دل زور سے دھڑکا
نہیں اس طرح نہیں, فائقہ نے اپنے ھاتھ اس کی آنکھوں سے ہٹائے
تم حقدار ہو اس زندگی میں ہر چیز کی اب میں تمہیں وہ مان, عزت, محبت, قدر سب دینا چاہتا ہوں, افضل نے محبت سے کہا اور محبت کی خوشبو تو دور دور تک محسوس ہوتی ہے تو فائقہ کو کیوں نہ ہوتی جب کہ وہ خود اسی فیز میں تھی
کیا تم مجھے ایک موقعہ دوگی, افضل نے اس کی طرف امید سے دیکھا
زندگی میں مجھے اپنی زات کے لیے بھی جتنے موقعے ملیں گے میں وہ سب بھی آپ کے نام کروں گی, فائقہ نے اپنی محبت کا مان رکھا
افضل نے نم آنکھوں سے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا
وہ بھی نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی
افضل نے طے کرلیا تھا اب وہ اسے مان, عزت, محبت, سب دے گا جس کی وہ حقدار ہے
وہ اس سے محبت کرتی تھی اور اس شخص کو کبھی کوئی دکھ نہیں دینا چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو
افضل بدل گیا تھا کیوں کہ اسے بدلنے تھا محبت ہر کسی کو بدل دیتی ہے
بدلنے کے لیے وقت کی ضرورت نہیں ہوتی بدلنے کو ایک لمحہ ایک پل ایک انسان ہی کافی ہوتا ہے...

چاہت تمہاری دعائیں قبول ہوئیں, فائقہ نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
چاہت جو کہ جائے نماز پر بیٹھی عشاء کی نماز پڑھ کر اب دعا مانگنے جارہی تھی فائقہ کی بات پر ٹھٹکی اور نظر اٹھا کر فائقہ کی طرف دیکھا
اس کی بات,اس کی آواز,اس کی آنکھوں سے خوشی جھلک رہی تھی
تم نے کہا تھا نہ تم میرے لیے دعا مانگتی ہو, فائقہ اس کے پاس جائے نماز کے قریب جا بیٹھی چاہت نے سر اثبات میں ہلایا
تو تمہاری دعائیں میرے حق میں قبول ہوگئی ہیں چاہت, فائقہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا
چاہت نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا
تمہارے بھائی آرہے ہیں تم سے بات کرنے, فائقہ نے قدموں کی آواز سنتے ہوئے کہا
کس معاملے میں, چاہت نے نا سمجھی سے کہا
رشتے کے بارے میں, فائقہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی
لیکن بھابھی, چاہت نے پریشانی سے کچھ کہنا چاہا جب افضل اندر داخل ہوا
نماز پڑھ چکی ہو, افضل نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا
جی, چاہت کہتی ہوئی جلدی سے جائے نماز طے کرتی ہوئی اٹھی
ادھر آئو, افضل نے چاہت کو اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا
چاہت دوپٹہ درست کرتی ہوئی آکر اس کے پاس بیٹھی
میں آتی ہوں ذرا, فائقہ کہتی ہوئی باہر کی طرف ہولی
فائقہ نے بات کی ہوگی تم سے رشتے کے بارے میں, افضل نے بات کا آغاز کیا
چاہت خاموشی سے لب کاٹتی رہی
میں یہ سوچ رہا تھا کہ لڑکا اچھا ہے, افضل نے آگے کچھ کہنا چاہا کہ چاہت بول پڑی
نہیں بھائی نہیں پلیز, چاہت نے افضل کا ھاتھ پکڑا
میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی پتا نہیں کیسے لوگ ہوں گے وہ, چاہت نے منت بھرے لحجے میں کہا
لیکن بیٹا میں جانتا ہوں, افضل نے کچھ کہنا چاہا
بھائی میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی, چاہت کے آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر گرے
آپ پلیز انکار کردیں میری ادھر شادی نہ کروائیں میں شادی نہیں کروں گی پلیز بھائی , چاہت رونے لگی
ارے نہیں روتے نہیں میری جان, افضل نے جلدی سے قریب ہوکر اسے گلے سے لگایا
جو بات ہے بھائی سے کہو اس طرح رونے کی کیا ضرورت ہے, افضل نے اس کے آنسو صاف کیے
بھائی نے کبھی کوئی زبردستی کی ہے جو اب کریں گے, افضل نے اسے چپ کروانا چاہا
وہ آپ کا دوست ہے نہ تو میں نے سوچا, چاہت نے روتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی
دوست کو گولی نہ مار دوں میں بہن سے زیادہ مجھے عزیز کوئی بھی نہیں, افضل نے پیار سے اس کے سر پر ھاتھ پھیرا
شکریہ بھائی, چاہت نے اپنے آنسو صاف کیے
تم جانتی ہو میں تمہاری رضامندی کے بغیر تمہارے فیصلے کے بغیر میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گا, افضل نے اسے حوصلہ دیا
جی, چاہت نے نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلایا
شاباش رونا بند کرو, افضل نے اس کے آنسو پونچھے
آپ انکار کردیں گے نہ, چاہت نے پوچھا
ہاں میں کردوں گا, افضل نے مسکرا کر کہا
آپ بہت اچھے بھائی ہیں میرے, چاہت نے اس گلے لگ کر کہا
اور تم میری جان ہو, افضل نے اس کے سر پر شفقت بھرا ھاتھ پھیرا
چاہت جانتی تھی افضل اس سے بہت محبت کرتا ہے اس کی جان بستی ہے چاہت میں اس نے بچپن سے ہی چاہت کو لاڈلا بنایا ہوا تھا
بھائی بہن کی باتیں ہوگئی ہوں تو کھانا تیار ہے, فائقہ نے کمرے میں داخل ہوکر مسکرا کر کہا
آپ کھانا گھر پر کھائیں گے, چاہت نے مسکرا کر افضل کی طرف دیکھا
تم ہی تو کہتی ہو کہ تمہاری بھابھی کے ھاتھ میں بہت ذائقہ ہے تو میں نے سوچا میں بھی کھانا گھر پر کھالوں گا, افضل نے شرارت سے کہا
آہا خیر یہ تو بات نہیں لگ رہی, چاہت نے کھوجتی نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھا
دونوں ہی مسکرادیے تو چاہت بھی مسکرادی...

رات کے اس آخری پہر میں بھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
وہ خود سے لڑتا, جھگڑتا, الجھتا, بگڑتا پریشان بیٹھا تھا
اس کی آنکھیں سرخ انگارا ہورہی تھیں اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں
پورے کمرے میں سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا تھا
پورے کمرے میں جگہ جگہ سگریٹ کے آدھے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے خالی پیکیٹ بکھرے ہوئے تھے
اس نے کل سے کھانا بھی کوئی برائے نام کھایا تھا
وہ کھانے پینے کا شوقین اس وقت بوکھ میں بیٹھا ہوا تھا
اور سگریٹ کے دھویں کو پیٹ میں بھر رہا تھا
کش لیتے ہوئے دھواں اڑا تو اسے دھویں میں کوئی عکس دکھائی دیا وہ طنزیہ مسکراہٹ خود پے اتارتا ہوا ہنسا
جلتا ہوا سگریٹ انگلیوں میں پکڑے وہ اس کو غور سے دیکھنے لگا
اس کو افضل کی ایک بات یاد آئی
میں گھر میں نہیں پیتا میری بہن کو ایلرجی ہے اس کی طبعیت خراب ہوجاتی ہے
تب حاطب نے دوبارہ اسے نہیں کہا تھا لیکن اس نے دیکھا تھا کہ افضل نے اس بات کے بعد سگریٹ گھر میں نہیں پیتا تھا
آہ, سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا اس کے ھاتھ میں راکھ ہوچکا تھا حاطب نے اسے جھٹکے سے انگلیوں کے بیچھ سے نکالا
پھر وہی باتیں, پھر اس کے خیال, حاطب راکنگ چیئر سے اٹھا اور آگے چل کر تھوڑا لڑکھڑایا
اس کے پیر کے پاس کچھ تھا اس نے جھک کر دیکھا وہ بوتل تھی جو اس نے تھوڑی دیر پہلے خالی کی تھی
حاطب اس کو لات مارتا ہوا آگے آیا اور دھپ سے بیڈ پہ گرا
وہ شراب کا عادی نہ تھا اس لیے لڑکھڑاتا تھا مگر کبھی دوستوں کی محفل میں پینے کو خراب نہ سمجھتا تھا اور یہ حالات اس کی زندگی میں پہلی آئے تھے
اس دشمن جان کے خیالوں سے اس کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ یہ سب چیزیں لے آیا تھا
اس نے سمجھا تھا وہ ان سب چیزوں س مدہوش ہوجائے گا تو اس کا خیال فراموش کر بیٹھے گا مگر یہ بھی اس کا خیال ہی تھا جو حقیقت نہ ہوپایا
کیا میں کسی سے بات کروں, حاطب نے سوچا
لیکن کس سے, ایک اور سوچ اس کے ذہن میں آئی
کیا بات آگے بڑھ چکی ہوگی, ایک اور خیال اس کے ذہن میں امڈ آیا
کیا میری چاہت کسی اور کی, حاطب علی اپنی بات پر ٹھٹکا
میری چاہت, اس نے زیر لب دہرایا اور اس کے ہونٹوں پر ایک مسکان بکھر گئی
اب میرے مسکرانے کی وجہ بس تم تک محدود ہوچکی ہے, حاطب علی نے اس کو تصور میں لاتے ہوئے مسکرایا...

اس کی یادوں میں
اس کی باتوں میں
اب ہم اکثر کھوئے رہتے ہیں
اس کے آواز کی کھنک میں
اس کے چہرے کی کشش میں
اب ہم اکثر کھوئے رہتے ہیں
اس کے آنکھوں کی چمک میں
اس کے پیار کی چاہت میں
اب دن رات ہمارے کھوئے ہی رہتے ہیں
عزہ

چاہت نیچے آجائو پارس آئی ہے, فائقہ نے نیچے سے آواز لگائی
جی بھابھی, چاہت جو کہ چھت پر بیٹھی پرندوں کے لیے پانی رکھ رہی تھی فائقہ کی آواز پر جواب دیتی نیچے کی طرف آئی
کہاں تھی پارس کل کیوں نہیں آئی تم, چاہت نے اس کو دیکھتے ہی کہنا شروع کیا
چاہت بختاور آنے کو راضی ہی نہیں تھی, پارس نے افسردگی سے کہا
کیوں نہیں تھی پارس, چاہت نے نا سمجھی سے کہا
وہ گھر سے ہی نہیں نکلنا چاہتی یار, پارس نے بےزاری سے کہا
اب بھی نہیں آئی وہ, چاہت نے پوچھا
وہ میرے ساتھ آنے پر راضی نہیں تھی اس نے کہا کسی کو شک بھی ہوسکتا ہے اس لیے وہ خود آئے گی, پارس نے بتایا
ٹھیک ہے لیکن وہ کہاں ہے, چاہت نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا
میں یہاں ہوں باجی جی, پیچھے سے بختاور کی آواز آئی تو چاہت نے مڑ کر دیکھا
بڑی سی کالی چادر میں خود کو وہ چھپائے سامنے کھڑی تھی
اندر چلو, چاہت ان دونوں کو لیتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھی
اب بتائو بختاور, چاہت نے اسے بولنے کے لیے کہا
میری زندگی تو آپ کے سامنے ہے پوری زندگی میں آپ کے گھر کام کرتی رہی, بختاور نے نم آنکھیں لیے چاہت کی طرف دیکھا
ہاں میں جانتی ہوں تمہیں, چاہت نے اس کے کندھے پر ھاتھ رکھا
میری قسمت اس دن پھوٹی جس دن میں گائوں سے گئی
باجی وہ آدمی پہلے دن سے میرے پھیچے پڑا ہے میں جس گھر میں کام کرتی تھی وہ ان کے گھر مہمان کے طور آیا ہوا تھا اس مجھے وہاں دیکھا اور میرے پیچھے پڑ گیا میرا جینا حرام کردیا ہے اس نے, بختاور نے چاہت کی طرف سے ہمت پاکر کہنا شروع کیا

وہ لوگ شہر کبھی کبھی آتے ہیں میں جس گھر میں کام کرتی تھی ان کا دوست وہاں رہتا تھا ان کا گھر تھا اور جب وہ شہر آتے تو ان کا وہ دوست مجھے ان کے گھر کام کرنے بھیج دیتا میں بہت گھبراتی تھی کیوں کہ ان کے گھر کوئی عورت نہیں ہوتی تھی وہ بس اپنے دوستوں کے ساتھ ہی آتے تھے
لیکن میں نے گھر میں نہیں بتایا مجھے ڈر تھا وہ مجھے واپس گائوں بلوالیں گے اور میں شہر میں رہنا چاہتی تھی
میں جن کے گھر کام کرتی تھی وہ اچھے لوگ تھے لیکن یہ آدمی بہت برا تھا, بختاور نے اپنے چادر کے پلو سے آنکھیں صاف کیں
بختاور کیا تم نے اسے کچھ نہیں کہا تمہاری طرف سے کچھ نہیں تھا بختاور, چاہت نے بہت دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا
پارس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا مگر چاہت بلکل سنجیدہ تھی اور بختاور کا چہرہ ایک دم اتر گیا تھا
باجی وہ, بختاور ہچکچائی
سچ بولنا بختاور ورنہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکوں گی, چاہت نے سنجیدگی سے کہا
باجی وہ جب آتے تو سب کے لیے ڈھیروں تحائف لاتے اور پھر وہ میرے لیے بھی لانے لگے پہلے میں ان سے ٹھیک سے بات تک نہ کرتی تھی لیکن پھر میں ان سے اچھے طریقے سے بات کرنے لگی میں لالچ میں آگئی تھی, بختاور نے روتے ہوئے کہا
میں لالچ میں آگئی تھی وہ مہنگی مہنگی خوشبوئیں گھڑیاں میری نظروں میں آنے لگیں
لیکن میں اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی تھی, بختاور نے  سسکیوں کے بیچھ کہا
آگے کیا ہوا یہ بتائو, چاہت نے مزید پوچھا
ایک بار میں جب ان کے گھر صفائی کرنے گئی تو انہوں نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی مگر اچانک اور لوگ وہاں آگئے تو میں وہاں سے بچ نکلی مگر اس کے بعد وہ مجھے دھمکانے لگے ہیں کہ اگر میں نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ مجھے میرے گھر والوں اور پورے گائوں کے سامنے بدنام کردیں گے, بختاور نے سسکیوں کے بیچھ کہا
میں بہت مشکل سے گائوں پہنچی ہوں اگر انہیں پتا چل گیا تو وہ پتا نہیں کیا کریں گے, بختاور نے چاہت کی طرف دیکھا
تم پانی پیو یہ لو, چاہت نے اسے پانی کا گلاس پکڑایا
تم نے اپنے گھر میں بتایا ہے, چاہت نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا
اپنی ماں کو بتایا میں نے لیکن انہوں نے ابا جی کو بتانے سے انکار کردیا ہے ابا ان کا ملازم ہے وہ مجھے خود ان کے حوالے کردے گا, بختاور چہرہ ھاتھوں میں چھپائے پھر رونے لگی
دیکھو تم رو نہیں کچھ کرتے ہیں ہم, چاہت نے خود پہ قابو پاتے ہوئے کہا
آپ مجھے اس بات سے آزاد کرادیں باجی میں ساری زندگی آپ کی شکر گزار رہوں گی, بختاور نے اس کے سامنے ھاتھ جوڑے
میں کون ہوتی ہوں کچھ کرنے والی بختاور جو کرے گا خدا کرے گا تم بس دعا کرو, چاہت نے اس کے کندھے پر ھاتھ رکھ کر اسے تسلی دی
بختاور خاموشی سے اپنے پلو سے آنکھیں صاف کرتی رہی
میں اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہوں باجی وہ شہر جائیں گے اگر میں وہاں نہ ملی تو وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے گھر بھی پہنچ جائیں گے, بختاور نے ڈرتے ہوئے کہا
ایسا کرو تم یہاں آجائو, چاہت نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد کہا
کیا آپ مجھے کام پے رکھ لیں گی, بختاور نے آس سے اس کی طرف دیکھا
ہاں تم آجائو گھر کے اندر رہوگی تو محفوظ رہوگی, چاہت نے اسے تسلی دی
لیکن چاہت اب تم کروگی کیا, پارس بھی ان کے پاس آئی
جو بھی کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا ہے, چاہت نے خلا میں  کسی نقطے پے نظریں جمائے کہا
مجھے اب جانا چاہیے, بختاور اٹھ کھڑی ہوئی
ہاں تم جائو اپنی ماں سے بات کرنا اور ہوسکے تو کل صبح اپنی ماں کے ساتھ ہی آجانا, چاہت نے اس سے کہا وہ سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی
میں بھی چلتی ہوں چاہت دیر ہورہی ہے, پارس بھی اٹھ کھڑی ہوئی
ٹھیک ہے, چاہت اس سے مل کر اس کو باہر تک چھوڑنے آئی
پارس کو چھوڑ کر وہ سیدھی اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی
اب میں کیا کروں, کمرے میں ٹہلتی ہوئی وہ سوچنے لگی
بہت دیر ٹہلنے کے بعد وہ بیڈ پر بیٹھی اور چہرہ ھاتھوں میں گرالیا
اس کی آنکھوں کے سامنے کوئی چہرہ لہرایا
حاطب علی, چاہت نے زیر لب دہرایا
تم بہت برے انسان ہو حاطب علی بہت برے, چاہت نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا...

-----------------------------------------------------------

تو یہ رہی آپ لوگوں کے سامنے چوتھی قسط...
پڑھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں
کیا لگتا ہے آگے کہانی میں کیا ہونے جارہا ہے..؟
حاطب علی کے ساتھ کیا ہوگا..؟
چاہت اب کیا کرے گی..؟

Keep SupportinG
Izzah



































Continue Reading

You'll Also Like

2 1 1
تعبت وروحي جزعت مادري شنو المفروض اسوي مدا اعرف راسي من رجلية كل سنه يصير نفس الحادث مافي شوفولي حل
33 0 17
Ab bhi likhou apne dil se, us ke dil ke lie, par wo kho gaye in afsanou mei kahien
804 131 2
ایک میری محبت ہے،ایک اللہ کی محبت ہے
164 12 3
do not copyright my words...... لکھنے کا میرا کوٸ خاص تجربہ نہیں ہے یہ شاید بلکہ یقینً اللہ کی ذات کا مجھ پر کرم ہے کہ میں بغیر کسی تجربے اور کسی کی...